عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Muslim_Hasti آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مسلم شخصیت: زمان اور مکان کی جہتیں
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

مسلم ہستی اور یہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں

مسلم شخصیت

زمان اور مکان کی جہتیں

 

مسلم شخصیت کا اسلام کے ایک تاریخی تسلسل پر مشتمل ہونا اور مسلم امت سے ایک سماجی وابستگی رکھنا.... ہماری مطلوبہ شخصیت کا یہ بھی ایک اہم وصف ہوگا۔

نہ صرف اپنے فکری اور نظریاتی وجود کیلئے بلکہ اجتماعی وجود کیلئے بھی.... قرون اولی میں واپس جانا اور اپنی ’ہستی‘ کو دور سلف سے برآمد کرانا۔ یہ دین اسلام کا فہم درست رکھنے کیلئے بھی ہے اور اپنا ایک تاریخی قدوقامت بنانے کیلئے بھی....

اس مسئلہ کے نظریاتی اور واقعاتی پہلو پر پیچھے ہم بات کر آئے ہیں ۔ اس کے اجتماعی جوانب پر کچھ بات ہونا ابھی باقی ہے....

زمانی جہت:

مسلم شخصیت ایک بہت ہی اصیل شخصیت ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور پیچھے بہت دور تک جاتی ہیں ۔ ’ہدایت‘ کی تاریخ جتنی پرانی ہے اس شخصیت کی عمر بھی اتنی ہے۔ امتِ اسلام بذات خود اس کرۂ ارض پر خدا کی خالص بندگی کا ایک تاریخی تسلسل ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے تو اس شخصیت نے کرۂ ارض پر ایک بالکل ہی نیا اور ایک زوردار روپ دھارا ہے۔ مسلم شخصیت اپنی درست ترتیب سے اور اپنے پورے اوصاف کے ساتھ وجود پا لے تو پھر اس شخصیت کا حامل فرد اپنی عمر کا حساب سالوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا فرد ہے جس کی عمر کم از کم چودہ سو سال ہے اور جس کو ابھی صدیوں زندہ رہنا ہے۔ یہ اپنے آپ کو ایک ایسی ملت میں گم کرتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مجسم ہدایت ہے بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ اس کیلئے ’شخصیت‘ بنانا یہ ہے کہ یہ عظیم الشان ملت اب اس ’فرد‘ میں ڈھل جائے۔ ’تربیت‘ کی یہ ایک زبردست جہت ہے۔ شعور اور وجدان کی اس کیفیت کو انسان کے اندر سے برآمد کرنا تربیتی عمل کا ایک اہم حصہ ہوگا۔

مکانی جہت:

اس زمانی جہت کے ساتھ ساتھ.... پھر اس شخصیت کی مکانی جہت ہے یعنی اپنے دور کے اندر امتِ اسلام سے اس شخصیت کی ایک بھر پور سماجی وابستگی۔ شخصیت کی یہ جہت بھی ایک فرد کو بہت بڑا کر دیتی ہے۔ ”امت“ سے وابستگی.... گویا یہ ایک ہی فرد ایک ارب نفوس پر مشتمل ہے! ایک طرف یہ صدیوں سے یہاں بس رہا ہے اور ابھی صدیوں اس کو یہاں بسنا ہے۔ دوسری طرف یہ زمین کے ایک بڑے حصے کا مالک ہے اور پوری دھرتی پرنظر جمائے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسا فرد ہے جو کئی براعظموں میں بیک وقت رہتا ہے اور زمین کے باقی حصوں میں اپنے وجود کو پھیلانے کی مسلسل فکر کرتا ہے!

پس یہ زمانی اور مکانی جہتیں بھی __تربیتی عمل کے دوران __ شعور کے اندر راسخ کردی جانا بے حد ضروری ہے۔

امتِ اسلام سے ایک تاریخی اور سماجی وابستگی اگر ایک تربیت کانتیجہ ہو تو وہ انسان کی شخصیت میں یہی تبدیلی لے کر آتی ہے۔ اندازہ کر لیجئے ’شخصیت‘ کتنی بڑی ہو جاتی ہے۔ کہاں ایک نفس پر مشتمل ایک فرد اور کہاں ایک ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ایک فرد! کہاں چند سال سے اور چند سال کیلئے پایا جانے والا ایک شخص اور کہاں صدیوں سے اور صدیوں کیلئے رہنے والا ایک شخص! کہاں ایک ایسا شخص جو بس حالات کے سہارے جی رہا ہو اور درخت سے ٹوٹنے والے کسی پتے کی طرح ہوا کے دوش پر اڑتا پھر رہا ہو اور کہاں ایک ایسا شخص جو ایک صدا بہار درخت کی صورت زمین میں جڑیں گاڑ کر کھڑا ہو اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں (طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء  تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا(1)اور جو کہ حالات کے سہارے نہیں بلکہ استحقاق (merit) کی بنیاد پر یہاں ابتدائے انسانیت سے لے کر ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کیلئے ہے اور خدا پر اعتماد کے سہارے کھڑا ہے!

ایک انسان کا اپنی ذات میں بڑا ہونا ہی حقیقت میں بڑا ہونا ہے۔ اسلامی تربیت انسان کے احساس اور وجدان کو ’امت‘ میں گم کرکے اس میں سے ایک اتنا ہی بڑا انسان نکال لاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو زمان اور مکان کی وسعتوں میں دور دور تک پھیلا ہوا پاتا ہے۔ شخصیت کا یہ حجم ہو اور پھر اس میں حق کی طاقت بول رہی ہو! یہ ایک بہت ہی منفرد ہستی ہو جاتی ہے۔ ایسی ہستی کے حامل بہت تھوڑے افراد بھی بہت ہوتے ہیں !

تاریخِ اسلام اس شخصیت کی عمر ہے اورعالم اسلام اس کا گھر.... ہر دو کو یہ مسلسل توسیع دینے کی فکر میں رہتا ہے!

اپنے دین سے یہ شخصیت پا کر پھر ایک فرد تاریخ کے ہر اہم واقعے کو گویا اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک واقعہ سمجھتا ہے۔ ایک عام فرد کو بھی اپنی زندگی کے بہت سے واقعات یاد نہیں رہتے۔ بہت سے واقعات اس کے حافظے سے محو ہو جاتے ہیں ۔ کچھ واقعات نیم یاد ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تاریخیں اور سال بھول جاتے ہیں ۔ کچھ واقعات اور زندگی کے کچھ اہم موڑ اس کے ذہن میں البتہ اس طرح تازہ ہوتے ہیں گویا کل کا واقعہ ہے۔ تاریخِ اسلام کی بابت اس شخصیت کے حامل فرد کا بھی یہی معاملہ ہوتاہے۔ اس کو اپنی ’عمر‘ ___ یعنی تاریخ اسلام ___ کے اہم واقعات اپنی ذاتی سوانح کی طرح ازبر اور ہر وقت اس کے ذہن میں تازہ رہتے ہیں ۔ دوسری طرف اس کے اپنے دور میں عالم اسلام کے ساتھ بیتنے والا ہر اہم واقعہ گویا اسی کے ساتھ بیت رہا ہوتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ہر اہم موقعہ پر اور عالمِ اسلام میں ہر اہم جگہ پر گویا یہ اپنے آپ کو موجود پاتا ہے اور اس موقعہ یا اس مقام کے حسب حال اپنی ایک ذہنی کیفیت کو محسوس کرتا ہے۔ نہ اس کی خوشیاں پھر کوئی عام سی خوشیاں ہوتی ہیں اور نہ عام سے سانحے اس کیلئے سانحے کہلاتے ہیں ۔ فخر کرنے کی بات ہو تو اس کیلئے یہ عظیم الشان بنیادیں اپنے پاس رکھتا ہے۔ دُکھ اور افسوس کا معاملہ ہو تو اس کی بھی بڑی بڑی وجوہات کا اس کو سامنا ہوتا ہے۔ نہ اس کی خوشی ایک عام انسان کی خوشی ہے اور نہ اس کا صبر وحوصلہ کوئی عام سا حوصلہ۔ نہ اس کی امیدیں اور آرزوئیں چھوٹی اور نہ اس کے اندیشے کسی ’چھوٹے آدمی‘ کے اندیشے۔

كُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ “ (2)کا یہ ایک براہ راست نفسیاتی اور ایمانی اور وجدانی اثر ہوتا ہے کہ آدمی اہل ایمان کے ساتھ زمان اور مکان کی حدود سے نکل کر شریک ہوجاتا ہے۔ یوں وہ اپنی اس ایمانی اور نفسیاتی تربیت کے بقدر اہل ایمان کے ساتھ ہر جگہ پایا جاتا ہے!

لقد ترکتم بالمدینۃ رجالاً ماسرتم من مسیر ولا اَنفقتم من نفقۃ، ولا قطعتم من وادٍ اِلا وھم معکم فیہ، قالوا: یا رسول اللّٰہ وکیف یکونون معنا وھم بالمدینۃ؟ قال: جلسھم العذر (مسند احمد عن انس رضی اللہ عنہ)

”پیچھے مدینہ میں کچھ ایسے مرد صفت لوگ باقی ہیں کہ تم نے (راہ خدا میں ) جو فاصلہ بھی طے کیا اور جو کچھ بھی خرچ کیا اور (سعی جہاد میں ) جو وادی بھی پار کی وہ ہرجگہ تمہارے ساتھ ساتھ رہے۔ صحابہ نے عرض کی: وہ ہمارے ساتھ کیسے جبکہ وہ مدینہ میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ان کو کوئی عذر مانع رہا“۔

یہی وجہ ہے کہ اس شخصیت کا حامل فرد تاریخ میں اوراپنے زمانے کے اندر اسلام کے حوالے سے اہم سمجھے جانے والے ہر موقعے اور ہر جگہ پر، جسمانی طور پر نہ بھی سہی نفسیاتی اور وجدانی طور پر،اپنے آپ کو شریک پاتا ہے۔ ماضی اور حال کے اچھے اور برے واقعات گویا اسی کے ساتھ گزرے ہیں ۔ تاریخ میں قرون اولیٰ کے ابواب سے یہ ایک خاص ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کے ساتھ گزرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پڑھتے ہوئے تو گویا یہ آپ ہی کے آس پاس کہیں پایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت میں گویا یہ ساتھ ہوتا ہے اور اس کے دل کی نبض تیز ہو جاتی ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کا استقبال کرنے والوں میں گویا یہ کھڑا ہوتا ہے۔ غزوات میں اس کا پریشانی سے برا حال ہو جاتا ہے اور رسول اللہﷺ کیلئے یہ شدید طور پر فکر مند ہو جاتا ہے۔ صحابہ وتابعین اور اتباع تابعین کے دور سے یہ ایک خاص وجدانی اور نفسیاتی کیفیت کے ساتھ گزرتا ہے اور اس کی ’یادداشت‘ میں یہ زمانہ گویا گھومتا ہی رہتا ہے۔ بعد کے ادوار سے یہ ذہن کی اور کیفیات سے گزرتا ہے۔ ملی جلی کیفیات اور محسوسات کے ساتھ یہ ہر زمانے سے اپنی کچھ نہ کچھ ’یادیں ‘ وابستہ رکھتا ہے۔

دورِ اول کی اسلامی فتوحات گویا یہ اپنا ہی دیکھا ہوا ایک واقعہ سمجھتا ہے۔ اندلس، ہند اور ترکستان قلمروِ اسلام میں آتے اس کو اپنے سامنے کا ایک واقعہ دکھائی دیتے ہیں ۔ خالص اسلام کے عالم اسلام سے پسپائی کے عمل کو یہ اپنی صحت پہ گزرا ہوا ایک سانحہ دیکھتا ہے۔ اسلام کی جہاں جہاں اور جیسے جیسے کوئی ترقی ہوئی یہ اس کی یادداشتوں کے خوش گوار حصے کی طرح اس کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ مسلم سپین عیسائی وحشیوں کے پاس گیا گویا اس کا دل نکل گیا اور یہ اس کو واپس لینے کیلئے دن گنتا ہے۔ بیت المقدس پہلی بار صلیبیوں کے ہاتھ اور دوسری بار صہیونیوں کے ہاتھ لگا تو یہ اس کیلئے ایک ذاتی نوعیت کا واقعہ بن جاتا ہے۔ بغداد پہلی بار تاتاریوں اور دوسری بار امریکیوں کے پاؤں تلے روندا گیا تو یہ محسوس کرتا ہے کہ بغداد میں دوبار یہ خود روندا گیا ہے۔ مسلم ہند کا کفر کے قبضے میں جانا مسلسل اس کو لگتا ہے کہ اس کی کوئی خاص چیز ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ عالم اسلام پر کفر کی حکمرانی اس کو اپنے گھر پر قبضہ لگتا ہے۔ بہت سوں کے ساتھ اس کو بہت سے حساب بے باک کرنے اور بہت سے قرضے چکانے ہیں ۔ خود اپنے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کوئی کیسے بھول سکتا ہے!؟

یہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں ....!

اسلام سے ایک تاریخی اور سماجی وابستگی اتنا ہی بڑا فرد پیدا کرتی ہے۔ اتنا بڑا انسان جو پوری زمین پر چل سکتا ہو اور صدیوں جی سکتا ہو.... اور صدیوں کے حساب رکھ سکتا ہو!!!

رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید میں سراج منیر کہا گیا ہے۔ سورج پوری زمین پہ روشنی کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پوری زمین کیلئے نور ہیں ۔ سورج کی روشنی جب اور جہاں نہیں پہنچتی رسول اللہ ﷺ کی رسالت تب اور وہاں کیلئے بھی ہے۔ آپ کے مشن پر ایمان رکھنے والے انسان کے ذہنی افق کو بھی اتنا ہی وسیع ہونا ہے جتنی کہ اس مشن کی پہنچ۔ یہ واقعتا ایک عالمی شخصیت کا حامل فرد ہوتا ہے۔ یہ زمان اور مکان میں اپنے ایمان اور اپنے مشن کی بنیاد پر ایک وسعت پیدا کرنا جانتا ہے اور چھوٹی چھوٹی حدوں سے تو یہ حد درجہ جھنجھلاہٹ محسوس کرتا ہے۔

اس ایسی آفاقی شخصیت کو ’پاکستانی‘ بنانا یا اس کو ’سعودی‘ یا ’اماراتی‘ یا ’افغانی‘ یا ’بنگلہ دیشی‘ شخصیت کا چولہ پہنانا اس کی ایک بہت بڑی تضحیک ہوگی۔

قومی ریاست nation state، جیسا کہ سب جانتے ہیں ، محض کوئی انتظامی بندوبست نہیں ۔ یہ موجودہ دور میں ’انسان‘ کی تقسیم اور ’انسان‘ کی پہچان کا ایک باقاعدہ فلسفہ ہے۔ یہ محض کسی جگہ کا ’سکونتی‘ ہونا نہیں بلکہ یہ تشخص کی ایک باقاعدہ بنیاد ہے۔ اس تشخص کے ایک حصے کے طور پر گو ’مذہب‘ کو بھی تسلیم (recognize!!!) کیا جاتا ہے مگر ’دین‘ نہیں بلکہ ’مذہب‘ کے طور پر اور ’کل‘ نہیں بلکہ ’جزو‘ کے طور پر! یعنی ایک ایسی عظیم ہستی جو اس ’قومی ہستی‘ سے زمان اور مکان کے لحاظ سے بھی اور عقیدہ و حقانیت کے اعتبار سے بھی ہزاروں لاکھوں گنا بڑی ہے وہ اس اپنے سے چھوٹی چیز میں سمائے اور اس کا بھی محض حصہ بن کر رہے.... محض حصہ!!!

تاہم اس موضوع پر تفصیل سے بات کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ (3)

ایک اتنی عریق deep-rooted شخصیت کی شان سے یہ فروتر ہو گا کہ اس کی پیدائش ’سن انیس سو کچھ‘ میں مانی جائے اور بیشتر موقعوں اور انٹر نیشنل فورموں پر یہ اپنی یہی پہنچان کراتی پھرے یا پھر اس کو آج کی اس پسِ استعمار دنیا post colonialist world کی ’آزاد قوموں ‘ میں سے ’ایک قوم‘ منوا لانے کے واقعہ کو بار بار حیرت، خوشی اور بے یقینی سے دیکھا جائے اور سند کے طور پر اس کو اقوام متحدہ کی اس اپاہج ’عالمی برادی‘ کی رکنیت دی جانا فخر کی بات ہو!

صدیوں پر حاوی اور براعظموں پر پھیلی اس خوددار موحد شخصیت کو ’پاکستانی‘ یا ’ترکی‘ یا ’سعودی‘ یا ’بنگلہ دیشی‘ یا ’کویتی‘ تشخص کا پابند کرنا ویسا ہی ہو گا جیسا شیر کو چڑیا گھر میں رکھا جانا جہاں اس کا شیر ہونا اس کیلئے فخر کی بات نہیں بلکہ عار بن جائے!

یہ مسلم شخصیت جب ایک علم اور تربیت کا نتیجہ بن کر ___ کسی بڑی سطح پر ___ نمودار ہو گی تو یہ اپنے ساتھ ایسا کوئی مذاق کئے جانے کی ویسے ہی اجازت نہیں دے گی.... بلکہ کسی کو اس کے ساتھ یہ مذاق کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی۔ خدا نے دنیا کے اندر اس کا بڑا رعب رکھا ہے!
یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے بیشتر دریوزہ گر اس مسلم شخصیت کے کسی بڑی سطح پر نمودار ہو جانے سے ہی خائف ہیں کہ انکے خیال میں اس شخصیت کے میدان میں آجانے سے الفاظ اور القاب اور بیانات اور ’دفعات‘ اور بلوں ، شقوں اور ’قراردادوں ‘ سے کھیلنے کا دور جاتا رہے گا۔ لوگ اس شخصیت سے حقائق پر اصرار کرنا سیکھ لیں گے۔ اس شخصیت کے ہاتھ میں اس وقت دُنیا کا کوئی ملک نہیں مگر دُنیا کے سب طاغوت اسی سے خائف ہیں ۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو کوئی آدھی دُنیا کے حقوقِ ملکیت تو پہلے سے پاس رکھتی ہے اور باقی آدھی دُنیا کیلئے گلوبلائزیشن کے اس دور میں یہ وہ کچھ اپنے پاس رکھتی ہے کہ اس کو وہاں بھی شاید ہاتھوں ہاتھ ہی لیا جائے۔
یقین کیجئے یہ دُنیا ایک ہوتے ہوتے جہاں تک پہنچ گئی ہے، اور پچھلی دو تین صدیوں میں تو مغرب نے ہی اس امر میں اس کی بہت خدمت کی ہے، کہ اب جب یہ مسلم موحد شخصیت دوبارہ اٹھی اور اس کو ان شاءاللہ اٹھنا ہے، تو یہ دُنیا کا اور تاریخ کا ایک منفرد ترین واقعہ ہو گا۔ دُنیا شاید ہر جگہ محمد ﷺ کے پھریرے دیکھے گی۔

.... بس ذرا صبر!

٭٭٭٭٭

یہ ’مسلم ہستی‘ یا یہ ’اسلامی شخصیت‘ جس قدر بڑی ہے اس کا کچھ اندازہ پیچھے ہم کر آئے ہیں ۔ اس ہستی کو ہر مسلمان میں آنا ہے۔ اس شخصیت کو امت کے ہر فرد میں ڈھلنا ہے۔ اسلام کا مطلوب فرد اسی شخصیت کا حامل فرد ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اتنی بڑی شخصیت ___ جس کا کچھ حال پیچھے ہم جان آئے ہیں ___ ایک ’تنظیم‘ یا ایک ’انجمن‘ میں بھی سمانے والی چیز نہیں ۔

تنظیموں یا انجمنوں کے وجود سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ۔ یہ اسلام کے بعض فرائض کی اس دور میں عملی ادائیگی کی ایک اجتہادی صورت ہے جس کا پایا جانا یقینا مستحسن ہے مگر یہ کہ ’تنظیم‘ کسی انسان کا تشخص اور پہچان بھی بنے، ’تنظیم‘ کسی انسان کی ذہنی اور وجدانی وابستگی کا نمایاں تر محل بھی ہو، ’تنظیم‘ لاشعور میں کسی انسان کیلئے اس کی ’عمر‘ اور ’قامت‘ بھی ہو.... تو یہ بہرحال درست نہ ہو گا۔ تنظیم کا ایک انسان کیلئے کچھ فرائضِ دین کی ادائیگی کا عملی ذریعہ ہونا اور محض ایک وسیلہ ہونا حرج کی بات نہیں بلکہ مستحسن، ہے کہ یہ انسان کی ایک شرعی ضرورت کو پورا کرنا ہے.... مگر تنظیم ہی اس کی ’شخصیت‘ کا عنوان ہوجائے، یہ بہرحال ناقابل قبول ہے۔ ایک ایسی تنظیم جو واقعتا کسی بلند مقصد کیلئے بنی ہے اس کی تو اپنی کوشش ہونی چاہئے کہ ’انسان‘ پر اس کی کم از کم چھاپ نظر آئے، کہ خدا نے ’انسان‘ کو ”احسن تقویم“ میں پیدا کیا ہے.... اور یہ کہ ’انسان‘ کی شخصیت کے اندر وہ خود زیادہ سے زیادہ ناقابل ذکر ہو جائے۔

ہم بوجوہ یہ ضروری سمجھتے ہیں ایک انسان کی شخصیت میں ’تنظیم‘ کو یا کچھ ’قائدین‘ یا کچھ ’بزرگوں ‘ کو نہیں بولنا چاہئے۔ انسان کی شخصیت میں جس چیز کو بولنا ہے وہ کچھ بہت ہی برگزیدہ حقائق ہیں جن کا مصدر وحی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اور شخصیت۔ یا پھر اس شخصیت میں خود اس کے اپنے آپ کو بولنا ہے اور یہ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ تو اس شخصیت کا فکری وشعوری پہلو ہے۔ اجتماعی پہلو سے اس شخصیت کی قامت ’امت‘ سے کم ہرگز ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔

بعض تنظیموں کی بابت دیکھنے میں آیا ہے کہ ”انسانوں “ کو ’تنظیمی اثاثہ جات‘ ثابت کر رکھنے کا اتنا پکا بندوبست کرتی ہیں کہ آدمی کے سینے پر ہر دم اسی کا بیج نظر آئے۔ گاڑی پر نام پینٹ کرنے اور سینے پر بیج لٹکانے میں شاید ہی کبھی فرق کیا گیا ہو! ہر جگہ ’اپنا نشان‘! پنسلوں کاپیوں سے لے کر انسانوں تک پر ’نام‘ کی مہر لگانے کا ایک عام رواج ہے۔ ہر چیز کی پہچان اب ’اسٹکر‘ بن گئی ہے!

بہت سی جگہوں پر انسانی فوٹو اسٹیٹس تیار کرنے کاکام ہوتا ہے۔ فرفر ایک سی عبارتیں ، ایک سے میکانکی انداز، ایک سے بیان.... غرض متعدد طریقوں سے انسانی تنوع اور انسانی انفرادیت اور انسانی اصالت originalityکو زیادہ سے زیادہ ختم کر دینے کی کوشش صاف ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ عام معاشرے میں رہتے ہوئے بھی، نہ کہ کسی خاص فوجی ضرورت کے پیش نظر، انسانوں کو کسی نہ کسی انداز میں یا کم از کم بھی علامتی حد تک، ’وردی‘ میں رکھنا مناسب تر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ فرد پر اپنا زیادہ سے زیادہ حق جتانا ہے۔ یہ فرد کو زیادہ سے زیادہ ’اپنی‘ چیز بنا رکھنا ہے جبکہ یہ امت کی چیز ہے، جو کہ بہت بڑی ہے، نہ کہ کسی کی شخصی یا گروہی ملکیت اور جبکہ اس پر صرف اللہ اور رسول کا حق ہے.... ’اللہ اور رسول‘ دو ایسے لفظ جو انسان کی شخصیت کے شایان شان ہو سکتے ہیں اور جن کا پٹہ گلے میں ڈالنے سے انسان کی شخصیت کم نہیں بلکہ بڑی ہوتی ہے بلکہ اسی سے انسان انسان بنتا ہے۔

غرض ’شخصیت‘ کو جکڑنے کے متعدد انتظامات یہاں عمل میں لائے جاتے ہیں اور غالباً اس کو ’شخصیت سازی‘ بھی سمجھا جاتا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ زمان اور مکان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں کا پابند ہو جانا ’انسان‘ کا چھوٹا ہو جانا ہے۔ ہمارے دین نے انسان کو بڑا کرنے کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ ’انسان‘ کے شایان شان جو شخصیت ہو سکتی ہے اس کو پیدا کرنے کا ہمارے دین میں پورا پورا انتظام ہے۔ خواہ وہ ان حقائق کے اعتبار سے ہو جو اس شخصیت میں بطور ’مواد‘ بھرے جائیں گے اور خواہ وہ زمان اور مکان کے وہ افق ہوں جنہیں اس شخصیت کو نگاہ میں رکھنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں اپنے دین کی اس خاصیت سے ہمیں بھرپور حظ اٹھانا چاہئے۔ یہ دین اپنے مطلوبہ حجم کی جس شخصیت کو پیداکرے گا وہی اپنے دور پہ اثر انداز ہونے کی قدرت رکھے گی۔ ہم سمجھتے ہیں اپنے دین سے لے کر اتنا ہی بڑا انسان ہم اپنے دور کو فراہم کر سکتے ہیں ۔ ہمارا دین بلاشبہ اس بات پر طاقت رکھتا ہے مگر ’طاقت‘ کی افزودگی بہرحال ایک انسانی عمل ہے۔

٭٭٭٭٭
 

(1) سورۃ ابراہیم: 24، 25 ”جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دیتا ہے“

(2) سورۃ التوبہ: 119 ” سچے لوگوں کے ساتھ ہو رہو“
(3) اس مسئلہ کی تفصیل کے لئے دیکھئے ایقاظ کا ایک گزشتہ خصوصی شمارہ بہ عنوان ”قومی ریاستیں یا دار الاسلام“۔ عنقریب یہ کتابی صورت میں بھی دستیاب ہوگا۔ان شاءاللہ

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز