Labor-Rights-880x350

 

ہمارے ایک فاضل دوست جو جدت پسند طبقوں کا رد کرنے میں نہایت سرگرم ہیں، اللہ انہیں جزائے خیر دے، نے خاصا عرصہ پہلے ایک سوال پوسٹ کیا تھا، جس پر کچھ اور فضلاء نے بھی اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا۔ ہمارے معزز دوست کا وہ سوال ہمارے جواب کے ساتھ یہاں پیش ہے:

مغربی معاشروں کو اسلامی ثابت کرنے کے لئے ایک نئی دلیل یہ سننے میں آنے لگی ہے کہ ’’مقاصد الشریعہ‘‘ کی حفاظت کے اعتبار سے مغربی ممالک بلاد اسلامیہ (مثلا پاکستان) سے زیادہ اسلامی ہیں۔عام طور پر فقہاء نے مقاصد الشریعہ پانچ بیان فرماۓ ہیں:

  1. حفاظتِ دین
  2. حفاظتِ نسب
  3. حفاظتِ نفس (یعنی جان کی حفاظت)
  4. حفاظتِ عقل،اور
  5. حفاظتِ مال۔

دلیل دینے والوں کا کہنا ہے کہ پہلے دو جزو (ان معنیٰ میں کہ انفرادی سطح پر ہر شخص کو اپنے دین اور نسب کی حفاظت کی اجازت ھے) جبکہ آخری تین تقریبا ہر لحاظ سے ہمارے معاشرے سے زیادہ وہاں محفوظ ہیں۔

اس حوالے سے فی الحال راقم اپنے خیالات کو منظم کرنے کے عمل سے گزر رہا ھے،دریں اثنا اگرصاحب علم حضرات اس حوالے سے کچھ عرض کرکے راقم کی راہنمائی فرمائیں تو نوازش ہوگی۔

جواب:

’’نسب‘‘ کی حفاظت کو سب سے اوپر رکھئے گا ۔۔۔ صاحب، کیونکہ اس میں واقعتاً مغرب کا کوئی ثانی نہیں ہے! ہر بندے کا نسب ہسپتال تک ضرور پہنچتا ہے، اور ’ڈی این اے‘ کے اندر تو ہمیشہ پوشیدہ رہتا ہے!

’’جان‘‘ کی حفاظت ایک بزدل سب سے بڑھ کر کرتا ہے، البتہ جس کا آخرت پر ایمان نہیں وہ اس سے بھی بڑھ کر جان اور اس کے متعلقات (صحت، جثہ، چمڑی وغیرہ) کی حفاظت کرے گا (ہے جو ایک ہی بار!) اور میرا خیال ہے شاطبی﷫[1] کے بیانِ مقاصد سے پہلے بھی دنیا کی عبادت کرنے والوں کو یہ بات معلوم ہی تھی!

’’مال‘‘ کو بھی ’’جان‘‘ کے ساتھ ہی ملحق رکھئے، بلکہ حق یہ ہے کہ پیسے پر جان اور آبرو سب قربان کردیا جائے!

رہ گئی ’’عقل‘‘ تو اس کی ’حفاظت‘ کا کیا مطلب، اس کی تو ’’پوجا‘‘ کرنی چاہئے! یہ الگ بات کہ ہمارے فقہائے مقاصد کے یہاں ’’عقل کی حفاظت‘‘ پر سب سے پہلی مثال شراب کی حرمت کی دی جاتی ہے! جس کی بنا پر آپ محسوس کریں گے کہ وہ کوئی اور عقل ہے جو ہمارے فقہاء کے ہاں باقاعدہ ’’مقاصدِ شریعت‘‘ میں گنی جاتی ہے۔

آخری چیز ’’دین‘‘ رہ جاتی ہے جو اگر مغرب کے پاس ہو تو وہ ضرور اس کی حفاظت کرے!

آپ کے دلیل دینے والوں نے بہت کمال کیا ہے، فرماتے ہیں مغرب میں دین اور نسب کی حفاظت کی ’اجازت‘ ہے، اور یہ ہوئے مقاصدِ شریعت!

بھائی ہمارے فقہاء جب یہ مباحث بیان کرتے ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ اسلام نے اپنی تشریعات کے ذریعے کس گوناگوں انداز میں ’’دین‘‘ کی حفاظت کا انتظام کیا ہے یا ’’نسب‘‘ یا ’’عقل‘‘ یا ’’مال‘‘ کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے، اس معنیٰ میں کہ اگر دینِ اسلام پر کہیں صحیح سپرٹ کے ساتھ عمل ہو تو یہ ضروریاتِ خمس خودبخود اور نہایت اعلیٰ انداز میں محفوظ ومامون ہوجائیں گی اور معاشرہ بہشتِ ارضی کا نقشہ پیش کرنے لگےگا۔

ان صاحب نے اس کو ’اجازت‘ کے معنے میں سمجھ کر کمال ہی کردیا!!!

ہاں شاطبیؒ کی ڈالی ہوئی اس بنیاد کو سمجھنے کے بعد یہ کہا جائے گا کہ جب ہم نے استقراء کے ذریعے یہ دیکھ لیا کہ ایک شریعت اپنی تشریعات کے ذریعے ان ضروریاتِ خمس کی کس کس طرح حفاظت کرتی ہے، بلکہ اس کی تشریعات انہی پانچ چیزوں کو (شرعی پیراڈائم میں رہتے ہوئے) بچانے کے گرد گھومتی ہیں تو اس لیے اسلامی ریاست کو بھی اپنی جملہ پالیسیوں اور اپنی تدبیرات وتنظیمات میں اِن پانچ اشیاء کی صیانت کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ مگر یہ چیز بہت بعد میں اور محض ایک لزوم کے طور پر آتی ہے۔ اصل میں ’’مقاصدِ شریعت‘‘ خود دین کی تشریعات ہی کا ایک مطالعہ ہے جو ایک قاضی یا مفتی کو احکام کے چناؤ کے وقت، خصوصاً تعارضِ احکام کے وقت ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس سے کام لے کر ایک طالب علم شریعت کی اصل روح کو پاتا ہے اور دیکھنے والا شریعت کے حسن کو سراہتا ہے۔ ہاں اس لحاظ سے آپ شرائعِ مغرب کا مطالعہ ضرور کریں؛ ان شاء اللہ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اُس کی تشریعات اور تنظیمات کس طرح:

  1. ’’دین‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ کا صفایا کرتی ہیں۔
  2. کس طرح ’’جان‘‘ کو تباہ کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ امکان پیدا ہوچکا ہے کہ ان تشریعات و تنظیمات کے نتیجے میں انسانی آبادی کم ہوتے ہوتے بالآخر ناپید ہوجائے (اسی وجہ سے اُن ’غیرمہذب‘ آبادیوں سے جہاں اِس ملحد شریعت کے پورے اثرات ابھی نہیں پہنچے ’امیگریشن‘ کے ذریعے ہر سال یہاں ’انسان‘ امپورٹ کرنے پڑتے ہیں، اگر یہ ’’امپورٹ‘‘ نہ ہوتی تو نوعِ انسانی اِن ملکوں کے اندر قریب قریب ختم ہوچکی ہوتی)۔
  3. کس کس طرح یہ ’’مال‘‘ کو ’سرمائے‘ میں بدل اور چند ہاتھوں میں دے کر اس کا استحصال کرواتی اور ساہوکاری کی پرورش کرتی ہے۔
  4. کس کس طرح (شراب، نشہ اور انارکی کی مختلف صورتوں کو مباح کرکے اور روحانیت سے ویران کرنے) یہ ’’عقل‘‘ کو برباد کرتی ہے۔ یہاں تک کہ تقریباً آدھی آبادی نفسیاتی مریض ہے اور اینٹی ڈیپریسنٹ ادویات (جوکہ جسم کےلیے بھی مہلک ہیں) کی بھاری کھپت کروانے کی ضرورت پیدا کرواتی ہے۔
  5. اور کس کس طرح ’’نسب‘‘ کا ستیاناس کرتی ہے یہاں تک کہ ’’خاندان‘‘ ہی تقریباً روپوش ہے۔

تب آپ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ضروریاتِ خمس کا ایسا اجاڑا تاریخ میں کسی نے نہ کیا ہوگا جو مغرب کی اِن تشریعات نے کیا ہے۔ تاریخ کا بدترین اور منظم ترین فساد اور اوپر سے علم اور دانائی کا دعویٰ!!!

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ۔

[1] واضح رہے، ’’مقاصدِ شریعت‘‘ جسے کسی وقت اختصار سے صرف ’’مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے، ایک باقاعدہ علم ہے۔ اس شعبہ کے رجال میں ایک عظیم ترین نام امام شاطبی﷫ کو مانا جاتا ہے۔ شاطبیؒ   کا ذکر یہاں ’’مقاصد‘‘ کے حوالے سے آیا ہے۔