تعلیم… مگر کس تہذیب کی؟

taleem-tehzeeb

انتھروپالوجی “تعلیم” اور “آگہی” کے جو بھی قصیدے کہے…

 “تعلیم” اِس وقت نہ صرف پیسے اور ساہوکاری کا ایک مہنگاترین کھیل ہے، جو ایک حلال کمائی کرنے والے کی پہنچ سے تقریباً باہر ہے؛ اور صرف اشرافیہ کی پہنچ میں ہے… بلکہ یہ کچھ بڑی بڑی تہذیبی وارداتوں کا ذریعہ بھی ہے۔

 اور واقفانِ حال اس کے گواہ۔

 “تعليم” کے اِن قصیدوں کا مطلب فی الوقت صرف اتنا ہے کہ ان مراعات یافتہ طبقوں کےلیے مرعوبیت پیدا کرائی جائے جن کےلیے ’اعلیٰ تعلیم‘ کے یہ مواقع ڈھیروں کے حساب سے میسر ہیں، اور جن کے ذریعے یہاں ایک تہذیب کا اقتدار برقرار رکھا جاتا ہے۔

 یہ محض تعلیم نہیں… یہ ایک خاص تعلیم ہے۔ ایک خاص تہذیب کےلیے اینٹیں اور روڑے پیدا کرنے کا ایک خودکار عمل ہے۔ کسی کو شک ہو تو وہ امام مودودیؒ کا مضمون ’’تعلیمی ادارے… قتل گاہیں‘‘ پڑھ لے؛ جس میں وہ ان اداروں کی سند کو ’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

 آج جس چیز کو ’’تعلیم‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے… یہ ایک خاص تہذیب کےلیے دماغی اوزار فراہم کرنے کا نام ہے۔

 اِس کوچے میں جو امت بےوقوف بنے گی… وہ قیامت تک اپنے دشمن کا پانی بھرے گی؛ اگرچہ وہ کچھ سطحی ایشوز پر اس کے خلاف کتنا ہی کھولتی اور ’احتجاج‘ کرتی ہو!!!

 پس یہ ہرگز شرم اور جھجھک کی بات نہیں۔ یہ ہمارے عقیدے اور ہماری نظریاتی بقاء کا مسئلہ ہے۔ جہاں ’’بقاء‘‘ کا مسئلہ ہو وہاں قوموں کے مابین لحاظ ملاحظہ نہیں چلتا!!!

 اِس ’’تعلیم‘‘ سے اپنی ضرورت کی چیز لینا اور چیز ہے… مگر اِس کی تعظیم اور توقیر؟؟؟ ہرگز نہیں!!!

 یہ ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ ناگزیر ہے۔ یہ اگر ہوجاتا ہے تو ایک صالح تبدیلی کی خوشگوار ہوائیں چلنے میں ہرگز دیر نہ لگے گی۔ مگر اس ذہنی تبدیلی کے بغیر ہمارا یہ تہذیبی قحط، یہ خشک سالی اور یہ خاک اڑتی صورتحال کبھی بدلنے والی نہیں۔

 یہ ’’انقلاب‘‘ جب تک قلوب میں برپا نہیں ہوتا، خارج میں کبھی برپا ہونے والا نہیں۔

’’تبدیلی‘‘ کی داعی تحریکوں کو چاہئے، “تعلیم” کا یہ نام نہاد تقدس ختم کروانے کو اپنے ایجنڈا پر سرفہرست رکھیں؛ ورنہ ہمارا ’’انقلاب‘‘ تو رہا ایک طرف، شاید ہمارا  ’’وجود‘‘ بھی ممکن نہیں۔

 اور اگر ہماری یہ تحریکیں خود بھی اِسی ’’تعلیم‘‘ کا تقدس جپنے والی ہوں… تو پھر معاملہ ختم سمجھئے۔ اور جان لیجئے ہم یہاں پر قائم ایک فاسد تہذیب اور باطل دین کے خاتمہ کی تحریک نہیں بلکہ مسلمانوں سے اِس کو بیگار لےکر دینے کی ایک تحریک ہیں!!!

اوریہاہلکلیساکانظامِتعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

لگتا ہے… اقبال کے بڑے بڑے مداح بھی… مغربی تعلیم کے بڑےبڑے ناقدین بھی… لارڈ میکالے پر تبرا بھیجنے کو اپنا صبح شام کا مشغلہ بنا رکھنے والے بھی… اقبال کی شاعری کو ’فکری پھلجھڑیوں‘ کے طور پر لیتے ہیں۔ اِن مادرہائے علمی کی تعظیم اور ان کی پڑھائی ہوئی اشیاء کا تقدس بھی ان کے اذہان میں ساتھ ہی بستا ہے!