قانون کی آڑ میں.. بدکاری عام کروانا کس کا ایجنڈا ہے؟

ابن علی


چند دن پہلے برطانیہ سے آنے والی ایک خبر نے پوری دنیا کو چونکا دیا: ایک بارہ سالہ لڑکی اور تیرہ سالہ لڑکے کے جنسی تعلقات نے کم سنی میں ’والدین‘ بننے  کا ایک نیا ریکارڈ قائم کروا دیا! یہ خبر انٹرنیٹ پر جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہے، پھر بھی قارئین کی آسانی کےلیے ہم یہاں ایک برطانوی سائٹ کا لنک دے رہے ہیں:

http://t.co/St9wynYAkL

ظاہر ہے اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کو مغربی قانون ’’شادی‘‘ کی اجازت تو نہیں دیتا۔ جس کا مطلب ہے کم سنی کا یہ ریکارڈ برطانیہ کی اس ’ہونہار‘ لڑکی نے اپنے ’بوائےفرینڈ‘ کے ساتھ ناجائز مراسم کے ذریعے قائم کیا۔ مگر یہ وہ ’ناجائز‘ ہے جس کےلیے برطانیہ کی لغت میں فی الوقت کوئی لفظ نہیں پایا جاتا! کیونکہ ’ناجائز‘ کےلیے آپ وہاں illegal    کا لفظ بولیں گے یا prohibited    یا اسی طرح کا کوئی اور لفظ۔ ایسے کسی بھی لفظ سے برطانیہ میں رہنے والے ایک شخص کے ذہن میں اس کا ’قانونی‘ حوالہ ہی آئےگا، کیونکہ عرصہ ہوا ان الفاظ کا ’مذہبی‘ حوالہ لوگوں کے سننے اور بولنے میں نہیں آتا۔  جبکہ اِس رائجِ عام حوالہ سے، اس لڑکے اور لڑکی نے کوئی illegal   یا prohibited    کام نہیں کیا!

یعنی پیمانے سرتاپیر بدل گئے!

چنانچہ یہ معاملہ بظاہر جتنا دلچسپ دکھائی دیتا ہے حقیقت میں اس سے زیادہ شرمناک ہے۔ یہ بارہ سالہ بچی اگر ’’شادی‘‘ کے نتیجے میں ماں بنتی تو برطانویوں کے ہاں یہ ’’ناجائز‘‘ ہوتا! حمل کے وقت یہ بچی ظاہر ہے صرف گیارہ برس چند ماہ کی تھی اور اس کا بوائےفرینڈ بارہ برس کا۔ یہ کمسن مرد اور عورت کسی ’’نکاح‘‘ کے نتیجے میں جنسی تعلقات قائم کرتے تو یقینی طور پر قانون اور سماج کی زد میں آتے اور ان کا یہ تعلق قطعی ’’ناجائز‘‘ قرار پاتا؛ جس پر ’جدید اقدار‘ پر ایمان رکھنے والا برطانوی معاشرہ بلاتاخیر حرکت میں آ جاتا اور اس گھر کے بزرگوں کو جیل میں کردیتا! لیکن چونکہ انہوں نے ’’نکاح‘‘ ایسا کوئی گناہ نہیں کیا، اس لیے گیارہ سال کی اِس بچی اور بارہ سال کے اِس بچے کا تعلق جائز ٹھہرا اور اس کے نتیجے میں اولاد کا پیدا ہونا بھی قطعی ناقابل اعتراض۔  رپورٹ کا کہنا ہے ننھے والدین اپنی اس کارگزاری پر بےحد خوش ہیں اور مل کر اپنی بچی کی پرورش کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کو تعجب ہے تو ان کی کمسنی پر نہ کہ کسی ’اور‘ بات پر!

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے:

تصور کیجئے، خبر یہ آتی کہ: پاکستان کے کسی پسماندہ سے شہر میں ’کمسنی‘ کی شادی کے نتیجے میں ایک لڑکی 12 سال کی عمر میں ماں بن گئی جس کا شوہر ابھی صرف 13 سال کا ہے… تو کیا خیال ہے یہاں ’انسانیت‘ کے ہمدرد کیسےکیسے مروڑ کا شکار ہوتے! یہ واقعہ اگر کسی ’’نکاح‘‘ کے نتیجے میں پیش آگیا ہوتا تو لبرل میڈیا کی چیخ سے دنیا کیسے لرزتی! لیکن حالیہ واقعہ پر ظاہر ہے کوئی ایسا شور نہیں اٹھا۔ ’جدید انسان‘ کو دنیابھر میں اس سے جس قدر غش پڑے وہ ہم نے دیکھ لیے، ظاہر ہے یہ کوئی ایسی خبر نہیں جس پر واویلا کیا جائے! اس واقعہ پر تعجب ہونا چاہئے تو محض ’بیالوجی‘ کی نظر سے؛ ’’سماجیات‘‘ اور ’’اخلاقیات‘‘ کی نظر سے بھلا اس میں کیا انہونی بات ہے؟!

تو کیا کسی کو اندازہ ہوا کہ ’کمسنی کی شادی‘ پر پچھلے دنوں ہمارے ہاں جو درد پھوٹ پھوٹ کر آرہا تھا وہ صرف اور صرف حلال کے دروازے بند کروانے کیلئے تھا… جی ہاں حلال کے دروازے بند ہوں گے تو حرام کے دروازے خودبخود کھلیں گے؛ کیونکہ انسانی خواہش اور ہارمونز کو آپ رسے اور بیڑیاں ڈال کر نہیں رکھ سکتے۔ جب آپ ’’حلال‘‘ پر قانونی یا ’اخلاقی‘ بیڑیاں ڈالیں گے تو وہ ہارمونز حرام ذریعے سے خودبخود اپنا راستہ بنالیں گے اور کمسنی کی حرامکاری کے واقعات بکثرت ہوں گے۔

طرفہ یہ کہ خود مغرب پرستوں کا یہ کہنا ہے کہ ہارمونز پر اپنا طبعی عمل کرنے کے معاملے میں پابندی لگانا غلط ہے، مگر وہ یہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے ہاں حرام کا راستہ کھلا ہے۔ اپنے ان  ’علمائےکرام‘ کو بھی کاش کوئی جا کر بتائے کہ جس کمسنی کی شادی کے خلاف پچھلے دنوں دلائل کے ڈھیر لگائے جارہے تھے، دراصل وہ آپ کے یہاں ایک حرام راستہ کھولنے کا انتظام تھا۔

شاید برطانیہ کا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے ہوا ہو کہ ’کمسنی کی شادی‘ ممنوع ٹھہرانا… درحقیقت کس قسم کے معاشرے کی تشکیل کرنے جارہا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارے معاشروں کی تشکیل ایک مخصوص ڈھب پر بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اور گلوبلائزیشن کا عفریت یہاں مسلسل اپنے مہرے ہلا رہا ہے۔ ہمارے علمائے کرام کی ایک تعداد ایسی ہے جو ایک مسئلے کا مالہٗ وماعلیہ جانے بغیر، خصوصاً اس جانب توجہ کیے بغیر کہ ایک مسئلہ کو خاص اِس موقعہ پر ہلانے جلانے کے پیچھے فی الحقیقت کونسے سماجی محرکات ہیں اور مجموعی طور پر معاشرہ کس رخ پر کھینچا اور دھکیلا جا رہا ہے… یہ سب کچھ دیکھے بغیر ہمارے یہ علمائے کرام ایک مسئلہ پر بحث و مباحثہ شروع کرلیتے ہیں۔ معاشرے کی لبرل تشکیل کرنے والا ’سمجھدار‘ ایجنڈا ہمارے مولویوں کی اس سادہ لوحی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر، یوں اپنے حق میں کچھ نہ کچھ تائید کا بندوبست کرلیتا ہے اور اس طریقے سے بڑی تیزی کے ساتھ وہ ہمارے معاشرے میں اپنا راستہ بناتا چلا جارہا ہے۔ کم از کم بھی اس ایجنڈا کو وہ مزاحمت نہیں ملتی جو معاشرے کے نظریاتی محافظوں سے اُس کو ملنی چاہئے تھی۔

بےشک یہ بات مغرب کے ملحدوں نے کہی ہو مگر یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ: انسانی ہارمونز کو قانون اور اخلاق کی بیڑیاں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام نے کمسنی کی شادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی اور نہ صرف قرونِ اولیٰ بلکہ طویل صدیوں تک اسلامی معاشروں میں یہ بات ہمیں عام نظر آتی ہے۔ اسلام اس پر پابندی عائد کردیتا تو یہ  انسانی خلیوں پر اپنا طبعی انجام دینے پر ایک طرح کی پابندی ہوتی۔ اسلام کبھی ایسا نہیں کرتا۔ یہ ’انسانی ہارمونز‘ خدائی تخلیق میں وہ چیز ہیں جو نہ کسی عدالت سے پوچھ کر اپنا عمل کرتے ہیں اور نہ کسی نظریاتی کونسل سے اجازت لےکر۔ شریعت نیچر کو صرف راہ دکھاتی ہے اس کو دبانے کی کوشش ہرگز نہیں کرتی؛ کیونکہ ایسا کرنا ابنارمل رویوں کو جنم دیتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے یہ بات انسان کی اپنی مرضی  اور آسانی پر چھوڑ دی ہے کہ اپنی جنسی خواہش کی تسکین وہ کب اور کس عمر میں کرنا چاہتا ہے البتہ شرط صرف یہ عائد کی ہے کہ وہ بدکاری اور خدا کی نافرمانی کی راہ سے نہ ہو بلکہ خدا کی فرماں برداری کی راہ سے ہو۔  مغرب کے طرزِ عمل کو آپ جتنا بھی شرمناک اور حیاباختہ کہہ لیں، لیکن مغرب کا وہ شرمناک دستور پھر بھی ہماری نظر میں آپ کے اس نام نہاد بل  کی نسبت جو ’کمسنی کی شادی پر پابندی‘ عائد کروانے کےلیے پیش کیاجارہا تھا کہیں زیادہ عملی اور واقعاتی ہے۔ مغرب نے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے تو کم سنی کی بدکاری کو جائز رکھا ہے۔  اس لحاظ سے مغرب نے انسانی جسم اور انسانی ہارمونز کے ساتھ جنگ کی حماقت بہرحال نہیں کی ہے۔ اسلام نے تو انسانی خواہش اور فطرت کے ساتھ ظاہر ہے کبھی کوئی ایسی کوئی جنگ چھیڑی ہی نہیں، صرف اس کا تزکیہ کیا اور اس کو پاکیزگی سکھائی ہے۔ البتہ آپ کے نابغوں نے واقعی کمال کردیا۔ حلال راستہ بھی بند، حرام راستہ بھی بند! لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ محض کم فہمی نہیں،  اس کے پیچھے ایک نہایت خرانٹ ایجنڈا بھی کارفرما ہے۔ واقفانِ حال خوب جانتے ہیں، پاکستان میں ’کنڈوم کلچر‘ جس تیزی کے ساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ’سیکس ایجوکیشن‘ کی دہائی پڑگئی ہے، ان تمام اشیاء کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو یہ آپ کو پورا ایک ’پیکیج‘ نظر آئے گا۔  معاشرے میں جنسی محرکات بہت زیادہ بڑھا دو بلکہ معاشرے کو جنسی بخار میں مبتلا کردو۔ ہزارہا مؤثرات کو کام میں لاکر شہوت انگیزی آسمان پر پہنچا دو… پھر جب ایسا کرلو تو تسکینِ خواہش کے ’’حلال‘‘ راستوں پر ’قانون‘ کے پہرے بٹھادو! تب ’’حرام‘‘ راستے اپنے کھلنے کےلیے کسی سے اجازت لینے نہیں آئیں گے  اور معاشروں میں صالحین کے باندھے ہوئے وہ دیرینہ بند خودبخود ٹوٹتے چلے جائیں گے!

’’حلال‘‘ کے راستے میں سماجی بند تو یہاں بڑی دیر سے باندھے جارہے تھے جس کی وجہ سے شادی بڑی عمر میں جاکر کرنے کا رجحان پچھلے کچھ عشروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا ہے اور جوکہ حیا اور عفت کا گراف نیچے لےجانے کا ایک طبعی سبب بنا ہے… لیکن اس کو ناکافی جانتے ہوئے اب البتہ ’’حلال‘‘ کے راستے میں باقاعدہ قانونی بند بھی باندھے جانے لگے ہیں۔

یہودی منصوبہ ساز خوب جانتا ہے ہے، مسلم معاشروں میں ’’حرام‘‘ کو جائز کرنے کا بل پیش کرنا تو فی الحال ممکن نہیں۔ یہ مقصد اُس کی نظر میں فی الوقت اس طرح پورا کرلیا جائے گا کہ ’’حلال‘‘ ہی ناجائز اور گھناؤنا بنا دیا جائے! جانتا ہے، پانی اپنے راستے خود بنا لیتا ہے!