عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mafhoomat آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مابین ‘‘ایمان’’ و ‘ارجاء’
:عنوان

. اصولمبادى فہم :کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

مفاھیم ینبغی أن تصحح فصل اول

مفہوم لا الٰہ الا اللہ

مابین ‘‘ایمان’’… و‘‘ ارجاء’’

حامد کمال الدین

اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ اِس لا الٰہ الا اللہ نے پہلی نسل کی زندگیوں میں کیا کردار ادا کیا تھا۔ مگر اس سے پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ مشرکین عرب نے اِس کو رد کیوں کردیا تھا؛ اس کے ساتھ وہ جنگ کیوں کھڑی کر لی تھی جو تاریخ میں آج تک ذکر ہوتی ہے؟

یہ لا الٰہ الا اللہ سب کے سب رسولوں کی دعوت رہی ہے۔ آدمؑ اور نوحؑ سے لے کر محمد ﷺ تک، انسانوں سے رسولوں کا ایک ہی مطالبہ رہا۔ ادھر جاہلیت کا اِس دعوت کے مقابلے پر ایک ہی موقف رہا: انکار۔ اعراض۔ مخالفت اور عناد۔ یہ دعوت نہیں بدلی تو جاہلیت کایہ موقف بھی اس دعوت کے مقابلے پر کبھی ایک بار نہیں بدلا۔

۱۔مسئلہ لاالٰہ الا اللہ پر اس قدر زور؟

۲۔ مابین ‘‘ایمان’’ و ‘ارجاء’

۳۔ ‘‘شہادت’’ نہ کہ محض ‘اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب’!

۴۔ اگر محض ‘تصدیقٌ بالقلب واقرارٌ باللسان’ ہی لاالٰہ پر ‘‘ایمان’’ ہوتا!

۵۔ مرجئہ کے ‘دلائل’!

آخر کیا وجہ ہے تاریخ کے اِن تمام ادوار میں جاہلیت نے اِس دعوت کے مدمقابل یہ ایک ہی ‘متفقہ’ موقف اپنائے رکھا، خصوصاً جاہلیت کی متکبر اشرافیہ (الملأ) نے؟

اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھيجا کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں کہ نہ عبادت کرو مگر ایک اللہ کی، بیشک میں تم پر ایک مصیبت والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تو اس کی قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ (سورة هود 25 - 27 )

اور عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو کہا اے میری قوم! اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تم تو بڑے مفتری (بالکل جھوٹے الزام عائد کرنے والے) ہو… بولے اے ہود تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں، (سورة هود 50۔53 )

اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین میں پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا، بولے اے صالح! اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (سورة هود 61 ۔ 62)

اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کا عذاب کا ڈر ہے… بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو۔ (سورة هود 84 - 87 )

عرب جاہلیت کوئی نرالی جاہلیت نہ تھی۔ اِس کا بھی اُس دعوت کو جسے ہر رسول لےکر آتا رہا، وہی ایک جواب تھا۔ آخر ایسا کیا عناد تھا جو عرب جاہلیت نے رسول اللہﷺ کے اس مطالبہ کے آگے ویسا ہی ایک رویہ دکھایا جو اس سے پہلے ہر جاہلیت اپنے رسول کے مدمقابل دکھاتی رہی؟

یعنی… یہ لا الٰہ الا الا اللہ کیا ایک لفظ تھا جو اُن عربوں سے بولا نہیں جا رہا تھا!؟ یا اس کا کوئی مقصود اور مدلول تھا اور اس کا کوئی مطالبہ اور تقاضا تھا جو اُن کو منظور نہیں تھا؟ اور وہ چیز کیا تھی جو اس کلمہ کی ادائیگی کی صورت میں اُن سے طلب کی جارہی تھی اور جس کا وہ پورا اِدراک رکھتے تھے اور جس کا ادا کر دینا اُن کو کسی صورت گوارا نہ تھا؟ اِس کلمہ کی رُو سے: زندگی گزارنے کی وہ صورت کیا تھی جس پر وہ آج تک چلے آئے تھے اور وہ صورت کیا تھی جس کی جانب اب اُن کو بلایا جارہا تھا یا جس کا اُن کو اندازہ تھا کہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دینے کی صورت میں اُن کو وہ اپنانا ہوگی؟

اِس کلمہ کو اگر بغیر کسی مدلول اور بغیر کسی مطالبے کے ہی اُن سے ‘ادا’ کروالیا جانا تھا… تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قریش اِس کے مقابلے پر یوں خم ٹھونک کر آئیں اور اِس اِتنی سی بات پر ایسی خونیں کشمکش اور ایسی لامتناہی جنگ کھڑی کر لیں! پھر دیگر عرب بھی اِس کلمہ کے ساتھ آخری دم تک لڑنے کے لیے میدان میں اتر آتے ہیں…، تو اگر اِس کلمہ کا مطلب اُن کے آئینِ حیات کی سرتاپیر تبدیلی نہیں تھا اور معاشرے میں کوئی ہل جل اور کوئی تبدیلی لے آنا اس کلمہ کا قطعی ولازمی مدلول ہی نہیں تھا تو تمام عرب کے سردار اِس کو یوں زندگی موت کا مسئلہ بنا لینے تک کیوں چلے گئے؟

اور جہاں تک قریش کا معاملہ ہے، تو یہ وہ ماحول ہے کہ کسی قبیلے میں ایک سربرآوردہ شاعر پیدا ہوجائے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ اب اگر ایک قبیلے میں نبی پیدا ہوجاتا ہے تو مارے خوشی کے اُس کا کیا حال ہونا چاہئے؟! خصوصاً قریش کے پاس تو عرب کی مذہبی پیشوائی تھی جو اس کو عرب میں سیاسی اور اقتصادی مرکزیت دلواتی تھی۔ ایک ایسے قبیلے میں نبی ظاہر ہوجائے تو اُس کی سرداری کو تو چار چاند لگ جائیں اور اُس کی سیاسی و معاشی برتری کی تو اور بھی دھاک بیٹھے، قریش کے لیے اس میں آخر ڈرنے کی کیا بات تھی؟

خالی ایک کلمہ، نہ کوئی مدلول نہ کوئی تقاضا، دنیا بھی کھری اور آخرت بھی… آخر قریش اِس سے اتنا بدکتے کیوں ہیں؟!

صاف بات ہے زندگی کا ایک دستور وہ تھا جس پر وہ تھے اور ایک دستور وہ تھا جس کی طرف اُن کو بلایا جارہا تھا؛ اور اِن دونوں میں زمین آسمان کا فرق۔

اِن سب قضایا کا لب لباب یہ دو قضیے تھے اور انہی پر قرآن مجید کی تمام تر ترکیز رہتی ہے: ایک یہ کہ جنسِ عبادت ایک اللہ واحد قہار کی نذر کی جائے۔ دوسرا، خداکے اتارے ہوئے تحریم اور تحلیل کی اتباع ہونے لگے:

اور انہیں اس کا اچنبھا ہوا کہ ان کے پاس انہیں میں کا ایک ڈر سنانے والا تشریف لایا اور کافر بولے یہ جادوگر ہے بڑا جھوٹا، کیا اس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کردیا بیشک یہ عجیب بات ہے۔ (سورة ص 4 - 5 )

اور جب ان سے کہا جائے اس کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا کیا اگرچہ شیطان ان کو عذاب دوزخ کی طرف بلاتا ہو (سورة لقمان 21 )

شرک کا یہ لب لباب جو اِن دو قضیوں میں سمیٹ دیا گیا، سورۃ الانعام اور سورۃ النحل میں یکجا بیان ہوا:

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم حَتَّى ذَاقُواْ بَأْسَنَا( الأنعام 148 )

مشرک کہیں گے کہ اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا نہ ہم کچھ حرام ٹھہراتے ایسا ہی ان کے اگلوں نے جھٹلایا تھا یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا

وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلا آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبِينُ ( النحل 35 )

اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی چیز کو پوجتے اور نہ ہمارے بڑے ہی (پوجتے) اور نہ اس کے (فرمان کے) بغیر ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ (اے پیغمبر) اسی طرح ان سے اگلے لوگوں نے کیا تھا۔ تو پیغمبروں کے ذمے (خدا کے احکام کو) کھول کر سنا دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔

چنانچہ شرک جس مصیبت کا نام ہے وہ اپنی اعتقادی صورت میں یوں سامنے آتا ہے کہ آدمی خدا کے ماسوا معبودوں کا اعتقاد رکھے۔ اور عملی صورت میں یوں سامنے آتا ہے کہ وہ اپنی عبادت کا رخ غیر اللہ کی جانب پھیردے، اور تحلیل اور تحریم اللہ کو چھوڑ کر کہیں اور سے لے۔

*****

ہم یہ اشارہ کر آئے ہیں کہ ‘‘انکار’’ اور ‘‘مخالفت’’ پر مشتمل یہ موقف کچھ عرب جاہلیت کے ساتھ خاص نہ تھا؛ اس سے پہلے سب جاہلیتیں اِسی وتیرہ پر رہیں۔ سورۃ الانعام اور سورۃ النحل کی یہ آیتیں اِسی تاریخی حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں:

كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم  ‘‘اِن سے پہلے بھی اِسی طرح جھٹلاتے رہے’’

كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْْ ‘‘اِن سے پہلوں کا بھی یہی وتیرہ رہا’’

ہر وہ جاہلیت جس کی جانب رسول بھیجا گیا، ہم دیکھتے ہیں اشرافیہ پوری قوت کے ساتھ رسول کا راستہ روکنے کے لیے آگے بڑھتی ہے، پوری جرأت کے ساتھ اُس کی تکذیب کرتی ہے اور اُس سے اُس کا راستہ چھڑوادینے اور اُس کو پیروکاروں سے محروم کردینے کے لیے اپنا پورا زور صرف کردیتی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں دبے ہوئے ‘‘جمہور’’، ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر، اپنے سرداروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اُن کے ساتھ مل کر انبیاء کا راستہ روکتے ہیں۔

اِس تاریخی کہانی میں … ‘‘جمہور’’ کا اخلاص اپنے معبودوں کے لیے کہیں بڑھ کر نظر آتا ہے ۔ مانوس اشیاء سے ان کی وابستگی زیادہ پختہ ہے۔ لکڑی اور پتھر کے یہ خدا جمہور کے اِن انحرافات کو طبعی طور پر زیادہ آسودہ کرتے ہیں۔ جمہور ان کے آگے جب بھینٹ چڑھاتے اور شعائر بندگی بجا لاتے ہیں تو اپنے اِن خداؤں کے ساتھ یہ ایک مادی قرب محسوس کرتے ہیں۔

جبکہ اشرافیہ کچھ زیادہ روشن خیال واقع ہوئی ہےاور ان کی نخوت بھی کچھ زیادہ ہے۔ رسول کے ساتھ ٹکر لینے میں اِن کا جو محرک ہے وہ اِن خداؤں کی عبادت میں آسودگی پانے سے بڑھ کر اپنا ‘‘اقتدار’’ بچانا ہے!

اشرافیہ کی وابستگی اِن معبودوں کے ساتھ حقیقی سے زیادہ علامتی ہے۔ اِن کا ان معبودوں کا دفاع کرنا – خواہ اُس میں کتنی ہی گرمجوشی کیوں نہ دکھائی دیتی ہو – ان معبودوں پر اعتقاد سے اتنا نہیں پھوٹتا جتنا اس بات سے کہ یہ معبود جمہور کو غلام بنا رکھنے کا ایک نہایت کامیاب اور مؤثر ذریعہ ہیں، نیز یہ معبود اشرافیہ کے مقدس اختیارات کا ایک روحانی وسماجی سرچشمہ ہیں!

پس اِن کو جو قضیہ سب سے زیادہ کھلتا ہے وہ حاکمیت ہی کا قضیہ ہے، یعنی یہ جمہور کس کے حکم اور کس کے دستور پر چلیں؟ معاشروں پر اپنا حکم یہ سردار چلائیں گے… یا اللہ، بذریعہ آسمان سے نازل شدہ شریعت؟

یہ ہے وہ اصل مسئلہ جو ہر جاہلیت میں اشرافیہ کو برانگیختہ کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ لاالٰہ الا اللہ کی دعوت کے ساتھ جنگ کے لیے میدان میں نکل آتی ہے۔

اب جب انکے پاس خدا کی جناب سے باقاعدہ ایک رسول آکر کہتا ہے: ‘‘نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، عبادت اور غلامی اُس ایک کی، اُسکے سوا عبادت اور غلامی کسی کی نہیں’’… تو یہ البتہ وہ بات ہےجس کو حیران پریشان ہوکر ہی سنا جائیگا!

ٹھیک ہے اختیارات پر اشرافیہ (الملأ) کے اپنے مابین کھینچاتانی رہتی ہے او ر یہ جھگڑا چلتا ہے کہ ان میں سے کون جمہور کو اپنا بندہ بناتا ہے، نیز کسی وقت یہ کھینچاتانی اشرافیہ اور جمہور کے مابین بھی ہوجاتی ہے جیساکہ جمہوریت میں ہوجاتا ہے کہ کتنا اختیار اشرافیہ کے اپنے قبضے میں رہے اور کتنے ٹکڑے جمہور کو ڈال دیے جائیں تو وہ اٍس پر ریجھ جائیں گے اور اشرافیہ کا کام اشرافیہ پر چھوڑ دیں گے۔ البتہ رسول آکر جب کہتا ہے لا الٰہ الا اللہ، اور اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكـُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْـرُهُ ‘‘عبادت اور غلامی اختیار کرلو ایک اللہ کی، نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ’’ تو یہاں پورے کا پورا معاملہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہاں کل اختیار ہی بشر کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے اور اصل مالک کے سپرد کردیا جاتا ہےجوکہ خدائے لم یزل کی ذات ہے، جس کو سزاوار ہے کہ روکے اور ٹوکے۔تحلیل اور تحریم کرے۔

یہاں سے اشرافیہ کا اِس لا الٰہ الا اللہ سے تنازعہ شروع ہوتا ہے ۔ لا الٰہ الا اللہ سے ان کا خوف کہیں زیادہ ہے بہ نسبت اپنے دنیوی حریفوں کے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے حریفوں کو بھول کر بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ سب حریف مل کر اس دعوت کے ساتھ جنگ پر اتر آتے ہیں۔ جہاں اِس جنگ میں ان گنت ہتھیار برتے جانے ہیں وہاں ایک ہتھیار ‘‘عوام’’ بھی ہیں جن کو اس جنگ میں خوب برتا اور جھونکا جائے گا۔ ان کو ‘معبودوں’ کے واسطے دے دے کر برانگیختہ کرنے کے لیے کسی وقت حقائق سازی ہوگی تو کسی وقت اِس دعوت میں پنہاں ‘خدشات’ پر نگاہیں مرکوز کروائی جائیں گی:

اور فرعون کہنے لگا "چھوڑو مجھے، میں اِس موسیٰؑ کو قتل کیے دیتا ہوں، اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا" ( غافر 26 )

پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو، فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ سو انہوں نے تکبر کیا اور وه لوگ مجرم لوگ تھے پھر جب ان کو ہمارے پاس سے صحیح دلیل پہنچی تو وه لوگ کہنے لگے کہ یقیناً یہ صریح جادو ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جبکہ وه تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے وه لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹادو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانینگے (يونس 75 - 78 )

غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی۔ اور انہوں نے اس کی بات مان لی۔ بےشک وہ نافرمان لوگ تھے ( الزخرف 54 ( (ترجمہ جالندھری)

*****

مکہ میں بھی کہانی یہی تھی…

قریش وہ اشرافیہ (ملأ) تھی جو اِس دعوت کا راستہ روکنے کیلئے میدان میں تھی۔ درحقیقت یہ قریش اور محمد ﷺ کے مابین جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ اُن کے اور اس دعوت کے مابین جنگ تھی جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ انکو خطاب کررہے تھے:

سو یہ لوگ آپکو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں( الأنعام 33)

یہ کشمکش جب اپنے عروج کو پہنچتی ہے تو قریش رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا ایک نمائندہ بھیجتے ہیں جو آپؐ کو پیش کش کرتا ہے کہ آپؐ بادشاہت لے لیں، دولت، اور زیست کی سب آسائشیں لے لیں، مگر شرط یہ ہے کہ اس دعوت سے دستکش ہو جائیں! خاص رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ اُنکو کوئی پرخاش ہوتی تو یہ پیش کش آپؐ کی ذات کو کیسے ہوسکتی تھی؟ یعنی یہ آدمی تو اُنکو پوری طرح قبول ہے مگر یہ جو بات کہتا ہے وہ کسی صورت قبول نہیں اور اُس سے اِسکو دستکش کرانے کیلئے ہر قیمت دی جاسکتی ہے۔ یعنی یہ دعوت ناقابل برداشت ہے۔ ہاں تو اب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ جنگ اِس شخصیت کے ساتھ بھی ہوجائے جو اِس دعوت کو لے کر چلنے پر ہی بضد ہے!

*****

پھر خدا کی مشیئت ہوجاتی ہے کہ اِس لا الٰہ الا اللہ پر کچھ نفوس ایمان لے آئیں اور تاریخ کی وہ منفرد ترین نسل ظہور میں آئے۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ جن نفوس نے اِس لا الٰہ الا اللہ کو قبول کیا اُن کی زندگیوں نے کیا ڈھب اختیار کیا اور ان کے ہاں اِس لاالٰہ الا اللہ کا کیا مدلول ٹھہرا؟!

کیا خالی اِس بات کی تصدیق کہ اللہ ایک ہے!؟ آسمانوں کے اوپر اُس کے سوا کوئی خدا نہیں؟! مجرد اِقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب؟!

یا یہ لا الٰہ الا اللہ اُن کے نفوس میں اور اُن کے واقعِ حیات میں اس سے کہیں زیادہ بھاری حقیقت تھی؟ کہیں زیادہ بھاری، اور کہیں زیادہ گہری، اور کہیں زیادہ وسیع؟!

آئیے اس کی شہادت اُن کے واقعِ حیات سے لیتے ہیں…

عرب ایک بکھرا شیرازہ تھا۔ اس کو اکٹھا کردینے والے بے شمار عوامل موجود تھے ، پھر بھی وہ اکٹھا ہوکر نہ دیتا تھا۔ عربوں کی دھرتی ایک، ماحول اور رسم و رواج ایک، زبان ایک، ثقافت ایک، تاریخ ایک، معتقدات ہرجگہ ایک سے۔ اِس کے باوجود اس نے کبھی اکٹھا ہوکر نہ دیا۔ اسلام نے اِس بکھرے شیرازے کو لیا اور اُس سے ‘‘خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ’’ برآمد کر ڈالی!

ایسا نہیں ہے کہ جزیرۂ عرب میں صرف بت ہی وہ خدا ہوں جن کو معبود بنا رکھا گیا تھا، گو تاریخ پڑھانے والی بعض کتابیں ہمیں یہی سمجھانا چاہتی ہیں کہ عرب میں غیراللہ کی عبادت کی بس یہی ایک صورت تھی؛ تاکہ لا الٰہ الا اللہ کا یہ پورا قضیہ عبادت کی اسی لکڑی پتھر والی ‘ظاہری’ شکل میں محصور ہوجائے! اور نہ ایسا ہےکہ عرب میں پایا جانے والا وہ فساد جس کو یہ لا الٰہ الا اللہ ختم کرانے آیا اُن خاص اخلاقی مفاسد کے اندر محصور تھا جو شراب، جوا، زنا، دخترکشی، لوٹ مار اور سماجی ناانصافی کی صورت میں بیان ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ تاریخ کی کتابیں آج ہمیں یہی پڑھانے پر بضد ہیں!

یہ لا الٰہ الا اللہ نفوس سے ہر قسم کا شرک دھوکر اُن کو اجلا کرتا تھا۔ شرک وہاں کوئی ایک ہی قسم کا نہیں تھا۔ شرک کی متعدد صورتیں تھیں اور ان سب کا لب لباب یہی دو بنیادی قضیے: بہت سے خداؤں کو پوجنا، اور غیر ماانزل اللہ کی اتباع۔

(کتاب میں یہاں عرب جاہلیت کے دستور وطرزِ حیات کی ایک تصویر دی گئی ہے جس کو قرآن نے آکر کالعدم کیا اور اس کو لاالہ الااللہ کا عنوان اور مطالبہ ٹھہرایا)

شرک کی اِن تمام صورتوں کے مدمقابل، جوکہ ظاہر ہے بتوں کی پوجا میں محصور نہ تھیں، سب کو ایک درجے کی بربادی قرار دیتے ہوئے، قرآن ان کو کلمہ لاالٰہ الا اللہ کے تحت شرک سے نکل آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اِس شرک سے اور شرک کے اِن تمام رنگوں سے اُن کے نفوس کو بھی پاک کیا جانا تھا، ان کے قلوب کو بھی، وجدان اور احساسات کو بھی، رویے اور سلوک کو بھی۔ رسول اللہﷺ کا وہ جہادِعظیم جو مکہ میں تیرہ سال تک چلا شرک کی اِن سب صورتوں پر تیشے برسانے سے عبارت تھا۔

مرکر جی اٹھنے اور حساب کے لیے پیش ہونے کا تصور اُن کے ذہنوں میں بٹھانے پر بلاشبہ محنت ہوئی، اور قرآن نے مکہ میں مشرکین کوجو خطاب کیا اُس کا ایک بڑا حصہ اسی بعث و نشور کے مسئلہ نے لیا۔ وجہ یہ کہ علمِ خداوندی کی رو سے یومِ آخرت پر ایمان ہی وہ چیز ہے جو شرک میں گڑے ہوئے اِن انسانوں کو اس دلدل سے نکال لانے اور شرک کی جملہ انواع سے اُن کو پاک صاف کرنےکے لیے مطلوب ہے۔ جو شرک دلوں تک اترا اور ذہنوں میں جما بیٹھا ہو اُس کو وہاں سے کھرچنے کے لیے ایمان بالآخرت کے سوا کیا چیز کام دے سکتی ہے۔ نفوس کو اس توحید پر برقرار رکھنے اور اس کے تقاضوں کو نفوس میں گہرا اتارنے کے لیے ایمان بالآخرت کے سوا کونسا نسخہ ہے۔ شرک وہ جرم ہے جس کی پاداش اِس محدود جہان میں ممکن ہی نہیں۔ توحید اور اس سے پھوٹنے والے اعمال وہ خوبی ہے جس کی جزا اس فانی جہان میں سمانے کی ہی نہیں۔ یوں یہ لا الٰہ الا اللہ اِس جہان کا نہیں بلکہ ایک ابدی جہان کا مسئلہ ٹھہرتا ہے اور اِس محدود جہان سے اور اس کی خوشیوں اور غمیوں اور اس کی راحتوں اور اس کی مصیبتوں سے ماوراء ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ ایمان بالآخرت کا مسئلہ لا الٰہ الا اللہ کا مسئلہ رہتا ہے۔

*****

اِس لا الٰہ الا اللہ کے ذریعے نفوس کو شرک سے اور شرک کی تمام صورتوں اور تمام رنگوں سے آزاد کرالیا گیا؛ اور نفس کے وہ سب خطے جہاں شرک بستا تھا اُن میں خالص اللہ کی عبادت بھر دی گئی… تو اَب اِن نفوس میں ایک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی، گویا یہ کوئی نیا جنم تھا۔

خالی اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب نہیں، ایک بالکل نیا جنم!

توحید، جیساکہ ہم نے اپنی کسی اور کتاب میں ذکر کیا، نفس کے ذرات کو بالکل ایک نئی ترتیب دے ڈالنا ہے؛ عین وہ تاثیر جو لوہ چون پر مقناطیس کے عمل سے ہوتی ہے؛ لوہے کے بے جان ذرات میں ایک کرنٹ دوڑ جاتا ہے!

وہ ‘‘حق’’ جو زمین وآسمان کی ساخت میں بولتا ہے، اُس کی راہ پالینے اور اُس کی جانب یکسو ہوجانے سے نفس پر ایک عجب واردات گزرتی ہے۔ جہان کی سب سے بڑی حقیقت لا الٰہ الا اللہ اس پر آشکار ہوتی ہے تو یہ اپنی اُس بے جان حالت سے نکل آتا ہے۔ وہ ‘‘حق’’ اِس پر بجلیاں گراتا ہے تو اِس کی سکنات چلی جاتی ہیں اور یہ زندگی، حرکت اور حرارت ایسے بے شمار مفہومات سے آشنا ہوتا ہے۔

جھوٹے ارباب اور آلہہ جو اِس نفس پر براجمان تھے، قلب پر چڑھے بیٹھے، روح پر قابض، سوچ پر حاوی اور رویے اور سلوک میں بولتے تھے… اِن ارباب اور اِن آلہہ کو یہاں سے اٹھا دینے کے بعد یہاں اللہ واحد قہار کی محبت، خشیت، طلب اور عبادت گھر کرلیتی ہے، تو کیسے ہوسکتا ہے اِس زندگی میں ایک نیا واقعہ جنم نہ لے!
یہ جھوٹے آلہہ جیسے ہی گرے، اُن سے وابستہ سب عرف، رواج، دستور دھڑام دھڑام گرنے لگے۔ انکا اہتمام اور التزام کرانے کے سب آداب تہِ خاک ہوئے…

‘‘قبیلہ’’ اپنی وہ حیثیت کھو گیا جو اِس لا الٰہ الا اللہ سے پہلے اُس کو حاصل تھی۔ ‘‘قومی روایات’’ اور ‘‘آباء واجداد کا طریقہ ودستور’’(۸) آسمان کی اِس روشنی میں حرفِ غلط ٹھہرا۔ موروثی عادات و رُسوم کو پرِکاہ کی حیثیت بھی حاصل نہ رہی۔ نہ خون کے رشتے اور نہ مفادات کے رشتے ، کوئی چیز ایسی نہ رہی جو اِن نفوس کو جوڑ یا ان کو توڑ سکے۔ اِن کا جڑنا اب توحید کے لیے، اور ان کا ٹوٹنا اب توحید کے لیے…

اور دنیا کے یہ رشتے ہی کیا، خود یہ دنیا… اپنے سب دستوروں اور اپنے سب بندھنوں سمیت مچھر کے پر برابر حیثیت نہ رکھنے لگی۔ دنیا کی سب رنگینیاں اور سب لطافتیں اِس لا الٰہ الا اللہ کے مقابلے پر اپنا سب لطف اور لذت کھودینے لگیں۔ اشیاء کی قیمتیں اور قدریں مقرر کرنے والی اب یہ ‘‘دنیا’’ نہ تھی بلکہ اس کے لیے ‘‘آخرت’’ کا میزان نصب تھا!

یہی لا الٰہ الا اللہ اجتماع کا محل اور یہی افتراق کا… دل اس سے جڑتے ہیں تو پھر اسی کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ اور پھر اِسکے ماسوا کسی چیز کے گرد جمع ہونے کے روادار نہیں رہتے۔ اور جو اِس رشتے کو گلے لگاتے ہیں تو باقی سب رشتے انکی نگاہ میں ہیچ ہوجاتے ہیں۔قوم، ملک، سلطنت، رنگ، نسل، زبان… کوئی چیز اِنکی اجتماعیت کی اساس نہیں رہتی؛ ‘‘عقیدہ’’ اِن سب کو ہٹا کران کی جگہ لے لیتا ہے۔ جتھہ بندی ہوگی تو اب لاالٰہ کی بنیاد پر؛ اجتماع و شیرازہ بندی کی سب پرانی اشکال ہمیشہ کیلئے متروک اور کالعدم۔

پھر رسول اللہ ﷺ جو ان کو اس لا الٰہ الا اللہ کی راہ دکھلانے آئے اور جن کے ذریعے یہ رسالت ان تک پہنچی… طویل ساعتیں ان کو دار الارقم میں لے کر بیٹھتے ہیں، جہاں تاریخ انسانی کا وہ عظیم ترین عمل انجام پاتا ہے؛ یعنی تاریخ کے منفرد ترین جتھے کی تربیت، جس کا محور ہے مطالباتِ لا الٰہ الا اللہ اور اخلاقیاتِ لا الٰہ الا اللہ۔ اور یہاں سے منصۂ تاریخ پر ‘‘خَيۡرَ اُمَّةٍ أخۡرِجَتۡ للنَّاسِ’’ کا ظہور ہوتا ہے…
 

(۸) دورِ حاضر میں دستورِ آباء کا ایک متبادل ‘‘رائے عامہ’’ کے عنوان سے معروف ہے۔ (محمد قطب)
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز