حمد خدائے ذوالجلال کی، جس نے ہمیں نعمتِ توحید کی قدر آشنائی دی۔
جس نے ہم پر آشکارا کیا کہ ملتِ ابراہیم ؑسے منہ موڑے تو اک وہی شخص جو دامنِ ہوش چھوڑ گیا ہو۔
جس نے ہمیں ازبر کرایا کہ کوئی خیر ہم میں یا ہمارے جینے میں نہیں اور نہ کسی بھلائی کی اپنی دنیا میں ہم کبھی آس رکھیں جب تک کہ ہم اللہ رب العالمین کی توحید پر قائم نہ ہو جائیں، بلا شرکتِ غیرے اُس کی بندگی کرتے ہوئے اور خالصتاً اُس کے رسول ﷺکے پیرو ہو کر۔
جس نے ہمیں شعور بخشا کہ کسی سے لو لگائیں تو خدا واسطے کی، کسی سے دشمنی کریں تو خدا تعلق سے، ہماری دوستی ہو تو خدا کیلئے، محبت ہو تو اُس کی خاطر، بغض اور براءت ہو تو اُس کی حمیت میں، کسی کو دیں تو اُس کی طمع میں، نہ دیں تو اُس کی غیرت میں۔
جس نے ہمیں یہ راہ دکھائی کہ ہمارے دنیا و آخرت کے جملہ امور اور ہماری دین و دنیا کی سب سرگرمیاں اُسی کا چہرہ پانے کا عنوان ہو جائیں۔ اِسی کی بنیاد پر ہم اپنے نفوس کے ساتھ مجاہدہ کریں اور اِسی کی بنیاد پر ہم مخلوق کو اِس راہ پر لے آنے کیلئے جہاد کریں اور عالمِ انسانیت پر آشکارا کریں کہ یہ ہے انبیاءو مرسلین کا دین:
”تجھ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا تو وہ یہی وحی دے کر کہ نہیں کوئی لائق بندگی و پرستش مگر میں ہی۔ پس پوجو تو مجھے ہی“(25: 21)
”ہم نے ہر امت میں ایک پیغام بر بھیج دیا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے دامن کش رہو" (36: 16)
یہ ہے اِس دینِ عظیم الشان کا وہ اصل جوہر___ توحید ___جسے دے کر اُس نے ہمیں جملہ اقوام میں ممیز کر دیا۔ یہ ہے وہ سب سے بڑی نعمت اور وہ سب سے بڑا احسان جو جہانوں کے مالک نے ہم امتِ اسلام پہ کر رکھا ہے۔
تو کیا پھر ممکن ہے کہ ایک شخص جو اُس کو پہچان چکا ہے،جو اُس کی یکتائی کا ہر دم معترف اور اُس کا کوئی ایک بھی شریک ٹھہرائے بغیر اس کے ساتھ رشتۂ وفا و بندگی استوار رکھتا ہے، اور دوسرا شخص جو اُس کی بنائی ہوئی مخلوق کو اُس کا ہی ہم مرتبہ و ہم سر ٹھہراتا ہے، اُس کے ہاں ایک برابر ہوں ؟
خدا کے ہاں تو کبھی برابر نہ ہوں گے!!!
حمد اس ذات کی جس کی توحید کا دامن پکڑنا دنیا و آخرت میں نجات کا سہارا ہے:
”یقین مانو جس نے اللہ کے ساتھ کوئی شریک ٹھہرایا اللہ نے اس پر جنت تو حرام ہی کر دی۔ اس کا ٹھکانہ البتہ جہنم ہے۔ اور ایسے ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں“(72: 5)
حمد اس ذات کی جس کی توحید پر رہ کر، اور اس کی طرف، پوری زندگی رسول اللہ ﷺنے پکار لگائی اور مرتے دم تک جہاد کیا..
حمد اس ذات کی جس کی توحید ہی اس جہادِ بے مثال کا محرک رہی جو اصحابِ رسول اللہ ﷺنے اس کی محبت میں سرشار اور اُس کے اِس خاص راستے اور مشن کا پابند رہ کر کیا اور جس کی خاطر وہ اپنے اس بنجر جزیرے سے نکل کر زمین میں شرق تا غرب پہنچے.. ایک ایسا واقعہ جو کہ آج تک تاریخ کے طالبعلموں کی نگاہوں کو خیرہ کئے جاتا ہے..!!!
عرب کے ریگزار سے ایک قوم نکلتی ہے.. اِس کے پاس نہ کوئی تہذیب ہے جو یہ اپنے آبا کے نام سے پیش کر سکے اور نہ کوئی علوم وفنون اور سائنس۔ کوئی ایسے تاریخی مفاخر نہیں جو اقوامِ عالم پر اِس کی دھاک بٹھا لیں۔ کوئی قدریں نہیں جو اِس کا حوالہ بنیں سوائے ایک موروثی جاہلیت کے اور کچھ فرسودہ رسم و رواج کے۔ مگر یہ کمال اعتماد سے اطرافِ عالم میں سیادت کے مشن پر نکلتی ہے اور دنیا فوج در فوج اس کے ساتھ ہو لیتی ہے اور اس کی آواز میں آواز ملا کر تنہا رب العالمین کی بندگی کرنے لگتی ہے..
حمد اس ذات کی.... کہ تاریخ میں جھانکنے والی شرک گزیدہ قومیں جہاں بوسیدہ بستیاں کھودتی اور اوندھے منہ پڑی تباہ شدہ تہذیبوں کو ٹٹولتی پھریں، وہاں اس نے انبیا کا وہ نفیس ترکہ جوکہ عالمِ انسان کا سب سے عظیم اور سب سے بیش قیمت ورثہ ہے، پورا کی پورا اب قیامت تک کے لئے ہمارے ہی حصے میں کردیا.... کہ انبیا اپنے ورثے میں سونا چھوڑ گئے اور نہ چاندی۔ چھوڑا تو علم چھوڑا۔ جس کا اصل سِرا خدا کو جاننا ہے اور اس کی یکتائی کا پتہ پاس رکھنا:
”پس پاؤپتہ اس بات کا کہ نہیں کوئی پرستش کے لائق سوائے ایک اللہ ..“(47:19)
جس نے رہتی دنیا تک کیلئے یہ انتظام کر دیا کہ اسی عقیدے پر استقامت اختیار کر کے یہاں ”تجدید“ کی دعوتیں کھڑی ہوتی رہیں اور ہر صدی میں ہی اس امت کیلئے اس کے دین کو پھر سے نیا اور تر و تازہ کردیا کریں..
حمد صرف اور صرف اسی ذات کی..
********