عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, April 24,2024 | 1445, شَوّال 14
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Muslim_Hasti آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
عقیدہ کی پیدا کردہ شخصیت
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

عقیدہ کی پیدا کردہ شخصیت

 

 

دین کے حقائق، پھر دین کے فرائض، اور پھر دین کے مستحبات ومندوبات سے ان کی تکمیل اور تزئین اور آرائش.... اسلام کے مطلوب فرد کو وجود میں لانے کی یہی ترتیب ہے۔

فرد کی تیاری ہی کی بات نہیں ، اسلام کو اس کی حقیقت کے ساتھ لے کر معاشرے میں اترنے کا بھی یہی طریق کار ہے۔

سب سے بڑھ کر اہم تو یہ ہے کہ ایک بات یا ایک عمل کا خدا کے ہاں مقبولیت پانے کا امکان زیادہ سے زیادہ بڑھ جائے۔ا س کا طریقہ بھی یہی ہے کہ اعمال کو خدا کی معرفت اور اس کے حقوق کے علم اور اس کے ’دین کی حقیقت‘ پر مبنی ایک بصیرت کا نتیجہ بنایا جائے۔ عمل کی قبولیت اسی طرح بڑھتی ہے۔ ’اعمال‘ میں اصل جان خدا سے آگاہی پاکر آتی ہے۔ خدا کو جاننے اور خدا سے آگاہ ہونے کی کوئی حد نہیں لہٰذا قبولیت کی بھی کوئی حد نہیں ۔ جبکہ دنیا میں بھی، امید ہے، ایسے ہی عمل کا سب سے بڑھ کر اثر مرتب ہو گا۔ لہٰذا مسلم شخصیت میں اصل تبدیلی یہ ہو گی، اور اسی پر تحریکوں کو زیادہ جان کھپادینا ہو گی، کہ آدمی کے سب انفرادی واجتماعی اعمال خدا کو جاننے کا نتیجہ ہوں .... یا یوں کہیے خداکو زیادہ سے زیادہ جاننے کا نتیجہ ہوں ۔ ’عمل‘ کی تہہ میں ’دین کی حقیقت‘ زیادہ سے زیادہ پڑی ہو۔ ایسے افراد پر مشتمل تحریک ہی اس دور کی ضرورت ہو گی اور ایسی ہی تحریک ایک بڑی تبدیلی لے آنے پر ___ان شاءاللہ___ قدرت رکھے گی۔

چنانچہ قبولیت میں اس عمل کا مرتبہ سب سے بلند ہونا ہے جو زیادہ سے زیادہ علم کا نتیجہ ہو.... اور وہ بھی دین کی اساسیات کا علم جس کی ابتدا خدا کی ذات اور خدا کے حق سے ہوتی ہے۔

امام بخاری، جن کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی فقہ ان کے تراجم ابواب (یعنی احادیث پر باب باندھتے وقت ان کے اختیار کردہ الفاظ) میں ہے، اپنی صحیح بخاری کے کتاب الایمان میں ایک باب یوں باندھتے ہیں اور پھر اس کے نیچے حدیث لاتے ہیں :

باب قول النبی صلی اللہ وسلم: اَنا اَعلمکم باللہ، و اَن المعرفۃ فعل القلب لقول اللہ تعالیٰ: ولکن یأخذکم بما کسبت قلوبکم

حدثنا محمد بن سلام قالنا ناعبدۃ عن ھشام عن اَبیہ عن عائشۃ، قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا اَمرھم اَمرھم من ال اَعمال بما یطیقون۔ قالوا: اِنا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ ان اللہ غفرلک ما تقدم من ذنبک وما ت اَخر، فیغضب حتی یعرف الغضب فی وجھہ ثم یقول: اِن اَتقاکم و اَعلمکم باللہ اَنا (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب 11)

”باب: نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ: میں تم میں سب سے زیادہ خدا کی آگہی رکھنے والا ہوں ، اور یہ کہ معرفت (یعنی پہچان اور آگہی) دل کا باقاعدہ عمل ہے جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے فرمان سے ملتی ہے: ”مگر وہ تمہارا مواخذہ اس چیز پر کرے گا جو تمہارے دلوں نے کمائی کی ہو“۔

”ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہاہم سے عبدہ نے ہشام سے اور انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے عائشہؓ سے روایت کیا۔ عائشہؓ کہتی ہیں :

”اعمال کی بابت رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ لوگوں کو اس بات کا حکم دیتے جس کے کرنے پر وہ طاقت رکھتے ہوں ۔ صحابہ عرض کرتے: اے اللہ کے رسول! ہمارا معاملہ کوئی آپ جیسا تھوڑی ہے آپ کے تو اللہ نے تمام اگلے پچھلے قصور معاف فرما دیے ہیں ! تب آپ غضبناک ہو جاتے یہاں تک کہ غضب آپ کے چہرے پر محسوس ہونے لگتا، تب آپ فرماتے: تم میں سب سے زیادہ تقوی رکھنے والا اور تم میں سب سے زیادہ خدا کی آگہی رکھنے والا میں ہوں “۔

ایسا ہی جواب رسول اللہ ﷺ کا بعض دیگر احادیث میں مروی ہے جن میں ذکر ہے کہ بعض صحابہ نے رسول اللہ کے معمولات آپ کی ازواج مطہرات سے جاننا چاہے۔ تب ان کو آپ کی عبادت گزاری کا معمول توقع سے ذرا کم لگا تو انہوں نے اس کی توجیہ یہ کرنے کی کوشش کی کہ خدا نے آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف کر دیئے ہیں پھر آپکے معمول سے ’زیادہ‘ جو انہوں نے اپنے لئے تجویزکرنا چاہا تو وہ یہ تھا کہ نہ وہ بیاہ کریں نہ کبھی روزہ چھوڑیں اور نہ کبھی رات کو آنکھ لگا کر دیکھیں ۔ تب رسول اللہﷺ نے ایسے ہی سخت ردعمل کا اظہار فرمایا اور اس کی ایسی ہی توجیہ کی۔ یعنی یہ کہ آپ اللہ سے سب سے زیادہ آگاہ اور اللہ سے سب سے بڑھ کر ڈرنے والے ہیں ۔

متعدد علماءنے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ عمل کی اصل قیمت اس کا سنت کے مطابق اور سنت کی حدود کے اندر اور سنت کی فضا میں ہونا ہے۔ علما نے یہ خوبصورت استدلال بھی اس حدیث سے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل جو بظاہر کسی کو کم لگا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں تو اس کی توجیہ کی مگر خود اپنے لئے اس سے زیادہ کرکے اپنی کمی دور کرنا چاہی تو اس کو یہ معلوم کرایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل کا اصل وزن یہ تھا کہ وہ خدا کی زیادہ معرفت کا نتیجہ تھا۔ اللہ کو زیادہ جاننا، اس کے حق سے زیادہ آگاہ ہونا، اس کی عظمت سے زیادہ واقف ہونا، اس کی حدود کا زیادہ علم رکھنا اور پھر اس سے زیادہ ڈر کر رہنا ہی عمل کی قبولیت میں ایک بڑا اعتبار ہے.... نہ کہ عمل کا حجم یا عمل کی کثرت!

حقیقت تو یہ ہے کہ خود یہ اللہ کا ڈر بھی اس کو جاننے کا ہی نتیجہ ہے۔ اللہ سے ڈرنا محض کسی طاقتور سے ڈرنا نہیں ، جیسا کہ علم کی کمی کی وجہ سے بعض لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ ’خشیت‘ خدا کا ایک ایسا ڈر ہے جس میں اس کی تعظیم بھی ہے، احترام بھی، اس کے عدل کا اقرار بھی اور اس کے علم کا اندازہ بھی، اس کا رب اور مالک ہونے کا تصور بھی، عبادت اور اطاعت اور اذعان پر اس کا مطلق حق ہونا بھی اور پھر اس کامالک جبروت ہونا بھی۔ غرض ’خشیت‘ دل کی جس حالت کا نام ہے اس کے پیچھے اللہ کی صفات اور اللہ کی حدود کا ایک پورا تصور ہے۔ ’خشیت‘ کا اصل راز پس خداکا علم رکھنا ہے اور اس انداز ہی کا علم بڑھانا اور بڑھاتے چلے جانا:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ (فاطر: 28)

”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں “۔

قرآن مجید میں ”آمنوا وعملوا الصالحات“ کی بے حد تکرار ہوتی ہے جس سے بخوبی یہ مطلب نکلتا ہے کہ عمل کو زیادہ سے زیادہ ایمان کا نتیجہ ہونا چاہیے اور ’ایمان‘ دراصل ایک انتہائی برگزیدہ حقیقت کو جاننے اور ماننے کا نام ہے۔ اس جاننے اور ماننے کو کوئی خاص حد متعین نہیں ۔ آدمی جتنی ہمت رکھتا ہے اتنا اس میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے عمل میں زیادہ سے زیادہ جان پڑتی ہے۔

فرد کی تعمیر میں اس بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ’عمل‘ سے پہلے ہمیں اس چیز کی طلب ہو گی جو اس ’عمل‘ میں بول سکے اور اپنا آپ محسوس کرا سکے اور جو کہ علم اور ایمان ہے۔

٭٭٭٭٭

چنانچہ ’فرائض‘ کی دعوت یقینا ایک مستحسن امر ہے۔ یہ ’وظائف‘ اور ’فضائل‘ کی دعوت پر یقینا ایک فضیلت رکھتی ہے۔ حتی کہ ایک فرد یا گروہ کی اپنی اہلیت یا استطاعت کے پیش نظر، یا پھر وقت کی ضرورت کا پاس کرتے ہوئے، دین کے بعض فرائض کی دعوت دی جائے تو وہ بھی یقینا ایک مستحسن امر ہے۔ خواہ یہ تبلیغ کا فرض ہو، خواہ قتال کا، خواہ اسلامی ریاست کے قیام کا، خواہ حقوق العباد کا فرض ہو، خواہ معاشرہ سے سماجی برائیوں اور معاشرتی بیماریوں کو ختم کرنے کا، خواہ مسلمانوں کو اس مادی پسماندگی سے نجات دلانے اور سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھانے کا، اور خواہ مسلمانوں کے معاشی حالات درست کرنے کا.... طریق کار کی تفصیلات سے قطع نظر یہ سب ’نوافل‘ اور ’مستحبات‘ نہیں بلکہ یہ دین کے اس وقت کے بڑے بڑے فرائض ہیں جو اس دور میں ایک عرصے سے ادھورے پڑے ہیں اور ان کے یا ان میں سے بعض کے قیام کی دعوت بلاشبہ مطلوب ہے اور یہ سب کچھ خیر میں ہی شمار ہوتا ہے....

مگر ایک ایسے گروہ کی کمی اس سے کہیں بڑی ہے جو لوگوں پر ان کے دین کی حقیقت واضح کرے۔ انکو ’ایمان‘ کی تعلیم دے اور ایک تحریکی انداز میں ان کو دین کے حقائق سے آشنا کرے۔ یہ کمی پوری ہونے لگے تو ہم سمجھتے ہیں صورتحال میں ایک بہت بڑی تبدیلی آپ سے آپ رونما ہو جائے گی اور دین کے فرائض کا قیام جو پہلے سے کسی نہ کسی حد تک عمل میں آبھی رہا ہے، اور جس کو روک دینا ہمارا مقصود نہیں ، اس میں بھی خودبخود جان پڑ جائے گی۔ فرائض دین کے یہ جتنے شعبے اس وقت کام کر رہے ہیں یہ سب ترقی کریں گے۔ تب دین کے متروک فرائض کے اور بھی زیادہ سے زیادہ شعبے کھلیں گے۔ امت کے کام کو آگے بڑھانے کیلئے جو صلاحیتیں درکار ہیں تب ہم ان کی نشوونما بڑے آرام سے کرنے لگیں گے.... اور ہمارا یہ دور، جو کہ ہے ہی ہمارا منتظر، اپنی ضرورت پوری ہوتی ہوئی پائے گا۔

’عقیدہ کا پیدا کیا ہوا فرد‘ یوں سمجھیے سب منصوبوں میں جان ڈال دے گا۔

٭٭٭٭٭

’تربیت‘ دراصل ’انسانی مصنوعات‘ (human products) تیار کرنا ہے۔ یہ تربیت کی ایک اچھی تعریف ہو سکتی ہے۔ ’مصنوعات‘ کی بابت بہت سے قوانین کا اطلاق اس ’صنعت‘ پر بھی ہو گا۔ چیز اگر صرف وہی پیدا کی جائے جس کی پہلے سے مانگ ہے تو پھر کوئی نئی چیز دنیا کے اندر معرض وجود میں آہی نہ سکتی۔ مگر دنیا میں کسی نئی چیز کے سامنے آنے کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا۔ البتہ ایک نئی چیز کو سامنے لاناہے جان جوکھوں کا کام۔ اور یہی بات تفکیر طلب ہے۔

اس وقت پوری دنیا ایک ہو چکی ہے۔ آپ اگر کچھ سامنے لانے کی پوزیشن میں ہیں تو اس کا یہی وقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ دنیا کو دے کیا سکتے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہونا چاہئے جو ہماری قیادتوں ، ہمارے اساتذہ اور ہمارے مربیوں کی راتوں کی نیند حرام کردے۔ یہ کتنی عجیب بات ہو گی کہ دنیا کے جب ایک ہونے کا وقت آئے تو امت اسلام دنیا کے سامنے کچھ لاہی نہ سکے اور یہ پوری امت اس دور میں بس ’صارفین‘ کا ایک مجموعہ ہو اور ’درآمدات‘ پر اور یا پھر دنیا سے کٹ کر رہنے پر ہی یقین رکھتی ہو!

شاید خدا کو، بوجوہ، ایسا منظور نہیں کہ مسلم امت دنیا میں بس سائنس اور ٹیکنالوجی کی امام ہو یا ’پلاسٹک کی چیزیں ‘ بنانے میں ہی نام پیدا کرے۔ کبھی ایسا ہو جائے تو اس میں حرج کی بات نہیں بلکہ ایک درجے میں یہ بھی بے حد مطلوب ہے مگر یہ اس وقت امت کا اصل میدان نہیں ۔ جب اس کو ایسی کوئی حیثیت حاصل ہو بھی جائے تو اس کی یہ ایک بہت ہی ثانوی پہچان ہوگی۔ پھر آپ کی اصل پہچان کیا ہونی چاہیے؟ دنیا کو دینے کیلئے اور دنیا میں کوئی نام پانے کیلئے آپ کے پاس کیا ہونا چاہئے؟ یا آپ کے خیال میں کسی پہچان کے بغیر بھی آپ کو قوموں اور امتوں اور نظریوں میں ایک اعلیٰ مقام ملنا چاہئے!؟ بالفرض آپ کو ___کسی نہ کسی طرح___ دوسری امتوں پر فی الفور کوئی فوجی برتری یا سیاسی اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تب بھی ’فوجی برتری‘ یا ’سیاسی اقتدار‘ آپ کا امتیاز اور آپ کا تخصص تو نہیں ہو سکتا! فوجی برتری یا سیاسی اقتدار تو بامقصد لوگوں کے ہاں محض کسی ہدف کو بروئے کار لانے کیلئے ہوتا ہے۔ برتری یا اقتدار خود تو کوئی ہدف نہیں ۔ یہ تو ایک وسیلہ ہے۔ غایت تو کچھ اور ہونی چاہئے۔ اب یہ جس چیز کوہم نے ’ہدف‘ یا ’غایت‘ کہا، کچھ محنت آخر اس پر بھی تو ہو۔ کم از کم اس بات کا تعین ہی ہو کہ اپنا ہدف اور غایت کیا ہے اور وہ کہاں تک ہماری جدوجہد کا موضوع ہے!

’غایت‘ جب ہماری سوچوں کا اصل محور بن جائے گی تب جا کر ہی ’وسائل‘ اس کی خدمت کاموثر ذریعہ بن سکیں گے۔ ’غایت‘ اگر ہمارا سب سے بڑاا ور سب سے نمایاں موضوع نہیں بنتی اور ’وسائل‘ ہی ہمارا بڑا موضوع بنے رہتے ہیں تو پھر معاملے کی ساری ترتیب الٹ جائے گی۔ تب ’غایت‘ تک پہنچنے کیلئے اختیار کئے جانے والے ’وسائل‘ اور ’ذرائع‘ ہی خود غایت بن جائیں گے اور ’غایت‘ بیچاری یا تو کہیں روپوش ہو جائے گی اور یا پھر اگر ذکر میں آتی بھی رہی تو اس کا ذکر کیا جانا ’وسائل‘ ہی کی خدمت ہو گا! تب اس کا ذکر ہو تو نقصان دہ اور بالکل ذکر نہ ہو تب نقصان دہ۔ یہ نتیجہ اس بات کا ہوتا ہے جب کسی قوم کی اصل غایت اور مقصدِ وجود اس کا سب سے بڑا اور سب سے نمایاں موضوع نہ رہے۔ خصوصاً اپنے وقت کی آسمانی امت تو اس بات سے شدید نقصان اٹھاتی ہے کیونکہ وہ تو ہوتی ہی کسی ایک خاص غایت کیلئے ہے اور اس کے بغیر وہ بے کار ہوتی ہے، جیسا کہ ایک بڑی سطح پر ہم نے اپنے دور میں یہ بات دیکھ بھی لی ہے۔

چنانچہ قوموں کی اس دوڑ میں جو اب بے انتہا تیز ہو گئی ہے.... بطور قوم آپ کو دیکھنا ہو گا کہ آپ کا اصل امتیاز اور اصل تخصص کیا ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر آپ اپنی قوم کو ترقی دیں اور اسی کی بنیاد پر اپنا کوئی نام پیدا کریں ۔ اس بات کا علی وجہ البصیرت تعین کرنا ہو گا کہ قوموں کی اس بھیڑ میں بلکہ آج کی اس مقبوضہ دنیا میں ، جس پر کچھ بے رحم سانپ کنڈلی مار کر بیٹھے ہیں ، آپ کیلئے آگے بڑھنے کاکیا راستہ ہے اور قدرت کی طرف سے آپ کو کون کونسے امکانات حاصل ہیں جو اس صورتحال کا نقشہ تبدیل کرنے کی خاطر آپ کیلئے بنیادی سرمایے کی حیثیت رکھتے ہوں ۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ دنیا میں ایک اور طرح کا انسان پیدا کرنے لگیں .... ایک ایسا انسان جس کا ان مادہ پرستوں اور سرمایہ پرستوں کے پاس کوئی توڑ نہ ہو اور جو مقدور بھر مادی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہتھیار بھی پاس رکھتا ہو جس کا مقابلہ مادی ہتھیاروں ا ورمعاشی ہتھکنڈوں سے نہ ہو سکتا ہو!؟ برتری کی کوئی بنیاد تو آخر اپنے پاس ہو!

آپ کسی بھی حوالے سے ___بطور قوم___ جب ایک بار اپنی کوئی ساکھ بنا لیتے ہیں اورجب اس کی بنیاد پر آپ خود اپنی نظر میں قابل احترام ہو جاتے ہیں اور وہ چیز آپ کی نظر میں اس قدر حرمت اور عظمت والی ہو جاتی ہے کہ بھوکے ننگے رہتے ہوئے بھی ___بطور قوم___ آپ اپنے اندر ایک اعتماد اور خودداری محسوس کرنے لگیں تو پھر دوسرے حوالوں اور دوسرے پہلوﺅں سے بھی آپ کو اپنی بگڑی ہوئی ساکھ بنانے کے مواقع ہاتھ آجاتے ہیں ۔ تب یہ آپ کی ہمت اور حوصلہ مندی پر ہوتا ہے کہ آپ ان مواقع کا کیسا استعمال کرتے ہیں ۔

مگر ہمیں تو خدا کے فضل سے ’کسی بھی حوالے سے‘ اپنی کوئی ساکھ بنانے کی کیا مجبوری ہے!؟ تھرڈ ورلڈ کی قومیں اس کیلئے پریشان ہوں اور اپنے سامنے اس بے رحم دنیا میں کوئی راستہ نہ پائیں تو ان کی مجبوری بنتی ہے۔ مگر ہمیں کیا پریشانی ہے؟ سب سے زیادہ باشعور، سب سے زیادہ حساس اور ذمہ دار، سب سے زیادہ نتیجہ خیز productive اور سب سے زیادہ حوصلہ مند ambitious انسان پیدا کرنے کی صفت تو ہمارے اپنے دین اور عقیدے میں ہے۔ اوروں کو یہ دنیا محض دنیا کیلئے تعمیر کرنی ہے اور ہمیں یہ دنیا اللہ کے نام سے اور آخرت کیلئے تعمیر کرنی اور حسین سے حسین تربنانی ہے۔ یہ تو رہی جذبۂ عمل کی بات۔ پھر جہاں تک اقوام عالم میں کوئی نام پانے اور کوئی حیثیت رکھنے کی بات ہے تو ہمیں وہ بہترین حوالہ حاصل ہے جو اقوام عالم میں ہمیں ممتاز ونامور کر دے۔ یہ علم اور ہدایت کا حوالہ ہے۔ یہ انسان کو انسان بنانے کی صلاحیت ہے۔ یہ ایمان اور نور ہے جو ہمارا ___یعنی وقت کی آسمانی امت کا، جس کا وجود ایک خاص خدائی مقصد کی تکمیل کیلئے ہوا کرتا ہے___ لازمہ اور خاصہ ہے:

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ  (الم السجدۃ: 24)

”اور جب ان لوگوں نے صبر کیا اورہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے“۔

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّة ....!

امامت ___اگر ہم اپنی حقیقت کوپا لیتے ہیں اور کچھ محنت کرکے اپنے معاشروں کو بھی انکے اپنے آپ کی شناخت کرا دیتے ہیں ___ ہمارا ہی منصب ہے۔ خدا کی آیات اس وقت صرف ہمارے پاس ہیں ۔ کیا یہ کوئی چھوٹا واقعہ ہے؟ خدا کی حقیقت ___جس قدر کہ انسانی شعور کے احاطے میں آسکتی ہے، صرف ہمارے پاس محفوظ ہے۔ نبیوں کا ورثہ ہم رکھتے ہیں ۔ دنیا کی حقیقت ہم جانتے ہیں ۔ دنیا کے سدھر جانے کا نسخہ صرف ہمیں بتایا گیا ہے جبکہ دنیا کو سدھر جانے کی ضرورت جتنی آج ہے صدیوں سے اتنی کبھی نہیں رہی۔ دنیا کو آخرت کیلئے سنوارنا اور آخرت کو اسی دنیا میں بنا لینا، یعنی ایک ہی وقت میں دو جہان تعمیر کرنا ہمارے دین کی حقیقت پانے کا انعام ہے۔ انسانی فطرت جس روشنی کیلئے پیاسی ہے اور جس کی پیاس میں یہ طرح طرح کے نظریوں اور ازموں کے پیچھے ماری ماری پھرتی ہے، اپنے نبی کے ذریعے سے، وہ روشنی ہمیں سونپی گئی ہے....

لوہے اور دھات کی اشیاءبنانے کی صلاحیت بھی بے انتہا اچھی ہے اور اس میں نام پیدا کرلینا بھی نہایت مستحسن ہے مگر ہم تو انسان سازی کی صلاحیت بھی پیدا کر سکتے ہیں ۔

ذرا ایک بات پر غور فرمائیے ....

اللہ تعالیٰ کو عربوں سے کچھ کام لینا تھا۔ بلاشبہ یہ قوم صلاحیتوں سے عاری نہیں تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی قوم بھی صلاحیتوں سے عاری نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں یہ صلاحیتیں ویسے کی ویسے پڑی رہتی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے ایک عرصہ تک عربوں کو کسی چیز میں کوئی نام پیدا کرنے نہیں دیا جاتا۔ اردگرد میں ہر قوم نام پیدا کرتی رہی مگر یہ بے نام ہی رہی۔ ترقی کے جو نسخے اور قوموں کو معلوم ہو جاتے رہے وہ ان کو معلوم ہوجاناآخر کونسی بڑی بات تھی۔ مگر ’نسخوں ‘ سے کبھی کب بات بنتی ہے! چنانچہ ’ترقی‘ کے یہ سب نسخے اس تمام عرصہ عربوں سے روپوش ہی رہتے ہیں یا پھر یہ ان کے استعمال سے عاجز ہی رہتے ہیں اور برابر بے خانمائی کی زندگی بسر کئے جاتے ہیں ۔ خدائی منصوبہ کی رو سے یہ بھی دراصل ان کی مستقبل کی سرمایہ کاری investment تھی۔ یہ ان کا اپنا فیصلہ نہ تھا مگر یہ کسی کا فیصلہ بہرحال تھا۔ یوں بڑی دیر تک یہ قوم بے نمود ہی رہتی ہے.... تاآنکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہو جاتی ہے اور انکو ’اسلام‘ مل جاتا ہے! اب اس بے نام قوم کا جو نام ہوتا ہے وہ ہر قوم سے منفرد اور جدا ہے اور ہر قوم کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ گویا یا تو کوئی نام ہی نہ تھا اور اب اگر نام ہوا تو وہ ہرنام سے سواہے! اب یہ بے خانما قوم اقوام عالم کی امام بن جاتی ہے کہ اس کو ’انسان سازی‘ کی صلاحیت دے دی جاتی ہے۔ علم، ایمان، ہدایت، روشنی سب اس کے نام کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اب جب اس میں یہ نام پیدا کر لیتی ہے اور یہی اس کا اصل میدان اور اس کا تخصص اور امتیاز بن جاتا ہے تو پھر یہ اور بھی ہر چیز میں نام پیدا کرتی ہے۔ ہر ہر چیز میں اوروں کو مات دیتی ہے۔ ہر میدان میں دنیا کی اور اقوام کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے مگر اس بے پروائی سے کہ ان میں سے کوئی بات بھی اس کا ’نام‘ نہیں بنتی! جیسے یہ اس کا بائیں ہاتھ کا کام ہو۔ دنیا اس کے دائیں ہاتھ میں کبھی نہیں دی گئی۔ اسکا دایاں ہاتھ دنیا لینے کیلئے بنا ہی نہیں !

سبحان اللہ!!! کیا تاریخ کا یہ ایک غور طلب واقعہ نہیں !!!

گویا جیسے خداکو یہ منظور ہی نہ تھا کہ جس قوم کو اس نے اپنی بندگی اور اپنی وحدانیت میں مثال بننے اور علم، ایمان اور ہدایت میں نام پیدا کرنے کیلئے بچا رکھاتھا اس کا اس نام کے سوا کوئی اور نام اور کوئی اور شہرہ ہو! اس سے پہلے یہ کوئی نام پیدا کر لیتی تو یہ اسی پر ناز کرتی یا کم از کم اسلام کے سوا بھی اس کے پاس ناز اور فخر کرنے کی کوئی بات ہوتی! سو اس کا سرے سے کوئی نام نہ ہوا اور جب ہوا تو وہ وہی تھا جو خدا کو پسند تھا اور جو اس کی شخصیت پر کچھ ایسا مناسب بیٹھا تو پھر اس کو اپنی پہچان کرانے اور اپنے ہنر دکھانے کے ہزارہا حوالے حاصل ہوئے مگر اس ایک حوالے کے سوا جو اس کو اپنے دین سے ملا اور کوئی حوالہ بھی اس کی اس ہستی پر نہ جچ پایا! کوئی اور حوالہ دیا بھی جاتا تو اس کی ذات پر بہت اوپرا لگتا.... اس امت کو واقعتا اتنی بڑی قامت نصیب ہو گئی تھی!

چنانچہ جب اس امت کی شخصیت بنا لی گئی، اور یہ ایک ایسی زوردار شخصیت تھی کہ قوموں کی قومیں اس میں گم ہو جائیں تو نظر تک نہ آئیں سوائے اس حیثیت میں جو کہ خود اسی کا تقاضا ہو.... جب اس امت کو یہ ہستی نصیب ہو گئی اور خدا کی تنہا اور بلاشرکت غیرے بندگی ہی اس کا شہرہ اور اس کی شناخت بنا تو پھر دنیا کے دروازے، جو اب تک ایک منصوبے کے تحت بند رکھے گئے تھے، اس پر چوپٹ کھول دیئے گئے۔

فتوحات، اقتدار، ترقی، صنعت، حرفت، معیشت، تحقیق، ٹیکنالوجی، سائنسی انکشافات، تمدن، سماجی بہبود.... ہزار سال تک یہ امت ہر میدان میں جہان پہ برتری پا کر رہی۔ اور لطف کی بات یہ کہ ہر میدان میں یہ اقوام عالم پر سبقت پائے رہی بغیر اس کے کہ ان میں سے کوئی میدان، یا کوئی کارنامہ اس کی اصل پہچان بن سکے!
کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے؟ یہ امت، جس میں اب ہزاروں اقوام اپنی ماقبل اسلام تاریخ سے دستبردار ہو کر پوری طرح مدغم ہو چکی ہیں ، آج رسول اللہ ﷺ کی قوم ہے اور آپ ہی کی نام لیوا۔ خدا اس کو بے آسرا چھوڑنے والا نہیں مگر اس کو وہ قیمت بہرحال دینی ہے جو خدا کی رحمت اور اس کے عدل کا تقاضا ہے۔ اب یہ پھر پچھلی کئی صدیوں سے مفلوک الحال اور بے نام ہے۔ اس کے ’سمجھداروں ‘ نے اسکے دن پھر جانے کیلئے دنیا کے اصولوں پر بڑی بڑی زبردست اسکیمیں تیار کیں اور اس کو اپنے پیر پر کھڑا کرنے اور اس کی کوئی ساکھ بنانے کیلئے پورا زور لگایا مگر یوں گویا کچھ ہوا ہی نہیں ! امیوں کی اس امت معاملہ کا دنیا کی ’پڑھی لکھی اقوام‘ سے جدا نکلا۔ کوئی چیز اس میں جان نہ ڈال سکی کیونکہ اس کی جان جس چیز میں ہے اس پر ___کسی بڑی سطح پر___ کوئی توجہ نہ دی گئی!

جغرافیۂ عالم کے وسط میں بیٹھی اور سب سے زیادہ انسانی اور قدرتی وسائل کی مالک یہ مفلوک الحال قوم کیا کسی خاص مقصد اور کسی خاص وقت کیلئے بچا رکھی گئی ہے!؟ اور کیا اس کی یہ صدیوں پر محیط بدحالی، جس کو دور کرنے میں اپنے ذہین لوگوں کی ہر تدبیر الٹی پڑتی رہی، کیا پھر سے کسی مستقبل کی سرمایہ کاری تو نہیں !؟ کیا یہ بے نامی اس لئے تو نہیں کہ وہ سب نام جنہیں پا کر دنیا کی کچھ قومیں پھولی نہیں سماتیں اور جنہیں پانے کیلئے دنیا کی باقی قومیں دیوانی ہوئی جاتی ہیں اور خود اس کے نادان بھی جنہیں پانے کیلئے دیوانے ہوئے جاتے ہیں .... یہ سب نام اورمرتبے جو دنیا کیلئے منتہائے تخیل ہو سکتے ہیں اس امت کو البتہ ایک ثانوی حیثیت میں ہی مل سکتے ہیں !؟ جس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ اپنی اولین حیثیت کو سامنے لائے! گویا اس کا کوئی نام بن ہی نہیں سکتا سوائے ایک نام کے۔ یہ جب بھی ’نام‘ پیدا کرے گی تو وہ وہی ہو گا ورنہ یہ کوئی نام ہی پیدا نہ کرے گی! گویا قدرت کی طرف سے اس پر یہ شرط لگی ہے کہ پہلے یہ اپنا اصل امتیاز قائم کرلے تو پھر وہ سب امتیازات جو دنیا کو حاصل ہیں اور جنہیں دیکھ کر بہت سوں کی رال ٹپکتی ہے اس کو ایک مختصر ترین مدت میں اور بڑی آسانی سے حاصل ہو جائیں ، جیسا کہ یہ اپنے ساتھ ایسا ہوتا پہلے دیکھ آئی ہے! گویا دنیا کو جو امتیازات حاصل ہیں وہ اس کو ملیں گے تو بدرجۂ اتم مگر اس حیثیت میں ملیں گے کہ اس کیلئے وہ ’امتیاز‘ نہ رہیں بلکہ اس کے لئے وہ ایک ادنی سی چیز ہو جائیں اس حال میں کہ ’اعلی‘ چیز کا تصور اس کے ہاں کچھ اور ہو جائے۔ بصورت دیگر اس کو نہ یہ ملے اور نہ وہ! اعلیٰ کے بغیر ادنی پایا جائے تو ادنی ہی اعلیٰ بن جاتا ہے!

یہ اگر کوئی خدائی شرط ہے تو یہ عین عدل کا تقاضا ہے۔ دوسری قوموں سے اس کامعاملہ محتلف ہونا ہی چاہئے۔ خدا کا اس سے اگر کوئی وعدہ ہے تو اس کی کوئی قیمت بھی ہے۔ ’اعلی‘ چیز اس کے لئے ’اختیاری‘ نہیں بلکہ ’لازمی‘ مضمون ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات!؟

اس امت کے حق میں ادنی کی طلب ہرگز بری نہیں ۔ مگر اعلی کے بغیر ادنی کی طلب اس کی شان سے فروتر ہے.... بلکہ یہ اس کے حق میں ایک بڑا جرم ہے اور اس کے دورِ انحطاط کی ایک دلیل بھی۔

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا (الاعراف: 129)

”پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اس دنیائے دَنیٰ کے فائدے سمیٹتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں ’اپنی بخشش ہوجائے گی‘ ....“

کتنے تجربے، کتنی کوششیں ، کتنے منصوبے اس قوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے اور اقوام عالم میں اس کو کوئی بہت عظیم بھی نہیں بس ایک ’مساویانہ‘ اور آبرو مندانہ‘ مقام دلانے کیلئے عمل میں لائے گئے.... اور پھر کتنے نظریات اور کتنے ازم آزمائے گئے اور کتنے نظام درآمد ہوئے مگر ’توفیق‘ تھی کہ شامل حال نہ ہوئی (وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ) شیر خوار موسی علیہ السلام کے لئے فرعون کے محل میں دودھ پلانے والیوں کی کیا کمی ہو سکتی تھی مگر ان کو کسی بھی عورت کا دودھ لینے سے روک دیا جاتا ہے.... کیونکہ ’ماں ‘ کے پاس پہنچنے کا، خدائی منصوبہ کی رو سے، یہی طریقہ تھا! کیا اس امت کے ساتھ بھی قدرت کو کوئی ایسی ہی عنایت تو منظور نہیں !؟

وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ!!

وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ!!

وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ!!! (1)

اب یہ ’نام‘ یا ’امتیاز‘ کیا ہے جو کسی امت یاجماعت یا قوم کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے؟ یہ وہی چیز ہے جو اس کے ایک اوسط فرد کا وصف ہو سکے۔ چنانچہ ’نام‘ پیدا کرنے یا ’غایت‘ کا تعین کرنے سے ہمارا یہ مقصد نہیں کہ کوئی جماعت اچھے سے اچھے الفاظ میں اپنا کوئی ’منشور‘ لکھ دے۔ یہ تو وہ چیز ہے جس کو وہ اپنے ایک اوسط فرد کی شخصیت میں نمایاں کرنے پر محنت کرتی ہو۔ یہ محض نیکی اور جذبہ نہیں ۔ یہ ایک عقیدہ کی پیدا کی ہوئی ہستی ہے۔

’مسلم شخصیت‘ سے دراصل ہماری یہی مراد ہے۔

سب سے پہلے اسی ’مسلم شخصیت‘ کے میدان میں آنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے بہت کچھ کیا مگر دنیا کو ابھی اس ’شخصیت‘ سے نہیں ملوایا جس سے یہ کوئی ہزار سال تک واقف رہی اور جس کے بارے میں یہ ابھی تک اپنی کتابوں اور تاریخوں میں بہت کچھ پڑھتی ہے اور جو کہ کبھی بھی اس کی نگاہوں سے پوری طرح روپوش نہیں ہوئی اور جس کے بارے میں ہم امید رکھتے ہیں کہ عملاً جب بھی یہ دوبارہ سامنے آئی تو دنیا کو اسے شناخت کرنے میں بہت دیر نہیں لگے گی!

ستم کی بات یہ کہ دنیا کا معاملہ تواپنی جگہ رہا خود ہم میں سے بہت سوں کو اس مسلم شخصیت سے درست تعارف نہیں ۔ وہ مسلم شخصیت جو ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا واقعہ بنی رہی، کبھی ہمیں لگتا ہے کہ وہ ’فتوحات‘ کرنے والی شخصیت تھی جو کفار کو سبق سکھاتی اور قیصر وکسریٰ کے محلات لرزاتی تھی۔ کبھی ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ ایک ’اقتدار کی مالک‘ شخصیت تھی۔ کبھی ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ ایک زاہدانہ انداز میں وعظ اور تبلیغ کرتی شخصیت تھی .... بلاشبہ یہ سب کچھ اور اس کے سوا بہت کچھ تھا مگر یہ شخصیت دنیا میں بالفعل کس چیز کا انعکاس تھی اور اس شخصیت کے اصل اجزائے ترکیبی کیا تھے اور یہ شخصیت کس چیز سے اور کس انداز میں وجود پاتی تھی، اس بات سے تعارف پانے کی خود ہم نے بہت کم کوشش کی۔

’مسلمان‘ کی وہ تاریخ ساز شخصیت جس سے ہمیں دنیا کو ملوانا ہے پہلے ہمیں خود بھی اس سے ملنا ہے۔ دنیا سے بڑھ کر یہ ہماری ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہے جس کو ہزار وقت دیکھنا پڑ سکتے ہیں مگر اس کے اجزائے ترکیبی وہی رہتے ہیں جو وحی کے حقائق سے جنم پاتے ہیں ۔ اصل چیز اس کی ہستی کی ساخت ہے۔سب سے اہم بات اس شخصیت کے اجزائے ترکیبی ہی ہیں اور تجدید کی اصل غایت بھی یہی ہے کہ انہی اجزاءکو ان کی اصل پوزیشن میں واپس لایا جاتا رہے۔ اس کے نشاط ہر دور میں اور مختلف حالات میں مختلف ہو سکتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر لوگوں کو اس کے ’نشاط‘ پر ہی اس کی ’حقیقت‘ کا شبہہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو قتال کرتا دیکھ کر یا تبلیغ کرتا دیکھ کر یا اس کو اسلامی نظام قائم کئے ہوئے دیکھ کر وہ اسی بات کو ’مسلم شخصیت‘ کا اصل وصف سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ یہ اس شخصیت کامحض ایک مظہر ہوتا ہے۔ گو یہ اس کا ایک سچا مظہر ہوتا ہے مگر ہے یہ مظہر۔ یہ اسکا جزو ترکیبی نہیں ۔ یہ اس کی حقیقت نہیں جو کہ اسے وجود میں لاتی ہے۔ ’مظاہر‘ کو ’حقیقت‘ سمجھ بیٹھنا ایک بڑی آفت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خود اس کی ہستی کا تعین ہو کہ یہ کیا ہے اور کیونکر رو پذیر ہوتی ہے۔

’اسلامی شخصیت‘ ایک ایسا واقعہ ہے جو وحی کے حقائق کے انسانی صورت دھار لینے سے جنم پاتا ہے۔ پیچھے کہیں ہم یہ بات کہہ آئے ہیں کہ مسلم امت یا مسلم شخصیت کا سب سے بڑا امتیاز اس کا کتاب اللہ کی نصوص سے برآمد ہونا ہے۔ یہی اصل محاذ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس پر محنت کون کرتا ہے۔

یہ ہماری سب سے بڑی اور سب سے پہلی ضرورت ہے۔ ہم محکوم ہیں تب اور کبھی حاکم ہو جائیں تب، مغلوب ہیں تب اور کبھی غالب ہوجائیں تو تب، ہجرت کر رہے ہوں یا قتال، حکومت کرتے ہوں یا سرے سے مستضعف اور بے گھر ہوں .... سب مرحلوں میں یہی ہماری اصل پہچان ہوگی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے اصل ’غایت‘ قرار دیا ہے اور جس کیلئے فوجی یا سیاسی برتری، دعوت یا تبلیغ، اتحاد یا اجتماع محض وسائل اور ذرائع کا درجہ رکھیں گے۔

سب سے اہم بات ہماری ہستی کا ___ایک مطلوبہ سطح پر___ وجود میں آنا ہے۔ رہ گیا پھر اس کے بعد ہمارا اجتماع تو اجتماعی سطح پر ہماری اصل غایت یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے وجود سے اسلام کا وہ اصل مقدمہ دنیا کو سمجھ میں آنے لگے جو کہ اسلام کا اصل مفہوم اور اسلام کی اصل حقیقت ہے۔ قربانی ہے تو وہ اس کی راہ میں ہو گی۔ محنت ہے تو وہ اس کی راہ میں ہو گی۔ جان اورمال ہے تو وہ اس کی راہ میں صرف ہو گا اس سارے عمل کو جہاد کہا جائے گا البتہ وہ چیز جو اس ساری محنت اور ان سب وسائل کے بہائے جانے کی اصل غایت ہو گی وہ یہی ہے.... یعنی ہم وحی کے حقائق کا انسانی واقعہ ہوں ۔ ہمارے ذریعے لوگ خدا کی حقیقت کو پائیں اور اس کی بندگی کا مفہوم جانیں ۔ فتنہ اور باطل کی تمام صورتوں کا، جن میں شرک اور طاغوت کی بندگی سرفہرست ہے __حتی الامکان__خاتمہ ہو اور زمین میں پھیلے فساد کی اور فساد کی تمام صورتوں کی ___ممکنہ حد تک___ بیخ کنی۔

٭٭٭٭٭
 

(1) البقرۃ: 216”بہت ممکن ہے ایک چیز تم ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو!!
اور بہت ممکن ہے ایک چیز کو تم پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے بری ہو!!
اللہ جانتا ہے، اور تم جانتے نہیں ہو!!!

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز