عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, April 24,2024 | 1445, شَوّال 14
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مدرسۂ ابن تیمیہؒ: دین اور امت کو بیک وقت لے کر چلنا
:عنوان

’’دین و عبادت کو خالص کرنا‘‘ اور ’’امت کی ڈولتی کشتی کو سنبھالنا‘‘ دو کام نہ رہیں بلکہ یہ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک ہی عمل بن جائیں۔ ’’مدرسہ ابن تیمیہ‘‘ درحقیقت ہمارے اِس روگ کا علاج ہے۔

. اصولمنہج :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

مدرسۂ ابن تیمیہؒ: دین اور امت کو بیک وقت لے کر چلنا

باشعور دینداروں میں یہاں بالعموم آپ کو دو رجحان نظر آئیں گے:

ایک: دین میں خوب تحقیق کرنا۔ مستند وغیرمستند کی تہ میں جانا۔ دلیل کا بکثرت خیال رکھنا، خصوصاً عقیدہ میں۔ بدعات کا رَد۔ بدعات میں ملوث گروہوں پر کڑی گرفت کرنا۔ حق کے بیان اور نشر پر محنت کرنا۔ سنت ، خصوصاً عقیدہ سے انحراف نظر آئے، بطورِ خاص اگر شرک دیکھیں، تو اس پر نکیر کرنا۔ اِس معاملہ میں لوگوں کی خوشی یا ناخوشی کی کوئی پروا اور عوامی مقبولیت وغیرمقبولیت سے کوئی سروکار نہ رکھتے ہوئے حق بات کہنا… اور اسی چیز کو دین پر استقامت اور ثابت قدمی جاننا۔ مختصراً…؛ دین کی تنقیح۔

دوسرا:       امت کی فکر کرنا۔ امت کو درپیش چیلنجز پر توجہ دینا۔ مختلف شعبوں میں امت کو لاحق پریشانیوں کے ازالہ کی سبیل کرنا۔ بیرونی دشمن کے خلاف مزاحمت کھڑی کرنے یا اندرونی بحرانوں پر قابو پانے کےلیے سرگرم ہونا (عسکری محاذوں سے لے کر معاشی سکیموں اور طبی ضرورتوں تک کی بہم رسانی۔ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور تجارت میں امت اپنی پسماندگی کے ہاتھوں اِس وقت دشمن سے جو مار کھا رہی ہے، اس کے تدارک کےلیے درکار عوامل کو تحریک دینا۔ سیاسی شعبوں میں امت کو قیادت فراہم کرنا۔ یہاں کے وڈیرے اور سرمایہ دار نیز اُس کے پیچھے چھپے عالمی وڈیرے کے ہاتھوں ہونے والے استحصال کی روک تھام کےلیے امت کا سیاسی شعور بیدار کرنے اور امت کو ایک سیاسی راہنمائی فراہم کرنے کی کوشش۔ سیلاب، زلزلہ، بدامنی وغیرہ ایسی آفات کے وقت لوگوں کی مدد میں بھاگ دوڑ کرتے پایا جانا، وغیرہ)۔ مختصراً…؛ امت کی خبرگیری۔[1]

اِن دو رجحانات کے مابین بالعموم ایک خلیج دیکھنے میں آئی ہے۔ فی الوقت مشاہدہ یہی ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ جہتیں ہوں! عموماً؛ اِن میں سے ایک چیز دوسرے کی قیمت پر ہو رہی ہے۔ ایک کا ہونا دوسرے کےنظرانداز ہونے کا تقاضا تو کر ہی رہا ہوتا ہے،الاماشاءاللہ۔ دونوں کے درمیان ایک درجے کا تنافر (repulsion) ہمارے اِس دور میں صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ واقعہ یہ ہے کہ… دونوں کا ایک دوسرے سے دُور پایا جانا، دونوں کا نقصان ہے۔ اِن کے مابین یہ تنافر ہردو کی افادیت کم کرا دیتا ہے۔ بلکہ کسی وقت تو ان کی افادیت تقریباً معدوم ہوجاتی ہے؛ یہاں تک کہ یہ ایک دوسرے کی کاٹ کرتے محسوس ہوتے ہیں۔

یہ کوئی عام سوسائٹی نہیں؛ خیرالاُمم ہے۔ سیدقطب کے الفاظ میں: ایک قوم جو محض ایک ’’کتاب‘‘ کی نصوص سے پیدا ہو کر آئی؛ اور جوکہ تاریخِ انسانی کا منفردترین واقعہ ہے! تنزیلِ خداوندی کے فہم اور اس پر عمل سے جنم پا کر منصۂ شہود پر آنے والی ایک قوم۔ پس یہ وہ امت ہے جس کی سب جان ایک کتاب اور ایک دستور میں ہے۔ اس کے بغیر یہ جتنی بھی سرگرم ہولے، ذلت اور رسوائی کے ساتھ لوٹتی ہے۔ بڑی بڑی تدبیریں اِس کے یہاں الٹی پڑ جاتی ہیں۔ البتہ جہاں یہ روح کارفرما ہو؛ جہاں یہ ’’آسمانی دستاویز‘‘ اور یہ ’’نبوی دستور‘‘ اِس کی ’’سرگرمی‘‘ میں بول رہا ہو… وہاں اِس کی تھوڑی سی محنت ابلیس کے بڑےبڑے قلعے ڈھاتی دیکھی گئی ہے۔ پس اِس ’’کتاب‘‘ اور اِس امت کا یہ جوڑ… اِس ’’سنت‘‘ اور اِس ’’امت‘‘ کا یہ رشتہ… ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اِس کا احیاء یہاں کا اہم ترین فریضہ ہونا ہی چاہئے۔

لہٰذا اصل چیز وہ رشتہ ہے جو اِس ’’دین‘‘ اور اِس ’’امت‘‘ کے مابین ہر دور میں تازہ اور پختہ کروانا ہوتا ہے۔ یہی درحقیقت ’’کارِ تجدید‘‘ ہے۔ مطلوب یہ ہو گا کہ ’’دین و عبادت کو خالص کرنا‘‘ اور ’’امت کی ڈولتی کشتی کو سنبھالنا‘‘ دو کام نہ رہیں بلکہ یہ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک ہی عمل بن جائیں۔ ’’مدرسہ ابن تیمیہ‘‘ درحقیقت ہمارے اِس روگ کا علاج ہے۔ یہ نرا دعویٰ نہیں۔ اِس مدرسہ کی مستند اشیاء جس جس کی نظر سے گزریں، وہ ’’ایمان‘‘ اور ’’عمل‘‘ کے رشتے کو اس خوبصورتی کے ساتھ تشکیل پاتا دیکھ کر اَش اَش ہی تو کر اٹھا ہے۔ ایک کمال درجے کی ثقاہت authenticity اور ایک کمال درجے کی ایجابیت و فاعلیت dynamism ایک ہی جگہ دیکھ کر وہ دنگ رہ جاتا ہے اور اس کو یقین کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ ایک مدرسہ نے ’’عقیدہ‘‘ اور ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ کو اِس تفصیل اور اِس گہرائی میں یکجا کر رکھا ہے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگوں نے ’’دستورِ شریعت‘‘ اور ’’امت کی سرگرمی‘‘ کو باہم جوڑنے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو۔ لیکن یہ عمل ایک بہت گہری نظر چاہتا تھا۔ اکثر لوگ اپنی اِس کوشش میں جو پیچیدگیاں پیدا کرکے نوجوانوں کو دے رہے ہیں اوراپنے اِس عمل سے جس افراط و تفریط کا سبب بن رہے ہیں، وہ ایک پریشان کن فنامنا a phenomenon of extreme confusion ہے۔

یہاں تک دیکھنے میں آیا کہ کچھ ناپختہ و شدت پسند ہمارے اِس دور میں خود ابن تیمیہ ہی کی اشیاء نکال نکال کر لوگوں کو تھمانے لگے! تاہم صرف ایک ہی مثال یہ واضح کر سکتی ہے کہ یہ حضرات درحقیقت اپنی شدت پسندی کو ابن تیمیہ کی کتب میں ڈھونڈتے رہے ہیں اور اس خاص ذہن کے ساتھ مصروفِ جستجو ہوجانے[2] پر جہاں جہاں ان کو اپنے مفید مطلب مضامین نظر آئے انہیں ’منہج ابن تیمیہ‘ کے نام سے عوام میں پھیلانے لگے؛ کہ علمی حلقوں میں ابن تیمیہؒ کی بہرحال ایک دھاک ہے؛ اور جبکہ وہ واقعتاً ابن تیمیہ ہی کے بیان کردہ مباحث تھے، مگر منہج ابن تیمیہ کی پوری وسعت کے بغیر؛ یعنی تصویر کے صرف ایک حصے کو ’پوری تصویر‘ باور کروانا۔ البتہ جہاں ابن تیمیہ اپنے اُس کمال توازن کو برقرار رکھتے ہوئے، جس کی جانب اوپر اشارہ ہوا، ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ کی کچھ گہری گتھیاں سلجھاتے اور اپنے اِس منہج کی کچھ وسعتیں اور اس کے سماجی امکانات social potentials بیان کرتے ہیں اور جہاں سیاسۃ شرعیہ کے رجال ابن تیمیہ کی فقہی قدرت کی داد دیتے ہیں… وہاں اول تو یہ حضرات خود حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا، اور پھر کہہ اٹھتے ہیں کہ یہاں ابن تیمیہ ٹھوکر کھا گئے ہیں!!!

یہ مثال اُس ’’پیچیدہ‘‘ صورتحال سے متعلق ہے جس کی تمہید ابن تیمیہؒ اپنے اِس زریں اصول سے باندھتے ہیں کہ: ’’خیر‘‘ اور ’’شر‘‘ کی بابت عمومی قاعدے بیان کر لینا اصل علم نہیں؛ یہ کام تو سبھی کر لیں گے۔ اصل فقہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک چیز کے شرعی موجبات اور موانع گتھم گتھا ہوں؛ فقیہ کی سانس اصل میں وہاں پھولتی ہے اور وہاں پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کون محض اصول یاد کیے بیٹھا ہے اور کسے اللہ نے وہ علم اور نظر دی ہے جو ’’تعارضِ حسنات و سیئات‘‘ کے تلاطم میں سے پورے وثوق کے ساتھ راستہ بنا لیتی ہے۔ یہ اس مبحث کا لب لباب ہے۔ اسے خود ابن تیمیہ کے کلام سے دیکھنے کےلیے مجموع فتاویٰ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ خود ہمارے یہاں اداریہ اپریل 2014 بعنوان ’’تحریکی عمل کو جو پختگی درکار ہے‘‘ میں صفحہ 12، 13 پر اس کے کچھ حوالے ذکر ہوئے ہیں۔ یہاں ابن تیمیہ اپنا وہ مبحث جماتے ہیں کہ ایک ہی فعل کا خوب اور ناخوب ہونا مختلف وقائع میں مختلف ہوگا؛ اور اصل فقہ ہے ہی یہ کہ ایک معاملے کو وہاں پر موجود دیگر عوامل کی نسبت سے دیکھنے کی استعداد پیدا کی جائے۔ تب ایک چیز جسے آپ نے ’اصولوں‘ میں ناخوب دیکھا تھا ممکن ہے ایک ’’دی ہوئی صورت‘‘ میں خوب قرار پائے۔ اور اس کے برعکس، ایک چیز جسے ’اصول‘ خوب ہونے کی سند دیتے ہیں اس ’’دی ہوئی صورت‘‘ میں البتہ ناخوب ٹھہرے۔ ابن تیمیہ اپنے اس اصول کے کچھ شواہد بھی ذکر کرتے ہیں، جن میں بطورِ خاص یوسفؑ کا ایک کافر بادشاہ کے ہاں اعلیٰ منصب قبول فرمانا اور پھر کمال حکمت اور دانائی سے کام لیتے ہوئے ایک مختصرترین مدت میں سب معاملے کو حیرت انگیز طور پر اسلام کے حق میں پلٹ دینا، نیز نجاشی کا واقعہ آتا ہے۔ (یہ چیز کسی قدر تفصیل سے ہمارے جولائی 2013 کے ایک مضمون ’’واقعۂ یوسفؑ کے حوالے سے ابن تیمیہ کی تقریر‘‘ اور اپریل 2014 کے ایک مضمون ’’غیر شرعی نظام کو بنانے اور اس کے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے‘‘ میں ابن تیمیہ کے حوالے سے بیان ہوئی ہے)۔ ہمارا خیال تھا، شدت پسندی کی جانب میلان رکھنے والے ہمارے بھائی یہاں صرف ہم پر معترض ہوں گے کہ ہمیں ابن تیمیہ کی بات سمجھنے میں کوئی غلطی لگی ہے البتہ ’’ابن تیمیہ‘‘ کو اپنی ہی سائڈ پر رکھیں گے… لیکن ہماری حیرت کےلیے؛ ہمارے ان بھائیوں نے ایک صاف سپاٹ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ابن تیمیہ اِس باب میں غلطی کھا گئے ہیں!

اِس مثال سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ خود ابن تیمیہ کے مدرسہ کو لے کر چلنے کا یہاں کوئی ایک ہی اسلوب نہیں ہے۔ یہاں بڑے بڑے اِفراط کی راہ چلنے والے بھی، اور بڑی بڑی تفریط کی راہ چلنے والے بھی، بیک وقت آپ کو ’’ابن تیمیہ‘‘ کے حوالے دیتے نظر آئیں گے۔ یہاں مذاہب اربعہ کو اہل سنت سے خارج ٹھہرانے والے بھی آپ کو ابن تیمیہ و ابن قیم کی عبارتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں گے (مذاہبِ اربعہ جن کے دفاع کےلیے ابن تیمیہ نے ایک علمی جنگ کی ہے!) [ افراط کی ایک مثال ]۔ بڑی بڑی اچھی صالح سنی جماعتوں کو کافر کہنے یا انکا خون مباح کرنے والے بھی آپکو ابن تیمیہ اور ابن عبدالوھاب کا نام لے کر خاموش کروارہے ہوں گے۔ [افراط کی ایک اور مثال]… اور عبادتِ قبور میں ملوث ٹولوں خصوصاً روافض کے شرک پر معاشرے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھنے والے طبقے بھی آپ کو ابن تیمیہ اور ابن عبدالوھاب کی سلفیت کے اصل وارث ہونے کا دعویٰ کرتے دکھائی دیں گے [تفریط کی ایک مثال]۔

پس اگر آپ ایک مدرسہ کو کسی باب میں شدید حد تک قابل اعتناء جانتے ہیں تو یہ بھی ضروری ہوجائے گا کہ خود اپنے زمانے میں آپ ایسے علماء کا قصد کریں جو اس مدرسہ کے معیاری ترجمان ہوں۔[3] یہاں؛ ایسے رجال آپ کی ضرورت ہوجاتے ہیں جو ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ اور ’’تعاملِ امت‘‘ ایسے ابواب میں مدرسہ ابن تیمیہ کو پوری طرح اون own کرتے ہوئے (نہ کہ ’’پک اینڈ چوز‘‘ pick & chose   کے طریقے پر چلتے ہوئے) اور اس کے سب جوانب کو بیک وقت ساتھ لے کر چلتے ہوئے… طالبعلم کو اس مدرسہ کے کچھ اہم مباحث کی فی زمانہ تطبیق کر کے دیں۔

اب جہاں تک فی زمانہ شخصیات کا تعلق ہے، اور جبکہ ہم پیچھے دیکھ آئے ہیں کہ اس مدرسہ کی فی زمانہ ترجمانی کے دعویدار گروہ بہت ہیں (اور جوکہ ایک چیز کی اہمیت پر بجائےخود دلالت ہے)… تو یہاں کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ابتدائی طور پر initially  خود آپ کے اندر جانچ کی ایک استعداد ہو۔ وہ چیز جو آپ کو ایک عالم کے علم پر اعتماد دلواتی ہے تو دوسرے عالم کو یہ حیثیت دلوانے پر آمادہ نہیں ہوتی؛ تاآنکہ آپ ایک عالم سے شرعی راہنمائی لینے پر مطمئن جبکہ دوسرے سے عین وہ راہنمائی لینے پر مطمئن نہیں ہوتے۔ خود مدرسہ ابن تیمیہ کی آپ کے یہاں کوئی ساکھ ہے تو اس کے پیچھے ایسا ہی کوئی سبب ہو سکتا ہے؛ کہ بیس مدرسے چھوڑ کر آپ خاص اسی کے پاس کیوں گئے ہیں۔ یعنی یا تو خود آپ کا اپنا ذوق و مطالعہ ہے یا پھر آپ کے کسی معتمد کا ذوق و مطالعہ جو آپ کو ابن تیمیہ کے پاس لے پہنچا ہے اور جس کے باعث آپ کو یہ اطمینان ہو چلا ہے کہ ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ کے باب میں یہاں آپ کو اقوالِ سلف کی ایک اچھی ترجمانی ملے گی۔ ظاہر ہے، ورنہ ابن تیمیہ کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں جس پر (معاذاللہ) ’’ایمان‘‘ لانا ضروری ہو! صرف ایک علمی و فکری اعتماد ہے۔ اب ایسی ہی کچھ محنت آپ کو اس بات پر بھی کرنا پڑے گی کہ اگر کسی مدرسہ کو امت میں قبولِ عام حاصل ہے تو اس کے فی زمانہ ترجمان طبقوں میں بھی آپ اعلیٰ سے اعلیٰ لوگوں تک پہنچیں۔

بطورِ طالبعلم، اِس باب میں ہم اپنا حاصلِ بحث آپ کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں پڑھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ موضوع ہمارے مطالعہ اور ہماری دلچسپیوں کا ایک بہت بڑا حصہ لیتا ہے اور اِس پر ہماری تلاش و جستجو کا خاصا حصہ صرف ہوتا ہے۔ ہمارے ذوق اور استعداد کی بابت کوئی رائے رکھنا آپ کا اپنا کام ہے۔ اپنی جیسی کیسی استعداد کے ساتھ، ہمیں تین عشرے تک اپنی اِس طلب کے پیچھے پھرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارا حاصلِ تلاش یہ ہے کہ: مدرسہ ابن تیمیہ کی فی زمانہ ترجمانی سعودی جامعات و اساتذہ سے بڑھ کر کہیں نہیں ہے۔ ان میں سے اُس محدود سے عنصر کو الگ کردیجئے جو ہر حال میں دربارِ بادشاہی کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری سمجھتا ہے۔ باقی یہ پورے کا پورا علمی ماحول، یہاں کا پی ایچ ڈی سطح کا تحقیقی عمل، علمی رویے، یہاں کے فقہی رجحانات کمال یکسانیت کے ساتھ ایک ’’معیار‘‘ تشکیل کر کے دیتے ہیں۔ ’’معیار‘‘ یعنی کسی ایک آدھ شخصیت کی طرف مسئلہ لوٹانے کی بات رہ ہی نہیں جاتی۔ ڈاکٹریٹ لیول کا ہر شخص وہی ایک بات کرے گا جو آپ اس سے ہزار کلومیٹر دور کسی جامعہ میں بیٹھے ایک دوسرے شخص سے من و عن سن سکتے ہیں۔ ’’معیار‘‘ کہیں گے ہی اس چیز کو جہاں آپ کو اِس طرح کے خطیر مسائل دنیا کے کُل ایک دو ’’حفظہ اللہ‘‘ کی سوچوں اور اندازوں کی جانب نہ لوٹانے پڑیں؛ بلکہ ہر ایک عالم سے آپ کو وہی ایک بات سننے کو ملے۔ ہاں ایسے بےشمار علماء جو خود بھی عین وہی بات کہیں گے، اپنے میں سے کچھ خاص شخصیات کو اس مدرسہ کی اشیاء کو ایک خاص ضبط کے ساتھ بیان کرنے میں خصوصی مقام دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ’’اصولِ سنت‘‘ پر ہم اگر کسی معاصر شخصیت کو ایک خصوصی مرجع کے طور پر پیش کریں گے تو وہ صرف اس لیے کہ اس میدان کے بڑےبڑے اساتذہ ایک شخصیت کو اپنے استاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اس حوالہ سے، حالیہ شمارہ میں "تعامل اہل قبلہ" کے عنوان سے فضیلت مآب سفرالحوالی کا ایک متن پیش ہے۔ امید ہے یہ ہمارے تحریکی عمل کی بہت سی الجھنیں دور کرے گا۔ اس کے بعض مباحث کو ہم نے مزید کھولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ توضیحات یا تو خود مؤلف ہی کے کچھ دیگر مقامات کی خوشہ چینی ہے۔ یا کچھ ایسی اشیاء جو مؤلف کے اصحاب و تلامذہ کے ہاں مسلّم ہیں۔ یا ایسی اشیاء جن میں ہم نے وقتاً فوقتاً شیخ سے براہِ راست توثیق حاصل کی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی صاحب علم محسوس کریں کہ ہم نے سفرالحوالی کے مدرسہ کو کہیں پر غلط بیان کردیا ہے تو ہمیں متنبہ فرمائیں۔ تاہم جو حضرات اِس مدرسہ کا رد بھی ساتھ ہی کرنا چاہیں، وہ اِن دونوں اشیاء کا فرق رکھتے ہوئے، ہمارے ناقد بنیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو سیاسۃ شرعیۃ کے فی زمانہ مباحث میں ہمارے ہاں اِس مدرسہ کا پورا التزام ہوتا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ

[1]    واضح رہے، یہ دونوں رجحانات اپنی مثبت ترین صورت میں ہی یہاں ہمارے زیربحث ہیں۔

رہ گیا یہ کہ اِن دو کیمپوں میں آگے چل کر کچھ منحرف رجحان بھی پائے جاتے ہیں، تو وہ یہاں ہمارے زیربحث نہیں۔ مثال کے طور پر اول الذکر میں ایسا طبقہ جو ’’سنت‘‘ ہی کا ایک عجیب وغریب مفہوم رکھتا ہے اور جس کی رُو سے مذاہبِ اربعہ ایسے معروف مسالکِ سنت، ’سنت‘ پر ہی نہیں ہیں! (سنت سے ہی بےدخل ہیں!) اور جس کے خیال میں ’’اتباعِ سنت‘‘ کا مطلب: فروع میں ائمۂ مجتہدین کی تقلید کی ہر ہر صورت کو رد کردینا ہے! یہ اِس کیمپ میں منحرف رجحانات کی صرف ایک مثال ہے۔ ثانی الذکر کیمپ میں منحرف رجحانات کی صرف ایک مثال: روافض کو از راہِ مصلحت قریب کرنے تک محدود نہ رہتے ہوئے، خود روافض کے مذہب کو ہی ’نجات پانے والے مذاہب‘ میں گننے لگنا (روافض کو حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کی طرز کے ایک فقہی گروہ کے طور پر لینا)۔ کوئی متبع سنت ان کو گمراہ فرقوں میں شمار کرے تو اس پر برہم ہونا۔

مگر جیساکہ ہم نے عرض کیا، یہاں ہمارے زیربحث اِن دونوں کیمپوں میں پائے جانے والے وہ طبقے ہیں جن کا اپنا تصورِ سنت کسی بڑے خلل کا شکار نہیں۔ دونوں کیمپوں میں فرق بس یہ ہے کہ ایک کا فوکس دین کی تنقیح ہے اور دوسرے کا فوکس امت کی خدمت۔

[2]    مدرسہ ابن تیمیہ کے علاوہ، اب کسی حد تک اکابر دیوبند کے ساتھ بھی یہ زیادتی ہونے لگی ہے۔

[3]    کسی مدرسہ کو شدید قابل اعتناء جاننا طَلَبَة العِلم کےلیے باعث تعجب نہ ہونا چاہئے۔ ہمارے روایتی حلقوں میں تو یہ بات ہمیشہ سے چلی آئی ہے، تقلید وغیرہ کو رد کرنے اور ہر بات کو اپنی ’اقول‘ سے سمجھنے والے طبقے تک اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ اس کی ایک مثال: جن لوگوں کو ’المورد‘ کے بغیر کہیں سے اطمینان نہیں ہوتا وہ اس مدرسہ کے مراجع کو ایک خصوصی اہمیت دیتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک سنتے ہیں کہ ’فلاں شخص مکتب فراہی کی چیزوں کو صحیح طرح نہیں جانتا‘، یعنی اس کا صحیح ترجمان نہیں۔ غرض اپنے اطمینان کے ایک مکتب فکر کو اہم جاننا اور فہمِ دین کےلیے اس کو خصوصی توجہ دینا سبھی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ مدرسہ ابن تیمیہ سے متعلق ہماری یہ گفتگو پڑھنے کے دوران کوئی صاحب ناک بھوں چڑھاتے ہوئے سوچیں کہ سبحان اللہ، ایک انسان ہی تو ہے خود اس کے علمی ورثہ کا اتنا اہتمام اور پھر اس کے شارحین اور اس کے ترجمانوں کی بابت اتنی چھان پھٹک!

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز