عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
باطل سے بیزاری نہ کہ رواداری
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

باطل سے بیزاری نہ کہ رواداری

 

لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ٭ وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ ٭ اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ٭ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ٭ وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ٭ٍ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ٭ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ٭ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ٭ (الحج: 67- 74)

 

٭ ”ہر امت کیلئے ہی ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کر دیا جس کی اسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے۔ آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو (کھل کر) بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک راستے پر ہی ہیں

٭ ” پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہارے حال سے بہت ہی واقف ہے۔ تمہارے سب اختلافات کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا

٭ ” کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان وزمین کی ہر بات ہی اللہ کے علم میں ہے۔ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کیلئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے

٭ ”یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کر رہے ہیں جن کیلئے اس نے نہ تو کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود (انکی پرستش کے حق ہونے کی بابت) کوئی علم رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو کوئی مددگار میسر نہ ہوگا

٭ ”اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں۔ کہہ دیجئے: تو کیا میں تمہیں اس سے بھی بدتر خبر دوں؟ آگ! جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبول حق سے انکار کریں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے

٭ ”لوگو، ایک مثال بیان کی جاتی ہے، ذرا کان لگا کر سنو! اللہ کے سوا تم جن جن کوپکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو لیں اور تو اور مکھی اگر ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو وہ اسے بھی اس سے نہیں چھڑا سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور!

٭ ”حق تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کے مقام کا حق ہے، قدر ہی نہ پہچانی..“


 

سورۂ حج کی ان آیات(1) سے اخذ کی جانے والی

دعوت کی کچھ اہم بنیادیں

 

ہر اُمت کیلئے بندگی کا ایک طریقہ متعین کر دیا جاتا رہا ہے اور خدا کے ہاں اس طریقے کے سوا کی گئی بندگی ہرگز مقبول نہیں۔ خدا وہی قبول کرتا ہے جو وہ خود مقرر ٹھہرا دے اور اپنے رسولوں کے ذریعے اس کی اپنے بندوں کو خبر پہنچا دے۔ خدا کو فقط اعمال کی کثرت سے راضی نہیں کیا جا سکتا۔ خدا بس اس راستے کی پیروی سے خوش ہوتا ہے جو اس نے آپ اپنی مرضی اور چاہت سے اپنے بندوں پر فرض کردیا ہو۔

 

بندے کیلئے میرا تقرب پانے کا کوئی ایسا ذریعہ ہے ہی نہیں جو مجھے ان فرائض سے زیادہ پسند ہو جو کہ میں نے اس پر عائد کر رکھے ہیں

وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِی بِشَیْءٍ أحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ(2)

 

خدا اپنے بندوں پر کیا فرض کرے، یہ وہ جانتا ہے۔ خدا نے اپنے بندوں پر کیا فرض کیا ہے، نبوت محمد کے اس دور میں یہ البتہ ہر کسی کو معلوم ہو سکتا ہے۔ مگر ایک چیز ایسی ہے جو اس نے ہر دور، ہر نبوت اور ہر رسالت کے اندر فرض کئے رکھی ہے اور محمد ﷺ کی بعثت فرما کر اس کا پوری زمین کے اندر غلغلہ ہو جانے کا انتظام کردیا ہے..

وہ سب سے بڑی چیز جو خدا نے ہر دور میں اور ہر اُمت پر فرض کئے رکھی.. وہ سب سے بڑا مطالبہ جو اس نے ہر دور کے انسانوں کے آگے بہت ہی کھول کر رکھا اور جس سے کسی کو کسی حال میں چھوٹ نہیں دی..

توحید ہے۔ خدا کی یکتائی کا اعتراف ہے۔ بندگی، عبادت اور پرستش کو اس کی تمام تر صورتوں کے ساتھ ایک اللہ وحدہ لاشریک کیلئے کر دیا جانے کی فرضیت ہے اور اس میں کسی ہستی کو ذرہ بھر اور رائی برابر شریک نہ کیا جانے کی تاکید۔

یہاں تک کہ اس نے اس بات کو.. یعنی خدا کے سوا اور ہستیوں کی عبادت کا انکار کیا جانے اور بندگی کی سب صورتوں کو ایک اللہ کیلئے خاص کر دیا جانے کو ہر دور اور ہر زمانے میں اسلام کا عنوان بھی قرار دے دیا کہ مبادا کسی کو اسلام کا سب سے بڑا فرض متعین کرنے میں کوئی دقت ہو یا مبادا کسی کو اسلام کا عنوان اور اسلام کا منشور کسی دور میں خود ترتیب دینے کی ضرورت آپڑے۔ یہ کام خدا نے خود ہی کردیا۔ ”بندگیِ غیر اللہ کی نفی اور تنہا خدا کی اطاعت و پرستش“ کو ہر رسول کی رسالت کا جلی ترین عنوان بنا دیا:

 

ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ ایک میرے سوا کوئی نہیں جو بندگی کے لائق ہو، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الأنبیاء:25)

ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ پھر ان میں سے کچھ کو اللہ نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ثابت ہو گئی۔ پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا رہا

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ(النحل: 36)

 

اس سب سے بڑے اور سب سے جلی فرض کو پھر اس نے ایک ایسے عہد اور حلف نامے کی شکل بھی دے دی جو اس دین میں آنے کیلئے ہر شخص کو اٹھانا پڑتاہے:

اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً رسول اللّٰہ

اس حقیقت کے بار بار اعادہ کو بہترین ذکر ٹھہرا دیا۔

 

سب سے فضیلت والا ذکر (یہ کہنا ہے کہ) ”نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے"

أفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ(3)

 

اسی کو کائنات کی سب سے بھاری اور سب سے مؤثر اور سب سے بابرکت حقیقت ٹھہرایا اور نجات اور خدا تک رسائی کا سب سے بہتر ذریعہ اور اعلی ترین وسیلہ:

 

اگر ساتوں کے ساتوں آسمان اور ساتوں کی ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں پڑیں اور یہ کلمہ کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے ایک اللہ کے“ ایک پلڑے میں ہو تو ”نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے ایک اللہ کے“ کا پلڑا ان سب کے بالمقابل بھاری پڑ جائے اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں (مل کر) ایک بند کڑا ہوں تو یہ کلمہ کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے ایک اللہ کے“ ان کو پھاڑ کر گزر جائے

فاِن السموات السبع والأرضین السبع لو وضعت فی کفة و وضعت لا اِله اِلا اللہ فی كفة رجحت بہن لا اِله اِلا اللہ ولو أن السموات السبع والأرضین السبع کن حلقة مبہمة قصمتہن لا اِله اِلا اللہ(4)

 

اسلام کی اس سب سے بڑی حقیقت کا اہم اہم مواقع پر اعادہ کرنا خود عبادت کا ہی حصہ بنا دیا بلکہ عبادت کا حسن ٹھہرا دیا۔ اذان کی صدا میں۔ اقامت کے الفاظ میں۔ بندے کا وضو کرکے پاکیزگی کا احساس پاتے وقت۔ دُعائے استفتاح میں۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُکہتے وقت۔ سجدہ ورکوع کے متعدد اذکار میں۔ تشہد میں خشوع اور حلف برداری کے سے احساس کے ساتھ انگشت شہادت بلند کرتے ہوئے۔ جمعہ میں۔ خطبہءحاجت میں۔ کفارۂ مجلس۔ حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے۔ عمرہ وحج کے مختلف مواقع پر اور مختلف پیرایوں میں.. اسی حقیقت کا اعادہ اور اسی مشن کی یاد دہانی ہوتی ہے۔

گویا شریعت نے پورا بندوبست کردیا کہ آدمی کو اس کا وہ مشن یاد دلایا جاتا رہے جس کیلئے وہ دُنیا میں آیا ہے اور جس کیلئے دُنیا میں رسول آتے اور کتابیں اترتی رہیں.. تاکہ اس بار بار کے اعادہ سے اس مشن کا عنوان بھی درست ہوتا رہے، جو کہ بہت اہم ہے، اور آدمی کو اس کی تاکید بھی ہوتی رہے۔

 

*******

 

خدا نے ہر اُمت کیلئے ایک خاص طریقۂ بندگی مقرر کر دیا ہے۔ ہر نبی (رسول) کی اُمت کو الگ شریعت دی ہے اور آدابِ بندگی میں ہر دور کے اہل ایمان کو ایک خاص ضابطے کا پابند کیا ہے۔ اِس بات کو تسلیم کرنا اُس کی مطلق اطاعت کا دم بھرنا ہے۔ خود اپنی ہی اتاری ہوئی کسی بات کو بھی اُس نے جب بدلنا چاہا بدل دیا ( وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ)(5) ایک چیز کو ایک شریعت میں رکھا اور دوسری میں نہ چاہا تو نہ رکھا۔ جس بات کو چاہا منسوخ کیا اور جس بات کو چاہا برقرار رکھا.. باوجود اِس حقیقت کے کہ ہر نبی پر شریعت خود اُسی کی طرف سے نازل ہوئی۔

وہ جب چاہے خود اپنی ہی شریعت میں کچھ نیا شامل کر دے اور جس بات کو چاہے موقوف ٹھہرا دے(6)۔ کسی کو روا نہیں کہ اس سے پوچھے یا اس کو کچھ تجویز کرکے دے۔ اُس نے تو پہلے نبیوں کی شریعتوں پر اَڑنے کا کسی کو حق نہیں دیا۔ خود اُسی کی جانب سے اترا ہوا ایک حکم بھی، جو اُس نے بعد ازاں منسوخ کردیا ہو، اب نہیں چل سکتا۔ پھر یہ حق کسی مخلوق کو کیوں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی چلائے اور اپنی منوائے اور اُس ایک کے سوا کسی اور کا بنایا ہوا ضابطہ ضابطہ کہلائے۔ خدا وہ ہو اور چلے یہاں کسی اور کی؟ لوگوں کیلئے رُخ زِندگی اُس کے سوا کوئی اور متعین کرے تو کیوں؟ اختیار صرف اُس کا ہے۔

 

تیرا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور اختیار کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اختیار ان کا حق نہیں، پاک ہے اللہ اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ(القصص:68)

 

 

********

 

لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ.. (7)

"ہر اُمت کیلئے ہی ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کی اُسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے"..

موسیٰ علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کی شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے بھی یہ حق نہیں رکھتے کہ آپ ﷺ کے ساتھ اس معاملے میں جھگڑا کریں۔ ان کو بھی یہ حق نہیں کہ آپ کے ساتھ اس بات پر الجھیں کہ خدا کی شریعت میں کیا ہو اور کیا نہ ہو..

یہود ہوں یا نصاری یا کسی اور مذہب کے پیروکار، سب کو یہ حق تو دیا جانا ہے کہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کے ساتھ ایمان لائیں یا کفر کریں اور اس کے نتیجہ میں خدا کے ہاں جا کرجزا پائیں یا سزا۔ مگر یہ بات کہ شریعت میں کیا ہو اور کیا نہ ہو، قبلہ یوں ہو یا یوں، فلاں چیز حرام ہو یا حلال، زانی کو رجم اور چور کا ہاتھ کاٹنا چاہیے یا نہیں اور یہ کہ سود میں کوئی خرابی ہے یا نہیں.. اس کا حق کسی کو اس دُنیا میں بھی نہیں ہے۔ چناؤ اتنا ہے کہ خدا کی طرف سے جو آیا ہے اسے قبول کرلیں یا رد۔

"ہر اُمت کیلئے ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کردیا ہے جس کی اسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے.. "

چنانچہ شریعت کے عام احکام کا جب یہ مقام ہے کہ ایک بار وہ وحی سے واضح اور صاف طور پر ثابت ہو جائیں تو ان پر بحث جائز نہیں رہتی (فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ) پھر اگر معاملہ دین کی ان اساسیات کا ہو جو کبھی کسی دور میں اور کسی نبی کی شریعت میں تبدیل ہوتی ہی نہیں اور جن کی ہر نبی کی اُمت ہی مکلف رہی ہے.. تو دین کی ان اساسیات کو محل نظر کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ان پر بحث پھر کیونکر جائز ہو گی؟؟؟

فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ

"پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ آپ (بے پروا ہو کر) لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں"۔

دین میں جوبات آگئی اور دین کی جو بنیاد ٹھہرا دی گئی اور جو کہ ہمارے لئے اب (مَنسَكًا) ہے ہمیں اس کو من وعن ماننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے (هُمْ نَاسِكُوهُ) اور من وعن اس کی پیروی کرنے کی ہی دعوت دینی ہے (وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ) اور عین اسی بات کو حق جاننا ہے (إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ)

خدا کی بلاشرکت غیرے بندگی کرنا اور اسی کی دعوت دینا، خدا کے سوا پوجے اور پکارے جانے والوں کو باطل کہنا اور طاغوت جاننا، خدا کے سوا پوجے جانے والوں کی عبادت کے آڑے آنا اور معاشرے میں اس کا چلن نہ ہونے دینا، پرستش، عبادت اور اطاعتِ قانون میں خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک کر دینے پر آدمی کو _ اقامتِ حجت ہو جانے کے بعد _ انبیاءکے دین سے خارج سمجھنا اور جانتے بوجھتے اور علم رکھتے ہوئے خدا کے ساتھ شرک پر مصر رہنے والے (تارکِ توحید) کیلئے انبیاءکے دین میں باقی رہنے کی کوئی گنجائش نہ پانا اور حجت قائم کر دینے کے بعد اس کو جہنم کے عذاب سے صاف صاف متنبہ کر دینا.. توحید کو ایمان، نماز، تحریک، جہاد، دعوت اور معاشرے کی بنیاد بنانا، اللہ و رسول اور ایمان والوں سے ہی تمام تر وفاداری رکھنا اور طاغوت و اولیاءِ طاغوت سے دشمنی روا رکھنا.. دین کی ایک ایسی بنیاد ہے جو ہر نبی کی شریعت اور ہر نبی کی دعوت کا مستقل حصہ رہی۔ ہم اس کے ازروئے شریعت پابند ہیں.. اور اس معاملے میں کسی کو ہم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔

یا تو ایک بات خدا نے مقرر ٹھہرائی نہ ہو تب ہم خدا پر جھوٹ باندھیں گے اگر ہم اس کو دین کی بنیاد قرار دیں اور خداپر جھوٹ باندھنے سے بڑھ کر دین میں کوئی ظلم نہیں۔ لیکن شرک سے مخاصمت اور اہل شرک سے بیزاری و براءت اگر انبیاءکا دین ہے تو پھر اس کواسلام کے کام سے حذف کر جانے کا کسی کو اختیار کیسا؟

 

ابراہیم نے کہا: کیا کچھ خبر بھی ہے وہ سب جنہیں تم پوج رہے ہو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، یہ سب میرے دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے

قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ۔أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ۔فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ۔(الشعراء: 75-77)

ابراہیم پکار اٹھا: اے برادران قوم! میں بری وبے زار ہوا ان سب سے جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو

قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (الانعام: 78)

جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا: تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان سے صاف بری وبیزار ہوا۔ میرا تعلق ہے تو صرف اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی ذات ہے جو میری رہنمائی کرے گی۔ اور یہی کلمہ ابراہیم اپنی پچھلی نسلوں کیلئے چھوڑ گیا..

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ۔إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ۔(الزخرف:26-27)

(مسلمانو!) تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ہم تم سے اورجن جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو ان سب سے بری وبے زار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے اؤ..

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ(الممتحنۃ:4)

 

********

 

اسلام کی اس انداز کی دعوت پر.. حتی کہ اسلام کے محض اس انداز کے تعارف پر کئی جانب سے رواداری کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ محض ہمارے دور میں نہیں، ہر دورمیں ہی۔

توحید پراصرار اور شرک سے مخاصمت.. اسلام کا یہ فرض معاشرے کے ایک محدود طبقے کی شدید ناپسندیدگی کا سبب بنتا ہے۔ مگر اس خاص طبقے کی پسند ناپسند چونکہ معاشرے کے ایک بہت بڑے طبقے کی زبان میں بولتی ہے لہٰذا کوئی معاشرہ جب توحید کی حقیقت سے دور ہو اور اس کی قیادت جاہلیت کے ہاتھ میں ہو تو اس دعوت اور اس فرض کو وہاں کچھ ایسی مزاحمت پیش آتی ہے گویا پورا معاشرہ ہی اس کےخلاف ہے۔ تب بہت لوگ اسلام کا کوئی اور کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک واقعتا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔

ایک غریب نادار شخص جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے تک سے عاجز ہے ذہنی طور پر اس قدر مفلوج اور معاشرتی دھارے کے ہاتھوں اس حد تک مغلوب کر دیا جاتا ہے کہ کسی طاغوت کے آستانے پر چڑھاوا چڑھا کر اپنی غربت اور اس کی دولت کی ریل پیل میں اضافہ کرآنا فضیلت کی بات جانے۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اپنی جان کا استحصال کرنے والے اس انسان کے بارے میں کوئی غلط بات سننا تک گوارہ نہ کرے کیونکہ اگر اس کی گنجائش چھوڑ دی جائے تو دریوزہ گری کا یہ سب کاروبار ہی خطرے میں پڑ جائے۔

ایک ظالم سرکش کے پنجۂ استبداد میں کراہنے والے بیچارے ہی قوم اور قبیلہ اور باپ دادا کے نام پر اس ظالم کی بڑائی کا علم تھامنے کو کھڑے ہوتے ہیں اور خوشی خوشی اپنا آپ اس کی عظمت پر وار دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

سب سے پہلے لوگوں کی عقل کا استحصال ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر خودبخود ہر چیز کا استحصال ہونے لگتا ہے۔ لوگ نہ صرف اپنا استحصال کرواتے ہیں بلکہ اپنے اوپر روا رکھے گئے اس ظلم اور استحصال کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کسی کو اس کےخلاف ’گستاخی‘ کی اجازت بھی نہیں دیتے!

آج ہمارے دور میں بھی انسانی معاشرے جس بدترین استحصال کا شکار ہیں اور جس کے انتہائی نتیجہ میں قوموں کی قومیں ایک محدود عالمی طبقے کی اسیر کر لی گئی ہیں اس کے پیچھے یہ عقل کا استحصال ہی کارفرما ہے۔

درست ہے کہ انبیاءکا دین محض دُنیا کے مسائل حل کرنے نہیں آیا۔ یہ کائنات کے آفاقی اور ابدی حقائق کوانسان کے قلب وذہن میں اُتارنے اور پھر اس کے قول و کردار میں ڈھالنے آیا ہے اور اگر محض دُنیا کے بحرانات و مسائل کو ہی ان کا کل ہدف قرار دے دیا جائے تو یہ ایک بہت عظیم چیز کو بہت چھوٹا کر دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے ابتدائی پیغام میں لوگوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کوئی خاص توجہ نہ پائی۔ خدا کی معرفت اور خدا کی کبریائی.. بندگی ونیاز میں خدائے وحدہ لاشریک کی یکتائی .... دل کی دُنیا میں اس ایک کے سوا سب کے دیے بجھا دینا اور سب کی عبادت وپرستش کا انکار کروادینا .... یہ ایک ایسا عمل ہے جو دُنیا کے مسائل سے بلکہ خود اس دُنیا سے بڑا ہے اور ایک بڑی چیز اپنے سے چھوٹی چیزوں میں فٹ نہیں ہوا کرتی۔ مگر پھر بھی یہ وہ چیز ہے جو دُنیا کے بہت سے گھمبیر مسائل کو بڑے آرام سے، بلکہ ایک غیر محسوس انداز میں، حل کر جاتی ہے۔ چنانچہ توحید دُنیا کی خیر بھی ہے اورآخرت کی بھی۔

عقل کے استحصال کا خاتمہ توحید کا ایک خودبخود اور لازمی نتیجہ ہے۔ یہ وجہ ہے کہ وہ سب طبقے جن کی بقا دُنیا میں عقل کے استحصال سے مشروط ہے توحید کی دعوت دیے جانے پر لازماً چیخ پڑتے ہیں اور بسا اوقات وہ اس چیخ وپکار کا کام معاشرے کے سادہ لوح طبقوں کو سونپ دیتے ہیں۔ میڈیا کا کردار دُنیا میں ہمیشہ زبردست رہا ہے۔ صاحبِ معاملہ پیچھے چھپا رہتا ہے اور وہ لوگ جن کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا اسکے فریق بنا دیے جاتے ہیں!

توحید پر اصرار اور شرک سے مخاصمت کا یہ فرض دین کے دیگر فرائض مانند نماز و روزہ اور زکوۃ و حج سے یکسر مختلف ہے۔ یہ واضح طور پرایک ایسا فرض ہے جو معاشرے کے ایک خاص طبقے کی شدید ناپسندیدگی کا سبب بنتا ہے۔ شیاطینِ جن وانس جو صبح شام لوگوں کے سینوں میں وسوسے پھونکتے ہیں اس فرض کے بجا لائے جانے پر جتنا سیخ پا ہوتے ہیں اتنا اسلام کے کسی اور فرض کے ادا کرنے پر نہیں ہوتے۔ پھر عقل کے استحصال کی راہ سے اس بات کا انتظام کر لیا گیا ہوتا ہے کہ اس محدود طبقے کی پسند ناپسند ہی معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی زبان میں بولے.. یہاں سے ”توحید پر اصرار“ اور "شرک کے خاتمہ" کے سوال پر معاشرے میں ’رواداری‘ کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

ایک غلط کو، اگر وہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں رائج ہے، غلط مت کہا جائے اور باطل کو، اگر وہ سماج کے کسی شعبے پر مسلط ہے، باطل اور کفر اور ہلاکت کے نام سے نہ پکارا جائے.. یہ رواداری کا کم از کم تقاضا ٹھہرتا ہے! جاہلیت کا یہ مطالبہ اگر آپ تسلیم کر لیتے ہیں تو آپ کو اچھے القاب ملتے ہیں۔ تب آپ مہذب ہیں۔ زمانہ فہم ہیں۔ روشن خیال ہیں اور حد درجہ قابل ستائش۔ بے شک ذاتی زندگی میں آپ شرک سے پرہیز کئے رہتے ہوں، جاہلیت آپ کی اس بات کو جیسے کیسے برداشت کر لے گی مگر شرک کی مخالفت اور باطل کے آڑے آنے سے آپ کو ضرور روکے گی۔

زمانے کے سر نہ آنے کی بابت (قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ )(8) آپ کو مشورہ دینے کیلئے جاہلیت آپ سے وقت کی ایک خاص ثقافتی زبان میں بات کرے گی۔ آپ اس کا اشارہ پا جاتے ہیں تو یہ آپ کی ذہانت اور عبقریت کی خوب داد دے گی۔ ورنہ آپ خودبخود اس کی نظر میں کوڑھ مغز ہیں! غرض معاشرے کے اندر ایک ’جدید‘ اور ’عصری‘ انسان بن کر رہنے یا کم از کم نظر آنے کی آپ کو خوب خوب ترغیب دی جائے گی۔ کوئی چیز آپ کے نزدیک شرک اور گمراہی ہے تو ایک غیر محسوس انداز میں آپ بے شک اس کو ترک بھی کئے رکھیں مگر اس سے عداوت اور مخاصمت کو بھی اپنا درد سر نہ بنائیں! شرک اور باطل کے معاملے میں اکثریت کی راہ سے ہٹ کر اگر آپ کسی بات کے قائل ہیں تو بھی کیا حرج ہے، بس اپنے کام سے کام رکھیں اور دُنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیں! اپنی مصروفیت کیلئے بے شک کوئی تحقیقی یا سیاسی یا تبلیغی سرگرمی اختیار کرلیں۔ باطل سے حتی کہ ایک سیاسی انداز کا اختلاف بھی بے شک کریں۔ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔ کسی بے دین یا ملحد اور خدا بیزار یا شرکیہ رحجانات کی حامل پارٹی کے ساتھ "سیاسی جنگ" تک آپ کر سکتے ہیں مگر یہ کہ اس کے ساتھ خالصتاً ایک عقیدہ کی جنگ چھیڑ دیں اور ایک اصولی انداز کی مخاصمت رکھیں یوں شرک اور باطل کے ساتھ آپ کسی ایسی جنگ کا علم بلند کریں جو حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ(9) کے سوا کسی صورت تھمنے والی ہی نہ ہو.. اس کی بہرحال گنجائش نہیں۔

تاوقتیکہ آپ جاہلیت کی عصری تعبیرات کی رو سے اپنی’ معقولیت‘ اور’ موزونیت‘ کا بھرم رکھنے کی خواہش سے ہی دستبردار نہیں ہو جاتے جاہلیت سے آپ ایک سنجیدہ اور ٹھیٹ نوعیت کے کسی اختلاف کے متحمل نہیں ہوتے۔ جب تک آپ اس کی مقرر کردہ یہ ’حد‘ پار نہیں کر جاتے تب تک آپ کے زمانہ شناس اور روشن خیال ہونے پر کوئی کلام نہیں! باوجود اس کے کہ روشن خیالی اور زمانہ شناسی کے جاہلیت کی نگاہ میں متعدد ’درجات‘ ہیں اور بیشتر دیندار سب کچھ کر کرا کے بھی اس میں کوئی اعلیٰ درجہ نہیں پا سکتے مگر شرک اور باطل کی مخاصمت سے دستبردار ہو کر آپ جاہلی امتحان میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ نہ سہی ’پاس‘ ضرور ہو جاتے ہیں۔ جاہلیت کی جانب سے ایک پڑھے لکھے دیندار کیلئے یہ کوئی چھوٹی رشوت نہیں۔ کہنے کو یہ شخصیت کا محض ایک تاثر ہے مگر اس کی طلب میں بہت سے لوگ اگر جان سے نہیں گزرتے تو حق سے بہرحال گزر جاتے ہیں۔ ہاں اگر آپ جاہلیت کا یہ مطالبہ ہی جو وہ ایک خاموش اور عصری انداز میں کرتی ہے، رد کر دیتے ہیں تو آپ جنونی ہیں تفرقہ پرست ہیں جہالت پسند ہیں اور نہ جانے کیاکیا ہیں!

کہنے کو یہ بس ایک طعنہ ہے۔ چند الفاظ ہیں۔ مگر بہتوں پر بھاری گزرتے ہیں۔ بُرا پڑجانا انسان کو طبعاً ناپسند ہے اور ستائش پانا ہر شخص کو بھلا لگتا ہے۔ خاص طور پر اس طبقے کے ہاں قابل قبول ہونا جو معاشرے پر اثر رکھتا ہے۔ اس طبقے کی تو ملامت سے بچ جانا ہی، جو کہ بے انتہا بلیغ اور عصری انداز میں ہوا کرتی ہے، ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے! مگر یہ معاملہ انسانوں میں بُرا پڑنے یا ستائش پانے سے بہت بڑا ہے۔ جاہلیت کے کچھ لفظوں کی ہی اگر آپ تاب نہیں لا سکتے تو دعوتِ حق کی راہ میں اور آپ کیا اٹھائیں گے؟ یہ تو سب سے پہلے اعصاب کی جنگ ہے۔

توحید پر اصرار اور شرک سے عداوت کا یہ فرض جاہلیت کو جب ناگوار گزرتا ہے اور وہ معاشرے کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی عقل کا استخفاف کرکے معاشرے میں اس فرض کے خلاف جو ایک مزاحمت پیدا کرتی ہے تو یہ ایک آزمائش ہوتی ہے۔ کوئی بے شک آپ کو پتھر نہ مارے زمانے بھر کی مخالفت مول لینا ویسے ہی آسان کام نہیں۔ پھر جبکہ ذاتی طور پر خدائے واحد کو پوجنے کی آزادی بھی ہو! شرک سے بیراور باطل سے تعرض.. یہ فرض دعوتِ توحید سے حذف کر دینے کو تب اکثر لوگوں کا دل چاہنے لگتا ہے۔ اس کی دعوت دینا تو خیر بڑا کام ہے اس فرض کو فرض جاننا ہی تب استقامت چاہتا ہے۔ جب سارا زمانہ ایک طرف ہو تو شیطان یہ شک ڈالتا ہے کہ شاید یہ (یعنی شرک سے مخاصمت) فرض نہیں کوئی سنت اور نفل قسم کی چیز ہے جو اگر چھوٹ جائے تو کوئی اتنا بڑا حرج نہیں۔ یہاں تک کہ اس کا درجہ نفل سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ تا آنکہ بعض کے نزدیک یہ جائز تک نہیں رہتا اور وہ اس فرض کو باقی توحید سے الگ کرکے دیکھنے لگتے ہیں: "ٹھیک ہے یہ خدا کو ایک ماننا اور شرک نہ کرنا تو مان لیا مگر یہ شرک سے عداوت اور مخاصمت کی فرضیت کہاں سے نکل آئی!؟“ شرک سے عداوت اور مخاصمت کی فرضیت پھر نہ پورے قرآن میں کہیں نظر آتی ہے اور نہ انبیاءکی زندگیوں میں۔ شرک سے نزاع کی فرضیت تب آدمی کو لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات لگتی ہے اور سراسر غلو اور انتہا پسندی!

باطل کی مخالفت اور شرک سے عداوت کا پہلو بیچ سے نکال دیا جائے تو پھر حق کی دعوت بھلا کس کو بری لگے گی!؟

دعوت معاشرے میں کس بات کی دی جائے؟

ظاہر ہے ہر اچھی بات کی دعوت دی جانی چاہیے اور ہر بُری بات سے لوگوں کو روکنا چاہیے۔

دعوت کا آغاز کس ’اچھی بات‘ سے ہو؟ اور کس ’بُری بات‘ سے لوگوں کو ’سب سے پہلے‘ روکا جائے؟

کس ’اچھی بات‘ کی لوگوں کو ’سب سے زیادہ‘ ”دعوت“ دی جائے اور کس ’بُری بات‘ سے لوگوں کو ’سب سے زیادہ‘ ”روکا“ جائے؟

سوال اصل میں یہ ہے۔

کیا خیال ہے اس کا جواب اگر قرآن سے اور رسول اللہ ﷺکی دعوتی زندگی سے اور تمام انبیاءکی تعلیم سے لے لیا جائے؟ قرآن، رسول اللہ کی دعوتی زندگی اور انبیاءکی تعلیم اس سوال کا اس قدر واضح جواب ہے کہ جاہلیت کی ڈالی ہوئی تمام تر گرد کے باوجود اس کا روپوش ہونا ممکن نہیں۔

توحید کو منوانا اور شرک کی بیخ کنی کرنا.. اس سوال کا جواب قرآن اور دعوت انبیاءسے اس کے سوا اور کیا ملے گا؟

 

**********

 

فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيمٍ (67) وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ(68)اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (69)

”پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑانہیں کرنا چاہیے۔ آپ (کھل کر) لوگوں کو خدا کی طرف بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک راستے پر ہی ہیں۔ پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال سے بہت واقف ہے۔ تمہارے سب اعمال کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا.. "

یعنی شریعت کے کسی معاملے پر، خدا کی ٹھہرائی ہوئی کسی حقیقت پر تو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ کوئی ترمیم، کوئی ردوبدل اور خدا کی طے کر دی ہوئی کسی بات پر نظر ثانی کا تو سوال خارج از بحث ہے۔ وہ مانتے ہیں تب، نہیں مانتے تب، تم البتہ انہیں ___بغیر کسی جبر و اکراہ کے ___ اسی کی دعوت دو اور اسی بنیاد پر ان کو خدا کی طرف بلاؤ۔

محمد ﷺکی شریعت میں جو آگیا اس کو حق ہونے کی سند خداکی طرف سے حاصل ہو چکی۔ وہ ھدیً مستقیم ہے۔ البتہ اس کو منوانے میں زبردستی کی گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔ اس کا فیصلہ قیامت کے روز خدا خود کرنے والا ہے۔ یہ ایک ایسی اعلی بات ہے جس کو منوانے کیلئے لوگوں کے عقل وفہم اور ان کے قلب وضمیر کو ہی مخاطب کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی دھونس نہیں۔ بات ماننے یا نہ ماننے کی پوری آزادی ہے۔ مگر وہ بات جو خدا کی طرف سے آگئی اس میں ترمیم کروانے کا البتہ کسی کو حق نہیں۔ اس میں تبدیلی یا نرمی لے آنے کا مطالبہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ اس کو کھول کھول کر بیان کر دو اور پھر ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو:

”پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیں اللہ تمہارے اعمال سے بہت واقف ہے۔ تمہارے سب اعمال کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا.. “

البتہ یہ بہت واضح ہے کہ اسلام کی کوئی اور بات بری لگے نہ لگے شرک کی مخالفت اور باطل کی مذمت اور تنہا خدا کی بندگی کی دعوت ظالموں کو بہت ناگوار گزرے گی بلکہ ظالم ہر دور میں اپنی پہنچان ہی یہاں سے کرائیں گے.... ان دو عقیدوں کے مابین مخاصمت کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے:

 

یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کر رہے ہیں جن کیلئے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود (ان کی پرستش کے حق ہونے کی بابت) کوئی علم رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہ ہوگا۔

اور جب ان کوہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں..

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ۔ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا (71-72)

 

لیکن اگر بات پوری طرح پہنچا دی گئی ہے تو کوئی پروا نہیں۔ اس پر تب خدا کے عذاب کی کھلی کھلی وعید سنا دینا تک درست ہے.... اور یہ تلقین خود قرآن ہی کر رہا ہے:

 

کہہ دیجئے پھر کیا میں تمہیں اس سے بھی بدتر خبر دوں؟ آگ! جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبول حق سے انکار کریں اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے

قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ(72)

 

گویا اس پر وعید سنا دینا تک رواداری کے خلاف نہیں۔نہ ہی یہ لہجہ لوگوں کا معاملہ خدا پر چھوڑ دینے کی بات سے متعارض ہے۔ باطل کے ساتھ شدید ترین لہجہ اپنا لینا اس دعوت ہی کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے اور یہ ہرگز کوئی دھونس اور زبردستی نہیں کہلاتا۔

غیر اللہ کی خدائی کو باطل کہا جانا اور بندگی و پرستش میں خدا کے ساتھ شرک ہو جانے کو شدید مذمت کا مستحق جاننا حتی کہ اس پر وعیدِ آتش تک سنا دینا خدا کی عظمت اور کبریائی کا حق ہے۔ یہ ایک بالکل درست رویہ ہے۔ انبیاءکی زندگی اس پر شاہد ہے۔ اس پر تعجب تب ہوتا ہے اور یہ رواداری کے منافی تب نظر آتا ہے جب آدمی کی نگاہ سے انبیاءکا وہ جہاد جو وہ زندگی بھر کرتے رہے روپوش ہو جائے اور سب بڑھ کر جب آدمی خدا کی وہ شان اور قدر، جو کہ اس کا حق ہے، پہچاننے پر قدرت نہ پائے:

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ..

”حق تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کے مقام کا حق ہے، قدر ہی نہ پہچانی.. "

خدا کے حق کی یہ ایک خاص حرمت تھی جو انبیاءکو شرک اور باطل کے خلاف بولنے پر مجبور کرتی تھی۔ خدا کے حق کی یہ حرمت مگر جب نگاہوں سے روپوش ہونے لگے تو تب اس ’رواداری‘ کے مستحسن ہونے کی نوبت آتی ہے جس کی رو سے ”معاشرے میں خدا کے سوا اوروں کی اطاعت وبندگی کے خلاف محاذ کھڑا کرنا“ ایک ’فرقہ وارانہ‘ اور ’اختلافی‘ مسئلہ قرار پاتا ہے اور یہ موضوع بحث تک سے نظر انداز ہونے بلکہ اجتناب برتے جانے کے قابل ہوتا ہے!

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ..

”حق تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کے مقام کا حق ہے، قدر ہی نہ پہچانی.. "

 

*******

 

سورۂ حج سے ہم نے جو آیات ذکر کی ہیں ان میں شریعت کی اٹل حیثیت، توحید کی دعوت دی جانے کی اہمیت، رواداری کی حدود، دعوتِ توحید کے خلاف دُنیا کے سرکشوں کا طبعی ردعمل، توحید کی دعوت پر ظالمین کا سیخ پا ہونا اور ان کے چہرے بگڑنا اور ان کا اس دعوت کے آڑے آنے کی ہر کوشش کرنا، اہل حق کو ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی ہدایت، ان کا معاملہ خدا پر اور قیامت کے روز پر چھوڑ دینے کی تاکید، مگر شرک کی حقیقت اور اس کی شناعت بیان کی جاتی رہنے کی ضرورت اور ایک موحدانہ انداز میں اللہ کی شان اور قدر پہچاننے کی تاکید.... سورۂ حج کی ان آیات میں دین کی ان سب بنیادوں کا ایک زبردست اور پرلطف ذکر ہے۔ یہ سب باتیں چونکہ ہمارے اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اس لئے اس پورے سلسلۂ مضامین(10) کا آغاز ہم نے ان آیات کے ذکر سے کیا ہے۔ اس کے بعد کی آیات بھی اختتامِ سورت تک بنیادی طور پر اسی موضوع کا تسلسل ہیں۔ ان کو بغور دیکھ لینا اس موضوع کی افادیت اور معنویت اور بھی بڑھا دے گا۔ خصوصاً سورۂ حج کی آخری آیت جہاں یہ موضوع اپنے عروج کو پہنچتا ہے:

 

اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اپنے (اس) کام کیلئے چن لیا ہے اور اس دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر۔ پس نمازقائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الحج:78)

 

********

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز