عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Muslim_Hasti آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
اصالت: مرعوب صرف سلَف سے
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

’مرعوب‘ صرف سلَف سے!’

اصالت

 

اصالت originality __ یعنی اصیل ہونا اور اپنی حقیقت کو ابتدائے اسلام اور قرونِ سلف سے برآمد کرانا __ اس مسلم شخصیت کا وصفِ لازم ہوگا۔ حقائق کے تعین کیلئے اس کا کل سہارا کتاب اللہ پر ہوگا اور سنتِ رسول اللہ ﷺ پر اور یا پھر کتاب اللہ و سنتِ رسول ا للہﷺ کے فہم و استیعاب کیلئے ورثۂ سلف پر۔وابستگی کا اصل محل اس کے لئے تاریخِ امت کے یہی پہلے تین ادوار ہوں گے اور اس کی توجہ کا مرکز انہی تین ادوار کے اندر پائی جانے والی خالص اسلامی تصویر۔

اس موضوع کے کچھ فکری جوانب ہم اپنی کتاب ”آپ کے فہمِ دین کا مصدر کیا ہے؟“ میں بیان کر آئے ہیں اور منہجِ سلف کو لازم پکڑنے کی بابت کچھ اصولی مباحث بھی وہیں پر ذکر کر دیے گئے ہیں ۔ یہاں اس کے واقعاتی جوانب پر چند کلمات کہہ دینا بھی البتہ ضروری معلوم ہوتا ہے....

واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی صورت پر صدیوں سے جو یہ گرد پڑتی آئی ہے لوگوں کی ایک کثیر تعداد گمراہیوں کی اس گرد کو بھی اب اسلامی صورت ہی کا حصہ سمجھنے لگی ہے.... یہاں تک کہ اس جمی ہوئی گرد اور میل کو اس پر سے مل مل کر اور کھرچ کھرچ کر جب آپ اتاریں گے تو اس کو وہ اسلام کا نقصان کرنے بلکہ شاید اسلام کو مسخ کیا جانے پر محمول کریں گے....!

جن بتوں کو یہاں پوجا جاتے کچھ عرصہ بیت گیا ہے ان کو مسمار کیا جانا ان کو ’مسلم تاریخ‘ اور ’مسلم کلچر‘ کی تباہی نظر آئے گا....!

بہت سوں کیلئے اسلامی عقیدے کی تاریخ منصور الحلاج اور ابن عربی سے اور اسلامی فکر کی تاریخ رومی اور فارابی سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سوں کیلئے اسلامی عقیدہ اور اسلامی حقیقت کلام اور تصوف کی بحثوں کا نام ہے۔ بہت سوں کیلئے اسلامی شعائر ’اجمیر شریف‘ اور ’داتا دربار‘ ایسے ’مقامات‘ کا نام ہے۔ مسلم کلچر ’تاج محل‘ اور ’قطب مینار‘ ایسے نوادرات کا مجموعہ ہے....!

آپ جب اسلامی عقیدے اور اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب اور اسلامی حقیقت کا آغاز رسول اللہ ﷺ سے اور مکہ کی وادیوں سے اور مدینہ کے خالص اسلامی ماحول سے ہی کرنے پر اصرار کریں گے.... آپ جب اسلام کی حقیقت ابوبکرؓ وعمرؓ، عثمانؓ وعلیؓ، ابن عمرؓ وابن مسعودؓ .... اور پھر عمر بن عبدالعزیزؒ، زہریؒ، حسن بصری،ؒ عطائؒ، ابن المسیبؒ.... اور پھر ابوحنیفہؒ، مالک بن انسؒ، شافعیؒ، ابن حنبلؒ، ثوریؒ، ابن عیینہؒ، اوزاعیؒ، بخاریؒ وغیرہ سے ہی سمجھنے پر اصرار کریں گے اور بعد والوں کے اقوال وآراءکیلئے انہی پہلے والوں کے علم وفقہ اور انہی کے فہم وفکر میں گنجائش تلاش کرنے کی شرط لگائیں گے .... آپ جب بعد میں پائے جانے والے محدثاتِ امور کیلئے یہیں سے دلیل اور نظیر لانے کا مطالبہ کریں گے.... تو نہ معلوم آپ کو کس قدر تعجب سے دیکھا جائے!

لوگ یہ تو چاہیں گے کہ اسلام پھر پہلے کی طرح دُنیا کا سب سے بڑا اور سب سے بھاری اور سب سے نمایاں اور سب سے مرکزی واقعہ بنے مگر ساتھ یہ بھی چاہیں گے کہ اسلامی صورت میں کئے گئے وہ سب اضافے اور وہ سب تبدیلیاں بھی ساتھ قبول کی جائیں جو کہ قرون اولیٰ کے بعد ہوتی رہیں یا پھر جن کی قرونِ اولیٰ میں مذمت اور مخالفت ہوتی رہی اور جو کہ پھر آخرکار ہماری اس ساری لٹیا کو ڈبونے کااصل اور حقیقی سبب بنیں !

کس قدر تعجب کی بات ہونی چاہئے کہ قبروں اور درگاہوں اور آستانوں پر ہونے والی غیر اللہ کی پرستش کی بابت لوگ یہ سمجھیں کہ شاید یہ ہمیشہ سے اسلام کا حصہ رہا ہے! اور اگر آپ غیر اللہ کی عبادت کے ان مظاہر کے ساتھ وہی رویہ اپنانے کی بات کریں جو موسیٰ علیہ السلام نے گوسالۂ سامری کے ساتھ اپنایا تھا، اور کیا شک ہے کہ اسلام کی اصل صورت کو دُنیا کے سامنے لے آنے کا یہ ایک بنیادی اور براہ راست تقاضا ہے کہ ان سب بتوں کو جو مسلم معاشروں کے اندر آج پوجے جاتے ہیں دریا برد کردیا جائے، تو آپ کے بہت سے ہمدرد اور سمجھدار اس سے روکنے کیلئے آپ کو خود اسلام ہی کی بقا اور ترقی کے واسطے دیں !! شرک کو توحید سے الگ کرنے کی بات ہو تو اس میں یہ امت کی وحدت اور یکجہتی کو پارہ پارہ ہوتا دیکھیں !!! سبحان اللہ العظیم!!!

کس قدر حیرت ہونی چاہئے جب آپ وحدۃ الوجود کے عقیدے کو یعنی خالق اورمخلوق کو یکجا کر دینے کو رب العالمین کے ساتھ واضح ترین شرک قرار دیں اور اسلام کے چہرے سے اس شرک کی پلیدی کو دور کر دینے کو دین کے ایک بنیادی اور اساسی فرض کے طور پر لیں تو اسکے جواب میں آپ کو قرون اولیٰ کے بہت بعد آنے والی کچھ شخصیات کے اقوال اور اشعار کسی مقدس نص کی طرح سنائے جائیں اور پچھلی چند صدیوں میں پیدا ہونے والے بیسیوں یا سینکڑوں بزرگوں اور اکابرین کا نام لے لے کر ڈرایا جائے گویا آپ نے سلف صالحین کی راہ سے انحراف کا ارتکاب کر لیا ہے اور اس کے باعث آپ کی آخرت خطرے میں پڑ چکی ہے!!!

یہ ’ہمہ اوست‘ کانعرہ امت میں آخر کب لگا؟؟؟ کیا یہ مکہ میں لگایا گیا جب رسول اللہ ﷺ پر قرآن کا نزول ہو رہا تھا اور جب اسلام کے ابدی حقائق دلوں کی لوح اور تاریخ کے قرطاس پربیک وقت رقم کئے جا رہے تھے اور جب اسلامی حقیقت کو قلوب میں کندہ اور معاشروں پر ثبت کردینے کا عمل نبوی سرپرستی میں انجام پارہا تھا؟ کیا یہ ابوہریرۃؓ یا عائشہؓ، یا انسؓ یا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے؟ کیا ائمہ اربعہ ودیگر جلیل القدر اتباع تابعین اسی کی تبلیغ کرتے گئے ہیں ؟ ’کائنات خدا کی عین!‘ ایسے فلسفے اس امت میں آخر کب جا کر سامنے آئے؟ منطق اور کلام کی جدلیات کیا سلف کی یادگار ہے؟ کیا خیال ہے عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں کسی کو رب العالمین کی بابت ’عین اور غیر‘ یا ’جوہر اور عرض‘ کے نکتے بیان کرتا دیکھ لیتے تو اس کو کس برتاؤ کا مستحق جانتے!؟

جن متشابہات کی تفصیل میں پڑنے سے سلف اپنے تمام تر علم اور زمانۂ نبوت سے اپنی اس قدر قربت کے باوجود ڈر ڈر کر رہتے تھے، بلکہ وہ اپنے علم اور زمانۂ نبوت سے اپنی قربت کے باعث ہی مشابہات کی ٹوہ میں جانے سے ڈرتے تھے، یہ بعد والے پوری جرات اور بڑے اعتماد کے ساتھ اور بڑی بے تکلفی سے متشابہات کی یہ ’گتھیاں سلجھاتے‘! قرآن کے جن مقامات کی بابت سلف اپنے پاس سے ایک لفظ بھی کہنے کا اپنے آپ کو متحمل نہ پاتے یہ اس پر ضخیم جلدوں پر مشتمل تصنیفات لکھ دینے کو بھی کم جانتے! نصوص کی تفسیر میں سلف جہاں خاموشی اور عاجزی سے گزر جانا اپنے لئے عافیت جانتے وہاں یہ (خلف) اپنی نکتہ رسی کے کمالات دکھاتے اور ان موضوعات پر پائے جانے والے ’سب اشکالات‘ دور کر دینے بلکہ قولِ فیصل صادر کر دینے کا بھی اپنے آپ کو مجاز پاتے! وحی کا ادب، قیل وقال وکثرت سوال سے اجتناب، نصوصِ تنزیل کے آگے دبے دبے رہنا اور انکا ایک وزن اور ایک ہیبت دلوں پر محسوس کرنا، اللہ اور رسول کے آگے بڑھنے سے ہر دم خائف رہنا اور ’اللہ ورسولہ اَعلم‘ ایسے الفاظ کہتے ہوئے ایک راحت، ایک اعتماد اور ایک قناعت محسوس کرنا اور اللہ و رسول کے آگے اس انکساری میں ایک لطف اور اطمینان پانا اور اپنی ساری توجہ ایمان اور جہاد اور اطاعت وفرمانبرداری پر رکھنا.... علم اور ایمان کی وہ ایک مجسم صورت جو ہمیں سلف سے ملتی ہے یہ اس کا ایک بہت ہی امتیازی وصف ہے۔ پہلے والوں کی اتباع اور بعد والوں کی ابتداع.... ان دو تصویروں کا یہ وہ فرق ہے جس کو مسلم ذہن اور مسلم شخصیت کی اس تشکیل نو میں بہت واضح ہونا ہے۔

جہانِ نو میں ’مسلمان‘ کے اپنی اس آب وتاب سے نمودار ہونے کیلئے جس تیاری اور جن اوصاف کے پائے جانے کی ضرورت ہے اس میں ایک اہم ترین بات یہ ہو گی کہ مسلم تاریخ میں بہت پیچھے چلے جایا جائے اور اپنے وجود اور تشخص کو بالکل ابتدائے اسلام سے برآمد کیا جائے۔ اپنی اصل تصویر ہمیں وہیں ملے گی۔ بعد کی صدیوں کو بھی ضرور پڑھا جائے مگر کہیں پر عبرت نگاہی کے ساتھ۔ کہیں پر سبق آموزی اور کہیں پرناقدانہ بصیرت کے ساتھ اورکہیں پر اسوہ ونمونہ کا تعین کرتے ہوئے۔ کہیں سے کچھ قبول کیا جائے گا اور کہیں پرکچھ مسترد کیا جائے گا۔ کوئی چیز جزوی طور پر رد ہو گی اور کوئی چیز جزوی طور پرقبول۔ اور یہ نگاہ پانے کیلئے، کہ بعد والوں سے کیا لیاجائے اور کیا نہ لیا جائے، اعتماد اسی سلف کے منہج پر کیا جائے گا۔ بعد کی صدیوں کا جائزہ وتجزیہ کرنے کیلئے پیمانہ قرون اولیٰ یعنی صحابہ وتابعین واتباع تابعین سے ہی لیا جائے گا۔ اس کے سوا اپنے پاس کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں (فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ)(1) اس پیمانے پر جو قبول ہونے کے قابل ہو اس کو بلامضائقہ لیا جائے گا اور جو رد ہونے کے قابل ہو اس کو بلا تردد اور بلا خوفِ ملامت مسترد کر دیا جائے گا اور جونظر انداز ہونے کے قابل ہو، اس کو کوئی پروا کئے بغیر نظر انداز کردیا جائے گا۔

گویا اس مسلم شخصیت کو، جس کو کھڑا کرنا ہمارا مقصود ہے، دیکھنا بعد کی صدیوں کو بھی ہے۔ صرف قرونِ اولیٰ کا مطالعہ ہی نہیں کرنا۔ قرونِ مت اَخرہ سے اس کو آنکھیں بند کرکے نہیں گزرنا، جیسا کہ بعض دیندار حضرات ضروری خیال کرتے ہیں ۔ تاریخ نظر انداز ہونے کیلئے ہے ہی نہیں خواہ اس کا کوئی دور کتنا بھی حسین اور دل کش ہو یا کوئی دور کتنا ہی خوفناک اور بدنما ہو۔تاریخ تو ہمیں عالم اسلام ہی کی نہیں عالم کفر کی بھی پڑھنی ہے۔ ہر دور اور ہر تاریخی واقعے کو جانچنے اور تولنے کی صلاحیت پانی ہے۔ تاریخ کا کوئی واقعہ نہیں جس سے مسلمان کو فائدہ نہ ملتا ہو اور جس سے وہ اسباق اور نتائج اخذ نہ کرتا ہو۔ جہاں جہاں سے اس کو جو کام کی بات ملے یہ اس کو پہنچ کر لے گا۔ اس مقصد کیلئے یہ عالم کفر کو بھی دیکھنے اور پرکھنے کا برتہ رکھے گا کیونکہ جانچنے اور ماپنے کا ایک زبردست پیمانہ یہ اپنے پاس رکھتا ہے۔

چنانچہ ہماری اس بات کا کہ مسلم شخصیت کی نگاہوں کا مرکز دور سلف ہی کو رہنا چاہئے، یہ مقصد نہیں کہ بعد کی صدیوں کے اچھے اور برے پہلوؤں کو نگاہ میں کئے بغیر آگے گزر جایا جائے....

البتہ یہ کہ ہم پچھلے سو دو سو سال یا اس سے پہلے کی چند صدیوں پر ہی اپنے ’اکابرین‘ کا سلسلہ ختم کر دیں اور ان کے عقیدہ وفہم کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے پیچھے سلف کے دور تک نہ جائیں .... اور یہ کہ امت کے آخری ادوار میں معروف ہوجانے والے ناموں اور سلسلوں کو سلف کے منہج پر پیش کئے بغیر چھوڑ دیں .... اور یہ کہ دورِ آخر کے بزرگوں نے جو کہ دیا، بغیر یہ دیکھے کہ دور اول کے ائمہ سے اس کی تائید ہوتی ہے یا نہیں ، بس اسی کو حرف آخر جانیں .... تو اگر یہ کوئی منہج ہے تو وہی منہج ہے جس نے ہمیں یہ دن دکھائے اور جس کے جاری رہنے کی صورت میں وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے۔

اُمت کے اندر بعد میں آنے والوں کے اقوال وآراءکی صحت کو پہلوں کی دی ہوئی کسوٹی پر پرکھنا اور اس کے کسی کھوٹ کو سابقون الاولون کی راہ کے احترام میں رد کرنا اگر کوئی گستاخی ہے تو اتنی سی گستاخی ضرور اس مسلم شخصیت کا حصہ ہو گی جو اپنے اس دور پر خالص اسلام کے زور پہ اثر انداز ہو گی۔

وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ  کسی بھی صاحبِ فضل کی فضیلت کم کرنا اور کسی کی نیکی اور احسان کو بھلا دینا ہمارے دین کی رو سے سخت معیوب ہے۔ کوئی بزرگ کسی غلطی کا شکار ہو جاتا ہے تو بھی اس کی نیکیوں اور خوبیوں کا برملا اعتراف کیا جائے گا۔ اُمت کا اپنے دور میں اس نے کسی طرح کوئی بھلا کیا ہے تو اس کیلئے دُعائے خیر ضرور ہو گی۔ ہم اس کی نیکیوں کی قبولیت اور غلطیوں کی مغفرت ہو جانے کیلئے برابر دُعاگو رہیں گے اور شدید خواہش رکھیں گے کہ اس نیک بزرگ سے کوئی غلط بات اگر منسوب ہے تو خدا کرے اس سے اس قول کی یہ نسبت ہی ثابت نہ ہو اور لوگوں نے اس پر جھوٹ گھڑ دیا ہو۔ اور اگر کسی غلط بات کی کسی سے نسبت ثابت ہو تو بھی ہم کسی گزر جانے والے کا محاسبہ یا محاکمہ کرنے کو غلط جانیں گے۔ اس بزرگ کے کسی ہم عصر بزرگ نے ہی اس پر اس کی پکڑ کی ہو تو درست ورنہ ہم اپنے آپ کو اس منصب سے فروتر ہی جانیں گے۔ ہم اس کیلئے عذر تلاش کرنے میں بھی کمی نہ رہنے دیں گے.... البتہ یہ کہ ایک ایسی بات جو سابقون الاولون کے منہج کی رو سے غلط اور قابل رد ہے بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے اور عقیدہ کے جلی حقائق سے ہی صاف متصادم ہے، ایک ایسی غلط بات محض بعد کے کسی بزرگ سے نسبت ہونے کی بنا پر درست مانی جائے تو عقیدت کی یہ اگر کوئی قسم ہے تو ہم اس کو اختیار کرنے سے لازماً معذرت کریں گے اور اس سے ممانعت کی بھی باقاعدہ تحریک اٹھائیں گے۔ بعد والوں میں سے نیک اور بزرگ حضرات کا بھی یقینا ہم پر بڑا حق ہے مگر پہلے والوں کا حق یقینا اس سے بڑا ہے اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ پر تو کوئی چیز مقدم ہے ہی نہیں ۔

حق کا منصب اس سے بہت بڑا ہے کہ وہ رجال کے تابع کردیا جائے البتہ رجال حق کے تابع رہیں گے۔ شخصیات حق کے ساتھ بڑی ہوتی ہیں ۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ شخصیات حق سے بڑی ہو جائیں ! حق شناسی اس مسلم شخصیت کا لازمۂ اول ہو گا۔ حق سے بڑھ کر اس کو کوئی چیز عزیز نہ رہے گی۔ یہ حق کا منصب ہے۔ حق کو اس کا یہ منصب دے کر ہی دُنیا میں ہم کسی منصب کی اُمید رکھیں گے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ حق کو اس کا اصل منصب دلانا ہی ہمارا اصل منصب ہے اور ’مسلم شخصیت‘ کا ایک بہت ہی اساسی وصف۔

’مسلم شخصیت‘ ایک ایسی نگاہ رکھنے کا نام ہو گا جو صدیوں کے فاصلے پائے جانے کے باوجود قرونِ اولیٰ کے فہمِ اسلام پر مرکوز ہو سکے۔ اس کو وہ صلاحیت پانا ہو گی جو درمیان سے صدیوں کے فاصلے سمیٹ لے اور ہر صاحبٍ فضل کو اس کا حق دیتے ہوئے قرنِ اول تک یعنی صحابہ کرام اور رسول اللہ ﷺ تک پہنچے۔ نہ کسی کے ساتھ کمی کرے نہ زیادتی۔ نہ افراط سے کام لے اور نہ تفریط سے۔ ہر دور کے اچھے اور برے پہلوؤں کو صاف پہچان لے۔ نہ کسی کی نیکی اور کسی کے مرتبہ و فضیلت کی تحقیر کرے اور نہ کسی کی غلطی یا برائی کی رعایت۔ البتہ اس کی نگاہوں کا مرکز اور پلٹ پلٹ کر لوٹ آنے کا محل صرف وہی ادوار ہوں جن کی بابت وہ رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتا پائے:

اَی الناس خیر؟ قال: قرن ¸، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم (2)

پوچھا گیا کونسے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ فرمایا: میرے دور کے لوگ، پھر جو انکے بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے“....

بہت ساروں کو، جو اپنے فکر وعقیدے اور اپنے فکر و منہج کا رشتہ بس چند عشرے یا چند صدیاں پیچھے تک ہی جوڑ سکتے ہیں .... ’بار بار کے حوالے‘ دینے کیلئے جن کو دورِ آخر کے بعض اکابرین کا ہی نام سجھائی دیتا ہے اور اس سے پیچھے ان کی نظر جا ہی نہیں پاتی.... ان بہت ساروں کو یہاں وہاں سے اٹھا کر دورِ سلف میں لے جانا اور وہاں سے ان کے فہم وفکر کی ساخت کروا کر ان کو ان کے اپنے دور میں لے آنا اور اپنے دور کے حقائق کا سامنا کروانا .... ’مسلم شخصیت‘ کے ایک بڑی سطح پر نمودار ہونے سے یہ بھی باقاعدہ طور پر ہماری مراد ہے۔

تواضع، انکساری اور حفظٍ مراتب کے ساتھ ساتھ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی جرات رکھنا اور اس پر لومۃ لائم سے بے خوف ہونا اور خدا لگتی بات کہنا.... علم، تحقیق اور انصاف کی بات کر گزرنا اور خدا لگتی بات ہر حال میں کہہ دینا .... اخلاصِ نیت رکھتے ہوئے اس معاملے میں صرف خدا سے ڈرنا اور کسی طعنۂ ملامت سے نہ ڈرنا اور عاقبت صرف تقوی کیلئے جاننا اس شخصیت کا ایک اہم جزو ہوگا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا  يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

(الاحزاب: 70، 71)

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی بات کیا کرو۔ (اس سے) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کر لے اس نے بڑی مراد پالی“۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ  (المائدۃ: 54)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسے لوگوں کو لائے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے۔ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے“۔

٭٭٭٭٭
 

(1) البقرہ: 137”اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح مخالفت میں ہیں “

(2) بخاری، عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، کتاب ال اِیمان والنذور

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز