عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
الحنیفیۃ السمحۃ- حصہ دوم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

حصہ دوم

الحنیفیۃ السمحۃ ..

آسانی اور رواداری پر مبنی ٹھیٹ موحدانہ طرز عمل

 

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف بڑھیں گے..

کوئی صدی بھر سے، ہمارے برِّ صغیر میں، یہاں کے بہت سے فکری و تحریکی حلقوں کے اندر، "دین" کے "مقصد و مزاج" اور "حقیقت و کردار" اور "انبیا کی جدوجہد کا نقطۂ مرکزی" پر خوب بحث وگفتگو ہوتی آئی ہے اور ابھی ہوتی رہے گی۔ کئی ایک "مکتبِ فکر" اس حوالے سے اب باقاعدہ یہاں وجود رکھتے ہیں۔ یہ ایک صحت مند عمل ہے اور اس میں ابھی تک بہت اچھی اچھی جہتیں سامنے آ چکی ہیں۔ البتہ یہ ایک واضح امر ہے کہ بر صغیر کی فکری دنیا "عقیدۂ اسلامی کی اصل روح" کو پانے کے حوالے سے پچھلی کئی صدیوں سے ایک "ارتقائی عمل" سے گزر رہی ہے، بے شک اس موضوع پر کئی ایک نے "حرفِ آخر" پہ پہنچ جانے کا دعوی کرلیا ہو اور اگرچہ اس کا "حرفِ آخر" کچھ دیر بعد خود اسی کو "حرفِ آخر" نظر نہ آتا ہو! جدیدیت کی وارداتیں بھی اسی لئے یہاں پر ہی سب سے زیادہ ہو رہی ہیں۔ گو جمود اور قدامت پسندی کی کچھ کہنہ مثالیں بھی سب سے زیادہ اور ایک بہت بڑی سطح پر ہمیں اپنے اس بر صغیر میں ہی ملیں گی.. اور ان دونوں کے مابین سب سے نایاب چیز "نقطہءوسط"!!!

البتہ ہمیں جو تشنگی ہے وہ یہ کہ "تعبیرِ دین" کے حوالے سے محمد بن عبد الوہاب کے مکتبِ فکر کو جو کہ در اصل ابنِ تیمیہ و ابنِ قیم کا مکتبِ فکر ہے، اور جو کہ ایک کامل و متکامل منہج ہے، کسی طرح یہاں برِ صغیر کے ان فکری اور تحریکی حلقوں کے اندر باقاعدہ طور پر لے کر آیا جائے اور __ اس کی چند عصری جہتوں کی حد تک __ سید قطب کے مکتبِ فکر کو بھی جوکہ سید مودودی کے "ماقبل تقسیمِ ہند" منہج کی ایک عمیق تر و مرکوز تر و ترقی یافتہ صورت ہے۔ ہمارا یہ مضمون اسی سمت میں ایک ناچیز کوشش ہو گی۔

ابنِ تیمیہ اور ابنِ عبد الوہاب کا یہ مکتب فکر، جو کہ کچھ انکا اپنا کمال نہیں بلکہ اہلسنت کا اصیل منہج ہے، یہاں اگر درست انداز میں متعارف کرایا جاتا ہے تو کیا بعید "تعبیرِ دین" کے حوالے سے یہاں اخلاص کے ساتھ کی جانے والی اب تک کی بعض کوششوں میں ایک "تصویر" کے جو کچھ اہم ترین حصے تاحال "گمشدہ" پائے جا رہے تھے وہ ہمیں اس اصیل "منہج" کے اندر مل جائیں اور تب یہاں کے اہلسنت طبقے تحریکی عمل میں اپنی پیش رفت کیلئے ایک بہترین بنیاد پا لیں!

اس حوالے سے ایک باقاعدہ موضوعی objective انداز میں اور تفصیل کے ساتھ بات کی جانا تو ابھی باقی ہے اور وہاں ہمیں اپنے بر صغیر کے اندر منظرِ عام پہ آنے والے بعض مکاتبِ فکر کا ایک ملاحظہ اور ان کے مابین ایک موازنہ کرنے کی بھی شاید ضرورت پڑے۔ مگر یہاں اس وقت ہم نہایت اختصار کے ساتھ ہی "اپنے" اس منہج کا ایک مقدمہ اپنی بساط کی حد تک بیان کر پائیں گے۔

اِس مکتب کے توضیحِ مطالب میں، جس کے ویسے ہم ہرگز اہل نہیں، اور جو کہ کبھی بھی ہمارا موضوعِ مشق نہ بنتا اگر برصغیر کا یہ "خلا"جو کہ پھاڑ کھانے کو آتا ہے اور جو کہ اہلِ علم کے لئے پھر بھی موجود ہے ہمیں اس کیلئے بے صبر نہ کر دیتا، ہم سے البتہ یہاں جو تقصیر یا غلطی ہو اُس کو ہمارے ہی نقصِ بیان یا پھر کوتاہیِ فہم پر محمول کیا جائے۔ توفیق اور بخشش کیلئے ہم سب خدائے ذوالجلال ہی کے سوالی ہیں اور اسی کے در کے محتاج۔

 

********

 

حنیفیت: "تحقیقِ توحید"

یہ دنیا جس نے بنائی ایک خاص ترتیب اور سلیقے سے بنائی ہے اور ایک نہایت خاص نقشے پر۔ اُس کے اِس نقشے اور منصوبے کو نظر انداز کرکے یہاں پورے ایک دھڑلے سے رہنے کی کوشش گو ایک بڑی دنیا کرتی ہے، کیونکہ کچھ دیر کیلئے انہیں اِس پر کچھ نہیں کہا جاتا، مگر یہ وہ پہلی اور آخری غلطی ہے جو یہاں رہ کر جانے والے یہاں کرتے ہیں اور وہ سب سے بڑا خطرہ جو وہ روزانہ مول لیتے ہیں۔

 

ہم نے کثیر جن اور انسان جہنم کیلئے رکھ چھوڑے ہیں؛ ان کو قلوب حاصل ہیں مگر یہ ان سے سمجھ کا کام نہیں لیتے. یہ آنکھیں رکھتے ہیں پر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے. کان رکھتے ہیں مگر ان سے سنتے نہیں ہیں. ان کا حال چوپایوں جیسا ہے بلکہ ان سے بھی گمراہ تر. یہ ہیں وہ لوگ جو "غافل" ہیں"

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف: 179)

 

پس ضروری ہے کہ وجود کے اس لاکھوں کروڑوں سالہ منصوبے کا علم پا کر رکھا جائے اور علم بھی اس کے اصل مصدر سے ہی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے زبردست منصوبے کی بابت صحیح معلومات ہی کہیں میسر نہ ہوں اور وہ بھی اس پڑھی لکھی مخلوق کو؟! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک اتنے خوبصورت اور با معنی واقعے کی بابت یہاں صرف ڈھکونسلوں کی گنجائش ہو، کہ جتنے ذہن اتنی باتیں؟! یہاں تو سنجیدہ لوگوں کے دیکھنے اور پڑھنے کیلئے اتنا کچھ ہے اور اس قدر صحیح و مستند کہ در اصل یہ چار دن تو ہیں ہی بنیادی طور پر اس "کام" کیلئے۔ یہ نقشہ اور یہ منصوبہ معلوم ہونا کیوں ضروری ہے، زندگی سے پیار کرنے والی اِس مخلوق کو بتانے کی کیا ضرورت ہے!

وہ خود ہی اِس کے لئے کچھ سوال کھڑے کرتا ہے اور خود ہی اُن کے جواب کہیں اِس انداز میں رکھتا ہے کہ جب یہ اُنہیں پائے تو اِسے یہ اپنی ہی کمائی نظر آئے.. اور اُس کا یہ اسلوب یہاں صرف اِسی مخلوق کے ساتھ ہے جسے یہ عقل کی نعمت دی گئی اور جس کا سب سے پہلا اور سب سے بنیادی استعمال اُس کے بقول اسی مقصد کے حصول پہ ہونا چاہیئے..

وہ "انسان" کو اس اتنے بڑے جہان کے ایک بہت چھوٹے سے حصے پر اور ایک بہت تھوڑے سے وقت کیلئے لا کر رکھتا ہے۔ جیسے بس وہ اس میں کچھ دیکھنا ہی چاہتا ہو! اور جیسے وہ اِس کو اور اِس کے ذریعے اوروں کو کچھ دکھانا ہی چاہتا ہو! بلکہ جو آنکھیں کھولنے میں دیر کردے وہ جہالتیں اٹھائے یہاں سے رخصت ہو! پس ہم دیکھتے ہیں کچھ دیر بعد یہاں کا ہر انسان چپ چاپ یہاں سے غائب ہو جاتا ہے۔ اس چھوٹی سی جگہ پر بھی اِسے ’رہنے‘ نہیں دیا جاتا!

"اشرف المخلوقات" کو یہاں کچھ ایسی عاجزی درپیش ہے کہ اس بظاہر لا متناہی کائنات میں دو گز زمیں بھی کہیں رہ پڑنے کیلئے، خواہ وہ کیسی بھی شرطوں پر ہو، میسر نہیں۔ آخر یہ اتنا بڑا سنسار کہ جس میں سیارے اور کہکشائیں سائیں سائیں کرتی ہیں، ہے کس لیئے!؟ ادھر اِس کے چاؤ اور اِس کی خواہشیں دیکھو تو گویا یہ پوری کائنات اِن کے پورا ہو جانے کیلئے کم ہے! ان آرزوؤں کے پورا ہونے کی کوئی جگہ ہی نہیں تو ُاس نے "عقل" اور "جذبے" اور "احساس" اور "چاہت" سے بھری اس مخلوق کے اندر یہ ڈھیر ساری پیدا ہی کیوں کر ڈالیں؟ کم از کم بھی وہ انکے پایا جانے کیلئے کوئی اور محل پیدا کرتا کہ ’کہیں اور جا بسیں‘! ایسا امتحان!! آخر کوئی جواب تو ہو!!!

مجموعی طور پر بھی نوعِ انسانی کا وجود یہاں بہت پرانا نہیں۔

پس یہاں کچھ بڑے بڑے سوال ہیں اور کسی کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں۔ مگر یہ سوال ایسے نہیں کہ ان کو ویسے ہی جانے دیا جائے۔ یہ تو انسان کو روز اندر سے کھاتے ہیں۔ اِس خردمند مخلوق کو روٹی کپڑا اور مکان کی یہ دوڑ لگوا رکھنے، کہ جس سے کسی وقت یہ اچانک پھسلے اور "قبر" میں جا پڑے، اور اس حسرتوں کے گھر کو اس کیلئے رنگین و آراستہ اور اس قبیح بڑھیا کے تن کو اس کے التفات کیلئے زرق برق پوشاک اوڑھا رکھنے کی سعی شیاطین کے ہاتھوں اس لئے تو ہوتی ہے کہ اس سے بہل کر یہ عقل کا پُتلا ان بڑے بڑے سوالوں کے جواب مانگنے سے کہیں رک جائے یا کم از کم بھی ان کیلئے زیادہ سنجیدہ نہ ہو جنکے جواب یقینی بات ہے کہ اِس کے اِس چھوٹے سے جہان سے باہر کہیں ہیں! بلکہ تو یہ اس میں مدہوش ہو کر ملے ہوئے جواب بھول جائے! شیطان کو غَرور[21] اور دنیا کو متاع الغُرور[22] قرآن میں کہا گیا ہے تو بھلا اس سے برجستہ لفظ ان دونوں کیلئے کہیں مل سکتے ہیں!

ایسے چھوٹے اور ناپائیدار اور ایسے بے بسی کے جہان پر ریجھ جانا اور اسی کو کل متاع جان لینا اور مزے کی زندگی کے تعاقب میں یوں ہمیشہ کیلئے دفن ہو بیٹھنا وہ بھی اتنی ڈھیر ساری عقل رکھتے ہوئے اور قبرستانوں کی آبادی کو مسلسل بڑھتا دیکھتے ہوئے!

یہ واضح ہے کہ ان سوالوں کے جواب یہاں درختوں کی ڈالیوں کے ساتھ ہر جگہ نہیں لٹکا رکھے گئے بلکہ انہیں فطرت کی لطیف تہوں میں چھپا سا دیا گیا اور ان کے پڑھا جانے کیلئے صُحُف اور رُسُل کا ایک نفیس و پائیدار بند وبست کرایا گیا تو یہ کچھ اس وجہ سے نہیں کہ "انسان"کو غبی جان کر اس سے واضح تر بندوبست یہاں ممکن نہ تھا۔ ایک تو بنانے والے کی مرضی اور دوسرا اس کی حکمت و دانائی، دونوں ہمارے محدود علم اور ہماری جلد باز فرمائشوں کی پابند نہیں۔ پھر تیسرا، انسان کی وہ زبر دست اور حیرت انگیز استعداد جس کے باعث کسی وقت اِسے باقاعدہ سجدہ ہوا تھا اور جس کی تحقیر کرانا صرف شیطان کی تسکینِ خواہش ہو سکتی ہے۔

البتہ اس امر سے مفر نہیں کہ وجود کی وہ حکیمانہ "غایت" جان ہی لی جائے اور وجود میں رہنے کی وہ "شرطیں" بھی معلوم کر ہی لی جائیں جو بنانے والے نے آپ اپنی مرضی اور حکمت سے وضع کر رکھی ہیں.. جس سے کہ نہ صرف ہمارا کچھ وقت کیلئے "یہاں" رہنا اس حکمت اور اس منصوبے سے ہم آہنگ ہو کر با معنی بنے بلکہ "آگے" کی منزلوں کی بابت بھی کچھ جان لینے کا اگر ایک قابلِ اعتماد ذریعہ میسر ہے تو اس کی بابت ایک "صحیح علم" پا ہی لیا جائے..

کیا یہ آدم کا بچہ یہاں بیٹھ کر اور دور بین میں آنکھیں دے کر خلاؤں میں دور دور تک نہیں جھانکتا!؟ حالانکہ خلاؤں میں اس کا پڑا کیا ہے؟! محض ایک تجسس؟ پر یہ تجسس تب کہاں چلا جاتا ہے جب انبیا اسے خدا تک لے کر جاتے ہیں اور آخرت کے وہ افق دکھا کر لاتے ہیں جہاں اس کا وہ ”سب کچھ“ پڑا ہے جسے یہاں یہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مر گیا ہے مگر اس کو کہیں اس کا نشان تک نہیں ملا؟؟!

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک انسان کا جب جنازہ اٹھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا کیا کچھ اٹھ جاتا ہے!!! "آگے" کی بابت، اور "پیچھے" کی بابت، اور سب سے بڑھ کر "یہاں" کی بابت کیا انبیا سے پڑھے بغیر کچھ چارہ ہے؟!

پس اس امر کیلئے.. انبیا کا اس جہانِ آب و گل اور اس عالمِ رنگ و بو میں استقبال کرنے کیلئے.. اور ان کی وساطت "حقیقت" کے چشمے سے سیراب ہونے کیلئے.. جہاں ہمیں ایک صاف شفاف "فطرت" ودیعت کی گئی اور ایک دور رسا "عقلِ سلیم" عطا ہوئی اور بندگی کے جذبے سے آراستہ و پیراستہ ایک "قلب" مہیا کیا گیا وہاں البتہ اس کو امتحان اور جانچ کا ذریعہ بنانے کیلئے "شرورِ انفس" بھی ہمارے اندر فٹ کردیئے گئے۔ ہمارے درون میں بیک وقت پس وہ آلات بھی نصب ہیں جو عالمِ ملکوتی سے اتصال کریں اور وہ آلات بھی جو شیاطین کی نشریات موصول کریں۔

یہی نہیں بلکہ ان آلات کی اصلاح و نگہداشت اگر روز مرہ بنیاد پر نہ ہو ___ جوکہ "صبر" اور "صلوۃ" ہے اور "ذکر" اور "خشوع" اور "تسبیح و تہلیل" (توحید).. جبکہ اس سے پہلے "عِلم" اور "بصیرت" اور "تواصی بالحق" اور "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" اور "اولیاءالطاغوت" کے روبرو "جہاد فی سبیل اللہ اور اصلاحِ ارض" کا راستہ اختیار کرلیا گیا ہو ____ غرض "شرورِ انفس" اور "سیئاتِ اعمال" سے، اور ان کی راہ سے شیاطین کی آماجگاہ بن رہنے سے، خدا کی پناہ میں آنے کا نظام یہاں ایک بہت چالو حالت میں نہ رکھا گیا ہو.... تو "نفس" کی سطح پر بھی اور "ماحول" کی سطح پر بھی یہ آلاتی نظام اس قدر درہم برہم ہو سکتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت سب کچھ اس میں خلط ہو جائے اور تب اس کارگہِ زَر خیز کے اندر سے مختلف اندرونی و بیرونی عوامل کے زیرِ اثر قسما قسم ملغوبے برآمد اور بھانت بھانت کے پروگرام نشر ہوں؛ کبھی عقائد کے نام پر، کبھی مذاہب کے نام پر، کبھی تہذیب کے نام پر، کبھی رسم و رواج اور کبھی نظریات کے نام پر، کبھی نظام اور دستور اور قانون کے نام پر.. کبھی خدا کے نام پر تو کبھی انسان کے نام پر، کبھی سماج تو کبھی جنتا، کبھی باپ دادا و قبیلہ برادری تو کبھی قوم ملک اور سلطنت، کبھی ترقی و خوشحالی تو کبھی علم و فن اور حُسن و محَبّت، کبھی عقل اور فکر تو کبھی ذوق اور معرفت.. جبکہ وہ سب حسرت[23] اور جہنم کا سامان ہوتا ہے اور ایک بے حد وقتی زینت و آرائش اور دل کے خوش رکھنے کی ایک صورت، ذہین لوگوں کیلئے کوئی تو کم ذہینوں کیلئے کوئی اور۔

"مطلق حقیقت" دنیا میں صرف انبیا پر اتری ہے[24] ، اور یہی آزمائشگہِ زمیں پر اِس کو اتارتے اور تہذیب کی پرورش کی مہم پر روانہ کرتے ہوئے "انسان" سے اُس کا وعدہ ہوا تھا[25]۔ خالص ہدایت کا یہ سرا ہاتھ سے چھوٹ جائے تو ہر بظاہر اچھی راہ سے آپ بے حد برے انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ شیاطین کو یہ جانچنے میں بہت وقت نہیں لگتا کہ کون شخص بدنصیبی کی کونسی پگڈنڈی پر زیادہ سے زیادہ تیز اور مستعدی سے چل سکتا ہے.... اور پگڈنڈیوں کی ان کے پاس کیا کمی! اور بد نصیبی کیلئے وہ پیدا کئے گئے ہیں! ادھر اُس عدل کے مالک جبارُ السماوات کا کہنا ہے کہ پے در پے رسول بھیج کر اور باقاعدہ شرائع نازل کرکے اُس نے انسانوں کے سارے عذر ہی ختم کردیئے ہیں[26] اور یہ کہ جہنم کو لازماً اب وہ بھر کر رہے گا[27]۔ رہ گیا ’کیوں‘ تو جس میں ہمت ہو وہ جاکر اس سے پوچھ لے کہ کیوں؟!

 

********

 

پس یہاں پار لگنے کیلئے __ خدا کی مدد و توفیق کے بعد __ دو باتیں آدمی کا اصل سہارا ہیں: ”فطرت کی سلامتی" اور "خدائی تنزیل" کی "خالص حالت میں" اور "صحیح فہم و تطبیق کے ساتھ" دستیابی۔

ان دونوں کا تحفظ البتہ جس چیز میں مضمر ہے وہ ہے "نفس" اور "ماحول" کے اندر ”اہوائ“ اور "ظنون" کے لشکروں کے خلاف انسان کا مسلسل اور ہر سطح پر رو بہ جہاد رہنا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جسم کے اندر خون کے مرض شکن جسیمے کوئی لمحہ بھر توقف کئے بغیر، مسلسل، برسرِ عمل رہتے ہیں اور کبھی اس ’انتظار‘ میں نہیں رہتے کہ مرض پہلے بڑھے اور نمایاں ہو جانے کی سطح کو پہنچے تو پھر یہ اپنا ’عمل‘ شروع کریں! مرض پایا جائے یا نہ، اور مرض تو کب نہیں پایا جاتا، پس یوں کہیئے مرض دور دور تک کہیں نظر آئے یا نہ، ان کو اس کے خلاف مسلسل حرکت میں رہنا ہوتا ہے۔ جتنا کوئی جسم آپ کو صحت مند اور مرض سے دور نظر آئے اتنا ہی اس کے یہ مرض شکن جسیمے در حقیقت مستعد اور صحیح کام کر رہے ہوں گے۔ پس دینِ انبیا پر پایا جانے والا کوئی شخص اپنی اس ایمانی کیفیت میں جو خدا کے ہاں قبول ہوتی ہے ___ نہ کہ دینداری کا وہ عام رائج تصور جسے دنیا معتبر جانتی ہے ___ ایمان کی اس حقیقی عکاسی میں جتنا زیادہ کوئی آپ کو صحت مند اور قابلِ رشک نظر آئے اس کا راز اسی قدر اُس کا "نفس" اور "ماحول" کی دنیا میں باطل کے خلاف برسرِ جنگ ہونا ہوگا۔ "باطل" در اصل "مرض" ہی کا نام ہے جو انسانی "نفس" اور انسانی "معاشرے" کو اپنی انتہائی صورت میں "ہلاک" کر ڈالتا ہے، اور اپنی ایک آخری انتہائی حالت میں یہاں نوعِ انسانی کا وجود ہی ختم کرادے گا[28]۔

یہ بات نہ ہو تو آپ ابو الحنفاءابراہیم علیہ السلام کو قریب قریب اپنے اختتامِ حیات پر گڑگڑا کر خدا سے یہ "دعا" کرتا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں: وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ[29] یعنی "مجھے بچائیو اور میری اولاد کو بھی کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں“.. ”بتوں کو پوجنے لگیں“!!! ابراہیم علیہ السلام؟!! ابو الانبیاء، قدوۃ الحنفاء، رئیس الموحدین؟!! ساری زندگی توحید پر ہی تو گزری! ڈھیر ساری ہجرتیں اسی راہ میں تو ہوئیں! کلہاڑے ان بتوں پر ہی تو برسائے! پکار اسی توحید کی تو لگائی! مگر اس میں حیرانی کی کیا بات؟! یہ، جیسا ہم نے کہا، وہی "مزاحمت" ہے جو در اصل "صحت مندی" کی علامت ہے نہ کہ محض "بیماروں" کی ضرورت!!!

پس "حنیفیت" دینداری کی ایک خاص موحدانہ کیفیت کا نام ہے جو خدا کا نام یہاں ایک خاص سلیقے سے لیتے ہیں اور رشکِ خلائق ٹھہرتے ہیں۔ ان کا خدا کو "سجدہ" کرنا، ان کا خدا کی "تسبیح" کرنا، ان کا خدا کو اپنا "معبود" کہنا، "دعا" کیلئے ان کا خدا کے آگے "ہاتھ اٹھانا"، خدا کی "تعظیم"، خدا کی "کبریائی"، خدا کی "شریعت پہ چلنا"، خدا کی "حدوں کو پہنچاننا"، خدا کو پسند آنے والا "کردار" اور "اخلاق" اپنانا، "مواساتِ یتیم"، "اطعامِ مسکین"، "خدمتِ خلق"، "اصلاحِ معاشرہ".. ان کی ہر چیز میں خدا آشنائی کا ایک خاص رنگ اور خدا آگاہی کا ایک خاص اعتماد جھلکتا ہے اور ان کے "عمل" کے اندر ایک خاص "جان" ہوتی ہے. "اکثریت" میں تو کم ہی یہ کبھی ہوئے ہیں، اور جب ایسا ہو تو دھرتی دہلتی ہے، "اقلیت" میں بھی ہوں تو پتہ چلتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا ان کا ایک "وزن" محسوس نہ کرے۔

پس "حنیفیت" ہر اندازِ دینداری سے ایک مختلف انداز ہے[30]۔ اس کے سوا جو اندازہائے دینداری ہیں یا تو وہ ابتداءً "ظنون اور اہواء" ہیں، یعنی خدا کے نام پر اور خدا کی بابت اور خدا کی منشا و مقصود کے تعین کے معاملہ میں نری من گھڑت باتیں اور جاہلانہ خواہشیں جو کہ ہر شرک کی تہہ میں پڑی ہوتی ہیں.. یا پھر خدا کی اتاری ہوئی "حقیقت" کے اندر "ظنون اور اہواءکی آلائش" جو کہ خدا کے دین کے اندر انسانی تحریف ہو جانا ہے، خواہ وہ لفظی ہو اور خواہ معنوی۔ دینداری کی یہ دونوں صورتیں در اصل خدا پر جھوٹ باندھنا ہے، جس سے بڑھ کر دنیا کے اندر ظلم اور اندھیرا کردینے کا کوئی تصور ہی نہیں[31] .. یعنی ایک تو انسان کا اندھیرا اور پھر خدا کے نام پر۔

عالمِ اسلام کے اندر بھی وہ سب رجحانات جن کا منبع و مصدر، کسی بھی صورت میں، یہ جاہلیت اور یہ شرک ہو اپنے اپنے درجے کے مطابق اسی دشمنی اور مخاصمت کی بنیاد پہ لئے جانا ہیں اور اس امت کے مصلحین و مجددین ،لے کر احمد بن حنبل سے آج تک، اس کو ___ ایک خاص منہج اور طریقِ کار پہ کاربند رہتے ہوئے، جسے کہ اصولِ اہلسنت کہتے ہیں ___ اسی انداز میں لیتے رہے اور اس پر اسی انداز میں تیشے برساتے رہے۔

 

********

 

باطل اور جاہلیت کا اصل "خلاصہ"، اور انسانی نفس اور معاشرے میں اترنے کیلئے شیاطینِ جن انس کا حقیقی "مدخل" اگر یہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اور جو کہ یا خدا کی بابت ابتداءً "ظنون اور اہوا" ہیں اور یا پھر خدا کی بابت "درست" تصور کے اندر "ظنون اور اہواءکی آلائش".... تو پھر جاہلیت کی اِس ہر دو صورت کے خلاف برسرِ جہاد ہونا دینِ انبیاءکا وہ مقدمہ ہے جو کہ "نفی" سے عبارت ہے اور جو کہ کلمۂ توحید کے "شطرِ اول" یعنی "لا الہ" کے تحت مندرج ہوتا ہے۔ کلمۂ توحید کے شطرِ ثانی تک جانے کیلئے "یہاں" سے "باقاعدہ" گزر کر جانا اِس منہج کا ایک اہم شعار ہے۔ خدا کی طرف آنے کا ایک خالص، زوردار اور جاندار دھارا "نفس" کی سطح پر بھی اور "معاشرے" کی سطح پر بھی دراصل یہیں سے تشکیل پا جاتا ہے..

بنا بریں، "خدا" کے نام پر "غلط بات نہ کرنا" اور ایسا کرلینے کو وجود کا سب سے بڑا اور سب سے گھناؤنا اور سب سے تباہ کن "جرم" جاننا ہی اسلام کا وہ اصل جوہر ہے جو یہ دیگر ادیان کی نسبت رکھتا ہے۔

پس ذرا ان لوگوں کی سعی ملاحظہ ہو جو "بے دینی" اور "دینداری" کے مابین اس کشمکش میں "اسلام" اور ادیانِ دیگر کو ایک مورچے میں کھڑا کر دینا چاہتے ہیں[32]، محض اس وجہ سے کہ "سب" خدا کا نام لیتے ہیں!

خدا نے تو اپنی وحی اتارتے وقت ان فضاؤں اور خلاؤں تک میں پہرے بٹھا دیئے کہ اُس کے نام پر کوئی جھوٹ شیاطین کی جانب سے اس میں خلط نہ ہو جائے، کیونکہ سب سے بڑا ظلم ہے ہی خدا اور دین کے نام پر وہ بات کرنا جو کہ خدا نے نہیں کہی، اور کیونکہ خدا کے نام پر کسی اور کی بات کا مطلب ہوگا خدا کے نام پر کسی اور کی اطاعت وبندگی ہونے لگنا یعنی خدا کے سوا کسی اور کا خدا ہو رہنا۔ مگر "تقاربِ ادیان" کے یہ داعی یہاں اِس "فرق"ہی کو اور اسلام کے اس اصل جوہر ہی کو نگاہوں کے سامنے ملیامیٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ یعنی پہلے اسلام کو اس کے اس اصیل ترین "امتیاز" سے ہی محروم کردیا جائے کہ جس کے باعث، اور پہلی شرائع کے اپنی اصل حالت میں دستیاب نہ رہنے کے سبب، در اصل اس کا نزول ہوا تھا۔ یا کم از کم بھی اس کے اس "امتیاز" کو پسِ منظر میں جانے دیا جائے۔ پھر یہ کارنامہ کر کے، اسلام کو ’ادیان‘ جیسا ایک دین ہونے کی بدصورتی کا تمغہ پہنا کر، سمجھا جائے کہ یہ ہوئی اسلام کی عصری خدمت!

پھر، ایک بڑی خلقت نے ادیان کو ان کا "اندھیرا" دیکھ کر ہی تو چھوڑا ہے، کہ ان کو اس میں فطرت کی وہ روشنی نظر نہیں آئی جو "خدا" کے نام پر پائی جانی چاہیئے! آخر چرچ سے دنیا کیوں بھاگی؟ ہندومت، بدھ مت، پارسیت سب کے "آثارِ قدیمہ" بن رہنے کے دن آیا ہی تو چاہتے ہیں اور پیاس کی ماری ایک دنیا اپنی یہی "پیاس" بجھانے کیلئے آج "اسلام" کی طرف بھاگی آرہی ہے تو وہ "اسلام" کی اِسی اصیل خاصیت کے باعث اور ادیان سے یکسر ایک مختلف "دین" ہونے کے باعث اور "اسلام" کے اسی امتیاز کی کشش میں ہی! کیا اسلام کے یہ محسن ذرا دیر اسلام کو اس کے اپنے حال پہ چھوڑ سکتے ہیں!؟

 

********

 

البتہ "باطل" اور "شرک" یہاں "دینداری" کے رنگ میں بھی پایا جا سکتا ہے اور "غیر دینی" اسلوب میں بھی ۔ نام سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ "ظنون" اور "اہواء"، جو کہ "جاہلیت" اور "عبادتِ طاغوت" کا لبِّ لباب ہے، اِس رنگ میں پائے جائیں یا اُس رنگ میں، زمین پر "حق" کی اتباع سے کوئی مفر نہیں۔وجود کا مقصد بروئے کار لانے کی، اور دنیوی و اخروی ہلاکت کی آخری صورت میں جا پڑنے سے تحفظ کی، اول و آخر بس یہ ایک ہی صورت ہے یعنی "نفس" اور "ماحول" کے اندر صرف اس "حق" کا احقاق اور قیام جو انبیا کے قلوب پر اترتا ہے اور جس کے سوا کسی چیز کا انسانوں پر ماننا اور اس کے آگے انسانی نفوس اور انسانی بستیوں کا نسل در نسل سرِ تسلیم خم کرتے چلے جانا نہ صرف درست نہیں بلکہ یہ انسان کی تحقیر ہے اور خدا کے حق کی توہین۔

 

یہ نہیں پیچھے چلتے مگر نرے ظن کے اور اہوائے انفس کے، جبکہ ان کے پاس خاص ان کے پروردگار کی جانب سے راہنمائی آ چکی. کیا یہ انسان، جو یہ کہہ دے سو اِس کا ہوا؟! پس اللہ ہی کا ہے اگلا جہان اور اللہ ہی کا ہے یہ جہان!

إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَى۔أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّى۔فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى (23- 255 النجم)

 

********

 

"شرک" کا ہمارے اس دور میں ایک نیا روپ اختیار کر لینا اور دنیا کے ایک بڑے حصے سے شرک کے کچھ پرانے "مظاہر" کا ایک بڑی سطح پر روپوش ہو جانا بھی یہاں"تحقیقِ توحید" کی راہ کا ایک بڑا معضلہ بن گیا..

یہاں سے بھی ہمارے بہت سے لوگ گمراہی کا شکار ہوئے۔ آج کا یہ "بے دینی" کے پردے میں چھپا ہوا شرک ان کو "شرک" نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ فسق نما کوئی چیز نظر آئی! جبکہ قریب قریب آج کی اِس پوری جدید دنیا کی صورت گری اسی نئے شرک کے نقشے پر ہوئی ہے..

آج کے اس انسان کو، پرانے دور کے انسان کے برعکس، خدا کے نام پر جھوٹ گھڑنے کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ پرانے دور کا انسان خدا کا اتنا پاس ضرور کرتا تھا کہ سچ یا جھوٹ جو کرے اُس کے نام پہ کرے اور معاشروں کو جیسے چلائے اس کا یا اس کے نام نہاد اختیار بخشیدگان کا نام لے کر چلائے۔ اتنی جرات اُس میں ابھی بہر حال نہ ہوئی تھی کہ خدا کو سائڈ پہ کردے اور اس کا "نام" لیا جانے کے واقعہ کو عبادت خانوں میں قید کر کے آئے بلکہ "معاشروں" کی ڈگر کو خدا اور مذہب کے دائرۂ اختیار میں آنے کا جہالت کے نام سے ذکر کرے۔ پس یہ "خدا" کو ایک اختیار سے باقاعدہ فارغ کر چکا ہے۔ خدا کو، اس باب میں، اس کے نزدیک کسی خاطر میں لایا ہی نہ جانا چاہیئے۔ معاذ اللہ۔ اُس کے نام سے جھوٹ نہ سچ، کسی بات کی ضرورت ہی نہیں!"خدا"کو اب جس جگہ سے بے دخل کیا گیا، معاذ اللہ، وہ جگہ انسان نے خود لی۔ پس یہ، بغیر کسی لاگ لپیٹ، خدا سے آزاد ہونے اور انسان اور مادہ کے آپ خدا ہونے کا دور ہے۔ یہ شرک کی بدترین اور جرات مند ترین صورت ہے۔ اس بڑی سطح پر یہ انسانی دنیا کے اندر ایسا پہلا اور انوکھا واقعہ ہے۔ اور چونکہ ایسا ہے، اور چونکہ وہ "پرانے زمانے کا شرک" آج کی ان جدید سوسائٹیوں کے معاشرتی عمل کے اندر ڈھونڈنے بھی نکلو تو کہیں نہ ملے، لہذا ہمارے وہ داعیانِ عقیدہ جو شرک کی ایک خاص صورت ہی سے مانوس تھے نہ کہ شرک کے اُس اصل جوہر سے جو ہزار صورت میں پایا جا سکتا ہے، انہیں بہت کم یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ اس کا "شرک" کے نام پر رد تک کرپائیں!

پتھر اور لکڑی کے "بت" ان کو یہاں کہیں نظر نہیں آئے تو بہت سے موحدین کے ہاتھوں میں اس کیلئے "تیشے" بھی دکھائی نہ دیئے! بلکہ ان کے ہاں یہ مسئلہ سرے سے "عقیدہ" کے احاطے میں ہی نہ پایا گیا! بہت سے تو اس کو مسئلہ ہی ماننے پر تیار نہیں اور نہ مسائل کی کسی فہرست پہ آنے دینے پر آمادہ!

توحید تو انسان کا، اطاعت وبندگی کی ہر ہر صورت، الہِ حق کی جانب متوجہ رہنا ہے۔ "الہِ حق" کو اِس کی جبینِ نیاز کے آگے سے ہٹا دیا جانے کی البتہ پھر جو بھی صورت ہو، "اُس" کی جگہ "پُر" کرنے کی ہر صورت "شرک" ہوگی فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ(الروم:30) "پس تم دینِ حق کیلئے اپنا چہرہ ٹھیک ٹھیک سونپ دو. اس فطرتِ خداوندی کی اقامت میں جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کر رکھا ہے. اللہ کی تخلیق (فطرت) میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں. یہ ہے سیدھا ٹھیٹ دین لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں"

 

********

 

انسانی زمین پہ اترتے رہنے کیلئے پس شیاطین کو یہ دو ہی اڈے حاصل ہیں اسی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں یہ دونوں ہر وقت قرآنی "رجوم"[33] کی زد میں رہتے ہیں۔ ایک "اہواء" جوکہ "فطرت" کو کثیف اور بالآخر مسخ کر جاتی ہیں اور اس میں حقیقت کو، چاہے وہ لا کر اس کے سامنے ہی دھر دی جائے، "دیکھنے" کی صلاحیت نہیں رہنے دیتیں، بلکہ بسا اوقات تو "فطرت" کا یہ "مسخ" ہو جانے کے باعث اِسے پھر کچھ سے کچھ نظر آتا ہے جوکہ بدبختی اور گم گشتگی کی ایک آشوب نا ک صورت ہے۔ دوسرا "ظنون" جوکہ انسان کیلئے اُس "مطلق حقیقت" کا متبادل بنادیئے جاتے ہیں جس کا اہلِ زمین کو ابلاغ کرانے کیلئے آسمانوں کا مالک اور روشنی کا خالق صرف اور صرف انبیا کے قلوب کا انتخاب کرتا ہے، جبکہ یہ "ظنون"بھی بالآخر انسان کی "فطرت" کو ہی اور اس کے ان قدرتی قویٰ کو ہی جو کہ خدا کو پوجنے اور خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کیلئے انسان کو حاصل ہیں، خاک آلود کرتے ہیں۔

"ظنون" اور "اہوا"، جو کہ "عبادتِ طاغوت" کی اساس ہیں، چنانچہ قدیم ہوں یا جدید، مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، پڑھے لکھوں کے ہاں پائے جائیں یا ان پڑھوں کے ہاں، نری ہلاکت ہیں۔ "حق" کی اتباع سے کوئی چیز کفایت نہیں کرتی۔ اِس معاملے کو اتنا ہی دوٹوک ہو کر "انسان" پر واضح کیا جانا ہے۔

پس انسان کا وہ اصل جوہر جسے دیکھا اور دکھایا جانے کیلئے جہانِ نا پیدا کنار کے اس نہایت چھوٹے اور ناقابلِ ذکر گوشے میں اِس کو چند سانسوں کی مقدار "وقت" دیا جاتا ہے، پر اِس کا درست اور دانشمندانہ استعمال کرکے خاک سے بنی یہ مخلوق "الملأ الاعلیٰ" میں اپنا ذکر کرواتی اور عرش پر پسندیدگی سے دیکھی جاتی[34] ہے اور پھر اُس بہشت کی جو آسمانوں کے حساب سے عرض رکھتی[35] ہے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اور مستقل ملکیتی بنیادوں پر وارث ٹھہرتی ہے[36] .. انسان کے اس اعلی ترین جوہر کا تحفظ ہونے کی پس یہی ایک صورت ہے کہ انسانی نفوس اور انسانی معاشرے "ظنون و اوہام" اور "اہواءو رجحانات" کی آماجگاہ بننے سے بچائے جائیں اور انہیں اس "حق" اور اس "روشنی" کا ہی خوگر رکھا جائے جو زمین کیلئے آسمان سے اترتی ہے۔ اس "تحفظ" کا طریقہ و ادب البتہ وہی ہے جو ہم ابراہیم ؑ اور محمد سے سیکھتے ہیں اور جسے ہم "حنیفیت" کے نام سے جانتے ہیں اور جو کہ باطل اور شرک کے خلاف خاص خاص موقعہ پر اورگاہے گاہے ہی اور ضرورت آپڑنے پر ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت سرگرم رہنے کی ایک خاص حالت اور کیفیت سے عبارت ہے، یہاں تک کہ یہ آدمی کی پہنچان بن رہے اور آدمی کی شخصیت اور دعوت کے حوالے سے خاص طور پر ذکر ہونے والی ایک بات:

 

"ہم بری و بیزار ہوئے تم سے اور ان سب ہستیوں سے جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر معبود ٹھہراتے ہو۔ ہمارا کفر ہوا تمہارے ساتھ، اور کھلی عداوت اور بغض ہے ہمارے اور تمہارے مابین اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہاں تک کہ تم ایک اللہ وحدہ لا شریک پر ہی ایمان نہ لے اؤ"

إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ  (الممتحنۃ: 4)

 

زندگی تو وہی زندگی ہے مگر اس کا لطف سب سے زیادہ ایک صحت مند ترین شخص ہی لے سکتا ہے۔ جبکہ صحت مندی کا اصل راز، جیسا کہ ہم نے کہا، "آثارِمرض" کے خلاف جسم کا ایک زور دار ترین اور ہمہ وقت سرگرمی رکھنا ہے۔"غذا" کا درجہ اس کے بہت بعد آتا ہے، بلکہ غذا کا لطف ہی اس ”صحت“ کا مرہونِ منت ہے۔ بعینہ اسی طرح.. ایمان، عبادت اور بندگی، جو کہ "زندگی" ہی کا دوسرا نام ہے، کا سب سے زیادہ لطف وہی شخص لے سکتا ہے جس کی باطل سے براءت اور عداوت اور مزاحمت سب سے زیادہ جاندار ہو۔ "خدا سے تعلق" کی ایک خاص جاندار کیفیت بھی، جو کہ "تعبیرِ دین" کے تحت بجا طور پر ذکر ہونی چاہیئے، اور جو کہ محض خدا کی بابت میٹھی میٹھی باتیں کر لینا نہیں، در اصل ایسے ہی باطل بیزار دل کے اندر جنم پاتی ہے اور ابراہیم ؑ نے خدا سے جس "قلبِ سلیم" کا سوال کیا اس کی تفسیر[37] بھی در اصل یہی بنتی ہے۔

پس در اصل یہ "مزاحمت" اور یہ "کشمکش" جو باطل اور عبادتِ طاغوت کے خلاف کی جانا ہے انسان کے اپنے تحفظ اور بقا کا سوال ہے۔ یہ اس کی "صحت" کی جانچ اور پہچان ہے۔ یہ اس کی "زندگی" کا بنیادی ترین ایک مطلب ہے، بطورِ فرد بھی اور بطورِ نوع بھی۔ یہ اس کے "وجود" کا مسئلہ ہے، خواہ یہ وجود دنیا ہو یا آخرت۔
پس انسان کی یہ فطرت ہی، جو کہ اس کا سب سے بڑا قدرتی اثاثہ ہے اور اس کا اصیل ترین جوہر، اپنی صحت وسلامتی کیلئے اور شیاطین کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچ رہنے کیلئے، جس چیز کی ضرورت مند ہے وہ ہے اِس کا اپنے خالق کی جانب ہی ایک درست تری[38]ن اسلوب میں متوجہ رہنا، جو کہ "توحیدِ عبادت"[39] ہے، اور صحف و رسل کی ہی اتالیقی اختیار کر رکھنا، جو کہ "اِتِّباع" ہے۔

پس نجات ہے تو یہ "توحید" اور یہ "اتباع"۔ اب اگر دو جہاں کی سرخروئی کا بس یہی ایک عنوان ہے.. عالمِ وجود میں انسان کے پریشان ہونے کی اس سے بڑی کوئی بات اگر کبھی پائی ہی نہیں گئی.. تب تو اِس "توحید" اور اِس "اتباع" میں اس کا لہجہ جتنا ٹھیٹ اور گہرا ہو.. اور "بندگیِ طاغوت" کے خلاف، جو کہ "توحید" کی ضد ہے، اور "ابتداع" و "غی" کے خلاف، جو کہ "اتباع" کی ضد ہے، اِس کی مزاحمت جتنی شدید ہو اتنی ہی کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موحدین، جو کہ اس کرۂ ارض پر پائی جانے والی وہ واحد صنف ہے جو "خدا" کا درست پتہ رکھتی ہے، "توحید" اور "اتباع" کے اِن تذکروں میں اور "عبادتِ طاغوت" اور "غی و ضلال" سے اِس اظہارِ عداوت میں وہ لذت واطمینان اور وہ ناقابلِ بیان لطف پاتے ہیں کہ کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا جو یہ جانتے ہیں اِنہیں نرا مفتون[40] سمجھے۔ بلکہ دونوں ہی ایک دوسرے کو کسی اور دنیا کا سمجھیں تو کیا تعجب! اتنی بڑی بات کو "جاننا" اور "نہ جاننا" برابر تو نہیں ہو سکتا! قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ(الزمر:9) "کہو: کیا وہ جو جانتے ہیں اور اور وہ جو نہیں جانتے برابر ہو جائیں؟! یہ تو صرف ہوشمند ہیں جو بات پاتے ہیں!!!"

انسان کی یہ "استعداد" جو ایک خاص انداز اور سلیقے سے اپنے "خالق" ہی کی جانب "متوجہ" اور سب "غیر" ہیستوں سے "بیزار" ہو جانے کیلئے اس کے اندر رکھی گئی ہے.. اُس "خاص انداز اور سلیقے" سے جس کو ابھی ہم "توحید" اور "اتباع" کہہ آئے ہیں.. "نفس" کی سطح پر بھی اور "معاشرے" کی سطح پر بھی..

انسان کی اِس استعداد اور اس جوہر پر ظاہر ہے خدا کے سوا کسی کا حق نہیں۔ اِس سے لطیف اور حسین چیز کبھی نہیں بنی۔ یہ در اصل اُس نے بنائی ہی خاص اپنے لئے ہے۔ کوئی اور اِسے اپنے زیرِ استعمال لائے تو وہ اُسے اپنا شریک اور اپنا ہمسر اور "طاغوت" جانتا ہے۔ اِس کا ولی، یعنی اِس پر حق رکھنے والا، خدا ہے اور کسی کو اِس میں اُس کے ساتھ شریک ہونے کا حق نہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآنی استعمال میں "خدا کے ماسوا اولیاء" (ولی کی جمع) کہیں "عبادت" کے پہلو سے مذکور ہوئے اور کہیں "اتباع" کے پہلو سے۔

پہلے استعمال کی صرف ایک مثال:

 

ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے پس تم بندگی کرو اللہ ہی کی، دین (بندگی) کو سارا کا سارا اسی کیلئے خاص اور خالص کر رکھتے ہوئے. خبردار! دین (بندگی) خالص اللہ کا حق ہے. رہے وہ لوگ جنہوں نے اور "صاحبانِ حق" پکڑ رکھے ہیں کہ ہم تو ان کو پوجتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں یقیناً یہ لوگ جس اختلاف پر ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ خود کرے گا. اللہ اس کو ہرگز ہدایت نہیں دیا کرتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہی ہو گیا ہو

إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ (2)أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ(3) -الزمر

 

دوسرے استعمال کی ایک مثال:

 

ایک کتاب جو تم پر نازل کی گئی، پس ہرگز کوئی تنگی نہ ہو اس سے تمہارے سینے میں، کہ ڈراؤ تم اس کے ذریعے سے اور ایمان لانے والوں کو یاددہانی ہو. (انسانو!) پیچھے چلو اس کے جو تمہاری جانب نازل کیا گیا اور نہ پیچھے چلو اُس ایک کے سوا کسی "صاحبانِ حق" کے۔ کم ہی تم نصیحت مانتے ہو"

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (2) اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (33) - الأعراف

 

انسان کے اس جوہر کو، جس پر صرف خدا کا حق ہے، کوئی اور اٹھا لے جائے اور خدا کے سوا اپنی طرف پھیر لے، اس سے بڑی اور اس سے گھناؤنی واردات قابلِ تصور نہیں۔ حدیث میں واقعتاً اس کیلئے "ڈکیتی"، "لوٹ لے جانے" اور "یرغمال کر لے جانے" کے مترادف لفظ استعمال ہوا ہے:

 

بروایت عیاض بن حمار المجاشعیؓ، رسول اللہ ﷺ نے ایک روز خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: خبرداررہو! میرے رب نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں تمہیں وہ کچھ سکھاؤں جس سے تم لاعلم رہے ہو، جو کہ آج اِس روز میرے رب نے مجھے سکھایا: بے شک ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو بخش رکھا ہے حلال ہی ہے۔ اور بے شک میں نے اپنے بندوں کو، سب کے سب کو، حنفاء(خدائے واحد کی بندگی وفرماں برداری، کہ جس میں دیگر ہر رواج اور نظام سے قطعی رخ پھیر رکھا جائے، کی قابلیت کے ساتھ) پیدا کیا، اور بے شک پھر شیاطین ان پہ آئے اور ان کو ان کے اس (صحیح) طرزِ بندگی سے ڈکیتی کر کے لے گئے اور لگے ان پر حرام کرنے جو میں نے ان پر حلال کر رکھا تھا اور ان کو اکسانے اس بات پر کہ وہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک کریں جس کی کہ میں نے کبھی کوئی دلیل اور حجت ہی نہیں اتاری

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ أنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی خُطْبَتِہِ ألَا اِنَّ رَبِّی أمَرَنِی أنْ أعَلِّمَکُمْ مَا جَہِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِی یَوْمِی ہَذَا کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عَبْدًا حَلَالٌ وَ اِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ کُلَّہُمْ وَ اِنَّہُمْ أتَتْہُمْ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْہُمْ عَنْ دِینِہِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَا أحْلَلْتُ لَہُمْ وَأمَرَتْہُمْ أنْ یُشْرِکُوا بِی مَا لَمْ أنْزِلْ بِہِ سُلْطَانًا[41]

 

پس یہ صرف "حنفاء" ہیں جو ملتِ شرک سے اپنی بیزاری و عداوت اور بندگیِ طاغوت کے خلاف اپنے جہاد اور اسکے مدِ مقابل ہر دم چوکنا اور مسلسل ہتھیار اٹھا رہنے کے باعث خدا کے فضل سے یہاں محفوظ رہتے ہیں..

یہ صرف "حنفاء" ہیں کہ جو زمین پر شیاطین کی ان وارداتوں کو، جن میں دنیا روز لُٹتی ہے کیا "قدیم" انسان اور کیا "جدید" سوسائٹی اور تہی دست و درماندہ ہو کر یہاں سے "گھر" لَوٹتی ہے، اپنے اوپر کامیاب نہیں ہو جانے دیتے اور یوں زمین پر سلامتی کی امید اور بقائے انسان کی ضمانت بنے رہتے ہیں.. اور جو اپنے اُس جوہر کو جو خدا کی جانب التفات کیلئے "انسان"کو عطا ہوتا ہے اپنی سب سے قیمتی متاع جانتے ہیں اور اس کو عین اس کے محل پر ہی، اور ایک خاص سنت سلیقے سے، نچھاور کرکے آتے ہیں اور جو کہ ایسا محل ہے کہ جس قدر نچھاور کرو اسی قدر "اور" ملتا ہے اور زیادہ سے زیادہ خالص ہو کر۔ پس "موحدین" یہاں اس جہان میں بھی خدا کے فضل کی جس بارش میں نہاتے ہیں وہ پوری ایک جنت ہے جہاں ان کو روز ایک ”رزق“ ملتا ہے اور اگلا جہان تو کہ جہاں "باقیاتِ صالحات" در اصل کام آئیں گی ہے ہی، پورا کا پورا، انکا..

 

"اور وہ جو "ہدایت" کا سرا پا لیتے ہیں اللہ پھر انہیں "ہدایت" میں ہی اور بڑھاتا ہے۔ اور بقا پا جانے والی نیکیاں ہی ایک خاص عوض پانے اور واپس مل رہنے میں بہتر ہیں"

وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا (76) - مریم

پس صابر رہو ان لوگوں کی کہی ہوئی باتوں پر اور "تسبیح" کیئے جاؤ "حمد" کے ساتھ اپنے رب کی، ہر طلوعِ آفتاب سے پہلے اور ہر غروبِ آفتاب سے پیشتر، اور رات کے پہروں میں بھی اُس کی "تسبیح" ہی کرو اور دن کے اطراف میں بھی. تا کہ تم راضی ہو جاؤ. اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا اس آرائشِ زندگانیِ دنیا کی طرف جو ہم نے ان کے مختلف لوگوں کو کچھ وقت موج کیلئے دے رکھی ہے کہ ہم انہیں یہاں آزمائش سے گزاریں. البتہ وہ "رزق" ہی جو تجھے تیرے رب کی جانب سے ملتا ہے کہیں اعلی ہے اور پائندہ تر. اور ضرور تلقین کرتے رہو اپنے اہل کو صلوۃ (بر وقت) کی اور خود بھی پابند رہو اس پر. ہم تم سے رزق کے طلبگار نہیں. رزق تو تمہیں ہم ہی دیتے ہیں. اور انجام آخر "تقوی" ہی کے ہاتھ رہنے والا ہے"

فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى(130) وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى (131) وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (1322) - طہ

 

********

 

یہاں عیاض المجاشعیؓ کی حدیث پر، جو کہ ابھی اوپر ذکر ہوئی، اور جو کہ "حنیفیت" کی ایک اہم جہت بیان کرتی ہے، ہم ذرا دیر رکنا چاہیں گے..

کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عَبْدًا حَلَالٌ "بے شک ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو بخش رکھا ہے حلال ہی ہے"۔ 
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ تحلیل (یعنی کسی چیز کا حلال ٹھہرنا) در اصل "شرعی" تحلیل ہے نہ کہ سماجی یا رواجی یا قانونی..

پس آج کے یہ خدا آزاد معاشرے جو کہ اشیا کو روا رکھتے ہیں مگر "شرعی تحلیل" کے باب سے نہیں یعنی اس بنیاد پر نہیں کہ یہ "خدا کا مال" ہے اور "خدا کا حلال کردہ" بلکہ یہ "شرعی تحلیل" ان کے ہاں سرے سے کوئی سوال ہی نہیں، اور اشیا ان کے ہاں اپنے روا ہونے کی صفت اس بات سے پاتی ہی نہیں کہ "یہ خدا کے ہاں قابلِ اعتراض نہیں"، بلکہ اشیا اپنے روا ہونے کی یہ صفت ان کے ہاں کسی اور بات سے پاتی ہیں خواہ وہ کچھ بھی ہو۔ حنیفیت یعنی دینِ حق اور دینِ فطرت اور دینِ انبیا سے بہکے ہوئے ہونے میں یہ اتنے ہی گمراہ ہیں جتنے کہ وہ جو اشیا کے حرام یا روا ہونے کو سیدھا سیدھا "غیر" ہستیوں سے لیتے تھے اور جن کی جانب حدیث میں اس کے مابعد الفاظ کے اندر اشارہ ہے۔ شیاطین اُن کے "اولیاء" تھے اور شیاطین اِن کے "اولیاء" ہیں۔ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ "بے شک ہم نے شیاطین کو ایمان نہ رکھنے والوں کے "اولیاء" بنا دیا ہے"

اس کے بعد آئیے اس حدیث میں مشار الیہ "تحریم اور تحلیل" کی جانب..

صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث کے تحت امام نووی ؒکہتے ہیں:

”یہ اشارہ ہے اُس تحریم کی طرف جو وہ اپنے اوپر ٹھہرا لیتے تھے بسلسلہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامیہ“[42] (جاہلیت میں مویشیوں کے حرام ٹھہرائے جانے کی مختلف صورتیں جن کا سورہ المائدہ:1033 میں ذکر ہے)

مگر اتنا ہی نہیں کہ وہ بتوں کی ہیبت و تعظیم میں __بحیرہ و سائبہ و وصیلہ و حامیہ کی صورت __ کچھ چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیتے تھے"۔ تحلیل" اور "تحریم" کا دائرہ یقیناً اس سے کچھ زیادہ وسیع ہے اور "شرک" سے براہِ راست منسلک..

چنانچہ، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ مردار جانور کو "حلال" ٹھہراتے تھے، جو کہ "حنفاء" کے نزدیک حرام رہا ہے، اور اس (مردار کے حلال ہونے) پر جو طرح طرح کی دلیلیں دیتے تھے اس پر ان کی جانب سے ’بتوں‘ وغیرہ کا کوئی حوالہ دینا کہیں مذکور نہیں۔ جو بھی دلیلیں تھیں وہ "عقلی" تھیں یاپھر " سماجی " مثلاُ یہ کہ آخر اس میں حرج کیا ہے!؟ (وہی ہمارے روشن خیالوں کی دلیل!) اور یہ کہ ’جس کو خدا مار دے وہ حرام[43] اور جس کو تم خود مارلو وہ حلال‘! اور وہ ایسی ہی شیاطین کی پڑھائی ہوئی پٹیاں پڑھ کر اہلِ ایمان سے جدال کرتے تھے[44] اس  پر اللہ تعالی نے آیت اتاری:

وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ

"نہ کھاؤ اس سے جس پر نہ لیا گیا نام خدا کا اور یہ ہے یقیناً ایک فسق۔ اور شیاطین وحی کرتے ہیں اپنے چیلوں کو کہ بحث کریں یہ تم سے۔ اور اگر تم نے ان کی بات تسلیم کرلی تو یقیناً تم مشرک ہو"

آیت کے آخری حصہ وَ اِنْ أطَعْتُمُوہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ میں چونکہ "شرکِ اطاعت" کا ذکر ہے یعنی کسی کو تحلیل اور تحریم یعنی "روا" و "ناروا" ٹھہرانے کا حق ہونے کو شرک مانا جانا، لہذا اس پر امام ابنِ کثیر اس آیت کا رشتہ سورہ التوبہ کی آیت 31سے جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ یعنی جب تم اللہ کے امر اور اس کی شرع سے عدولی کرکے کسی اور کے قول و قرار کی طرف چلے گئے تو تم نے اُس پر اُس کے غیر کو مقدم رکھا اور یہی شرک ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرما رکھا ہے: (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ " انہوں نے پکڑ لیا اپنے احبار اور اپنے رہبان کو خدا کو چھوڑ کر اپنے رب اور مسیحؑ بن مریم کو بھی، جبکہ نہ حکم دیا گیا تھا اِن کو مگر اس کا کہ یہ عبادت کریں بس الہِ واحد کی۔ کوئی ہے ہی تو نہیں عبادت کے لائق مگر وہ۔ پاک ومنزہ ہے وہ اس سے جو یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔" (التوبہ:31)) جبکہ ترمذی نے اس آیت کی تفسیر میں عدی بن حاتمؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! وہ ان (احبار و رہبان) کی عبادت تو نہ کرتے تھے! تب آپ نے فرمایا: ہاں تو انہوں نے ان کے لئے ناروا کو روا اور روا کو ناروا کیا ، اور اس میں انہوں نے ان کی "اتباع" کی، تو یہ ہوا ان کا ان کی عبادت کرنا"[45]

ابنِ کثیر کی اس عبارت کے بعد، ایک عبارت (سورہ الانعام کی اسی آیت: 121) کی بابت سید قطب کی بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:

"وہ لوگ جو بت کو پوجنے والے پر تو "شرک" کا حکم لگا دیا کرتے ہیں مگر طاغوت کی حاکمیت تسلیم کرلینے والے پر "شرک" کا حکم کبھی نہیں لگاتے، "یہ" حکم لگاتے ہوئے جو گناہگار ہو جانے سے ڈرا کرتے ہیں پر "وہ" حکم لگاتے ہوئے گناہگار ہو جانے سے جنہیں کبھی خوف لاحق نہیں ہوا.. حق یہ ہے یہ لوگ "قرآن" نہیں پڑھتے۔ نہ ہی یہ لوگ اِس "دین" کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔ ان کو چاہیئے یہ "قرآن" پڑھیں ویسے جیسے اللہ نے اس کو نازل کیا۔ان کو چاہیئے یہ اللہ کے اس کلام کو ذرا غور کرکے پڑھیں: وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ”اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی تو پھر یقیناً تم مشرک ہو“[46]

 



[21] فریب میں ڈال دینے والا

[22] فریب میں پڑ جانے کا سامان

[23]  إذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ (166) وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ((167  (البقرۃ)

”ذرا تصور کرو جب یہاں کے پیشوا بیزاریاں کریں گے ان سے جو اِن کی "اتباع" کا یہاں دامن تھام کر رکھتے تھے، اور جب یہ سب سہارے ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے تب وہ جو یہاں پیچھے لگ کر رہے تھے کہیں گے اے کاش کہیں ہمیں موقعہ ہوتا تو ہم بھی آج ان سے یوں بیزار ہو کر دکھاتے جیسے یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر چکے۔ اسی طرح تو اللہ ان کو ان کے اعمال اور کارنامے حسرتیں بنا کر دکھائے گا، اور آگ سے کبھی ان کی جان چھوٹنے والی ہی نہیں"

[24] عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (27) لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (288)(سورۃ الجن )

”غیب کا پتہ پاس رکھنے والا وہ ہے۔ پس کسی کو وہ اپنے اُس غیب پر مطلع نہیں کرتا، سوائے یہ کہ وہ کوئی رسول ہی ہو جسے خود اُسی نے برگزیدہ ٹھہرا لیا ہو، تب وہ (اُس وحی کے تحفظ کیلئے) اُس کے آگے اور پیچھے پہرے لگوا دیتا ہے۔ تا کہ وہ یہ یقینی بنا دے کہ وہ (رسل) اپنے رب کے سب پیغام (انسانوں کو) پہنچا چکے، جبکہ وہ خود جو کچھ ان کے در پیش ہے اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کا گِن گِن کر حساب رکھے ہوئے ہے"

[25] ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى (122) قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (123) وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (124) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا (125) قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى (1266) (سورہ طہ)

"پھر اُس کے رب نے اُس کو برگزیدہ کیا. تب اُس کی توبہ قبول فرمائی. اور اس کو راہ دکھائی. کہا: تم دونوں اب یہاں سے (زمین پر) اتر جاؤ. تم (انسان اور شیطان) سب ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے. پس ضرور بضرور میرے پاس سے تمہارے یہاں جو ہدایت پہنچے گی تب جو بھی میری (بھیجی ہوئی) ہدایت کی "اتباع" کرے تو نہ تو وہ کبھی راہ بھٹکے اور نہ وہ بدبخت ٹھہرے. اور جس نے میرے (ارسال کردہ) پیغامِ نصیحت سے منہ موڑا تو اس کا نصیب درماندگی کی ایک زندگانی اور روزِ قیامت ہم اُس کا حشر کریں تو اندھا اٹھا کر. وہ کہے: پروردگارا! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، میں تو آنکھوں والا ہوا کرتا تھا؟! اور وہ کہے: ایسے ہی تو، میرے آیات و نشانات تیرے پاس پہنچے تھے، تو تو نے ان کو بھلا ہی تو دیا تھا. ایسے ہی، آج تجھ کو بھی بھلا ہی تو دیا جائے گا"

[26] رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء:165) "رسول ہی رسول بشارتیں دیتے ہوئے اور انذاریں کرتے ہوئے تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کیلئے اللہ کے اوپر کوئی حجت رسولوں کے آ رہنے کے بعد. اور اللہ تو ہے ہی طاقت والا اور حکمت والا"

[27] وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأَمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(119) (سورہ ہود) "اور اگر تیرا رب چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت بنا دیتا. جبکہ یہ اختلاف کرتے رہیں گے _ سوائے جن پہ تیرا رب اپنی رحمت کردے _ اور اِسی لئے اس نے انہیں پیدا کیا. اور پوری ہوئی بات تیرے رب کی کہ ضرور بھروں گا میں جہنم کو ایسے سب کے سب جِنوں اور انسانوں سے"

[28] اَتَقُومُ السَّاعَۃ اِلَّا عَلَی شِرَارِ الْخَلْقِ "قیامت قائم نہ ہو گی مگر بد ترین لوگوں پر" (صحیح مسلم:3550 کتاب الاِمارۃ، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال طائفۃ من أمتی ظاہرین)

[29] سورۃ ابراہیم آیت 35

[30] ا ِنِّی لَمْ أبْعَثْ بِالْیَہُودِیَّۃ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃ وَلَکِنِّی بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ (مسند احمد:21260،) حدیث حسن کے درجے کو پہنچتی ہے، دیکھیئے: السلسہ الصحیحہ للالبانی رقم الحدیث:2924) ترجمہ: "میں یہودی (اندازِ) دینداری کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور نہ نصرانی (اندازِ) دینداری کے ساتھ، بلکہ میں تو بھیجا گیا ہوں حنیفیتِ سمحہ کے ساتھ"

[31] وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (الانعام:21) "اور اُس سے بڑا ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ گھڑے یا خدا کی آئی ہوئی نشانیوں (آیتوں) کو جھٹلائے؟ بات یہ ہے کہ ایسے ظالم تو کبھی فلاح نہیں پا سکتے"

[32] ہمیں ادراک ہے کہ "تقاربِ ادیان" کی بعض کوششیں یہاں اور وہاں کے بعض طبقوں کی جانب سے اس وقت عالمی امن کی ایک ممکنہ صورت پیدا کرنے اور دنیا میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی کو کم یا ختم کرنے کے دواعی کے تحت بھی ہو رہی ہیں، نہ کہ مذہبی طور پر دنیا کو ایک یا قریب کردینے کیلئے۔ یہ مقصد بھی ہو تو "تقاربِ ادیان" اس کے حصول کی ایک مبغوض صورت ہے گو یہ مقصد فی نفسہ برا نہیں. عالمی امن کی سلامتی اور اقوام کے مابین انسانی بنیادوں پر ایک ہم آہنگی لے کر آنا اور اس زمین کو افراد اور اقوام کے رہنے کے قابل جگہ بنانا اور یہاں ایک ایسا جہان تعمیر کرنا جہاں علم اور حکمت کا ایک صحت مند اور آزادانہ تبادلہ ہو اور ہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہو، اور جس کا سب سے بڑھ کر فائدہ ہمیں ہی ہے، یقیناً اسلام کے اجتماعی مطالب میں سے ایک بڑا مطلب ہے اور بلا شبہہ اسلام کی اس جہت کو ہمارے بعض تنگ نظر انتہا پسند دینی رجحانات کی جانب سے نظر انداز کردیا جانے کے باعث یہاں ایک خلطِ مبحث پیدا ہوا بھی ہے. ہمارا یہاں عقیدہ کی ایک "باطل دشمن" جہت کو نمایاں کرنے کا مقصد بھی ہرگز "عقیدہ" اور "تلوار" کو اُس معنی میں خلط کردینا نہیں جس معنی میں یہاں اور وہاں کے انتہا پسندوں کی جانب سے اس کے خلط کردیا جانے کے باعث ہی، دوسری جانب، کچھ انصاف پسند مگر عقیدہ سے جاہل یا متجاہل ذہنوں کو اس "تقاربِ ادیان" کے اندر دنیا کے امن پا جانے کی تلاش اور امید اور ضرورت ہوئی۔

[33] یعنی پتھراؤ اور بمباری

[34] أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِی فَاِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہِ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَ اِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَ اِ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَ اِ خَیْرٍ مِنْہُمْ (متفق علیہ، صحیح بخاری:6856 کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی ویحذرکم اللہ نفسہ، صحیح مسلم:4851 کتاب الذکر والدعاءوالتوبۃ والاستغفار باب فضل الذکر والدعاءوالتقرب اِلی اللہ تعالی "میں اپنے بندے کے گمان پہ جو وہ میری بابت رکھے پورا اترنے والا ہوں، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرے۔ پس اگر وہ اپنے جی میں میرا ذکر کرے تو میں اپنے جی میں اس کا ذکر کروں۔ اور اگر وہ برسرِ محفل میرا تذکرہ کرے تو میں اس سے کہیں بڑھ کر برگزیدہ محفل میں اُس کا تذکرہ کروں"

[35] سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحدید:211) "مسابقت کرو ایک مغفرت کی جانب جو تمہارے پروردگار کی جانب سے ہے اور ایک بہشت کی جانب جس کا عرض ویسا ہے جیسا آسمانوں اور زمین کا عرض، جو کہ آراستہ کی گئی ان نفوس کیلئے جو ایمان لائے اللہ کے ساتھ اور اُس کے رسولوں کے ساتھ۔ یہ ہے خدا کا کسی کو بخشنے کا پیمانہ۔(اور یہ) وہ جس کو دینے پہ آئے دے۔ اور اللہ تو ہے ہی بڑے پیمانوں سے بخشنے والا"

[36] أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ (10) الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (11) المومنون

"یہ ہیں وارث بن رہنے والے، جو کہ وارث بنیں گے فردوس کے، ہمیشگی پا کر رہنے والے اس کے اندر"

[37] وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ  (87) يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (89) (سورۃ  الشعراء)

"اور خدایا! مجھے رسوائی سے بچائیو جس دن خلقت جی اٹھائی جائے گی۔ جس دن دولت کام آئے گی اور نہ آل اولاد۔ سوائے اُس کے جو اللہ کے ہاں قلبِ سلیم ہمراہ لایا"

اس آیت میں "قلبِ سلیم" کی تفسیر میں طبری یہ اقوال لاتے ہیں: 1۔ قتادہ سے: "شرک سے سلامت دل" 2- ابنِ زید سے:۔ شرک سے سلامت دل، رہے گناہ تو ان سے کوئی نہیں بچ پاتا" 3۔ ضحاک سے: ۔ قلبِ سلیم یعنی خالص قلب" (دیکھیئے تفسیر طبری بہ ذیل مذکورہ آیت) جبکہ ابنِ کثیر یہ اقوال لاتے ہیں: 1۔ مجاہد اور حسن (بصری) سے: "یعنی شرک سے سلامت دل"، 2۔ ابو عثمان نیساپوری سے: "یعنی وہ دل جو بدعت سے پاک صاف ہو اور سنت پہ استقرار رکھتا ہو" (دیکھیئے تفسیر ابنِ کثیربہ ذیل آیتِ مذکورہ)

[38] کلمہءشہادت کا شطرِ ثانی

[39] کلمہءشہادت کا شطرِ اول

[40] ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (1) مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (2) وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (3) وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ  (4) فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ (5) بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ (6) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (7) فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ (8) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (9) (سورۃ القلم) "نون. قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ سطور میں رقم کرتے ہیں. نہیں ہے تو اپنے رب کی نعمت کے باعث دیوانہ. اور بے شک تیرے لئے ایک اجرِ بے حساب وبے انتہا ہے. اور بے شک تو ایک بڑے عظیم اخلاق پہ ہے . پس دیکھ لے گا تو بھی اور دیکھ لیں گے یہ بھی، کہ کون ہے تم میں سے مفتون. بے شک تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی ہدایت یافتہ کو جانتا ہے. پس ہرگز نہ بات مان جھٹلانے والوں کی. یہ تو چاہتے ہیں کچھ تو ڈھیل کر پھر یہ ڈھیل پیدا کریں"

[41] یک طویل حدیث کا ابتدائی حصہ (صحیح مسلم:5109 کتاب الجنہ وصفہ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنہ واہل النار)

[42] دیکھیئے شرح مسلم (از امام نوویؒ) بہ ذیل مذکورہ بالا حدیث

[43] ڈاکٹری تحقیقات‘ ابھی ان پر منکشف نہ ہوئی ہوں گی، ورنہ حفظانِ صحت کے وہ بھی کچھ ایسے منکر نہ تھے! یہ ایک اصولی مسئلہ تھا۔ دوسری طرف اہلِ ایمان بھی محض کسی ’طبی‘ بنیادوں پر اتنا سارا گوشت ’ضائع‘ کردینے پر مصر نہ ہو رہے تھے! روا و ناروا اور دستور و نادستور کے پیمانے کون صادر کرے، خدا یا مخلوق؟ اصل سوال اور اصل نزاع یہ تھا۔

[44] دیکھیئے تفسیر ابن کثیر بہ حوالہ عکرمہ عن ابنِ عباس، مفسر سدی، مجاہد، ضحاک و دیگر علمائے سلف، بہ ذیل سورہ الانعام آیتت121

[45] دیکھیے تفسیر ابنِ کثیر بہ ذیل الانعام121

[46] فی ظلال القرآن جلد:3 صفحہ 154


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز