فص13
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
کفار کے تہواروں کا حکم؟
(جس شخص پر واضح ہے کہ شرعِ اسلام اپنے پیروکاروں کو باطل شریعتوں
اور کافر ملتوں سے بیزار کرانے میں کس قدر صریح ہے، وہ تو کبھی یہ نہ کہے گا کہ اہل
باطل کی مذہبی رسوم میں شرکت کے منع ہونے پر
شریعت سے کوئی خصوصی نص لا کر مجھے دکھاؤ! ایسا تقاضا والے کو ’نصوص‘ سے پہلےاسلام کا وہ بنیادی عقیدہ
ہی اچھی طرح پڑھ لینا چاہئے جو تشکیلِ ملت کے وقت اہل ایمان کے قلوب میں جاگزیں
کرایا گیا تھا۔ آج دورِآخر میں جا کر ایسے سوالات اٹھنے لگے جو چودہ سو سال سے
مسلم معاشروں کے اندر کبھی نہ اٹھے تھے اور نہ ان کی توقع تھی تو اس کی وجہ یہی ہے
کہ تمام تر انحطاط کے باوجود ’’ملتوں کا فرق‘‘ مسلم ذہن سے کبھی اوجھل نہ تھا۔ البتہ آج یکلخت
جو دین کے اِس بنیادی سبق پر گرد ڈالی جانے لگی تو ایسےایسے انہونے سوالات اٹھ آئے
جنہیں قرنِ اول کا مسلمان سنتا تو دم بخود رہ
جاتا! یاد رہے، امام ابن تیمیہ کی تالیف ]اقتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ مُخَالَفَةَ
أصْحَابِ الْجَحِیْمِ ’’تقاضا کرنا صراط مستقیم کا، کہ خلاف کریں دوزخی
ملتوں کے‘‘[ بنیادی طور پر اِسی سبق کو ذہن نشین کرانے کےلیے
ہم یہاں پڑھ رہے ہیں):
اہل کفر
سے معاملہ کرنے کی بابت جب کچھ اصول طے ہوگئے (دیکھئے پچھلی فصول)، تو اب ہم کہیں
گے کہ تہواروں کے معاملہ میں اہل کفر کی موافقت حرام ہے، اور یہ دو بنیادوں پر:
پہلی
بنیاد:
اہل کتاب کی موافقت ایک ایسے
عمل میں
o
جو نہ ہمارے دین میں آیا
o
اور نہ ہمارے پہلوں کا
دستور رہا
کفار کے ساتھ ایسی موافقت نرا
دین کا ضیاع ہے اور اس میں اُن (باطل ملتوں) کی مخالفت دین کا ٹھوس پن اور خالص پن۔
یہ تہوار اگر ہمارے ہاں اتفاقیہ ہوتے (ہمارے ہی کچھ لوگوں نے گھڑ لیے ہوتے)
اور ان کفار سے نہ لیے گئے ہوتے تو ہمارے دین کی ہدایت ہوتی کہ ہم ان کی
مخالفت کریں۔ اس میں جو اُن کی موافقت
کرتا وہ اپنے حق میں یہ ایک بڑی شرعی مصلحت فوت کرلیتا۔ تو پھر ایسے تہوار کی بابت
کیا خیال ہے جو لیا ہی کفار سے گیا ہو؟
نیز نبی ﷺ کا فرمان: خَالِفُوا
الْمُشْرِکِیْنَ ’’مشرکوں کے خلاف کرو‘‘۔
اس سے پہلے؛ کتاب و سنت کے وہ
تمام دلائل جو ہم پر مغضوب علیہم اور ضالین کا راستہ چلنا حرام ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ
ان کا تہوار اُن کے سبیل (راستے) کا حصہ ہیں۔
یہ کیونکہ عمومی اصول ہیں اس لیے ان کی عمومی دلالت ہی اس
عمل کو ہمارے لیے حرام ٹھہراتی ہے۔ یہ تھا اس چیز کی حرمت کا اجمالی بیان۔
دوسری
بنیاد:
یہ کہ ہم خاص اِس عمل ہی کے
حرام ہونے پر اپنے شرعی مصادر سے دلائل لے کر آئیں۔ اب یہاں قدرے تفصیل سے اِن خصوصی دلائل کا بیان کیا جاتا ہے:
ایک فصل میں ہم ایک قرآنی آیت
کی دلالت بیان کریں گے کہ اہل جاہلیت کے تہواروں میں شرکت ایک شنیع (ناگوار) چیز
ہے۔ پھر چند فصول اِسی مضمون پر احادیث سے
لائیں گے۔ ایک فصل اجماع سے ملنے والے شواہد پر۔ اور آخر میں اِس مبحث کے کچھ
نتائج تلخیص کریں گے۔ (دیکھئے آئندہ فصول)
(کتاب
کا صفحہ426)
محدثین نے شرحِ حدیث میں بیان کیا: ہفتہ یہود کا۔
اتوار عیسائیوں کا۔ یعنی یہود اور نصاریٰ
ہردو کے مذہبی شعائر کا خلاف کرنا دین ہوا۔
(حدیث کی تخریج اور اس پر اشکال کے سلسلہ میں دیکھئے فصل:
اہل جاہلیت کے تہوار اور حدیثِ ام سلمہؓ)