"المورد"..
ایک متوازی دین
حامد کمال الدین
اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں جو
امت کے ہاں مراد ہے... "سنت" سے بالکل وہ مراد نہیں جو امت کے ہاں مراد
ہے... تو پھر "اجتہاد" کیا بڑی بات ہے جو اس سے ان کی بالکل اپنی کوئی
مراد ہو۔
باقی چیزوں کا بھی تقریباً یہی معاملہ ہے ہمارے اور ان کے مابین۔
بس صرف الفاظ و اصطلاحات ایک جیسے، اور یہیں سے ساری نقب زنی۔
اصل مار ہمارے لوگوں کو یہ حضرات "الفاظ"
(اصطلاحات) کی ہی دے لیتے ہیں۔ یعنی
اصطلاحات ہمارے والی (چوده صدیوں سے چلی آتی) اور اس کے تحت مضمون
بالکل ایک نرالا اور جداگانہ۔ جو کہ ’’اصطلاح‘‘ کے تصور ہی کو فوت کر دینے کے
مترادف ہے۔ (یہ ایک باقاعدہ لطیفہ ہے کہ بہت سی شرعی اصطلاحات کو یہ حضرات نری ’’لغت‘‘
کی بنیاد پر تفسیر فرما رہے ہوتے ہیں! بغیر معاملہ کو اس پر کوقوف کیے کہ اسلام کے
اولین مخاطبین کے ہاں یہ کس معنیٰ میں مستعمل تھیں!)۔
صرف اگر ایک کام ہو جائے (یا ایک چیز ورچوولی virtually
فرض
کر لی جائے!!!): ان کے ہر کانٹنٹ content کےلیے کونٹینر container ان کا اپنا ہو جائے... تو کوئی ایک بھی اشکال ان شاء اللہ ہمارے
اور ان کے بیچ نہ رہ جائے، قطعی طور پر۔ ہم بھی آسودہ اور وہ بھی۔ نہ کوئی مسئلہ
اور نہ کوئی بحث۔ نہ روز روز کا یہ جنجال۔ اور نہ ’’اخلاقیات‘‘ کی دُہائی کا کوئی
موقع۔
محض اصطلاحات کا اشتراک ان کا ہمارے ساتھ اتنا بڑا مسئلہ پیدا کر
رہا ہے۔ اور فی الحقیقت اشتراک نہیں بلکہ دھاوا۔ (کیونکہ ’’اصطلاح‘‘ میں اصل چیز
ایک گروہ کا ’’سَبۡق‘‘ یعنی پہل کر چکا ہونا ہے۔ یعنی ایک گروہ کا لفظ کو اس کے لغوی
مفہوم پر زائد ایک ڈویلپمنٹ ’’دے چکا‘‘ ہونا۔ ممکن نہیں کہ یہ عمل چودہ صدیوں تک
کسی ’’پیدا ہونے والے‘‘ کا منتظر رہتا۔ اسی لیے امام مالکؒ کے ایک اثر کے حوالے سے
ہم کہیں پر کہہ چکے: مطمئن رہیے، یہ دین زمین پر نازل بھی ہو چکا، سمجھا بھی جا
چکا، روایت بھی ہو چکا، اس پر عمل بھی ہو چکا، اور اس کے پریکٹسز بھی وجود میں آ
چکے۔ نئے آنے والوں کو اب محض اس کے تسلسل کا حصہ بننا ہے نہ کہ سارے عمل کو
ادھیڑنے اور ان ڈو undo کرنے کی ایک تخریبی سعی کرنی ہے)۔
چنانچہ اس امت کے دین کے متوازی ایک دین، صحیح
معنیٰ میں المورد نے دیا ہے۔ بعض ظواھر کے پردہ ڈال رکھنے کے باعث آج اگر آپ میں
سے کسی کو میرا یہ جملہ زیادہ بھاری لگا ہے، تو چند سال انتظار کر لیجیے اور اس
شجر پر ’’عمل‘‘ اور ’’پریکٹسس‘‘ practices کے کچھ
برگ و بار آ لینے دیجیے، آپ دیکھ لیں گے کہ یہ مزعومہ ’اجتہادات‘ ہر ہر باب میں
امت سے کیسی ایک ہٹی ہوئی راہ ہے۔
المختصر... المورد کا امت کے ساتھ معاملہ: "الفاظ" کی حد
تک ایک لگنا۔ رہا ان کے تحت آنے والے "مضامین"، تو وہ قطعی الگ تھلگ۔
بالکل ہی کچھ اور۔ حیران کن حد تک مختلف۔ "ولكنهم قوم
يفرقون".