عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
الحنیفیۃ السمحۃ-حصہ اول
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

فصل دوم

الحنیفیۃ(1) السمحۃ(2) ..حصہ اول
آسانی اور رواداری پر مبنی ٹھیٹ موحدانہ طرز عمل

 

 

مجھے اس ٹھیٹ موحدانہ طرز عمل کے ساتھ بھیجا گیا ہے جس میں بے حد آسائش اور رواداری ہے

بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ (3)

پس بتوں کی گندگی سے بچو اور باطل قول سے اجتناب کرو۔ (حنفاء) خدا کی جانب یکسو موحد بن کر۔ شرک سے دور رہتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ جس نے شرک کیا گویا وہ تو آسمان (کی بلندی) سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اس کو ایسی جگہ لیجا کر پھینک دے جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں۔

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاء لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (الحج: 30-31)

اور وہ اس بات کے سوا کسی چیز کے مامور نہ تھے کہ ایک اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کیلئے خالص کرکے (حنیف)یکسو موحد ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح ودرست دین ہے۔

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ  (البینۃ:5)

انداز دینداری جو کہ اللہ تعالی کو سب سے پسند ہے وہ ہے: ٹھیٹ موحدانہ طرز کی بندگی جس میں خوب نرمی ومیانہ روی ہو

أحَبُّ الدِّینِ اِلَی اللَّہِ الْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ(4)

عائشہؓ روایت کرتی ہیں، کہا: میرے ہاں ابوبکرؓ تشریف لائے جبکہ اس وقت میرے ہاں دو انصاری لڑکیاں ان رجزیہ اشعار پر گا رہی تھی جو کہ انصار لوگوں نے جنگ بعاث کے موقع پر کہے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: یہ دونوں باقاعدہ گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکرؓ (غصہ میں) کہنے لگے: شیطان کا یہ سُر کیا رسول اللہ کے گھر میں؟ جبکہ اس روز عید تھی۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر ہر قوم کا کوئی جشن ہوتا ہے اور آج ہمارا جشن ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ أبُو بَکْرٍ وَعِنْدِی جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِی الْأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِہِ الْأنْصَارُ یَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ فَقَالَ أبُو بَکْرٍ أبِمَزْمُورِ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَذَلِکَ فِی یَوْمِ عِیدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أبَا بَکْرٍ اِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیدًا وَہَذَا عِیدُنَا(5)

یحی بن یحی اور ابو کریب دونوں ابومعاویہ ہشام سے اسی اسناد کے ساتھ جو روایت کرتے ہیں اس میں یہ لفظ آتے ہیں:

یہ دونوں لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔

و حَدَّثَنَاہ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی وَأبُو کُرَیْبٍ جَمِیعًا عَنْ أبِی مُعَاوِیَۃ عَنْ ہِشَامٍ بِہَذَا الْاِسْنَادِ وَفِیہِ جَارِیَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ (5)

عائشہؓ سے روایت ہے، کہا: کچھ حبشی لوگ عید کے روز آئے اور مسجد میں ایک رقص نما کھیل پیش کیا۔ تب نبی ﷺ نے مجھے بھی بلا لیا۔ میں آپ کے کاندھے پر اپنا سر رکھ کر ان کاکھیل دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ میں نے خود ہی ان کی طرف سے توجہ پھیر لی۔

عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ جَاءَ حَبَشٌ یَزْفِنُونَ فِی یَوْمِ عِیدٍ فِی الْمَسْجِدِ فَدَعَانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُ رَأسِی عَلَی مَنْکِبِہِ فَجَعَلْتُ أنْظُرُ اِلَی لَعِبِہِمْ حَتَّی کُنْتُ أنَا الَّتِی أنْصَرِفُ عَنْ النَّظَرِ اِلَیْہِمْ (6)

عروہ کہتے ہیں: عائشہؓ نے کہا: اس روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے۔ درحقیقت مجھے ایک ایسے موحدانہ طرز زندگی کے ساتھ بھیجا گیا ہے جس میں آسائش اور رواداری ہے

عن عُرْوَۃ: اِنَّ عَائِشَۃ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ: لَتَعْلَمُ یَہُودُ أنَّ فِی دِینِنَا فُسْحَۃ اِنِّی أرْسِلْتُ بِحَنِیفِیَّۃ سَمْحَۃ (7)

ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "بے شک دین آسانی ہے۔ اور جو بھی دین میں شدت اپنائے گا وہ دین سے لازماً مات کھائے گا"

 

عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أحَدٌ اِلَّا غَلَبَہُ (8)

 

*********

 

حنیفیت ملتِ ابراہیم ؑ کا ایک خوبصورت وصف بھی ہے اور اس کا ایک معروف لقب بھی۔ ظہورِ اسلام سے پہلے عرب میں شرک اور بتوں کی عبادت کو غلط جاننے والے اور خالص فطرت پر برقرار رہتے ہوئے ماحول کے اثرات کے خلاف برسرِ مزاحمت، عقلِ سلیم کے پیروکار، جاہلیت کی عام برائیوں سے دامن کش رہنے والے با ہمت انسان جوکہ خدا سے ایک خاص انداز کی موحدانہ لو لگا رکھیں حنفاءکے نام سے مشہور تھے۔ قرآن میں بیشتر مقامات پر ابراہیم علیہ السلام کا تعارف حنیف کے وصف سے کرایا گیا ہے۔ خود مسلمانوں کو "حنفاءللہ غیر مشرکین به" رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبح شام کے بعض مسنون اذکار میں جو کہ توحیدِ بندگی کی زبردست یاد دہانی ہیں، حنیفاً مسلماً کے الفاظ آتے ہیں(9)۔ ضرور پھر اس لفظ میں کوئی ایسی بات ہے جو خدا کو خاص طور پر مطلوب ہے اور جس کو دعوت اسلام کا تعارف کرانے میں نہایت برمحل جانا گیا ہے۔

یہ لفظ عجیب وسعت کا حامل ہے۔ یہ بیک وقت دو معنی دیتا ہے جو کہ بظاہر متعارض ہیں مگر در اصل ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ حَنَفَ یحْنُفُ کا مطلب مُڑا ہونا بھی ہے اور سیدھا ہونا بھی ، میلان ختم کرلینا بھی ہے اور میلان پیدا کرلینا بھی۔ گویا یہ ٹوٹنا بھی ہے اور جڑنا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ عن کا حرف بھی استعمال ہوتاہے اور الیٰ کا بھی۔ چنانچہ یہ دہرا معنی رکھتا ہے۔ یہ کمال انداز سے ایک حقیقت کے دونوں رخ بیک وقت بیان کرتا ہے۔ توحید کے دراصل دو پہلو ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں پر یہ ایک ہی لفظ فٹ آتا ہے۔ یہ دونوں پہلو الگ الگ رہیں تو بے معنی ہیں یکجا ہوں تو "توحید" بنتی ہے۔ چنانچہ جس قدر توحید کے یہ دونوں پہلو اہم ہیں اسی قدر ان دونوں پہلوؤں کا اجتماع ضروری ہے تاکہ یہ انسان کے تصور اور کردار کی ایک متعین جہت بنا دے۔ حنیفیت کا لفظ ان دونوں پہلوؤں کو کمال خوبصورتی کے ساتھ یکجا کر دیتا ہے۔ "حنیف" اس شخص کو کہیں گے جو کسی طرف سے یکسر ہٹ جائے اور مکمل طور پر کسی اور طرف کا ہو لے۔ ان دونوں باتوں کے بغیر حنیف کامعنی متکامل نہ ہوگا۔ ایک طرف سے ٹوٹنا اور دوسری طرف جڑنا۔ یعنی نفی اور اثبات دونوں بیک وقت مراد لئے جائیں تو اس لفظ کی حقیقت سامنے آئے گی۔

چنانچہ "حنیفیت" کا معروف معنی ہے: سب معبودوں سے ناطہ توڑ کر بس ایک ہی معبود سے لو لگا لینا اور سب راستوں سے ہٹ کر ایک حق ہی کے راستے پر آرہنا اور اسی پر جم جانا۔ جاہلی رسوم، جاہلی رواج، جاہلی معیار اور پیمانے اپنانے سے ابا کرنا۔ چنانچہ جس قدر "خدائے برحق کی بندگی" کا دم بھرنے اور "حق کی اتباع" سے وابستہ رہنے کا مفہوم اس لفظ سے واضح ہوتا ہے اتنا ہی جلی ہو کر "باطل" کو مسترد کردینے اور "لوگوں کی دیکھا دیکھی" اور "رسوم ورواج" کا راستہ چھوڑ دینے کا مفہوم بھی اسی لفظ میں نمایاں ہے۔ اس لحاظ سے یہ اسلام کی ایک لفظ میں بہترین اور جامع ترین تفسیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دعوت کے تعارف میں فرماتے ہیں: مجھے حنیفیتِ سمحہ دے کر بھیجا گیا ہے۔

یہ تو ہوا حنیفیت کا مطلب۔ سمحہ کیا ہے؟ اس کے معنی میں نرمی، آسانی، رواداری، رحمدلی، میانہ روی، رعایتِ فطرت، معقولیت، اعلیٰ ظرفی اور وسعت نظر کے مفہومات آتے ہیں۔ گویا یہ ’مذہب‘ اور ’دھرم‘ کے لگے بندھے مفہوم سے یکسر مختلف چیز ہے۔ ہر دھرم کی پیشہ ورانہ تفسیر اس کو پیچیدگیوں کا مجموعہ اور ایک ازکار رفتہ چیز بنا دیتی ہے۔ ’مذہب‘ جکڑبندی کا دوسرا نام ہو جاتا ہے۔ اس پر ایک خاص کاہن پیشہ قسم کے لوگوں کا اجارہ ہوتا ہے۔ مذہب کو ترکِ دُنیا اور مردم بیزاری کا ہم معنی کر دیا جاتا ہے۔ قدرتی جذبوں کا قتل اورجائز خواہشات کو دبا دینا ’مذہبی‘ ہونے کا تقاضا مان لیا جاتا ہے۔ شریعت کو سخت سے سخت کر دینا خدا کے تقرب کا ذریعہ باور کیا جاتا ہے۔ پھر چونکہ یہ ایک بے بنیاد دین ہوتا ہے، جہالت، خرافات اور انسانی اھواءو خواہشات بلکہ بسا اوقات تو انسانی حماقتوں کا مجموعہ ہوتا ہے لہٰذا اسے ثابت کرنے اور منوانے میں دھونس اور زبردستی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

سمحہ کا لفظ ان سب مفہومات کو باطل کر دیتا ہے اور دینِ اسلام کا ان جکڑ بندیوں سے یکسر ایک مختلف تعارف کراتا ہے..

اسلام فطرت کی اپنی ہی آواز ہے اور انسانی ضمیر اور عقل سے سیدھا سیدھا خطاب۔ لہٰذا اس کو ثابت کرنے اور منوانے میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں۔ اس معنی میں اسلام کے اندر رواداری ہے..

پھر شریعت کے احکام میں نرمی اور آسانی ہے، جو کہ "گنجائش" اور "رواداری" کا ایک اور پہلو ہے..

پھر، "احکامِ شریعت" کے اپنے اندر تو جو نرمی اور آسانی ہے وہ تو ہے ہی، احکامِ شریعت کے "فہم و استنباط" میں جو ایک "گنجائش" اور وسعت ہے، اور اس باب میں "تنوع" کیلئے جس قدر جگہ رکھی گئی ہے، فقہ (یعنی استخراجِ احکام اور فہمِ مقاصدِ شریعت) کے جو خوبصورت آداب رکھے گئے ہیں، اور اس باب میں "اختلاف" کے جو بے حد متوازن اور بر محل حدود متعین کئے گئے ہیں، انسانی صلاحیت کو اپنے جوہر دکھانے کا جو ایک کشادہ راستہ اس پہلو سے پیدا کرکے دیا گیا ہے اور تعددِ آرا کو ایک تعمیری عمل کیلئے سازگار بنانے کا جو ایک انتظام اس رنگ میں ہے، وہ اپنی جگہ حیران کن ہے۔

فقہی اختلاف کیلئے جگہ پیدا کی جانا اور تعددِ مذاہب (فقہی معنی میں) کا قبول کیا جانا، جو کہ منہجِ اہلسنت کا ایک امتیازی وصف ہے، اور جو کہ ہمیں ائمۂ سلف سے اپنے تمام تر حدود اور ضوابط سمیت باقاعدہ علمی انداز میں ملتا ہے، بھی اسی "گنجائش" اور "آسائش" کے ساتھ ملحق ہے۔

پھر لوگوں کو ان کے فرائض بتانے میں انکے حالات، انفرادی استعداد اور موقع ومناسبت کی حد درجہ رعایت ملحوظ ہے..

دین سکھانے میں تدریج ہے۔ کسی بات کا مکلف ہونا استطاعت سے مشروط ہے۔ بھول چوک معاف ہے..

معاشرے کے اندر ہر شخص، ہر طبقے اور ہر صنف کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا کھلا موقعہ دینا اِس دین کا اپنا تقاضا ہے بلکہ اس کا امتیاز۔

اخوت، مساوات، خیر خواہی، صبر، احسان، صدقہ، صلہ رحمی اور مکارم اخلاق کی تلقین ہے۔ عفت، حیا اور پاکدامنی یہاں کا وجہِ امتیاز ہے۔ صداقت، جرات، بے نیازی، خدا امیدی، مثبت خیالی، قربانی اور ایثار ایک مسلسل دہرایا جانے والا سبق ہے۔ کردار کے حُسن پر حد درجہ زور ہے۔

بلکہ یہاں اگر کوئی سختی نظر آتی ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر کردار کی پختگی میں ہی ڈھل جاتی ہے جو کہ نفس کو پاکیزگی دینے کے ساتھ ساتھ بالآخر معاشرے کو بھی کچھ راحت اور زینت ہی دے جاتی ہے۔ یہ محنت کرائے بغیر ابنِ آدم کو عطا ہونے والا وہ قیمتی ترین جوہر مٹی میں مل جاتا ہے جس کے اعتراف میں ملائکہ کو اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا پڑا تھا بلکہ تو شیطانی وحی کے زیرِ اثر، جوکہ جادہءانبیا سے نا آشنا ذہین لوگوں کو بکثرت القا ہوتی ہے، اس کا یہ نفیس جوہر ایک غلیظ کیچڑ بن کر رہ جاتا ہے اور اس کا تعفن ہر طرف پھیل جاتا ہے جس میں پھر صرف شیطان پلتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو تہذیب اور روشنی کے نام پر اس کی کچھ زندہ مثالیں آج خاص طور پر دیکھی جاسکتی ہیں (10)۔ پس بے شک کسی وقت آدمی کو سانس پھولتی محسوس ہو مگر یہاں پائی جانے والی دشواریاں "علیم و خبیر" کی جانب سے نفس انسانی کو ترقی کی کچھ گھاٹیاں ہی سر کروانے کیلئے ہیں جس سے کہ انسان کی ہستی میں پھر ایک خاص رنگ کے پھول کھلتے ہیں، اور جس سے کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کی اس خاص جہت پر یہ مخلوق پھر رشک خلائق ہو جاتی ہے۔

مزید برآں سادگی اور صفائی کا حکم ہے (11)۔

فطرت کے مقاصد پر زور ہے۔(12)

ایک طرف بھاری بھر کم رسومات مذموم ہیں تو دوسری طرف رہبانیت اور ترکِ دُنیا کی ممانعت(13) ہے۔ معاشرے کے عین بیچ میں رہنا ، لوگوں میں گھل کر رہنا، لوگوں سے ملنے والی اذیت کو نیکی میں بدل کر لوٹانا یہاں بار بار دیا جانے والا ایک سبق ہے۔

غرض ہر معاملے میں ایک توازن ہے اور ہر چیز یہاں ایک خاص حُسن رکھتی ہے اور ایک خاص سَلیقہ۔ کوئی چیز بلا ضرورت یا بے محل ہو، اس کا تو خدائی تنزیل میں تصور بھی نہیں۔

اس لحاظ سے الحنیفیہ السمحہ رسول اللہ کی دعوت اور مشن کا بہترین تعارف ہے!

حنیفیہ اور سمحہ۔ یہ دونوں رسول اللہ ﷺکے مشن کو بے انتہا منفرد بنا دیتے ہیں۔ ایک طرف اصول ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ حنیفیت ہے یعنی باطل سے کوئی سازگاری نہیں۔ ہر باطل راستے، ہر باطل نظام اور ہر باطل معبود سے مکمل ناطہ توڑ لینا ہے جس کے بعد باطل سے مسلم فرد یا مسلم جماعت یا مسلم معاشرے کاکوئی لینا دینا ہی نہ رہے۔ اللہ وحدہ لا شریک سے _ خالصانہ بندگی پہ مشتمل _ ایک خاص نکھرا ہوا تعلق ہے۔ اصولوں پر بے پناہ سختی ہے۔ عقیدہ پر بے حد زور ہے۔ یہاں کوئی چھوٹ نہیں۔

دوسری طرف اصولوں کی دعوت دئیے جانے میں ہر درجہ معقولیت ہے۔ ان کو منوانے میں کوئی زبردستی نہیں۔ یہاں انسان کی عقل اور ضمیر سے خطاب ہے۔ دعوت کو لیکر چلنے میں اور اس راستہ کے اندر لوگوں کے ساتھ تعامل اختیارکرنے میں معقول ترین، آسان ترین اور موثر ترین اندازاپنانے کی ہدایت ہے بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَیَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (14) راستہ وہی توحید کا راستہ ہے۔ راستہ نہیں بدلنا۔ انچ بھر نہیں ہٹنا۔ مگر اس راستے کو مردم بیزاروں سے بھی نہیں بھرنا۔ معقولیت کا دامن نہیں چھوڑنا۔ لٹھ ماری کا یہاں کیا کام۔ لوگوں کی ہمت اور استعداد اور لوگوں کے حالات کو مدنظر رکھا جانا ہے۔ اس راستے میں بہترین انسانی رویوں کو پروان چڑھایا جانا ہے۔ انسانی رشتوں کی تکریم کی جانی ہے۔ سماجی بندھنوں کو اور سے اور مضبوط کیا جانا ہے۔ یہاں عفو ودرگزر ہے۔ بلند خیالی ہے۔اعلیٰ ظرفی ہے۔ انسانی جوہر کی ترقی وافزودگی ہے۔ تہذیبی عمل ہے۔ احکام شریعت میں یُسر ہے۔ عزیمت ہے تو رخصت بھی ہے۔ جہاد اور عزم الامور پہ زور ہے تو تفریح اور شغل کی گنجائش بھی ہے۔ تبھی دف بجانے اور حبش کے مسلمانوں کو اپنا علاقائی کھیل پیش کرنے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:

”یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں ایک وسعت اور آسائش ہے۔ درحقیقت مجھے ایک ایسے موحدانہ طرز زندگی کے ساتھ بھیجا گیا ہے جس میں آسائش اور رواداری ہے"(15)۔

چنانچہ ان بے شمار جہتوں سے اسلام میں بے حد وسعت، آسائش اور رواداری ہے، بلکہ آسائش اور رواداری _ مکارم اور پاکیزہ قدروں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ _ ہے ہی صرف اسلام میں۔

البتہ جاہلیت جس رواداری کامطالبہ کرتی ہے اس سے مراد کچھ اور ہے! ایک نگاہ ہمیں اس پہلو سے بھی ڈالنا ہے، مگر ذرا آگے چل کر(16)۔ پہلے "گنجائش" کے حوالے سے ابھی اوپر جو اصولی زاویئے نشان دہ کئے گئے، ان میں سے چند ایک کو تھوڑا سا اور جلی کردیا جانا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں "حنیفیت" کی اساس کو بھی کچھ مزید واضح کردیا جانا۔ اس کے بغیر وہ "جامعیت" اور "مانعیت" اور وہ "وسعت" اور "توازن" اور وہ "سلفیت و اصالت" اور "عصریت" جن کو بیک وقت جمع کرنے سے ہی اسلام کی وہ تصویر بن سکتی ہے جن کا ذہنوں میں بٹھا دیا جانا یہ سب لکھنے لکھانے سے در اصل ہمارے پیشِ نظر ہے، شاید تشنۂ وضاحت رہے۔ گو آپ یہ محسوس کریں گے کہ ان میں سے ہر زاویہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا مبحث ہے اور الگ سے واضح کیا جانے کا ضرورت مند۔

 

*********

 

"حنیفیت" اور پھر ”سمحہ“.... یہ اس قدر گہری اور دور رس اور پُر معنی فطری و قلبی، ذہنی و عقلی، منطقی و بدیہی، شعوری و ادبی، سماجی وعمرانی و تہذیبی، عملی و واقعاتی، دنیوی و اخروی، مادی و روحانی، خدائی و انسانی جہتیں _ بیک وقت _ اپنے اندر رکھتا ہے جو اپنے اس تمام تر حسن کے ساتھ وہ "دین" ٹھہرتا ہے جو _ بیک وقت _ انسان کے شایانِ شان ہو تو خدا کے ہاں مقبول. إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ(17).. وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ(18) اس کو جاننے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کسی اور چیز پر قیاس ہوتا ہے اور نہ کوئی چیز اِس پر! پس سب سے پہلی بات اس کی طرف آنے کیلئے یہ ہے کہ اس کو "منفرد" مانا جائے اور "اِس" کے اور "اِس کے ما سوا" کے مابین حقیقی معنی میں کسی "مترادفات" کا پایا جانا بھی دور از امکان سمجھا جائے. واقعتاً یہ دین اتنا ہی منفرد ہے، بلکہ اِس سے بھی زیادہ!

مراکش کے ایک مسلم دانشور، عبد السلام یاسین، جنہوں نے فرانسیسی زبان میں اسلام کی بعض فکری اور تہذیبی جہتوں پر ایک بہت خوبصورت کتاب لکھی ہے اور جس کا عربی ترجمہ "الاسلام والحداثہ" کے عنوان سے ہمیں پڑھنے کیلئے دستیاب ہوا.. اپنی کتاب کے آغاز میں یورپ کے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میری اصل دقت یہ ہے کہ میں تمہیں "ریلیجین" کے زیرِ عنوان "اسلام" کی تفسیر کر کے دوں!

خدائے علیم وخبیر کی یہ تنزیل واقعتاً اسی قدر ناقابلِ قیاس ہے۔

 

********

 

ہمارے وہ بہت سے شاعر اور ادیب جو ”دین“ کو، جسے یہ ظالم ’مذہب‘ کہتے ہیں، کچھ بے معنیٰ رسوم اور بے دید جکڑ بندیوں کے رنگ میں لا کر پیش کرتے ہیں اور بسا اوقات ’دیر‘ اور ’حرم‘ کا ایک ہی سانس میں ذکر کر جاتے ہیں۔ پھر اپنے جیسے سفیہوں سے اس نکتہ آفرینی پر داد پانے کے خواستگار تک ہوتے ہیں.... ’دیر‘ اور ’کعبہ‘ کو ایک ہی مصرعے اور ایک ہی سیاق میں جڑ کر یہ زندیقیت کی راہ پر تو چلتے ہی ہیں (خاص طور پر وہ جو بالقصد اس اندازِ سخن کو رواج دیتے ہیں، بے شک کسی اور وقت وہ ’نعتیں بھی کہتے سنے جائیں)، ”حنیفیتِ سمحہ“سے اپنے کورا پن کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔ خود یہ جس ’رسم‘ پہ ہیں وہ ایک بے حد پٹی ہوئی لکیر ہے۔ پیتل اور سونے کو ’ایک نظر‘ سے دیکھنا ان کے نزدیک صاحبِ نظر ہونا ہے! کون یہ تکلیف کرے کہ اشیاءکو الگ الگ کرکے دیکھے، خاص طور پر اس ’دیکھنے‘ کی اگر کوئی قیمت بھی ہو!

ان میں سے اکثر کا مصدرِ آگہی یا تو یہاں کے پرانے زندیق ہیں جو کہ فلاسفہ اور قدریہ و وجودیہ (وحدت الوجود) کے مکتبِ فکر سے منسلک شریعت بیزار صوفی شاعروں میں بکثرت پائے گئے اور جو کہ ’معرفت‘ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں حق اور باطل کا فرق ملیامیٹ کرتے ہوئے اور دینِ انبیا اور دینِ تحریف زدہ و خانہ ساز کا امتیاز مٹی میں ملاتے ہوئے سب جہتیں ایک کردی جائیں ، یا پھر ہندو سماج کا پسِ منظر ہے جو کہ گھپ اندھیرے کی ایک بدترین مثال ہے، اور یا پھر چرچ کی تاریخ اور اس کے خلاف ’عقل‘ اور ’جذبے‘ کا وہ خروج جس نے عمومی طور پر زمانۂ حاضر کے ایک پڑھے لکھے ذہن کی تشکیل کی ہے، اور یا پھر یہ تینوں جہالتیں۔ ظلمات بعضہا فوق بعض۔

گو اس بات کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ ہمارا ’مذہبی‘ طبقہ نہ صرف اس اندازِ فکر کو سمجھنے اور اسے ”حنیفتِ سمحہ“ سے آشنا کروانے میں کچھ بہت کامیاب نہیں رہا (بلکہ ایک بڑاطبقہ شاید خود اس سے آشنا نہیں!) بلکہ نادانستہ، ماحول میں اس اندازِ فکر کو مقبولیت پانے کے بعض مواقع بھی اپنے پاس سے فراہم کرتا رہا اور بدستور کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام کی یہ فطری حسین جہتیں اور یہ عقلی و فکری افق، اور اس کی یہ روحانی شفافیت جو قلب اور نظر کی بیک وقت تسکین کرتی ہے، بلکہ اس کے سوا کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی جو قلب و نظر کی تشفی کرسکے.... ’ہدایت‘ اور ’خدا آگاہی‘ کا یہ خالص بے ساختہ قرآنی و نبوی اسلوب.... جو کہ سارا کا سارا ”حنیفیتِ سمحہ“ کے تحت خوبصورتی کے ساتھ مندرج ہوتا ہے اور ”دین“ کو ’احکام‘ سے پہلے ایک ’پیغام‘ بناتا اور ’اعمال‘ سے پہلے ’قلوب‘ میں جگہ پاتا ہے.... اور جوکہ ”دین“ کو لینے اور پیش کرنے کا ایک باقاعدہ منہج ہے، اور نبوی اسلوبِ تربیت کی اصل اساس.... اس وقت عام کیا جانا(19)بے حد ضروری ہے۔ ہم اس پر جا بجا زور دیتے نظر آتے ہیں تو اس کی کچھ یہی وجہ ہے۔

 

*********

 

نصوص کے فہم و استیعاب، جمع و تطبیق، تحقیق و تخریج، تعیینِ مناط، استدلال و استنباط وغیرہ کے معاملہ میں تعددِ آرا اور تنوعِ مذاہب، جب تک کہ وہ "اہلسنت" کے دائرہ میں رہیں، بھی اس "گنجائش" اور "آسائش" کا ایک زبر دست مظہر ہیں، جیسا کہ ابتدا کے اندر بیان ہوا۔

بعض فقہی مسائل پر مناظراتی دنگل جن سے ہمارے عوام کو "دین" کے نام پر متعارف کرایا جاتا رہا ہے، اور جن کو اہلِ علم کے علمی مناقشوں سے باہر نکال کر باقاعدہ ’سڑک‘ پر لے آیا جاتا ہے، بلکہ عوام کو ان میں باقاعدہ فریقِ معاملہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور بسا اوقات تو قاضی اور حَکَم بھی، حتی کہ کسی وقت ان کو ان فقہی موضوعات پر بھڑکایا اور مشتعل بھی کر لیا جاتا ہے بلکہ ان میں ایمان کی غیرت جگانے تک کا یہی ایک میدان تجویز ہوتا ہے، غرض ان فقہی مسائل ہی کو حق اور باطل کا عنوان ٹھہرا دیا جاتا ہے یا شاید کسی وقت کفر و اسلام کا مسئلہ تک.. غایت درجہ مذموم ہے اور علم سے کوئی مس ہی نہیں رکھتا۔

اس رجحان نے دعوت کے اندر ایک اصولی اور عقائدی بنیاد اپنائی جانے اور معاشرے کا حقیقتِ اسلام کی بابت تصور درست کرایا جانے کے عمل کا جس قدر نقصان کیا ہے، اندازے سے باہر ہے۔ اس سے ایک اصولی دعوت کا کام حد درجہ مؤخر ہو گیا ہے. لوگوں کی نظر میں دین مسائل کا نام ہو کر رہ گیا ہے۔ فروع بڑی حد تک اصول بن گئے ہیں اور اصول فروع بلکہ تو روپوش۔ اہلِ اسلام کے مابین کچھ فقہی مسائل کی بنیاد پر بُغض اور نَفرت اور عَداوت کے بیج بو دیے جانا اور پھر مسلسل اور ہر موقعہ اور ہر تہوار پر انہیں پانی دینا زمانے کی ایک تباہ کن بدعت ہے اور "آسائش" کے دین سے بوجوہ تعارض۔(20)

ہاتھوں کا سینے کے اوپر یا سینے کے نیچے باندھا جانا، آمین کہی جانے کی کیفیت، نماز کی کچھ خاص حالتوں میں رفع یدین کیا جائے یا نہ، تراویح کی تعداد، قنوت میں کونسی دعا پڑھی جائے، تشہد میں انگلی کے اٹھانے کا وقت اور ہیئت، سجدے کو جاتے وقت زمین پہ گھٹنے پہلے پڑیں یا ہاتھ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ.. ایسے ہزاروں مسائل اہلِ علم کے مابین دوستانہ "علمی مناقشوں" کے اندر آ سکتے ہیں جبکہ عوام کے مابین ایک "تعلیمی عمل" کے اندر، اور بس!.. ائمۂ تابعین و اتباعِ تابعین کے دور میں، کہ مذاکرۂ علم و دلیل میں اس سے بہتر کوئی دور نہیں، یہ مسائل کبھی محاذ نہیں بننے دیئے گئے علما کے مابین اور نہ عوام کے ما بین۔ پس ہمارے سلف وہ ہیں اور ہمارے لئے "اتباعِ سنت" و "اجتنابِ بدعت" کی علمی وعملی مثال بھی وہی۔

اس اسلوب کی رو سے دین چونکہ مسائل میں محصور ہو گیا ہے لہٰذا کچھ جدید رجحانات کے زیرِ اثر اب اگر بعض روایتی مسائل کو موضوع بنانے کے وتیرہ میں کچھ کمی آئی تو بھی موضوعِ بحث و مناظرہ کچھ اور قسم کے ”فقہی مسائل“ ہی بنے! اپروچ وہی پرانی کہ ایک بات کو سرے لگا کر ہی چھوڑا جانا ہے۔ حالانکہ فقہائے اہلسنت کے ہاں کسی مسئلہ میں "اختلاف کی گنجائش" کا مطلب یہی تو ہے کہ وہ بات ’سرے لگا کر‘ ہی لوٹنا ضروری نہیں! اب نہ وہ بات سرے لگے اور نہ بحث سے جان چھوٹے! اسلوب سے بالکل عیاں ہے کہ ہر فریق اپنے عوام کی خاطر مناظرہ کرتا ہے وگرنہ اس کے عوام دل چھوڑ جاتے ہیں! (21)

 

*********

 

دین کی تعلیم.. لوگوں کو ان کے فرائض بتائے اور "سمجھائے" جانے میں ایک خاص ترتیب، "ایمان کی حقیقت" قلوب کے اندر راسخ کی جانا اور "اعمال" کو پھر ہی جا کر اس سے "برآمد" کرنا، معاشرے کے اندر پائے جانے والی رجحاناتی دقتوں اور دشواریوں کا درست اندازہ رکھنا اور اسی کے مناسبِ حال "علاج" کی زور دار مگر درست اور دانشمندانہ حکمتِ عملی اختیار کرنا، زمان و مکان کی رعایت سے "اصلاحی اولویات و ترجیحات" کی فقہ رکھنا، "نفسِ انسانی" کے "مطالعہ" اور اس سے "معاملہ" کرنے کی بابت ایک درست ومؤثر انداز رکھنا اور اس باب میں "نبوی اسلوب" کا اپنایا جانا وغیرہ وغیرہ جو کہ "فقہ الدعوہ" کے تحت باقاعدہ ایک پڑھی اور پڑھائی جانے والی "سائنس" ہے.. بھی اسی "سمحہ" کے تحت مندرج ہوتی ہے۔

درشت دینی رویّے، دین کے چھوٹے امور کو بڑا اور بڑے امور کو چھوٹا کردینا، لوگوں کو دینی فرائض پہ لانے یا برائیاں چھڑوانے میں کسی "ترتیب" کا خیال نہ کرنا بلکہ تعلیم اور اصلاح کے عمل میں کسی ترتیب کا سرے سے تصور ہی نہ ہونا.. لوگوں کی استعداد اور پسِ منظر کو دیکھے اور جانے بغیر بلکہ لوگوں کی استعداد اور پسِ منظر کا کوئی تصور تک رکھے بغیر انکو شرعی احکام کی بس ایک فہرست تھما دینا.. اور جملہ مسائلِ شرع پر یکساں شدت یا یکساں نرمی سے بات کرنا.. ایسے کچھ رجحانات جو دین ہی کی بابت ایک عام شخص کا تاثر آخری حد تک خراب کر دینے کا باعث بنے ہیں ہمارے نزدیک حد درجہ قابل مذمت ہیں۔ ان سب امور پر کسی اور موقعہ پر زیادہ تفصیل سے بات ہونا باقی ہے۔

 

*********

 

معاشرے کی فاعلیت dymamism کو ختم نہ ہونے دینا، بلکہ اس کو باقاعدہ ایک مہمیز دینا اور ایجابیت کو ہر ہر معاملے کے اندر اختیار کر رکھنا.. یہ بھی اس عقیدہ اور اس شریعت کی "سماحت" کا ایک زبردست پہلو ہے۔ اس کی بے شمار جہتیں ہیں جن کے بیان کیلئے کوئی اور محل درکار ہے، مگر اس مقام پر ہم یہاں کی بعض الجھنیں دور کردینے کیلئے اس کی ایک جہت کی جانب ذرا اشارہ کردینا چاہیں گے جو کہ کئی ایک ذہنوں کے اندر اس وقت پیدا ہو جاتی ہیں یا ہو سکتی ہیں جب ہم "عقیدہ" اور "شریعت" پر مبنی ایک "ٹھیٹ" دعوت کی بات کرتے ہیں اور جبکہ اذہان خودبخود "ٹھیٹ" دعوت کے بعض دستیاب نمونوں models at hand کی جانب چلے جاتے ہیں..

 

وہ ایک وقتِ مقررہ تک تمہیں بہترین سامانِ زیست دے گا اور ہر صاحبِ مقام کو اس کا مقام دے گا

يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ (ہود:3)

یہ کہ میں ضائع نہیں کرتا کسی عمل کرنے والے کا عمل، وہ مرد ہو یا زن، تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو"

أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (آلعمران:195)

 

پچھلی کئی ایک صدیاں یہاں __ زوال کے کئی اور مظاہر کی طرح __ معاشرے کے اندر عورت کا کردار جس طرح نہ صرف فراموش کیا گیا بلکہ متعدد انتظامات بالاہتمام ایسے عمل میں لائے گئے کہ معاشرے کے اندر ایک صحت مند انداز میں عورت کا نہ تو کوئی "دینی" کردار رہے اور نہ "دنیاوی"۔ الا ماشاءاللہ۔ یہاں تک کہ صنفِ نسواں کی بابت اس انداز میں سوچنا گویا "عقائد" کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے! پس یہ ضروری ہے کہ عقیدہ کی ایک اصیل دعوت اس انداز کے معاشرتی رویوں کے معاملے میں اپنا ایک جداگانہ تاثر بنائے.. اور ایسا ہم بوجوہ ضروری سمجھتے ہیں۔

بیشتر مساجد ہمارے بر صغیر میں اس بات کی روادار نہیں کہ عورت جمعہ و جماعت کے اندر کبھی شریک تک ہو اور دین کی روز مرہ سرگرمیاں جس کا مرکز "مسجد" ہی کو ہونا چاہیئے، اور جو کہ سنت سے ثابت اور واضح ہے، اس میں صنف ِ نسواں کو بھی افادہ و استفادہ کا _ حدودِ شریعت کے اندر رہتے ہوئے _ موقعہ حاصل ہو۔ فتنہ پھیل جانے کی دلیل ایسی زبر دست حجت رہی کہ صدیوں "عورت" یہاں "مسجد" کی شکل نہ دیکھ پائی اور یہ بات ہرگز کوئی فتنہ نہ جانی گئی۔

جبکہ نہ صرف یہ کہ اپنے یہاں پائی جانے والی یہ صورت سلف سے ماخوذ نہیں در اصل "عورت" کے کردار کو __ دوسری طرف __ عین ہماری ان صدیوں میں ہی ہماری مدِ مقابل اقوام کے اندر آخری حد تک لے کر جایا گیا جو اگر بنیادی طور پر "تخریب" کیلئے تھا اور بلا شبہہ تخریب کیلئے تھا تو اس کے روبرو ہمارے یہاں "تعمیر" کیلئے اس کو آخری حد تک لے جایا جانا ضروری تھااور عورت کے ایک زور دار دینی و سماجی کردار کی ایک درست مگر بھر پور تصویر پیش کی جانا ہم سے مطلوب تھا۔ تاکہ "تہذیبوں کے اس ٹکراؤ" میں برابر کی چوٹ ہوتی اور "عورت" کے حوالے سے مغرب نے اور یہاں اس کے لاؤڈ سپیکروں نے جو گمراہ کن انداز اپنایا اس کے مقابلے میں ہماری "عورت" فکری اور تہذیبی اور معاشرتی فاعلیت کے اس مقام پر ہوتی کہ "عورت کے حقوق" پر اسلام کا مقدمہ آج کی اس جدید جاہلیت کے خلاف ہماری جانب سے بڑی حد تک وہ خود لڑتی۔ مگر ایسا بہت کم ہو پایا۔

مغرب کے اسلامی مراکز کے اندر ایک "عصری" اسلامی عمل کا جو ایک واقعہ بڑی محدود سی سطح پر سہی ہماری اس صدی میں سامنے آیا ہے، کئی ایک خطرناک غلطیوں اور تجاوزات کو اس سے منہا کرتے ہوئے، وہ یقیناً دیکھے اور پڑھے جانے کے لائق ہے۔ خصوصاً اسلام کی عصری تہذیبی جہتوں کے حوالے سے اور ان میں بطورِ خاص اسلامی ماحول کے اندر اور اسلام کے اجتماعی و معاشرتی عمل میں عورت کا تعمیری حصہ۔

ہمارے بر صغیر کے اطراف و اکناف میں البتہ عورت کا معاشرے کے اندر ایک مؤثر "دینی کردار" رکھنے کی کسی ایک انداز سے حوصلہ شکنی ضروری جانی گئی __ اِس کو باقاعدہ "دین" کا تقاضا جانتے ہوئے __ تو "دنیوی کردار" کے معاملہ میں کسی دوسرے انداز سے اس کو معطل کر کے رکھا جانا۔ الا ما شاءاللہ۔ یہاں تک کہ ایک خاص ٹھیٹ اندازِ دینداری کی اس کو باقاعدہ پہنچان اور علامت بھی بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ اگر آج کوئی دین سے شدید تمسک کی بات کرے تو اس کو خودبخود اسی سوچ کا حامل سمجھا جائے!

بلکہ بوجوہ اسے ایک ایسا رخنہ بنا کر چھوڑ دیا گیا جسے پر کرنے کو یہاں کے بے دین اور لادین ہی رہ جائیں!

بلا شبہہ عورت کے دینی و دنیوی کردار کے موضوع پر اسلام اپنی خاص متعین "حدود" رکھتا ہے اور پھر اپنی خاص متعین "ترجیحات"۔ مرد و زن کا آزادانہ گھلنا ملنا اسلامی معاشروں کے اندر ممنوع ہی رہنا ہے۔ "پردہ" کا ادارہ مضبوط ہی کیا جانا ہے۔ محکمہءجنگلات کی اوور سیری یا نہروں کی کھدائی کی انجنیری ایسی نوکریاں بھی مسلمان عورت کی ضرورت ہیں اور نہ مرد و زن کی مساوات کو مغربی انداز میں حماقت بننے دینے کی یہاں ایسی کوئی گنجائش۔ مگر وہ بہت سے دینی و معاشرتی احاطے جہاں ہمیں "نساءٌ مؤمنات" کا کردار پھر سے زندہ کرنا ہے آئندہ کی وہ سماجی تبدیلی جو کہ انشاءاللہ اسلام کے نقشے پر ہونے والی ہے اُس کا یہ ایک اہم حصہ ہوگی۔

 


(1) لفظی وضاحت: ”حنِیفیت“ نسبت ہے "حنیف" سے، جو کہ ابراہیم علیہ السلام کا لقب ہے اور کچھ اہم ترین مضامینِ دین کا ایک جلی عنوان، اور جو کہ در اصل دینِ اسلام کا ایک جامع تعارف ہے ۔ اس فصل میں اسی کے بیان کی کوشش ہوئی ہے۔ .”حنِیفیت" کو لفظ "حنَفیت“ سے البتہ خلط نہ ہونا چاہیئے جو کہ لغوی طور پر نسبت ہے "حنیفہ" سے اور جو کہ عرف میں امام ابو حنیفہ کے مذہب سے، جو کہ اہلسنت کے فقہی مذاہب میں سے ایک معتبر فقہی مذہب ہے، منسوب ہونا ہے۔

(2) لفظ سمحہ میں نرمی ومیانہ روی کا معنی بھی آتا ہے۔ آسانی و آسائش کا بھی، وسعتِ نظر کا بھی اور رواداری وفراخ دلی کا بھی۔ ایک لفظ میں اس کا ترجمہ کر دینا ممکن نہیں۔

(3) مسند احمد (21260)حدیث ابی امامہ الباہلی، یہ ایک لمبی حدیث کا چھوٹا سا حصہ ہے. البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے. دیکھئے: السلسلہ الصحیحہ، رقم الحدیث( 2924)

(4) امام بخاری یہ حدیث معلق (بغیر ذکرِ سند کامل) کتاب الایمان میں ایک باب کے عنوان کے طور پر لاتے ہیں:"بَاب الدِّینُ یُسْرٌ وَقَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أحَبُّ الدِّینِ اِلَی اللَّہِ الْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ" ابن حجر العسقلانی بخاری کی شرح فتح الباری میں اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: مؤلف نے اس حدیث کا اسناد نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی شرط پر نہیں، ہاں مگر (بخاری نے) "الادب المفرد" میں اس (کی سند) کو موصول کیا ہے. اسی طرح احمد بن حنبل و دیگر نے اس حدیث کو موصول کیا ہے مُحَمَّد بْن اِسْحَاق عَنْ دَاوُدَ بْن الْحُصَیْن عَنْ عِکْرِمَۃ عَنْ اِبْن عَبَّاسکے طریق سے. (اس کے بعد ابن حجر کہتے ہیں: اس کی اسناد حسن ہے)

طبرانی حدیث کے یہ الفاظ المعجم الاوسط میں بروایت ابو ہریرہ لے کر آتے ہیں رقم: 7562

البانی نے حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ایک سند کی بحث میں صحیح کہا ہے. دیکھئے السلسلہ الصحیحہ رقم: 881، جبکہ "تمام المنۃ"صفحہ:44 پر ایک سند کی بحث میں " أحَبُّ الدِّینِ اِلَی اللَّہِ الْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ" کے الفاظ کو حسن لغیرہ کہا ہے۔

(5) صحیح مسلم:1479کتاب صلاہ العیدین، باب الرخصۃ فی اللعب الذی لا معصیۃ فیہ فی ایام العید۔ چونکہ مسلم کے الفاظ میں دف کی صراحت آتی ہے اس لئے مسلم کی حدیث ہی اوپر متن میں نقل کی گئی. بخاری میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ آتی ہے: عن عَائِشَۃ أنَّ أبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْہَا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہَا یَوْمَ فِطْرٍ أوْ أضْحًی وَعِنْدَہَا قَیْنَتَانِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاذَفَتْ الْأنْصَارُ یَوْمَ بُعَاثٍ فَقَالَ أبُو بَکْرٍ مِزْمَارُ الشَّیْطَانِ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعْہُمَا یَا أبَا بَکْرٍ اِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیدًا وَ اِنَّ عِیدَنَا ہَذَا الْیَوْمُ(بخاری:3638) ”عید فطر یا اضحی کے دن ابو بکر عائشہؓ کے ہاں آئے، جبکہ انکے ہاں دو لڑکیاں انصار کے جنگِ بعاث کے روز کہے ہوئے بول گا رہی تھیں۔ ابو بکر نے دو مرتبہ کہا یہ شیطان کا آلہ؟ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو ابو بکر۔ ہر قوم کی خوشی کا دن ہوتا ہے اور ہماری خوشی کا دن آج ہے“۔

(6) صحیح مسلم:1483 کتاب صلاہ العیدین، باب الرخصہ فی اللعب الذی لا معصیہ فیہ فی ایام العید.

اس حدیث کی شرح میں امام نووی ؒکہتے ہیں: قَوْلہَا: (جَاءَ حَبَش یَزْفِنُونَ فِی یَوْم عِید فِی الْمَسْجِد )ہُوَ بِفَتْحِ الْیَاءوَ اِسْکَان الزَّای وَکَسْر الْفَاءوَمَعْنَاہُ یَرْقُصُونَ ، وَحَمَلَہُ الْعُلَمَاءعَلَی التَّوَثُّب بِسِلَاحِہِمْ وَلَعِبہمْ بِحِرَابِہِمْ عَلَی قَرِیب مِنْ ہَیْئَۃ الرَّاقِص لِأنَّ مُعْظَم الرِّوَایَات اِنَّمَا فِیہَا لَعِبہمْ بِحِرَابِہِمْ ، فَیَتَأوَّل ہَذِہِ اللَّفْظَۃ عَلَی مُوَافَقَۃ سَائِر الرِّوَایَات ”حضرت عائشہ کے لفظ "یزفنون" کا مطلب ہے "یرقصون" یعنی "ناچتے ہوئے" علما نے اسے اس پر محمول کیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں اور نیزوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس انداز سے اچھل کود کرتے تھے جو کہ رقص کی ہیئت کے قریب ہو۔کیونکہ بیشتر روایات میں انکا صرف نیزوں کے ساتھ کھیل پیش کرنا آتا ہے. لہذا اس لفظ کا معنی سب روایات کی موافقت میں لا کر سمجھا جائے گا۔

جبکہ مسند احمد میں انس بن مالک کی حدیث (رقم:12082) کے یہ لفظ آتے ہیں: کَانَتْ الْحَبَشَۃ یَزْفِنُونَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَرْقُصُونَ وَیَقُولُونَ مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَقُولُونَ قَالُوا یَقُولُونَ مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ " حبشی لوگ رسول اللہ کے سامنے اچھلتے اور رقص کرتے ہوئے گا رہے تھے: محمدٌ عبدٌ صالح یعنی محمد خدا کے نیک بندے ہیں" مسند احمد کی یہ حدیث صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث کے ساتھ محض ”زیادۃ معنیٰ“ کیلئے دی گئی۔

(7) مسند احمد:23710 و 24771 .... البانی نے (خذوا یا بنی رفدۃ ! حتی تعلم الیہود والنصاری أن فی دیننا فسحۃ) الفاظ کے ساتھ حدیث کو صحیح کہا ہے. (یعنی "شاباش بھئی حبش کے گبھرؤو! تاکہ یہودی اور عیسائی جان لیں کہ ہمارے دین میں بڑی وسعت اور گنجائش ہے") جبکہ ان الفاظ کے ساتھ جو اوپر متن میں نقل ہوئے البانی نے جید اسناد کہا ہے. دیکھئے: السلسلہ الصحیحہ رقم1829)

(8) صحیح بخاری رقم:38 کتاب الایمان باب الدین یسر، اس باب کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا

یہاں حدیث کے الفاظ کی خوبصورتی قابلِ غور ہے: دین کو یسیر (آسان) نہیں بلکہ یُسر (آسانی) کہا گیا ہے، جو کہ در اصل دین کے فکری و فقہی و معاشرتی پہلوؤں سے آسان ہونے ، عملی اور واقعاتی ہونے اور حالات سے معاملہ کرنے میں مناسب ترین انداز اپنانے کی ایک زبردست جہت پر دلالت ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس دین کے بغیر زندگی عذاب ہے۔ قلب و ذہن سے لے کر معاشرے اور ماحول تک.... دین صحیح معنی میں ایک آسودگی ہے۔ حدیث کے مؤخر حصہ کی شرح میں امام ابن حجر لکھتے ہیں:

"جو شخص بھی دینی اعمال کے معاملہ میں زیادہ باریکیوں کے اندر جائے گا اور نرمی کو ترک کرے گا وہ آخر کار عاجز آجائے گا اور ہمت ہار بیٹھے گا اور شکست کھاکر رہےگا. ابن المنیر کہتے ہیں: یہ حدیث صداقتِ نبوت کی ایک نشانی ہوئی؛ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے اور ہم سے پہلے بھی لوگ دیکھ چکے ہیں کہ دین میں سختی کرنے والا ہر شخص آخرِ کار تھک ہار کر بیٹھتا ہے۔"

کچھ اور آگے چل کر ابنِ حجر لکھتے ہیں:

"اس سے شرعی رخصتوں کو اختیار کرنے کی جانب اشارہ اخذ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ رخصت کے مقام پر عزیمت اپنانا سختی ہے جیسے مثلاً کوئی شخص پانی استعمال کرنے کے معاملہ میں عذر رکھنے کے باوجود تیمم پہ تیار نہ ہو اور پانی کا استعمال پھر اسے نقصان لاحق کرڈالے" (دیکھئے فتح الباری بہ ذیل مذکورہ بالا حدیثِ بخاری)

(9) عَنْ أبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا اِذَا أصْبَحْنَا:

"أصْبَحْنَا عَلَی فِطْرَۃ الْ اِسْلَامِ وَکَلِمَۃ الْاِخْلَاصِ وَسُنَّۃ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِلَّۃ أبِینَا اِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ"

روایت ابی بن کعب ؓسے، کہا: اللہ کے رسول ﷺ ہمیں سکھایا کرتے تھے کہ جب ہم صبح کریں تو کہیں:

”صبح کی ہم نے اسلام کی فطرت پر، اور اخلاص (توحید) کے کلمہ پر، اور اپنے نبی محمد ص کی سنت پر، اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر کہ جو حنیف (ٹھیٹ موحد) تھے، سرِ بندگی تسلیم کر دینے والے اور مشرکوں سے الگ تھلگ ہو رہنے والے"

(مسند أحمد:20219، البانی نے اسے صحیح کہا دیکھئے السلسہ الصحیحہ حدیث رقم:2989)

(10) آج کے کچھ مہذب ملکوں میں حرام کے بچے پیدا ہونے کی سالانہ شرح خوفناک حد کو پہنچی ہوئی ہے. تصور کیجیئے "انسان" ہو اور "حرام" کی راہ سے آیا ہو، ایسی معزز مخلوق کو اپنے وجود ہی کے معاملہ میں ساری عمر ایک با عزت نسب اور قبیلہ و برادری کی بجائے کسی کی "بدکاری" اور "بے راہ روی" کا حوالہ اٹھا کر پھرنا پڑے ”حقوقِ انسان“ سے یہ مسئلہ بھی کیا تعلق نہیں رکھتا؟ ”انسان“ کے ہمدرد ہمارے ترقی پسند مُلا کو چھوڑ کر کسی وقت اس "انسانی مسئلہ" پر بھی توجہ دیں اور کبھی اس مسئلہ کو بھی اپنے انسانی ایجنڈے پر آیا ہمیں دیکھنے دیں!

(11) یہی وجہ ہے کہ صفائی کی بعض باتیں، جو کہ "حنفاء" صدیوں سے کرتے آئے ہیں اور ’روشن خیال‘ دنیا نے ان میں سے کچھ باتیں کہیں اب جا کر ان سے سیکھی ہیں، باقاعدہ طور پر "فطرت" سے جوڑی گئی ہیں وگرنہ شریعت میں انکا حکم ویسے بھی دیا جاسکتا تھا۔ پھر کسی وقت ان میں سے کئی ایک کی نسبت ابوالحنفاءابراہیم علیہ السلام سے بھی کرائی گئی ہے. مثال کے طور پر دیکھئے یہ دو روایتیں:

- "روایت ابن عباسؓ سے، بہ تعلق قولِ خداوندی "وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ" (البقرہ:124) کہا: یہ حکم پاکی سے متعلق تھا، پانچ باتیں پاکی کی سر سے متعلق اور پانچ دھڑ سے متعلق؛ سر سے متعلق: مونچھیں تراشنا، منہ کی کلی کرنا، ناک پانی ڈال ڈال کر صاف کرنا، دانت صاف کرنا، سر کے بال سنوارنا. جبکہ دھڑ میں: ناخن تراشنا، زیرِ ناف  مونڈنا، ختنہ کرانا، بغل کے بال اتارنا، اور بول و براز کا اثر دھونا". (دیکھیئے تفسیر ابن کثیر بہ ذیل مذکورہ بالا آیت)

- "روایت عائشہؓ سے، کہا: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: "دس باتیں فطرت سے ہیں: مونچھیں تراش رکھنا، با ریش ہونا، دانت صاف کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، (انگلیوں اور جوڑوں کی) اندرونی ملی ہوئی جگہیں مانجھنا، بغل کے بال اتارنا، زیرِ ناف مونڈنا، (قضائے حاجت کے بعد) پانی استعمال کرنا، زکریا (راویِ حدیث) کہتے ہیں: دسویں بات میں بھول گیا سوائے یہ کہ وہ منہ کی کلی کرنا ہو" (صحیح مسلم:384 کتاب الطہارہ باب خصال الفطرہ)

(12) فَأتِیتُ بِثَلَاثَۃ أقْدَاحٍ قَدَحٌ فِیہِ لَبَنٌ وَقَدَحٌ فِیہِ عَسَلٌ وَقَدَحٌ فِیہِ خَمْرٌ فَأخَذْتُ الَّذِی فِیہِ اللَّبَنُ فَشَرِبْتُ فَقِیلَ لِی أصَبْتَ الْفِطْرَۃ أنْتَ وَأمَّتُکَ (البخاری:5179 الأشربہ، شرب اللبن) "پھر (اسراءومعراج کی رات) میرے پاس تین ظروف لائے گئے ایک میں دودھ، ایک میں شہد اور ایک میں شراب. تب میں نے وہ لے لیا جس میں دودھ تھا اور اسے نوش کیا. تب مجھے کہا گیا: پا لیا آپ نے فطرت کو اور آپ کے ساتھ آپ کی امت نے!"

کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیثَ بَعْدَہَا (البخاری:53 "آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ناپسند فرماتے عشاءسے پہلے سو جانے کو اور عشا کے بعد باتوں کیلئے بیٹھ جانے کو"

اللَّہُمَّ بَارِکْ لِأمَّتِی فِی بُکُورِہَا قَالَ وَکَانَ اِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃ أوْ جَیْشًا بَعَثَہُمْ أوَّلَ النَّہَارِ وَکَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا وَکَانَ اِذَا بَعَثَ تِجَارَۃ بَعَثَہُمْ أوَّلَ النَّہَارِ فَأثْرَی وَکَثُرَ مَالُہُ (الترمذی:1133 البیوع، ما جاءفی التبکیر بالتجارۃ، سنن ابی داود، ابن ماجۃ واحمد، البانی نے اسے صحیح کہا دیکھیئے صحیح سنن ابن ماجۃ رقم 1818، صحیح ابی داود 2345) "اے اللہ! بابرکت کر میری امت کے صبح سویرے کام کاج میں لگ جانے کو. آپ کو جب کبھی کوئی سریہ یا جیش جہاد کیلیئے بھیجنا ہوتا تو اسے علی الصباح روانہ فرماتے. خود صخر (راویِ حدیث صحابی) ایک تاجر تھے اور جب انہیں کوئی تجارتی مہم روانہ کرنا ہوتی علی الصباح روانہ کرتے. چنانچہ بہت مالدار ہوئے اور ان کے ہاں بے حساب دولت ہوئی".

(13) - فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِیہِ شَیْءٌ مِنْ مَاءٍ قَالَ فَحَدَّثَ نَفْسَہُ بِأنْ یُقِیمَ فِی ذَلِکَ الْغَارِ فَیَقُوتُہُ مَا کَان فِیہِ مِنْ مَاءٍ وَیُصِیبُ مَا حَوْلَہُ مِنْ الْبَقْلِ وَیَتَخَلَّی مِنْ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ لَوْ أنِّی أتَیْتُ نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَاِنْ أذِنَ لِی فَعَلْتُ وَ اِلَّا لَمْ أفْعَلْ فَأتَاہُ.. قَالَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّی لَمْ أبْعَثْ بِالْیَہُودِیَّۃ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃ وَلَکِنِّی بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَّۃ السَّمْحَۃ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَغَدْوَۃ أوْ رَوْحَۃ فِی سَبِیلِ اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا وَلَمُقَامُ أحَدِکُمْ فِی الصَّفِّ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِہِ سِتِّینَ سَنَۃ (مسند احمد عن ابی امامۃ الباہلی:21260، الالبانی: حسن لشواہدہ-السلسہ الصحیحہ2924) "تب ایک صحابی کا ایک غار کے پاس سے گزر ہوا جہاں پانی دستیاب تھا، اس کے جی میں آیا کہ وہ وہیں رہ پڑے وہاں کا پانی پیا کرے اور آس پاس درختوں اور ہریالی سے اپنی غذا کی کچھ ضرورت پوری کر لیا کرے اور یوں دنیا سے دور عبادتِ خدواندی کرتا رہے. مگر پھر اس نے کہا: کیوں نہ میں خدا کے نبی کے پاس جاؤں اور آپ سے اپنی اس خواہش کا بیان کروں اگر وہ اجازت دیں تو یہ کرلوں ورنہ نہیں. تب وہ آپ ﷺ کے پاس آیا.. تب آپ نے فرمایا: آگاہ رہو میں یہودی انداز دینداری کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور نہ نصرانی طرزِ عمل کے ساتھ. بلکہ مجھے بھیجا گیا ہے "حنیفیتِ سمحہ" کے ساتھ. قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے خدا کے راستے میں گزاری ہوئی ایک صبح یا ایک شام دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی شخص کا صفِ جہاد میں پوزیشن لے رکھنا اس کے ساٹھ سال تک نوافل ادا کرتے رہنے سے افضل ہے"

(14) عَنْ أبِی مُوسَی قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا بَعَثَ أحَدًا مِنْ أصْحَابِہِ فِی بَعْضِ أمْرِہِ قَالَ بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَیَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (صحیح مسلم:3262 کتاب الجہاد والسیر، باب فی الامر بالتیسیر وترک التنفیر) "ابو موسی اشعری سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو اپنے کسی مشن پر روانہ کرتے تو فرماتے: تبشیر کرو نہ کہ لوگوں کو بھگاؤ، آسانی کرو نہ کہ لوگوں کو مشکل میں ڈالو"

(15) حوالہ پیچھے گزر چکا

(16) ملاحظہ فرمائیے کتاب کی آیندہ فصل: ”رواداری کی حدود“

(17) آل عمران:19 ”بغیر کسی ادنی شک وشبہہ، "دین" تو اللہ کے نزدیک ہے ہی صرف "اسلام"

(18) آل عمران85: ”اور جو "اسلام" کے ما سوا "دین" کی جستجو کرے اس سے ہرگز وہ قبول نہ ہو گا، اور آخرت میں وہ سب کچھ کھو دینے والوں میں سے ہو گا"

(19) کچھ ”انسانی وسائل“ اگر دستیاب ہو جاتے ہیں تو ادارہ ایقاظ اس منہج کی تعریف و ترویج پر یہاں ایک باقاعدہ انداز سے کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ واللہ من وراءالقصد، وہو المستعان۔

(20) اس موضوع پر ذرا تفصیل سے دیکھنے کیلئے ملاحظہ فرمائیے اس کتاب کی فصل "فرقہ واریت ہے کیا؟"

(21) اس کی محض ایک مثال.. چہرے کا پردہ ہمارے سامنے حق و باطل کا ایک دلچسپ اور زبردست موضوع بنا دیا جاتا ہے۔ تعددِ آرا کا جواز اس موضوع پر خارج از اعتبار ٹھہرتا ہے! فقہی اختلاف کی گنجائش مانی جانا قریب از محال ہے! ایک مسئلہ جس میں سلف کے مابین اختلاف ہوا آپ بھی رجحانِ ادلہ کی بنیاد پر یا اپنے کسی قابلِ اعتماد محقق پر سہارا کرتے ہوئے ان میں سے کوئی ایک رائے ہی رکھ سکتے ہیں اور چونکہ یہ ان مسائل میں آتا ہے جن میں اہلسنت کے مابین اختلاف ہو جانے کی "گنجائش" ہے لہذا اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ آپ "تبادلۂ آرا" اور "مناقشۂ علم" ہی کر سکتے ہیں خواہ جتنا بھی کرنا چاہیں، اس کے بعد ان ہزاروں مسائل کی طرح جن میں سلف کے مابین اختلاف ہوا آپ اس مسئلہ پر بھی محاذ بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ادھر دیکھیئے ایک فریق یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ "نقاب" اور "چہرے کے پردے" کی شریعت میں گنجائش تک ہے! حالانکہ چہرہ ڈھانپنے کی افضلیت پر متقدمین اہلِ علم میں کوئی اختلاف نہیں۔ ایک دوسرا فریق یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ چہرے کا پردہ "فرض نہ ہونا" سرے سے کوئی معتبر رائے ہو سکتی ہے! جبکہ شریعت میں اور اصولِ اہلسنت کی رو سے یہ وہ مسئلہ ہے جس میں ہر دو رائے رکھی جانے کی گنجائش ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز