عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
کربلائی نفسیات!
:عنوان

یزید تو کب کا مر کھپ چکا اس شدت احساس کو باقی رکھنے کو ایک زندہ دشمن کی ضرورت تھی اسلئے ماتم نہ کرنے والے، صحابہ کے نام لیوا اور "معصومین" کی عبادت سے گریزاں، یعنی اہلسنت ہی انکی اس بیمار نفسیات کے نشانے پر رہے

. باطلفرقے :کیٹیگری
ابو زید :مصنف
کربلائی نفسیات!



اسلام حق و باطل کا ایک وضح تصور رکھتا ہے۔ اللہ ہمارا خالق، مالک اور پروردگار ہے اور اس بنیاد پر اللہ کے کچھ حقوق ہیں جو کہ صرف اور صرف اللہ کے لئے خاص ہیں۔ اللہ کے ان حقوق کو تسلیم نہ کرنا یا ان میں دوسروں کو شریک کرنا شرک فی العبودیت کہلاتا ہے ۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیم السلام آئے وہ سب کے سب اسی پیغام کے ساتھ آئے کہ اللہ کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان حقوق میں کسی دوسرے کو شریک نہ کیا جائے۔ اسی طرح اللہ کے مبعوث کئے ہوئے انبیاء کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا اللہ کے دین کا دوسرا بنیادی جزو بن جاتا ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے کچھ بندوں کو چن لیا ہے تاکہ وہ اللہ کے حقوق کے بارے میں اس کے بندوں کو بتائیں اور ان حقوق کو پورا کرنے کا عملی نمونہ پیش کریں۔ان انبیاء کی نبوت کو تسلیم کرنا بھی اللہ کا ایک بنیادی حق ہے۔ اللہ کے حقوق میں ایک اہم چیز یہ بھی شامل ہے کہ بغیر علم کے ہم اللہ بارے میں کچھ نہ کہیں۔
اب اگر کوئی اللہ کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا یا ان حقوق کو صرف اللہ کے حقوق ماننے کے بجائے غیراللہ سے بھی منسوب کرتا ہے اور واضح نشانیوں کے باوجود اللہ کے ان چنے ہوئے بندوں کو بلا جواز رد کردیتا ہے تو یہی باطل ہے۔

ایک طرف انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور دوسری طرف شیاطین ہیں جو پورا زور لگا رہے ہیں کہ حضرت انسان کسی طرح سے اللہ کے حقوق کو رد کردے یا ان حقوق میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔ یہ ہے وہ ابتدائے آفرینش سے چلے آئی حق و باطل کی کشمکش۔ اگر اللہ چاہتا تو حق کواپنی تمام مخلوقات پربزور مسلط کردیتا۔ لیکن اللہ کی یہ منشاء ہے کہ انسان اپنے انتخاب سے شعوری طور پراللہ کو مانے اور اس کے حقوق کو پہچانے اور اس کے منتخب نمائندوں کی اطاعت کرے۔اسطرح یہ دنیا ایک طرح سے رزم گاہ حق و باطل ہے جس میں قیامت تک کے لئے خیر و شر کی جنگ جاری رہے گی۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

حق ایک واضح اور بین پیغام ہے اور انسانی فطرت کے اندر حق کو پہچاننے اور قبول کرنے کا مادہ موجود ہے۔اس جنگ میں جو بھی باطل کے علمبردار ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حق و باطل کے درمیان جو معرکہ برپاہے وہ واضح نہ ہونے پائےتاکہ انسان اپنی فطرت سے اس حق کو پہچان ہی نہ پائے۔ یا اگر کہیں کشمکش نظر بھی آئے تو انبیاء علیہم السلام کی برپا کی ہوئی کشمکش کے بجائے کچھ اور ہی کشمکش نظر آئے جس میں حق سرے سے غائب ہو۔یعنی باطل کی دو اقسام کی کشمکش نظر آئے جس میں انسان یہ سمجھے کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو مجبور پائے کہ ان دو باطلوں میں سے کسی ایک باطل کو قبول کرے۔یا اگر کہیں لا محالہ حق و باطل کی کشمکش واضح طور پر نظر آ بھی جائے تو حق کا صحیح پیغام عوام تک پہونچے ہی نہیں یا اگر پہونچ بھی جائے تو وہ باطل کے میڈیم سے پہونچے اور ان شیطانی قوتوں کو پورا اختیار ہو کہ وہ جس طرح چاہے اس طرح حق کے پیغام کو اپنی مرضی سےپیش کریں۔یہی وہ تلبیس ہے جو باطل کو پھیلانے کی ہر کوشش میں کارفرما ہے۔

انسان کے اندر بہت سی ذہنی اور نفسیاتی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور چونکہ اس خاکی انسان میں شر اور خیر کے دونوں رجحانات رکھے گئے ہیں اس لئے اس کی یہ صلاحیتیں کبھی حق کے لئے استعمال ہوتی ہے تو کبھی باطل کے لئے۔ ان انسانی خصوصیات کو تلبیس حق اور باطل کے لئے استعمال کرنے کی ایک زندہ اور بھر پور مثال روافض کے مقدمے میں نظر آتی ہے۔احساس مظلومیت ایک قسم کی تحریک ہے جو انسان کو بہت کچھ کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ عمل منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی۔اور جب احساس مظلومیت شدت اختیار کرتا ہے تو یہ کسی فرد کومشتعل بھی کردیتا ہے جس کا نتیجہ صرف منفی ہوتا ہے۔ شدید اشتعال میں یہ احساس یہ رخ بھی اختیار کرلیتا ہے کہ ایک شخص یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتاکہ جس بات پر اس کو اشتعال آیا ہوا ہے اس کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں۔ بلکہ بار بار اس طرح مشتعل ہونا اور شدید قسم کے احساس مظلومیت کا شکارہونے کے بعد وہ اس حد تک خود فریبی کا شکا ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے اس سے متعلق کسی بھی چیز کو سنجیدگی اور معروضی انداز میں دیکھنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جاننے کے باوجود ایک فرد ایسے کسی رخ پر سوچتے ہوئے بھی ڈرتا ہےجس سے اب تک اس کا اس طرح شدید جذباتی ہوجانا حماقت اور بے معنی نظر آنے لگے۔ جب اس طرح کے احساس کو زندہ رکھنے کی مکرر کوشش کی جاتی ہے تو پھر یہ احساس مظلومیت ایک نشہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس کے بارے میں سوچ سوچ کر ایک فرد مخصوص قسم کی لذت حاصل کرتا ہے۔

صدیوں سے اہل تشیع نے واقعہ کربلا کو اس طرح کے اشتعال انگیز احساس مظلومیت کو زندہ رکھنے کے لئے استعمال کیا ہوا ہے۔اس احساس مظلومیت کو زندہ رکھنے کے لئے جو بھی لوازمات ہو سکتے ہیں اس کو وافر انداز میں فراہم بھی کیا گیا ہے۔ پورے اہتمام سے ماتم کی مجلسیں سجانا، مخصوص قسم کے جذباتی انداز میں تقاریر کرنا، کچھ سچے جھوٹے واقعات اپنے مخصوص ہذیانی انداز میں بیان کرنا، سیرت اور بعد کے واقعات کی ایسی عجیب و غریب تعبیرات بیان کرنا گویا کوئی بہت بڑا سراغ ہاتھ آیا ہو، ماتم کے نام پر خود اذیتی کے جلسے کرنا اور باقاعدہ لوہے کے ہتھیاروں سے اپنے آپ کو زخمی کرنا اور ان سب کو پابندی کی ساتھ ہر سال دہرانا اور بچپن سے ہی ہرکسی کو اس کا عادی بنایا۔ یہ سب اعمال ظاہر ہے انسانی نفسیات پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات چھوڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اس طرح منظم انداز میں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے گویا کہ اس کے لئے باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بار انسانی ذہن اور فکری صلاحیت غلط راستے پر پڑ گئی تو کثیر انسانی تعداد کی ذہنی استعداد اس اندھے اور مشتعل کردینے والے احساس مظلومیت کی آبیاری میں شدت پیدا کرنے کے لئےآپ سے آپ استعمال ہوتی چلی گئی۔ اس نفسیاتی مرض کی شدت کچھ ایسی ہے کہ ہر مذہبی رافضی اس میں مبتلا ہےقطع نظر اس سے کہ اس کی ذہانت اور تعلیم کس درجے کی ہے۔ یہاں تک کہ رافضہ میں جو دیندار نہیں ہوتے ان کی بھی بڑی تعداد اسی احساس مظلومیت میں پناہ لیتی نظر آتی ہے اگر چیکہ اپنے مذہب پر عمل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے کچھ بڑے نام بھی شیعی پس منظر رکھتے ہیں لیکن وہ بھی صدیوں سے چلے آئے ان احمقانہ اشغال پر خاموش نظر آتے ہیں۔

سورہ ابراہیم آیت نمبر ۲۷ میں اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ وہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور سورہ غافر کی آیت ۷۴۔۷۵ میں زیادہ وضاحت آئی ہے کہ ان کے عذاب کی وجہ ناحق پرمگن ہونا اور اترانا ہے۔ سورہ غافر آیت نمبر ۳۴ میں اللہ فرماتا ہے کہ وہ حد سے بڑھنے والے اور شک کرنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ظلم کرنا، ناحق پر مزے کرنا اور خوش ہونااور حد سے بڑھنا خود گمراہی ہے۔ لیکن آگے اللہ یہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ مزید گمراہ کردیتا ہے۔ یہ گمراہی کی ایک نفسیات ہے ۔ اللہ تعالی نہ صرف یہ فرماتا ہے کہ وہ گمراہوں کو مزید گمراہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی ارشاد ہے کہ ان کے لئے یہ گمراہی مزین کردیتا ہے۔

سورہ انعام کی ہی آیت نمبر ۱۲۲ میں ارشاد ہے۔

بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کر دی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اس سے نکل ہی نہ سکے اسی طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔

کافروں کو اپنے اعمال اچھے لگنے کے بارے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ یوں رقمطراز ہیں۔

یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہِ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انھیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گِرنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھول نظر آتے ہیں۔ انھیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اْس سے بڑھ کر دْوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اِس اْمّید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دَہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا۔

اللہ نے پیغمبروں کے منکروں کے بارے میں فرمایا۔

اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا، وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو اور جو کچھ یہ افتراء کرتے ہیں اسے چھوڑ دو ۔اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انہیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہ ہی کرنے لگیں۔ (سورہ انعام ۱۱۲۔۱۱۳)

یہ ایک انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ جب کسی ذیباطیس کے مریض کے سامنے میڈیکل سائنس کی نئی ریسرچ پیش کی جائے کہ شکر کھانا صحت کے لئے نقصان دہ نہیں ہے تو ان میں کچھ ایسے ضرور ہونگے جن کا اس ریسرچ پربلا تحقیق یقین کرنے کو جی چاہے گا۔اسی طرح تقریباً تمام گمراہیاں نہ صرف اپنی گمراہی کے لئے جواز پیدا کرتی ہی بلکہ باقاعدہ رسم رواج، تحقیق ، مکالمات اور انسانی جذبات کو انگیخت کرنے لئے تحریری اور تقریری ادب بھی پیدا کرتی ہیں۔اور پھر ان مکالمات اور ادبیات کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نت نئی تحقیقات بھی پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے تحقیق کی بنیاد پر ادب اور مکالمات بننے کے بجائے ان مکالمات کے تقاضوں کے تحت تحقیق بننی شروع ہوجاتی ہے۔

گمراہیوں پر مزے لینا اور پھر رو رو کر ماتم کرکے شدید قسم کی احساس مظلومیت سے تلذذ حاصل کرنااور اس ماتم کے سرور کا اس حد تک عادی ہوجانا کہ ایسے کسی حق سے بھی خوف کھانا جس میں یہ آہ و بکا نہ ہوایک شاندار شیطانی کارنامہ ہے۔اہل تشیع کی ذکر کی مجلسیں ایسی ہی پر انگیخت اور جذباتی مکالمات سے پر ہوتی ہیں کہ اگر راسخ العقیدہ اہل سنت شخص بھی حاضری دے تو ان جذبات کے بہاؤ میں یہ بھی بہہ جائے۔ جذبات کی شدت کو ایسے مہمیز دی جاتی ہے کہ کسی عام آدمی کا ذہن اس طرف جا ہی نہیں سکتا کہ جو باتیں کہی جارہی ہیں وہ معقول، مستند اور تناقضات سے پاک ہیں بھی یا نہیں۔ بلکہ ادبیت، لفاظی اورجذباتیت پیدا ہی اس لئے کی جاتی ہے کہ کسی کا ذہن معروضی انداز میں سوچے ہی نہیں اور یہی لفاظی دلائل کے متبادل کا کام دیتی ہے۔

ان ادبی مکالمات میں انبیاء کا پیش کیا ہوا مقدمہ سرے سے غائب ہوتا ہے۔ پورا کا پور دین حسینیت اور یزیدیت کے گرد گھومتا ہے۔ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن میں انبیاء علیہم الصلاہ والسلام کو حق کے نمائندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ فرعون، نمرود، ابولہب، اور کفارکے لیڈروں کو باطل کے نمائندوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اہل تشیع کے حق اور باطل کا مکمل تصور یزیدت اور حسینیت کے گرد گھومتا ہے جس کا تاریخی پس منظر کئی اعتبارات سے مشکوک ہے۔اس سے بڑی تلبیس اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک مشکوک واقعے کو حق و باطل کے طور پر پیش کیاجائےجس کی تصدیق قرآن سے نہ ہوسکتی ہو اور قرآن پاک میں پیش کئے گئے حق و باطل کے نمائندوں کو کلی طور پر نظر انداز کیا جائے؟ قرآن جنگ بدر کے دن کو یوم الفرقان قرار دیتا ہے جبکہ شیعیت کے عقائد کربلا کے گرد گھومتے ہیں۔اس سلسلے میں انسانی جذباتیت کے بعض عجیب و غریب کارنامے نظر آتے ہیں۔ سانحۂ کربلا کے واقع ہونے میں بنیادی کردار کوفہ کے شیعان علی کا رہا ہے اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کےتاریخی ذخائر سے ثابت شدہ ہے۔ لیکن واقعہ کربلا بیان کرنے کے پورے تناظر میں یزید پر لعنتیں کرنا تو یاد رہتا ہے اور اہل کوفہ کی غداری بیان سے غائب ہوجاتی ہے۔

کربلا کے واقعہ کے تناظر میں حضرت حسین، علی بن حسین اور زینب بنت علی کی جذباتی اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور تقاریر بھی پائی جاتی ہیں ۔ اہل تشیع کی روایات کے مطابق وہ تقاریر عین میدان جنگ میں اور یزید کے دربار تک میں کی گئیں۔قطع نظر اس سے کہ ان تقاریر کی اسانید کی کیا حقیقت ہے، یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی فوج اپنے حریف کو خود انہیں کو مخاطب کر کے ایسی زبردست تقاریر کرنے کی اجاازت دے؟ جبکہ اسی فوج پر نواسۂ رسولؓ اور ان کے پورے خاندان کے قتل کا الزام بھی ہو؟ صاف بات ہے کہ ذاکرین کی مجلسیں گرمانے کے لئےایساشدید اور لفاظی سے بھرپور ادب اس مذہب کا لازمی تقاضا ہے۔ادبیات کی لفاظی، ہیجانی مکالمات، جذباتی شاعری، دور کی کوڑیاں اور نکتوں سے نکتے نکال کر کی ہوئی تقاریر، یہ اہل تشیع کے وہ زخرف القول(۱)  ہیں جس کے ذریعے انسانوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آدم ؑ سے لے کرنبی آخرالزماںﷺ تک شیطان نے انسانی نفسیات کا مطالعہ و مشاہدہ کر کے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس کو بھرپور انداز میں اس رافضی ہیجانیات کی تخلیق میں استعمال کیا ہے۔

الغرض ایک اجتماعی پیرانوئیا(۲)  (Paranoia) کی کیفیت ہے جو ہر بڑے چھوٹے, خاص و عام، عالم و جاہل پر یکساں مسلط ہے۔پھراس ہیجانیات نے وہ وہ ہوشربا کارنامے انجام دئے کہ انسانی عقل ششدر رہ جائے۔ایک بار اس نفسیات کی بنیاد پڑ گئی تو پھر یہ بیک ٹریک(backtrack) پر چلی گئی اور نئی روایات گڑھ کر اپنی اس مظلومیانہ نفسیات کے لئے نئی تاریخ بھی پیدا کرتی چلی گئی۔ پہلے چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کا معرکہ حسینیت اور یزیدیت میں تبدیل ہوگیا اور پھر خلافت بمقابلہ خفیہ امامت کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت حسینؓ کی مظلومانہ شہادت کے نتیجے میں جو انتشار پیدا ہوا وہاں سے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا حساب کتاب بھی شروع ہوجاتا ہے۔ پھر ان اصحاب کے تمام کارناموں کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انہیں کارناموں کوان کی برائیاں ثابت کی جاتی ہے۔ پھر ایک قدم مزید پیچھے جاکر نبوت تک کی تاویل اس انداز سے کی جاتی ہے کہ گویا نبیﷺ اس دنیا میں صرف اپنی" خاندانی سیادت" قائم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ باقی توحید و شرک کا مسئلہ دین سے سرے سے غائب، بلکہ اسی اہل بیت کی ارتکازیت کے شوق میں "معصومین" سے دعائیں بھی ہوتی ہے بلکہ انہیں اللہ کی ربوبیت کا شریک بھی قراردیا جاتا ہے۔

ایک طویل عرصے تک یہ مظلومانہ نفسیات کا طلسم اندر ہی اندر غیر محسوس انداز میں شدت اختیار کرتا رہا ہے جس کا اندازہ اہل سنت کو طویل عرصے تک نہیں ہوسکا۔پچھلی دو صدیوں سے طاری سیکولرزم اور کئی صدیوں سے جاری تصوف نے اس مخفی جذبے کی نشؤنما کے لئے بہت ہی سازگار ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یزید تو کب کا مر کھپ چکا تھا اس لئے اس شدت احساس کو باقی رکھنے کے ایک زندہ دشمن کی ضرورت تھی۔ اسلئے محرم میں ماتم نہ کرنے والے، صحابہ کے نام لیوااورمعصومین کی عبادت سے گریزاں، یعنی اہل سنت ہی انکی اس بیمار نفسیات کے نشانے پر رہے۔ یہ اتنے طویل عرصے تک اس قوم پر یہ شیطان کی انوسٹمنٹ تھی ۔ وہ فتنہ جس کا بیج مدینے کے منافقوں نے بویا تھا، پھر جسے عبد اللہ ابن سبا نے نشؤنما دی، پھر شہادت حسین جیسے افسوسناک واقعے نےجسے مزید پانی فراہم کیا، صفویوں کے دور میں جس کی خوب آبیاری کی گئی، سیکولرزم اور جدت پسندی کے فتنے نے جس کو خفیہ انداز میں اندر سے مضبوط ہونے کا موقعہ فراہم کیا وہ آخر میں ایران کے "اسلامی" انقلاب کے نتیجے میں تقیہ کے جامے سے باہر آگیا۔ اب یہ فصل پک کر تیار تھی۔ شیطان بزرگ اور اسرائیل کے خلاف زبان درازیاں کر کرکے یہ مسلمانوں کی نمائندہ بننے کی بہت کوشش کرچکی ہے۔ لیکن افغانستان، عراق اور شام میں اس پکی پکائی فصل نے جو کارنامے انجام دئے اس سے سب کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ ہٹ جانا چاہئے۔ اور اب شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بعد ہوش کے ناخن لے ہی لینے چاہئے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ضرورت پڑی تو شیطان بزرگ سے بھی اور شیطان کوچک (روس) سے بھی اتحاد ممکن ہے اور ان کا جو بھی اتحاد ہوگا اس کا مقصد اہل سنت کو نشانے پر رکھنا ہے۔ جن کے یہاں پر ابوجہل، ابو لہب اور فرعون کے بجائے حضرات شیخین اور امہات المؤمنین باطل کی علامات ٹہریں ان سے اور توقع بھی کیا رکھی جاسکتی ہے۔

۱۔ زخرف القول یعنی ملمع کی ہوئی باتیں، یہ الفاظ اوپر مذکورآیت سورہ انعام ۱۱۲ میں موجود ہیں۔

۲۔پیرانوئیا (paranoia) ایک نفسیاتی کامپلیکس ہے جس سے متاثر شخص پر اپنے بارے میں شدید اور نامعقول حد مظلومیت کا احساس مسلط ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو پیرانوئڈ (Paranoid) کہتے ہیں۔ یہ ایک خود فریبی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں دوسرے فریق کی ہر حرکت کے پیچھے اسے اپنے خلاف کوئی سازش نظر آتی ہے۔ ایک واقعہ جس کو عام آدمی اتفاق سمجھتا ہو اسے ایک پیرانوئڈ شخص کڑیوں سے کڑیاں ملا کر ایک بہت بڑی سازش کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اکثر سازشی نظریات بھی اسی کامپلیکس کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز