سفارتخانہ
یا شرارتخانہ؟
بشکریہ شاہد اورکزئی
یہ
سفارت خانہ نہیں شرارت خانہ ہے ۔ اس کے کرتوت آپ کے گھر میں اس شخص کی آمد و رفت
سے مختلف نہیں جو آپ سے دوستی کی آڑ میں آپ کی بہن سے عشق بازی کرے۔ جس کی موجودگی
تکلّفات اور دوپٹوں کو تحریک نہ دے۔ معاف کیجئے جب قوموں کی غیرت سو جاتی ہے تو
اسے جگانے کے لیے خاصی بے ہودہ مثالیں دینی پڑتی ہیں۔ میں فحش نگار نہیں لیکن
امریکہ کے ساتھ آپ کی لاڈلی اسلامی ریاست کے مشکوک مراسم کا تذکرہ شریفانہ زبان
میں کسی طور ممکن نہیں رہا۔
اگر
آپ امریکی شرارت خانے کے حفاظتی حصار پر ایک تقابلی نظر ڈالیں تو مسلح افواج کے
صدر دفاتر آپ کو اصطبل دکھائی دیں گے۔ یہ پر تکلف یک طرفہ حفاظتی انتظامات
پاکستانی عوام اور امریکی حکومت کے درمیان چالیس سالہ دو طرفہ محبت اور گہرے
دوستانہ شکوک و شبہات کا عکاس ہیں۔ احتیاط امریکیوں کی دوستی کا حرف اولین ہے۔ یہ
شرارت خانہ اس علاقے میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا رابطہ دفتر
ہے۔ یہ دونوں حرام خور ادارے اور یورپی سود خوروں کا ایک ٹولہ جو امدادی کنسورشیم
کہلاتا ہے وادی سندھ کے مردہ ضمیروں سے بالواسطہ طور پر ایک غندہ ٹیکس وصول کرتے
ہیں۔ اس کارِ خیر کے لیے جو انتظامی مشینری استعمال ہوتی ہے؛ سادہ لوح اسے حکومت
پاکستان سمجھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی حکومت اور اقتدارِ اعلی ہمیشہ آسمانوں اور
عملی طور پر شرارت خانوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ اسی شرارت خانے کو لیجئے۔ یہ ہزاروں
دفتروں کا ایک دفتر ہے۔ صاحبو! یہاں کیا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ واٹر گیٹ یا بھاٹی گیٹ
نہیں۔ کامیاب شرارت میں رازداری شرطِ اول ہے۔ لہذا بڑے سے بڑا سراغ رساں رپورٹر
بھی یہ ثابت کرنے سے رہا کہ وزیر اعظم کی فلاں تقریر یا فلاں اخبار کا فلاں اداریہ
واقعتا اس شرارت خانے میں تحریر ہوا۔ آزادیٔ تحریر و تقریر میں شرارت خانوں کا بھی
حصہ ہے۔ یہ سچ ہے! شرارت نہیں۔ لیکن بڑا اور کڑوا سچ یہ ہے کہ اس شرارت خانے کی
دلچسپیاں اور مشغلے تحریروتقریر پر ختم نہیں ہوتے بلکہ تذلیل و تحقیر تک جاتے ہیں۔
یہ
سفیروں کا نہیں شریروں کادور ہے۔ سائنسی ترقی کی بدولت یہ شرارت خانہ موسم کے سوا
اس دیس میں ہر تبدیلی اور تبادلے کا مجاز ہے۔ حکومتوں کا جہاز اڑانا اور گرانا اب
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ایسے کاموں میں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔ البتہ اگر آپ تفتیش
کا ارادہ رکھتے ہوں تو دونوں چیزیں بکثرت ملیں گی۔ دراصل جو لوگ عالمی امن کی
ضرورتیں نہیں سمجھتے وہ کسی جرنیل کی آئی ایس آئی سے لورالائی یا ملتان سے قبرستان
روانگی پر خواہ مخواہ سیخ پا ہوتے ہیں حالانکہ یہ معمولات ہیں۔ جہاں عامل ہوں گے
وہاں معمول بھی ہوں گے۔
چونکہ
حق وباطل کا آخری معرکہ امریکی کانگرس کے برآمدوں اور راہداریوں میں درپیش آنے کا
امکان ہے لہذا دنیا کی تمام بے عمل اور بے شرم قومیں اپنا زورِ خطابت جمہوریت کی
اس کربلا میں صرف کرتی ہیں۔ مسلمانوں نے بکمالِ فراست اس دفعہ ایک خوبصورت عورت کو
ایک اجنبی قوم میں سفیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ غلط فہمیوں کا
اوقیانوس مسکراہٹ کی کشتی میں عبور کیا جائے۔ ”ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ“ اور
تعجب کیا جب کہ اس عجوبہ کا شوہر ہمہ وقت قوم کی تعلیم میں مصروف ہے۔ پاکستان میں
اب شوہروں کی ایک نئی نسل دستیاب ہے۔ اس دیس میں تحریک نسواں شباب پر اور تحریک
مردان شراب و کباب پر ہے۔
لہذا
جناب ابو حنیفہ صاحب! اب آپ ہی فرمائیں۔ بلکہ ٹھہرئیے۔ پہلا حق تو جناب جعفر صادق
کا ہے کہ یہ خوبرو سفیر اور ان کے سرخرو وزیر جناب جعفر صادق کے نیاز مند ہیں اور
مجھے علم ہے کہ آپ حضرات کے نیاز مند ابد تک متفق نہ ہوں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں
نے شریعت نہ ابو بکرؓ سے ادھار لی ہے نہ علیؓ ابن ابی طالب سے۔ میں اتنا جانتا ہوں
کہ اللہ کے رسول محمدؐ نے کبھی کسی عورت کو سفیر بنا کر نہیں بھیجا۔ کبھی کسی سفیر
کو اپنے ہاں مستقل قیام کی اجازت نہیں دی۔ کبھی کسی سفیر سے جاسوسی اور مخبری کا
کام نہیں لیا۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک کامیاب ریاست چلا کر دکھائی جو وسائل میں
نہ سہی، حکمت اور عدل میں بہرحال سلطنت سلیمان تھی۔ انھوں نے اپنے دشمنوں پر نگاہ
رکھی۔ دشمن کے جنگی اور سیاسی منصوبوں اور عزائم کے کھوج کے لیے خفیہ مشن ترتیب
دئیے۔ جنگ بدر کی نوبت صرف اس لیے آئی کہ ان کے ایک کھوجی دستے نے اپنے اختیارات
سے تجاوز کرتے ہوئے دشمن کے ایک قافلے کو لوٹا اور ایک شخص کو قتل کر دیا۔ رسول
اللہؐ نے اس بے جواز قتل کی شدید مذمت کی اور پوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خون
بہا کی پیش کش کی جسے قریش کے جنگ پسند ٹولے نے عین بدر کے میدان میں رد کر دیا۔
میں
اس عظیم استاد کا شاگرد ہوں جنھوں نے ایک اکیلے قتل کو ایک جنگ بننے سے روکنے کی
بھرپور کوشش کی اور زندگی کے ایک دوسرے موڑ پر اپنے ایک سفیر کے قتل کی افواہ پر
بغیر کسی تیاری کے جنگ کے لیے کمر باندھ لی۔ بھلا ان کے بعد کون مجھے
سیاست اور سفارت کے آداب سکھائے گا۔ مسجد نبوی کے طلباءکو کسی ٹیوشن کی ضرورت
نہیں۔
اس
دیس کے مغرب زادے مجھے نہ پڑھائیں۔ یہ سفارت کاری نہیں حرام کاری ہے۔ اس کی حکمتیں
صرف بے غیرت ہی سمجھتے ہیں۔ اے اہل پاکستان! مواصلات کے اس دور میں شرارت خانوں کا
کوئی جواز نہیں۔ محمد کے قدموں کے نشان اتنے مدھم نہیں ہوئے کہ مجھے اس دور میں
راستہ دکھائی نہ دے۔
اے
اہل پنجاب! بند کرو یہ شرارت خانہ۔ اہل فارس اس کے بغیر بھی زندہ ہیں۔ ورنہ آؤ
جیسے خانہ کعبہ کا سودا کیا اب شریعت کے لیے بھی کوئی گاہک تلاش کریں۔ پڑی پڑی
خراب ہو رہی ہے۔
حوالہ: نیلام کعبہ (ملت
کی ذلت اور ایمان کی قلت کی کہانی) صفحہ نمبر : 29
خیال رہے، یہ مضمون ڈیڑھ عشرہ پرانا ہے، جب یہاں
کی ایک پارٹی نے ایک انگریزی اخبار کی لکھاری ایک بی بی کو اپنا سفیر بنا کر
امریکہ بھیجا، تو اس کے بعد آنے والی دوسری پارٹی نے جھنگ سے تعلق رکھنے والی
رافضی پس منظر رکھنے والی ایک بی بی کو ’امت مسلمہ‘ کی نمائندگی کیلئے واشنگٹن
سفیر بنا کر بھیجا تھا۔