”چھیاسی سال“ طویل مدت ہے!
”چھیاسی سال“ کون ایک واقعہ کو روئے گا؟
ہمارے زخم ہیں تو وہ بہت جلد مندمل ہوں گے!
ہماری زندگی ہے تو وہ اُسی معمول سے رواں دواں
اور اُنہی قہقہوں، اُنہی مستیوں میں بسر ہو گی!
ہم کہ ”آزادی“ کے شادیانوں سے ہی واقف ہیں
اور کوئی کیا جانے ”آزادی“ کیا عظیم شے ہے،
اور ”آزاد“ قوموں کی کتنی بنیادی ضرورت ہے!!!!
کوئی کیا جانے یہ ظالم، ”زندہ“ قوموں کے کس کس کام آتی ہے
چند مہینے نہ گزریں گے
کہ ”آزادی“ کے نغموں کے ایک لامتناہی شورِ بے ہنگم میں
جناح کیپ، استری سوٹ اور اچکن سے جھانکتے بے حس مجسمے
ہمارے یہ لیڈر، ہمارے یہ ہیرو، ہمارے یہ سورما، ہمارے یہ دیدہ ور، ہماری یہ نابغہ روزگار ہستیاں
قوم کے منتخب نمائندے، شانِ جمہوریت، عوام کا خاص اپنا انتخاب.... یا عوام کا اپنا یہ کارِ بد
”دورِ غلامی“ کو خیرباد کہا جانے کے اِس سالانہ یادگار موقعہ پر،
تہنیتی پیغامات دھڑا دھڑ قوم کے نام جاری کرتے ہوئے
اور اِس پر قوم کو شکرانے کی مکرر تاکید کرتے ہوئے
بڑے اعتماد، انہماک اور فخر سے
”گارڈ آف آنر“ کا ”معائنہ“ فرما رہے ہوں گے!!!
”آزادی“ پر اتنے لیکچر، اِتنی تقریریں، اِتنے مذاکرے، اتنے ترانے، اِتنے سیر حاصل افکار و خیالات اُس روز نشر ہوں گے
کہ کسی کیلئے ”مطالعہ پاکستان“ میں شائع اِس بشارت پر
یقیں نہ کرنے کی، کوئی وجہ ہی نہ باقی ہو
کہ ہمیں آزادی عطا ہونے کا واقعہ سچ مچ رونما ہوا ہے!
یوں بھی کیا چھیاسی سال تک ”تقریباتِ آزادی“ کو، ملتوی رکھا جائے گا؟
خود مختار ہو جانے کی اِس بے قابو خوشی کو، دبا کر رکھا جائے گا؟
وہ لمحہ کہ جب ہم بھی، آزاد قوموں کے مابین سر اٹھا کر چلنے پائے تھے
اور غلام قوموں کے رجسٹر سے، اپنا نام کٹوا کے آئے تھے!!!
وہ یادگار لمحہ کیا پورے چھیاسی برس
نظر انداز کروا کر رکھا جائے گا؟!!
پس ”عافیہ“ یا ایسے ہی کچھ دیگر مسائل کو
جن کا آٹا، چینی، دال، پٹرول، بجلی اور گیس ایسے
”بنیادی مسائل“ سے کچھ بھی تعلق نہیں،
ہمیں لازماً بھولنا ہوگا....!!!
غیرت ’کھانے‘ کے کام آتی ہے یا ’زرِ مبادلہ‘ گھر لاتی ہے؟
ہمیں تو ”حقیقی مسائل“ ہی کو اپنا موضوع بنانا ہے!
عزت آبرو سب دے کر، ”اپنا“ یہ پاکستاں بچانا ہے!
.... اور کل ہمارے کچھ نابغے تو یوں بھی بولے ہیں
کثرتِ آبادی کے شکوے کرتی ایک ملت کی
ابھی محض ایک لڑکی ہی تو بیچی ہے
یا پھر اُس کے نابالغ معصوم بچے ہیں
محض اِتنا سا معمولی واقعہ پیش آنے پر
یوں آسماں سر پر اٹھا لینا
پسماندہ رَو تیسری دنیا کا، عجب بے ڈھب وتیرہ ہے!
اور محض ناخواندگی، تنگ نظری اور جہالت کا نتیجہ ہے!!!
اپنی آبرو کو غیر وں کی آہنی گرفت میں چیخیں مارتی ہوئی چھوڑ آنا
اپنی عصمت کو بد کاروں کی تحویل میں پا کر بے بسی سے کلبلانا
ایک ”آزاد“ قوم کو آخر کتنی دیر یاد رہ سکتا ہے؟؟؟
کچھ ہی دنوں، ہفتوں یا مہینوں بعد
اِنہی حکمرانوں، اِنہی لیڈروں، اِنہی ہیرؤوں اور اِنہی سورماؤں کو
جو ہماری اِس بے حد وحساب ذلت کے ”عزت مآب“ ڈیلر ہیں
اور جو اپنی سرکاری حیثیت میں اور اپنی ماہرانہ ڈپلومیسی میں
قوم کے غیور بیٹوں کے سودے کے سوا ، کبھی کوئی سودا نہ کر پائے تھے
اپنے شہریوں کے خون کے بھاؤ مکانا، جن کی سب سے بڑی مہارت ہے
مگر انکی اِس تجارت سے، ”ملکی ضرورت“ کے پیسے پورے نہ ہوتے تھے
وقت کی اُن عالمی منڈیوں میں، جہاں لخت جگر فروخت ہوتے ہیں
اور اِن جگر گوشوں کی قیمت سے
ملکی معشت کا پہیہ کچھ دیر چل کے دیتا ہے
اور تب جا کر غلاموں کی گزر اوقات ہوتی ہے
بے سہارا کچھ وزیروں کے چولہوں میں آگ جلتی ہے
قصر صدارت میں بھوک سے بلکتے بچوں کی مسکراہٹ بحال ہوتی ہے
مرجھائے اداس ایوانوں کی کچھ رونق عود کرتی ہے
اور کھاتی پیتی یہ قوم ”مزید خوشحالی“ کے موکد جانفزا مژدے سنتی ہے
اُنہی عالمی منڈیوں میں، جہاں لخت جگر فروخت ہوتے ہیں
”ملک“ کے درد سے بے چین اِن حکمرانوں نے اب بہ مجبوری
کوئی ایسا جرم تو نہیں کیا، محض بیٹیاں بیچ ڈالی ہیں!!!
”چھیاسی سال“ تو بڑی ہی طویل مدت ہے!
”چھیاسی ماہ“ بھی ہوتے تو طویل مدت تھی!
ابھی کچھ ہی دنوں، ہفتوں یا مہینوں بعد
عافیہ پر رونے والی یہ بد نصیب قوم
اِنہی راہنماؤں، اِنہی دیدہ وروں، اِنہی نابغہ روزگار ہستیوں، اِنہی سورماؤں، اِنہی روسیاہوں کو
کندھوں پر اٹھائے، ”زندہ پائندہ باد“ کہہ رہی ہوگی!
”ملک و قوم کی اِس ناگزیر ضرورت“ کو، پھر سے سندِ اعتبار دے رہی ہوگی!
آخر الیکشن تو آنے ہیں
اور ووٹ بھی اِنہی دو میں سے ”کسی ایک“ کو تو جانے ہیں
جہاں ”آٹے“ ہی کے نرخوں پر
اعداد وشمار کے ڈھیر دلوں میں ہول کرتے ہوں
”مہنگائی“ کے مسئلے پر ہی سب ”ذاکر“، پوری قوم کو رلاتے ہوں
”جمہوریت“ ہی کے مسئلے پر مسلسل، ٹسوے بہائے جاتے ہوں
”لوڈ شیڈنگ“ ہی کے مسئلے پر فریقین، ایک دوسرے کو لاجواب کر کر کے جاتے ہوں
”سول سوسائٹی“ کی ہی جلترنگ سے کان واقف ہوں
”عوامی سوچ“ کے ترقی کرتے جانے پر
”سیاسی پختگی“ کے مسلسل بڑھتے جانے پر
چینلوں اور اینکروں کے دل باغ باغ ہوتے ہوں
مبصروں نکتہ وروں کی باچھیں کھلتی جاتی ہوں
اِنہی دیدہ وروں کو صبح شام کان لگا کر سننے والی یہ بدنصیب قوم
”عافیہ“ کا ایک چھوٹا سا وقتی سا مسئلہ پیش آنے پر
غیرت کے نوحے بھلا، کے دن جاری رکھے گی؟!
اور ’فتویٰ‘ تو یہ بھی ہے کہ ماتم کو
”تین دن“ سے بڑھانا دین میں تجاوز ہے!
اِلا یہ کہ ”عدت“ ہو جو کہ ”عورت“ کو پیش آتی ہے
اور ہم عافیہ کے بھائیوں پر تو ”مردوں“ کے اَحکام عائد ہوتے ہیں!!!
یوں بھی عافیہ سچ مچ مر بھی تو نہیں گئی ہے!
’مبالغہ‘ ہماری شریعت میں، حد سے بڑھ کر ناپسندیدہ ہے
سچ سچ بات کرنا ہو، تو، سوائے اس کے، ہوا کیا ہے؟
کہ وقت کی اُس عدالت نے
جس سے دو سو سال تک ہم نے، ”عدل“ کا سبق سیکھا ہے
قانون و انصاف ہی کیا، علم ودانش کے سب مسائل میں
ہمارے ہاں وہی سب سے اونچا حوالہ ہے
وقت کی اُس معتبر عدالت نے
گواہوں کے سب بیاں سن کر
ہماری ہی بچی کا عیب نکالا ہے
کہ اُسی نے اپنی عصمت پہ حملہ آور درندوں کو
انگریزی بولتی گوری چمڑیوں کو
اُن کی بندوقوں سے محروم کر کے
اپنے نشانے پہ دھر لیا تھا....!!!
مگر، ایک غلام قوم کے حق خدمت کا پاس کر کے
اُس کے وزیروں کی پھرتیوں کا لحاظ کر کے
اُس کی بچی کو پھر بھی پھانسی نہیں دی گئی ہے
صرف ”چھیاسی برس“ کی
مختصر سی، قید ہوئی ہے!
بجائے اِس کے کہ اِس عدالت کی ممنون ہوتی
قواعد ضوابط کی لاج رکھتی
نازک وقتوں میں دوستی کو فروغ دیتی
یہ قوم احتجاج کرنے کو چل پڑی ہے!
یوں بھی عافیہ جس نوبت کو جا چکی ہے
عافیہ پر چھیاسی خزائیں اَب آ ہی کیسے سکتی ہیں؟!!
پس یہ کہانی تو مختصر ہے اور اِس پہ واویلا بھی بے سبب ہے!
اِن شاءاللہ، یہ کہانی اس سے بھی مختصر ہے!
”چھیاسی برس“ تو طویل مدت ہے....!!!
اِس سے پہلے.... امریکہ نابود ہو گا!!!
”اسٹیٹس“ کا شیرازہ بے طرح تحلیل ہو گا
اس رعونت کی داستانیں ”اَمثال“ میں مذکور ہوں گی
”چھیاسی برس“ تو بڑی ہی طویل مدت ہے....!!!
اِس سے پہلے ہی سامری پر اُس کا جادو وبال ہو گا!
اِس سے پہلے ہی اُسکی بستیوں پر، ہماری خلافت کا راج ہو گا!!!
عافیہ کی ماں کو اِن بہروپیا وزیروں کے، دلاسوں کی کیا ضرورت ہے؟
عافیہ کی ماں اب بھی چاہے تو
عالمی اسٹیج پر نمودار ہوتے، اس سورج کو دیکھ سکتی ہے
جس کی کرنوں کی روشنی نے، ظلمتوں کو پیامِ اجل دے دیا ہے
اور ظلمتوں نے اُس کا وہ پورا پیام سن لیا ہے
اب کے دیارِ مشرق سے جو روشنی بلند ہو گی..
اُس روشنی کے اندر ایک انتقام کی بھی آگ ہو گی
روشنی کے خوگر کو پھر بھی روشنی ہی پہنچے گی
اور موت کے سوداگر کو مکافات ہی ملے گی
”مغرب کی وادیوں میں جو گونجے اذاں ہماری“ ”آیا ہی چاہتا ہے اب وہ سیل رواں ہمارا“