عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ترکِ توحید سے بھی اگر اسلام نہیں جاتا....!
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ترکِ توحید سے بھی اگر اسلام نہیں جاتا....!

 

اسلام کے امور بے شمار ہیں۔ اسلام کی ہر بات کے ترک سے ترکِ اسلام لازم نہیں آتا۔ یہ خوارج کا مذہب ہے۔ البتہ کچھ باتیں اسلام میں ضرور ایسی ہیں جنہیں ترک کر دینے سے آدمی کا اسلام ہی چلا جاتا ہے۔ ان میں سرفہرست توحید ہے۔ جو کہ اسلام کا سب سے پہلا فرض بھی ہے اور سب سے بنیادی عقیدہ بھی۔ یوں سمجھئے کہ یہ شجرِ اسلام کا تنا ہے۔ توحید کا ترک بلاشبہ مستوجب کفر ہے۔

مگر جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز یا فلاں بات مستوجبِ کفر ہے تو ایک ضمنی understood شرط خودبخود وہاں مقصود ہوتی ہے اور وہ یہ کہ آدمی نے اس فعل کا ارتکاب علم رکھتے ہوئے (یعنی اس پر حجت واضح ہو جانے کے بعد) اور جانتے بوجھتے ہوئے کیا ہو، بصورت دیگر اس خاص آدمی کے حق میں یہ حکم خود بخود غیر موثر ہو جائے گا۔ ایک حکمِ عام کسی خاص شخص کے حق میں، اس کے کسی عذر کے باعث، اگر موقوف ہو جاتا ہے __ تاآنکہ اس کے عذر کا ازالہ نہ ہو جائے __ تو اس کا یہ مطلب نہ ہوگا کہ وہ حکمِ عام اب اپنی جگہ پر رہا ہی نہیں۔ وہ حکمِ عام بدستور ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گاکہ وہ شخص اس حکم کے منطبق ہونے سے وقتی طور پر مستثنیٰ ہے۔ وقتی طور پر اس لئے کہ عذر زائل کر دیا جانے کے بعد یا تو وہ اس مستوجبِ کفر بات سے تائب ہو جائے گا، جس کی کہ اصل کوشش اور خواہش اور امید ہونی چاہیے، اور ایسی صورت میں وہ ویسے ہی اس حکم کی زد میں نہ آئے گا.. اور یا پھر، اس ازالۂ عذر کے بعد، اہل علم کی جانب سے اس پر کفر کا وہ حکم لاگو کر دیا جائے گا۔

چنانچہ شرط یہ ہے کہ کوئی مستوجبِ کفر کام ایک شخص نے علم رکھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے اور اختیار رکھتے ہوئے کیا ہو۔ بصورت دیگر اس شخص پر تو وہ حکم نہ لگایا جائے گا البتہ وہ حکم عام، کہ فلاں کام کرنے سے آدمی کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے، شریعت کے ایک اصول کے طور پر اپنی جگہ برقرار رہے گا اور اس اصول کی باحسن انداز تبلیغ بھی برابر ہوتی رہے گی۔ اس صورت میں ایک اصول کا اپنی جگہ رہنا اور کسی خاص شخص یا اشخاص کا اس حکم کے لاگو ہونے سے بچا رہنا باہم متعارض نہ ہوں گے۔

”اطلاق اور تعیین“ کے مسئلہ کے ذیل میں علمائے عقیدہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ کوئی عذر پائے جانے کے باعث نہ تو ایک اصول اور ایک حکمِ عام متروک ٹھہرتا ہے اور نہ کسی خاص شخص کے حق میں اس کا وہ عذر نظر انداز ہوتا ہے۔ اصول معطل نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کو اسی کی تعلیم دی جانا ہے اور تعلیم اور دعوت کے نتیجے میں لوگوں کو اسی پر لایا جانا ہے۔ عذر نظر انداز نہیں ہوتا کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ ایک شخص کو، جب تک کہ اس کا عذر دور نہیں کردیا جاتا، ایک اصول کے لاگو ہونے سے مستثنیٰ رکھا جائے۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں جہالت عام ہے اور حق کی کسی بات سے لاعلم ہونا یا شرک کے زمرے میں آنے والے بعض مسائل میں کسی شخص کا شبہات اور تاویلات کا شکار ہونا ایک معتبر عذر ہے.. لہذا معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو، جب تک کہ ان کی جہالت دور نہیں کر دی جاتی، بلاشبہہ اس عذر کا فائدہ دیا جائے گا۔ البتہ یہ اصول کہ ترکِ توحید اور ارتکابِ شرک سے آدمی مسلمان نہیں رہتا، اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ بلکہ اس بات کی تعلیم ہی کا تقاضا ہے کہ، لوگوں کو فرداً فرداً متعین کرکے ان پرحکم لگائے بغیر، لوگوں کو تعلیم دی جائے اور اس شرعی قاعدہ کا چرچا کیا جائے کہ تارکِ توحید شریعت کی رو سے کفرکا مرتکب ہو جایا کرتا ہے۔

یہ اصول لوگوں کو نہ بتانا بھی زیادتی ہوگی کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ لوگ اگر اس بات سے لاعلم ہیں تو ہمیشہ کیلئے لاعلم ہی رہیں۔ دوسری طرف لوگوں کی اس لاعلمی کو، جب تک کہ وہ دور نہیں کر دی جاتی، بطور عذر قبول نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ چنانچہ نہ تو ایک طرح کی زیادتی روا ہوگی اور نہ دوسری طرح کی۔

لوگوں کو اسلام کی ان سنجیدہ بنیادوں __ جن میں تارکِ توحید کا حکم بھی آتا ہے __ کی تعلیم نہ دی جانے کا مطلب ہو گا کہ معاشرہ اسلا م کے ٹھیٹ اصولوں پر جہت پا ہی نہ سکے۔ البتہ جہاں تک ان اصولوں کی زد پڑنے کا تعلق ہے تو لوگوں کے عذر دور کئے بغیر فتوے لگا دینا بھی لوگوں کی کوئی خدمت ہے اور نہ معاشرے کی کوئی مدد۔ اصل کام ہے ان اصولوں کی سنجیدہ انداز کی تعلیم۔

رہا یہ کہ لوگوں کو اصولِ توحید کی تعلیم کیسے دی جائے خصوصاً لوگوں کو یہ سمجھانے کیلئے کہ توحید ترک کرلینے سے آدمی کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہتا، کیا مقدمات اختیار کئے جائیں تو اس کیلئے بہترین سے بہترین طریقۂ کار اختیار کیا جانابلاشبہ فرض ہے۔ ہرگز ضروری نہیں کہ لوگوں کو آپ دین کی پہلی بات ہی یہ بتائیں کہ تارکِ توحید کافر ہے مگر لوگوں کی تعلیم میں اس بات کو ایک اہم حصے کے طور پر بہرحال شامل ہونا چاہیے۔ تعلیم میں کسی ایک شخص یا جماعت کا طریقہ کسی دوسرے سے بہتر ہے تو ضرور اس طریقے سے استفادہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں تجربات کا تبادلہ ہونا ایک احسن اقدام ہوگا مگر اہم بات یہ ہے کہ اس امر کو دین کی بنیادی تعلیم کا جزولاینفک ہونا چاہیے تا آنکہ یہ بات مسلم معاشرے میں ایک معروف مسلمہ بن جائے۔ اس کو سن کر ایک مسلم معاشرے کے اندر لوگوں کے کان کھڑے نہیں ہو جانے چاہئیں۔

اس سے قطع نظر کہ اس بات کی تعلیم کا عملاً طریق کار کیا ہو، علمائے عقیدہ کے بیان کردہ اس اصول کا بیان ہونا اور علمی وتحریکی حلقوں میں اس بات کو سمجھا جانا اور تعلیم اور دعوت کے مناہج میں اس کی جھلک لائی جانا اصولاً ضروری ہے۔

علمی اور دعوتی حلقوں میں اس بات کو لائے جانے کی غرض سے ہی ”ایقاظ“ اس قسم کے موضوعات کو گاہے بگاہے اور وقتاً فوقتاً اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے کیونکہ ہمارے خیال میں یہاں کے علمی اور دعوتی حلقوں کی توجہ اصولِ اہلسنت کے ان پہلوؤں کی جانب لائی جانا نہایت ضروری ہے تاکہ دین کا علم لینے اور دین کو معاشرے میں لے کر چلنے والی تحریکیں دین کو اس کی حقیقت کے ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔ رہا یہ کہ عقیدہ کے ان اصولوں کو وہ اپنے دعوتی اور تربیتی اور تعلیمی مناہج میں کیسے لے کر آئیں، اس کا انحصار خود ان پر ہے۔ ہم بھی اس میں ان کے شریک تفکیر ہو سکتے ہیں مگر اس سے پہلے اور اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ عقیدہ کے ان پہلوؤں کو، جو کہ بڑی حد تک متروک ہیں، ان حلقوں کی نگاہ میں نمایاں بہر حال کردیا جائے۔ آپ بھی اگر اس بات سے متفق ہوں تو عقیدہ کے ان حقائق کو دین کے اساتذہ اور مربیوں اور داعیوں سے توجہ لے کر دیجئے اور ان موضوعات کو ان کے ہاں زیر بحث لانے میں مددگار ہوئیے.. ایک اصولی معاشرہ کھڑا کردینے کے لئے یہ امر ناگزیر ہے۔

عقیدہ کے ان پہلوؤں کو جو کہ بنیادی طور پر دین کے مسلمات ہیں فی الوقت عوام الناس کی جانب سے مزاحمت پیش آئے اور انکے ہاں اس پر تعجب ہو تو یہ بہت زیادہ ناقابل توقع نہ ہوگا۔ وہ آج تک جو سنتے آئے ہیں اسی کو اپنانے پر اپنے آپ کو مطمئن پائیں گے۔ البتہ اہل علم اور اصحاب دانش کی ذمہ داری ہم اس سے بڑی سمجھتے ہیں اور ان کی جانب سے کوئی ایسا ردعمل آئے تو وہ افسوسناک ہونا چاہیے۔

البتہ یہ امکان رد بہرحال نہیں کیا جا سکتا کہ بعض علمی اور دعوتی حلقوں میں بھی یہ بات پورے طور پر واضح نہ ہو پائی ہو بلکہ زیربحث ہی نہ آئی ہو۔ اگر ایسا ہے تو وہ سب خطرات یہاں بھی مول لینا ہوں گے جو ایک بات کو سمجھانے اور اس پر غور وفکر کرانے کیلئے ناگزیر ہوا کرتے ہیں۔ غلط فہمیاں، اندازے، ردعمل.. سب کچھ کی توقع رکھنا ہوگی اورسب کچھ ہی سہنا ہوگا۔

بعض پڑھے لکھے حلقوں میں ان موضوعات کے اٹھائے جانے پر اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو جانا کچھ بہت زیادہ باعث تعجب بھی نہ ہونا چاہیے۔ دین کے حوالے سے اچھے اچھے دانشوروں کا تحقیق ومطالعہ بھی عموماً دین کے خاص موضوعات تک محدود ہوتا ہے اور ایک ایسے موضوع کو زیربحث لانا جو ان کے لئے نسبتاً نیا ہو اور ان کی نظر میں ’فرقہ وارانہ‘ ہو اور معاشرے کی تعمیر وترقی سے بظاہر کوئی تعلق نہ رکھتا ہو ابتداءً ان کے لئے ناقابل فہم ہو سکتا ہے۔ البتہ "فقہِ توحید" کی یہ اہم ترین حقیقت کہ غیر اللہ کی خدائی اور پرستش کو رد کرنا خدائے واحد کی تعظیم وبندگی کی لازمی اور اساسی شرط ہے اور یہ کہ توحید کے اس مسئلہ سمیت توحید کے کچھ دیگر اہم مسلّمات کو دین کے باقی علم کا دروازہ بنا دینا قرآن سے اور رسول اللہ کی دعوت اور سیرت سے واضح ترین اندازمیں ثابت ہے اور یہ کہ اسلامی معاشرے کی تعمیر اور ترقی بھی بوجوہ اسی بات کی تعلیم سے مشروط ہے.. یہ سب حقائق بھی ضرور ان کی توجہ لیں گے اگر اس مسئلہ کے بیان پر کافی وقت اور محنت صرف کر لی جائے اور اس سلسلے میں جس بات سے وہ ڈرتے ہیں، یعنی لوگوں میں بات بے بات فتوی بازی کا رحجان ہو جانا، ان کے اس "اندیشے" کو "اصول اہلسنت" کے بیان سے رفع کر دیا جائے۔

دین میں صرف نرمی ہی نہیں۔ دین میں صرف سختی بھی نہیں۔ رسول اللہ ﷺنے معاشرے کے سامنے اپنی جو بات رکھی اور اپنے ساتھیوں کو دین کی جو تعلیم دی اس میں آپ نے کہاں سختی کی اور کہاں نرمی، ہمارے لئے ایک بہترین اسوہ ہو سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس امت کو ازسرنو وہی موحدانہ تحریکی جہت دی جائے اور امت کے نوجوانوں میں ویسی ہی ایک متوازن سوچ اور کردار پیدا کیا جائے۔ کن معاملوں میں دین شدت کا متقاضی ہے اور کن معاملوں میں نرمی اور آسانی کا، یہ توازن ہمیں شدید طور پر درکار ہے۔ فکر وعمل کے اس متوازن منہج پر ہمیں اہلسنت کے فکری اثاثہ سے استفادہ کئے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ اصحاب دانش کو اس جانب توجہ بہرحال کرنا ہوگی۔

علمی اور دعوتی حلقوں کے تعاون کے بغیر اُمت میں اس موحدانہ کردار کی تعمیر ایک مشکل کام ہوگا۔ اس کام کو اگر کچھ لوگوں کی مدد حاصل ہو جاتی ہے تو سب سے پہلے ان کو دین کے اس پہلو پر پڑھے لکھے لوگوں کا تعجب کم کرنا ہوگا۔ یہ ایک ضروری مرحلہ ہے جس کو جلد از جلد اور کامیابی کے ساتھ عبورکرنے کی ازحد کوشش ہونی چاہیے۔ البتہ اس مرحلے میں _ جیسا ہم نے کہا _ غلط فہمیاں، اندازے، ردعمل.. سب کچھ کی توقع ہونی چاہیے اور کسی بات کو بھی بڑی بات نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ لوگوں کا تعجب دور ہونے پر خوب خوب محنت کرنا ہوگی۔

ایسے ہی ایک ردعمل کا تذکرہ ہم آئندہ صفحات میں کریں گے۔ اس پر گفتگو کے دوران ہمارے اسلوب میں اگر کہیں شدت آگئی ہے تو ایسا محض اس مسئلے کی اہمیت کا تقاضا جان کرکیا گیا ہے۔ خدا جانتا ہے ہم اپنے سب لائقِ تعظیم اساتذہ اور مشائخ کیلئے بے حد محبت اور احترام رکھتے ہیں۔

 

**********

 

ایقاظ میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا ایک رسالہ کُفرُ تَارِکِ التَّوحِید اردو اختصار کی صورت میں سلسلہ وار دیا جاتا رہا جس میں کچھ بہت ہی اصولی باتیں کی گئی تھیں جن کی تائید میں فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کی مستند کتب سے حوالے دیئے گئے تھے تاکہ واضح ہو کہ یہ مسئلہ کسی ایک طبقے کا اختیار کردہ اجتہاد نہیں بلکہ یہ اہلسنت کا "متفق علیہ مسئلہ" رہا ہے۔

اردو میں ہم نے اس کا عنوان” توحید کا تارک کافر ہے“ دیا تھا جو کہ بڑی حد تک عربی عنوان کا لفظی ترجمہ ہے۔ اس پر ایک دوست کی معرفت ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کے ایک معروف دانشور نے، جو کہ اسلامی امور میں ماہر جانے جاتے ہیں اور ہم بھی انکی بہت ہی قدر اور احترام کرتے ہیں، طنز اور تعجب کے اظہار کے طور پرعلامتِ استعجاب (!) لگا دی۔ یعنی یہ کہ تارک توحید کو کافر کہنا کس قدر باعث تعجب وحیرت انگیز ہے۔

بہت خوب!

معلوم نہیں علامت تعجب اب دین کے اور کن کن مسلّمات پر لگے گی اور اگر یہ سلسلہ چل نکلے تو کہاں رکے گا۔ بنیادی طور پر یہ اس بات کی ایک بہت بڑی دلیل ہوگی کہ اسلام کے غربت واجنبیت کا شکار ہو جانے کی جو پیشین گوئی احادیث میں ہوئی ہے وہ وقت نہ صرف شاید آچکا ہے بلکہ وہ اپنی اس نوبت کو پہنچ گیا ہے۔ اسلامی حقائق اوروں کیلئے نہیں خود اہل اسلام کیلئے بلکہ اسلامی علوم کے ماہرین کیلئے اجنبی ہو رہیں گے، اس کا قرون اولی کے اس معاشرے کے اندر جو شرک کو ختم کر کے قائم کیا گیا تھا کبھی کوئی تصور بھی کب کر سکتا تھا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ کوئی اگر کہے کہ عقیدۂ رسالت کا تارک کافر ہے.. یا یہ کہ ختم نبوت کا تارک کافر ہے، جو کہ یقینا برحق ہے، تو شاید اس پر کسی کو بہت زیادہ تعجب نہ ہو! ہم نے اپنے کسی مضمون میں یہ عنوان باندھا ہوتا کہ ختم نبوت کا تارک کافر ہے، تو ہمارے یہ دانشور شاید نہ تو اس کو انتہا پسندی شمار کرتے اور نہ اس پر علامت تعجب لگانے کی ضررت محسوس کرتے۔ یقینا اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے یہ دانشور رسالت کو توحید سے بڑا عقیدہ سمجھتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ کا حق اللہ کے حق سے زیادہ جانتے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ایک بات معاشرے میں ہوتی ہے اور دوسری نہیں ہوتی! مگر ذرا غور فرمائیے ختمِ نبوت کے ترک یا انکار کو کفر مان لینا یہ حضرات انتہا پسندی شمار نہیں کریں گے البتہ توحید کے ترک کو کفر قرار دے دینا یہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت پر ہی محمول کریں گے۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس پر شاید وہ کبھی خود بھی غور نہ کر پائے ہوں۔ یقینا وہ خدا کے حق پر رسول کا حق مقدم نہیں جانتے مگر خدا کا حق جاننے میں یقینا کہیں کمی رہ گئی ہے۔

خدا کا حق توحید سے بڑھ کر کیا ہوگا؟ بلکہ خدا کا حق توحید کے سوا آخر کیا ہے؟ ایک خدائے برحق کی بندگی۔ پیدا کرنے والے کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ کھلانے والے کو ہی تنہا شکر اور سپاس کے لائق جاننا۔ جس کے ہاتھ میں دنیا جہان کی سب خیر ہے اس کے سوا کسی سے زندگی یا رزق یا اولاد کی خیرات نہ مانگنا اور کسی سے اس بات کیلئے امیدوار نہ ہونا۔ عبادت پر سوائے اس مالک الملک ذوالجلال والاکرام کے کسی اور کا حق تسلیم نہ کرنا۔ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: قرآن میں جہاں کہیں "اللہ کی عبادت اور پرستش" کا ذکر آیا ہے وہاں مراد ہوتی ہے "صرف اللہ کی عبادت اور پرستش"۔ بس اسی” صرف“ کا نام توحید ہے۔ ورنہ کافر بھی خدائے برحق کو پوجتے ہیں۔ اُس کے نام کی نذر اُس کے نام کی قربانی اور اُس کے نام سے بہت کچھ کرتے ہیں۔ خداکی عبادت کے وہ بھی قائل ہیں۔ پھر ہم میں اور ان میں آخر فرق کیا ہے؟ وہ بھی خدا کی عبادت کے قائل ہم بھی خدا کی عبادت کے قائل۔ فرق بس یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت کے قائل ہیں اور ہم صرف خدا کی عبادت کے قائل ہیں۔ اس ”صرف“ کو بیچ سے نکال دیجئے پھر بے شک خداکی”بھی“ عبادت کیجئے آپ کی عبادت اور ایک غیر مسلم کی عبادت میں کوئی فرق ہی نہیں۔

اور پھر یہ رسالت جس کے ترک وانکار سے کفر کا لازم آجانا ہمارے ان معتدل اور دانشور طبقوں کیلئے بھی باعث حیرت نہیں.. ذرا سوچیے اس رسالت کا بھی بھلا لب لباب کیا ہے؟ رسالت کامطلب ہے پیغام بر ہونا، بھلا یہ پیغام کیا ہے؟ اس نبوت اور بعثت کا مقصدآخر کیا ہے؟ پیغام بر ہو اور پیغام کچھ نہ ہو!؟ دنیامیں اتنے رسول آئے تو آخر کیوں؟ اس نبوت اور رسالت کا اس کے سوا کیا کوئی اور مقصد بھی ہے کہ خدائے وحدہ لاشریک کے سوا جس جس کی زمین میں بندگی ہوتی ہے اور جس جس کی پوجا پاٹ کی یہاں دکان چمکی ہے اس کا کھلا کھلا انکار کر دیاجائے اور بندگی کو صرف _ اور صرف _ اللہ وحدہ لاشریک کیلئے خاص کردیا جائے۔ آسمان سے کتابیں نازل ہوتی رہیں تو کیا اس کے سوا ان کتابوں کاکوئی اور مقصد بھی تھا کہ غیر اللہ کی بندگی اور تعظیم وکبریائی کو مٹا کر دنیا میں ایک خدا کی بندگی ہو اور دنیا صرف اسی خدائے بزرگ وبرتر کی بندگی کے آداب سیکھے؟ خود شریعت کیا ہے؟ خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی کے آداب! کتابیں، رسول، نبی، صحیفے، شریعتیں سب اسی ایک مقصد کیلئے توآتے رہے۔ عمل کی قبولیت اسی توحید کے دم سے تو ہے۔ نجات کا امکان اسی توحید کے سر پر تو ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکات _ سب کچھ _ توحید ہے تو ہے توحید نہیں تو سب اکارت۔ کیا اس میں کوئی شک ہے؟

 

ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ ایک میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (25) الأنبیاء

 

ان (سب نبیوں) نے اگر شرک کر لیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔

وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ(88) الأنعام

تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاءکی طرف ہی یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔ لہٰذا تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکرگزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔

ان لوگوں نے تو اللہ کی قدر ہی نہ کی، جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اوربالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (65) بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ (66) وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ(67) الزمر

 

*********

 

کسی چیز کی اہمیت کا تعین ہونا ممکن ہی نہیں جب تک دو باتوں کا جواب نہ دے لیا جائے: اس کے ہونے کا کیا فائدہ ہے اور اس کے نہ ہونے کا کیا نقصان؟

انسان کیلئے پانی کی اہمیت کیا ہے، اس کے جواب میں پانی کے صحت کیلئے فائدے گنوا دیے جانا پانی کی اہمیت کا کل بیان نہ ہوگا۔ یہ بتا دینا بھی ضروری ہوگا، بلکہ فوائد گنوا دینے سے شاید کہیں ضروری ہوگا، کہ پانی کے بغیر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ موت کا لفظ اچھا نہیں مگر پانی کی اہمیت کابیان اس کے بغیر ناقص اور نامکمل رہے گا۔ بلکہ پانی کے بارے میں بنیادی ترین بات ہو ہی یہ سکتی ہے کہ اس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے۔ آپ یہ نہیں بتاتے تو گویا آپ نے انسانی زندگی کیلئے پانی کی اہمیت بتائی ہی نہیں۔

غذا کے انسان کو بہت سے فوائد ہیں مگر سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان مرنے سے بچ جاتا ہے اور غذا کے باعث زندگی پاتا ہے۔ بعض معاملات کو بہت سادہ اور مختصر کر دیا جانا بے حد ضروری ہو جاتا ہے۔ دین اسلام میں توحید کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔انسان کا اسلام اور ایمان باقی رکھنے میں توحید کو عین وہی اہمیت حاصل ہے جو اس کی زندگی کی بقا کیلئے پانی اور غذا کی ہو سکتی ہے۔

یہ کہنا چنانچہ نہ تو کوئی مبالغہ ہے نہ زیادتی اور نہ خدا کی حدوں سے تجاوز کہ توحید چلی جانے سے آدمی کا اسلام چلا جاتا ہے اور کفر کا ارتکاب لازم آجاتا ہے۔ بلکہ اگر توحید چلی جانے سے اسلام نہیں جاتا تو پھر کوئی چیز دنیا میں ایسی پیدا ہوئی نہیں جس کے چلے جانے سے اسلام چلا جاتا ہو۔ توحید عروۂ وثقیٰ ہے یعنی دنیا وآخرت کا وہ مضبوط ترین سہارا جو نجات کا ضامن ہے۔ اس کو تھام لینے سے انسان کا ایمان بچ جاتا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے آدمی اس کو چھوڑ دے تو ایمان نہیں رہتا۔ ایک مضبوط سہارے کو تھامنے کے آپ جتنے مرضی فوائد گنوا لیں مگر کوئی چیز بھی اس بات کے بتا دینے سے کفایت نہ کرے گی کہ یہ سہارا چھوڑ دینے سے آدمی کی موت ہو جانا یقینی ہے۔ عروۂ وثقیٰ کے مفہوم میں یہ بات خودبخود شامل ہے۔ کسی مضبوط سہارے کی نشاندہی کرتے ہوئے انسان کوخبردارکر دینا کہ اگر یہ چھوٹ گیا تو اس کی جان چلی جانا یقینی ہے، ہرگز رواداری کے خلاف نہیں۔ ایسے بڑے نقصان سے تنبیہ کرتے ہوئے چیخ پڑنا تک معیوب نہیں۔

خوراک اگرچہ انسان کی صحت اور تندرستی کا بھی زبردست راز ہے مگر یہ اس کی بقا کا سبب پہلے ہے۔ گویا یہ بیک وقت دو پہلوؤں سے اہم ہے۔ صحت مندی بھی عین اسی چیز سے حاصل ہو جاتی ہے جس سے کہ زندگی۔ توحید کا بھی یہی معاملہ ہے۔ توحید انسان کو شعور وادراک دیتی ہے۔ یہ دل کا سکون ہے۔ خوش بختی اور سعادت کا راز ہے۔ فرد اور معاشرہ دونوں کے فلاح پانے کی بنیاد ہے مگر اس سے پہلے جس بات کے بیان ہونے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس کی بدولت انسان کافر ہونے سے بچ جاتا ہے یعنی انسان کا ایمان معتبر ہوتا ہے اور نجات کی آس لگتی ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہے نہ نجات۔

توحید کے تعارف کا یہ لازمی حصہ ہے۔

چنانچہ کسی چیز کی اہمیت معلوم ہونے کی بنیاد ہی یہ ہوگی کہ اس کے وجود کا کیا فائدہ ہے اور اسکے عدم کا کیا نقصان۔ بنیادی طور پر یہ دونوں ہی اس کے فائدے ہیں مگر فائدے کا یہ دوسرا پہلو اہمیت میں پہلے سے بھی بڑھ کر ہے۔ نقصان کاازالہ فائدہ پانے پر مقدم ہے۔

دَرْءُ الْمَفَاسِدِ أوْلَی مِنْ جَلْبِ الْمَصَالِحِ (1)

اب توحید ہونے کے کیا فائدے ہیں؟

مختصراً یہ کہ بطور فرد دنیا میں یہ آپ کیلئے خوش بختی ہے۔ روح کا اطمینان اور عقل کی راحت ہے۔ شعور اور کردار کی ترقی ہے اور سب سے بڑھ کر خدا کو پانا۔ جبکہ آخرت میں جنت کا ملنا، صالحین کا ساتھ اور خدا کی مجاورت۔

بطور قوم اور بطور اُمت یہ دنیا میں آپ کیلئے تملکون بھا العرب وتدین لکم العجم ہے اور آخرت میں سب امتوں پر فضیلت وبرتری۔

توحید نہ ہو تو اس کا کیا نقصان ہے؟

دنیا میں کفرلازم آتا ہے اور آخرت میں جہنم۔

یہ دوسری بات پہلی بات سے اہم تر ہے۔ یہ بات شدید ہے مگر برحق ہے اور اس کو جان لینا تو بہت ہی ضروری۔ کسی چیز کے عروۂ وثقیٰ (مضبوط ترین سہارا) ہونے ہی کا تقاضا ہے کہ اس کی اہمیت کے یہ دونوں پہلو لوگوں پر واضح ہو جائیں۔ قرآن سے بہتر کوئی کلام نہیں اور قرآن میں ان دونوں پہلوؤں پر حد درجہ زور دیا گیا ہے۔ اس بات کا آخر کوئی تو سبب ہوگا۔

 

*********

 

توحید ضرور بلندیِ درجات کا سبب بھی ہے۔ توحید سے افضل عمل خدا کی نگاہ میں کوئی نہیں۔ مگر اس افضلیت اور بلندیِ درجات کا تنہا ذکر کر دیاجانا ہی توحید کی تعریف میں کافی نہیں۔ یہ کتنی بھی اچھی تعریف سہی مگر یہ توحید کی ناقص تعریف ہوگی۔ توحید کے بارے میں اس سے زیادہ اہم بات یہ جان لی جانا ہے کہ توحید ایمان کی بنیاد ہے اور انسان کے کافر ہو جانے سے بچاؤ۔ یہ چھوٹ جائے تو مغفرت کا امکان ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا ہے۔

بلندی درجات کی نوبت کفر سے بچ جانے کے بعد ہی آسکتی ہے!

 

اللہ کے ہاں شرک کی بہرحال بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا  (116) - النساء

 

*********

 

ترک توحید سے کفر کیونکر لازم آتا ہے، اس کی تفصیل تو آپ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے اسی رسالہ میں دیکھیے جو ایقاظ میں اردو اختصار کی صورت ہم سلسلہ وار نشر کرتے رہے ہیں۔ یہاں ہم اس موضوع کے ان پہلوؤں کا ہی زیادہ ذکر کریں گے جو اس پر’تعجب‘ کا باعث بنتے ہیں۔

توحید کا ترک کب ہوتا ہے؟ ظاہر ہے جب آدمی شرک کرلے۔ آدمی خداکے ساتھ شرک کر لے تو اس کے بعد وہ کون سے نبی کا پیروکار رہتا ہے؟ وہ کون سی آسمانی کتاب کا متبع رہ جاتا ہے؟

توحید کا تارک ہو کر بھی آدمی اگر انبیاءکا پیروکار مانا جانا چاہے تو آخر اسلام کا پھر وہ کون سا عقیدہ ہے جس کے ترک سے کفر لازم آجاتا ہے اور جس کے بعد آدمی کو انبیاءکا پیروکار پھر نہیں سمجھا جانا چاہیے؟ ہمارے دانشور شاید اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ تقدیر کے انکار سے کفر لازم آجاتا ہے۔ذرا غور فرمائیے توحید کا عقیدہ بڑا ہے یا تقدیرکا؟ تقدیر، رسالت، آخرت سب توحید کی فرع ہی تو ہیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور ہمارے محترم دانشور کوئی اس دور میں محمد ﷺ کے ساتھ موسیؑ یا عیسیٰؑ کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری کا دم بھرے اور صرف محمد ﷺ کی اطاعت پر کاربند نہ ہو! دین میں اس شخص کا کیا حکم ہے؟ اس نے آخر کیا کیا ہے؟ اس شخص نے حقِ اطاعت میں محمد ﷺ کے ساتھ __ آج نبوت محمد ﷺ کے زمانہ میں __ پچھلے کسی دور کے سچے رسول کو شریک کیا۔ سبحان اللہ۔ محمدﷺ کے ساتھ _ آج اس دورمیں __ اس نے خدا کے ایک سچے رسول کو شریک کیا جس کی اطاعت کا حق اللہ نے اب ساقط کردیا ہے.. ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے۔ حضرات کیا پھر یہ تعجب کی بات نہیں کہ حقِ اطاعت میں محمدﷺ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا __اور وہ بھی اللہ کے ایک سچے رسول کو شریک کرنا _ تو کھلا کفر ہو.. مگر حقِ بندگی میں، دُعا والتجا میں، نذر ونیاز میں یا حاکمیت اور حق قانون سازی میں اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کچھ مخلوقات کو شریک کر دینا کفر نہ ہو اور اگر اس بات کوکفر کہ دیں تو آپ انتہا پسند کہلائیں!

توحید کا تارک بھی اگر کافر نہیں تو پھر کیوں نہ کہ دیا جائے کہ اسلام کے کسی بھی عقیدے کا تارک کافر نہیں؟ آخر اسلام کا کون سا عقیدہ ہے جو توحید پرمقدم ہے؟

اللہ نے اگر آج اس دورمیں موسیؑ و عیسیؑ کی اطاعت کا حق ساقط کردیا ہے تو کیا وہ ہستیاں جن کی دُنیا میں پوجا ہوتی ہے کیا انکی عبادت کا حق اس نے ہمیشہ سے اور ہمیشہ کیلئے ساقط نہیں کر رکھا؟ کونسا جرم بڑا ہے؟ موسیؑ و عیسیؑ کی محمد ﷺ کے ساتھ اطاعت ہو تو کفر اور خدا کی کچھ مخلوقات کی خدا کے ساتھ عبادت ہو تو کفر نہیں؟!!

ما لکم کیف تحکمون؟

کیا اعتدال کا دامن تھامنے کا خیال ہمیں اسی وقت آتا ہے جب خداکی آبرو پر حرف آئے اور خدا کے حق پر ڈاکہ پڑے؟؟؟

اللہ کے ساتھ شریک کرنا خدا کو دشنام دینا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے:

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم نے میری تکذیب کی، اس کو اس بات کا حق نہ تھا۔ ابن آدم نے مجھے دشنام دی، اس کو اس بات کا حق نہ تھا، اس کی تکذیب میرے ساتھ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہ کر پاؤں گا جیسے میں نے اسے پہلی مرتبہ پیداکیا۔ اس کا مجھے دشنام دینا یہ ہے کہ وہ کہتاہے خدا نے بیٹا اختیار کیاحالانکہ میں بے نیاز ہوں جس نے نہ جنا اور نہ جنا گیا اور کوئی بھی میراہم سر نہیں۔

عن أبِی ہُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّہُ کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذَلِکَ وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذَلِکَ أمَّا تَکْذِیبُہُ اِیَّایَ أنْ یَقُولَ اِنِّی لَنْ أعِیدَہُ کَمَا بَدَأْتُہُ وَأمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ أنْ یَقُولَ اتَّخَذَ اللَّہُ وَلَدًا وَأنَا الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ ألِدْ وَلَمْ أولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِی کُفُؤا أحَدٌ (2)

 

خدا کے ساتھ شرک ہونے پرآسمان کانپ اٹھتے ہیں۔ زمین دہل جاتی ہے اور پہاڑ لرزتے ہیں کہ زمین پر قادر مطلق کے حق میں کسی نادان سے گستاخی ہوئی ہے:

 

یہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ___ یہ تم نے بڑی ہی جرات کی بات کی ہے۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں۔ زمین شق ہو جائے اور پہاڑ دھل کر گر جائیں، اس بات پر کہ یہ رحمان کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں۔ رحمان کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندہ وغلام کی حیثیت میں ہی پیش ہونے والے ہیں۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا  (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90)أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (91) وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا(92) إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا  (93) - مریم

 

توحید ترک کر دینا عین اس مقصد کو فوت کرکے رکھ دینا ہے جس کی خاطر دنیا میں سب کے سب رسول آئے اور سب کی سب کتب نازل ہوئیں۔ بلکہ توحید کا ترک عین اس مقصد کو فوت کر دینا ہے جس کیلئے خود یہ دنیا وجود میں آئی۔

توحید وہ چیز ہے جس پر حرف آئے تو انسانی تاریخ کا رحمدل ترین انسان جو کہ جہانوں کیلئے بھیجا ہی رحمت بنا کر گیا ہے، غضب ناک ہو جاتا ہے:

 

ابو واقد لیثی روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ص جب حنین (کے غزوہ) کیلئے نکلے تو آپ کا گزر بیری کے درخت کے پاس سے ہوا جو کہ مشرکوں کے ہاں ہوا کرتا تھا (اس درخت کا نام ذات انواط رکھا گیا تھا) اور جس پر وہ(تبرکاً) ہتھیار لٹکایا کرتے تھے. تب انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول: ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط ٹھہرا دیں جیسا ذات انواط ان کا ہے تب رسول اللہ ص (غصہ اور تعجب میں) کہنے لگے: سبحان اللہ۔ تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسی سے کہی تھی یعنی (اے موسی ) ہمارے لئے بھی ایک ویسا الہ ٹھہرا دیں جیسا کہ ان کا الہ ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے دیکھو تم ضرور بضرور اپنے سے پہلوں کے راستوں پر چلنے لگو گے۔

عَنْ أبِی وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ أنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا خَرَجَ اِلَی حُنَیْنٍ مَرَّ بِشَجَرَۃ لِلْمُشْرِکِینَ یُقَالُ لَہَا ذَاتُ أنْوَاطٍ یُعَلِّقُونَ عَلَیْہَا أسْلِحَتَہُمْ فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أنْوَاطٍ کَمَا لَہُمْ ذَاتُ أنْوَاطٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُبْحَانَ اللَّہِ ہَذَا کَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَی اجْعَلْ لَنَا اِلَہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَرْکَبُنَّ سُنَّۃ مَنْ کَانَ قَبْلَکُم (3)

 

یہاں تک کہ جہاں کسی بات یاکسی لفظ سے ایسا تاثر بھی ملے کہ وہ خدا کی وحدانیت اور کبریائی کے شایان شان نہیں وہاں رسول اللہ سخت ترین ردعمل ظاہر کرتے ہیں:

 

بروایت عبد اللہ بن عباس رض، کہا: ایک آدمی نبی ص کے پاس آیا اور آپ ص سے کسی بات پر مراجعت کی، تب وہ کہنے لگا: جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں! اس پر آپ ص فرمانے لگے: کیا تو نے مجھے اللہ کا ہم پلہ (اور ایک روایت کے الفاظ میں، ہم سر) بنا دیا؟! ہرگز نہیں. بس اللہ اکیلا جو چاہے

عن ابن عباس قال : جاءرجل اِلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فراجعہ فی بعض الکلام فقال : ما شاءاللہ وشئت ! فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أجعلتنی مع اللہ عدلا ( وفی لفظ : ندا)؟ ! لا بل ما شاءاللہ وحدہ (4)

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک اعرابی نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور (قحط کی شکایت کرتے ہوئے) کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ گھر والے بھوکے ہیں۔ مملوک خراب اور جانور مر رہے ہیں۔ ہمارے لئے بارش طلب کیجئے۔ ہم آپ سے اللہ کی سفارش کرواتے ہیں اور اللہ سے آپ کی سفارش کرواتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ گویا ہوئے: سبحان اللہ! سبحان اللہ!! آپ سبحان اللہ کہتے ہی جا رہے تھے۔یہاں تک کہ اصحاب کے چہروں کی حالت بھی غیر ہونے لگی۔ تب آپ فرمانے لگے: تمہارا بُرا ہو۔ جانتے ہو اللہ کون ذات ہے؟ کسی کی کیا حیثیت کہ اس سے اللہ کی سفارش کروائی جائے، بھلے آدمی اللہ کی شان اس سے کہیں بلند ہے!!

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: أتَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أعْرَابِیٌّ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ جُہِدَتْ الْأنْفُسُ وَضَاعَتْ الْعِیَالُ وَنُہِکَتْ الْأمْوَالُ وَہَلَکَتْ الْأنْعَامُ فَاسْتَسْقِ اللَّہَ لَنَا فَ اِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلَی اللَّہِ وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّہِ عَلَیْکَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیْحَکَ أتَدْرِی مَا تَقُولُ وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا زَالَ یُسَبِّحُ حَتَّی عُرِفَ ذَلِکَ فِی وُجُوہِ أصْحَابِہِ ثُمَّ قَالَ وَیْحَکَ اِنَّہُ لَا یُسْتَشْفَعُ بِاللَّہِ عَلَی أحَدٍ مِنْ خَلْقِہِ شَأْنُ اللَّہِ أعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ (5)

 

توحید خدا کا وہ حق ہے جس کو وہ کبھی نہیں چھوڑتا۔ یہ حق اداہونے سے رہ جائے تو وہ ارحم الراحمین معافی دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ کوئی جیتے جی اس گناہ سے تائب نہ ہو سکا ہو اس کیلئے کوئی اور بھی معافی کی درخواست نہیں کر سکتا۔ وہ جو خیر الغافرین ہے وہ اس گناہ پر مغفرت کا امکان ہی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتا ہے، سوائے یہ کہ موت سے پہلے آدمی اس سے تائب ہو جائے۔ اسکی رحمت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، جس میں گناہوں کے پہاڑ گم ہوجائیں اور نظر تک نہ آئیں، اس جرم کا ذرہ بھر اٹھانے کا روادار نہیں۔ یہ واقعتا اسی قدر متنبہ ہو جانے اور متنبہ کر دینے کی بات ہے۔ بلاشبہ یہ اتنا ہی بڑا گناہ ہے:

 

اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جتنے گناہ ہیں وہ جس کیلئے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا  (48) - النساء

نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کیلئے مغفرت کی دُعا کریں، چاہے وہ انکے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا  (113) - التوبۃ

 

*********

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز