عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
داعیوں کیلئے
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

  

فصل نہم

داعیوں کیلئے

 

أحب الصالحین ولست منہم لعلی أن البہم شفاعۃ

وأکرہ مَن تج ارتُہ المع اصی ولو کلُّناس واءفی البضاعۃ (۱)

داعی نہ ہوتے ہوئے دعوتی عمل کی بابت رائے دینا اصولاً زیادتی ہے۔ پھر بھی ایک عمل سے قلبی وابستگی ہونا اور اس کی کامیابی سے متعلق امید و فکر مندی سے کچھ حصہ پایا ہوناشاید ایک عذر کہلا سکے! اس مضمون میں ہماری گزارشات سمجھئے کچھ اسی حوالے سے ہیں..

جیسا کہ پیچھے ہم دیکھ آئے اور اس سلسلۂ مضامین کے آئندہ حصوں میں بھی اس کی بعض اہم جہتوں کا جائزہ لیں گے: "توحید" کو بنیاد بنا کر معاشرے پر اثر انداز ہونے کے یہاں بے پناہ امکانات پائے جاتے ہیں، کہ جس کے نتیجے میں یہاں ایک بےحد جاندار تبدیلی لے کر آئی جا سکتی ہے بلکہ یہاں کی ایک کایا ہی پلٹ سکتی ہے اور جو کہ اس با صلاحیت قوم کے حق میں حاملینِ عقیدہ کی جانب سے ایک بہترین خدمت ہو گی۔ قومی ”عطیہ جات “ میں اس قوم نے کبھی اس سے بہتر ہدیہ نہ پایا ہوگا۔

ان "بے پناہ امکانات" کو کما حقہ بروئے کار لانے کیلئے دو وصف ہیں جو اس میدان میں اترنے والوں کیلئے بنیادی اہلیت کا درجہ رکھیں گے: حد درجہ سنجیدگی اور حد درجہ ہوش مندی۔ یہاں ہم ان دونوں اوصاف پر کچھ گفتگو کریں گے۔

********

”سنجیدگی“ سے یہاں ہماری جو خاص مراد ہے وہ ہے اس ورثۂ پیغمبری پر آخری درجے کی استقامت، کسی تاثر، کسی رجحان اور کسی اصطلاح کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے اس راستے پر برقرار رہنا اور آخر تک اس پر ثابت قدمی اپنانا۔

ماحول کے اندر بُرا پڑ جانا انسان کو طبعی طور پر نا پسند ہے، جو کہ حرج کی بات نہیں۔ یہ ایک بے حد صحت مند انسانی رویہ ہے اور ایک جائز و معقول امر۔ عزتِ نفس سے بڑھ کر کوئی چیز انسان کیلئے اہم نہیں۔ مگر ہر جائز امر کچھ حدود کا پابند بھی ہے۔ جس طرح کہ جان، مال، رشتے، کنبے سب انسانی زندگی کے جائز مطالب ہیں اور اسلام ان امور کو سب سے بڑھ کر اعتبار دیتا ہے، بلکہ علمائے اصول انہیں باقاعدہ ضروریاتِ شریعت میں بیان کرتے ہیں، مگر جان، مال اور رشتے ناطے ایسی جائز چیز کا کسی وقت خدا کی راہ میں قربان کردیا جانا بھی شریعت ہی کی رو سے لازم ہو سکتا ہے۔ ہاں جب ایسا ہو جائے تو بہت سے جائز امور ناجائز کے حکم میں آجاتے ہیں۔

خوفِ ملامت کا بھی ایک معقول اور متوازن شخص کے حق میں کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جاہلی ماحول میں ایک موحدانہ کردار اپنا رکھنا، خصوصاً ایک ایسے شخص کیلئے جو معاشرے کے اندر تبدیلی لانے پر یقین رکھتا ہو، کسی وقت اس اندیشۂ ملامت کا روادار نہ ہونے کا متقاضی ہوتا ہے۔ معاشرتی عمل کے کچھ جائز مطالب تب ناجائز بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خدا کی راہ میں ہو تو کیا پروا، دنیا اپنی تمام تر وسعت اور طول وعرض اور درازیِ عمر سمیت آخر ہے کتنی!

یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑھ کر نفسیاتی اور اعصابی اذیت اپنے اپنے دور میں انبیا کو اٹھانا پڑی، باوجود اس کے کہ وہ اپنے دور کے معقول ترین اور باعزت ترین انسان تھے اور معاشرتی رجحانات کو سب سے زیادہ جاننے اور زمانے کی رمزوں کو سب سے زیادہ پہنچاننے والے۔ مگر اس امتحان میں ہر کسی کو اپنے اپنے رتبہ کے بقدر حصہ ملا۔ انبیاءاور صلحاءنے اسے باقاعدہ اختیاری طور پر قبول کیا جبکہ ایسا نہ کرنے کے ان کے پاس بہت سے چناؤ تھے بلکہ بہت بہت دلفریب پیشکشیں بھی۔

در اصل یہ عتاب ہی جو جاہلیت کی جانب سے ملتا ہے دوسری جانب خدائے ذوالجلال کی رضا اور بعد ازاں اہل حق کی پسندیدگی اور نیک دعاؤں میں تبدیل جاتا ہے۔ ایسے بھی خوش قسمت ہیں جو زمین پر گالیاں کھاتے ہیں اور آسمانوں میں اپنے نیک تذکرے کراتے ہیں۔ جتنا بڑا اس عتاب کا حجم ہو گا اتنا ہی بڑا اس کا بدل۔ گو یہ ایک عزیمت چاہتا ہے مگر یہ آپ ہی اپنا صلہ بن جاتا ہے۔ اس کا ظاہر عذاب ہے اور اس کا باطن رحمت۔

جاہلیت کیا ہے؟ یہ ایک ایسی واردات کا نام ہے جو انسانی شعور کی دنیا میں حق کی زمین دبا لینے سے وجود میں آتی ہے۔ پس معاشرے کے اندر ایک چور کی طرح اسے چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ معاشرے کے اندر کسی انسانی جمعیت کا حق پہ قائم پایا جانا اس کیلئے خاص طور پر سوہانِ روح ہوتا ہے۔ بسا اوقات حق کے بولنے سے پہلے یہ بول پڑتی ہے۔ دوسری جانب باطل کو انسانی شعور سے بے دخل کرنا حق کا مطلبِ اولین ہے۔ اس سے بہر حال کوئی مفر نہیں۔ حق اور باطل کی یہ سرشت اور ان دونوں کے مابین معارضت کا یہ رشتہ منجانبِ خداوندی ہے(2)۔ یہ کسی کے ہاتھوں بدلنے کا نہیں۔

البتہ جاہلیت کے بھڑک اٹھنے کا ایک وقت ہے۔ یہ حق بے شک انسانی شعور اور انسانی سماج سے باطل کو بے دخل کردینے کیلئے ہے، مگر جب تک یہ کتابوں اور مخطوطوں اور مجلوں میں پڑا رہے کسی کو ہو سکتا ہے اس کی بہت پرواہ نہ ہو۔ البتہ جب اس کو کچھ "لوگ" مل جائیں خصوصاً اگر وہ باصلاحیت بھی ہوں اور اپنے دور کی زبان بول سکتے ہوں اور اس کو لے کر معاشرے میں آگے بڑھنے اور آخر تک چلنے پر مصمم ہوں تو اس سے بُرا شگون جاہلیت اپنے حق میں کسی بات کو نہیں پاتی۔ وہ فریق جو دوسرے کی چیز دبائے بیٹھا ہو اس کے حق میں ’رواداری‘ سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے!؟

پس شرک اور باطل پر آپ جب بھی ہاتھ ڈالنے کیلئے آگے بڑھیں گے جاہلیت بری طرح آپ پر غرائے گی۔ شور مچائے گی۔ ہر انداز میں آپ پر حملہ آور ہو گی اور جو کچھ اس سے بن پائے وہ کرے گی۔ جو حربہ سب سے مؤثر ہوگا اسی کو سب سے زیادہ آزمائے گی۔ البتہ اگر آپ باطل کو جڑ سے ہاتھ نہیں ڈالتے (ہماری مراد ہے ایک نظریاتی وعقائدی و تہذیبی سطح پر) تو وہ بڑی حد تک آپ کے منہ نہیں آئے گی۔ ’رواداری‘ کے عوض جاہلیت کی یہ خاموش اور فیاضانہ پیش کش ہمیشہ ہی جاہلیت کی جانب سے قائم رہی ہے اور یہ ہرگز کوئی ایسی پتے کی بات نہیں جس کا آج ہمیں کامیابی کے نسخے کے طور پر انکشاف کر کے دیا جائے:

قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ(87 - ہود)

"کہنے لگے: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے آئے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کا حق نہ ہو؟ تو تو بڑا معاملہ فہم ہے اور اچھی سمجھ کا مالک"

وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (القلم: 9)

یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ مداہنت کریں

البتہ حق اور باطل کے مابین وہ رشتہ جو ازل سے خدا نے رکھ دیا ہے اسی کو لے کر آپ اگر عمل کی دنیا میں اترتے ہیں تو آپ کے خلاف ہر ہتھیار برتا جائے گا۔ جان دے دینا داعیوں کیلئے شہادت کا درجہ رکھتا ہے البتہ معاشرے میں ناپسندیدہ بنا کر رکھ دیا جانا ہر کسی کے سہنے کا کام نہیں۔ ایسی صورت میں دعوت کا عَلَم اٹھانا تو خیر بڑی ہی عزیمت کا کام ہے باطل کے قطعی ابطال اور حق کے قطعی احقاق کے معاملہ میں آدمی کا اپنے نفس کی دنیا میں قائم و ثابت قدم رہنا ہی ایک معنی رکھتا ہے، خصوصا عمل کی صلاحیت سے بھرپور ایک شخص کیلئے۔ نفسیاتی کشمکش دعوتی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ ہے۔ گو یہ مرحلہ اپنے اثرات میں دور رس بھی اتنا ہی ہے۔

جاہلیت جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے، آسانیِ مبحث کیلئے اسے عموماً ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ماقبل استعمار جاہلیت (وہ شرک اور گمراہی جو مختلف شکلوں میں تمام تر صدیاں ہمارے معاشروں پر حملہ آور رہی) اور مابعد استعمار جاہلیت۔ اگر آپ شرک اور کفر کی بات کرتے ہیں تو شرک اور کفر پرانی جاہلیت میں بھی ہے اور شرک و کفر نئی جاہلیت میں بھی ہے۔ اگر آپ اس سے کمتر درجے کے انحراف کی بات کرتے ہیں تو وہ پرانی جاہلیت میں بھی ہے اور نئی میں بھی۔ آپ پرانی جاہلیت کو ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ اپنے انداز میں آپ پر غراتی ہے۔ جدید جاہلیت کے لئے خطرہ بنتے ہیں تو وہ اپنے اسلوب میں مشتعل ہوتی ہے۔ عافیت کا یہ بھی ایک طریقہ دریافت ہوا ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی جاہلیت کی مخالفت مول لی جائے اور دوسری کو یا تو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے یا اس سے سازگاری کرلی جائے!

چنانچہ کچھ لوگ یہاں آپ کو پرانے شرک کی چند صورتوں سے برسرِ پیکار نظر آئیں گے اور جدید شرک کی جان بخشی پر پوری طرح آمادہ۔ جبکہ کچھ لوگوں کو آپ گمراہی کی بعض جدید صورتوں سے کسی نہ کسی انداز میں اور کسی نہ کسی سطح پر الجھتا دیکھیں گے جبکہ پرانے شرک کے ساتھ آپ ان کو اتحاد اور یکجہتی تک کرتا پائیں گے۔

شرک سے ایک اصولی انداز کی مخاصمت اور ملتِ شرک سے ایک کلی و مطلق بیزاری سمجھئے ایک جنسِ نایاب ہے۔ اس پر آتے ہوئے آدمی کو محسوس ہوتا ہے پوری دنیا اسے رد کردے گی۔ یہ ایک اعصاب کی کشمکش ہے اور کٹھن آزمائش۔ اس میں آدمی کا سہارا قرآن ہوتا ہے۔ خدا کی محبت اور اس کی عظمت کا وہ تصور ہوتا ہے جو حق رکھتا ہے کہ اس کی حمایت میں ساری دنیا سے بگاڑنا پڑتی ہے تو آدمی بگاڑ لے۔ یہاں آدمی کا سہارا خدا کا ذکر اور مناجات ہوتی ہے اور تبتّل(3) ۔ دنیا کے کم مایہ ہونے کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی وسعت اور دوام کا تذکرہ اور وہاں انبیا و صالحین کی بیٹھکوں میں جگہ پانے کی طلب۔

ملتِ شرک سے ایک اصولی انداز کی مخاصمت اور اس کے ساتھ ایک غیر اختتام پذیر کشمکش کو لازم جاننا معاشرے کے اندر آپ سے جس انداز کا تشخص رکھنے کا تقاضا کرے گا اس کا تذکرہ لوگ انتہا پسندی اور کٹر پن اور جنونیت ایسے الفاظ میں کرتے عام سنے جائیں گے۔ ایسا تشخص اپنا کر دعوت کی کامیابی کی امید تو کیا آدمی کو معاشرے میں اپنا جینا ہی دوبھر لگتا ہے، الا یہ کہ معاشرے میں بسنے والا وہ ایک بھرپور شخص نہ ہو اور عزتِ نفس کی قربانی کرنا اس کیلئے کوئی بڑی بات نہ ہو؛ جو کہ معاشرتی رجحانات پر اثر انداز ہونے کا ویسے ہی اہل نہ ہوگا۔ دینداروں کا وہ طبقہ جو ایک دنیا بیزار اسلوب رکھتا ہے اور جو کہ چاہے بھی تو معاشرے کو اپنی شخصیت کی وجاہت سے متاثر نہیں کر سکتا ’حق سے تمسک‘ کے نام پر معاشرے کے ساتھ اپنی ایک مخصوص انداز کی منفیت کو یہ طبقہ گو کسی وقت ’شیوۂ پیغمبری‘ بھی سمجھ بیٹھتا ہے مگر در حقیقت یہ طبقہ شخصیت کی قربانی کا مفہوم تک بمشکل تصور میں لا سکتا ہے۔ البتہ معاشرے کا ایک بھرپور شخص، جو کہ تبدیلی کے اس عمل کی اصل ضرورت ہے، معاشرے کے عین گھمسان میں رہ پانے والا یہ شخص ملتِ شرک سے براءتِ ابراہیمی اپنا رکھنے کا ایک حد سے بھاری بوجھ محسوس کئے بغیر نہ رہے گا۔ جس کو یہ بوجھ لگے گا اور جتنا لگے گا وہی شخص اور وہی طبقہ جب یہ بوجھ اٹھانے کیلئے آگے بڑھے گا تو معاشرے کے اندر اصل تبدیلی محسوس ہونے لگے گی۔

یہ درحقیقت ایک بڑی ہی عزیمت کا کام ہے۔

ہاں یہ ہے کہ یہ گھاٹی تنگ ہوتے ہوتے ایک خاص جگہ پہنچ کر وسیع ہونے لگتی ہے اور پھر راستہ خودبخود کھلا بھی ہونے لگتا ہے.. البتہ یہ اس صورت میں جب عزیمت کے ساتھ ساتھ ہوشمندی اور زیرک پن سے بھی کام لیا گیا ہو اور معاشرتی رجحانات پر غالب آنے کی درست حکمت عملی بھی اس عمل کے ہر مرحلے میں اختیار کر رکھی گئی ہو، جس پر کہ ہم ذرا دیر بعد آئیں گے۔

*********

"ملامت" کے ضمن میں.. یہ بھی واضح رہے کہ اس سے مراد ضروری نہیں لُغوی معنی میں گالیاں اور دشنام طرازیاں ہی ہوں۔ ہر زمانے کی جاہلیت در اصل اپنے اپنے انداز سے اسلام کے حقائق سے برسرِ جنگ ہوتی اور ان کو از کار رفتہ چیز قرار دلواتی ہے۔ ہر دور اور ہر ملک میں حقیقتِ توحید اور سنتِ انبیا پر قائم لوگوں کو دقیانوسی کہنے کا اپنا ایک اسٹائل اور فیشن ہوتا ہے اور ان اسالیب کے دھڑادھڑ مقبول ہو جانے کیلئے شیطان نے ایک خاص کشش اور ایک خاص ترنگ پیدا کر رکھی ہوتی ہے(4)۔ ہر آدمی ہر لکھاری اٹھ اٹھ کر ان عبارتوں کو دہراتا اور اپنے ’زمانہ شناس‘ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ علاوہ ازیں، طرح طرح کے عذر، طرح طرح کے دلائل اور حوالے، طرح طرح کے اندیشے آپ کی راہ میں کھڑے کردیئے جاتے ہیں۔ ڈرواے الگ ہوتے ہیں۔ پھر کبھی آپ کو ملک کا واسطہ دیا جاتا ہے کبھی قوم اور قبیلے کا وسیلہ۔ خود جیسے مرضی ملک اور قوم کا ستیاناس اور صبح شام اس میں تباہی کا سامان کریں البتہ دینِ توحید کے واقعاتی تقاضے بتانے پر اور لوگوں کو شرک اور طاغوت سے خبردار کرنے اور خدا کی ناراضی کے راستوں سے متنبہ کرنے پر ملک و قوم کی دہائی تک دے دی جاتی ہے اور بلکہ تو اس کو دشمنی ہی اپنے باطل طریقِ زندگی کی نہیں ’ملک و قوم‘ کی قرار دیا جاتا ہے تا کہ اس باطل کے دفاع میں ملک اور قوم ہی حق کے خلاف فریقِ نزاع بنیں اور اہل باطل اس کے نتیجے میں نہ صرف موج کریں بلکہ’ ملک اور قوم کے غم میں‘ حق کے خلاف کارروائیاں کرنے کے بھی مجاز ہوں۔

یہ ہے وہ نقطہ جہاں "سنجیدگی" اور "زیرک پن" ہر دو ناگزیر ہوتے ہیں۔

غرض کوئی ایسا بہانہ، کوئی ایسی حجت، کوئی ایسا واسطہ اورکوئی ایسا طعنہ جو معاشرے کو اللہ کا حق بتایا جانے کے کام کو روک دینے یا موخر کردینے یا پسِ منظر میں لے جانے کا سبب بنے وہی لومۃ لائم ہے۔ اس کا لحاظ کرنا یا اس سے دب جانا ایک موحد کی لغت سے خارج رہنا چاہیئے (گو اس سے ناواقف ہونا اور اس کے مضمرات جاننے میں ہی کوتاہ رہنا یا اس کے ساتھ مؤثر ترین تعامل اختیار کرنے میں چوبند نہ ہونا "ہوشمندی" کے منافی ہے)۔ "سنجیدگی" سے ایک ایسا ہی استقلال اور ثبات ہماری مراد ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ  (54- المائدۃ)

اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کردے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فصل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے(5)

اللہ تعالی نے اپنے دین اور بندگی کی جو بنیادیں ٹھہرا دی ہیں ان کو عین اسی انداز سے اور ایک پوری جرات و حوصلہ اور ایک خوئے بندگانہ اور کیشِ تسلیم کے ساتھ لے کر عمل کی دنیا میں آگے بڑھنا اور ان پر آخر وقت تک قائم رہنا اور اس معاملہ میں ہرگز کوئی تاخیر وتقدیم اور کوئی کمی و بیشی نہ ہونے دینا.. یہ عین اتباعِ انبیاءہے۔ ہم آج اگر یہ کام کریں گے تو ہرگز یہ کوئی نرالی بات نہ ہوگی۔ جاہلیت معاشرے سے اس پر ہمیں از کار رفتہ اور دقیانوسی قرار دلوانا چاہے گی اور مختلف حربے اپنا کر لوگوں کو نفسیاتی طور پر آمادہ کرے گی کہ وہ ہماری بات سننے سے پہلے رد کردیں، اور اسی پر اپنے ابلاغ کا پورا زور بھی صرف کردے گی، تو وہ کوئی نیا کام نہ کرے گی۔ نہ اسے اپنی رسم چھوڑنی ہے اور نہ ہمیں اپنی سنت! یہ ایک ہی کہانی ہے جسے ہر دور اور ہر معاشرے میں، جہاں جاہلیت پائی جائے اور جہاں موحدین پائے جائیں، دہرایا جانا ہے۔ البتہ اس کا نتیجہ ضروری نہیں ہر بار ایک ہی رہے کیونکہ اس بات کا انحصار __ قضا وقدر کے علاوہ __ اس چیز پر ہے کہ کونسا فریق اپنے کام میں سنجیدہ و سبک ثابت ہوتا ہے اور اپنا فرض پورا کرنے میں زیرک اور بہتر لائحہءعمل اختیار کرنے والا۔

سنجیدگی اور مؤثر لائحہءعمل.. یہی اس جنگ کے جیت لینے کا اصل راز ہے۔ یہ دنیا بہر حال اسباب کی دنیا ہے۔

********

"ہوشمندی" اور "مؤثر لائحہءعمل" کی ہزار ہا جہتیں ہیں، یہاں ہم اس کی ایک اہم جہت ہی بیان کریں گے، کیونکہ جس خاص ماحول میں اس وقت ہم ہیں، شاید اسی کا سوال یہاں سب سے پہلے اٹھنے والا ہے۔

زیرک اور ہوشمند ثابت ہونا ہمیں خدائی ہدایت ہے:

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (108 - الانعام)

اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کریں گے۔ ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے(6)

مقصد یہاں آیت کا "ترجمہ" کردینا نہیں۔ مسئلۂ زیرِ بحث کفار کے بتوں کو "گالیاں" دینا یا نہ دینا بھی نہیں۔ آیت کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے۔ اصولِ فقہ کے علما "سدّ الذرائع" کا اصول ثابت کرنے کیلئے اسی آیت کو دلیل کے طور پر لاتے ہیں۔

مقصد یہ کہ اہلِ توحید پر صرف یہی فرض نہیں کہ وہ لومۃ لائم سے بے خوف ہو کر دکھائیں۔ جاہلیت کی چالوں کا پیشگی ادراک anticipation بھی ان سے برابر مطلوب ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کے حسبِ حال پیشگی اقدام pre-emptive measures اپنانے کی جانب بھی پورا پورا دھیان دینا ضروری ہے۔

چنانچہ "سنجیدگی" ہو بھی تو یہ جنگ "بے سمجھی" کے ہاتھوں ہاری جا سکتی ہے۔ یہاں ہر معاملے میں پورا اتر کر دکھانا لازم ہے:

وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ (الروم: 60)

 

یہ بے یقین لوگ ہرگز تجھے ہلکا نہ پائیں

یہ دو وصف داعیوں میں آجائیں تو پھر جاہلیت کے معاشرے میں پیر اکھڑنا یقینی ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پھر یہ دنوں کی بات رہ جاتی ہے۔

********

پس یہ دونوں محاذ ہمارے لئے بے حد اہم ہیں۔ اب آئیے اس خاص مسئلے کی طرف جو "مؤثر لائحہءعمل" کے حوالے سے شاید یہاں سب سے اہم سوال بننے والا ہے، اور شاید فوری ترین بھی....

یہ تو واضح ہے کہ ہم یہاں ایک بہت ہی بنیادی تبدیلی کی حامل موحدانہ اپروچ متعارف کیا جانے کے مؤید ہیں جو کہ کسی بڑی تحریکی سطح پر یہاں فی الواقع اس وقت نہیں پائی جاتی۔ فرض کیجیئے یہ اپروچ اپنانے کی یہاں کچھ باصلاحیت لوگوں کو توفیق ملتی ہے، گو ہماری یہ دعوت ہرگز نہیں کہ وہ کوئی نئی جماعت یا تنظیم ہو بلکہ ہماری تجویز یہی ہو گی کہ وہ اہلسنت کے موجود الوقت تجمُّعات (جماعتوں، تنظیموں،مکتب ہائے فکر، مساجد، منابر، مدارس، اداروں، انجمنوں، رسالوں، فورموں وغیرہ وغیرہ) ہی کے اندر اور اپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہوئے ہی اس اپروچ کو ایک مناسب انداز میں نمایاں اور مقبول کرانے کی کوشش کرے اور اگر ایسا ہوتا رہے تو اہلسنت کے انہی تجمعات کے بڑے حصوں کو، ان کا تنوع برقرار رکھتے ہوئے، تبدیلی کے ایک ڈائنامک عمل سے گزارا جا سکتا ہے اور یوں ان میں پایا جانے والا ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر ہی رہ کر بے انتہا مؤثر ہو جائے گا..)

اب اگر اس بنیادی تبدیلی کی اپروچ کو لے کر چلنے کی کچھ لوگوں کو توفیق ملتی ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کا یہاں پائے جانے والے اپنے اس دیندار طبقے کے ساتھ تعامل کی نوعیت کیا ہوگی جو اس تبدیلی کو تا حال یہاں کی کوئی بڑی ضرورت نہیں جانتے یا جو سرے سے اس سے متفق نہیں؟

اس بحران کا جو کہ در اصل ایک گنجلک ہے پیچھے ذکر ہو چکا۔ صورتحال یہ ہے کہ اس کی پیچیدگیوں کو __ جن کی پشت پر بے شمار عوامل ہیں اور جن میں "اصولِ اہلسنت" کا ایک بڑی سطح پر روپوش ہونا، فقہِ توحید کا درست طور پر عام نہ ہوا ہونا، اور جدید پڑھے لکھے طبقے کو، سوائے کچھ جدت پسند افکار کے، ایک ٹھیٹ مگر عصری انداز سے دینی وعلمی رہنمائی نہ ملی ہونا سرِ فہرست ہیں __ ان پیچیدگیوں کو دنوں کے اندر دور کردیا جانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ تحمل اور بردباری کے سوا یہاں کوئی چارہ نہ ہوگا۔ واقعتاً مسئلہ صرف زور لگانے کا نہیں۔ معاملہ فہمی اور عمیق طرز تفکیر آنے والے دنوں میں یہاں کے موحد تحریکی جوانوں کا ایک بڑا سرمایہ ہوگا۔

موجودہ تحریکوں کے ساتھ، بلکہ کوئی ان کا حصہ ہے تو انہی کے اندر رہتے ہوئے، صبر کرنا اور ان کے ساتھ لمبا اور دور تک چلنا یہاں ایک ناگزیر امر ہے اور اس میں ان شاءاللہ خیر ہی خیر ہے۔

آپ کی اصل مڈبھیڑ جب بھی ہو یہاں کی کھلی کھلی جاہلیت اور یہاں پائے جانے والے شرکِ بواح سے ہی ہو نہ کہ یہاں کے ان دیندار طبقوں سے جن کو نواقضِ اسلام کے کھلے کھلے ارتکاب سے اللہ تعالیٰ نے بچا رکھا ہے، چاہے آپ کا ان سے ویسے کتنا بھی اختلاف کیوں نہ ہو۔ اس امر کو نظر انداز کردیا جانا اس بحران کو جس کا پچھلی فصول میں ذکر ہوا بے اندازہ بڑھا دے گا تاآنکہ اس کا پھر کوئی سرا ہی نہ ملے۔ بلکہ یہ اس بحران کی ایک نئی پیچیدگی ہوگی جو کہ اس کے خاتمہ کی راہ کو پہلے سے بھی دشوار کردے گی۔

بے شک کئی ایک دینی حلقوں میں آپ کی بات کو جو کہ اسلام کے ٹھیٹ حقائق پر مبنی ہوگی چٹکیوں میں اڑا دیا جائے گا، آپ کی بات کو جو کہ خالص اسلام کی دعوت ہوگی پورا ہونے سے پہلے ختم سمجھا جائے گا اور سننے کی ضرورت تک محسوس نہ کی جائے گی، پھر بھی آپ کو اپنی بات ہی سمجھانا ہوگی۔ وہ سب "تاثرات" جو جاہلیت خالص اسلام کی بابت قائم کرتی ہے ان سب سے یہاں بھی آپ کو واسطہ پڑ سکتا ہے۔ ایک ماحول کا اسلامی اور دینی ہونا ضروری نہیں لازماً یہ مطلب رکھے کہ جاہلیت کی عام کردہ "اصطلاحات" یہاں مستعمل نہیں۔

ہمیں یہ نظر انداز نہ کرنا چاہیئے کہ دو سو سال تک اس معاشرے کی صورت گری ایک خاص نقشے پر ہوئی ہے اور اس کے لازماً اپنے اثرات ہوں گے جن سے بہت اچھے اچھے مخلص لوگ بھی شاید نہ بچ پائے ہوں اور کچھ نہ کچھ اثر تو اس آلودہ فضا سے شاید ہم میں سے ہر ایک نے لیا ہو۔ پس اس "تطہیر" پہ خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ "صبر" کی انتہا کرنا ہوگی۔

ماحول کے اثرات لینے کے باعث ہو سکتا ہے ہمارے بہت سے اسلام سے مخلص احباب اسلام کیلئے انہی میدانوں میں اور انہی اسالیب کے ساتھ سرگرم ہونے پر اپنے آپ کو تیار پاتے ہوں جن پر جاہلیت ابھی نہ تو لطیفے اور چٹکلے چھوڑنے کی زیادہ ضرورت محسوس کرتی ہے اور نہ جاہلی ذرائعِ ابلاغ اس پر ان کے کچھ بہت زیادہ لتے لیتے ہیں اور نہ ہی دینی کام کے ان محاذوں پہ سرگرم ہونے یا اسلام کے ان شعبوں میں مصروفِ تحقیق ہونے پر ماحول سے ان کو کوئی ایسے برے کوسنے ملتے ہیں جن کا برداشت کرنا آدمی کیلئے کوئی بہت بڑا امتحان ہو.. نہ صرف یہ بلکہ ان نسبتاً بے ضرر مصروفیات پر جاہلیت ان کو کسی نہ کسی حد تک قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتی ہو یا کم از کم ایسا تاثر ضرور دیتی ہو۔ خوش تو ظاہر ہے وہ کسی بھی مسلمان سے جو جاہلیت کا تاحال کھلا کھلا متبع نہیں کیونکر ہو سکتی ہے مگر کچھ شعبوں میں اسلام پسندوں کی سرگرمی اسے کچھ اور شعبوں میں ان کے سرگرم ہو جانے کی نسبت کمتر برائی نظر آتی ہے۔

یہ واقعہ ہے۔ اس کے باوجود یہ درست نہ ہوگا کہ ہم اپنے حق میں ادائے فرض اب اس بات کو سمجھ لیں کہ ان دیندار طبقوں اور ان کے سعی و جہد کے ان شعبوں کو اپنی تنقید کا تمام تر ہدف بنالیں جن میں مصروف رہ کر وہ اپنے اپنے انداز سے اسلام اور معاشرے کا کچھ نہ کچھ بھلا بہر حال کر رہے ہیں۔ ہمیں جو کام کرنا ہے وہ ان شاءاللہ خود انکے ان شعبوں میں بھی ایک خوبصورت رنگ بھرے گا۔ مسئلہ تو صرف ایک جہت دینے کا ہے اور وہ سمجھداری کی ایک خاص سطح چاہتا ہے۔ شیطان کا یہ ہم پر ایک بڑا حملہ ہو گا کہ اپنے ان دینی طبقوں کے ساتھ ہی ہم ایک محاذ چھیڑ لیں۔

ہم سے کچھ مطلوب ہے تو یہ کہ وہ اصل کام جو ہمارا خیال ہے کہ دوسرے دیندار معاشرے کے اندر نہیں کر پا رہے یا کسی وقت ہمیں خیال گزرتا ہے کہ ان میں سے کچھ اس فرض سے پہلو تہی برت رہے ہیں، اگر کر سکیں تو ہم وہ اصل کام کر کے دکھائیں اور ہم سے بن سکے تو دوسروں کیلئے اس راہ میں ایک ایسا نمونہ سامنے لے آنے کی کوشش کریں جو ممکنہ حد تک اوروں کی رہنمائی کرے۔ یہ ایک بڑی مشکل گھاٹی ہے جس سے ہمیں گزر کر دکھانا ہے اور اس پر خدا سے صبح شام مدد مانگنی ہے۔ ہمیں ہرگز معاشرہ فہمی کا زعم نہ ہونا چاہیئے اگر ہم اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ لوگوں کی بعض نظری غلط فہمیاں ایک "عملی نمونہ" پیش کردینے سے ہی دور ہوں گی نہ کہ لوگوں پر "تنقید" کرلینے سے۔ بخدا یہ ایک جان لیوا فرض ہے شیبتنی ہود وأخواتہا(7) وہ تو شکر ہے کہ یہ استطاعت سے مشروط ہے البتہ اس پر ایک عاجزی محسوس کرنے اور خدا سے بخشش اور توفیق کا سوالی رہنے کے سوا اپنے پاس کوئی چارہ نہیں۔

پس یہاں اگر کمی کسی بات کی ہے تو وہ یہ کہ اصل کام انجام دینے کا بیڑا اٹھایا جائے نہ کہ وہ لوگ جو کسی وجہ سے یہ کام نہیں کررہے ان کی مذمت۔ فرار کی در اصل یہ بھی ایک راہ ہے کہ یہاں کے بعض دینی حلقوں یا تحریکی شخصیتوں پر اٹھتے بیٹھتے تنقید کرلینے کو ہی اصل کام باور کیا جائے اور اسی کو دعوتِ توحید اور قیامِ شریعت!!

أسأل اللہ السلامۃ والعافیۃ

********

معاملہ یہ ہے کہ عرصۂ دراز سے یہ محنت ادھوری پڑی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے جس جس پر یہ بحران واضح ہو جائے وہ اس محنت پر جت جائے اور پتہ مار کر اس پر لگا رہے۔ ابھی بڑی دیر تک کسی سے گلہ کرنے کی یہاںکوئی گنجائش نہیں۔ ضروری ہے کہ معاشرے میں بڑی دیر تک اس پر ایک زور دار محنت ہی ہوتی رہے(8)۔ ایسی محنت ہوئے بغیر اپنے تحریکی حلقوں اور دانشور طبقوں سے نا امید ہونا ایک منفی رویہ ہوگا۔ امتِ محمد ﷺ میں بہت خیر ہے۔ البتہ دین سے وابستہ تعلیم یافتہ طبقوں کو اس طرف کو لے آنے پر ایک انتھک کام ہونا باقی ہے۔ اس کام پر جت جائے بغیر نتائج کی امید رکھنا بھی اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ نتائج سے مایوس ہو جانا۔

رہے عوام تو ان کا درجہ اس محنت کے ہونے میں اور پھر اس محنت کے نتائج سے مایوس یا پُرامید ہونے کے معاملہ میں خواص کے بھی بعد آتا ہے۔ ابھی تو معاشرے پر کام ہی کب ہوا ہے؟ ابھی شکوہ یا عتاب کی گنجائش کہاں؟ ابھی سے لوگوں کو قصور وار ٹھہرانے لگ جانا ہدف کو قریب کرنے کی بجائے دور تر ہی کرے گا۔

ہماری اس کمی اور ہمارے ہاں پائے جانے والے اس خلا کا بھی ہمارا دشمن مقامی اور عالمی سطح پر بڑی بے رحمی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ہم اس کے سبب اپنے ان بہت سے مخلص عوام اور خواص کی تایید تک کھو بیٹھتے ہیں جن کو اصولاً، اور اسلام سے اپنے خلوص اور محبت کے سبب، جاہلیت کے ساتھ ہمارے اس معرکے میں ہمارے ہی ساتھ کھڑے ہونا چاہیئے یا کم از کم ہمارے خلاف صف آرا نہیں ہونا چاہیئے۔ چنانچہ معاشرہ کی تعلیم کا یہ فریضہ تکمیل کو پہنچائے بغیر اور عقیدہ کی حقیقت کو معاشرے کے ایک مؤثر طبقے میں پذیرائی دلائے بغیر تو خود جاہلیت سے کوئی بڑا محاذ کھول لینا ایک غیر دانشمندانہ اور قبل از وقت اقدام ہوگا کجا یہ کہ اس مرحلہ میں ہم الجھ ہی اس طبقے سے جائیں جس کو یا تو بیچ میں رہنا ہے اور یا پھر ہمارے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور جو کہ جاہلیت کے ساتھ ہماری اس جنگ سے فی الحال واقف تک نہیں۔

معاشرے پر کام کئے بغیر پرایوں سے بھی کسی بڑی سطح پر آمادۂ جنگ ہو جانا پس ایک فاش غلطی ہوگی کجا یہ کہ اپنوں ہی کے خلاف، یعنی اپنے دیندار طبقوں اور یہاں دین کے عالموں اور دانشوروں، کے خلاف ہی ہم کوئی محاذ کھول لیں۔ ایسا کرکے ہم باطل کا ایک بہت ہی بھلا کریں گے۔ یوں اس کو معاشرے میں اپنے پیر مزید جمانے اور اسلام کو معاشرے سے بے دخل کئے رکھنے کیلئے کوئی تکلیف کرنے کی ضرورت ہی نہ رہنے دیں گے۔ ہم آپس میں الجھتے رہیں، باطل کو اس کے سوا اور کیا چاہیے؟ اسے اس سے کیا غرض ہم میں سے کس کی ’دلیل‘ زیادہ قوی ہے!!!

********

توحید اور عقیدہ کی دعوت، یا سماحی ذمہ داریوں، یا معاشرتی رجحانات یا عصری معضلات کے معاملہ میں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ علما اور دانشوروں پر کام کرنے کی بھلا کیا گنجائش باقی ہے اور یہ کہ یہ تو سب کچھ جانتے بوجھتے اور ہم سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں پس ان کو تذکیر و یاددہانی کروانے کی کیا ضرورت۔ ان سے تو بس یا گلہ ہو یا ان کی مطلق تعظیم!!! یہ بھی ایک غلطِ تفکیر ہے اور واجبِ ازالہ۔ حق یہ ہے کہ عام اہلِ علم و دانش کی بابت نہ تو وہ افراط صحیح ہے اور نہ یہ تفریط۔

متعدد عوامل ایسے ہوئے ہیں کہ بہت سے اہلِ علم، دین کے کسی خاص شعبے میں ہی ماہر ہیں اور کسی خاص متعین میدان ہی کے شہسوار۔ اپنے اس خاص شعبے میں ایک عالم یا دانشور کو بہت اچھی دسترس ہوگی مگر دین کے کچھ دیگر علوم یا امور پر ہو سکتا ہے اس کی ویسی نظر نہ ہو۔ پھر کچھ اہلِ علم اپنی علمی مصروفیت اور سرگرمی کیلئے کچھ خاص فنون کا ہی انتخاب کر چکے ہوتے ہیں جو کہ ان کی صلاحیتوں سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور انہی پر ان کی زیادہ توجہ ہو جاتی ہے۔

دین کے معاشرتی فرائض اور توحید کا تحریکی پہلو چنانچہ ہو سکتا ہے بہت سے اہلِ فضل پر یا تو پوری طرح واضح نہ ہو یا پھر کم از کم بھی اس بات کی گنجائش ہو کہ ان کو اس جانب باقاعدہ توجہ کروائی جائے۔ فرض کی یاددہانی کی تو ہر کسی کو ضرورت ہو سکتی ہے۔

پھر بعض معاملات پر پائے جانے والے علمی مغالطوں اور فکری الجھنوں کے دور کئے جانے کی ضرورت بعض اہلِ علم کو بھی ہو سکتی ہے، بلکہ بعض پہلوؤں سے اس کی ضرورت ان کو شاید عوام سے زیادہ ہو، گو اپنے خاص شعبہ میں وہ اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے ہوں۔

جہاں تک صبر کی بات ہے تو وہ علما کے ساتھ بھی کرنا ہوگا اور عوام کے ساتھ بھی۔ توحید کی دعوت پر معاشرے میں کس قدر محنت ہونےکی ضرورت ہے اور ایک ایک شخص پر، خصوصاً علما اور دانشوروں کے معاملہ میں، کس قدر کام ہونا باقی ہے اس کا اندازہ آئیے ایک واقعے سے کریں:

برصغیر کے کسی بڑے عالم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ محمد بن عبدالوہاب کا ہمیشہ برے الفاظ میں ذکر کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ ان کی دعوتِ توحید سے مخاصمت نہ تھی بلکہ صورت حال کا ان پر واضح نہ ہو پانا تھا۔ کوئی صاحب جو طرفین سے حسنِ ظن رکھتے تھے، کہ معاملہ فہمی سے وافر حظ پایا تھا، ان کے پاس محمد بن عبدالوہاب کی "کتاب التوحید" باہر کے چند ورق پھاڑ کر لائے تاکہ مؤلف کا نام وغیرہ ظاہر نہ ہو اور کتاب پر شیخ کی رائے جاننا چاہی۔ دین پر مشتمل حقائق، جوکہ کتاب وسنت سے براہِ راست لئے گئے تھے، شیخ کو برے کیوں لگتے۔ شیخ نے کتاب پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ پھر کچھ اور کتابوں کے باہر کے ورق پھاڑے گئے۔ شیخ کو محمد بن عبدالوہاب کی "کشف الشبہات" دی گئی۔ "مسائل الجاہلیہ" کے مطالعہ کی نوبت آئی۔ پھر شاید کچھ اور مواد دیا گیا۔ کوئی بات غیر علمی تھی اور نہ شیخ کی نظر میں قابلِ اعتراض۔ اس کے بعد جب ان کو مؤلف کا نام معلوم ہوا تو، مشہور ہے، موصوف محمد بن عبدالوہاب کیلئے اکثر دعائے خیر کرتے پائے گئے۔

اس سمجھداری سے کام نہ لیا گیا ہوتا تو بعید نہیں شیخ کے حق میں یہ خوش نما دریافت ہونے سے ہمیشہ کیلئے رہ جاتی۔ بلا شبہہ ہمارے یہاں ایک بڑی تعداد اس ’دریافت‘ کے بغیر رہ رہی ہے۔

********

اہلِ توحید کے سامنے ایک اتنی بڑی مہم پڑی ہے کہ بیانِ حق کے سوا کسی اور بڑے کام کی حتی کہ کسی گلے شکوے کی بڑی دیر تک کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر اس مہم کے کچھ ابتدائی مرحلے کامیابی سے سر ہو جائیں تو پھر صورتِ حال کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔

سرِ دست ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ تاثرات اور غلط فہمیوں کا وہ انبار کم کیا جائے جس کے تلے توحید کے بہت سے حقائق دب کر رہ گئے ہیں۔ اس مسئلہ نے اپنوں کا جتنا نقصان کیا ہے پرایوں کا اتنا ہی بھلا کیا ہے۔ جاہلی قیادتیں میدان خالی پاتی ہیں تو سکھ کا سانس لیتی ہیں۔ ان کو سوائے کسی حد تک سیاسی شعبے کے، جہاں ہماری کچھ مذہبی جماعتیں اتحاد کرلیتی ہیں، معاشرے کے چہار اطراف کوئی چیلنج نہیں۔ جس کا موقعہ پا کر وہ بڑے ہی آرام سے معاشرے کو فساد اور تباہی کی طرف لئے جارہی ہیں۔ البتہ ہم دینی طبقے ایک دوسرے سے متعاون ہوں تو تب کسی اصل تعمیری شعبے میں نہیں اور کبھی ایک دوسرے سے الجھیں تو تب کسی بنیادی موضوع پر نہیں۔ یعنی حقیقتِ اسلام کی دعوت ہر دو صورت متاثر ہو۔

پورے صبر کے ساتھ ہمیں اپنا مقدمہ ہی پہلے یہاں پیش کرنا ہے اور اسی کو بڑی دیر تک سمجھانا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی چند افراد یا چند مساجد کی حد تک ہو تو ہو کسی بڑی سطح پر توحید کا مسئلہ واضح نہیں کیا۔ ہمارے بہت سے اسلام پسند طبقے ظاہر ہے کہ شرک نہیں کرتے۔ عام خیال یہی ہے کہ اس سے توحید کا حق ادا ہو گیا۔ اب ان کو یہ سمجھانا کہ "توحید" محض ایک اعتقاد نہیں بلکہ منہجِ انبیا کی رو سے یہ ایک مشن بھی ہے اور یہ کہ یہ "توحید" ہی ہے جو یہاں ایک جیتی جاگتی دعوت اور ایک شہ زور معاشرہ کھڑا کرسکتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز انہیں حاصل ہی نہیں جو ایک نئے معاشرے کو جنم دے ڈالے (جیسا کہ منہجِ رسل سے واضح ہے)، اور یہ کہ وہ "تبدیلی" جس کیلئے ہم کوئی سو سال سے ہلکان ہو رہے ہیں اس کی اصل بنیاد یہ "توحید" ہی ہو سکتی ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ ایک باقاعدہ تحریک میں ڈھلے اور معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ اور حق اور باطل کے مابین خطِ مفاصلت بنا دیا جائے.. توحید کے یہ سب افق ان کو دکھانا ایک محنت طلب اور صبر آزما کام ہے۔ مزید برآں یہ کہ شرک کے وہ نئے اور پرانے مظاہر جو یہاں پائے جاتے ہیں __ بلکہ ایک جڑی ہوئی بستی کی شکل دھارنے والی اس آج کی دنیا میں یہ مظاہر پورے کرۂ ارض پر جہاں بھی کہیں پائے جاتے ہیں __ اس سے انبیا کے سے انداز میں اختلاف اور براءت رکھنے کو اپنی پہنچان بنایا جائے.... دعوتِ توحید کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جو یہاں بہت کم لوگوں کے سننے میں آیا ہے۔ خصوصاً اس کے معاشرتی تقاضوں پر تو یہاں کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔ اس پہلو پر تشنگی یہاں حد سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

محمد بن عبدالوہاب کی کتب کے اردو تراجم ہو جانا اور سعودی کلچرل اٹیچی کے ہاں سے ان کی مفت تقسیم ہوتی رہنا اس باب میں ہماری کل ضرورت نہ تھی۔ بلکہ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کا یہاں سعودی چہرہ ہونا ایک اضافی پیچیدگی کا باعث بنا۔ ان "تراجم" کے علاوہ توحید پر الا ما شاءاللہ یہاں کیا کام ہوا؟ توحید کی دعوت کا ایک عصری انداز سے تو یہاں بیڑا ہی کس نے اٹھایا؟ آج کے سماجی و سیاسی Phenomenon کو سامنے رکھتے ہوئے توحید پر یہاں کس نے لکھا؟ "توحید" کو "تحریک" کا موضوع اور بنیاد بنانے پر یہاں کون کھپا؟ وقت کے علوم اور افکار کو "توحید" کی سان پر کسنے کا فریضہ یہاں کس نے انجام دیا؟(9)

یہ ایک بڑا خلا تھا جو ہمارے یہاں پایا گیا۔ اس کو مزید وسیع کردینے والی بات یہ ہوئی کہ توحید کی ترجمانی کا کام یہاں جس طبقے کے پاس عموماً رہا اس کیلئے توحید کی اپنے اس دور کے حسبِ حال ترجمانی کرنا تو مشکل تھا ہی پرانے روایتی مسائل کو بھی وہ صحیح طریقے سے پیش نہ کر پایا۔ پھر اس عمل میں جو بے قاعدگیاں پائی گئیں اور جن کی جانب پچھلی فصول میں ہم کچھ اشارہ کر آئے ہیں وہ اس پر مستزاد۔ پھر کیا بعید دین کے لئے کام کرنے والے بعض متحرک عناصر کو ان سب چیزوں نے متاثر کرنے کی بجائے توحید کے تحریکی پہلوؤں کی بابت کچھ الجھنوں میں ہی مبتلا کردیا ہو۔

اس خلا کو اب اور بھی وسیع کردینے کا ڈر جس بات سے ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ہم جیسے متوسط اہلیت کے لوگ جو کہ عالم ہیں اور نہ دانشور اور نہ کوئی جماعت اور نہ کوئی تحریک، البتہ توحید کو معاشرے کی روحِ رواں دیکھنے کے متمنی ہیں، یہاں کے بعض اسلامی حلقوں کو اس فرض میں کوتاہی برتتا دیکھ کر، جو کہ ایک واقعہ ہے مگر جیسا کہ ہم نے کہا بہت سے اسباب رکھتا ہے، ان کو خدا کے ہاں مجرم ٹھہرانے ایسا اسلوب اپنانے میں جلدی کریں۔ یوں توحید کی اصل خدمت اب ہم اس بات کو سمجھیں کہ اپنی جدوجہد کا زیادہ تر رخ ہم ان تحریکوں کو ملامت کرنے کی طرف کردیں۔ گویا کچھ کمی تھی تو اسی بات کی! رہا وہ فرض جو ہم سب کا معاشرے میں شدت سے منتظر ہے یعنی توحید کو اور اللہ کے حق کو معاشرے پر معاشرے کی زبان میں واضح کرنا اور اس کو مناظرے کی بجائے معاشرے کا ایک مسئلہ بنانا اور جس پر کہ بڑی دیر تک کام ہونے کی ضرورت ہے اور تب ہی کہیں جا کر ان تحریکی حلقوں کو سمجھ آئے گی کہ ہم در اصل کہنا کیا چاہتے ہیں.. رہا توحید کا یہ فرض تو وہ تو ہم سمیت کسی سے بھی پورا نہ ہو پا رہا ہو اور اس کے باعث بہت سے تحریکی حلقوں کو اپنے اس فرض کا جو ان کو عملاً معاشرے میں ادا کرنا ہے پورا اندازہ تک نہ ہو پاتا ہو مگر اس فرض میں کوتاہی برتتا دیکھ کر ان کو ہم اس حد تک قابلِ تنقید جانیں کہ اپنا ایک بڑا کام ہی اس فرض کو سمجھ لیں، یعنی اسلامی جماعتوں اور دینی حلقوں پر صبح شام تنقید اور لوگوںکو ان سے برگشتہ کردینے اور یوں ایک انتشارِ عظیم کی راہ ہموار کردینے کی ہمہ وقتی مہم!

ہم بڑی غلطی کریں گے اگر اسلامی عمل کے میدان میں مصروفِ عمل طبقوں کو ملامت کرتے رہنا اپنی یا ان تحریکوں کی یا معاشرے کی اصل خدمت جان بیٹھیں۔ اس سے وہ خلا جو "عقیدہ" اور "تحریک" میں یہاں پایا جاتا ہے اور بھی وسیع ہوگا، جس کا سارا فائدہ یہاں کی جاہلی قیادتوں کو جائے گا۔ وقت کی اسلامی قوتوں پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا کوئی رجحان اگر ہم میں پرورش پا جاتا ہے، جیسا کہ یہاں ہمارے بعض نوجوانوں کے اسلوب سے عیاں ہے، تو یہ اسلام کا اور دعوتِ توحید کا معاشرے میں اترنے کی جانب راستہ مسدود کردینے کا ہی ایک نادانستہ اقدام ہوگا۔ اس سے وہ اصل کام جو ہونا چاہیئے اور بھی پیچھے چلا جائے گا۔ یقین کیجئے توحید کو اپنے دور اور معاشرے کا موضوع بنانا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اپنے دور کے انسان کو اس دعوت کا مخاطب بنانا ایک دشوار گھاٹی ہے۔ اس گھاٹی سے جب تک ہم گزر کر نہیں دکھاتے اور داعیوں کی ایک معتد بہ تعداد جب تک اس کو کامیابی سے عبور نہیں کرتی تب تک لوگوں پر بے تحاشا تنقید کئے جانا یہاں کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں۔

لوگوں کی اس دشواری کا ادراک کرنا بے حد ضروری ہے۔ وگرنہ ہم ان کو یوں ہی موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے اور وہ ہمیں تعجب اور بے یقینی سے یوں ہی دیکھتے رہیں گے اور یہ تمام تر عرصہ ہمارا اصل کام یوں ہی ہمارا انتظار کرتا رہے گا اور جاہلی قیادتیں بھی یوں ہی ہم پر سوار اور معاشرے کی قیادت کے منصب پر فائز رہیں گی۔

آج اگر ہم کچھ لوگوں کو یہ سمجھ آجاتی ہے کہ ہماری اور ہمارے معاشرے کی اصل ضرورت ہے کیا تو یہ خوش آئند ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہوگی۔ اس کو بچا رکھنا اور اس کو مزید ترقی دینا درست سمت میں ایک اقدام ہوگا تا آنکہ معاشرے میں اس عمل کی ایک طبعی اٹھان ہو اور وہ ایک طبعی رفتار سے ہی معاشرے میں پھیلے۔ یہاں تک کہ اس کا اصل مقابلہ کبھی ہو تو وہ صرف جاہلیت کے ساتھ ہو۔ بلکہ اُس محاذ پر بھی اس عمل کو ایک بڑے عرصہ تک اپنی بات کہنے کا ہی موقعہ چاہیے ہوگا۔ کسی بڑی سطح پر جاہلیت کے ساتھ بھی قبل از وقت الجھ پڑنا آپ اپنے ہاتھ اس عمل کی کامیابی کے امکانات کو گنوا دینا ہوگا۔ البتہ یہ کہ ایسا کوئی معرکہ دشمن کی بجائے دوستوں سے ہی شروع کرلیا جائے اور وہ بھی دوستوں کی نہیں اپنی ہی طلب پر، اور پھر اسی سے اس عمل کی کامیابی کی امید بھی رکھی جائے.. تو یہ وہ بات ہے جو ”مؤثر لائحۂ عمل“ کے سراسر منافی ہے۔

ہم اس بات کو اس حد تک واضح کردینا چاہیںگے کہ.... تبدیلی کی یہ صدا بلند کرنے والوں کے ساتھ اگر ان دوست طبقوں میں سے کسی کے اپنے ہی جانب سے بھی کوئی معرکہ شروع کردیا جاتا ہے تو لازم نہیں اس کو توحید کی دشمنی پر ہی محمول کیا جائے۔ اس کو انسانی طبیعت پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے اور برادرانِ یوسف ؑکے اندازِ تصرف پر بھی۔ چنانچہ ایسا کوئی معرکہ کسی دوست طبقے کی جانب سے از خود شروع کردیا جاتا ہے تو اس سے دامن بچا کر گزرنا اور اس میں پڑ کر اپنا وقت اور توانائی ضائع ہونے سے بچانا تب بھی لازم ہوگا کجا یہ کہ ایسا کوئی معرکہ کسی دوست کے ساتھ از خود طلب کیا جائے اور دشمن کو بخش رکھا جائے۔ صبر کے ساتھ کچھ عرصہ اگر بات سمجھا لی جائے تو کیا بعید یہاں کے کئی ایک عمل پسند طبقے خود ہی اس کام کا بیڑا اٹھا لیں اور ہم سب کو بھی اپنی قیادت میں لے کر چلیں۔

********

بیانِ حق کے موضوع پر یہاں بعض موحدین کے ہاں پائے جانے والی ایک ’بے پروائی‘ کی اپروچ کو تصحیح کرنا بھی ضروری ہے..

یہاں ایک اندازِ تفکیر ہے کہ ’حق جب حق ہے تو وہ خود سے خود واضح ہے لہذا اگر کوئی شخص زور و شور سے حق کی صف میں کھڑا ہوا اور باطل سے برسرِ پیکار ہمیں نظر نہیں آتا تو تنقید کے سوا اس کا ہم پر اب کوئی حق باقی نہیں رہا‘!

معاشرے میں حق کے خلاف کچھ آپ سے آپ پھیلی ہوئی اور کچھ معاشرے کے رجحان سازوں کی جانب سے بالقصد پھیلائی گئی غلط فہمیاں اور زہریلے تاثرات جو اچھوں اچھوں کو توحید کے تحریکی پہلوؤں کی بابت اندیشوں میں مبتلا کر دیتے ہیں بلکہ دعوتِ توحید کو لے کر چلنے والوں کی انسان فہمی اور انسان رحمی تک کو ان کی نظر میں مشکوک کر جاتے ہیں.. اب یہ اندازِ تفکیر کہ ’یہ غلط فہمیاں اور یہ تاثرات یہاں پھیلے ہیں تو ہم کیا کریں جس کو نجات کی ضرورت ہے وہ خود ہی ان تاثرات سے آزادی پائے اور جس کو نہیں سمجھنا وہ جائے جہاں جانا چاہے‘، کم از کم ایک داعی کیلئے مناسب نہیں۔

بہت سے معلوم اور نا معلوم اسباب ایسے ہوئے ہیں کہ ’کٹر پن‘ کی دعوت کو لے کر چلنے والوں کو لوگ انسان گزیدہ جاننے لگے ہیں۔ سب الزام لوگوں کو دینا درست بھی نہیں۔ لوگوں نے فتوے یہاں زیادہ تر ہتھیار کے طور پر چلتے دیکھے ہیں۔ خود یہاں کے جاہلی ادب نے اور سماجی رجحان سازوں نے اس صورتحال کو بڑی سمجھداری سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال کو بدلا بھی اب سمجھداری سے ہی جا سکتا ہے۔ تاثرات کی اس گرد کے باعث توحید کی بعض لگی بندھی عبارتیں یا تو اب حد سے زیادہ بے جان ہو کر رہ گئی ہیں اور یا پھر حد سے زیادہ خطرناک۔ بہت کم اب یہ ہو پاتا ہے کہ لوگ ان کا مطلب وہ لیں جو کہنے والے کا مقصود ہو۔

پس یہ دو تاثرات ہیں جو بہت سے موحدین کے ہاں دور ہونے کے لائق ہیں:

۱۔ توحید کے تقاضے آپ سے آپ ہی اس قدر واضح ہیں کہ جو شخص ان کو ادا کرتا اور معاشرے میں اس کا علم اٹھا رکھتا ہمیں نظر نہیں آتا، صریح مجرم ہے!(10)

۲۔ خالص اور ٹھیٹ اسلام کے بارے میں زہریلے تاثرات اور زبان زدِ عام خیالات جو یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں، بے شک اس کے کوئی بھی اسباب ہوں، نہ ہم نے وہ پھیلائے اور نہ ہمیں ان سے کچھ لینا دینا!

یہ دونوں تاثرات دعوت کے حق میں یہاں مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے باعث توحید کے داعی کئی ایک طبقے اب عرصہ سے ایک بند گلی پر پہنچ چکے ہیں۔

ان میں سے اول الذکر غلط فہمی تو خیر بے انتہا توجہ کے لائق ہے اور ہمارے نوجوانوں کو بہت سی خطرناک جہتوں میں لے کر جا سکتی ہے مگر ثانی الذکر بھی کچھ کم ضرر رساں نہیں۔ یوں کہیئے اول الذکر داعیوں کیلئے مہلک ہے تو ثانی الذکر دعوت کیلئے، اور ہر دو صورت یہ دعوت کا نقصان ہے۔

حق کا نقصان سب سے برا وہ ہے جس کا موقعہ خود داعیوں کی جانب سے فراہم کیا گیا ہو۔

********

کچھ نہ کچھ تاثرات تو ہر دور میں اور ہر جگہ حق کی ایک ٹھیٹ دعوت کی بابت پائے ہی جائیں گے مگر اتنے زیادہ؟ یہاں ہمارے برصغیر میں ہمیں اس وقت در اصل ایک غیر معمولی صورت درپیش ہے(11) ۔ اس کے کئی ایک اسباب کا جائزہ ہم اس سے پہلے لے چکے ہیں۔ اس کا ایک سبب البتہ دعوت کا عملی نمونہ نہ پایا جانا ہے..

بہت سی غلط فہمیاں کسی دعوت کی بابت تبھی زائل ہو سکتی ہیں جب لوگ ایک عملی انداز میں اس کو اپنے سامنے دیکھیں۔ یوں شیطان لوگوں کے سینوں میں دعوتِ توحید کی بابت جو وسوسے پھونکتا ہے وہ ساتھ ساتھ دور ہوتے رہتے ہیں۔ کم از کم اس بات کا انتظام ضرور رہتا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے ہاں یہ تب ہوتا اگر توحید کی ایک جامع اور متوازن ترجمانی یہاں برابر ہو رہی ہوتی۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا اور اس عمل میں کوئی صدی بھر کا تعطل آیا رہا جبکہ یہ صدی وہ صدی تھی جب زمانہ قیامت کی چال چل گیا تھا.. شاید اتنی زوردار تبدیلیاں دنیا میں کبھی نہ آئی ہوں جتنی کہ اس صدی میں، تو اس تناظر میں ایک بڑے بحران کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔ یقین کیجیئے اس وقت ہم اپنے برصغیر کے اس عظیم ترین بحران سے ہی گزر رہے ہیں مگر اس کی گرہیں سلجھ جانے کی لمحوں میں امید رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے تو عملاً اسے جس طرح لے رہے ہیں گویا مسئلہ تھوڑی سی ’نرمی‘ بڑھا دینے کا ہے یا ذرا سی ’سختی‘ اور کردینے کا!اور یہ کہ کچھ چھوٹے موٹے انتظام سے معاملہ بالکل ٹھیک ہو رہنے والا ہے!

دعوت میں اس عملی نمونہ کے نہ پائے جانے کے باعث، توحید کے تحریکی مضمون کی بابت مفروضے اور قیاس آرائیاں پائی جانا طبعی امر ہے۔ بڑے اچھے اچھے اور مخلص ذہن بھی یہاں ایسے ہو سکتے ہیں کہ حق کی ایک بات پر آپ کی پر زور تایید کریں اور دوسری بات پر کسی خدشے یا تحفظ کا شکار ہو جائیں اور تیسری بات پر آپ سے بدظن۔ ایک حق بات بھی ہو سکتا ہے کسی کیلئے اتنی نئی ہو یا اس کو اتنی بڑی نظر آئے کہ وہ اسے ’آپ‘ سے لینے پر تیار نہ ہو بلکہ اس کو وہ کسی ایسے مصدر سے سننا ضروری جانتا ہو جو اس کی نگاہ میں اتنی ہی بڑی سطح کا علمی مرتبہ رکھتا ہو جتنا "سنگین" کہ وہ مسئلہ ہے۔ خصوصاً جبکہ عقیدہ وغیرہ کے نام پر بعض چھوٹے چھوٹے گروہوں کو دین کی نئی نئی تعبیریں اور انتہا پسندانہ تفسیریں کرتے اس نے دیکھ یا سن بھی رکھا ہو۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی تو پھونک پھونک کر پیتا ہے!

یہ منطق کہ ’وہ بات جو میں آپ کو بتا رہا ہوں قرآن حدیث میں آئی ہے‘ بسا اوقات غیر درست سمت میں استعمال ہوئی ہے، خصوصاً مخاطب اگر علومِ شریعت کے اندر متخصص نہ ہو۔ فہم کی مصدریت کا مسئلہ ایک جائز مسئلہ ہے۔ اس شخص کو کیا معلوم آپ کا قرآن و حدیث سے کسی بات کا حوالہ دینا اور اس سے عین وہ مطلب لینا جس کا آپ اسے قائل کر رہے ہیں درست اور مستند ہے اور یہ کہ کل کو کوئی اور شخص اس کیلئے قرآن و حدیث ہی سے اس سے کچھ برعکس ثابت نہیں کر رہا ہوگا؟ یہ نہ ہو تو مستند علما کی ضرورت ہی دنیا میں ختم ہوجائے، خصوصاً عقیدہ اور اصولِ دین کے معاملے میں۔ لوگ اگر یہ تقاضا کریں کہ ان کو قرآن و حدیث سے بھی جو کوئی مسئلہ بتایا جائے اسے بتانے والا ان کی نظر میں شریعت کا مستند عالم ہو جو کسی دن ان کو ایک ناپختہ و خطرناک مقام پر نہ لے جا پہنچائے، تو اصولاً یہ کچھ اتنا غلط تقاضا نہیں اور اب تلک بہت سے لوگ اگر یہاں کے جدت پسندوں کے دلائل کے ہاتھوں لڑھک نہیں گئے تو شاید اس کی وجہ یہی خیر ہو جو بہت سوں کے ہاں نادانستہ پائی جاتی ہے۔

آپ کی بات اگر غیر علمی نہیں تو مستند اہلِ علم کے بے شمار حوالے یقیناً آپ دے سکیں گے۔ ورنہ وہ مستند ہی کیوں ہوگی۔ اس لحاظ سے تو یہ ہرگز کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر یہ بھی تو ہو کہ آپ کا مخاطب ان شخصیات سے جن کو آپ اپنے علمی مراجع کے طور پر پیش کر رہے ہوں واقف ہو۔ اور کیا بعید ان میں سے بعض علمی مراجع اس کی نظر میں مشکوک یا متنازع ٹھہرا دیئے گئے ہوں یا ان کا معاشرے میں برا چرچا کردیا گیا ہو اور آپ کا انہی کے حوالے دینا معاملے کو کسی وقت اور بھی الجھا دینے کا باعث ہو۔ پھر اس بات کا تو حل ہی کیا ہے کہ لوگ "علما" کو اپنے سامنے اور اپنے دور میں دیکھنا بھی چاہتے ہیں اور ’ایمان بالغیب‘ کیلئے صرف "نبیوں" کے معاملے میں تیار ہوتے ہیں! بلکہ وہ "علما" کی قیادت میں چلنا چاہتے ہیں۔ کتابوں اور مخطوطوں سے نکالی گئی عبارتیں غیر علما کو ضروری نہیں ہمیشہ مطمئن ہی کرلیں۔ دینِ حق کی ایک زندہ اور عصری انداز کی ترجمانی آخر معاشروں کی کوئی چھوٹی اور معمولی ضرورت تو نہیں!

اس صورتحال پر اگر صبر نہ کیا گیا اور لوگوں کی مجبوریاں درست انداز میں نہ سمجھی گئیں، پھر سب سے بڑھ کر تعبیرٍدین اور تحقیقِ توحید کے معاملے میں جو ایک طویل اور بڑی سطح کا تعطل آیا رہا ہے پہلے اس ہی کا تدراک کرنے پر توجہ اور محنت نہ کی گئی، اور پھر ٹھیٹ عقیدہ کے راستے میں جاہلی افکار اور جاہلی ادب اور جاہلی ذرائعِ ابلاغ نے جو زہریلے کانٹے بکھیر دیئے ہیں اور جو کہ یہاں لوگوں کے پیروں کو نہیں ذہنوں کو لہولہان کرتے ہیں ان کانٹوں کو بھی توحید کی راہ سے صبر اور دقتِ نظر سے نہ چنا گیا تو بہت امکان یہ ہے کہ یہ صورتِ حال عرصہ تک برقرار رہے گی جس میں ہم عوام سے پہلے اپنے بہت سے مخلص اور صالح اہلِ علم اور اصحابِ دانش کو بھی بری طرح کھو دیتے رہیں۔

ایسے میں ہمارے دین پسند عوام یا ہمارے نیک و مخلص علما و دانشور حق کی کسی بات پر، جو کہ کتنی بھی مستند ہو اور اس کا پھیلنا ہمارے نزدیک چاہے کتنا بھی ضروری ہو، اگر کبھی محتاط ردِ عمل ظاہر کریں __ بے شک وہ "تارکِ توحید کا حکم" بتائے جانے پر کیوں نہ ہو یا عقیدہ کا کوئی اور واضح و ثابت مسئلہ عام کئے جانے پر کیوں نہ ہو __ تو ہمیں اس بات کو اس کے طبعی اسباب کی طرف ہی لوٹانا ہے اور اس کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ہی لینا ہے۔ شاید بڑی دیر تک تو ہمیں یہی کرنا ہوگا کہ ہمارے یہ قابلِ احترام طبقے یہاں توحید کی دعوت کے کسی طریقہ یا اسلوب یا اس کے کسی پیرائے پر کوئی تحفظ ظاہر کریں تو اس پر ان سے بدگمانی رکھنے کی بجائے ہم اس کو اپنے ہی بیان کے نقص پر محمول کریں۔

ایسا جاننے کا مطلب گو یہ بہر حال نہ ہوگا کہ ہم انہیں معاشرے کے اندر فرضِ توحید کی ادائیگی سے بھی سبکدوش سمجھتے ہیں اور ان کے منہج اور تصور کو ہرگز کسی تبدیلی کا ضرورتمند خیال نہیں کرتے۔

ایک تو پچھلے کوئی دس بارہ عشرے "توحید" پر یہاں کے حسبِ حال کام نہ ہوا ہونا، پھر معاشرے میں اس پر پڑتی رہنے والی تاثرات کی گرد کا مسلسل بڑھتا چلا جانا، پھر "عقیدہ" کی دعوت سے منسوب بعض طبقوں کا "عقیدہ" کے نام پر بہت سے تجاوزات کر بیٹھنا.. اس کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی بات کو سمجھا جانے کیلئے لوگوں کو کچھ وقت دیں اور اس تمام تر عرصہ تحمل سے کام لیں۔ ایک بات بہر حال طے ہے کہ صورتِ حال جب بھی بدلے گی اہلِ علم اور اصحابِ دانش کے حرکت میں آنے سے بدلے گی۔

آخر صبر کب تک؟ یہ ایک سوال ہے جو اپنے بعض مخلص موحد حلقوں کی جانب سے بکثرت سننے میں آتا ہے۔ اس سوال کے اندر ایمان اور دین سے تمسک اور عقیدہ کی حمیت بولتی ہوئی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس کا جواب یہی ہے کہ: ”صبر“ کم از کم اس وقت تک جب تک:

۱) یا تو انہی اہلِ علم اور اصحابِ دانش میں کی ایک معتد بہ تعداد یہاں "اصل کام" کا ذمہ نہیں اٹھا لیتی ..

۲) یا جب تک خود آپ یہاں اہلِ علم اور اصحابِ دانش کی ایک معتد بہ تعداد کھڑی نہیں کرلیتے جو یہاں "اصل کام" کا بیڑا اٹھا لے..

۳) اور یا پھر جب تک کچھ لوگ ہمیں ایک سنجیدہ محنت کے نتیجے میں موجودہ اہلِ علم و دانش سے اور کچھ لوگ ایک دوسرے انداز کی محنت کے نتیجے میں نئے پیدا ہونے والے اہلِ علم و دانش سے نہیں مل جاتے، یعنی کچھ موجودہ اور کچھ نئے۔

پھر جب وہ "اصل کام" معاشرے کے اطراف و اکناف میں ہونے لگے گا اور اس کے کرنے والے پائے جائیں گے تو وہ یہ فیصلہ بھی کرلیں گے جو ہم سے ابھی اسی وقت "جواب" چاہتا ہے، کہ ’صبر کب تک‘۔ یہ توقع کہ معاشرے کے اندر "اصل کام" ہوئے بغیر ان سوالوں کے تشفی بخش جواب ملنے لگیں اور پھر یہ توقع کہ اہلِ علم و دانش کی ایک معتد بہ تعداد کے اس عمل کی پشت پر پائے گئے بغیر یہ گھاٹی سر ہو رہے گی.. دونوں توقعات بے حد غیر واقعاتی ہیں۔

"اصل کام" اور "کرنے والے" دونوں نہ پائے جائیں (ہماری مراد ہے معاشرے کی سطح پر) تو ان سوالوں کو لے کر بیٹھ جانا کس فرض کی انجام دہی ہے؟!

اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ یہاں آپ "شروطِ لا الہ الا اللہ"، یا "نواقضِ اسلام" یا "انواعِ شرک" یا "معنی الطاغوت" ایسے بنیادی ترین اصولِ دین بھی لوگوں کو پڑھانے سکھانے لگیں تو اسے بھی شاید فرقہ واریت یا فتوی بازی کی ایک مہم سمجھا جائے گا، جب تک کہ ایک طویل وقت لگا کر ان مسائل میں آپ اپنا ایک اصیل لہجہ متعارف نہیں کرالیتے۔

مگر اس بحران کی کوئی سو سالہ تاریخ اگر ہمارے ذہن میں رہتی ہے تو ضروری نہیں اس معاملہ کی تفسیر یہی کی جائے کہ بس یہ حق سے عناد ہے۔ اس کی تفسیر ہمارے خیال میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ معاملہ بڑی دیر تک بیان کیا جاتا رہنے کا متقاضی ہے اور وہ بھی ایک درست اور مؤثر انداز میں۔ ہمیں اپنا وہ اصل نقص معلوم ہے جس کی پشت پر سو سال کی سستی اور زبوں حالی ہے۔ برسوں اور عشروں کے عارضے لمحوں میں دور نہیں ہو جاتے۔

*******

پس اس منظر نامے میں، طبعی بات ہے کہ پرایوں ہی نہیں اپنوں کی طرف سے بھی آپ کے ساتھ زیادتی ہونے لگے۔ اس کے باوجود نہ تو حق کی تعلیم دینی حلقوں میں کسی وقت موقوف ہونی چاہیے اور نہ حق کی بنیاد پر ان کی، اور ان کے ساتھ مل کر، تالیف و شیرازہ بندی۔ تعلیم (تفہیم و تذکیر) اور تآلُف (یگانگت و شیرازہ بندی) دونوں فرض اپنی جگہ برقرار رہیں گے بلکہ "تاثرات" کی یہ گرد نگاہ میں رہے تو ان دو باتوں کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔

امت کے سب طبقوں کو تعلیم و ارشاد اور تصحیح و اصلاح کے ساتھ ساتھ محبت و وابستگی اور الفت و یگانگت فراہم کرنا اور یہ دونوں کام بیک وقت کرنا، جو کہ توازن کا ایک مشکل ترین نقطہ ہے، اہل سنت کا ایک خاص وصف ہے۔

فرض کی ان دونوں جہتوں کو اکٹھا ساتھ لے کر نہ چلا جائے، خواہ وہ تعلیم و اصلاح کے محاذ پر کوتاہی ہو اور خواہ اسلوبِ شیرازہ بندی اختیار کرنے میں(12)، ہر دو صورت آپ کا کام پیچھے چلا جاتا ہے بلکہ ہر دو واجب ایسے ہیں کہ کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنے لگیں تو معاشرے کی زمین آپ کے پاؤں تلے سے آہستہ آہستہ سرکتی چلی جاتی ہے اور تب آپ اپنے عمل کا میدان ہی مسلسل کھوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آدمی کسی اور سے نہیں حالات سے لڑتا ہے اور حالات سے لڑنے کی جو قیمت ہوا کرتی ہے وہ دیئے بغیر پھر چارہ نہیں رہتا۔ بلکہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ قیمت بعض اوقات بڑھتی بھی چلی جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ آدمی پرایوں سے نمٹے اپنوں سے ہی فراغت پانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ہم سب ایک عرصہ سے شاید یہ قیمت دے رہے ہیں۔

*******

وہ تعلیمی اور دعوتی عمل جس کی ہم تجویز دینے جارہے ہیں اور جوکہ بفضلہ تعالی یہاں تبدیلی کی بنیاد بنے گا، معاشرے کا صالح ذہین عنصر اس کی کامیابی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بے شک اس پر وقت لگے، گو اب یہ اتنا مشکل نہیں، مگر اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اور پھر جلدی ہمیں ہے کس بات کی؟ یہاں کے اہلِ علم، ادیب اور دانشور بہرحال اس کیلئے ناگزیر ہیں۔ اسی طبقہ کو درحقیقت اور بالآخر اس کام کا بیڑا اٹھانا ہے۔

یہ طبقہ اگر ہماری بات کو شرفِ توجہ بخشتا ہے تو ہم اس سے اپنے تقاضوں میں اس حد سے نہ بڑھیں گے کہ ان کے اپنے شعبے ہی اس کام کے باعث متاثر ہونے لگیں۔ یہ بے شک اپنے اپنے علوم و فنون یا قیادتِ معاشرہ کے اپنے اپنے میدان میں سرگرمِ عمل رہیں بلکہ اس تبدیلی کی مؤثر صدا بننے کیلئے تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ یہ اپنے اپنے تخصص کے میدان میں چوٹی تک پہنچیں.. البتہ یہ ضروری ہوگا کہ:

۱۔ ایک تو یہ اس اصل کمی اور اصل خلا کو محسوس کریں جس کے باعث یہاں تبدیلی کا کوئی دھارا ہی نہیں بن پا رہا باوجود اس کے کہ جہت کی اس تبدیلی کے شدید خواہشمند یہاں ہزاروں لاکھوں میں ہیں۔ احساسِ زیاں ہمارا یہاں بہت بڑا سرمایہ ہوگا۔

۲۔ دوسرا یہ کہ اس اصیل اور بنیادی تبدیلی کی صدا کو اپنی جانب سے کوئی منفی یا حوصلہ شکن رویہ نہ ملنے دیں۔

۳۔ تیسرا یہ کہ جہاں تک ہو سکے اس تحریکی عمل کی حوصلہ افزائی کریں بلکہ اس سے متعلق غلط فہمیاں اور تاثرات دور کریں، کہ در اصل یہ اصحابِ علم و دانش ہی کا کام ہے۔ علاوہ ازیں ایسے نوجوانوں کی علمی اور فکری سرپرستی کریں جو اس خاکستر میں ایک چنگاری کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس قدر ان نوجوانوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ تعامل میں "صبر و برداشت" کا دامن پکڑ کر رکھیں آپ پر بھی تو ضروری ہے کہ ان کی حالت کو آپ اگر ’جذباتیت‘ جانتے ہیں تو آپ اس پر ان کے ساتھ نہ صرف "صبر" کریں بلکہ ان کے جذبہ کو ایک درست سمت بھی دیں۔ محض ذوق نہ ملنے کے باعث تو یہ سرمایہ نظر انداز نہ کردیا جانا چاہیئے!

۴۔ چوتھا یہ کہ اپنے اپنے مقام سے، اور اپنی کسی بھی سرگرمی کو متاثر ہونے دیئے بغیر، اس صدا میں اپنی صدا ملائیں۔ معاشرے کے اندر ایک اہم و مؤثر پوزیشن پر پائے جانے والے شخص کا بولا ہوا صرف ایک جملہ ہی بسا اوقات دوسروں کی لمبی چوڑی تقاریر اور ضخیم کتب سے زیادہ مفید اور فضا کے اندر تبدیلی لانے کے عمل میں زیادہ اثر انگیز ہو سکتا ہے۔ آپ معاشرے میں یا اپنے کسی خاص حلقے میں اگر ایسی کسی پوزیشن پر پائے جاتے ہیں تو آپ کو اپنے کسی بھی معمولات میں تبدیلی لائے بغیر اور کوئی بھی اضافی جتن کئے بغیر ماحول میں رُت بدلنے کے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کا ایک زبردست موقعہ حاصل ہے۔ اتنی سی تو کسی اعلیٰ پوزیشن پر ہونے کی ’زکات‘ ہی بن جاتی ہے اور اس پر خدا کا شکر گزار ہو جانے کا ہی ایک ادنی سا تقاضا! آپ کا الگ سے ایک بات پر کچھ بھی نہیں لگتا مگر اس کے نتیجے میں ایک دعوت معاشرے کے اندر کھڑی ہو جانے میں مدد پاتی ہے اور آپ کے ہاتھوں ایک باطل کی عمر کے کچھ دن گھٹتے ہیں تو اس پر بے اعتنائی کیوں؟

۵۔ پانچواں یہ کہ اپنے اس شعبے میں پائے جانے والے لوگوں کے ساتھ اس دعوت کے حق میں مؤثر رابطہ اور ذریعہ بنیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں ان شاءاللہ خودبخود کسی وقت ایک تہذیبی محاذ تشکیل پا جائے گا۔ اس وقت یہاں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہاں کے ہر شعبے میں کوئی ’تنظیمی محاذ‘ نہیں بلکہ ایک ”وسیع البنیاد فکری و تہذیبی محاذ“ ہے جو تنظیمی و حزبی وابستگیوں سے بلند ہو کر اپنی سوچ کا افق ”امت“ تک لے جانے پہ قدرت پائے۔ یہ زقند بھرنا آسان نہیں مگر اپنے اثرات میں یہ ایک غیر معمولی بات ہوگی۔ ہر شعبے کے اندر بامقصد لوگوں کے مابین بامقصد رابطوں کا مضبوط و توانا ہوتے جانا اور اس عمل کا حوالہ خالصتاً ایک عقیدہ ہونا نہ کہ کچھ اور، آئندہ دنوں کے اندر یہاں ایک زبردست پیش رفت ہوگا۔

۶۔ چھٹا یہ کہ اس پورے عمل کے دوران جہاں کسی اچھے ہیرے پر کسی کی نظر پڑے اسے ممکنہ طور پر اس کی بہترین اور مفید ترین جگہ پر پہنچایا جائے اور اس معاملہ میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔ یہاں ہمیں کوئی کمی ہے تو رجال کی کمی ہے۔ رجال کے جوہر شناس عالم اور دانشور ہی ہو سکتے ہیں۔ ہمارا بحران ایک خاصی حد تک قیادت کا بحران ہے۔ یہاں ہمارا بہت سا انسانی سرمایہ جہت پانے سے رہ جاتا ہے۔ ہمارا باشعور طبقہ اس محاذ پر توجہ دے کر یہاں ایک بڑا فرق لے آسکتا ہے۔

۷۔ ساتواں یہ کہ وہ بنیادی موضوعات جو اس تبدیلی کی بنیاد بن جانے والے ہیں خواہ وہ "اصولِ دین" کے حوالے سے ہوں یا "فہم و مطالعۂ عصر" کے حوالے سے ان سب موضوعات کو اپنی اپنی دنیاؤں میں بکثرت زیرِ بحث لائے جانے کے انتظام میں ممد ہوں۔ بے شک نکتہءنظر کے اختلافات باقی رہیں مگر ان کا یہاں موضوعِ ارتکاز بن جانا ہی تبدیلی کے اس عمل کی زبردست کامیابی ہو گا۔

یہ ساتوں باتیں ایسی ہیں جو آپ سے کسی بڑی قربانی کا تقاضا نہیں کرتیں۔ یوں سمجھیئے یہ اس کا کم از کم حق ہے۔ رہ گیا اس عمل میں آگے لگنا اور قیادت کا عَلَم اٹھانا تو وہ ایک اور سطح کا کام ہے اور اس کے اور تقاضے ہیں۔ کسی میں ہمت اور صلاحیت ہے تو ضرور اس کیلئے بھی آگے بڑھے، صدیقیت کی راہ کھلی ہے اور خدا کی جنت بہت بڑی ہے لیکن کسی وجہ سے ورثۂ نبوت کے فرض کی راہ میں بہت کچھ نہ ہو سکتا ہو تو کچھ نہ کچھ کرنے سے پھر بھی آدمی کو پیچھے نہ رہ جانا چاہیئے۔

یہ سب باتیں اِسی ’کچھ نہ کچھ‘ سے ہی تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اُس ’بہت کچھ‘ سے!

یہ نہ بھولنا چاہیئے کہ اپنے اپنے شعبے میں کوئی شخص دین اور معاشرے کی جو بھی خدمت کر رہا ہے اس کا ایک سِرا اور ایک دھارا تبھی بنے گا جب معاشرے کو توحید کے ایک صحیح اور ہمہ گیر تصور کی بنیاد پر ایک واضح اور زوردار جہت دے لی جائے۔ ورنہ وہ بہت سے کام جو ہمارے علماءاور دانشوروں کے ہاتھوں یہاں دین اور معاشرے کیلئے انجام پا رہے ہیں کچھ نہ کچھ فائدہ مند ضرور ہوں گے اور ’نہ کئے جانے سے بہتر‘ ہوں گے مگر ایک بڑی سطح پر غیر مؤثر اور غیر نتیجہ خیز ہی رہیں گے، دین کے حق میں بھی اور خود معاشرے کے حق میں بھی۔ بلکہ ایک حد تک، ممکن ہے جاہلیت بھی آپ کی ان نیکیوں سے فائدہ اٹھاتی رہے۔

اس گول دائرے سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم حرکت اور عمل پر ہی زور نہ صرف کردیں بلکہ ایک خاص توجہ، بلکہ ہم تو کہیں گے پوری توجہ، ’جہت‘ پر کردیں۔ وگرنہ جس طرح ایک صدی ہم نے بڑے آرام سے جوشِ عمل میں گزار دی ایک اور صدی گزر جانے کا بھی پتہ تک نہ چلے گا۔

عمل کا زور تو ہو سکتا ہے آپ کئی اور چیزوں سے پیدا کرلیں اور وہ تو شاید پہلے بھی کچھ کم نہیں البتہ جہت کی یہ گنجلک جو صرف اپنے ہی نہیں تیسری دنیا کے مخلصوں اور ہوشمندوں کی ایک بڑی تعداد کو گھٹنے ٹکوا چکی ہے اور عمل کے بڑے بڑے طوفانوں کے بے اثر گزر جانے کا باعث بنی رہی ہے.. جہت کا یہ زور اور فاعلیت جس چیز سے مل سکتی ہے وہ صرف ہمارے ہی پاس ہے اور وہ ہے انبیا کا دیا ہوا خالص عقیدہ جس کے آگے باطل بھاگتا ہوا پھر راہ نہیں پاتا۔

’وقت کے ساتھ چلنا‘ اور ’وقت کو اپنے ساتھ چلانا‘ گو دونوں عمل ہیں اور بہر دو صورت آپ ’چلتے‘ ہیں، بلکہ پہلی صورت میں آپ کہیں زیادہ تیز چلتے ہیں مگر اِس چلنے اور اُس چلنے میں یقین کیجیئے بڑا فرق ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں آپ جانتے ہیں وہ اسلام کا اور اسلامی مقاصد کا تشکیل کردہ نہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس عالمِ نو میں بار برداری کیلئے رکھا گیا ہے۔ پس اس کولہو کا بیل بننا اور چل چل کر تھک جانا اور نہایت فرض شناس بن کر قوم کو تھکانا کوئی بہت پید آور نہیں۔ از حد معمول کی زندگی خواہ وہ کسی بھی حیثیت اور کسی بھی پوزیشن میں ہو یہاں ایک با مقصد شخص کے شایان نہیں خواہ آپ عالمِ دین ہیں، یا سماجی دانشور، یا خطیب، یا استاد، یا محقق، یا سماجی کارکن، یا کسی جماعت کے سربراہ، یا بیوروکریٹ، یا بزنس مین، یا سیاستدان، یا صحافی، یا جمہوریت کے حق میں بولنے والے کالم نگار یا کسی بھی حیثیت میں معاشرے کے ایک بااثر فرد۔

ایک معاشرے کی مجموعی جہت ہی تصحیح طلب ہو تو وہاں ناک کی سیدھ میں چلنا اوربس اپنے کام سے کام رکھنا اور روز مرہ کے علمی و دینی و سماجی مشاغل کو تن دہی سے انجام دیئے جانا نہ اپنے بھلے میں ہے اور نہ معاشرے کے اور نہ اپنی آئندہ نسلوں کے۔

معاملے کی ایک بڑی تصویر نہ دیکھ پانا "پسماندگی" کا نقطۂ مرکزی ہے۔

معاملہ کی بڑی تصویر بنانے کی بابت بتائیے آپ کیا منہج رکھتے ہیں؟

ہر شخص کو یہ سوچنا ہے کہ وہ جو کررہا ہے وہ یہاں ’جہت‘ کا فرق لے آنے میں کہاں تک مؤثر ہے۔ چلنا بذاتِ خود کوئی کام نہیں۔ دیانتداری سے فرائض انجام دینا درست ومطلوب، مگر ’مجموعی جہت‘ سے غافل ہو جانا خود اس سماج ہی کے مفاد میں نہیں جس کے، ہمارے یہاں پائے جانے کے ناطے، ہم پر بے حد حقوق ہیں۔ معاشرے میں رہیئے، معاشرے سے باہر رہ کر کوئی تبدیلی لائی ہی نہیں جا سکتی، پس انہی شعبوں میں ترقی کیجئے، یہیں پر نام پیدا کیجئے، مگر نرا پرا اس کے ساتھ بھی مت چلئے۔

پس ’چلنے‘ کی بجائے ’چلانا‘ جب ایک سوال بن جائے گا تو پھر رابطے، تعارف، تلاش، بحث، طلب، مطالعہ، تحقیق، جستجو، اچھے مصادر تک رسائی، با مقصد تعاون، تنسیق، بھاگ دوڑ.. کوئی چیز ہونے سے نہ رہے گی۔ "ضرورت" ایجاد کی ماں ہے تو آئیے سب سے پہلے اپنی "ضرورت" ہی کا تعین کرلیں!

ایک بے مقصد معاشرے کا روٹین کا کل پرزہ بننا، خواہ وہ اس میں بڑی سے بڑی پوزیشن کیوں نہ ہو، اور اس میں آدمی مقبولیت اور پزیرائی اور ہر دلعزیزی کی انتہا پر کیوں نہ پہنچ گیا ہو، توانائیوں اور صلاحیتوں کا کوئی بہت اچھا مصرف نہیں۔ زندگی اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اسی معاشرے کے بنے اور بنائے ہوئے اور اسی کے دیئے ہوئے خانوں میں فٹ ہونا، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی، وہ کام نہیں جو در اصل اس دور میں اور خود اسی معاشرے میں آپ کا منتظر ہے۔

اس کام کا حق بھی اس سے بڑا ہے اور اس معاشرے کا بھی۔

********

کسی قوم کی حالت بھی آج تک اس کے مفکروں اور اہلِ علم طبقوں کے تعاون کے بغیر بلکہ ان کے قیادت کئے بغیر نہیں بدلی۔ تبدیلی کا سب سے اہم حصہ پس وہ ہے جس سے ہمارے ان طبقوں کو گزرنا ہوگا۔

ہمارے علماءاور دانشور اگر اپنے اپنے شعبوں میں مصروف ہیں تو بھی ان پر اس کام کا کم از کم یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس سے بے رغبتی اور بے اعتنائی نہ برتیں۔ اپنے میں سے کچھ کو اس کام کیلئے آگے کریں۔ نہیں، تو کچھ نہ کچھ اگر کہیں اس کی کوشش ہوتی ہے اس کی سرپرستی اور اس کی بنیادوں کو پختہ کرنے اور پھر درست رکھنے میں "دلچسپی" ضرور لیں۔ مثالیت اور ذوق پرستی کو خود پر حملہ آور نہ ہونے دیں۔ اہلسنت کا وہ منہجِ واقعیت مد نظر رکھیں جو ہر دی گئی صورتِ حال میں ہی خیر کو غلبہ دلوا دینے پر یقین رکھتا ہے نہ کہ مثالی صورتِ حال اور حسبِ ذوق افراد کے پائے جانے کا انتظار کرنے میں۔

ہمارے علما اور دانشور اپنے معاشرتی کردار کے حوالے سے کم از کم بھی یہ کریں کہ معاشرے میں ”بنیادی تبدیلی“ کی ان تحریکی کوششوں کی بابت ’پرایا‘ ہونے کا تاثر نہ ملنے دیں۔ اس عقائدی، معاشرتی، تہذیبی عمل میں جب وہ اپنی "تایید" کا وزن ڈال چکے ہوں گے اور حق کو معاشرے میں برسرِ عام حق کہا جانے اور باطل کا کھلا ابطال کیا جانے کے اس اجتماعی عمل میں اپنی آواز ملا چکے ہوں گے تو معاشرہ ان کا ایک وزن محسوس کرے گا اور یوں معاشرتی رجحانات پر اہلِ حق کا غلبہ ہونے لگے گا اور اسی کے بقدر باطل کو معاشرے میں پسپائی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عالم اور ایک دانشور بہت تھوڑا وقت دے کر بھی اور اپنے کسی خاص شعبے میں پوری طرح مصروف رہ کر بھی اس عمل کی کامیابی میں ایک بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔

یہ کام جس فریق کا ہے بلا شبہہ ہم اس میں سے نہیں۔ البتہ ہمارا دین ایسا ہے کہ ہر کوئی __ آداب ملحوظ رکھتے ہوئے __ ایک عالم بلکہ خلیفۂ وقت تک کو اس کا فرض یاد دلا سکتا ہے۔ ایک عام سی عورت بھری مسجد میں کھڑی ہو کر عمر بن خطاب ؓ ایسے امامِ ہدایت کو قرآن کی ایک آیت کی جانب توجہ دلا سکتی ہے اور اپنے موقف پر نظرِ ثانی کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔

پس یاد دہانی کا کام ہم سب کو کرنا ہے۔ کیا عالم کیا عامی، سب اس میں شریک ہوں گے۔ پھر گھر میں اگر کہیں آگ لگی ہو، یا کہیں اس کا امکان ہو تو اس پر تو کسی کا بھی صدا بلند کرنا معیوب نہ ہونا چاہیئے۔ ہمارا یہاں اس پر کچھ بات کرنے کا مقصد بھی بس اس فرض میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ یہ البتہ ہم جانتے ہیں کہ اصل کام اسی وقت ہوگا جب ہمارے علما اپنے علم کے ساتھ میدان میں اتر آئیں گے۔

********

یہ بہر حال واضح رہنا چاہئے کہ ”معاشرے کی جہت“ پر کام کئے بغیر ہم دشمن کے رحم و کرم پر ہوں گے اور ہماری تمام تر مخلصانہ دینی و دنیاوی سرگرمیوں کے باوجود ہمارے معاشرے اسی کی پھونک سے چلیں گے اور ہم سب اک سعیِ مسلسل کے علی الرغم کچھ ’دیئے گئے‘ خانے ہی پر کریں گے۔ کسی معاشرے کے حق میں اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ عملی حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی دوسرے کا نقشِ خیال ہو، اس کے اپنے اصول اس کو رخ دینے کے معاملے میں معطل ہوں، جبکہ اس کے اپنے ذہین و باصلاحیت لوگ ایک معنی میں وہاں صرف ’مزدوری‘ کریں؟!

 

اللہم أبرم لہذہ الامۃ أمر رشد، یعز فیہ أہل طاعتک، ویذل فیہ أہل معصیتک، ویؤمر فیہ بالمعروف، وینہی فیہ عن المنکر، اِنک علی ما تشاءقدیر

 

ربنا آتنا من لدنک رحمۃ وہی · لنا من أمرنا رشدا

 

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اِذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ اِنک أنت الوہاب

 

وصلی اللہ علی النبی وآلہ

والحمد للہ فی الاولیٰ والآخرۃ

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز