عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
”علم“ کلمہ معتبر ہونے کی ایک شرط ہے تو ”لاعلمی“ مانعِ تکفیر کیسے؟
:عنوان

لا محالہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کونسی ”لاعلمی“ آدمی کیلئے عذر ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں۔ اِن دونوں میں فرق کرنے کیلئے ہمیں اہل علم کے ہاں پائی جانے والی ایک اصطلاح ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ کا بھی علم لینا ہوگا،

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

قارئین کے سوالات

علم“ کلمہ معتبر ہونے کی ایک شرط ہے تو ”لاعلمی“ مانعِ تکفیر کیسے؟

                    

 

 

سوال: آپ نے شرح نواقض اسلام صفحہ 14 پر لکھا ہے کہ: ”آدمی کا اپنے فعل کی بابت لا علم ہونا یا تاویل رکھنا مانعِ تکفیر ہے“۔

لیکن جب آدمی شروطِ لا الٰہ الا اللہ کو پورا کرے گا کہ جس کی پہلی شرط ہی آپ نے ”لا الٰہ الا اللہ کا علم“ رکھی ہے، جب آدمی اس پہلی شرط کو پورا کرے گا تو لازمی طور پر وہ لا علم اور جاہل نہیں رہے گا۔ اگر وہ لا علم اور جاہل ہی ہے تو پھر وہ تو مسلمان ہی نہیں ہوا کیونکہ اُس نے پہلی شرط ”علم“ کو ہی پورا نہیں کیا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص لا الٰہ الا اللہ کا علم حاصل کرنے کے بعد اسلام میں داخل ہو اور اُسے یہ بھی علم نہ ہو کہ غیر اللہ سے استغاثہ، غیر اللہ کی ندا، غیر اللہ کی نذر و نیاز شرکِ اکبر ہے بلکہ وہ انسانوں پر معبود اور طاغوت تک بن بیٹھنے سے بھی لا علم رہے اور ایسے شخص کیلئے بھی کہا جائے کہ اُس کی تکفیر میں لا علمی مانع ہو، تو پھر بتائیے اُس نے علم کس چیز کا حاصل کیا ہے؟

آپ ایک طرف شروط کے پورا نہ ہونے پر اسلام کا داخلہ ہی نہیں مانتے، اور دوسری طرف ایسے ہی شخص کو مسلمان بنا کر اُس پر کفر کے مانع (جہالت) کو تسلیم کرتے ہو۔ یہ طرز آخر کیوں ہے؟

جو شخص کلمہ کی شرطیں ہی پوری نہ کرے تو اُس کا کلمہ ہی معتبر نہیں، جیسا کہ ہمارے جاہل معاشرے کا حال ہے، تو آپ انہیں کافر کہنے میں کیوں توقف کرتے ہیں؟

جو شخص طاغوتوں اور باطل معبودوں کی نفی نہیں کرتا ہے اُس کا کلمہ کیسے معتبر ہو سکتا ہے؟ کیونکہ کلمہ کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ باطل معبودوں کی نفی کی جائے، آخر ایسے شخص کی تکفیر میں توقف کیوں ہے؟ ایسے شخص کو کیونکر مسلمان سمجھا جائے؟

(طارق سلیم- پتوکی)

جواب:

پہلی بات جاننے کی یہ ہے کہ ہم نے نہ تو ”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ محض اپنی تحقیق‘ پر انحصار کر کے بیان کر دیے ہیں اور نہ ”نواقضِ اسلام“ اور نہ موانعِ تکفیر“۔ یہ سب باتیں ہم اہل سنت کی کتب اور مصادر سے بیان کرتے ہیں۔ کتب اہل سنت سے بیان اور نقل کرنے میں ضرور کسی وقت ہم غلط ہو سکتے ہیں، لیکن جہاں تک مسئلہ زیربحث کا تعلق ہے، تو کتب میں بیان ہونے والی شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ میں پہلی شرط یقینا یہی بیان ہوئی ہے کہ آدمی کو اِس کلمہ کا مدلول معلوم ہو۔ اور جہاں تک کتب میں بیان ہونے والے ”موانعِ تکفیر“ کا تعلق ہے تو اُن میں بلا شبہ پہلا مانع ”لاعلمی“ ہی بیان ہوئی ہے۔

جب ایسا ہے تو لا محالہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کونسی ”لاعلمی“ آدمی کیلئے عذر ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں۔ اِن دونوں میں فرق کرنے کیلئے ہمیں اہل علم کے ہاں پائی جانے والی ایک اصطلاح ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ کا بھی علم لینا ہوگا، جس کی تفصیل آئندہ پیروں میں آ رہی ہے:

شہادتین کے مدلول سے واقف ہونا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے۔ اِس سے تو کسی کو کسی وقت چھوٹ مل ہی نہیں سکتی۔ البتہ کچھ مسائل ہو سکتے ہیں جو کسی خاص ماحول میں آدمی پر غیر واضح رہ جاتے ہوں اور وہاں پر دستیاب تعلیمی امکانات اُس جہالت کا ازالہ نہ کر پاتے ہوں:

1- شہادتین کا مدلول یہی ہے کہ ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں“۔ کوئی شخص لا الٰہ الا اللہ کے اِس واضح و صریح مدلول سے ہی آگاہ نہیں تو اس کے حق میں لا الٰہ الا اللہ کی پہلی شرط ہی پوری نہیں ہوئی۔ جو شخص شہادتین کے اِس معنیٰ اور مدلول سے ہی واقف نہیں کہ ”اللہ کے سوا جو کوئی بھی ہستی ہے اُس کو پوجنا اور اُس کی عبادت کرنا باطل ہے۔ اُس کی عبادت سے انکار کرنا واجب ہے اور عبادت کو اللہ وحدہ لاشریک کیلئے خالص کر دینا اُس پر اور جملہ انسانی مخلوقات پر لازم ہے۔ اور یہ کہ وہ اور جملہ انسانی مخلوقات صرف اور صرف محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر چلتے ہوئے ہی اللہ کی عبادت بجا لانے کی مکلف ہیں“.... جو شخص اِس بات سے ہی لاعلم ہے(3) تو اُس کا یہ جہل اور لاعلمی ہرگز کوئی عذر نہیں، بلکہ اِس کے بغیر اُس کا ”کلمہ“ ہی نہیں۔ ظاہر ہے ایسی لاعلمی کا ”موانع تکفیر“ میں آنا تو خارج از سوال ہے۔

علم“ کا یہ پہلو ”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ کے ساتھ متعلق ہے۔

2- ہاں البتہ ”عبادت“ کی بعض تفصیلات کسی شخص پر مخفی رہ سکتی ہیں۔ (اِس حوالہ سے سب افراد ایک برابر نہ ہوں گے، کسی پر کوئی چیز مخفی ہو گی تو کسی پر مخفی نہیں ہو گی) ”جہالت“ کا عذر دینے یا نہ دینے کی ساری بحث اِسی ثانی الذکر صنف کے ساتھ متعلق ہے۔ یعنی وہ امور جن میں ”عبادت“ کی بعض تفصیلات اور انواع آدمی پر مخفی رہ سکتی ہیں۔

لاعلمی“ کا یہ پہلو ”موانعِ تکفیر“ کے ساتھ متعلق ہے۔

جہاں تک غیر اللہ کیلئے نذر اور نیاز اور غیر اللہ سے دعاءاور استغاثہ اور فریاد ایسے افعال کی بابت آپ کے سوال کا تعلق ہے، تو علمائے توحید اِن کو مخفی امور میں نہیں گنتے۔ ہمارے معاشرے میں توحید کے کم از کم اِن جوانب کو ضرور ایک کثرت اور شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہاں کے ایک عام آدمی کیلئے اِن امور میں کوئی عذر نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کسی شخص کو واقعتا غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے، یا غیر اللہ کی نذر دیتے ہوئے، یا غیر اللہ کا نام پڑھ کر ذبیحہ دیتے ہوئے، یا غیر اللہ سے دعاءاور استغاثہ کرتے ہوئے دیکھیں۔ محض یہ بات کہ اُس شخص کا کسی ایسی جگہ پر آنا جانا ہے یا آبائی طور پر وہ کسی ایسے ’فرقے‘ سے گنا جاتا ہے، جبکہ آپ نے اُس کو کوئی واضح واضح شرکیہ فعل کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اُس پر حکم لگانے کیلئے کافی نہیں۔

رہ گئی ثانی الذکر صنف،یعنی جہاں ”عبادت“ کی بعض ”تفصیلات“ یا ”انواع“ ایک آدمی پر مخفی رہ گئی ہوں، جبکہ اُس کو ایسا ماحول اور مواقع میسر نہ ہوں جہاں وہ ”عبادت“ کی اُن تفصیلات کا علم لے سکا ہوتا.... تو اِس دائرے میں علمائے سنت کے مابین عذر بالجہل کے حوالے سے بحوث اور آراءپائی جاتی ہیں۔ معروف علمائے سنت میں سے شاید ہی کوئی عالم ہو جس نے __ اصولاً __ اِس دائرہ میں لاعلمی کے عذر کا اعتبار نہ کیا ہو۔ کوئی اختلاف ہو گا تو اس کی تفصیلات میں۔

اِسی کی مثال کے تحت بعض علماءنے ”ذاتِ انواط“ کا واقعہ بیان کیا ہے۔ (”ذاتِ انواط“ ایک بیری کا درخت جس کے ساتھ اہل جاہلیت اپنے جنگی ہتھیار لٹکایا کر تے تھے۔ فتح مکہ کے بعد کچھ نو مسلموں نے آپ سے درخواست کی: یا رسول اللہ! ہمارے لئے بھی ویسا ہی ایک ”ذات انواط“ مقرر فرما دیں جیسا ”ذات انواط“ دوسرے لوگوں کا ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ!یہ ویسی ہی بات ہے جیسی بات اصحابِ موسیؑ نے کہی تھی کہ ہمارے لئے بھی ویسا ہی ایک الٰہ بنا دو جیسا الٰہ دوسروں کا ہے“؟.... سنن الترمذی، صححہ الألبانی) یہاں رسول اللہ ﷺ نے ان کی جہالت کے ازالہ کی ضرورت محسوس فرمائی، کیونکہ وہ شہادتین کے صریح مدلول پر بہرحال قائم تھے۔

اِسی ثانی الذکر صنف کی مثال کے تحت ہی علمائے عقیدہ یہ مثال بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جو نو مسلم ہے اور اس سے پہلے وہ کسی مسلم معاشرے میں نہیں رہا، یا جو کسی ایسے خطے میں زندگی گزارتا رہا ہے جہاں اُس کو اسلام کے بعض واجبات قطعیہ (مانند صوم و صلاۃ) کے وجوب یا محرمات قطعیہ (مانند سود و شراب) کی حرمت کا علم نہ ہو سکتا تھا، وہ اگر اپنی لا علمی کے باعث ایسے واجبات قطعیہ کے وجوب یا محرمات قطعیہ کی حرمت کا انکار کر بیٹھے، تو اُس کے حق میں یہ ایک عذر ہو سکتا ہے۔ یعنی ایسی ”لاعلمی“ تکفیر کے موانع میں سے ایک مانع ہو سکتی ہے۔

کفریہ اقوال یا افعال کی یہ صنف، جس میں ”لا علمی“ کا عذر تسلیم ہو سکتا ہے، اس کی بابت شیخ محمد بن عبد الوہابؒ فرماتے ہیں:

فاِن الذی لم تقم علیہ الحجۃ ہوالذی حدیث عہد بالاِسلام والذی نشأ ببادیۃ بعیدۃ، ویکون ذلک فی مسألۃ خفیۃ مثل الصرف والعطف فلایکفرحتیٰ یُعَرَّف؛ وأماأصول الدین التی أوضحہا اللہ وأحکمہا فی کتابہ فاِن حجۃ اللہ ہو القرآن فمن بلغہ القرآن فقد بلغتہ الحجۃ(4)

(دیکھئے: الرسائل الشخصیۃ لمحمد بن عبد الوہاب، الرسالۃ السادسۃ والثلاثون (مکتوبات شخصی، محمد بن عبد الوہاب، مکتوب رقم 36)،

علاوہ ازیں یہی رسالہ دیکھا جا سکتا ہے: الدرر السنیۃ، الجزءالعاشر، ص 93)

وہ شخص جس پر حجت قائم نہیں ہوئی، وہ ہو سکتا ہے جو نو مسلم ہے، اور جو شخص کسی دور دراز کے دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا ہے، اور یہ کسی ایسے مسئلہ میں ہوتا ہے جو غیر واضح ہو، مثلاً صَرف (ٹونے کے عملیات جو کسی کو محبوب سے پھیرنے کیلئے ہوتے ہیں یا عَطف (عملیات جو شوہر کو مائل کرنے کیلئے ہوتے ہیں)(4)۔ پس ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اُس کی جہالت دور نہ کر دی جائے۔ رہ گئے دین کے اساسی امور جن کو اللہ نے واضح کر دیا ہے اور اپنی کتاب میں اُن کو محکم کر دیا ہے، تو (اُن مسائل میں) اللہ کی حجت قرآن (خود) ہے۔ پس (دین کے اساسی امور میں) جس کو قرآن پہنچ چکا اُس کو حجت پہنچ چکی“۔

 

چنانچہ شہادتین کے صریح مدلول سے لا علم ہونا تو کسی صورت عذر ہی نہیں۔ یہاں تک کہ عقیدہ کے وہ قطعی مسائل بھی جو آدمی پر، اُس ماحول میں جو اُس کو دستیاب ہے، مخفی نہ رہ سکتے ہوں __ یعنی وہاں پر پائے جانے والے علمائے عقیدہ و داعیانِ توحید نے اُن کا کافی بیان کر رکھا ہو __ مگر آدمی نے محض اپنی کوتاہی کے باعث ان امور کا علم نہ لیا ہو، اُن امور کی بابت آدمی کی جہالت بھی اُس کیلئے عذر نہیں ہو سکتی۔

اِسی چیز کو ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ چیز جس کی بابت یہ معلوم ہونا کہ وہ دین اسلام سے ہے قطعی ویقینی ہو۔ ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ اسلامی کی وہ قطعیات ہیں جن کا منکر دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔ اردو کے اسلامی لٹریچر میں اِس کیلئے ”ضروریاتِ دین“ کا لفظ بھی مستعمل ہے۔

کثیر اہل علم نے اِس بات کا بھی اعتبار کیا ہے کہ ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ کی ذیل میں آنے والے امور ایک ماحول اور معاشرے کی نسبت کسی دوسرے ماحول اور معاشرے میں __ ایک حد تک __ مختلف ہو سکتے ہیں(5)۔ یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ دین اور عقیدہ کے کچھ مسئلے کہیں پر غیر واضح ہوں یا بہت زیادہ الجھا دیے گئے ہوں، جس کے باعث اُن مسائل کا صحیح فہم پانے کے امکانات وہاں پر بہت کم پائے گئے ہوں، اور اس وجہ سے وہاں پر خاص اُن مسائل میں جہالت کا عذر اتنا ہی زیادہ قابل اعتبار ہو، جبکہ کسی اور جگہ پر ایسی علمی شخصیات و مراجع پائے جاتے ہوں کہ اُن امکانات کے ہوتے ہوئے عین اُنہی مسائل میں جہالت اور لا علمی نہ صرف یہ کہ ہرگز کوئی عذر نہ ہو بلکہ آدمی کی جہالت و لا علمی وہاں پر بجائے خود ایک قابل مواخذہ جرم ہو۔

لہٰذا واضح ہو، رسالہ نواقض اسلام میں ہم نے جو ”موانعِ تکفیر“ بیان کئے ہیں، یعنی وہ امور جو کسی شخص سے ایک کفریہ قول یافعل صادر ہونے کے باوجود، اُس کو کافر قراردینے میں شرعاً مانع ہوتے ہیں، اُن میں ”لا علمی“کو بھی ایک مانعِ تکفیر کے طور پر ذکر کیا گیا ہے.. تو اس لا علمی کا تعلق ”کفریہ اقوال یا اعمال یا رویوں“ کی اسی دوسری صنف سے ہے، یعنی وہ امور جو کسی خاص ماحول اور معاشرے میں آدمی پر مخفی رہ سکتے ہوں۔ رہ گئی ”کفریہ اقوال یا اعمال یا رویوں“ کی پہلی صنف، یعنی وہ امور جن کا بیان اور تعلیم کسی خاص ماحول اور معاشرے میں آدمی کو کافی حد تک میسر ہوں، تو اُس میں آدمی کی لاعلمی ہرگز کوئی عذر نہیں۔

٭٭٭٭٭

 

ہمارے نوجوانوں پر یہ بھی واضح رہے، کہ ’دستور‘ اور ’آئین‘ وغیرہ کے حوالے سے یہاں پر پائی جانے والی بحثیں حد سے زیادہ الجھا رکھی گئی ہیں۔ یہاں پر پیر پھسلنے کا امکان خاصا ہے اور جہالت و غلط فہمی کا اعتبار بھی یہاں پر خارج از سوال نہیں رکھا جا سکتا۔

(3) یہی چیز جس میں ”لاعلمی“ ہرگز کوئی عذر نہیں اور جس کو ہم نے ”مدلولِ شہادتین“ کہا ہے، اس کو امام ابن قیمؒ اِس طرح بیان فرماتے ہیں:

والاِسلام ہو: توحیداللہ وعبادتہ وحدہ لا شریک لہ، والاِیمان باللہ وبرسولہ، واتباعہ فیما جاءبہ، فما لم یأت بہ العبد فلیس بمسلم (طریق الہجرتین، ص 608)

اسلام ہے: اللہ کی توحید، اور عبادت کرنا تنہا اُسی کی بلا شرکت غیرے، اور ایمان لانا اللہ پر اور اُس کے رسول پر، اور رسول کی اتباع اختیار کر لینا اُس چیز میں جس کو لے کر رسول مبعوث ہوا۔ پس جب تک کسی شخص نے یہ چیز ہی اختیار نہیں کی، تو وہ مسلم ہی نہیں

(4) شیخ محمد بن عبد الوہاب کی ”کشف الشبہات“ پر تعلیقات لکھتے ہوئے، (جہاں محمد بن عبد الوہابؒ کا یہ جملہ آتا ہے: أن الاِنسان یکفربکلمۃ یخرجہا من لسانہ، وقد یقولہا وہو جاہل فلا یعذربالجہلِ ”انسان ایک ایسے کلمہ کی بنیاد پر کافر ہو سکتا ہے جسے وہ اپنی زبان سے نکال دیتا ہے، اور ہو سکتا ہے کسی وقت وہ لاعلمی میں وہ کلمہ بول دے، اور لاعلمی اُس کیلئے عذر نہ ہو“) شیخ عبد العزیز آل عبد اللطیف کہتے ہیں:

ظن بعضہم أن الشیخ محمد بن عبد الوہاب - رحمہ اللہ- لا یعذر بالجہل مطلقا لأجل ہذہ العبارۃ وما فی معناہا، وقابلہم فریق آخر فادعواأن الشیخ یری الاِعذاربالجہل مطلقاً، واحتجوا بقول الشیخ - فی اِحدی رسائلہ - : ”و أماما ذکرہ الأعداءعنی أنی أکفربالموالاۃ وأکفرالجاہل الذی لم تقم علیہ الحجۃ ، فہذا بہتان عظیم

ولکی یزول الاِشکال بین ہذہ العبارۃ ویتسنی الجمع بینہما ، فیمکن أن یقال : اِن الشخص یعذر بالجہل فی المسائل الخفیۃ ، دون المسائل الظاہرۃ الجلیۃ ، کما حقق ذلک الشیخ المصنف بقولہ : ” اِن الشخص المعین ، اِذا قال مایوجب الکفر، فاِنہ لا یحکم بکفرہ حتی تقوم علیہ الحجۃ التی یکفر تارکہا ، وہذا فی المسائل الخفیۃ التی قد یخفی دلیلہا علی بعض الناس ، و أما ما یقع منہم فی المسائل الظاہرۃ الجلیۃ ، و ما یعلم من الدین بالضرورۃ ، فہذا لا یتوقف فی کفر قائلہ ، ولا تجعل ہذہ الکلمۃ عکازۃ تدفع بہا فی نحر من کفر البلدۃ الممتنعۃ عن توحید العبادۃ والصفات بعد بلوغ الحجۃ ووضح المحجۃ“۔.

ویقول : أیضا : ” اِن الذی لم تقم علیہ الحجۃ ہو الذی حدیث عہد بالاِسلام، والذی نشأ ببادیۃ ، و یکون ذلک فی مسألۃ خفیۃ مثل الصرف والعطف، فلا یکفر حتی یعرف ، و أما أصول الدین التی وضحہا اللہ فی کتابہ فاِن حجۃ اللہ ہی القرآن، فمن بلغہ فقد بلغتہ الحجۃ

وجواب آخر وہو أن یقال : اِن الشخص لا یعذر بالجہل اِذا کان مفرطا ومقصرا فی التعلیم ، فکل جہل یمکن للمکلف دفعہ لا یکون حجۃ للجاہل .

و أما من کان عاجزاً فلم یقصر أو یفرط فاِنہ یعذر بالجہل حتی تقوم علیہ الحجۃ ، کمن أسلم حدیثاً

(تعلیقات علی کشف الشبہات، مؤلفہ الدکتور عبد العزیز بن محمد بن علی آل عبد اللطیف ص 24)

بعض لوگوں نے اِس عبارت اور اس کے مفہوم کی بنا پر یہ گمان کر لیا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ مطلق طور پر جہل کو عذر نہیں مانتے۔ اِس کے برعکس ایک دوسرا فریق ہے جس کا دعویٰ ہے شیخ محمد بن عبد الوہاب مطلق طور پر جہل کو عذر مانتے ہیں۔ یہ فریق شیخ کے ایک مکتوب میں آنے والی اِس عبارت کو دلیل بناتا ہے:

رہ گئی وہ بات جو دشمنوں نے میری بابت پھیلائی ہے کہ میں موالات کی بنا پر تکفیر کرتا ہوں، اور اس جاہل کی تکفیر کرتا ہوں جس پر حجت ہی قائم نہیں ہوئی ہے، تو یہ (مجھ پر) بہت بڑا بہتان ہے

(دیکھئے: تاریخ ابن غنام 2: 80، نیز مؤلفات الشیخ 3: 10)

تا آنکہ اِس اشکال کا ازالہ ہو جائے، اور تاآنکہ محمد بن عبد الوہاب کی اِن دونوں عبارتوں میں جمع کیا جاسکے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ:

ایک فرد جہالت کی وجہ سے معذور ٹھہرایا جا سکتا ہے ایسے مسائل میں جو غیر واضح ہوں، نہ کہ اُن مسائل میں جو واضح اور جلی ہوں۔ جیساکہ خود مصنف (شیخ محمد بن عبد الوہاب) ہی نے ایک مقام پر تحقیق بیان کی ہے کہ:

ایک شخصِ معین اگر ایک ایسا لفظ بولے جو اُس کے کافر ہو جانے کا موجب ہو، تو اُس کے کافر ہو جانے کا حکم پھر بھی نہیں لگایا جائے گا جب تک اُس پر وہ حجت قائم نہ کر لی جائے جس کا تارک کافر ہوتا ہے۔ البتہ یہ اُن مسائل کی بابت ہے جو غیر واضح ہوں، جن کی دلیل بعض لوگوں پر خفی رہ سکتی ہے۔ رہ گئی وہ چیز جو اُن سے ظاہر اور جلی مسائل میں سرزد ہوتی ہے، اور ان مسائل میں جو ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ (وہ مسائل جن کا دین سے معلوم ہونا قطعی ہے)، تو یہاں البتہ ایسی بات کے قائل کے کفر میں کوئی توقف نہ کیا جائے گا، اور (عذر کی) اس بات کو بیساکھی بنا کر ہر ایسے شخص کے رد میں پیش نہیں کر دیا جائے گا جو کسی ایسے علاقے کی تکفیر کرے جو عبادت اور صفات والی توحید کے خلاف مزاحمت پر بضد ہو، جبکہ ان کو حجت پہنچ چکی ہو اور دلیل واضح ہو چکی ہو

(دیکھئے: الدرر السنیۃ، 8: 244، نیز فتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم: 1: 73، 74)

نیز محمد بن عبد الوہابؒ کا یہ قول:

وہ شخص جس پر حجت قائم نہیں ہوئی، وہ ہو سکتا ہے جو نو مسلم ہے، اور جو شخص کسی دور دراز کے دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا ہے، اور یہ کسی ایسے مسئلہ میں ہوتا ہے جو غیر واضح ہو، مثلاً وہ عملیات جو کسی کو (محبوب سے) پھیرنے کیلئے ہوتی ہیں یا وہ عملیات جو (شوہر کو) مائل کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ پس ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اُس کی جہالت دور نہ کر دی جائے۔ رہ گئے دین کے اساسی امور جن کو اللہ نے واضح کر دیا ہے ، تو (اُن مسائل میں) اللہ کی حجت قرآن (خود) ہے۔ پس (دین کے اساسی امور میں) جس کو قرآن پہنچ چکا اُس کو حجت پہنچ چکی“۔

(دیکھئے: مؤلفات الشیخ، الفتاویٰ 3: 12، )

اور یہ جواب بھی دیا جا سکتا ہے کہ:ایک فرد لاعلمی کی وجہ سے معذور نہ ٹھہرایا جائے گا اُس وقت جب وہ علم لینے میں کوتاہ اور قصوروار ہو۔ پس ہر وہ لاعلمی جس کو ایک مکلف انسان اپنے آپ سے دفع کر سکتا تھا، آدمی کے لاعلم رہنے کی صورت میں اُس کیلئے دلیل نہیں بنے گی۔

رہ گیا وہ شخص جو عاجز تھا، اور علم لینے میں کوتاہ اور قصوروار نہیں ہوا، تو ایسا شخص اپنی لاعلمی کے باعث معذور مانا جائے گا، یہاں تک کہ اُس پر حجت قائم ہو جائے۔ جس طرح کہ اُس شخص کے معاملہ میں ہوتا ہے جو نو مسلم ہو۔

(یہ پوری بحث دیکھئے: تعلیقات علی کشف الشبہات، مؤلفہ ڈاکٹر عبد العزیز آل عبد اللطیف، ص: 25، 26)

(5) علماءکے کلام میں اس چیز کا بکثرت تذکرہ ہے۔ یہاں پر ہم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے اِس مختصر اقتباس پر کفایت کریں گے:

و أیضا فکون الشیِ معلوما مِن الدِینِ ضرورۃ أمر اِضافِی فحدِیث العہدِ بِالاِسلامِ ومن نشأ بِبادِیۃ بعِیدۃ قد لا یعلم ہذا بِالکِلیۃ فضلا عن کونِہِ یعلمہ بِالضرورۃ (مجموع الفتاویٰ، ج 13 ص 118)

نیز، ایک چیز کا معلوم من الدین بالضرورۃ ہونا ایک اضافتی relative چیز ہے۔ چنانچہ ایک نو مسلم، اور وہ شخص جو کسی دوردراز کے دیہاتی علاقہ میں پلا بڑھا ہے اس کو ان مسائل کا قطعی طور پر دین میں سے معلوم ہونا تو در کنار، ہو سکتا ہے سرے سے ہی معلوم نہ ہو

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز