عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, April 23,2024 | 1445, شَوّال 13
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’’دنیا اور آخرت‘‘
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

’’دنیا اور آخرت‘‘

(گزشتہ سے پیوستہ)

ترکِ دنیا… اور صوفی  رجحانات

’’یہ دنیا ہی دراصل آخرت کی کھیتی ہے‘‘…یہ خوبصورت توازن اسلام کی پہلی چند نسلوں کے گزرنے کے ساتھ ہی مسلمان کے یہاں روپوش ہونا شروع ہوگیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اِس بار جو خلل آیا وہ وہ اُس خلل کے مقابلے پر جو عرب جاہلیت کے ہاں پایا جاتا تھا ایک دوسری انتہا کی جانب جا رہا تھا۔

عرب جاہلیت کے ہاں اِس حوالہ سے جو خلل تھا وہ یہ کہ دنیا آخرت سے جدا کی جاتی کیونکہ آخرت پر اُن کا ایمان ہی نہ تھا تو دنیا کی زندگی کو ہی کسی بھی دوسری زندگی پر ترجیح دےدی جاتی۔ البتہ اب جو خلل آیا وہ یہ کہ دنیا کو آخرت سے جدا کیا جاتا ہے اس لیے کہ دنیا ان کی نظر میں کمتر اور حقیر ہے اور آخرت کو اس کے مقابلے پر ترجیح حاصل ہے!

پہلی نظر میں یوں لگتا ہے کہ یہی تو اصل ایمان ہے! بادی النظر آپ یہی کہتے ہیں کہ یہی تو وہ چیز ہے جس کی ایک مسلمان کو سعی کرنی ہے اور یہ کہ آدمی کو اگر یہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس سے بڑھ کر ایمان اور یقین کا بھلا اور کیا درجہ ہے؟ دین میں اس سے اعلیٰ کیا بات ہوسکتی ہے؟!

بلاشبہ ان مخلص حضرات کا یہی خیال تھا جو دنیا اور آخرت کی راہیں الگ الگ کرنے چل پڑے تھے۔ بلاشبہ صوفیہ نے دین کا یہی نقشہ پیش کیا تھا، اور دین کا یہی نقشہ پھیلتے پھیلتے سرزمینِ اسلام کے ایک وسیع رقبے کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلاگیا۔ پھر بڑی صدیاں ہم پر یوں گزریں کہ اسلام کےلیے مخلص ہونے کا ہمارے نزدیک یہی ایک مطلب رہ گیا تھا کہ دنیا اور آخرت کی راہیں الگ الگ کردی جائیں اور ’’دنیا‘‘ کو چھوڑ کر ’’آخرت‘‘ کی راہ اختیار کرلی جائے۔ عالم اسلام میں آج بھی ہر طرف یہی ’دینی تصورات‘ اذہان پر حاوی ہیں۔

آخر خدا نے خود ہی تو دنیا کو ’’متاع الغرور‘‘ کہا ہے:

فَمَنْ زُحْـزِحَ عَنِ النَّـارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّـةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَـاعُ الْغُـرُورِ                                                                                                   (آل عمران 185)

کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے

جبکہ آخرت کو کہا کہ وہ ’’اصل زندگی‘‘ ہے:

وَإنَّ الدَّارَ الآخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَو کَانُوا یَعْلَمُونَ                     (العنكبوت: 64)

اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے

’’متاع الغرور‘‘… یعنی دھوکے کا سامان اور آسائش۔ دوسری جانب اصل دائمی حیات۔

تو پھر جو شخص اِس ’’متاع الغرور‘‘ سے منہ موڑ لے، اور سراسر آخرت کا ہوجائے کیا وہ سرخرو نہیں ہوگیا؟ اس نے دین کی اصل غایت پوری نہیں کردی؟ اور ایک اعلیٰ ترین مثال قائم نہیں کردی؟

لیکن تھوڑا غور کریں تو آپ کے سامنے معاملے کے کئی پہلو آئیں گے جو پہلی نظر میں اوجھل ہوگئے تھے…

یہ بات کہ اِس عمل سے وہ خدا کی خوشنودی کے طالب ہیں، بیشک درست ہے۔ مگر یہ بات کہ اِس مقصد کےلیے انہوں نے خدا کا ٹھہرایا ہوا راستہ چلا ہے، تو ایسا بہرحال نہیں ہے!

یہاں ہم صوفیہ کے ہاں پائے جانے والے شطحات بیان نہیں کریں گے، نہ وحدۃ الوجود پر کلام کریں گے، نہ حلول پر، اور نہ اس طرح کے دیگر عقائدی انحرافات پر…

یہاں ہم مزارپرستی اور اولیاء پرستی پر بھی کلام نہیں کریں گے اور اس حوالے سے جو بہت سی بدعات اور خرافات عام ہوگئی ہیں اس پر بھی بات نہیں کریں گے۔ نہ ہم بندوں اور خدا کے مابین ٹھہرائے گئے واسطوں پر بات کریں گے، گو درست یہی ہے کہ یہ دین بندوں اور خدا کے مابین سے واسطے ختم کرنے آیا تھا، اور ان کی اجارہ داری سے قلب انسانی کو رہائی دلوانے آیا تھا اور اس کی جگہ اس کو براہِ راست اور بغیر واسطوں کے خدا سے جوڑنے آیا تھا:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ                      (البقرۃ 186)

اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی سنتا ہوں جب بھی مجھے پکارے۔

ہم ان سب انحرافات کی بابت یہاں بات نہیں کریں گے۔ ان میں جو شرک واقع ہوتا ہے وہ بھی یہاں ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہماری گفتگو یہاں ’’دنیا و آخرت‘‘ کے حوالے سے ہورہی ہے۔ خاص اس حوالہ سے صوفیہ کے ہاتھوں جو نقصان ہوا، ہماری گفتگو اس پر ہے۔

صوفیہ کا بہت زیادہ سہارا اُن آیات پر ہے جن میں دنیا کی مذمت ہوئی ہے، یا پھر اُن احادیث[1]  پر جن میں دنیا ملعون ٹھہرائی گئی۔

نیز یہ صحابہؓ میں سے اُن بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو زہد میں خاص مقام رکھتے؛ یعنی جنہوں نے دنیا کے متاع (لطف و آسائش) سے دوری اختیار کی اور سامانِ زیست سے کچھ سروکار نہ رکھا۔

نیز ان کا کہنا ہے کہ دنیا سے تعلق واسطہ رکھنے سے مومن کی زندگی میں گناہ ہونے لگتے ہیں، جوکہ خدا کے غضب کا پیش خیمہ ہے اور آخرت برباد کرنے کا موجب۔ چنانچہ ان کے خیال میں گناہوں سے بچنا دراصل اس صورت میں ممکن ہے کہ دنیا کو حقیر اور گھٹیا جانتے ہوئے اس کے زیب وآرائش سے مکمل کنارہ کشی کرلی جائے۔ لہٰذا دنیا سے جتنا فاصلہ پیدا کرلیا جائے کم ہے۔

جہاں تک ان آیات کا تعلق ہے، تو جیساکہ ہم نے عرض کیا، ان کا اصل سیاق یہ ہے کہ ان میں کفار اور منافقین کے کرتوت بیان ہوئے ہیں…

درست ہے کہ مومن اگر کفار ایسے بعض کام کرے گا تو اس پر بھی ان میں سے بعض وعیدوں کا اطلاق ہوگا، گو وہ ان رویوں کے باعث کافر بہرحال نہیں ہوگا بشرطیکہ ایمان کے اساسی امور اس کے ہاں برقرار ہوں۔ اس کی مثال آپ اِس آیت میں دیکھ سکتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلاّ تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التوبۃ38،39)

مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔ اور اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہوں گے) اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یا مثلاً جس طرح حضرت عمرؓ پریشان رہتے تھے کہ وہ اِس قسم کی آیات کی زد میں نہ آجائیں، باوجو اس کے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ آیات اصلاً کفار کے حق میں اتری ہیں:

أذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا                          (الاحقاف 20)

تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ                                                   (التکاثر 8)

پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کی پرسش ہوگی

یہ درست ہے…

دنیا کے ساتھ ایک ایسا تعلق جو آدمی کو آخرت سے غافل کردینے والا ہو، خدا کو قابل قبول نہیں خواہ وہ مسلمان سے ہو یا کافر سے، اگرچہ اس کا خمیازہ کافر کے حق میں مختلف ہے اور مومن کے حق میں مختلف…

یہ سب کچھ اپنی جگہ۔ مگر دنیا اور آخرت کو الگ الگ خانوں میں بانٹنا بالکل ایک اور چیز ہے۔ دنیا اور آخرت دو الگ الگ کوچے، اس معنیٰ میں کہ ایک کی راہ چلنی ہو تو دوسرے کی راہ لازماً  چھوٹے گی، لہٰذا ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کو چننا اور دوسرے کو چھوڑنا ہوگا، یہ بالکل ایک اور چیز ہے اور اِس پر خدا کے دین سے کوئی سند نہیں پائی جاتی۔

خدا کا اپنا کلام یوں کہتا ہے:

.. وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا                     (القصص 77)

اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِـهَا وَكُلُـوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُـورُ                                                                                              (الملک 15)

وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ                                                                                         (الاعراف 32)

پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی۔

جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

’’.. ألا إني أعبدكم لله وأخشاكم له ، ولكني أصوم وأفطر ، وأقوم وأنام وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني‘‘                                                                   (متفق علیہ)

’’خبردار رہو، میں تم میں سب سے زیادہ خدا کی عبادت کرنے والا اور خدا سے ڈر کر رہنے والا ہوں، ہاں مگر میں روزہ رکھتا بھی اور چھوڑتا بھی ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ نیز میں شادیاں کرتا (گھر بساتا) ہوں۔ پس جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں‘‘۔

یہاں ہم اِس آیت پر تھوڑا رک جانا چاہیں گے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ ’’پوچھو تو کس نے خدا کی وہ زینت حرام ٹھہرا دی جو اُس نے اپنے بندوں کےلیے پیدا کی ہے‘‘…

یہاں لفظ ’’زینت‘‘ ذکر ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے سجاوٹ۔ آپ جانتے ہیں ’’سجاوٹ‘‘ نری ’’ضرورت‘‘ سے زائدتر ایک چیز ہے۔ یعنی خدا نے بندوں کےلیے جس چیز کو مباح کیا ہے وہ محض ’’ضروریات‘‘ نہیں جو زندگی کو ’جیسےکیسے‘ گزار لینے کے قابل بناسکیں۔ بلکہ یہ ’ضروریات‘ سے بڑھ کر ایک چیز ہے، جس میں جمال اور آسائش کا معنیٰ پایا جاتا ہے!

قرآن میں (دنیوی) حسن و جمال کو سراہنے کی جانب بڑے بڑے زوردار اشارے ہوئے ہیں:

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا                                               (النمل 60)

وہ جس نے آسمان و زمین بنائے اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے باغ اگائے رونق والے تمہاری طاقت نہ تھی کہ ان کے پیڑ اگاتے

وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِراً نُخْرِجُ مِنْهُ حَبّاً مُتَرَاكِباً وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِـهاً وَغَيْرَ مُتَشَابِـهٍ انْظُرُوا إِلَى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ([2]) إِنَّ فِي ذَلِكُـمْ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُـونَ

(الانعام 99)

اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں

وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ                                                                 (النحل 5-6)

اور چوپائے پیدا کیے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو، اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو

جبکہ حدیث نبوی (مذکورہ بالا) یہ بنیاد واضح کرتی ہے کہ: وہ عبادت جو خدا کے ہاں قبول ہوتی ہے اس میں متاعِ زیست سے کلیتاً دور ہوجانا ہرگز نہیں آتا۔ اس کے برعکس؛ متاعِ زیست سے ایسی دوری اختیار کرنا خدا کی عبادت اور خشیت اختیار کرنے کا ایک غلط اسلوب ہے۔ کیونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ عبادت گزار اور سب سے زیادہ متقی ہستیﷺ نے خود یہ اسلوب اختیار نہیں فرمایا، نہ اس کا حکم دیا، بلکہ وہ شخص جو آپؐ کے دستور سے منہ موڑے اُسے وہ ہستی اپنے راستے سے ہٹا ہوا باور کرتی ہے اور اسے اس پر باقاعدہ خبردار کرتی ہے:  فمن رغب عن سنتي فليس مني۔

رہ گئے زُہّادِ صحابہؓ جن سے صوفیہ حجت پکڑتے ہیں تو ان کا راستہ بالکل ایک اور راستہ ہے جبکہ صوفیہ کا بالکل اور راستہ۔

بعض پہلوؤں سے، شاید کچھ دیر کےلیے آپ کو یہ لگے کہ زاہد اور صوفی ملتی جلتی شخصیتیں ہیں… ہر دو متاعِ ارضی سے پرہیز کیے ہوئے ہیں۔ دونوں کا زیادہ وقت آسائشِ زندگی سے دور رہ کر گزرتا ہے۔ ہر دو کی محنت اور توجہ کچھ خاص اعمال اور عبادات میں صرف ہوتی ہے؛ جس کے بعد مباح لذتوں اور آسائشوں کےلیے ان دونوں کے پاس گنجائش ہی نہیں بچتی…

یہاں تک واقعتاً اِن دونوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے؛ مگر اس سے آگے دونوں کے راستے الگ الگ ہوجاتے ہیں… اس قدر الگ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نظر آتے ہیں!

یہ فرق اُس ’’عبادت‘‘ کے تعین میں آتا ہےجو ہردو سے مباحات سے چھڑواتی ہے۔ یعنی ’’عبادت‘‘  کا مفہوم ہی ہر دو کے ہاں الگ الگ ہے۔ یہاں سے؛ دونوں کا منہجِ حیات مختلف ہوجاتا ہے اور دونوں کے ہاں زندگی کا دھارا الگ الگ سمت میں بہنے لگتا ہے۔

*****

ابتدائی طور پر، کچھ خواہشات سے رکا رہنا ایک خاص درجے کی عزیمت چاہتا ہےتاکہ انسان کی زندگی میں ایک ایسا بند تشکیل ہو جو خواہشات کے بےقابو تلاطم کو اپنی قید میں لائے۔ نفس کی یہ مزاحمت جس وقت خواہشات کے زورآور بہاؤ کے مقابلے پر ایک بار ڈٹ کر دکھاتی ہے تو یہ بجائےخود نفس کے اندر ایک حیرت انگیز طاقت پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک نفیس توانائی ہوتی ہے؛ ایک مسلسل عمل کے نتیجے میں مومن کے ہاں اس توانائی کی سطح بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک ’جہاں بان و جہاں دار و جہاں آرا‘ صاحبِ ایمان کو اِس صالح ونفیس توانائی کی بہت بہت اونچی سطح درکار ہوتی ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا ’’بند‘‘ تعمیر ہونا ہوتا ہے جس میں متلاطم پانیوں کا خاصاخاصا بڑا ذخیرہ روک رکھنے کی صلاحیت ہو اور اس ’’بند‘‘ کے کنارے اس قدر اونچے اٹھا دیے گئے ہوں کہ پانی کا کوئی بڑے سے بڑا ریلا بھی اس کو ’پھلانگ‘ جانے سے قاصر ہو۔ پس خواہشات کے مقابلے پر نفس میں صالح توانائی کی یہ تعمیر اور افزودگی مومن کی زندگی میں مرکزی حیثیت اختیار کرتی ہے اور عالمِ بالا سے قربت پانے کا خصوصی ذریعہ بنتی ہے۔

یہاں تک؛ ’’نفس کی مزاحمت‘‘  کا یہ عمل ’’زہد‘‘ اور ’’تصوف‘‘ کے مابین مشترک نظر آتا ہے۔ زاہد بھی اپنے نفس کے اندر توانائی کا ایک وسیع ذخیرہ پیدا کرتا ہے اور صوفی بھی۔ یہ توانائی زمینی خواہشات سے بلند ہونے اور ان کو قابو میں لانے سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسی اعلیٰ توانائی ہے جو آفاق کی جانب متوجہ ہونے اور ’ستاروں پر کمند ڈالنے‘ کے کام آتی ہے۔ وہ شخص جو خواہشات کے جوہڑ میں غرق ہے، اس توانائی اور اس قوتِ پرواز کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا…

ہاں البتہ ’’زاہد‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کے آفاق الگ الگ ہیں…

جہاں تک اسلام کی نسلِ اول کے زُہّاد کا تعلق ہے اور جن کے امام سید الزُہّاد محمدﷺ ہیں… تو ان کی زندگیوں کو دیکھ کر ہمیں اُن ’’آفاق‘‘ کی نشاندہی ہوجاتی ہے جن تک وہ ’’متاعِ ارضی‘‘ کے زاہد ہوکر رسائی پالیتے رہے تھے…

’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی صورت میں روئے زمین پر ’براعظموں‘ کے حساب سے پیش قدمی۔ ’’جہاد‘‘ جو دنیا بھر میں خدا کے کلمہ کو بلند کردیتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ جو پورے کے پورے دین کو اللہ کےلیے خالص کردیتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ جو نصف کرۂ ارض پر عدلِ ربانی قائم کردیتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ جو معمورۂ ارض کے ایک بڑے حصے پر مثالی معاشرہ کھڑا کردیتا ہے اور جہاں ’’مثالیات‘‘ ’’وقائع‘‘ کی صورت دھار جاتے ہیں؛ ایک ایسا معاشرہ جس کا لوگ عالمِ مثال میں خواب دیکھتے ہیں مگر اپنی دنیا کے اندر اس کو ناممکنات میں گنتے ہیں۔ ’’اصلاح‘‘ اور ’’فساد فی الارض کو مٹادینے‘‘  کا ایک بےقابو طوفان جو ہزار ہزار سالہ تہذیبوں اور دستوروں کو بہا کر لےجاتا ہے، جو بگڑے سے بگڑے معاشرے کو سیدھا کردیتا ہے اور منحرف سے منحرف ماحول کو صالح بنادیتا ہے۔ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ جو اس امت کے مشن کا ایک باقاعدہ بیان اور اس کے وجود کا باقاعدہ منشور ٹھہرادیا گیا ہے اور جو اس کو ’’ٖخیر امۃ‘‘   کا تمغہ عطا کرتا ہے:

كُنْتُـمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَـتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ                                                                                                                   (آل عمران 110)

(مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔

ایسے بلند آفاق! ان پر کمند ڈالنے کےلیے واقعتاً توانائی کے وہ بڑے بڑے ذخیرے چاہئیں تھے جو ’’زہد‘‘ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ اِس ’’زہد‘‘ سے کام لے کر کرۂ ارض پر ایمان، ہدایت، امربالمعروف ونہی عن المنکر، جہاد، قیامِ عدل و انصاف ایسے کچھ عظیم الشان برج کھڑے کیے جانے تھے جو نہ صرف دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ کردیں بلکہ اس کی روشنی زمین کے کونے کونے تک پہنچے اور ظلمتیں چھٹ جائیں۔ نصف صدی کے اندر اندر یہ روشنی مغرب میں بحراوقیانوس اور مشرق میں ماورائے ہند تک پہنچتی ہے اور دنیا کا کوئی ہمالہ اور کوئی صحرا و دریا اس کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں پاتا۔ دنیا کی کوئی جاہلیت، کوئی ظلمت اس کے سامنے کھڑی نہیں رہ سکتی۔

زاہدوں کی یہ برگزیدہ جمعیت، جس کے سردار خود رسول اللہﷺ ہیں، زہد کی یہ سب چوٹیاں سر کرنے کے باوجود ، آسائشاتِ ارض کو حرام نہیں ٹھہراتی۔ عہدِاول کے یہ زُہاد مباحات کو گھناؤنا بنا کر پیش نہیں کرتے۔ خود اس سے استغنا اختیار کرتے ہیں، دوسروں کےلیے اس کو قابل نفرین نہیں ٹھہراتے۔ خود اس قدر بلند ہوجاتے ہیں کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘، ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ اور ’’اقامتِ عدل و انصاف‘‘ ایسے بلند آفاق ہی میں محو رہتے ہیں جہاں مباحات میں مگن ہونے کی صورت ہی نہیں رہتی۔ وہ عظیم اہداف جو ان کو کرۂ ارض کے ایک بڑے حصے پر اثرانداز ہونے میں مصروف رکھے ہوئے ہیں اور جن کے دم سے زمین کی قسمت تبدیل ہوتی ہے، ان سے وابستہ رہتے ہوئے وہ بہت سے ’جائز شوق‘ پورے کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

ام المؤمنین عائشہؓ جس وقت امام المجاہدینﷺ کو ننگی زمین پر اپنی عبا بچھا کر سوتے ہوئے پاتی ہیں جسے دیکھ کر ام المؤمنینؓ سے رہا نہیں جاتا اور وہ عبا کو دہرا کردیتی ہیں تاکہ آپؐ کا ’بستر‘ کچھ نرم ہوجائے اور آپؐ کا جسد مبارک ذرا راحت پائے تو آپؐ اس پر ام المؤمنینؓ کو ٹوکتے ہیں اور عبا دوبارہ اکہری کروادیتے ہیں۔ اس لیے کہ رسولِ جہادﷺ اپنے آپ کو اِس راحت کا عادی نہیں کرنا چاہتے۔ بلند مقاصد کا تعاقب کرنے والی ایسی عظیم شخصیت جو ہردم عازمِ جہاد ہے اپنے آپ کو آسودگی کا خوگر نہیں کرسکتی، باوجود اس کے کہ آپؐ فرماتے ہیں: ولكني أصوم وأفطر ، وأقوم وأنام ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني ! ’’ہاں مگر میں روزہ رکھتا بھی ہوں روزہ چھوڑتا بھی ہوں، راتوں کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر رکھی ہوئی ہے، پس جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں‘‘۔

یہ تو رہا اُن لوگوں کا معاملہ جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا اور معاشروں کی ننگی پیٹھ پر سواری کرکے دکھائی۔

رہے صوفیہ تو انہوں نے مباحات سے مزاحمت اختیار کرکے جو اتنی بڑی طاقت ذخیرہ کی تھی… اس کو کہاں صرف کیا؟

اِدھر اور طرح کے ’جہاد‘  کا سفر درپیش تھا۔ ایک ایسا سفر جو کبھی سرے نہیں لگتا۔ ’’نفس‘‘ کے اندر بیٹھا شیطان ہی مسلسل اِس جہاد کا محاذ رہا اور یہ سب طاقت اور توانائی یہیں پر صرف ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ کتاب اللہ میں وارد جہاد فی سبیل اللہ کی واضح وصریح آیات کی ایسی ایسی تاویل کی جانے لگی کہ وہ سب آسمانی احکام اور نصوص جو کفار و منافقین کے خلاف جہاد (جَاھِدِ الۡکُفَّارَ وَالۡمُنَافِقِیۡنَ)  کا حکم دیتی ہیں اور ان کے ساتھ درشتی اختیار کرنے (وَاغۡلُظۡ عَلَیۡھِمۡ) کا درس دیتی ہیں وہ بھی قریب قریب ’’نفس‘‘ ہی کی طرف پھیردی گئیں!

شیطان اور نفس کے ساتھ جہاد بےشک مطلوب ہے۔ اُس بےمثال جمعیت نے بھی، کہ جس نے اپنے گردوپیش میں وہ بےمثال کارنامے انجام دیے اور وہ عظیم الشان چوٹیاں سر کیں، یقیناً شیطان اور نفس کے ساتھ جہاد کیا تھا۔ بلکہ اس جہاد میں وہ جس جس انداز میں فتح مند ہوئے وہ تاریخ میں خصوصی طور پر ذکر ہوا۔ تاہم انہوں نے شیطان کے خلاف جہاد کو اپنا منتہائے سعی نہیں بنا رکھا تھا۔ باوجود اس کے کہ شیطان کے خلاف جہاد میں انہوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ شیطان کا تسلط اُن پر باقی نہ رہا، اور جس کا ذکر خدائی تنزیل کے اندر ہوا ہے:

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ                                                         (النحل 99-100)

بیشک اس کا کوئی قابو ان پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں. اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں

یہ وصف اُن تمام لوگوں پر ہی صادق آتا ہے جو ’’ایمان لانے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھنے والے‘‘ ہوں۔ لیکن یہ اُن لوگوں پر بطورِ خاص صادق آئے گا جن کے ’’ایمان والے ہونے‘‘ کی شہادت اللہ پاک نے خود دی:

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ..                                                          (البقرۃ 285)

رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔

أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْأِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ                                                                             (المجادلۃ 22)

یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے

شیطان کے ساتھ ان کا معرکہ تو دراصل کسی اور معرکے میں اترنے کےلیے ہورہا تھا! وہ اصل معرکہ جس کےلیے شیطان کے ساتھ ان کی جنگ ہورہی تھی زمین کی صالح تعمیرات تھیں۔ یہاں شیطان کو مات دےدے کر وہ جہاد فی سبیل اللہ کےلیے نکلتے تھے۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور زمین میں ربانی عدل وانصاف کے قیام کے مشن پر گامزن تھے۔ شرک کے قلعے مسمار کرنے کے مشن پر تھے۔ وہ زمین میں ہر طرف ایمان کے قلعے تعمیر کرتے پھرتے تھے۔ طاغوتوں کی خدائی کو چیلنج اور خدا کی حاکمیت کو قائم کررہے تھے۔ وہ حق کی اُس قوت کو کھڑا کررہے تھے جو خدا کے دشمنوں کو خائف کرتی ہے…

یہ سب عظیم کام وہ ہرگز نہ کرپاتے اگر وہ اپنے نفس کے محاذ پر شیطان کے ساتھ برسرِ جنگ نہ ہوتے، یا اگر شیطان کے ساتھ اپنا یہ معرکہ جیتے بغیر چھوڑ دیتے… لیکن ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے یہ سوچا ہو کہ ان کو درپیش معرکہ ہی یہ ہے یا کہا ہو کہ یہی سب غایتوں کی اصل غایت ہے!

*****

شیطان سے جہاد کے حوالے سے ایک اور قابلِ انتباہ چیز…

شیطان سے جہاد کے اس مشن میں صوفیہ کی ترکیب یہ رہی کہ اس ’’نفس‘‘ کو ہی مار دیا جائے جو شیطان کو یہاں پر اڈہ فراہم کرتی ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! بلاشبہ شیطان کو یہاں جو اڈہ میسر آتا ہے وہ انسان کی خواہشات ہیں جنہیں اس کےلیے مزین کردیا جاتا ہے۔ شیطان انہی خواہشات کو اور سے اور بھڑکاتا اور مشتعل کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی اس آگ کو بجھانے سے قاصر ہوجاتا ہے اور آخر یہ پورا گھر جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر یہ خواہش ہی مار دی جائے تو شیطان کو یہاں در آنے کےلیے کوئی جگہ فراہم نہیں رہتی، اور وہ یہاں پر اپنے وہ کارنامے انجام نہ دے سکے گا جن کا قرآن میں یوں ذکر ہوا:

.. وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ ..                                                                                          (النساء 119)

قسم ہے میں ضرور بہکادوں گا اور ضرور انہیں آرزوئیں دلاؤں گا اور ضرور انہیں حکم دوں گا

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُوراً                                 (النساء 64)

اور ڈگا دے (بہکادے) ان میں سے جس پر قدرت پائے اپنی آواز سے اور ان پر لام باندھ (فوج چڑھا) لا اپنے سواروں اور اپنے پیادوں کا اور ان کا ساجھی ہو مالوں اور بچو ں میں اور انہیں وعدہ دے اور شیطان انہیں وعدہ نہیں دیتا مگر فریب سے۔

اس لیے صوفی کا ’’جہاد‘‘ اِسی نفس کے ساتھ ہوتا رہا؛ اس کی سب محنت اور جانفروشی یہیں پر جاری رہی، یہاں تک کہ وہ خواہش کو مار دینے میں کامیاب ہوا تاکہ شیطان کو اِس نفس میں اترنے کےلیے کوئی مقام میسر نہ رہے۔

البتہ زاہد کا طریقہ یہی نہیں رہا کہ شیطان کے خلاف جہاد کے اپنے اس معرکہ میں پورا اترنے کےلیے وہ خواہش کو مارنے اور پھر اس کے نتیجے میں نفس کو مارنے کے مشن پر اٹھ کھڑا ہو۔

زاہد کا طریقہ جوکہ اس کو ربانی منہج سے ملا یہ تھا کہ وہ اِس نفس کی ’’قلعہ بندی‘‘ کرے۔ شیطان کے حملوں کے خلاف اِس کا دفاع کرے۔ اس نفس کو زندہ اور توانا رکھنا اور اس کو خدا کا بندہ بنا کر رکھنا، اور خدا کی بندگی اور عبادت سے اس کو مسلسل غذا دینا یہاں تک کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے معرکے میں پورا اترے… زاہد کا منہج یہ تھا۔

یہ محرکات جو خدا نے نفسِ انسانی کے اندر پیدا کردیے ہیں، کچھ عبث نہیں۔ یہ اُس نے واقعتاً کسی غایت کےلیے لیے پیدا کیے ہیں:

انسان کی اُس نے پیدائش فرمائی کہ وہ پوری زمین کا رکھوالا بنے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً                                  (البقرۃ 30)

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ “میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”

خدا نے انسان کو یہاں آبادکاری کا مشن سونپا ہے:

هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا                                              (ھود 61)

اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی نے اس زمین میں تمہیں آباد کیا۔

ضرور اس کی کوئی حکمت ہوگی جو اس کو مشتِ خاک سے پیدا کیا اور پھر اس میں اپنے پاس سے روح پھونکی… یعنی ملائکہ کی طرح اِس کو خالص شفاف نور سے پیدا نہیں کیا!

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ                                                                                          (البقرۃ 71-72)

جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔ پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔

اس مشتِ خاک کے اندر ’خواہشات‘ کو بہرحال جنم لینا ہے:

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا..                        (آل عمران 14)

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیوی زندگانی کا چند روزہ سامانِ آسائش ہیں

مگر اس میں عالمِ بالا سے جو نفخۂ روح ہے، اُس نے اِسے نری مٹی بھی نہیں رہنے دیا ہے۔ اب یہ حیوان کی طرح حِسی لطف و سرود کا قیدی بھی نہیں رہا ہے۔ یہ مٹی، مٹی ہوتے ہوئے اب ایک خاص نزاکت اور شفافیت پا چکی ہے جو عالم بالا سے آنے والی روح کے باعث اِس کے وجود میں سرایت کرچکی ہے۔ اب اس کی شعاعیں اِسی مٹی کے سراپے سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہی ہیں اور ’’قدروں‘‘، ’’اصولوں‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ کی صورت میں یہاں ظہور کرنے لگی ہیں۔ وہ اِس درماندہ ’’مٹی‘‘ کو ایسے ایسے بلند آفاق تک لےجاتی ہیں جو اِس خاص خدائی تکریم اور تفضیل کے بغیر ممکن نہ تھے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً                                                    (الاسراء 70)

اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا

وہ لطیف اور خبیر ہستی جو اِس پتلۂ خاکی کو وجود میں لےکر آئی، خوب جانتی ہے کہ اِس کی یہ خواہشات، بلکہ کہنا چاہئے اِس کے یہ محرکات، اِس کے بشری وجود کےلیے ناگزیر ہیں تاکہ یہ زمین میں عمل، حرکت، تعمیر، پیداوار، سرگرمی، ترقی اور پیش قدمی کےلیے ایک قوی داعیہ کا کام دے اور جوکہ ’’زمین کی جانشینی‘‘   کا ایک باقاعدہ اقتضاء ہے۔ زمین میں انسانی کردار کے راستے میں رکاوٹیں بھی کچھ ایسی کم نہیں، انسانی خواہشات وہ اندرونی محرکات ہیں جو ان رکاوٹوں پر قابو پانے اور ان کے ساتھ مسلسل الجھنے کےلیے اس کو مہیا کروائے گئے ہیں۔

البتہ وہ علیم و خبیر ہستی یہ بھی جانتی ہے کہ خود اِن محرکات کو کنٹرول میں رکھنا بھی بےحد ہی ضروری ہے تاکہ زمین کی یہ آبادکاری عین اُسی نقشے پر ہو جو اِس منصوبے کا اصل مقصود ہے۔  یہاں انسان واقعتاً ’’ترقی‘‘ کرے نہ کہ بربادی۔

یہ توازن صرف خدائی منہج پر آنے سے مل سکتا تھا؛ جو ایک طرف اِن خواہشات اور محرکات کو ’’ضبط‘‘ دیتا ہے نہ کہ ان کو ’’مارتا‘‘ ہے… تو دوسری طرف ان کو مطلق اور بےقید بھی نہیں ہونے دیتا جو اس کے سب بند توڑ کر گزر جائیں۔

درست ہے کہ یہ ’’محرکات‘‘ یا ’’خواہشات‘‘ انسانی زندگی کےلیے آزمائش بھی ہیں:

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً             (الکہف 7)

جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لئے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے

مگر یہ اِس تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ جبکہ صوفیہ نے اپنی کل توجہ تصویر کے اِسی رخ پر دے ڈالی۔ صوفیہ نے دیکھا کہ انسان اپنی اِس آزمائش میں ناکام ہوتا ہے تو وہ خواہشِ نفس کے ہاتھوں ہوتا ہے، لہٰذا اگر وہ اس کا کام تمام کردے، اور اِس نفس کو مار لے، تو وہ اِس آزمائش میں سرخرو ہوجائےگا!

البتہ وہ اس بات کو نظرانداز کرگئے کہ ان خواہشات کے وجود کے پیچھے کوئی حکمت بھی تو کارفرما ہوگی! آخر کیوں اتنی جیتی جاگتی تند و توانا خواہشات انسان کے اندر بھردی گئی ہیں اور پھر حسبِ استطاعت ان کو قابو میں لانے کا بھی حکم دے  دیا گیا ہے۔ یہ ’’توازن‘‘ ہی تو خدا کے نازل کردہ منہج کا مرکزی نقطہ ہے:

’’ألا إني أعبدكم لله وأخشاكم له ، ولكني أصوم وأفطر ، وأقوم وأنام وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني‘‘                                                                 (متفق علیہ)

’’خبردار رہو، میں تم میں سب سے زیادہ خدا کی عبادت کرنے والا اور خدا سے ڈر کر رہنے والا ہوں، ہاں مگر میں روزہ رکھتا بھی اور چھوڑتا بھی ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ نیز میں شادیاں کرتا (گھر بساتا) ہوں۔ پس جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں‘‘۔

خواہشات اور محرکاتِ انسانی کے پیچھے کارفرما اِس حکمت کو جب انہوں نے نظرانداز کردیا تو نتیجہ کیا نکلا؟

انسان خالص نور کی مخلوق تو بن نہیں سکتا، جوکہ صوفیہ کی اِس بےحدوحساب محنت اور جہاد کا مقصود نظر آتا ہے!

اور پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ آدمی اگر اپنی جسمانی خواہشات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے اور جس کے نتیجے میں یہ نفس مار دیا جائے اور انسانی کو نورانی مخلوقات ایسی شفافیت حاصل ہوجائے… تو کیا زمین میں انسانی سے جو ایک خاص انداز کی ’’عبادت‘‘ مطلوب ہے[3]  اور جوکہ یہاں پر انسان ہی کے ادا کرنے کی ہے، اس سے عہدہ برآ ہونے میں کیا یہ اس کی کامیابی سمجھی جائےگی؟

اس میں شک نہیں کہ ایک حقیقی صوفی[4]  اپنی مسلسل روحانی ریاضت کے نتیجے میں کچھ نہایت شفاف آفاق تک رسائی پاتا ہے جہاں اس کی روح اس کی بوجھل جسمانی خواہشات سے ہلکی پھلکی ہو کر آمد ورفت کرتی ہے اور اُن نفیس جہانوں تک رسائی پاتی ہے جو کیچڑ میں لت پت خواہشات میں غرق ایک ثقیل نفس کے بس کی بات نہیں۔

لیکن دوسری طرف یہی چیز صوفی کےلیے ایک ایسا نشہ بنتی چلی جاتی ہے جس سے یہ اپنے آپ کو ’’پہنچا ہوا‘‘ باور کرتا ہے۔ یہاں یہ اس احساس سے سرشار ہوتا چلاجاتا ہے کہ اس کی ’’منزل‘‘ آگئی۔ اور جو ’’منزل‘‘ ہی کو دیکھنے لگے وہ ’’ذرائع‘‘ اور ’’وسائل‘‘ کا ضرورتمند کیونکر رہے۔ ’’ذرائع‘‘ تو اس شخص کی ضرورت ہوگی جو ’’پہنچا ہوا‘‘ نہیں۔ جو پہنچ لیے وہ وسائل اور ذرائع کےلیے ہاتھ پیر مارتے کیوں پھریں؟

یوں وہ بہت سے عوامل صوفی کے گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں جو اس کو زمینی عمل کے منجدھار میں اترنے سے بےنیاز کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ’’جہاد‘‘ جو خدائی منہج کو زمین میں قائم کرنے کےلیے مطلوب ہے، وہ سرتوڑ کوشش جو زمین میں خدا کے کلمہ کو بلند اور کافروں کے کلمہ کو پست کرنے کےلیے مطلوب ہے، وہ دیوانہ وار سرگرمی جو یہاں باطل کو پاش پاش کرنے اور اس کا کروفر ختم کرنے کےلیے مقصود ہے، وہ سعیِ پہہم جو حق کو زمین میں تمکین دلوانے کےلیے درکار ہے، وہ قوت جو خدا کے دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کےلیے مطلوب ہے، وہ جہد جو خدائی نقشے پر زمین کی تعمیر و ترقی کےلیے یہاں پر ہونا ضروری ہے… وہ جہاد اور وہ سعی وجہد اِس ریاضت کے دوران روپوش ہوتی چلی جاتی ہے۔

یہ عوامل جو صوفی کے گرد اکٹھے ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُس کو اُس کی اپنی دنیا سے روپوش کراتے چلے جاتے ہیں… ان میں سب سے پہلا عامل دنیا کو دیکھنے کے معاملے میں وہ ’’زاویۂ نظر‘‘ ہے جو صوفی کے ہاں تشکیل پاتا ہے۔ صوفی ’’دنیا‘‘ کو جس نظر سے دیکھتا ہے وہ آخرت کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہے؛ جس کے باعث یہ مطلق ایک قیدخانہ ہے جس سے ’’رہائی‘‘ پانا اِس کا ہدفِ اولین ٹھہرتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ روح کو جس حد تک ہوسکے جسم کے بوجھ سے آزاد کراؤ اور اس کو عالم بالا سے منسلک کرواؤ۔ اس کو دنیا سے ’’کاٹتے‘‘ ہوئے آخرت کے ساتھ جوڑو۔

اب جب یہ ایک مطلق قیدخانہ ہے… تو کیا قیدخانے میں کبھی ’تعمیرات‘ کی جاتی ہیں؟! قیدخانے میں قیدی کا جیسا برا حال ہوتا ہے، کیا وہ وہاں کسی ’آبادکاری’   کا سوچ سکتا ہے؟! وہ تو ہمیشہ یہاں سے ’بھاگ نکلنے‘ کے منصوبے بنائے گا۔ اُس کی بلا سے، یہاں کی کوئی چیز ڈھ گئی ہے، کوئی چیز خراب ہوگئی ہے، فساد زدہ ہوگئی ہے۔ یہ پورا جہان کھنڈر بن جائے، اس کو کیا! بلکہ یہ تو ہے ہی اِس قابل! یہ اس کو بنانے سنوارنے کی فکر کیوں کرے؟! یہ تو صبح شام اس فکر میں ہے کہ یہ اِس سے خلاصی پائے تو کیسے؟! کیونکہ کامیابی ہے ہی اس سے ’خلاصی پانا‘ نہ کہ اس کو ’’سنوارنا‘‘!

دوسرا عامل صوفی کے ہاں ’’رغبت‘‘  کا معدوم ہوجانا ہے… کیونکہ وہ ’’محرکات‘‘ ہی اس کے اندر دم توڑتے چلے جاتے ہیں جو رغبتوں کو مہمیز دیں…

آدمی کو کھانے، پینے، پہننے، سنورنے، رہنے سہنے، اور جنسی عمل میں ’’رغبت‘‘ ہوتی ہے… ’’طاقت‘‘ حاصل کرنے، اشیاء کی ’’ملکیت‘‘ حاصل کرنے، علم، تحقیق، مشاہدہ اور ایجادات کرنے، غلبہ حاصل کرنے، جاہ و مقام پانے، دوسروں پر سبقت پانے اور اشیاء میں بڑھوتری کرنے کی ’’رغبت‘‘ ہوتی ہے… تو ہی اس کے اندر کسی سرگرمی یا پیش قدمی کےلیے ’’تحریک‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ تب وہ اپنی اِن رغبتوں کو پورا کرنے کےلیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اُس کی یہ ’رغبتیں‘ خوب ہیں یا گھٹیا، نارمل ہیں یا ابنارمل، دائرے کے اندر ہیں یا دائرے کے باہر…

البتہ جس وقت روحانی اعمال و ریاضت کا ایک بڑا محور اِن ’’رغبتوں‘‘ ہی کو کچل دینا ہو اور نفس کو ان سے ’’خلاصی‘‘ دلوانا ہو… تو اب یہ کس چیز کےلیے ’’متحرک‘‘ ہوگا؟ اب یہ کس چیز کےلیے ’’سرگرمی‘‘ رکھے گا؟ دنیا میں تو اس کی کوئی طلب کوئی اشتہا باقی ہی نہیں رہی، اِس جہان سے تو اِس کو کچھ لینادینا ہی نہیں، دنیا سے اس کو چاہئے تو بس وہ ’نانِ خشک‘ جس سے زندگی کا رشتہ جڑا رہے!

تیسرا عامل ہے وہ ’روحانی تجلیات‘… یا پھر زیادہ صحیح لفظ بولیں تو وہ نشہ جس کے دم سے یہ اپنے آپ کو ’پہنچا ہوا‘ دیکھتا ہے۔ یا یوں کہیے ’فنا‘ ہونے کی لذت جو اِس کو ’وجود‘ دیتی ہے!

اس کو جو بھی نام دیں، مقصد یہ کہ یہاں ایک خاص احساس پرورش پاتا ہے جو روحانیات میں کی جانے والی اسی پیشرفت پر اِس کو قناعت دلواتا چلا جاتا ہے۔ اِس روحانی سفر میں جو جو منزلیں آئیں ان پر مکمل اکتفاء؛ اس کے سوا نہ کوئی فکر نہ کوئی رغبت! فکر اور رغبت ہوگی تو اِس سفر کی ہی کسی ’اگلی منزل‘ کےلیے۔ یعنی دنیا سے کچھ مزید اچاٹ ہوجانے کےلیے۔ روحانیت میں کچھ اور بھی اعلیٰ ’’مقامات‘‘ کےلیے۔ مزید کچھ توانائی صرف ہوگی تو اِسی سمت میں کچھ اور اونچا جانے کےلیے۔ جس کےلیے ضروری ہے کہ نفس کو ابھی اور مارا جائے تاکہ یہ کچھ مزید ’زندگی‘ پائے! کچھ مزید ’فنا‘ جو اِس کے ’وجود‘ کو فرومایہ کرے!

اب جب یہ تین عوامل یکےبعددیگرے اکٹھے ہوئے، ساتھ میں قضاء وقدر کا وہ سلبی مفہوم جو مسلم پسپائی کی ایک بڑی وجہ بنا رہا ہے اور جوکہ اِس جہان کی کسی بھی چیز کو جو ’قضائے الٰہی‘ سے یہاں پائی گئی ’’تبدیل‘‘ کرنے کا روادار ہی نہیں خواہ وہ کتنی ہی بری اور کتنی ہی ناقابل قبول ہو، کیونکہ اُس کو ’’تبدیل‘‘ کرنے یا اُس پر ’’اثرانداز ہونے‘‘ کی کوشش کرنا یا شاید سوچ ہی آنا اِس ذہن کی رُو سے تقدیرِخداوندی پر اعتراض یا پھر اس کے خلاف بغاوت ہے اور ’راضی برضا‘ رہنے کے شدید منافی…!

جب یہ سب عوامل صوفی کے نفس میں اکٹھے ہوئے… تو اب وہ کونسی چیز ہے جو اسے زندگی کے پُرجوش منجدھار میں اترنے کےلیے بےتاب کرے؟ زیادہ سے زیادہ، یہ کسی چیز کےلیے ہاتھ پیر مارے گا تو اپنا دامن بچانے کےلیے! اس منجدھار میں ڈوبنے سے ’بچ جانے‘ اور ’پار لگ جانے‘ کےلیے! فساد کی قوتوں سے پنجہ آزمائی اور ایک صالح نقشے پر زمین کی تعمیر و آبادکاری اِس طرزفکر کےلیے بہرحال ایک اجنبی چیز ہے۔

*****

علاوہ ازیں، صوفیہ کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ دنیا فتنوں کا گھر ہے۔ یہ فتنے لامحالہ انسان کو گناہوں کے گڑھوں میں گرواتے ہیں۔ لہٰذا اس سے بچنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ آپ خواہشاتِ نفس کو کچل ڈالیں، تاکہ شیطان کے تیار کردہ پھندوں سے محفوظ ومامون ہوجائیں…

دنیا فتنوں کا گھر یقیناً ہے، اس پر قرآن اور حدیث سے بےشمار دلیلیں مل جاتی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّـاسُ إِنَّ وَعْـدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَـا وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَـرُورُ                                                                                            (فاطر 5)

اے لوگو! بیشک اللہ کا وعدہ سچ ہے تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی، اور ہرگز تمہیں اللہ کے حکم پر فریب نہ دے وہ بڑا فریبی

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْماً لا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئاً إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ                            (لقمان 33)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ بچہ کے کام نہ آئے گا، اور نہ کوئی کامی (کاروباری) بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی اور ہرگز تمہیں اللہ کے علم پر دھوکہ نہ دے وہ بڑا فریبی

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِراً                                (الکہف 45)

اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور خدا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرّاً ثُمَّ يَكُونُ حُطَاماً وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ                         (الحدید 20)

جان لو کہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی مارنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا اس مینھ کی طرح جس کا اُگایاسبزہ کسانوں کو بھایا پھر سوکھا کہ تو اسے زرد دیکھے پھر روندن (پامال کیا ہوا) ہوگیا اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا اور دنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کا مال۔

’’… فو الله ما الفقر أخشى عليكم ، ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم ، فتنافسوها كما تنافسوها ، وتلهيكم كما ألهتهم‘                                     (البخاری)

’’… کیونکہ، خدا کی قسم، میں تمہارے معاملے میں غربت سے اتنا نہیں ڈرتا جس اس بات سے کہ تم پر دنیا کی ریل پیل ہوجائے جس طرح تم سے پہلوں پر دنیا کی ریل پیل ہوئی ہوئی تھی، پھر تم اسی کی دوڑ میں لگ جاؤ جس طرح تم سے پہلے اس کی دوڑ میں لگے تھے، اور اس کے ہاتھوں تم اسی طرح غفلت ومدہوشی کا شکار ہوجاؤ جس طرح تم سے پہلے ہوئے تھے‘‘

وعن أبي ذر – رضي الله عنه – قال : ’’ كنت أمشي مع النبي – صلى الله عليه وسلم  – في حرة المدينة فاستقبلنا أحد ، فقال : يا أبا ذر ! قلت : لبيك يا رسول الله . قال : ما يسرني أن عندي مثل أحد هذا ذهبا تمضي عليّ ثالثة وعندي منه دينار ، إلا شيئا أرصده لدين ، إلا أن أقول به في عباد الله هكذا وهكذا وهكذا – عن يمينه وعن شماله ومن خلفه . ثم مشى ثم قال : إن الأكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا ، عن يمينه وعن شماله ومن خلفه . وقليل ما هم ‘‘                                                                 (البخاری).

ابو ذرؓ سے روایت ہے، کہا: میں نبیﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک محلے میں پیدل چلا جارہا تھا، یہاں تک کہ ہمارا رخ احد پہاڑ کی جانب ہوگیا۔ تب آپﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر۔ میں عرض کی لبیک یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا: میں ہرگز پسند نہ کروں کہ میرے پاس اگر اِس احد جتنا سونا ہو تو تیسری رات پڑنے تک میرے پاس اس سونے کی ایک اشرفی تک باقی ہو، سوائے یہ کہ میں اس میں سے ادائے قرض کےلیے کچھ پس انداز کرلوں۔ میں تو بندگان خدا کو یوں اور یوں اور یوں بانٹ دو، آپ اپنے دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب اشارہ فرما رہے تھے۔ پھر آپ چلے، پھر فرمایا: آج کے دولتمند کل قیامت کے روز فقیر ہوں گے، سوائے ان لوگوں کے جو یوں اور یوں اور یوں لٹا دینے والے ہوں، آپ اپنے دائیں اور بائیں اور پیچھے اشارہ فرما رہے تھے، اور فرمایا: مگر ایسے لوگ ہیں تھوڑے‘‘۔

صحابہؓ ’’دنیا‘‘ کے متعلق قرآنِ مجید کی یہ تنبیہات جیسے جیسے سنتے گئے ویسے ویسے انہیں دل میں بٹھاتے چلے گئے، رسول اللہﷺ کی گفتگو میں ’’دنیا‘‘ سے متعلق یہ خبردارکن نصائح  جیسے جیسے سنتے گئے ویسے ویسے انہیں دامن میں باندھتےگئے۔ یوں وہ اس یقین سے سرشار ہوتے چلے گئے کہ دنیا کی یہ متاع زائل ہورہنے والی ہے اور یہ کہ اصل نعمت جس کی حرص کی جائے آخرت ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ دنیا کی متاع (راحت اور آسائش) کے معاملہ میں زہد اختیار کرنے لگے، یعنی متاعِ دنیا آخرت کے مقابلے میں ان کے ہاں بےوقعت ہوگئی۔

لیکن –  جیساکہ ہم نے پیچھے کہا –  یہ وہ ایجابی زہد تھا جو زمین کے اندر مومن کو پیش قدمی کرواتا اور اس کے تعمیری جذبوں کو اخلاص بخشتا ہے۔ یہ زہد (دنیا کی بےوقعتی) وہ ہے جو آدمی کو جہاد کے میدانوں میں لے کر چلتی، باطل سے بھڑواتی، ظلم سے نبردآزما کرواتی، اور زندگی کے ہنگاموں میں اس کو جفاکشی اور صبرواستقامت کی استعداد بخشتی ہے۔ معرکۂ زمین میں اس کو سود و زیاں سے بےنیاز کرتی ہے۔ یہ وہ ’دنیابیزاری‘ نہیں جو نفس کو مار مار کر حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ سلبی تصوف نہیں جو آدمی کو اس کی دنیا سے باہر لے جاتا ہے۔ یہ وہ زہد ہے جو فتنوں کی یلغار کے مقابلے پر نفس کو قلعہ بند کرتا ہے نہ کہ فتنہ کے حملے کے اندیشے سے یہ اپنے اس قلعے کو اپنے ہاتھوں ملیامیٹ کرنا شروع کردیتا ہے!

’’دنیا‘‘ سے متعلق یہ بار بار کی تنبیہات یہاں مومن کو ’’ہوشیار‘‘ کرنے کےلیے ہیں تاکہ وہ اِسی دنیا پر نہ ریجھ جائے اور یہ دنیا اس پر اپنے فتنوں کا جال پھیلا کر اس کو آخرت سے غافل نہ کردے۔ یہ تنبیہات اس کو دنیا کے دھندوں اور ہنگاموں میں شریک ہونے سے باز رکھنے کےلیے بہرحال نہیں ہیں۔ یہ اس کو کارزارِ حیات سے بدکانے کےلیے بہرحال نہیں ہیں۔ یہ زمین کی صالح آبادکاری اور تنظیم و آبیاری کےلیے درکار حرکت و نشاط سے اس کو محروم کردینے کےلیے وارد بہرحال نہیں ہوئی ہیں۔

ان تنبیہات کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک راستہ ہے جس میں جگہ جگہ گڑھے ہیں اور وہ کچھ جان لیوا خطرات سے اٹا ہوا ہے۔ اب کوئی مہربان ایسے ہر ہر گڑھے اور ہر ہر خطرناک گھاٹی کے اوپر بڑے بڑے جلی حروف کے سائن بورڈ آویزاں کردیتا ہے۔ تاکہ راہ رَو بحسن و حفاظت یہاں سے گزر لیں۔ یہ سائن بورڈ اس لیے بہرحال نہیں کہ لوگ یہ راہ چلنے سے ہی باز آجائیں! یہ راستے کی بربادیوں سے خبردار کرنے کےلیے ہیں۔ یقیناً ان بورڈز پر بڑی بڑی خطرناک عبارتیں درج ہیں، جوکہ قطعاً مبالغہ نہیں؛ واقعتاً اس راستے میں بڑے بڑے بھیانک موڑ اور ہولناک گڑھے ہیں، اور ایسے ہر مقام پر جو لکھ رکھا گیا ہے وہ بعینہٖ سچ ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک سفر کو ممکن بنانے کےلیے ہے۔ اب یہاں کچھ لوگ آتے ہیں اور یہ تبلیغ کرنے لگتے ہیں کہ حضرات یہاں تو بڑے بڑے خطرات کے بورڈ آویزاں ہیں، لہٰذا ادھر کا رخ ہی مت کرو… تو یہاں ہم کہیں گے کہ ان حضرات نے ’’تنبیہ‘‘ کو ایک بالکل غلط معنیٰ میں لےلیا ہے۔ یقیناً انہوں نے ’’تنبیہ‘‘ کو بےحد سنجیدہ لیا ہے البتہ اس کے معنیٰ میں انہوں نے شدید غلو کرلیا ہےیہاں تک کہ ’’تنبیہ‘‘ جو راستہ ’’پار کروانے‘‘ کےلیے تھی ان کو راستے سے ’’روک دینے‘‘  کا موجب ہونے لگی ہے۔ یہاں؛ ایک حوصلہ مند شخص خدا پر بھروسہ کر کے راستہ ضرور چلے گا، گو راستے کے خطرناک مقامات سے ازحد خبردار بھی رہے گا۔ البتہ ڈرپوک آدمی یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ جب ایسے ایسے خطرے ہیں تو یہ راستہ چلیں ہی کیوں؟!!

ذرا اِس ایک حدیث پر ہی غور کریں:

والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا فتستغفروا لذهب الله بكم وجاء بقوم يذنبون فيستغفرون فيغفر الله لهم”                                                                           (مسلم)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اگر گناہ نہ کرو اور اس پر خدا سے مغفرت کےلیے ملتجی نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں یہاں نہ رہنے دے، بلکہ تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو لے کر آئے جو گناہ کریں اور اس پر خدا سے مغفرت وبخشش کےلیے ملتجی ہوں‘‘

کیا کہیں گے… یہ گناہوں کی ترغیب دی جارہی ہے؟!

ظاہر ہے کہ نہیں۔

کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کا فرستادہ نبیؐ لوگوں کو –  معاذ اللہ –  گناہ کرنے کی ترغیب دے، جبکہ وہ مبعوث ہی اس لیے ہوا ہو کہ وہ لوگوں کو جہاں تک ان کے بس میں ہو گناہوں سے رکنے کی تبلیغ کرے۔

دراصل یہ عمل اور سرگرمی کی ترغیب ہے!

فاعلیت کی مہمیز ہے!

انسان جس وقت کارزارِ حیات میں عمل اور پیش قدمی کرتا ہے تب محالہ اس سے گناہ سرزد ہوجانے کی نوبت آتی ہے۔

’’كل بني آدم خطاء .. ‘‘                                                        (احمد، ابو داود، ابن ماجۃ، الدرامی)

ہر بنی آدم خطاکار ہے۔

تو چارۂ کار کیا ہے؟

یہ کہ کارِجہان میں جُتنے کے دوران مومن سے جو گناہ سرزد ہوجایا کریں یہ اس پر استغفار کا وتیرہ اختیار کرے:

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ                                             (آل عمران 35-36)

جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے۔

ہاں جو شخص کبھی گناہ نہیں کرے گا  –    بشرطیکہ انسان کی ایسی کوئی قسم دنیا میں پائی جائے!  –    تو یہ وہ انسان ہوگا جو  کبھی کچھ نہیں کرے گا! اس کا سب سے بڑا گناہ بس یہی ہوگا کہ اس نے کبھی کچھ نہیں کیا! خدا کی میزان میں یہ بہت بھاری گناہ ہے؛ کیونکہ خدا کے عائدکردہ واجبات اور فرائض ہی کو پس پشت کرڈالا ہے۔

کمال یہ نہیں کہ آدمی اشیاء سے لدی ہوئی ٹوکری سر پر رکھ کر بےحرکت بیٹھ جائے اور کہے کہ کوئی ایک چیز دکھاؤ جو مجھ سے گری ہو۔ بلاشبہ اس آدمی نے وزن تو بہت سا اٹھا رکھا ہے اور وہ بھاری ٹوکرا تھامنے میں زور بھی اچھا خاصا صرف کررہا ہے، لیکن ہم کہیں گے کہ وہ ’ٹوکرا‘ اٹھانے کی غرض ادنیٰ ترین حد تک پوری نہیں کررہا۔ کیونکہ یہ چیزیں اس کو ’اٹھوائی‘ ہی اس لیے گئی تھیں کہ وہ ان کو لے کر کہیں پہنچے، بصورتِ دیگر یہ اس کو ’اٹھوائی‘ ہی نہ جاتیں!

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ                                                         (عبس 23)

ہرگز نہیں۔ اِس نے وہ کام نہیں نمٹایا جس کا اُس نے اِسے مامور کیا تھا

کمال اصل میں یہ ہے کہ وہ ضروری حرکات تو ضرور انجام دے، تاہم اس دوران اُس کے سر سے وہ ٹوکرا گر کر نہ دے اور اسکی اشیاء گر کر بکھرنےنہ پائیں! تاہم اگر پوری کوشش اور احتیاط کے باوجود، اور تمام نیک ارادوں کے علی الرغم، کوئی چیز گر ہی جائے تو ایسے موقع پروہ خدا کے عفو و درگزر کا دامن وسیع پائے! یہاں خدا، اپنے ایک ایسے بندے کو اپنے سامنے پاکر جس نے اپنے فرض کو معمولی ہرگز نہیں جانا، اور نہ وہ اپنے اس قصور کو کوئی معمولی قصور جانتا ہے جو مالک کے حق میں اس سے سرزد ہوگیا ہے، اور نہ وہ اپنی اس حرکت پر مُصر ہے، بلکہ قصور ہوتے ہی ہوشیار ہوا ہے اور خدا کی مغفرت کا دامن تھامنے کےلیے بھاگ پڑا ہے… یہاں حق بنتا ہے کہ وہ ایسے وفادار بندے کو اپنی شانِ کریمی دکھائے اور اس کی توقع سے بڑھ کر اس کو بخشش سے باریاب کرے!

یہاں ہے خدا کی وہ لامتناہی رحمت سامنے آتی ہے جو بندے کو ، ایک گناہگار بندے کو، فیضیاب کرتی ہے۔ اس لیے کہ اُس کی طرف سے اِس کو جو کام سونپا گیا، یہ اپنی پوری کوشش اور استطاعت کے ساتھ اس کو انجام دینے میں لگا ہے۔ اب جو خطا مالک کی ڈیوٹی کرنے کے دوران سرزد ہو وہ کیوں درگزر نہ کی جائے، بہ نسبت ایک ایسے آدمی کی غلطی کے جو مالک کی ڈیوٹی کرنے پر ہی آمادہ نہیں، یا جو مالک کے عائدکردہ فرائض کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کےلیے تیار نہیں!

یہیں پر؛ انسانی مخلوق کے ساتھ خدا کے پیش آنے کے معاملے میں اسلامی تصور کا حسن اور اس کی عظمت بھی اور گیرائی بھی اپنا ظہور کرتی ہے!

انسان سے یہ مطلوب ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اندر موجزن رغبتوں کو موت کے گھاٹ اتارتا پھرے، اس لیے کہ کسی طرح وہ گناہوں سے محفوظ ہوجائے! یہ مخلوق گناہوں سے محفوظ بھلا کب رہ سکتی ہے! البتہ ’گناہوں سے محفوظ ہونے’   کا یہ نسخہ (جوکہ گناہوں سے اس کا تحفظ پھر بھی نہیں کرتا، بلکہ ہوسکتا ہے یہ اس سے بڑے گناہ میں دھکیل دینے کا باعث ہو) اس کو زمین کی جانشینی (خلافتِ ارضی) کے بہت سے جوانب سے معطل کردینے کا نسخہ ضرور ہے!

انسان سے جو مطلوب ہے وہ یہ کہ اپنے مالک کے دیے ہوئے نقشے پر یہ حرکت اور عمل کرے، اور مباح میدانوں میں سے کسی عمل کو اپنے اِس خداشناس عمل اور حرکت سے خالی اور ویران نہ رہنے دے۔ جس سے زمین کی آبادکاری عین اُس منہج پر انجام پانے لگے جو خدا کا مقصود ہے، جبکہ یہ انسان اپنے اِس پورے عمل میں مقدور بھر خدا سے ڈر کر رہنے والا ہو:

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا                                               (التغابن 16)

پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ

تب زمین مومن کی حرکت اور نشاط سے لبریز ہوجاتی ہے۔ حق یہاں پر محض ’اصولوں‘ کی صورت میں نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی صورت میں جو باطل کا منہ توڑ کر رکھ دے، اپنا ظہور کرتا ہے۔ ترقی و افزودگی جو آسمانی برکت کو ساتھ لےکر آتی ہے زمین کو شاداب کرتی ہے۔ سب عمرانی و تہذیبی عمل اُس پاکیزگی پر قائم رہتا ہے جو شرائع کا مقصود ہے۔ یہ ہے ’’زمین کی اصلاح‘‘۔ یہ ہے ’’دھرتی کا سنورنا‘‘ جو ’’فساد‘‘ کے مقابلے پر قرآنی تعبیر میں بیان ہوا ہے:

وَلا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا                                                   (الاعراف 56)

اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ

تب وہ کشمکش وجود میں آتی ہے جو فساد کے لشکروں کے مقابلے پر اہل حق کے ڈٹنے اور استقامت اختیار کرنے سے وجود پاتی ہے، فساد کی قوتیں جو کسی وقت نیچی نہیں بیٹھتیں، سوائے جب حق کی قوت ان کو زیر کرلے:

وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْـلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ                                                                                            (البقرۃ 251)

اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے

وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ                         (الحج 40)

اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے

یہاں سے؛ مسلم فرد اور مسلم امت زمین میں اپنے فرض کا تعین کرتی اور اپنے مشن پر گامزن ہوتی ہے۔ مسلم فرد اور مسلم امت کا یہ مشن جب تک انسان زمین پر بستے ہیں ختم ہونے والا نہیں۔

بایں صورت، مسلم فرد اور مسلم امت وہ ’’عبادت‘‘ انجام دیتی ہے جو خدا نے اس سے مطلوب رکھی ہے۔ ’’عبادت‘‘ اپنے اُس وسیع مفہوم کے ساتھ جس کا میدان یہ پورا کارزارِ حیات ہے۔ بایں صورت، مسلم فرد اور مسلم امت اُس غایت کو پورا کرتی ہے جو وجودِ انسانی کو یہاں پر سونپا گیا ہے۔

پس وہ لوگ جو ’’زُہاد‘‘ ہوئے، انہوں نے تو اس مشن کو اُس اعلیٰ ترین سطح پر انجام دیا جسے نبوی اصطلاح میں ’’احسان‘‘ کہا گیا:

قال : وما الإحسان؟  قال : ’’الإحسان أن تعبد الله كأنك تراه ، فإن لم تكن تراه فإنه يراك‘‘ (حديث: هذا جبريل أتاكم يعلمكم أمر دينكم . رواه الشيخان)

اس نے دریافت کیا: احسان (عمل کو عمدہ کرنا) کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو، یوں گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہوسکے کہ تم گویا اُسے دیکھ رہے ہو تو یہ کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے‘‘

البتہ صوفیہ نے یہاں نماز، روزے اور ’’ذکر‘‘  کا اہتمام کیا اور کہنے لگے کہ آخرت کےلیے بس یہی عمل درکار ہیں، ’دنیا‘ کے کاموں میں ہمیں پڑنے کی کیا ضرورت، شیطان کے ان فتنوں سے دور ہی رہنا بہتر!

اس کے بعد…؟!

وہ بہت سے امور ہاتھ سے جاتے رہے جو ایک ’’صالح انسان‘‘ کو زمین کے اندر سونپ رکھے گئے تھے اور جو اِس امت کے وجود سے دنیا میں پورے کرائے جانا تھے…

  • زمین کی چھاتی پر چلنا اور اس میں رزق کے سوتوں تک پہنچنا (فَامْشُـوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُـوا مِنْ رِزْقِهِ) موقوف ہوا۔ مسلمان کو بھوک مٹانے سے بڑھ کر یہاں کس چیز سے غرض؟!
  • مسلمانوں کو اب دنیوی علوم و فنون مانند طب، فلکیات، ریاضیات، انجینئرنگ، فزکس اور کیمیا وغیرہ کی کیا ضرورت۔ یہ دنیا کی فانی چیزیں ہیں۔ چھوڑو اِن چیزوں کو دنیا والوں کےلیے!
  • مادی ترقی کافروں کے سپرد۔ کیونکہ یہ دنیا کی زیب و آرائش ہے، جوکہ بربادی ہی بربادی ہے!
  • باطل کے ساتھ قدم قدم پر الجھنا، اور باطل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کےلیے سرگرم ہونا موقوف۔ کیونکہ زمین میں جو ہوتا ہے خدا کی مشیئت سے ہوتا ہے۔ خدا کو کچھ اور منظور ہوتا تو اس کے پیش آنے میں ذرہ بھر رکاوٹ نہ ہوتی، معلوم ہوا خدا کو یہی منظور ہے۔ خدا کو جب کچھ منظور ہوتا ہے تو وہ اس کے اسباب بھی اپنے ہی پاس سے پیدا کردیتا ہے؛ آپ اپنی فکر کریں!
  • عالم اسلام کو افلاس، جہالت، مرض، ہر ہر میدان میں پسماندگی اور لاچاری کے تحفے۔

وہ امت جسے انسانیت کی امام اور رہبر بننا ہو، زمین کا مرکزی ترین کردار بننا ہو، زمین میں خدا کا سونپا ہوا یہ مشن پورا کرنا ہو… کیا وہ امت اس بات کی متحمل ہے کہ وہ کافروں اور بدکاروں کی دست نگر ہو؟

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطـاً لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُـمْ شَهِيداً                                                                                              (البقرۃ 143)

اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک “امت وسط” بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو

’’مسلمان‘‘ کی دنیا میں یہ حالت ہو تو اِس دین کا غلبہ اور ظہور کس طرح ہوگا؟

ایک ایسی امت یہاں کیا کرےگی جس کا ہر شخص ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظر فردا ہو۔ جس کا ہر شخص بھوکا، ہر شخص ان پڑھ، ہر شخص امراض کا کھایا ہوا، لاغر اور لاچار ہو؟!

ایک ایسا مسلم معاشرہ جہاں ہر شخص کو ’گزارے کا‘ کمانا ہو، اور اس سے بڑھ کر کمانا اس کے حق میں معیوب ہو، وہاں امارتِ اسلامی وہ ’ضرورت سے زائد‘ مال کہاں سے ڈھونڈے گی جسے وہ جہاد کے راستے میں صرف کرے اور اسے قوت کا وہ ذریعہ بنائے جس کے دم سے جہان کی تمام باطل قوتوں پر اسلامی قوت کا خوف اور لرزہ طاری ہو:

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُـمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْـلِ تُرْهِبُـونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ..                                                                                                                                                                                           (الانفال 60)

اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں…

جہاں جیبیں خالی ہوں گی، کیونکہ ان کو بھرنا ہے ہی ’دنیاداری‘…! جہاں علومِ دنیا حاصل نہ کیے جائیں گے، کیونکہ آخرت کے راہی کو ان سے کیا سروکار؟…، جہاں مادی ترقی کو شجرِ ممنوعہ قرار دے رکھا جائے گا (کم از کم یہ صالحین کے کرنے کا کام نہیں ہوگا!)…، جہاں کائنات کی چھپی قوتوں کو مسخر کرنے کا کام متروک ہوگا… وہاں وہ ’’قوت‘‘ کیونکر تیار کی جائے گی جو زمین میں خدا کی دشمن قوتوں کو لرزہ براندام کرے، اور جوکہ باقاعدہ خدائی حکم ہے؟

جہاں بیماری ہوگی اور دوا کا بندوبست ہونا ’دنیاداری’  کا کام گنا جائے گا، اور طب کے اندر تحقیق اور ترقی کو ’دنیاداروں’  کا مشغلہ جانا جائےگا، نیز دوا دارو کرنے کو ’ایمان کی کمزوری‘ اور ’تقدیر پہ عدم اعتماد‘ پر محمول کیا جائے گا… وہاں وہ قوی اجسام کیسے پائے جائیں گے جو دشمن کے مقابلے پر ہتھیار اٹھائیں اور زرہ بکتر پہن کر صف آرا ہوں؟

جی نہیں۔ دشمن کے مقابلے پر اترنے کے حوالے سے یہ ایک خدائی حکم ہی، خدا کے وہ بےشمار احکام اس پر مستزاد جو زمین میں طاقت اور اختیارات کے سوتوں کو اپنے ہاتھ میں کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، اس بات کا متقاضی ہے زندگی کےلیے یہاں بالکل ایک اور منہج سامنے لایا جائے نہ کہ یہ منہج جو دنیا کے ذرائع اور وسائل اور قوتوں اور اختیارات کو ہیچ اور ممنوعہ قرار دیتا ہے۔

اس منہج کا تقاضا ہوگا کہ مسلمان علمِ دنیوی حاصل کرنے میں بھی زور لگا دے اور اس باب میں وہ کافر کا دست نگر نہ رہے۔ بلکہ ممکنہ حد تک وہ اس میں کافر پر برتری پائے۔ مادی ترقی، جو خدائی نقشے پر ہو، میں بھی وہ اس حد تک شریک ہو کہ اس تمام عمل کی زمام اس کے ہاتھ میں آجائے اور کافر یہاں پر بےاثر کردیا جائے۔ دولت اور تجارت کے روٹ مسلمانوں کے یہاں سے گزریں اور اموال اسلام کے نقشے پر تنظیم پائیں۔ نیز یہ اموال زمین میں مقاصدِ حق کو بروئےکار لانے کا ذریعہ بنیں، نہ کہ باطل کے مقاصد کو پورا کریں، اور زمین میں یہ حق کی نصرت اور غلبے  کے کام آئیں۔ نیز مسلمان صارفین (consumers)   کا ایک غیرپیدآور مجموعہ نہ رہیں جن کا عالمی ساہوکار معاشی استحصال کرتا پھرے اور اس مسلم بےبسی سے طرح طرح سے فائدہ اٹھائے۔ کیوں مسلمانوں کی مصنوعات دنیا کے اندر بزنس نہ کریں؟

درست ہے کہ متاعِ دنیا کے معاملہ میں زہد اختیار کرنا ایمانی طرزِ عمل کا نقطۂ عروج ہے، اور یہ ایک مسلمان کے بلند سے بلند تر ہونے کا ایک نہایت وسیع میدان اور مقاماتِ حق میں سے ایک عظیم مقام ہے…

لیکن یہ کس نے کہہ دیا کہ اگر متاعِ دنیا کے معاملے میں زہد اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب لازماً پیداوار کو معطل کرنا ہے؟

ایک سچا مومن اپنے عمل کے میدان میں بڑھ چڑھ کر پیداوار دیتا ہے۔  وہ کام سے جی نہیں چراتا۔ کوالٹی میں طعنہ سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ مگر جہاں ’’صَرف‘‘ کی نوبت آتی ہے وہاں وہ ’’زہد‘‘ سے کام لیتے ہوئے کم سے کم پر قناعت کرتا ہے۔ دنیا کی آسائشوں کے معاملہ میں کم سے کم پر گزارہ کرتا ہے اور ’’باقی‘‘ خدا کے راستے میں دے ڈالتا ہے۔ ایسے ’کمانے والوں اور خدا کے راستے میں لٹانے والوں‘ کے دم سے مسلم معاشرہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے اندر باہمی تکافل اور ربط پروان چڑھتا ہے، جہاں قدرت رکھنے والے معاشرے کے عاجز، بیمار اور غیرپیدآور طبقوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور جہاں دولت اپنی سطح ہموار کرتی ہے؛ نہ امیر غیرمعمولی امیر اور نہ غریب غیرمعمولی غریب رہتا ہے، لوگوں میں محبت اور مودت کے رشتے بڑھتے ہیں۔ نیز اسلامی امارت یہاں ’’لوگوں کی ضرورت سے زائد‘‘ مال پاتی ہے، جس سے وہ بےشمار مقاصدِ حق وابستہ ہیں جو دولتِ اسلامی ہی کے انجام دینے کے ہیں۔ دولتِ اسلامی جب تک دنیا کی عظیم ترین طاقت نہ ہوگی، اور اقوامِ عالم اس کی ہیبت اور سطوت سے دبتی نہ ہوں گی، تب تک زمین میں وہ کردار ادا نہ کر پائے گی جو ایک محکم و متوازن جہانِ انسانی کے حق میں ناگزیر ہے۔

’’دنیا‘‘  و  ’’آخرت‘‘  کے مابین بُعد…  چند دیگر عوامل

یہ بہرحال زیادتی ہوگی کہ یہ تمام تر ملبہ ہم صوفیہ پر ڈال دیں۔ ہمارا یہ ضعف اور پسماندگی جس کے باعث دشمن کو ہم پر چڑھ دوڑنے کی رغبت پیدا ہوئی اور وہ ہر طرف سے ہم پر پل پڑے، یہاں تک کہ ہمیں عین وہ صورتحال نظر آئی جس کی حدیث میں پیشگوئی ہوئی تھی: ’’قریب ہے کہ قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں جس طرح کھانے والے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کی، کیا اس لیے کہ تب ہم تھوڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم اُس روز بہت زیادہ ہوگے، لیکن تم سیلاب کے دوش پر اٹھے ہوئے خس وخاشاک جیسے خس و خاشاک ہوگے‘‘۔ یہ بہرحال درست نہیں اِس ’’خس و خاشاک‘‘ والی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صوفیہ کو اٹھوا دی جائے۔

صوفیہ کے ساتھ ساتھ… یہاں اِرجائی فکر تھا۔ سیاسی استبداد تھا۔ ادائے فرض سے فرار کی ذہنیت تھی۔ بدعات، بداعمالی، طرح طرح کے انحرافات۔ اِن سب اشیاء نے ہمیں اس حال تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ صوفیہ میں یقیناً ایسے لوگ بھی ہوئے جس نے دعوتِ اسلام کو پھیلانے کےلیے جہاد بالسیف کیا۔ ایسے بھی ہوئے جنہوں نے دشمن کے خلاف اسلام کے لشکروں کی کمانڈ کی۔ ایسے بھی ہوئے جو جابر سلطان کے آگے کلمۂ حق کہنے کےلیے آگے بڑھے… گو یہ حقیقت کے اعتبار سے زُہاد تھے اگرچہ وہ صوفیہ کے ساتھ ملحق کیے گئے…

پھر صوفیہ کی بہت سی شخصیات اور بہت سی جماعتیں ایسی رہیں جن کے دم سے عوام الناس دین اسلام سے وابستہ رہے۔ جب علماء نایاب ہونے لگے[5]، تو بدعات اور انحرافات کے علی الرغم، صوفیہ ہی بہت سے خطوں کے اندر وہ طبقہ رہ گئے تھے جو عامۃ الناس کا واحد دینی سہارا تھا، اور ان کی بدولت ان خطوں کے اندر اسلام باقی رہا۔

نیز جب سیاست اور خانہ جنگی نے امت کے وجود کو تتربتر کیا اور بہت سے مسلم خطے اقتدار کی رسہ کشی میں چیر پھاڑ کی نذر کردیے گئے…  تو ایسے بہت سے ادوار میں صوفیہ کے شیوخ اور جماعتوں نے ہی امت کے کٹے پھٹے حصوں کو جوڑ رکھنے کا کام دیا۔

یہ تمام خدمات بےحد لائقِ ستائش ہیں، پھر بھی منہج کی ایک غلطی اپنی جگہ ہے۔ منہج کی ایک غلطی جس نے کچھ بنیادی مفاہیم کو بگاڑ کر رکھ دیا:

  • دنیا آخرت سے جدا کرڈالی گئی۔ بلکہ دنیا اور آخرت کے مابین ایک تضاد اور مخالفت کا رشتہ فرض کرلیا گیا۔ یعنی آپ ان میں سے ایک کو پانا چاہتے تو دوسری کو لازماً کھونا ہوگا!
  • ’’عبادت‘‘ کا مفہوم ’’مراسمِ عبادت‘‘ کے اندر محصور کردیا گیا۔اور پھر اسی پر پورا زور دے دیا گیا۔ جبکہ عبادت کا وسیع تر مفہوم جو انسان کی ہر ہر سرگرمی کو محیط ہے، طاقِ نسیاں میں دھر دیا گیا۔

حالانکہ… نہ پہلی بات کا اسلام سے کوئی تعلق اور نہ دوسری بات کا!

رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لاتے ہیں تو مسجد تعمیر کرواتے ہیں… اور پھر صحابہ کو ’’مارکیٹ‘‘  کا رخ کرواتے ہیں… اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ’’مارکیٹ‘‘ پر یہودی چھائے ہوئے ہیں، یہودیوں نے مدینہ کی معیشت اپنی مٹھی میں کررکھی ہے اور وہاں سود اور حرام خوری کا بازار گرم کررکھا ہے۔ تو کیا ایسی مارکیٹ کی بابت جہاں سودخور مہاجنوں کی اجارہ داری ہے زاہدِ اعظمﷺ نے اپنے زاہد صحابہؓ کو یہ ہدایت کی کہ ایک ایسی حرام خوروں کی دنیا میں جاتے ہوئے وہ ’’زہد‘‘ سے کام لیں؟ جبکہ بعد والوں کے نزدیک معیشت کے سب کے سب امور ہی ’’دنیاداری‘‘ میں آتے ہیں۔ کیا صحابہؓ کو وہاں یہ ہدایت ہوئی کہ وہ یہود کو مارکیٹوں پر چھائے رہنے دیں اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے سے وہ جس طرح فساد مچاتے ہیں مچاتے رہنے دیں؟! کہیں پر کہا گیا ہو ’یہ دنیاداروں کا کام دنیاداروں پر چھوڑ دیں‘؟!

رسول اللہﷺ کے زیرتربیت صحابہؓ   کا مارکیٹوں پر چھا جانا اور تھوڑے عرصے میں یہود کو مدینہ کی تجارت میں مات دے دینا… ہمارے لیے باقاعدہ ایک معنیٰ اور دلالت رکھتا ہے…

مسجد جسے رسول اللہﷺ نے مدینہ آتے ساتھ تعمیر کروایا اور جس میں لوگ خالق کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں، لاالٰہ الا اللہ کا علم اٹھانے والی اِس امت کی تربیت اور تیاری کا اصل مرکز ہے، جہاں سے تشکیل ہوکر یہ امت زمین میں تمکین پانے کےلیے نکلتی ہے۔ یہیں پر مسلمانوں کے فیصلے ہوتے ہیں، یہیں پر کچہری لگتی ہے۔ یہیں پر ان کی سیاست ہوتی ہے۔ یہیں پر ان کے جنگ و امن کے فیصلے ہوتے ہیں۔ جبکہ بازار میں ان کی معاشی زندگی پنپتی ہے، اور یقیناً اس پر بھی اِس امتِ تمکین کی زندگی کا اچھا خاصا انحصار ہے، چنانچہ مال کی بابت فرمایا:

أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً                                             (النساء 5)

اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے

یہاں مسجد بھی چاہئے اور بازار بھی۔ تاکہ امت کا وہ بھاری بھرکم وجود اپنی پوری وسعت اور توازن کے ساتھ تشکیل پائے جو اس کو زمین کا ایک مرکزی واقعہ بناتا ہے۔ یہاں درحقیقت وہ امت پنپے جو خیر کی طرف بلانے والی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والی اور اِس آسمانی مشن کے نتیجے میں فلاح پانے والی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ                                                                                                     (آل عمران 104)

اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔

البتہ یہ کہ خدا کی عائدکردہ ’’عبادت‘‘  کا ایک حصہ تو لےلیا جائے، اور جوکہ ’’شعائرِ عبادت‘‘ والا حصہ ہے، اور یہ خیال کیا جائے کہ بس اسی سے آخرت کی کامیابی مل جانے والی ہے، جبکہ ’’عبادت‘‘  کا ایک دوسرا حصہ نظرانداز کردیا جائے اور یہ باور کیا جائے کہ یہ تو ’دنیوی کام‘ ہے جس کو نظرانداز کرنا تقربِ خداوندی کا ذریعہ ہے… تو یہ وہ چیز ہے جو ایک نہایت عظیم چیز کو ہمارے ہاتھ سے چھڑوا دینے کا موجب بنی ہے اور جس نے امت کی تاریخ پر بدترین اثرات چھوڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو چیز مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتی رہی وہ ہے لاالٰہ الا اللہ کے معاشرتی تقاضے، یا یوں کہئے: لا الٰہ الا اللہ کے سیاسی، معاشی اور سماجی تقاضے۔

*****

جوابات تلاش کیجئے

برائے اعادہ / امتحانی جائزہ /  سٹڈی سرکل

’’دنیا‘‘  و  ’’آخرت‘‘… کیا دو متصادم خط ہیں؟

  1. ’’عبادت‘‘ہی کا تصور درست نہ ہونا ’’اعمالِ دنیا‘‘اور ’’اعمالِ آخرت‘‘ کے مابین وہ دوئی پیدا کراتا ہے جو آج کے مسلم تصور کے اندر بول رہی ہے۔ وضاحت کیجئے۔
  2. خدا کی وحدانیت پر اعتقاد پوری زندگی کو ایک ہی وحدت بناتا ہے اور اس کے آلہہ کے مابین بٹنے نہیں دیتا۔ یہاں سے ’’دنیا‘‘اور ’’آخرت‘‘کے رستے بھی یکجا ہوجاتے ہیں۔ اسلام جس خاص انداز سے نفس کے شیرازہ کو مجتمع کرتا ہے اس سے ’’دنیا‘‘ و ’’آخرت‘‘ کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ ’’توحید‘‘ کی یہ واقعاتی جہت واضح کیجئے۔
  3. دورِ اول کا مسلمان ’’دنیا‘‘کے ہنگاموں میں شریک رہتے ہوئے ہی ’’آخرت‘‘بنا رہا ہوتا تھا۔ ’’دنیا‘‘ و ’’آخرت‘‘ اُس کے نزدیک ایک ہی شاہراہ تھی۔ دورِ حاضر کے مسلمان کے ہاں پائے جانے والے ’’تصورِ آخرت‘‘ اور ’’اعمالِ آخرت‘‘ کے ساتھ اس کا موازنہ کیجئے۔
  4. قرآن نے عقیدۂ آخرت کو نفوس کے اندر کس طرح سمویا؟ اس سے احتسابِ نفس اور دلوں میں خدا کی جانب ہر دم پلٹ آنے کا احساس کیونکر جاگنے لگا؟

’’دنیا کی مذمت‘‘… کس معنیٰ میں؟

  1. قرآن اور حدیث میں ’’دنیا‘‘کی مذمت کس معنیٰ میں ہوئی؟
  2. دنیا کو ہاتھ میں کرنا، مال حاصل کرنا، اقتدار اور اختیارات کا مالک ہونا کیا شریعت کے اندر مذموم ہے؟ نصوصِ کتاب و سنت اور دستورِ سلف سے اس کی وضاحت کریں۔
  3. ’’دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والوں‘‘کو عذاب کی وعیدیں قرآن میں کفار و منافقین کے لیے آئی ہیں یا اہل ایمان کو کافرانہ و منافقانہ رویوں سے خبردار کرنے کے باب میں۔ البتہ ’’دنیا کے مقابلے پر آخرت کو اختیار کرنے‘‘کے حوالے سے دورِ آخر کے مسلمان کے ہاں ایک اور قسم کا تصور پرورش پاگیا ہے جو اسے کارزارِ حیات سے روپوش کرادیتا ہے۔ دونوں تصورات کا فرق واضح کیجئے۔
  4. آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا ہی دراصل آخرت پر یقین رکھنا ہے۔ آخرت پر ایک واجبی اور سرسری ایمان جو دورِ آخر کے مسلمان کے ہاں پایا گیا اور جوکہ آدمی کی ترجیحات کے اندر نہیں بول پاتادرحقیقت ’’ایمان‘‘کہلانے کے لائق نہیں۔ اس خانہ پری نے مسلم معاشروں کو کیونکر متاثر کیا؟
  5. آخرت پر ’سرسری ایمان‘رکھنے والے معاشرے پر مادیت کے حملے نے کیا اندوہناک نتائج مرتب کیے؟ ’’حواسِ خمسہ‘‘کے اسیر معاشروں کو ’’ایمان‘‘ کے معانی سے بہرہ مند کرنا کیونکر ممکن ہے؟
  6. خدا نے انسان میں ’’غیب‘‘اور ’’شہادت‘‘دونوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اس حوالہ سے عدم توازن abnormality کی دو صورتیں سامنے آتی ہیں جو صرف اسلام پر آنے سے ختم ہوتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں نیز اسلام کی دیے ہوئے ’’متوازن انسان‘‘ کی نشاندہی کیجئے۔
  7. آدم اور حواء کو زمین پر اتارتے وقت جس ’’متاع‘‘کا ذکر ہوا، اور جوکہ زمین کی جانشینی (خلافتِ ارضی) کا اصل میدان ہے؛ اسی سے ’’دنیا‘‘مومن کے لیے میدانِ عمل ٹھہرتا ہے اور یہیں سے ’’زمین کا کنٹرول‘‘ اہل حق و اہل باطل کے مابین باعثِ نزاع بنتا ہے، اور یہیں سے ’’مباحات‘‘  کا ایک وسیع دائرہ تشکیل پاتا ہےجس کو مجموعی طور پر ’’اخروی مقاصد‘‘ کے تابع کرایا جانا ہے۔ اور یہیں سے ’’آزمائش‘‘ کا وہ تصور سامنے آتا ہے جو قرآن میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ان چاروں جڑے ہوئے مباحث کو ایک ایک کرکے واضح کریں۔
  8. ’’خواہشات‘‘اور ’’حدود اللہ‘‘مل کر زمین پر انسانی کردار کی تشکیل کرتی ہیں۔ ’’تعبد‘‘ خود اس انسان کی تشکیل کرتا ہے جس کے ساتھ یہ کردار وابستہ ہے۔ ’’قلب و شعور‘‘ وہ اصل آلہ ہے جو اس عمل کا ادراک اور امکان کروائے اور ان دونوں کے مابین توازن کو وجود دے۔ محمد قطب کا بیان کردہ یہ پورا مبحث واضح کریں۔
  9. قرآنی اصطلاح میں ’’قلب‘‘کے عمل کو ہی ’’عقل‘‘کہا جاتا ہے۔ جس کی بنا پر ’’قلب‘‘ اور ’’عقل‘‘ کا وہ پورا ڈائلیکٹ باطل ٹھہرتا ہے جو صوفیہ اور فلاسفہ کے مابین میدانِ جنگ رہا ہے، وضاحت کیجئے۔
  10. ’’قلب‘‘ایسے عظیم آلے کو معطل کرڈالنا جس کے نتیجے میں آدمی زمین پراپنی غایت اور اپنا کردار کھو بیٹھتا ہے، اس کا نتیجہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ٹھہرایا گیا ہے، نصوصِ وحی سے اس کے شواہد پیش کیجئے۔

ترکِ دنیا… اور صوفی  رجحانات

  1. ’’دنیا اور آخرت کو دو الگ الگ راستے ٹھہرانا‘‘، اس غلط مقدمہ میں تو انحراف کا شکار ہونے والے ’اہل مادیت‘اور ’اہل روحانیت‘دونوں مشترک ہیں۔ آگے ایک نے ’’دنیا‘‘ کا راستہ لیا دوسرے نے ’’آخرت‘‘ کا۔ اصل راستہ دونوں سے چھوٹ گیا۔ انحراف کی ان دونوں صورتوں کی نشاندہی کیجئے۔
  2. صوفیہ کا دیا ہوا ’’دنیا سے منہ موڑ رکھنے‘‘کا تصور بظاہر نہایت خوب معلوم ہوتا ہے۔ اس میں آیات اور معمولاتِ صحابہ سے استشہادات بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے اصل مضمرات کیا ہیں؟ دنیا اور آخرت جو الگ الگ خانوں میں بٹ جانے کی صورت اس میں کیونکر پیش آتی ہے۔
  3. قرآن میں مباحات کو ’’خدا کی پیداکردہ زینت‘‘کہا گیا ہے۔ سامانِ زیست کو متعدد انداز میں سراہا گیااور ’’خدا کا فضل‘‘قرار دیا گیا جوکہ بہ یک وقت آخرت کا توشہ بھی ہے۔ ان قرآنی و نبوی مقامات کے چند شواہد ذکر کریں۔ نیز ’’دنیا‘‘ کی بابت نظر درست کرنے کے حوالے سے اِن آسمانی تعلیمات کی دلالت واضح کریں۔
  4. صوفی اور زاہد کے مابین پایا جانے والے ایک وقتی و ظاہری اشتراک کے پیچھے درحقیقت ایک بعد المشرقین ہے۔ یہ فرق جہاں سے پھوٹتا ہے وہ دونوں کے نزدیک ’’عبادت‘‘ہی کا الگ الگ تصور ہے۔ محمد قطب کے بیان کردہ اس مقدمہ کی وضاحت کیجئے۔
  5. زاہد کے ہاں مباحات کو کم سے کم کرنا ’’ضبطِ نفس‘‘کا ملکہ پیدا کرانے کےلیے ہوتا ہے جوکہ ’’کارِ امامت‘‘اور ’’زمین کی جانشینی‘‘ کیلئے ایک بنیادی استعداد کا درجہ رکھتا ہے اور اسی بقدر یہ چیز آخرت میں اس کے درجات بلند کرتی ہے۔ جبکہ صوفی کے ہاں مباحات سے دل اچاٹ کرنا ایسی کسی غایت کے ساتھ نہیں جڑتا بلکہ بجائے مقصود رہتا ہے۔ دونوں کی اپروچ کا یہ فرق واضح کریں۔
  6. صوفی اور زاہد کے آفاق الگ الگ ہیں، وضاحت کیجئے۔
  7. صوفی نفس کو ’’مارتا‘‘جبکہ زاہد نفس کی ’’تہذیب‘‘اور ’’قلعہ بندی‘‘ کرتا ہے، ’’تخفیفِ مباحات‘‘ کے حوالے سے دونوں اپروچوں کا فرق واضح کریں۔
  8. وہ چار عوامل جو صوفی کو زمینی عمل کے منجدھار میں اترنے سے مانع رہتے ہیں: ’’زندگی‘‘کی بابت اس کا زاویۂ نظر، محرکاتِ عمل کا قلع قمع، ’فنا‘کی لذت… اور ’قضاء وقدر‘  کا سلبی مفہوم جوکہ قریب قریب عقیدۂ جبر ہے۔  ان چاروں موثرات کے مضمرات بیان کریں۔
  9. ’دنیا بیزاری‘اور ’’ترجیحِ آخرت‘‘دو الگ الگ اپروچ ہیں گو بظاہر ان میں کہیں کہیں اشتراک بھی پایا جائے۔ تصورِ اسلامی کی یہ جہت کس طرح واضح ہوتی ہے؟
  10. اصل چیلنج دنیا سے ’’منہ موڑنا‘‘نہیں بلکہ اس دشت سے ’’گزر کر دکھانا‘‘ہے۔ ’’دنیا‘‘ سے متعلق قرآنی و نبوی تنبیہات کے حوالہ سے محمد قطب ایک نہایت خوبصورت تمثیل پیش کرتے ہیں، اس کا ذکر کیجئے۔ اس مقام پر وہ حدیث نبوی (کہ اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا) کی ایک نہایت خوبصورت جہت بیان کرتے ہیں اور ’’استغفار‘‘ کی اصل معنویت سامنے لے کر آتے ہیں، حدیث میں مذکورہ حقیقت کا اس موضوع کے ساتھ ربط واضح کریں۔
  11. زمین میں مسلم نشاط و سرگرمی کے چند بڑے بڑے میدان جو صوفی رجحانات کے عام ہونے کے ساتھ چھوٹتے چلے گئے کیا ہیں، جن کے باعث مسلم انحطاط تیز سے تیز تر ہونے لگا؟
  12. زہد’’کمائی‘‘اور ’’پیداوار‘‘ میں کمی لانا نہیں بلکہ ’’صَرف ‘‘ میں قناعت کرنے اور ’’ضروریات‘‘ میں کمی لانے اور ’’زائد از ضرورت مال مقاصدِ حق پر لٹانے‘‘ سے عبارت ہے۔  مسلم معاشرے میں ’’زہد‘‘ کے ادارہ کو فروغ دینے کے حوالے سے صائب نظر کیا ہے اور اس بابت یہاں رواج پا چکے سلبی تصورات کیا ہیں؟

’’دنیا‘‘  و  ’’آخرت‘‘  کے مابین بُعد…  چند دیگر عوامل

  1. صوفیہ کے صالح طبقوں نے تاریخ اسلامی میں نہایت اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں، مصنف نے اِس حوالے سے کن اہم اشیاء کا ذکر کیا ہے؟
  2. سورۂ نساء میں ’’مال‘‘کو مسلمانوں کے حق میں ’’قیام‘‘کہا گیا ہے، اس لفظ کی دلالت کیا ہے؟
  3. صحابہ کا مدینہ آمد کے بعد ’’مسجد‘‘کی تعمیر کے ساتھ ہی مدینہ کے ’’بازار‘‘کا رخ کرنا، اور چند سالوں میں معیشت پر چھا جانا ’’دنیا‘‘ کی بابت نظر درست کرنے کے حوالے سے آپ کے نزدیک کیا دلالت رکھتا ہے۔ ’’مسجد‘‘ کی مرکزیت پر قائم ’’ کارِ جہان‘‘ کا کیا نقشہ اس سے سامنے آتا ہے؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

([1])  مثلاً رسول اللہﷺ کا یہ فرمان: ” الدنيا ملعونة ، ملعون ما فيها ، إلا ذكر الله أو عالم أو متعلم ” رواه ابن ماجه والترمذي ’’دنیا ملعون ہے۔ اس میں جو کچھ ہے ملعون ہے، سوائے خدا کی یاد کے، یا کوئی عالم یا متعلم‘‘۔

([2])  یہاں قرآن نے یہ نہیں کہا کہ (كُلُوا مِن ثَمَرِه ’’ان باغات کے پھلوں کو کھاؤ‘‘) اور جوکہ اسی سورت میں آگے جاکر ایک مقام پر (آیت 141) کہہ بھی دیا گیا ہے۔ بلکہ اس جانب توجہ دلائی کہ پکے پھلوں سے لدے یہ باغات تم سے باقاعدہ ایک توجہ اور نظر چاہتے ہیں۔ مقصد یہ کہ جہاں خدا کی اور نعمتوں کو یاد کرنا اور ان پر سوچنا مطلوب ہے وہاں انسانی وجدان کو کائنات میں خدا کے پیدا کردہ اِس جمال اور سحرانگیزی کی جانب بھی متوجہ ہونا ہے۔ اور یہ کہ یہ حسن اور جمال بجائے خود خدا کی ایک نشانی ہے جو ایک سلیم فطرت انسان کو خدا کی شان کا پتہ دیتی ہے۔

[3]  دیکھئے اس کتاب کی فصل ’’عبادت‘‘  کا مفہوم۔

[4]  مراد ہے ایک سچا عبادت گزار صوفی، نہ کہ پیشہ ور شعبدہ گر۔

[5]  گو یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوفیہ اور علماء کے پائے جانے میں ایک معکوس تعلق ہے۔ الا ماشاء اللہ، جب اور جہاں علماء کی بہتات ہوئی وہاں صوفیہ کم ہوئے۔ جب اور جہاں علماء نایاب ہوئے وہاں صوفیہ کی بہتات ہوئی۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز