عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ممکنہ پاک بھارت جنگ اور جدت پسند بیانیہ کی اگلی قسط
:عنوان

کشمیر کےان مظلوم مسلمانوں کی صدا پر کان دھریے جو70سال سےہندو کےظلم تلےکراہ رہےہیں۔اب تو بخدا یہ معاملہ دیکھنا بس سےباہر ہے۔ سلام کیجئے اس قوم کے صبر اور حوصلہ کو جو ہندو کےنیچے رہنےسے مسلسل انکاری ہے اور اس کو مسلم شناخت کا ایک ملک بنارکھنےپر ہی مصر ہے

:کیٹیگری
ابن علی :مصنف

جب تاتاری عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے... تو مجھے یقین ہے اُس وقت کے جدت پسندوں نے ’اسلام کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہ ہونا‘ ضرور ثابت کیا ہو گا۔ ان کے فتویٰ کو عالم اسلام میں پزیرائی ملے بغیر بھی ہرگز نہ رہی ہوگی۔ پھر اس کے شواہد تو ملے ہی ہیں کہ وقت کے کچھ ’مسلم فقہاء‘ اُس دوران ہلاکو کے ہم رکاب تھے جو اغلباً اپنے اُس عہد میں ’سیکولرزم‘ کے حق ہونے کی شہادت دینے اٹھے ہوں گے۔ لوگ ان پر رافضیت کا شبہ کر بیٹھے۔ ان ’فقہاء‘ کے بہت سے پیروکاروں نے مسلم زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھنے کے باعث مسلم خطوں کے سٹرٹیجک راز تاتاریوں کو حاصل کر کے دیے اور کچھ خطیر مہمات بھی ان کےلیے انجام دی تھیں۔ کہا جاتا ہے خلیفہ اور اس کے اہل خانہ بھی ان میں سے بعض کی نشاندہی پر گرفتار ہوئے تھے۔ اگر وہ ہلاکو سے اس بات کی تنخواہ لیتے تھے تو یہ ایک ’پروفیشنل سروس‘ تھی، دین کو اس سے کیا؟ یہ اُس طرف ہو گئے تو کیا، اِدھر کے لوگ کیا تنخواہ پر نہیں لڑتے؟! یہ تو تنخواہ کا مسئلہ ہے، خواہ اِدھر سے لیں یا اُدھر سے، اس کو دین کا مسئلہ آپ نے کیسے بنا دیا! ہاں اگر وہ نیشن سٹیٹ کے احکام توڑ بیٹھے ہوں تو ضرور یہ دین کا مسئلہ ہے، کیونکہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا  کہ مسلمانوں پر حملہ آور لشکروں میں شمولیت کرنے والے سب مسلمانوں نے اُس فوج کو جائن کرنے سے پہلے وہاں کی شہریت حاصل کی تھی۔ (محض خیرسگالی میں کوئی مدد کر دینے پر البتہ جدت پسند فقہ میں دو قول پائے جاتے ہیں!)۔ بس یہ ایک ہی پہلو کہ بہت سے لوگ حصولِ شہریت کے بغیر ہی جنگ میں شامل ہوئے ہوں، قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مسلم آبادیوں پر حملہ آور ہونا فی نفسہٖ تو گناہ نہیں۔ اذانوں کے دیس کو تاراج کرنا بجائےخود تو قابل مواخذہ نہیں۔ موجب اعتراض چیز دین کی نگاہ میں صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ حملہ آور ریاست کی شہریت رکھے بغیر اور محض دوستی اور خیرسگالی میں تو آیا کسی نے یہ کام نہیں کر لیا؟ (جس طرح کچھ مفتی حضرات نے ویزہ ویلڈ valid   رہے بغیر کر لیے گئے حج کو باطل ٹھہرایا ہے، اور بلاشبہ کچھ اعمال ادائےشرط کے بغیر انجام پائیں تو باطل ٹھہرتے ہیں!)۔

پس مسئلہ کسی مسلم بستی پر حملہ آور ہلاکو یا مودی کے ہم رکاب ہونے کا نہیں اور نہ پانچ لاکھ کشمیریوں کے خون کا ہے اور نہ مسجدوں کے دیس کو خون میں نہلانے یا صفحۂ ہستی سے ختم کر ڈالنے کا یا جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک ابھرتی ہوئی (ایٹمی) قوت کو خدانخواستہ ریزہ ریزہ کر کے عالم اسلام کے شرقی نصف حصے میں مسلمانوں کو ان کے سب سے بڑے سہارے سے محروم (بلکہ یتیم) کر ڈالنے (اور اس کے نتیجے میں امتِ اسلام کے اٹھنے کی کوششوں کو سو سال پیچھے دھکیل دینے) کا ہے۔ ایسے سب اعتبارات مسئلہ کو دیکھنے کے معاملہ میں سراسر لغو ہیں۔ مسئلے کی ’شرعی مناط‘ صرف اور صرف نیشن سٹیٹ کے احکام ہیں!  ان کو توڑا گیا تو شریعت مداخلت کےلیے میدان میں آئے گی، ورنہ مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں۔ آپ ایک ’’اسلام آباد‘‘ کی بات کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں ’’اسلام بول‘‘ کیوں نہ ہو! بلکہ نیشن سٹیٹ کے احکامِ مقدسہ کی پابندی برقرار ہو تو ’’حجاز شریف‘‘ کی استثنا بھی شاید ہی کسی دلیل سے ہو سکتی ہو! آپ اگر ایک پیشہ ور پائلٹ ہیں تو جائیے ایسے کسی بھی مسلم شہر کو ’فلیٹ‘ کر آئیے اور احساسِ گناہ کا شائبہ تک پاس نہ آنے دیجئے، ایک نہایت معتبر فتویٰ آپ کو آخر تک حاصل ہے!

اغلب یہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت بار یہ ایکش ری پلے ہوا ہو...

جس وقت صلیبی اپنے نیزے بھالے اٹھائے بلادِ اسلام کو تاراج کرتے آ رہے تھے، ضرور اس وقت کچھ ’محققین‘ ایسے ہوں گے جو اس قتال کو دین سے نہ جوڑنے کے حق میں زبردست علمی دلائل دے رہے ہوں اور اس جنگ کے ’معاشی محرکات‘ پر سیرحاصل گفتگو فرما رہے ہوں۔ بلکہ ’بیت المقدس پر مسلمانوں کا کوئی حق نہ ہونے‘ والی تحقیق اس موقع پر کچھ اور بھی جوش سے پیش ہونے لگی ہو، کچھ توقف ہو گا تو بس یہ کہ بیت المقدس بجائے عیسائیوں کے یہودیوں کو پیش کیا جاتا تو بزعم خویش (سورۃ المائدۃ کی ایک آیت میں وارد) قرآنی حکم کی روح زیادہ صحیح طور پر پوری ہوتی! (حالانکہ پردۂ غیب میں یہ فضیلت ہمارے آج کے جدت پسندوں کے حق میں لکھ رکھی ہوئی تھی، اُنہیں اُس دور میں یہ کیسے مل سکتی تھی اور اُس وقت بھلا وہ یہودی کہاں سے لاتے؟!)۔

پانچویں، چھٹی و مابعد صدیوں میں مسلمانوں کا وہ عظیم جہاد، جس کے نتیجے میں ہند میں شہروں کے شہر  بتوں سے خالی ہو کر مسجدوں اور قرآن کی درس گاہوں میں ڈھلے اور دیویوں کی بجائے یہاں خالص اللہ کی عبادت ہونے لگی اور ہر جانب محمدﷺ کا کلمہ پڑھا جانے لگا، فداہ ابی و امی... خاصا مشکل ہے اُس وقت کچھ نکتہ ور یہ نکتہ اٹھانا بھول گئے ہوں کہ آج نہ تو صحابہ کا دور ہے اور نہ  ہند کو فتح کرنے کی مہم پر روانہ ہونے والی فوج کوئی صحابہ یا فرشتوں پر مشتمل، لہٰذا دین اور مذہب سے اس جنگ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے، پس اس کے معاشی محرکات اور اس کی سیاسی وتزویراتی جہتوں ہی کا اعتبار کرو، اس کے تہذیبی یا عقائدی جوانب پر توجہ مرکوز کرنا درست نہیں۔ البتہ ان کے روکنے سمجھانے کے باوجود جب یہ شہروں کے شہر اسلام کے مفتوح ہو گئے اور اذانوں کی گونج یہاں ہر طرف سنائی دینے لگی تو ایسے بہت سے نکتہ ور اپنے اُن اشکالات اور شبہات کو اٹھا کر اِن مفتوحہ شہروں میں آ بیٹھے ہوں گے تاکہ خلقِ خدا جو اس جہاد کے نتیجے میں خیر سے اسلام میں داخل ہو ہی گئی ہے اب کہیں ’حقیقی اسلام‘ سے ناواقف نہ رہ جائے اور مولویوں کی تحریک پر یا بادشاہوں کے ساتھ لگ کر آگے کسی ملک کو اذانوں کے دیس میں ڈھالنے نہ چل دے۔ اور پھر ’حقیقی اسلام‘ کے وہ دروس شروع ہو گئے ہوں گے جو ہند کو اسلام کا گڑھ بنا دینے پر منتج ہونے والی جنگ کا ’مذہب سے کوئی تعلق نہ ہونے‘ کی دلیلوں سے لبریز ہے!

میرا خیال ہے ایسے لوگ ہمیشہ سے ہم میں رہے ہیں، کچھ مخصوص عوامل نے آج ان کی آواز کچھ غیرمعمولی طور پر اونچی کرا دی، تو اور بات ہے۔ ہمارا کوئی دَور ایسی آوازوں سے خالی نہیں رہا۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ اِس وقت صرف کشمیر کے ان مظلوم مسلمانوں کی صدا پر کان دھریے جو ستر سال سے ہندو کے ظلم تلے کراہ رہے ہیں، اور اب تو بخدا یہ معاملہ دیکھنا بس سے باہر ہے۔ سلام کیجئے اس قوم کے صبر اور حوصلہ کو جو ہندو کے نیچے رہنے سے مسلسل انکاری ہے اور اس کو مسلم شناخت کا ایک ملک بنا رکھنے پر ہی مُصر ہے۔ سبھی کو معلوم ہے، کشمیری مظلوموں کا یہ کیس ہی جنوب ایشیا کے ان دو ملکوں کے مابین اس تلخی کا سبب چلا آرہا ہے اور اس نزاع میں ریڑھ کی ہڈی سن 48 سے لے کر آج تک یہی ایک مسئلہ ہے۔ خواہ ظاہر میں اس پاک بھارت کشیدگی پر جو بھی رنگ آئیں مگر اس کی تہہ میں پچھلے سات عشروں سے یہی ایک مسئلہ بول رہا ہے،  یعنی کشمیر کا مسئلہ جوکہ اسلامی پیمانوں پر بھی اور انسانی پیمانوں پر بھی، ہر پہلو سے ہماری ہمدردی اور نصرت کا حق رکھتا ہے، اور جس کےلیے ہمارے اِن اسلامی نکتہ وروں کی زبان سے شاید ہی کبھی کوئی کلمۂ خیر بولا گیا ہو۔ اُن مجبور و مقہور مسلمانوں کےلیے اِن کے لہجوں میں شاید ہی کبھی دکھ اور پریشانی ٹپک کر آئی ہو۔  کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جدت پسند فتوے کسی وقت لبرل اور سیکولر کیس کو ’مذہبی دلیلوں‘ کے سہارے سے محروم رہنے دیں؟ کسی موقع پر اپنا یہ ’اسلامی کردار‘ ادا کرنا بھول جائیں؟  حضرات یہ وقت ہے قوم کے لہجوں میں ایک زوردار یکسوئی لانے کا۔ دشمن ہماری یکجہتی دیکھ کر ہی ان شاءاللہ پیچھے ہٹے گا۔ اپنی یہ یکجہتی اس موقع پر دشمن کو ضرور دکھائیے اور اِدھراُدھر کے فتووں میں ہرگز مت آئیے۔ ہم اللہ کے فضل سے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے۔ جس صاحبِ نظر کو کشمیر میں بھارتی زیادتی، ظلم، بربریت اور وحشت نظر نہیں آ رہی اس کےلیے بصیرت اور بصارت ہر دو کی دعاء کیجئے۔ وہ اپنے فکر و نظریہ میں کسی شرابِ افرنگ سے بری طرح مدہوش ہے، ورنہ صورتِ واقعہ ہرگز پیچیدہ نہیں۔ کشمیر میں  بھارت کا ظالم ہونا اظہر من الشمس ہے۔ یہ مظلوم کشمیری دین میں ہمارے بھائی ہیں اور ان کی نصرت ہمارا دینی فرض۔ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ  ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ  وہ(کسی کے ظلم کےلیے) اس کو بےیارومددگار چھوڑتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔ پھر حملوں کی باتیں بھی ہماری طرف سے نہیں بھارت کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے ایسی کسی جارحیت کی صورت میں اگر ہمیں لڑنا پڑتا ہے تو اپنے دین، عقیدے اور اسلامی مفاد سے اس کا تعلق کیوں نہیں؟

 وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا                                                                                                                 (النساء: 75)

’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کےلئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا‘‘۔             (ترجمہ جوناگڑھی)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز