عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Dawaat_Ka_Minhaj آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
”بنیادی جمعیت“ جو معاشرے پر اثر انداز ہو- حصہ دوم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

”بنیادی جمعیت“

جو معاشرے پر اثر انداز ہو- حصہ دوم

 

یہ امور واضح ہو جانے کے بعد ہمارے لئے اس محنت کا اندازہ کر لینا ممکن ہو جاتا ہے جو مربیِ اعظم ﷺ نے اپنے زیر تربیت نفوس کو اس بلند ترین مقام تک پہنچانے کیلئے صرف کی جس تک وہ بالفعل پہنچ گئے تھے اور جو کہ ایک ایسا مقام ہے جس کی انسانیت کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی....

اس محنت کا اندازہ کرنے کیلئے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کی تربیت پر کی شاید یہ بات ہمارے لئے مددگار ہو کہ ہم تربیت کے اس عظیم ترین وسیلہ سے شناسائی حاصل کریں جس کو آپ نے اپنے اصحاب کے تزکیہ کیلئے اختیار فرمایا۔ یہ وہ وسیلہ ہے جو اسلام پر تربیت پانے کیلئے ہر دور اور ہر نسل کی ضرورت ہے۔ یہ ہے اللہ اور یوم آخرت کو نفوس میں گہرا کرنا اور خدا کی معیت میں زندگی صرف کرنا....

کوئی چیز بھی نفس کو درجہ بدرجہ ترقی دینے میں ایمان کی طرح نہیں۔ ایمان پر محنت ہی وہ چیز ہے جو اس بات کا انتظام کرتی ہے کہ نفس انسانی جب ایک بار راہ راست پر آجائے تو پھر دامن چھڑا کر بھاگنے نہ پائے اور شہوات وخواہشات کا بوجھ اس کو بلندی سے پستی کی جانب کھینچ لے جانے میں ناکام رہے۔ ایمان پر محنت ہی وہ چیز ہے جو نفس میں یہ شوق پیدا کرتی ہے کہ وہ پستیوں کی جانب کھنچنے کی بجائے بلندیوں اور رفعتوں کی جانب بڑھنے کیلئے زور لگائے اور مدارج سالکین میں اعلیٰ ترین درجات پانے کو بے تاب ہو۔

جس قدر انسان خدا کی معیت میں رہنے لگتا ہے، جس قدر خدا کی محبت اور خشیت دل میں پیدا کرتا ہے، جس قدر خدا کو ظاہر اور باطن میں یاد کرتا ہے اور اس کی رضا جوئی کرتا ہے.... اور جس قدر وہ یوم آخرت اور اس کے بعث ونشور، حساب وجزا اور جنت وجہنم کو سامنے رکھ کر زندگی بسر کرتا ہے اسی قدر اس میں خواہشات پر ضبط آتا ہے۔ اسی قدر اس میں اعلیٰ قدروں کا آئینہ دار ہونے کی ہمت آتی ہے۔ اسی قدر وہ اپنے آپ کو خدا کی راہ میں جہاد کیلئے تیار کرتا ہے اور اسی قدر وہ ___خدا کی خوشنودی پانے کیلئے___ عبادت کی رضا کارانہ صورتوں کے ایک اعلیٰ معیار کا التزام کرتا ہے۔

اگر ہم قرآن مجید کی آیات کا ایک استقراءکریں تو ہمیں ان امور پر بطور خاص ترکیز دی گئی نظر آتی ہے....

جہاں تک خدا کی پہچان کرانے کا تعلق ہے.... اس کے اسماءحسنی اور صفات عُلیٰ کے ذریعے.... اس کی قدرت کے تذکرے کرکے جس کو کوئی چیز عاجز کر دینے والی نہیں۔ اور اس کے علم کا وصف بیان کرکے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اور اس کے ہمہ وقت نگران ہونے کا تصور کرکے جس سے کوئی چیز اوجھل نہیں، اور اس کی رحمت کا بیان کرکے جو ہر چیز پر وسیع ہے، اور اس کی قوت وجبروت کا ذکر کر کے جس کی راہ میں کوئی چیز ٹھہرنے والی نہیں.... تو خدا کا یہ تعارف قرآن میں اتنا زیادہ اور اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان نہیں۔ یہ قرآن کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا موضوع ہے۔ قرآن میں جتنی جگہ اس موضوع نے گھیر رکھی ہے اور جتنی ترکیز اسے حاصل ہے، اور جس قدر تکرار اس کی قرآن میں ہوئی ہے وہ کسی اور موضوع کو حاصل نہیں۔ پھر خدا کی پہچان ہو جانے کے تقاضے بھی اتنے ہی زور اور اتنی ہی شدت اور تکرار سے بیان ہوئے ہیں.... جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلاشرکت غیرے بندگی ہو، قلبی اعتقادات کے اندر بھی اور شعائرِ عبادت مانند نماز وروزہ وزکوٰۃ وحج، استعانت وفریاد، ذبیحہ ونذر و دُعاءوغیرہ کے اندر بھی اور اس کے اتارے ہوئے اوامر ونواہی، تشریعات واحکام اور قوانین وحدود کے اندر بھی۔

جہاں تک مناظرِ قیامت کا تعلق ہے، اپنے تمام تر متنوع اسالیب کے ساتھ اور کثرتِ تذکرہ اور تعددِ مقامات کے ساتھ اور آخرت کی نعمتوں اور سختیوں کے محضر ناموں کے ساتھ.... تو وہ بھی اتنا زیادہ اور اتنا واضح ہے کہ دیکھنے والے کو قرآن میں گویا بس یہی نظر آتا ہے۔ ایک قابلِ التفات بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی مدنی سورتوں میں بالخصوص ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الاخر، دونوں کو سلباً وایجاباً ربط دیا جاتا ہے اور پھر اس کو انسان کے عقائد، شعائر، شرائع، اخلاق، اقدار اور رویہ وسلوک کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے.... ایک مومن کے حق میں بھی اور ایک کافر کے حق میں بھی:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرۃ: 62)

نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں، صابی جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ  (البقرۃ: 232)

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِِ (البقرۃ:264)

اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ روز آخرت پر

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً (لنساء: 59)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تم میں کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے

قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (التوبۃ: 29)

جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا(الاحزاب: 21)

درحقیقت تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے

’اللہ‘ اور ’یوم آخرت‘ پر ایمان میں یہ ربط ہمیں اگر مدنی سورتوں میں اس قدر واضح اور بار بار متصل نظر آتا ہے تو وہ مکی سورتوں میں بھی بہت نمایاں ہے گو وہاں ان دونوں کا ذکر علیحدہ علیحدہ زیادہ ہے:

إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ (النحل: 22)

تمہارا معبود تو بس ایک ہی معبود ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں“

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا۔ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا۔ إِنَّهَا سَاءتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا۔وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا۔ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا۔

رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں بھئی تم کو سلام ہے۔ وہ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ___ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا،

يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا۔ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا۔ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا۔ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ۔وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا۔أُوْلَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا۔ خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا۔ (الفرقان: 63۔76)

 قیامت کے روز اس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کرکے نیک عمل اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے___ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو وہاں سے بڑے وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ”اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا“ یہ ہیں جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا....

اس امر کی جو تربیتی دلالت ہمیں یہ نظر آتی ہے وہ ہے: ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر دونوں کا پہلے قائم بالذات انداز میں پایا جانا اور ان میں سے ہر ایک کا نفس کی گہرائیوں تک جا پہنچنا، اور پھر وہاں دونوں کا آپس میں مل جانا اور لازم وملزم ہو جانا اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنا.... یہ اسلام کے منہجِ تربیت کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ یہی وہ محنت ہے جس سے مطلوبہ ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس کی مسلسل نگہداشت ہو اور اس پر ایک قیادت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دے۔ یہی وہ کام ہے جو رسول اللہ ﷺ نے انجام دیا اور اس میں عمدگی کا وہ معیار رکھا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی....

رسول اللہ ﷺ کی، خصوصاً مکہ کے اندر، جو مسلسل محنت ہوئی وہ اپنے اصحاب کے نفوس میں ایمان باللہ کو گہرا کرنا تھا اور ایمان بالیوم الآخر کو گہرا کرنا .... پھر اس ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کو ان نفوس میں باہم جوڑ دینا.... یہاں تک کہ ان میں سے ایک کا ذکر ہو تو دوسرا خودبخود ساتھ آئے: اگر انسان کو خدا کی بابت متنبہ کیا جائے تو وہ خودبخود یوم آخرت کی بابت متنبہ ہو اور آخرت کے ٹھاٹھ اور آخرت کی سختی خودبخود اس کی نگاہوں میں آجائے.... اور اگر کبھی آخرت کا تذکرہ ہو تو خدا کا مرتبہ اور مقام آپ سے آپ اس کی نگاہ میں آجائے جو کہ دُنیا اور آخرت کا مالک ہے اور کائنات کی ہر چیز کا حاکم ومتصرف۔

تربیت کی اس زبردست بنیاد کو اختیار کرکے رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کی تربیت کو جس بلندی پر لے جانے میں کامیاب ہوئے.... اگر یہ دیکھنا ہوکہ یہ تبدیلی اصحاب رسول اللہ ﷺ میں جس سرچشمۂ حیات سے سیراب ہو کر آئی وہ سرچشمہ کیا تھا اور پھر یہ کہ اس سرچشمہ حیات سے خاص منادیِ ایمان (نبیﷺ) کے ہاتھوں سیراب ہو کر جو تبدیلی آئی وہ تبدیلی کس پائے کی تھی.... تربیت کی یہ بنیاد بھی اور تربیت کی یہ بلندی بھی دونوں اگر دیکھنی ہوں تو وہ ہمیں قرآنی آیات کے اس خوبصورت بیان میں واضح نظر آتی ہیں:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ۔الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ۔رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ۔ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔(آل عمران: 190۔194)

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں ان ہوشمند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ مالک! ہم نے ایک پکارنے والے (منادی) کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبولکرلی۔ پس اے ہمارے آقا جو قصور ہم سے ہوئے ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خداوندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے کئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے

اللہ رب العالمین نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں تیار ہونے والی اس جماعت کا یہ وصف جو خود بیان فرمایا بہت ہی عظیم الشان ہے۔ یہ وصف اس معاملے میں بہت واضح ہے کہ تربیت میں وہ لوگ کس رفعت کو پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ کی یاد اور اس کا ذکر ایک لمحہ کیلئے بھی ہو تو وہ نفس پر اپنے آثار چھوڑتا ہے۔ پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ”اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں“! خدا کی اس یاد اور اس ذکر کا ان کے نفوس پر بھلا کیا کیا اثر نہ ہوتا ہو گا!

ایک اور جہت سے دیکھیے تو خدا کی یاد اور خدا کی آگہی اور خدا کی طلب ایک نفس پر اس حالت میں وارد ہوتی ہی نہیں جب وہ خواہشات کی کششِ ثقل سے پستی کی جانب کھینچ رہی ہو اور جب وہ متاع فانی کی چاہت کے ڈھلوان پر ’اترائی‘ کی جانب لڑھک رہی ہو .... کیونکہ یہ ’غفلت‘ کے لمحات ہوتے ہیں جب انسان خدا کے مرتبہ ومقام سے غافل ہوتا ہے۔ جبکہ خدا کی یاد اور خدا کی طلب کا لمحہ تو وہ لمحہ ہے جب انسان ’چڑھائی‘ کی جانب بڑھ رہا ہو! یہ پیمانہ جب ہم مدنظر رکھ کر دیکھتے ہیں تو خدا کی یاد اور چاہت کا ہر لمحہ ہمیں رفعت، بلندی اور ’چڑھائی‘ کا لمحہ نظر آتا ہے.... اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہر لمحہ خدا کی جانب متوجہ رہتے ہیں! جو ”اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے“ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں“! یہ لوگ کتنی ’چڑھائی‘ چڑھے ہوں گے اور اس بلندی پر ٹک رہنا کس قدر عزیمت کا کام ہو گا!؟ اس امر کی حقیقت کا ذرا واقعی تصور کیجئے کہ یہ کس قدر عظیم الشان کام ہے....

’چڑھائی‘ کا کام نفس انسانی پر ہمیشہ ہی شاق گزرتا ہے کجا یہ کہ نفس کو اس کا عادی ہی کر دیا جائے! یہ ایک واقعتا مشکل کام ہے۔ ’مشت خاک‘ بہرحال ایک بوجھ رکھتی ہے۔ ’بوجھ‘ ہمیشہ پستی کی جانب کھنچتا ہے۔ اوپر جانے کیلئے بلاشبہ زور لگتا ہے۔ نفس کو پستی میں گرنے نہ دینا ہی ایک خاص درجے کی قوت چاہتا ہے پھر اس کو اوپر اٹھانا تو اور بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ بلندی کی جانب اٹھنے والی قوت پستی کی جانب کھینچنے والی قوت پر برتری پائے....

یہ حق ہے کہ اوپر جانے کا محرک بھی انسان کی ذات میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ اس کی فطرت کی تہہ میں موجود ہے۔ یہ نفخۂ بریں ہے جو خدا نے انسان میں پھونک رکھی ہے:

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ۔فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ۔(ص:71۔72)

جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ”میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ

مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلند ہونے کے اس محرک کو، جو کہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے، جلا دینے پر ہرگز کسی محنت کی ضرورت نہیں۔ اسی محنت کا نام دراصل ’تربیت‘ ہے۔ خواہشات واغراض جہاں نفس انسانی کے اندر خودبخود متحرک ہوتی ہیں اور اپنی چمک دمک کے باعث یہ نفس پر زود اثر ہوتی ہیں اور ہیجان خیز ثابت ہوتی ہیں وہاں آلۂ ضبط جو خواہشات واغراض کو قابو میں لاتا ہے انسان کے اندر ایک خاص انداز میں فٹ کیا گیا ہے۔ یہ خواہشات کی طرح بھڑکنے والی چیز نہیں۔ یہ آہستگی سے عمل کرتا ہے مگر دور رس ہوتا ہے کہ اسے انسان کو لے کر خدا تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ انسان سے ایک خاص درجے کی توجہ اور ذہنی ونفسیاتی شرکت چاہتا ہے۔ یہ آپ سے آپ ہو جانے والا عمل نہیں۔ انسان کو شعوری طور پر اس کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ اس کیلئے عزیمت مطلوب ہے۔ بلند قدروں اور اعلیٰ اخلاقی معیاروں تک پہنچنا اور معالی الامور کو اپنا رکھنا۔ جو کہ خدا کو بے حد پسند ہے، ایک خاص درجے کی محنت چاہتا ہے.... انسان کی یہ صلاحیت جو اس کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتی ہے ایک باقاعدہ تربیت اور مشق چاہتی ہے۔ ایک بچہ زمین کی کشش ثقل کو مات دینے کیلئے اُٹھ کر کھڑاہوتا ہے اور چلنا سیکھتا ہے تو اس پر اس کی بہت مشق ہوتی ہے، باوجود اس کے کہ چلنے اور بھاگنے پھرنے کی صلاحیت اس کی ہستی میں ودیعت کر دی گئی ہوتی ہے۔ یہ مشق نہ ہو تو چلنے کا عمل اتنا ہی موخر ہو گا اور وہ بے حرکت رہے گا۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ۔قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ۔الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ۔(آل عمران: 14۔17)

لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ___عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں___ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقوی کی روش اختیار کریں، اُن کے لئے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں اُن کی رفیق ہونگی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ”مالک ہم ایمان لائے، ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا لے“۔ یہ لوگ صبرکرنے والے ہیں، راستباز ہیں، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دُعائیں مانگا کرتے ہیں

ایک طرف ’خواہشات‘ کا بوجھل وجود ہے، اور دوسری جانب اُوپر چڑھنے کا نسخہ بیان کردیا گیا ہے!

اسلام کا اس معاملے میں سب سے بڑاامتیاز یہ ہے کہ جب وہ انسان کو بلندی کی جانب لے جاتا ہے اور ’خواہشات کے بوجھ‘ کو ایک توازن دیتا ہے تو وہ انسان کو کسی ایسے منطقہ میں نہیں لے جاتا جہاں زمین کی کشش سرے سے ختم ہوجائے، جیسا کہ رہبانیت اور ہندو مت اور بدھ مت ایسے دھرم انسان کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسی پرواز انسان کو فضا میں اڑان کامزہ تو بہت دیتی ہے مگر زمین سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسی تربیت پایا ہوا انسان پھر زمین کی تعمیر وآبادی میں کوتاہ ثابت ہوتا ہے اور زمین کو فساد سے تحفظ دینے اور جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایسے فرائض سے غافل رہتا ہے۔ جبکہ وہ خدا کی جانب سے ان سب باتوں کا بیک وقت مکلف ہے۔ اس لئے کہ خدا کے علم میں اسی بات کے اندر انسان کی اور زمین پر انسانی زندگی کی صلاح وفلاح ہے۔ اسی نے اس انسان کو پیدا کیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کونسی چیز اس انسان کو درست رکھ سکتی ہے اور کونسی چیز خود اس انسان کیلئے درست ہے:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملک: 14)

کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ وہ تو باریک بین ہے اور زبردست باخبر

هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا (ھود: 61)

وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا، پھر اسی میں اس نے تمہاری آبادی چاہی

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (الحج:41)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ۔تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (الصف: 10۔ 11)

’اے لوگو جو ایمان لائے ہو میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو

پھر اسی طرح جب وہ انسان کو زمین آباد کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور اس میں طیبات یعنی پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی تلقین کرتا ہے تو وہ اس کو خواہشات کی دلدل میں دھنسنے بھی نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ دوسری انتہا ہے۔ تب بھی وہ فساد کا شکار ہوتا ہے اور مقصدِ حیات کی نسبت اس کا زمین میں پایا جانا بے سود ثابت ہوتا ہے۔ خواہشات واغراض کے بوجھ تلے دب کر وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ ایسے فرائض کا بار کیسے اٹھا سکے گا۔ تب یہ فرائض اس کے لئے بے حد بھاری ہو جائیں گے۔ یہ فرائض پھر ایسے انسان کو حیاتِ فانی کی لذتوں میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آئیں گے اور خدا کی جانب بڑھنے کا راستہ اس کے لئے دشوار ہو جائے گا۔

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوكَ وَلَـكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ  (التوبۃ: 42)

اے نبی! اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو راستہ بہت کٹھن ہو گیا

وَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَجَاهِدُواْ مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُوْلُواْ الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُواْ ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ۔ رَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ۔ (التوبۃ: 86۔ 87)

جب کوئی سورت اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحب مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجئے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا پس اب وہ فہم سے عاری ہیں

دراصل اسلام انسان کو جس مقام پر لاتا ہے وہ ایک توازن ہے جو انسان کے وجود کے دونوں عناصر کے مابین ایک زبردست انداز میں قائم ہو جاتا ہے: مشتِ خاک کا عنصر اور نفخۂ روح کا عنصر۔ تب یہ ایک ہی وقت میں دُنیا کیلئے بھی سرگرم ہوتا ہے اور آخرت کیلئے بھی۔ یہ زمین کے سینے پر چلتا اور دُنیا کے ہنگاموں میں شریک ہوتا ہے مگر یہ بیک وقت اس کیلئے آخرت کی کامیابی کا راستہ ہوتا ہے اور مر کر جی اٹھنے کی تیاری کا درجہ رکھتا ہے۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ (الملک: 15)

وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے پست ومطیع کر دیا، چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے ساتھیوں کو تربیت دینے اور اسلام کیلئے کارآمد بنانے کیلئے جو سب سے بڑا عملی ذریعہ ہمیں نظر آتا ہے وہ ہے اللہ اور آخرت پر ایمان کو گہرا کر دینا۔ خدا کو ان کا ہمہ وقتی موضوع بنا دینا اور ان کو اس بات کا عادی کر دینا کہ ان میں کا ہر ہر آدمی اپنی ہمت کے بقدر خدا کے ساتھ وقت گزارنا سیکھے .... جبکہ اس معاملہ میں، دین کے ہر معاملہ ہی کی طرح، آپ خود ان کے لئے سب سے بڑا نمونہ تھے ....

حقیقت یہ ہے کہ تربیت کے عمل میں ’نمونہ‘ سب سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے ....

خدا تعالیٰ جو کہ نفس انسانی کا خالق ہے، خوب جانتا ہے کہ خالی وعظ و نصیحت کافی نہیں چاہے وہ کتنا ہی بلیغ اور مؤثر کیوں نہ ہو، جب تک کہ وہ ایک انسانی دل میں جگہ نہ پا لے اور جب تک کہ وہ اس کو اپنے رنگ میں نہ رنگ لے اور لوگوں کے سامنے اس کی ایک جیتی جاگتی صورت نہ بن جائے۔ تب جا کر وہ لوگوں کو اس کی جانب بلائے جبکہ وہ عملی نمونہ کی صورت میں ان پر واضح کر چکا ہو کہ ’حق کی اتباع‘ دراصل ہوتی کیا ہے؟

خدا تعالیٰ یقینا اس بات پر قادر تھا کہ وہ قرآن کو کسی قرطاس میں لکھا لکھایا نازل کر دے اور پھر عرب امیوں کے اندر یہ الہامی قدرت پیدا کر دے کہ وہ اس کو پڑھنے لگیں .... مگر وہ لطیف اور خبیر جانتا ہے کہ انسانی نفوس کے اندر کسی حقیقت کو یوں نہیں اتارا جاتا اور نہ ہی اس راہ سے ان میں وہ تاثیر پیدا کی جا سکتی ہے جس کا پیدا کیا جانا اس میں مطلوب ہوا کرتا ہے اور جو کہ ایک مطلق حقیقت کو ایک متحرک حقیقت بنا دیتی ہے اور انسانی زندگی میں ایک ہلچل لے آتی ہے۔ قرآن کو لکھا لکھایا اتارنے کی بجائے اس نے اس کو ایک بشر کے قلب پر نازل کیا۔ اس کلام نے اس دل میں گھر کرلیا اور وہ اس کے رنگ میں رنگ کر اس کا عملی پرتو بنا جسے ساری دُنیا دیکھ اور محسوس کر سکتی تھی۔ اب قرآن کے اس عملی پرتو کو دیکھ کر ہر وہ انسان اس کی طرف لپکا جس کا سینہ خدا نے اسلام کیلئے کشادہ کیا۔ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوئے۔ بلکہ وہ اس کے تابع فرمان ہوئے اور خدا کے دین میں جوق درجوق آنے لگے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا: رسول اللہ ﷺ کا اخلاق بیان کریں۔ فرمایا:

”آپ کا اخلاق قرآن ہی تھا“۔ (مسند احمد)

عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کی روشنی میں ہی ہم اس آیت کا مطلب سمجھیں گے:

وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ  (النور: 54)

رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دے

اور اس آیت کا بھی:

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: 44)

ہم نے تم پہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاؤ جو ان کیلئے اتاری گئی ہے

سو ’پہنچا دینا‘ محض یہ نہیں کہ رسول لوگوں سے کہہ دے: ”تمہارا رب تمہیں فلاں اور فلاں حکم فرماتا ہے“ .... ’بیان‘ سے مراد کوئی لیکچر نہیں اور نہ کوئی درسی انداز کا سبق ہے جو رسول لوگوں کو دے آیا کرے ....

اگرچہ ’پہنچا دینا‘ اور ’بیان کر دینا‘ اس معنی میں بھی مطلوب ہے تاکہ لوگ اپنے دین کے امور کا باقاعدہ علم لے لیں .... رہا یہ کہ یہ علم نفوس کے اندر گہری اتر جانے والی ایک حقیقت بنے اور پھر نفوس میں اتر جانے والی یہ حقیقت ایک عملی اور معاشرتی واقعہ بنے .... تو یہ ایک اور بات ہے۔ اس کیلئے ضرورت یہ ہے کہ رسول ان تک اپنے رب کی بات کو کچھ یوں پہنچائے کہ پہلے یہ ایک انسانی حقیقت بن چکا ہو اور عمل میں ڈھل چکا ہو۔ تاکہ لوگ اس کی اقتدا کریں اور اس کا ایک عملی سبق لیں کہ اس پر عمل کیونکر ہونا ہے۔ اس میں داعیوں کیلئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل کی جانب اگرچہ ہم ذرا دیر بعد آئیں گے۔

چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا حال یہ تھا کہ خدا کو اپنی سوچ اور اپنی تمام حرکات وسکنات کا محور بنا رکھا تھا۔ آپ کی زندگی خدا کا ہمہ وقت ذکر تھا۔ آپ کا ہر لحظ خدا کے ساتھ گزرتا تھا، نہ دل کسی وقت خدا کی یاد سے غافل۔ نہ زبان سے اس کی یاد روپوش۔ خدا نے آپ کی تربیت فرمائی اور کیا ہی خوب تربیت فرمائی۔ آپ کو وہ خاص طاقت اور ہمت بخشی جو خدا سے اس ہمہ وقتی تعلق کی تاب لا سکے .... ایک بشر کیلئے یہ ایک بے حد جان جوکھوں کا کام تھا ....

خدا کے ساتھ رہنے کی یہ بلند ترین سطح جس پر رسول اللہ ﷺ رہے .... یہ انسانوں کے بس کی بات نہ تھی۔ حتی کہ یہ صحابہؓ کے بس کی بات نہ تھی۔ ہر حال، ہر لحظہ اور ہر شکل میں خدا کی یاد رکھنا اور خدا کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔

یہ تو بہرحال ایک خاص صفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے رسولوں کو عطا فرمائی اورپھر ان میں سے سید المرسلین ﷺ کو اس میں سب سے بڑا حصہ نصیب فرمایا۔ جہاں تک صحابہؓ کا تعلق ہے تو انہوں نے آپ سے عرض کی بھی کہ جب وہ آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ان کی اور ہی حالت ہوتی ہے پھر جب وہ آپ سے دور ہوتے ہیں تو تب ان کی وہ حالت باقی نہیں رہتی، تب آپ نے فرمایا: ”بخدا تم پر اگر ہمیشہ وہی حالت برقرار رہے جو میرے پاس رہ کر تم پہ طاری ہوتی ہے اور اگر تم ہمیشہ ذکر میں رہو تو فرشتے تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے آکر ہاتھ ملایا کریں۔ مگر حنظلہ ایک گھڑی (کوئی حالت) ہوتی ہے اور ایک گھڑی (کوئی دوسری)“۔ (رواہ مسلم والترمذی واحمد وابن ماجۃ)

اس کے باوجود وہ گھڑی بھی جس کی صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی تھی وہ کوئی گراوٹ کی گھڑی نہ تھی۔ وہ کوئی خدا سے یکسر غافل ہو جانے کی گھڑی نہ تھی۔ خدا کا صحابہؓ کی بابت خود یہ وصف بیان کر دینا ہی ہمیں کفایت کرتا ہے کہ وہ (قیاماً وقعوداً وعلی جنوبھم) کھڑے، بیٹھے اور لیٹے خدا کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔ وہ فرق جو اِس گھڑی میں اور اُس گھڑی میں جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے تھے محض درجے کا فرق تھا نہ کہ ماہیت کا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہوئے تو وہ کسی اور ہی دُنیا میں پہنچے ہوتے تھے!

ہم اس وصف کی جانب لوٹ آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کا بیان فرمایا ہے:

یہ وہ لوگ تھے جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے خدا کی جانب متوجہ اور خدا کی یاد میں محو ہوتے۔ صحابہؓ کا خدا کی یاد اور خدا کے ذکر میں محو ہونا کس طرح تھا؟ کیا یہ وہ ذکر ہے جو آدمی کو ’فنا‘ تک لے جاتا ہے جیسا کہ صوفیہ کے ہاں ملتا ہے جو کہ ’فنا‘ کو ہی وجود کی اصل حقیقت قرار دیتے ہیں؟ یا یہ وہ ذکر ہے جو انسان کی تمام تر چستی اور توانائی کو ایک جیتے جاگتے معاشرے میں متحرک کرتی ہے اور ایک بھرپور زندگی کے اندر اس کو خدا کی خوشنودگی پانے پر تیار کرتی ہے؟

وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا اُن سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب جس لمحہ ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہوتا یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان سے جہاد فی سبیل اللہ کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ’علم وآگہی کا حصول‘ ہوتا اور جو کہ ہر مسلم پر فرض ہے یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان کو علم کے حصول پر مجبور کر رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب رزق حلال کا حصول ہوتا یا انفاق فی سبیل اللہ ہوتا یا زمین کی خدائی نقشے پر تعمیر وآبادی ہوتا اس لمحہ یہ ذکر ان سے یہ سب کام کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ”عاشروھن بالمعروف“ (3) ہوتا اس لمحہ وہ اس فرض کی ادائیگی کو خدا کے ذکر کا تقاضا سمجھتے .... یہی حال ان کا دین کے سب فرائض اور زندگی کے سب میدانوں میں ”خدا کے ذکر“ کی بابت تھا۔

وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا کی چاہت پوری کرنے میں وہ اب تک کیا کر پائے ہیں اور یہ کہ وہ جس حال میں ہیں وہ خدا کو خوش کر دینے والا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اثبات میں پاتے تو خدا کی حمد اور تعریف اور شکر کرنے میں لگ جاتے اور اس کا تقرب پانے میں اس سے بھی بڑھ کر مصروف عمل ہو جانے کے متمنی وکوشاں ہوتے اور اگر وہ اس کا جواب کسی وقت نفی میں پاتے تو ’خدا کی یاد‘ ان سے استغفار کروانے لگتی! یعنی اس حال میں بھی وہ خدا کو یاد کرتے مگر اس لئے کہ وہ اپنے اس حال سے، جس میں خدا ان کو دیکھنا نہیں چاہتا، نکل آئیں۔ یہ چیز بھی ان کیلئے ’خدا کا ذکر‘ کرنا تھا!

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ۔ (آل عمران: 135 ۔ 136)

اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ ان کو یاد آجاتا ہے۔ تب وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی مانگنے لگتے ہیں ___ اور کون ہے اللہ کے سوا جو گناہ معاف کر دے___ جبکہ وہ دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا انکے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے، ایسے نیک عمل کرنے والوں کیلئے

اب ذرا انہی آیات کو دیکھ لیجئے جن میں صحابہؓ کا کھڑے بیٹھے اور لیٹے ’خدا کے ذکر‘ میں مشغول ہونا بیان ہوا ہے ....

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ (آل عمران: 191)

وہ جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت پر غور کرتے ہیں

اس لمحہ خدا کی یاد میں محو ہونے کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین اور آسمان کی ساخت میں بھی ذرا غور کریں اور یوں وہ زمین اور آسمانوں کی ساخت میں اور ان کے مابین جو جہان پائے جاتے ہیں ان کی تخلیق اور پیدائش کے معاملہ میں کسی ’مقصد‘ اور ’غایت‘ تک پہنچیں اور اس کارخانہ ہستی میں جو ’حق‘ ایک خاموشی کی زبان میں محو گفتگو ہے اس سے شناسائی حاصل کریں۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ  (التغابن: 3)

اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (ص: 27)

ہم نے آسمان اور زمین کو اور اس جہان کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کردیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کیلئے بربادی ہے جہنم کی آگ سے

چنانچہ یہ لوگ خدا نے ان کو جو علم عطا کیا ہے اس علم کی بنا پر اور کائنات اور انسانی زندگی کے اندر جو خدائی سنتیں اور خدائی قوانین کارفرما ہیں ان کے تجزیہ ومشاہدہ کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس کارخانۂ حیات کا وجود عبث اور بے مقصد ہو یہ ممکن ہی نہیں اور یہ کہ اس کی ایک ایک جزئیات میں جب بے پناہ حکمتیں پائی جاتی ہیں پھر یہ ’کل‘ ایک عبثِ محض کیونکر ہو سکتا ہے .... پھر جب وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں تب یہ دُنیا کی زندگانی ان کی نظر میں منتہائے وجود نہیں رہتی۔ نہ ان کی نظر میں یہ ممکن ہی رہتا ہے کہ یہ دینا ہی وجود کا نقطۂ آخرین ہو۔ کتنے انسان اس ہنگامۂ حیات میں مخلوق پر ظلم وقہر ڈھاتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم کئے جاتے ہیں۔ کتنے انسان یہاں ظلم سہتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم سہے جاتے ہیں۔ اگر یہ دُنیا کی زندگانی ہی منتہائے وجود ہے تو پھر ”حق“ یہاں کہاں ہے؟؟ پھر تو یہ عبث اور باطل ہو گی کہ اس میں ’حق‘ ہی روپوش ہے۔

اب یہاں ان کا ’خدا کا ذکر‘ کرنا اور تخلیق میں چھپے ہوئے ’حق‘ پر ان کا غور وفکر کرنا ان کے شعور و وجدان کو یوم آخرت کی جانب لے چلتا ہے۔ جہاں وہ جنت اور جہنم کو موجود پاتے ہیں۔ تب وہ جہنم سے خدا کی پناہ مانگنے لگ جاتے ہیں:

وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 191)

اور وہ آسمان وزمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (تب وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ”پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے تو پاک ہے (اس سے کہ عبث کام کرے) پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے

آگ کے ذکر پر آگ سے خوفزدہ ہونا اس ایمان کا تقاضا ہے۔ اب یہ اس آگ سے نجات کا پروانہ پانے کیلئے یہیں دُعاگو ہونے لگتے ہیں۔ یوں یہ ’ذکر‘ ’دُعا‘ میں بدل جاتا ہے:

رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (آل عمران: 192)

”خدایا! تو نے جس کو دوزح میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ہی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا“

پھر ان کی نگاہ متلاشی ہونے لگتی ہے کہ وہ مالک کے حضور میں کیا پیش کریں جو ان کی خلاصی اور کامیابی کیلئے سفارش کا کام دے سکے اور ان کو خدا کے ہاں سرفراز کر دے:

رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ۔ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ  (آل عمران: 193۔ 194)

”مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خداوندا! جو وعدے تو نے رسولوں کے ذریعے سے کئے ہیں، ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے روز ہمیں رسوائی میں نہ ڈال۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے“

فاستجاب لہم ربہم ....

تب خدا کی طرف سے جواب آتا ہے!

خدا ان کی اس گریہ زاری اور اس مناجات کو باریابی بخشتا ہے۔ مگر کلام کی خوبصورتی دیکھیئے۔ خدا کس چیز کو باریابی بخشتا ہے؟ کیا محض ذکر کرنے کو؟ کیا محض ان کے غور وفکر کرنے کو؟ کیا محض تدبر اور تفکر کرنے کا ان کو یہ صلہ دیتا ہے؟ کیا محض گریہ زاری کا یہ جواب دیتا ہے؟ یہ سب کچھ ایک مومن سے بلاشبہ مطلوب ہے مگر دیکھیے جواب میں کیا آتا ہے:

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُواْ فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّن عِندِ اللّهِ وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ  (آل عمران: 195)

جواب میں اُن کا رب فرماتا ہے:

”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اورمیرے لئے لڑے اور مارے گئے ان کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے“

یہاں ہے ’تربیت‘ سے متعلق وہ درس جو ان آیات میں دیا گیا ہے۔ آیات میں یہ بات شروع جس چیز سے کی گئی وہ صحابہؓ کا یہ وصف ہے جو یہاں بیان ہوا ”وہ جو کھڑے، بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے خدا کا ذکر کرتے اور خدا کی یاد میں محو رہتے ہیں“ .... مگر اس ذکر کی ماہیت کیا ہے؟ یہ وہ ذکر ہے جو ایک جیتی جاگتی اور حرکت وعمل سے پر زندگی کو جنم دیتا ہے۔ یہ وہ ذکر ہے جو زمین کے اندر ہلچل برپا کرتا ہے.... یہ ہجرتوں میں لگے ہوئے لوگ .... یہ دیس نکالا پانے والے انسان .... یہ لوگ جو خدا کی خاطر اور اس کے مشن کی تکمیل کی راہ میں اذیت پاتے اور اذیت سہتے ہیں .... اور اس پر صابر وثابت قدم رہتے ہیں.... یہ باطل سے برسرپیکار لوگ اور خدا کی خاطر موت کو گلے لگا لینے والے انسان .... فاستجاب لہم ربہم خدا ان کی پکار سن لیتا ہے اور ان کی مناجات کو شرف باریابی بخش دیتا ہے!

’ذکر‘ کے کچھ ایسے ہی تصور پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحابؓ کی صورت گری کی تھی، سب سے پہلے اپنی شخصیتِ بابرکات کے اسوہ سے مدد لے کر، پھر ارشاد اور تلقین اور تعلیم سے کام لے کر اور پھر ایک مسلسل نگرانی، محنت اور احتساب کی راہ سے .... یہاں تک کہ وہ انسانی بلندی کی ان سطحوں کو چھونے لگے جن کی تاریخ میں واقعتا کہیں مثال نہیں ملتی۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز