(کفار کے تہواروں کی حرمت و
شناعت پر قرآن، احادیث اور اجماع سے استدلال کرنے کے بعد.. آخر میں ابن تیمیہ رقم طراز ہیں):
کفار خواہ کتابی ہوں یا اُمی،
دین اسلام میں ان سب کی عیدیں ایک ہی جنس ہیں؛ بعینہٖ جس طرح ان سب کا کفر اپنے
حرام اور ناپسندیدہ ہونے میں ایک ہی جنس ہے۔ بے شک کسی ایک ملت کا کفر دوسری کے
کفر کے مقابلے میں شدیدتر ہو مگر اپنے حکم کے اعتبار سے مسلمان کے لیے یکساں ہیں۔
تاہم یہ درست ہے کہ اہل کتاب کو اُن کے دین پر چھوڑ دیا گیا، جبکہ اُن کے دین میں
اُن کی عیدیں اور اُن کے تہوار بھی آتے ہیں۔ لیکن اُن کے ساتھ دورِ عمرؓ میں
(ازروئے صغار: آیت ۲۹ سورۃ توبہ) شرط یہ رکھی گئی کہ وہ
اپنے شعائر دین کو ظاہر باہر نہ کریں گے۔ جبکہ امیوں کو (جزیرۂ عرب میں) سرے سے نہ
رہنے دیا گیا۔
تاہم یہ بات بھی مدنظر رہے کہ:
ö
امیوں
کے جن تہواروں کو ختم کیا گیا وہ عموماً لوک میلوں کی صورت میں پائے جاتے
تھے
ö
جبکہ
اہل کتاب کے تہوار وہ ہیں جن کو وہ دین سمجھ کر مناتے
ہیں۔
اِس لحاظ سے کفارِ اہل کتاب کے تہوار اُمی کافروں کے لوک میلوں
کی نسبت کہیں سنگین تر ہیں۔ ایک شخص خدا کی حرام کردہ اشیاء کے ذریعے اپنے نفس
کی خواہشات پوری کرتا ہے تو وہ اتنا سنگین نہیں جتنا وہ شخص جو خدا کی حرام کردہ
اشیاء کو خدا کے تقرب کا ذریعہ بنائے بیٹھا ہے۔ اول الذکر بات امیوں کے میلوں پر
زیادہ صادق آتی ہے تو ثانی الذکر اہل کتاب کے تہواروں پر۔ یہی وجہ ہے کہ شرک زنا
سے بڑا گنا ہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب سے جہاد کرنا بت پرستوں کے خلاف جہاد
کرنے کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ نیز جس مسلمان کو اہل کتاب شہید کریں اُس کو
دہری شہادت کا اجر ملتا ہے۔
اب
جب یہ واضح ہے کہ شارع نے بت پرستوں کے تہواروں کو سرے سے ختم کرکے رکھ دیا،
باوجود اس کے کہ (حدیث کی رو سے) شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ جزیرۂ عرب
میں بت پرستی کا دور دورہ کروادے... تو پھر کتابی کفار کے شعائر سے چوکنا رہنا تو
اور بھی ضروری ہے۔ پھر جبکہ رسول اللہﷺ نے جو
پیشین گوئی فرمائی ہے وہ یہ نہیں کہ مسلمانوں میں اُمی (بت پرست) کفار کی پیروی ہونے
لگے گی؛ بلکہ پیش گوئی آپﷺ نے یہ فرمائی کہ: مسلمانوں میں کتابی کفار کے راستے اور
طورطریقے عام ہونے لگیں گے۔