عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
یکے از واہیاتِ عصر: چھ فٹ جسم والی ’دلیلِ متواتر‘!
:عنوان

یہ ’گناہگار‘ اپنے نبیؐ کے گستاخ کی خبر لینے چل دے تو ’نادان آدمی! اپنے اعمال تو پہلے درست کر لو‘! یہی ’بےپردہ‘ بی بی یا ’داڑھی منڈا‘ آدمی آپ کے مدرسے کو ایک بھاری چیک دے تو ’جزاک اللہ‘، ’اللہ قبول فرمائے‘!

:کیٹیگری
ابن علی :مصنف

 
یکے از واہیاتِ عصر

چھ فٹ جسم والی ’دلیلِ متواتر‘!


   
 
محدثین کی اصطلاح میں ”واہیات“ اُن احادیث کو کہا جاتا ہے جن کا کوئی سر پیر نہ ہو اور وہ خوامخواہ لوگوں میں چل گئی ہوں۔ ہم اِس اصطلاح کو یہاں اُن ’شرعی مسئلوں‘ کیلئے استعمال کر رہے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں مگر وہ خوامخواہ لوگوں میں چل گئے ہیں، یہاں تک کہ سننے پڑھنے والا کسی کسی وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا اِن پر فقہائے امت نے اجماع کر رکھا ہے! حالانکہ علمی وفقہی بنیادوں پر ان مسئلوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہوتی۔
 
دروغ بر گردنِ راوی.. ناموسِ رسالت کا مسئلہ جن دنوں زوروں پر تھا، ’ورلڈ کپ‘ ابھی نہیں آیا تھا، اور فضائیں رسول اللہ کی نصرت پر مبنی آوازوں اور لہجوں سے لبریز تھیں.. کچھ عقیدت مندوں نے ملک کی ایک نامور دینی شخصیت کو خاموش پا کر کہ جس کے دروسِ قرآن کے کیسٹ پاکستان بھر میں سنے جاتے ہیں اور انٹرنٹ پر بھی ان دروس کی گونج ہے، اُس کے دَر کا قصد کیا اور عرض کیا کہ ناموسِ رسالت پر سبھی لوگ بول رہے ہیں کیا ہم اِس پر خاموش ہی رہیں گے؟ ہمارا اتنا بڑا گروپ جو دنیا بھر میں اپنی برانچیں رکھتا ہے، توہین رسالت ایسا مسئلہ جس پر دنیا کھول رہی ہے، کیا ہمارے لئے غیر موجود ہی کا درجہ رکھے گا؟ اِس پر یہ شخصیت جلال میں آئیں، اور سوال کنندگان کو سرزنش فرمانے لگیں: ’کیا کہا؟ ابھی ہماری کوئی تربیت ہوئی ہے؟ ابھی ہمارے معاملات شریعت کے مطابق ہوئے ہیں؟ کیا ہم نے قرآن کو گھر گھر پہنچا لیا ہے؟ کیا خود ہم نے قرآن کو صحیح طرح سمجھ لیا ہے؟ کیا ہم نے دین پر عمل کر لیا ہے؟
اب کون ولی اللہ ہے جو اِن سوالوں کا جواب ہاں میں دے اور کہے کہ: ہاں میری تربیت ہو چکی ہے۔ میرے سب معاملات شریعت کے پورا پورا مطابق ہیں۔ میں نے قرآن گھر گھر پہنچا لیا ہے۔ اور خود میں نے قرآن کو بالکل صحیح طرح سمجھ لیا ہے۔ اور میں نے دین پر عمل بھی کر لیا ہے!
ظاہر ہے جو شخص اِن سوالوں کا جواب ہاں میں دے دے، وہ تو اُس کے اپنے ہی خلاف دلیل ہو گی کہ اِس شخص کی تربیت ابھی نہیں ہوئی ہے۔ ایسا شخص تو خود ہی ثابت کر دے گا کہ اِس کو ابھی دین کی الف ب پڑھنے کی ضرورت ہے!
تو پھر کم از کم بھی، اِس نکتہ پر داد تو دیجئے! یعنی ایک ایسا کمال کا سوال جس کے جواب میں آپ ’ہاں‘ کہیں تو تب نصرتِ رسول اللہ کا فرض ساقط ہے اور اگر ’ناں‘ کہیں تو تب نصرتِ رسول اللہ کا فرض ساقط ہے!.... خلاصہ یہ کہ نصرتِ رسول اللہ کا فرض ساقط ہی ساقط ہے....!
جائیے، پہلے اپنی تربیت کروا کر آئیے۔ اپنے معاملات کے باشرع ہونے کی تسلی کر کے آئیے۔ قرآن کو گھر گھر پہنچانے کا ہدف سر کر کے آئیے۔ خود بھی قرآن کے علامہ ہو کر دکھائیے۔ اور اِس بات کو یقینی بنا کر آئیے کہ آپ پورے دین پر عمل پیرا ہو چکے ہیں.... اِس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ باہر سڑک پر ہمارے نبی کو جو گالی دی گئی ہے اس بدبخت کا ہم کیا کر سکتے ہیں!
٭٭٭٭٭
مضمون کے اعتبار سے یہ ایک ہی ’دلیل‘ ہے جو اِس سے پہلے ہمارے تبلیغِ دین میں مصروف بعض حلقوں کے یہاں عرصہ سے سنی جاتی رہی ہے (البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ’حجتِ متواترہ‘ کا درجہ اختیار کر گئی ہے)....
اِس ’حجت‘ کا استعمال ابھی تک جہاد سے روکنے کیلئے ہوتا آیا تھا یا باطل کے خلاف آواز اٹھانے والے تحریکی حلقوں کو ایک عدد ’دلیلِ شرعی‘ کی مدد سے خاموش کروانے کیلئے۔ یعنی جس نے بھی غلبۂ باطل کے خلاف مسلمانوں کو اُن کا کوئی فرض یاد دلانے کی کوشش کی، جھٹ سے اُس کو یاد دلایا: اپنا یہ چھ فٹ کا جسم دیکھا ہے؟ کیا اِس پر تم نے اسلام کو قائم کر لیا جو پورے جہان میں غلبۂ اسلام کرنے چلے ہو! ظاہر سی بات ہے اِس کے جواب میں وہ ’ہاں‘ تو نہیں کہہ سکتا؛ جس کا آپ سے آپ یہ مطلب ہوا کہ فی الحال __ اور ایک نامعلوم عرصہ کیلئے __ جہاد ساقط، اور غلبۂ کفر کے مسئلہ کو طاقِ نسیاں میں ڈال دینا واجب! اٹھو، مسواکیں پکڑو اور اپنے کام سے کام رکھو، اعمال کو ٹھیک کرو، احوال کو بہتر بناؤ، اور مقامات کی فکر کرو۔ یہ سب کر اؤ تو ’جہاد‘ اور ’غلبۂ کفار‘ اور ’حکمرانیِ باطل‘ ایسے کسی مسئلہ پر بھی ضرور بات کر لینا! بلکہ یہ ’مجاہدۂ نفس‘ایک بار تکمیل کو پہنچ جائے، تو احتمالِ غالب یہ ہے کہ ہمارے اِن اعمالِ صالحہ کی برکت سے دنیا میں کفر کا غلبہ ویسے ہی ختم ہو چکا ہو، اور تمہیں تب بھی یہ مسئلہ اٹھانے کی ضرورت نہ رہے!
جبکہ احتمالِ اَغلب یہ ہے کہ جب یہ ہو گا (اگر ہو گا) تب تک یہ دنیا ہی باقی نہ رہے جس کے اندر اللہ نے مجھ پر اور آپ پر قتال کو فرض کر رکھا ہے، کفار سے دست بدست جنگ کا حکم دے رکھا ہے اور اس پر بیسیوں آیات نازل فرما رکھی ہیں، اور جس کے اندر طاغوت کے ساتھ کفر کرنے کو ایمان کی شرطِ اول ٹھہرا رکھا ہے اور باطل کے خلاف صف آرا ہونے اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ دوبدو ہونے کو میرے اور آپ کے ایمان کی جانچ کا ایک باقاعدہ ذریعہ اور ایک لازمی کسوٹی بنا رکھا ہے، اور شدت کے ساتھ واضح کر رکھا ہے کہ اِس باطل کے خلاف اگر ہم اندر تک کھول نہیں رہے تو ولیس وراءذٰلک حبۃ خردل من الاِیمان۔ یعنی { اصل فرض تو یہ ہے کہ باطل کا انکار ہاتھ سے اور بصورتِ مجبوری زبان سے ہو، اور اگر بالکل ہی مجبوری ہو تو کم از کم بھی یہ ہو کہ دل باطل کا انکار کر رہا ہو، بصورتِ دیگر سمجھ لو} ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔
اب وہ صورت جس کو رسول اللہ ﷺ نے ”ولیس وراءذٰلک حبۃ خردل من الاِیمان“ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، ہمارے بہت سے دعوتی، وتربیتی و تبلیغی حلقوں کے یہاں وہی دین کی معراج ٹھہری ہے....!
ذرا واضح ہو جائے.... ایمان کی کمترین حالت نہیں، بلکہ وہ حالت جہاں ایمان کی کمترین حالت بھی نہیں رہتی، یہاں دین کی معراج ہے!
اِن حلقوں میں ہونے والی ذہن سازی کو آپ ذرا غور سے دیکھیں تو یہی تصویر سامنے آتی ہے:
- عملاً جہاد ہو اور باطل کے خلاف سرگرمیِ عمل ہو، {یعنی آدمی فلیغیرہ بیدہ کے زمرے میں آتا ہو} یہ تو خیر بے حد برا ہے اور ایسے شخص کو تو ہدایت کی راہ پر لانا بے حد ضروری ہے!
- قتال فی سبیل اللہ کیلئے، یا ملک میں باطل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کیلئے، کوئی شخص محض آواز اٹھاتا ہے، {یعنی فبلسانہ کے زمرے میں آنے کیلئے کوشاں ہے} یہ بھی شدید حد تک قابل اصلاح ہے اور اسکا ’منہج‘ درست کرانا فی الفور ضروری!
- کوئی شخص باطل کے مدمقابل عملاً تو کچھ نہیں کر پا رہا، نیز زبان سے بھی باطل کے ساتھ نبردآزما نہیں ہے، محض اِس درد کو عام کرتا ہے {اور آپ جانتے ہیں درد، دل کا عمل ہے، جبکہ باطل و منکرات کے خلاف دل سے کڑھنا ازروئے حدیث (فبقلبہ) ایمان کا کمترین درجہ ہے} .. وہ بھی ہمارے اِن دعوتی، وتربیتی، و تبلیغی حلقوں میں ہرگز ہرگز مستحسن نہیں؛ اِس شخص کا ذہن بدلنے کیلئے بھی ابھی ’اچھا خاصا کام‘ ہونے کی ضرورت ہے!
ہاں جب اُس کے دل اور دماغ تک سے قتال فی سبیل اللہ اور باطل کے خلاف سرگرم ہونے کا تصور نکال دیا گیا اور وہ فبقلبہ کے درجے سے بھی گر گیا اور جوکہ ایمان کا کم از کم درجہ تھا.. دوسرے لفظوں میں: از روئے حدیث وہ ایمان میں فیل ہو چکا.... تو اب وہ ہمارے اِن دعوتی و تربیتی وتبلیغی حلقوں کے یہاں پاس ہو جاتا ہے! اور وہ 'minimum requirement' پوری ہو جاتی ہے جو اُسے اِن حلقوں کے یہاں قبول کروا دے! بلکہ قبول کروائے رکھے! جیسے ہی وہ اِس حالت سے نکلا، خطرے کی گھنٹیاں فوراً بول اٹھیں گی!
٭٭٭٭٭
حضرات! مسلمانوں کے بدترین سے بدترین دور میں بھی جو ترکِ جہاد ہوا ہو گا، وہ ایک گناہ تو بہرحال باور ہوا ہو گا! اس پر شرمساری تو ضرور ہوئی ہو گی! کسی نے اِس کو اپنا ’منہج‘ تو ڈیکلیر نہیں کیا ہوگا! کوئی اِس ’منہج‘ کا داعی تو نہیں دیکھا گیا ہوگا! اِس منہج کی باقاعدہ پراپگیشن تو سننے میں نہیں آئی ہوگی! جہاد اور نہی عن المنکر ایسے ایک ثابت و معلوم حکمِ شرعی کے مقابلے میں کسی نے ’چھ فٹ‘ والی دلیل تو نہیں دی ہو گی! معاشرے میں جس طرح کوئی تارکِ نماز، یا تارکِ روزہ، یا تارکِ حج، یا تارکِ داڑھی، یا تارکِ پردہ.. اُتنا ہی خدا کا نافرمان اُس معاشرے کا تارکِ جہاد۔ جتنی ندامت کسی بے ریش مرد کو یا کسی بے پردہ عورت کو ہوتی یا (دروسِ قرآن کے اندر!) کرائی جاتی ہوگی، کم از کم اُتنی سی ندامت تو اُس شخص کو یا اُس ’تحریک‘ کو ضرور ہوتی ہو گی جو اپنی کسی بھی حیثیت کے اندر جہاد میں شامل نہیں....! اُس کو خدا کا نافرمان تو تسلیم کیا گیا ہو گا!
حضرات! مسلمانوں کے کسی بدترین سے بدترین دور میں بھی.... ترکِ جہاد کو ’شریعت‘ سے ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں ہوئی ہوگی! اِس پر خدا سے ’اجر وثواب‘ پانے کی امیدیں تو وابستہ نہیں کرائی گئی ہوں گی! اِسکو ’راہِ حق‘ تو باور نہیں کرایا گیا ہو گا!
تصور تو کیجئے.... جہاد کا حکم دینے والی قرآن کی بیسیوں آیات ایک طرف، اور ہمارے اِن نیک حضرات کی چھ فٹ والی دلیل ایک طرف!
سو باتوں کی ایک ہی بات۔ قرآن میں جتنی بھی بار حکم آیا ہو، حدیث میں کتنی بھی تاکید ہوئی ہو، جہاد کی فرضیت کتنی بھی ثابت و محکم ہو، باطل کے خلاف ہاتھ سے، زبان سے اور دل سے نبردآزما ہونا کتنا ہی بڑا فرض ہو، جوکہ منسوخ بھی نہیں، موقوف بھی نہیں، ساقط بھی نہیں.... یہ سب اپنی جگہ، لیکن آپ یہ بتائیے کہ یہ جو آپ کا چھ فٹ کا جسم ہے اس کے ہر انچ پر شریعت نافذ ہے یا نہیں؟!
سو دلیلوں کی ایک ہی دلیل....!
آیات ایک طرف۔ احادیث ایک طرف۔ جہاد کی فرضیت پر امت کا اجماع ایک طرف۔.... اور یہ چھ فٹ والی دلیل ایک طرف۔ یہ اکیلی اُن سب دلیلوں پر بھاری ہے! آیات اور احادیث کے مقرر و حتمی ٹھہرائے ہوئے ایک فرض کو یہ اکیلی ’دلیل‘ بڑے آرام سے ساقط کر سکتی ہے!
دورِ جہالت کا شاخسانہ ہی تو ہے.... کسی نے سوال کرنے کی زحمت بھی شاید ہی کبھی کی ہو، یہ ’دلیل‘ جو اَب ہر بیٹھک، ہر چوپال، ہر فورم اور ہر مجلس میں چلتی ہے اور بدیہیات کا درجہ اختیار کر گئی ہے.... آخر وارد کہاں ہوئی ہے؟ قرآن میں؟ حدیث کے اندر؟ اِس پر فقہائے امت کا کوئی اجماع ہوا ہے؟ اِس کا ماخذ کوئی مستند قیاسِ شرعی ہے؟ یہ ’چھ فٹ‘ والی دلیل دین میں آکہاں سے گئی ہے؟ دین کا جو اتنا بڑا فرض (جہاد و کفر بالطاغوت) بیک جنبشِ قلم ساقط ٹھہرا دیا ہے، نہ صرف ساقط ٹھہرا دیا ہے بلکہ ممنوع ٹھہرا دیا ہے یعنی اس کو ہاتھ لگانا تک جائز نہیں رہ گیا، مصادرِ دین سے آخر اِس ’دلیل‘ کا کوئی تو حوالہ ہو؟ کوئی ضعیف حدیث ہی لا دیں! کچھ تو ہو!
اتنی ’قطعی‘ و’حتمی‘ حجت، مگر حوالہ کوئی نہیں....!
یعنی واہیات!
٭٭٭٭٭
البتہ اب اِس ’دلیل‘ نے مزید ترقی پانا شروع کر دی ہے۔ جہاد کے علاوہ یہ اسلام کے کئی دیگر ابواب کو بند کروا دینے پر بھی حجت اور سند ہوتی جا رہی ہے، جیسا کہ دروسِ قرآن کی عالمی تنظیم کی اِس مقتدرہ شخصیت کے بیان سے عیاں ہوا ہے۔ اِس کا لب لباب یہی ہے کہ (معاذ اللہ) کوئی ہمارے نبی کو جیسے مرضی گالی دے جائے، اُس کا نوٹس لینا تک ہم پر واجب نہیں ہے کیونکہ ہماری تربیت ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور ہم نے قرآن پر پوری محنت نہیں کر لی ہوئی ہے!
اِس کی سیدھی وجہ اگر یہ بیان کر دی جاتی تو فقہی اعتبار سے شاید تھوڑا بہت قابل غور بھی ہوتی کہ بھئی دیکھو، ناموسِ رسالت کے حوالہ سے اِس موقعہ پر اگر ہم نے امت کی ہاں میں ہاں ملائی تو مغربی ممالک میں ہمارے ویزوں پر پابندی لگ جائے گی، ہمارے دروسِ قرآن کے مراکز وہاں پر بند کر دیے جائیں گے اور وہ ہزاروں مسلمان جن کو وہاں پر ہمارے علاوہ کوئی اسلامی راہنمائی حاصل نہیں اور جن کی دینی حالت بھی آپ جانتے ہیں نہایت دگرگوں ہے اگر ان کو اسلامی راہنمائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ملت کفر کا حصہ بن جائیں گے، لہٰذا اِس خدشے کے پیش نظر ہم مغرب کیلئے اپنے ویزوں اور مغرب میں اپنے دروسِ قرآن سنٹروں کی قربانی نہیں دینا چاہتے۔ سچ بھی ہوتا اور بات میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہوتا۔ کم از کم، عذرِ گناہ بدتر از گناہ نہ ہوتا۔
لیکن یہ دلیل دے دی جاتی تو اِس سے یہ ہوتا کہ:
- ایک تو یہ ایک ایسی تحریک نظر آتی جو مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے مثالی ہو تو ہو، پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی ضرورت کیلئے ناکافی ونامناسب ہے۔ ظاہر ہے امریکہ و کینیڈا میں بسنے والے مسلمانوں کو کوئی ایسی چھوٹ دینے کا اگر کوئی اجتہاد ہو بھی گیا ہے کہ وہ عالم اسلام کے مسلم ایشوز کی خاطر اپنے مقامی مفاد کی قربانی نہ دیں، تو تین براعظموں پر مشتمل عالم اسلام کے مسلمانوں پر کہاں سے یہ واجب ہو گیا کہ عالم کفر میں رہائش پزیر چھوٹی چھوٹی مسلم کمیونی ٹیز کیلئے وہ اسلام کے سب عالمی مسائل کی قربانی کر دیں، یہاں تک کہ اپنے نبی کی ناموس ایسے مسئلہ کو ہی مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی خیریت و عافیت کے چرنوں میں قربان کر آئیں؟ چنانچہ مغربی ممالک میں رہائش پزیر مسلمانوں کو کوئی چھوٹ دینے کا اجتہاد اگر کہیں پر پایا بھی گیا ہے تو ڈیڑھ ارب پر مشتمل، مسلم جذبے سے بھرے ہوئے اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پورے کے پورے عالم اسلام کو اُس ’اجتہاد‘ کی بیڑیاں کیونکر پہنائی جا سکتی ہیں؟ چند لوگوں کے ’گرین کارڈ‘ کی یہ اہمیت کہاں سے ہو گئی کہ اِس کے عوض میں پورے عالم اسلام کو ذلت کا طوق ڈلوا دیا جائے؟ چند لوگوں کو سفر کی سہولت ملی رہنے کیلئے یہ کہاں سے ضروری ہو گیا کہ یہ امت اپنے نبی کی ناموس پر خاموش رہنا قبول کر لے؟ اِس سے بڑھ کر خیانت امت کے ساتھ اور امت کے مفاد کے ساتھ اور امت کے نبی کے ساتھ کیا ہو سکتی ہے؟ مسئلہ ویزوں اور گرین کارڈ کا، جبکہ امت کو طعنہ یہ کہ ابھی اس کی تربیت نہیں ہوئی! لہٰذا توہینِ رسالت کے مسئلہ پر جیسے ہم چپ ہیں ویسے پوری کی پوری امت پر بھی چپ سادھ لینا فرض ہے، اور یہی اِس دور میں ایک ’صحیح ترین‘ اور ’مثالی ترین‘ منہج ہے!
شاید آج تک نہیں دیکھا گیا کہ ’گرین کارڈ‘ پورے ایک ’منہج‘ کی تشکیل کر گیا ہو!
- دوسرا، اِس سے یہ ہوتا کہ وہ ہزاروں ’عقیدت مند‘ جو پاکستان میں ہیں اور اپنی قیادت کے برعکس، گرین کارڈ کی ضرورت سے مستغنی ہیں.. کم از کم اُن کیلئے اِس بات کی اجازت نکل آتی (ابھی ہم فرضیت کی بات نہیں کر رہے) کہ وہ تو بہرحال اپنے نبی کی ناموس کیلئے زوردار آواز بلند کریں اور اُس کی توہین کرنے والی زبانوں کو کھینچ ڈالنے کیلئے تحریک اٹھائیں۔ یہ بھی کیونکر قبول ہو سکتا ہے؟! ظاہر ہے ایک چیز اِن ہزاروں پاکستانیوں پر تو فرض ہے (یعنی توہین رسالت ایسے گھناؤنے واقعے پر شدید سیخ پا نظر آنا، اور اِس پر زوردار ترین تحریک اٹھانا)، جبکہ یہ فرض اُس اپاہج فورم سے ادا نہیں ہو سکتا جس کی قیادت کو مغرب میں منہ دکھانے کی کوئی مجبوری ہے، تو پھر خودبخود یہ ضروری ہو جائے گا کہ یہ سب عقیدت مند __ صرف اِسی ایک مسئلہ کیلئے ہی سہی __ کسی اور فورم کا رخ کریں اور وہاں پر اپنے اِس فرض کی تکمیل کی کوئی صورت ڈھونڈیں۔ یہ چیز بھی ہماری اِس مقتدرہ قیادت کو کہاں قبول ہو سکتی ہے؟ تنظیمیں اور جماعتیں اپنے لوگوں کو کسی اور کے پاس چلا جانے دیں، تو پھر ان کے اپنے پاس کیا رہے؟ بہتر یہ ہے کہ ان کو دلیل ہی کوئی ایسی دے لی جائے کہ قیادت کی مجبوریاں بھی عیاں نہ ہوں اور جماعت بھی اپنی مٹھی میں رہے! البتہ ’دلیل‘ جیسی بھی ہو، اِس سے فرق نہیں پڑتا....! سامنے ’ارادت مند‘ ہی تو ہیں!
٭٭٭٭٭
چند کلمات اِس ’دلیل‘ کی علمی حیثیت کو جانچنے کیلئے بھی....
ہمارے اِن تبلیغی، و تعلیمی، وتربیتی، و دعوتی حلقوں کا یہ کہنا کہ ابھی آپ نے اسلام پر پورا عمل نہیں کیا لہٰذا جہاد، یا انکارِ باطل، یا ناموسِ رسالت کیلئے آواز اٹھانا، آپ کے حق میں واجب نہیں (بلکہ بعض کے بقول جائز ہی نہیں)، باوجود اس کے کہ نصوصِ شریعت سے اِن امور کی فرضیت اظہر من الشمس ہے.. ہمارے اِن حلقوں کا یہ کہنا کتاب و سنت کی نصوص کے ساتھ متصادم تو ہے ہی،خود اپنی ذات میں متناقض self-contradictory ہے۔ یا تو آپ کہیں کہ جہاد یا انکارِ باطل وغیرہ ایسے احکام اسلام میں نہیں۔ لیکن اگر یہ چیزیں اسلام میں ہیں تو ان کے بغیر آپ ’پورے اسلام‘ پر عمل کر کیسے سکتے ہیں؟ تصور کیجئے، آپ جہاد نہیں کریں گے، باطل کے خلاف سرگرم نہیں ہوں گے، نبی کو (خاکم بدہن) گالی پڑے تو اس پر سیخ پا نہیں ہوں گے.. لیکن پورے اسلام پر عمل پیرا ہوں گے!!! ایسے فرائض پر پورا اترے بغیر اسلام ”پورا“ ہو کیسے جاتا ہے؟
لہٰذا ”پورے اسلام“ پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دینا تو نہایت قابل تحسین ہے، مگر اِس بات کا تو اپنا تقاضا ہے کہ آپ لوگوں کو جہاد کرنے کیلئے کہیں، باطل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کیلئے کہیں اور نبی کی توہین ہو تو اس پر زمین آسمان ایک کر دینے کی دہائی دیں۔ البتہ وہ کونسا اسلام ہے جو جہاد کے بغیر ’پورا‘ ہو جاتا ہے؟ کفر بالطاغوت کئے بغیر ’کامل‘ ہوتا ہے؟ اور نبی کی خاطر کوئی ادنیٰ ترین غیرت دکھائے بغیر ’مکمل‘ ٹھہرتا ہے؟ کیا ایسا تو نہیں یہاں اسلام ہی کا کوئی ایسا تصور ذہنوں میں بیٹھا ہو جس کا اپنا دائرہ ہی ’چھ فٹ‘ سے باہر نہیں.... یعنی سیکولرزم کا دیا ہوا تصورِ اسلام؟ یہ ’اسلام‘ جو جھٹ سے ’چھ فٹ‘ پر جا کر رک جاتا ہے اور اس سے آگے جانے کیلئے مانتا ہی نہیں، کہیں یہ وہ ’اسلام‘ تو نہیں جو اِس عہدِ گلوبلائزیشن کیلئے کسی خاص پراسیس سے تیار کروا کر امت کو دیا گیا ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ مسئلہ بہت گھمبیر ہے اور اس کی جڑیں بہت پیچھے تک جاتی ہیں۔ اِس صورت میں تو عقیدہ ہی کی اصلاح ضروری ہو جاتی ہے نہ کہ کسی بیان یا عبارت کا محض ایک علمی تجزیہ۔
ہاں البتہ اگر مسئلہ محض ایک علمی تصحیح کا ہے، تو پھر یہ بڑا سادہ اور آسان ہے....
شرعی قاعدہ ہے کہ ایک واجب کا ترک کسی دوسرے واجب کے ترک کا موجب نہیں۔ مثلاً سچ بولنا فرض ہے۔ وعدہ نبھانا فرض ہے۔ پورا تول تولنا فرض ہے۔ اب کوئی شخص ایسے کسی فرض کا تارک ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ جب تم تول پورا نہیں تولتے تو اَب تمہارے لئے نماز پڑھنا بھی درست نہیں۔ جب تم سچ نہیں بولتے تو تمہارے حق میں روزہ رکھنا غیر واجب ہے۔ جب تم وعدہ نہیں نبھاتے تو اب تمہارے لئے زکات دینا یا حج کرنا یا جہاد کرنا ممنوع ہو گیا ہے۔ شرعی قاعدہ یہی رہے گا کہ ایک واجب کا ترک دوسرے واجب کے ترک کیلئے وجہ جواز نہیں۔ ہر فرض اپنی اپنی جگہ فرض ہے۔ نماز چھوڑنے کا اپنا گناہ ہے۔ سچ نہ بولنے کا اپنا گناہ ہے۔ روزہ چھوڑنے کا اپنا گناہ ہے۔ پورا تول نہ تولنے کا اپنا گناہ ہے۔ حج ترک کر دینے کا اپنا گناہ۔ جہاد ترک کر بیٹھنے کا اپنا گناہ۔ حقوق العباد ادا نہ کرنے کا اپنا گناہ۔ لوگ آپ کو شرم دلاتے ہیں کہ آپ ایک فرض کے فاعل ہیں اور دوسرے کے تارک، تو یہ نہایت درست بات ہے۔ مثلاً کوئی شخص آپ کو آئینہ دکھاتا ہے کہ اِدھر آپ اس قدر پکے نمازی ہیں اور اُدھر بددیانتی اور ڈنڈی ماری کی انتہا کر رکھی ہے، تو یہ سرزنش نہایت خوب ہے۔ لیکن کوئی آپ کو یہ کہے کہ کیونکہ آپ ڈنڈی ماری سے نہیں ٹلتے اِس لئے نماز پڑھنا آپ کے حق میں درست نہیں رہ گیا ہے تو یہ صاف تلبیس ابلیس ہے۔ یعنی پہلے آپ ایک گناہ کرتے تھے (ڈنڈی ماری) اور اُس پر خدا کی پکڑ میں آنے والے تھے اور اب دو گنا ہ کریں گے (ڈنڈی ماری اور ترکِ نماز) اور خدا کے ہاں دہری پکڑ میں آنے والے ہوں گے۔ کسی بھی عالم سے جاکر دریافت کر لیجئے، بشرطیکہ وہ عالم ہو نہ کہ محض واعظ یا قصہ گو، وہ آپ کو اِس مسئلہ کی یہی علمی وضاحت کر کے دے گا۔ آپ روزمرہ امور میں بعض واجبات کے تارک ہیں لہٰذا ترکِ جہاد بھی آپ کے حق میں لازم ہو گیا ہے، تلبیس ابلیس کے سوا اس کو کچھ کہاہی نہیں جا سکتا۔ ایک عالم آپ کو یہی بتائے گا کہ آپ یہ فرض بھی پورا کریں اور وہ فرض بھی، ورنہ اِس کا گناہ الگ ہو گا اور اُس کا الگ۔ جبکہ ایک جاہل آپ کو یہ بتائے گا کہ چونکہ آپ وہ فرض چھوڑ کر بیٹھے ہیں لہٰذا یہ فرض بھی چھوڑ دیجئے؛ جہاں اُس کا خمیازہ بھگتیں گے وہاں اِس کا بھی بھگت لیجئے گا!
کسی بھی عالم سے دریافت کر لیجئے، ایک شخص جو ڈاڑھی کو روزانہ استرے سے صاف کرواتا ہے، اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو کیا اُس کو نماز پڑھنے سے روکا جائے گا، یا محض ڈاڑھی منڈوانے سے منع کیا جائے گا؟ اور اُس عقلمند کی بابت آپ کیا کہیں گے جو ایسے شخص کو یہ فتویٰ دینے چل پڑے کہ جب تک وہ داڑھی نہیں رکھ لیتا تب تک اپنی نماز موقوف کر دے؟!
ایک بی بی جو پردہ نہیں کرتی، کیا اُس کو نماز روزہ حج زکات ہر چیز سے روک دیا جائے گا، یا صرف بے پردہ رہنے سے منع کیا جائے گا؟
ایک شخص سگریٹ یا نسوار وغیرہ کا عادی ہے۔ اُس کو آپ اِس گناہ سے روکئے اور اُس پر زور دیجئے کہ وہ جہاں تک اپنی قوتِ ارادی سے کام لے سکتا ہو لے اور اس لعنت سے جان چھڑائے۔ لیکن فرض کریں وہ آپ کے اس مطالبہ پر پورا نہیں اتر پاتا.... جائیے کسی بھی عالم سے دریافت کر لیجئے، بشرطیکہ وہ عالم ہو نہ کہ کوئی واعظ اور قصہ گو، کیا اُس شخص کا سگریٹ اور نسوار نہ چھوڑنا اِس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ ہم اُس کو جہاد کرنے سے روک دیں اور اُس کے ہاتھ سے وہ بندوق لے کر زنگ آلود ہونے کیلئے رکھ دیں جو نجانے اب تک اللہ کے کتنے ہی دشمنوں کی کھوپڑیاں اڑا چکی ہوتی؟
حضرات! عالم ہونا ایک چیز ہے اور وعظ و قصہ گوئی اور چیز۔ فقہ ایک نہایت ٹیکنیکل علم کا نام ہے۔ من یرد اللہ بہ خیراً یفقہہ فی الدین۔
٭٭٭٭٭
اور نہیں، بس ہم یہی سوال کر لینا کافی جانیں گے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین.... کوئی بے ریش مرد، یا کوئی بے پردہ عورت، یا کوئی بھی ایسا شخص جس نے آپکے خیال میں ’پورے دین‘ پر عمل نہیں کر رکھا ہوا.... ایسا کوئی مرد یا بی بی ایک بھاری چیک لے کر ہمارے ادارے کی اعانت کی غرض سے آگئی ہے۔ کیا ہم اُس چیک کو واپس کر دیں گے کہ بی بی ابھی تمہاری تربیت نہیں ہوئی، تم نے قرآن پر پوری محنت نہیں کی، حتیٰ کہ تمہارے سر پر دوپٹہ بھی نظر نہیں آرہا.... یا پھر شکریہ کے ساتھ اُسکا وہ چیک قبول کر لیں گے؟
لوگ ہمارے اداروں کو اعانت دیں، اس پر کوئی قدغن نہیں۔ البتہ کوئی شخص رسول اللہ کی مدد کو آئے، اسلام کی نصرت کرے، تو پھر دیکھیں ہم ’شرعی قیود‘ کی مدد سے کس طرح اُس کا راستہ روک کر کھڑے ہوتے ہیں!
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز