عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
بعد از نزول عیسیٰ کی جائے تدفین کا مسئلہ؟
:عنوان

:کیٹیگری
اسماعيل ابراہيم :مصنف

بعد از نزول عیسیٰ کی جائے تدفین کا مسئلہ؟

اسماعیل ابراہیم[1]

یہ مضمون دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عامتہ الناس پر واضح کر دیا جائے کہ چند اصحاب رائے کے خیال کے برعکس ، عیسیٰ﷣ کی جائے تدفین ، عقیدہ کا مسئلہ نہیں ۔ مولف نے اس موضوع پر یہی ابہام دور کرنے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے ۔

نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر کچھ لوگ اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی﷣ وفات کے بعد نبیﷺ، حضرت ابوبکر﷛ اور حضرت عمر ﷛ کی ہمسائیگی میں دفنائے جائیں گے- بعضوں کے نزدیک يہ عقيدہ تواتر سے ثابت ہے تاہم یہ بات بالکل درست نہیں- اس مکتب فکر کی بنیاد جن تین يا چار مفروضوں پر رکھی گئی ان کو مختصرا بیان کرنے کے بعد ان شاء اللہ یہ بات ثابت کى جائے گى کہ یہ بات تحقیقی بلکہ عقلی لحاظ سے لغو اور مہمل ہے-

1:             پہلی دلیل تو ترمذی شریف میں مذکور مشہور سابق یہودی عالم حضرت عبد اللہ بن سلام رضى اللہ عنہ کی روایت سے لی جاتی ہے جو آپ عليہ السلام کے ہاتھوں پر ایمان لائے تھے – اس روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن سلام﷛ فرماتے ہیں کہ بعد وفات حضرت عیسی﷣ نبی اکرم عليہ السلام کی ہمسائیگی میں دفنائے جائیں گے، مگر ساتھ ہی وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ بات تورات کے حوالے سے ہے- اگر چہ حدیث کی کچھ دوسری کتابوں میں یہ روایت اس وضاحت کے بغیر بھی آئی ہے مگر وہاں بھی محققین نے سمجھا کہ اس سے مراد تورات ہی ہے – اب شریعت کا اصول ہے کہ چونکہ تورات سے ثابت ہونے والی تمام روایات کا شمار اسرائیلیات میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں توقف کا موقف اپنايا جائے گا، يعنى نفى اور اثبات دونوں مناسب نہیں – ليکن يہ بات جب ہے جب کہ تورات تک اسناد صحيح ہو، مگر حقيقت يہ ہے کہ عبد اللہ بن سلام رضى اللہ عنہ تک سند میں کئی مجہول راوى ہيں، لہذا اس اسرائیلی روايت کا اصلى تورات ميں وجود خود سخت ضعیف ومشکوک ہے –

2:            دوسرى دلیل امام ابن جوزی کی کتاب الوفاء میں اور دوسرى کتابوں ميں درج حضرت عبد اللہ بن عمر رضى اللہ عنہ کى ايک لمبى حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں يہ مضمون ہے کہ آپ عليہ السلام نے فرمایا کہ عیسی بن مریم کا دو بارہ نزول ہوگا اور بعد وفات عیسی عليہ السلام میرے ہمراہ دفنائے جائیں گے – اب اس حدیث کی سند بھی نہایت ضعیف ہے، خود امام ابن جوزی نے اپنى کتاب العلل میں اور امام ذھبی نے اپنى کتاب المیزان میں اس کے راویوں میں شامل ایک افریقی راوى کو سخت ناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے -

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=28744

 3:            تيسرى دلیل تاریخ مدینۃ دمشق سے ہے جس میں امام ابن عساکر بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ عنہا نے آنحضرت عليہ السلام سے وفات کے بعد ان کے نزدیک دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، مگر آپ عليہ السلام نے اجازت نہ دیتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ چار شخص یعنی نبی اکرم عليہ السلام، حضرت عیسی عليہ السلام، حضرت ابو بکر رضى اللہ عنہ اور حضرت عمر رضى اللہ عنہ کی تدفین کے بعد اس جگہ میں اور کسی کی گنجائش نہیں ہوگی – اب اس قصے کے راوی محمد عمری غير موثوق ہے، اور حافظ ابن حجر عسقلانى نے اپنى کتاب فتح البارى میں کہا کہ يہ روايت غير ثابت ہے -

http://goo.gl/0urC4Z

4:             چوتھی دلیل مشہور تابعی امام سعید بن مسیب کا نام جن کے مطابق خالی چوتھی جگہ حضرت عیسی کا مدفن ہوگی – ليکن ان تک اس روایت کا سلسلہ حافظ ابن حجر عسقلانى کے نزديک کمزور ہے -

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=28744

اب ہم ان قوی دلائل کی طرف آتے ہیں، جن کی بنیاد پر اس مفروضہ کی تردید کی جا سکتی ہے:

1:             قرآن کریم کی سورت لقمان آیت 34 (وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ) کے مطابق کوئی شخص اپنی جائے وفات کا پیشگی علم نہیں رکھتا – چناچہ آپ عليہ السلام کو بھی اپنی جائے وفات وتدفین کا علم نہ تھا – اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ تمام روایات جن کی رو سے حضور عليہ السلام نے خود حضرت عائشہ کو اپنے قریب دفن ہونے کی اجازت نہ دی تھی، غلط اور ضعیف ٹھہرتی ہیں، اس لئے ان روايات سے يہ بات لازم آتى ہے کہ حضور عليہ السلام کو مدينہ میں وفات ہونے کا سابق علم تھا-

 2:            امام مالک اپنی موطا کى بلاغات میں اور کئی دیگر علماء نے واضح طور پر بیان کيا کہ نبی اکرم عليہ السلام کی وفات کے بعد آپ عليہ السلام کی تدفین کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم میں اختلاف تھا جس کو بعد میں حضرت ابو بکر رضى اللہ عنہ نے دور کیا – امام ابن عبد البر﷫ نے اس باہمى اختلاف کو صحيح ٹھہرایا ہے – اب اگر اصحاب کو یہ علم ہوتا کہ نبی اکرم عليہ السلام وفات کے بعد مدينہ میں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ عنہا کہ حجرہ میں حضرت عیسی عليہ السلام کے ساتھ دفن ہونے والے ہیں تو کبھی بھی اختلافات سر نہ اٹھاتے – حضرت ابو بکر رضى اللہ عنہ نے آپ عليہ الصلوٰۃ و السلام کو جب حجرہ میں دفنانے کا فیصلہ کیا تو اس کی وجہ بھی ایک دوسرى صحیح حديث کى بناء پر کى تھی، نہ کہ اس عقيدہ کى بناء پر-

3:             اسی طرح فاروق اعظم رضى اللہ عنہ نے مجوسی غلام کے ہاتھوں اپنی شہادت سے قبل دو مرتبہ شدید زخمی کى حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ عنہا سے ان کے حجرہ میں دفن ہونے کی باقاعدہ اجازت طلب کی تھی، جسے عائشہ صدیقہ رضى اللہ عنہا نے دونوں مرتبہ منظور فرمایا تھا – اس واقعہ کا ذکر امام ابن کثیر نے اپنی تصنیف البدایہ والنہایہ میں کیا ہے- اب اگر پہلے سے ہی ایسی مستند احادیث موجود ہوتیں کہ حجرہ میں آخرى دو نبى اور شیخين دفنائے جائیں گے تو حضرت عمر رضى اللہ عنہ کو کبھی بھی اجازت لينے کى نوبت نہ آتی بلکہ وہ ام المومنین کو حکم دیتے اور حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا کو فرمان نبوی عليہ السلام کی تعمیل میں انہیں جگہ دینی ہی پڑتی -

 4:            تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا خود بھی حجرہ میں دفن ہونے کی خواہش مند تھیں – امام حاکم نے مستدرک میں ايک روايت بیان کی جس کو امام ذہبى نے صحيح قرار ديا کہ چونکہ حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا کو جنگ جمل میں اپنے کردار پر گہری ندامت وپشیمانی تھی لہذا وہ ہزار خواہش کے باوجود نبی عليہ السلام کے قریب دفن ہونے سے گھبراتی تھیں – حالانکہ وہ جگہ برس ہا برس سے ان کا ذاتی گھر تھا – تاہم ندامت کے اس گہرے احساس کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے حجرہ سے چند سو گز کے فاصلے پر بقیع غرقد میں دیگر مدنى امہات المومنین کے ساتھ دفنائے جانے کی خواہش ظاہر کی تھی – اس خواہش کے اعتبار سے قطعی طور پر پچھلی احادیث ضعیفہ میں درايتى اعبتار سے اور مزيد ضعف لازم آتا ہے، کیونکہ اگر حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا کو پہلے سے حضرت عیسی عليہ السلام کے دفن کے بارے ميں علم ہوتا تو وہ کبھی بھی نبی عليہ السلام کے ساتھ ميں دفن نہ ہونے کے غم کا شکار نہ ہوتیں -

مختصر قصہ يہ ہے کہ حضرت عیسی عليہ السلام کی جائے تدفین کا علم صرف اللہ رب العالمین کو ہے – جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ دفن کى جگہ شريعت وعقيدہ کى رو سے ايک قطعى بات ہے اور علم حديث کے لحاظ سے متواتر ہے جس میں کسى قسم کے اختلاف کى گنجائش نہیں وه بالکل غلط ہیں- ايسے لوگوں کى علمى اصلاح حکمت کے ساتھ جائز ہے – مگر اگر مستقبل میں حضرت عیسی عليہ السلام کو وفات کے بعد نبی عليہ السلام کے پہلو میں دفن کر بھی دیا جائے تب بھی وہ تمام روایات صحیح نہیں قرار دی جائیں گی، جو علم حدیث کی رو سے ضعیف ہیں – حدیث کے ائمہ کا فتوى ہے کہ اگر حادثات زمانہ سے کوئی ایسی ضعیف حدیث کا متن وموضوع واقعى طور پر درست ثابت ہو جائے تو وہ پھر بھى صحيح نہیں سمجھی جا سکتى، جيسا کہ تجربہ، خواب، الہام يا ديگر غير معتبر طريقوں کى بناء پر کسى حديث کو صحيح، ضعيف يا موضوع نہیں قرار ديا جا سکتا –

[1]   مؤلف کا تعارف:

اسماعیل ابراہیم صاحب برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے قرآن حفظ کرنے کے بعد برطانیہ کى درس نظامى کى مشہور درسگاہ، دار العلوم ڈیوزبری (Darul Uloom Dewsbury) میں چھ سال دینی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں مدینہ کی جامعہ اسلامیہ میں کلیۃ الشریعہ سےامتیازی سند کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے۔ اسکے بعد لندن یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور آج کل وہیں سے اصول فقہ میں پی ایچ ڈی مکمل کر رہے ہیں۔

اسماعیل صاحب مولف اور مترجم ہیں۔ عربی صَرف پر انکی ایک کتاب اردو زبان میں بہار، ہندوستان سے شائع ہو چکی ہے۔ حال ہی میں انکا فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ‘مختصر القدوری’ کا انگریزى ترجمہ بھی ترکی سے شائع ہو چکا ہے۔

فروعی مسائل میں پائی جانے والی افراط وتفریط کو مٹانا اور آدابِ اختلاف کا تعارف کروانا آپ کا خصوصی میدان ہے۔ اسی سلسلہ میں قیام رمضان کے مسائل اور تقلید مطلق وشخصی کے مابین موجودہ متشدد آراء پر تحقیق کا کام جارى ہے۔ آپ کا ہدف مختلف مذاہب کے مسلمانوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دینا ہے۔ اور اس بارے میں اہل سنت کے دو اہم برصغیری بلکہ عالمى تحریکى طبقے – دیوبندی اور سلفى حضرات – کے تقارب کی سعی آپ کا مقصود ہے۔

اسماعیل ابراہیم فقہی اعتبار سے حنفى المذہب، عقیدے کے مسائل میں سلف کے پیروکار ہیں اور بالخصوص امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے منہج پر ہیں۔ اہل کلام حضرات کی فلسفیانہ موشگافیوں کے سخت مخالف ہیں۔

علاوہ ازیں، اسماعیل صاحب جہاں موجودہ دور میں ہر سطح پر نمودار ہونے والے فکری خلفشار، ذہنى فتنوں، عقائدى پیچیدگیوں اور نتیجہ خیزعصری مباحث میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں وہاں اصول سے متعلق ان روایتی مسائل کی گتھیاں سلجھانے پر بھی بہت زور دیتے ہیں جس سے مخلص عوام الناس کے شکوک واوہام دور ہو سکیں۔

اسماعیل ابراہیم صاحب ڈیوزبری، برطانیہ میں اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کے والدین کا تعلق ہندوستان میں گجرات کے ضلع سورت سے ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز