فیس بک پر ہماری ایک پوسٹ:
کچی
عمر کے ہمارے الہڑ جوان، عالم اسلام کا یہ قیمتی ترین سرمایہ.. یہودی قحبہ گر کے
غلیظ پیروں میں رُل رہا ہے۔ جذبات کی ہیجان انگیزی کے ہزاروں سائنٹفک حربے، جو
انسانیت کو گندگی میں دفن کرانے کےلیے یہودی سگ منڈ فرائڈ کا دیا ہوا تحفہ ہیں،
ہمارے اِن معصوم بچوں اور بچیوں پر تیر بہ ہدف نسخہ کی صورت آزمائے جا رہے ہیں۔
ہمارے
یہ بچے جن کو ہم ابھی نہ عقیدہ پڑھا پائے تھے اور نہ شریعت، نہ ان کو اپنی تاریخ
کے اسباق پڑھا سکے تھے اور نہ ان کو خود شناسی کے کسی عمل سے گزار سکے تھے اور نہ
زمانے میں چلنے والی آندھیوں سے ان کو واقف کرا سکے تھے اور نہ دشمن سے نمٹنے کا
کوئی گر سکھا سکے تھے، آج مکمل طور پر اہل کتاب اور ان کے تلامذہ کی دسترس میں
ہیں۔
اہل
کتاب منصوبہ کار خوب جانتے ہیں اسلام کی شریعت کو معاشرے کے اندر استوار ہونے
کےلیے قلوب اور عقول کی جو سرزمین درکار ہے، اس کےلیے طہارت اور پاکیزگی پہلی شرط
ہے۔ لیکن اگر یہیں پر صبح شام وہ اتنی غلاظت پھینک جاتے رہیں گے، یہاں تک کہ عالم
اسلام اُن کے پھینکے ہوئے کوڑے کے ایک ڈھیر کی تصویر پیش کرتا رہے گا، تو شریعت کو
استوار ہونے کےلیے آخر یہاں کونسی جگہ میسر آئے گی؟
غرض
شریعت پر ہماری گرفت چھڑوا دینے کےلیے فحاشی اور فحش کاری کا نشر و احیاء بھی ایک
نہایت آزمودہ حربہ ہے اور پوری شدت کے ساتھ، اور اب تو خود ہمارے ہی قوم کے لوگوں
کے ہاتھوں، ہم پر آزمایا جا رہا ہے۔
جس پر کرب سے لبریز ایک سوال ہمیں موصول ہوا:
’’تو پھر
ہم کیا کر سکتے ہیں‘‘؟
جواب:
برادرِ عزیز! صدیوں ہم جو اجتماعی نیند سوتے رہے، اس کے
خمیازہ کو لمحوں کے کسی عمل سے تو بدلا نہیں جا سکتا۔ آپ ان خوش قسمتوں میں ہیں جن
میں کم از کم احساس ابھی تک جاگ رہا ہے۔ ہم نے بھی جو بات کی وہ اسی احساس کو
جگانے اور اپنے گردوپیش کا صحیح اندازہ کروانے کےلیے ہے۔ ’’احساسِ زیاں‘‘ کی
بحالی بذاتِ خود ایک پیش رفت ہے۔ اس کو عام کرنے میں بھی اگر آپ جُت جاتے ہیں تو
راہِ عمل کو ہموار کرنے میں فی الحال آپ کا حصہ پڑ جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بھاری پتھر
ہے جو ہمارے سر پر آ پڑا ہے اور اس کو ہلانے کےلیے ایک بھاری بھرکم جمعیت درکار
ہوگئی ہے۔
کسی ہوشمند بھاری جمعیت کو پیدا کر لانے کے سوا یہاں کوئی چارہ
نہیں؛ جو معاشرے پر اثرانداز ہونے کی سائنس سے واقف ہو۔
ہم بارہا اس بات کی طرف
اشارہ کر چکے ہیں، امت کے جذبے، وسائل اور صلاحیتوں کو ایک دھارے میں لے کر آنا
ناگزیر ہے۔ ہر ہر شہر، ہر ہر بستی کی سطح پر ایسا ہونا ضروری ہے۔
جذبہ، وسائل اور
صلاحیتیں... یہ تینوں چیزیں خواہ کتنی بھی زیادہ ہوں، اور بلاشبہ اِس وقت بھی یہ ہمارے
پاس وافر موجود ہیں، بلکہ اتنی ہیں کہ اِس کے عشرعشیر کو کام میں لانے سے یہ بند راستہ کھل جاتا ہے... یہ
تینوں چیزیں خواہ کتنی بھی کثرت سے ہمارے پاس موجود ہوں، ان کو اگر کسی زوردار
دھارے کے اندر نہیں لایا جاتا اور اس سے کوئی ایسا عمل اگر تشکیل نہیں دیا جاتا جو
معاشرے کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے؛ اور ہو وہ صالح اسلامی عقیدہ پر قائم...
یہ دھارا اور یہ عمل آج اگر تشکیل نہیں دیا جاتا تو یہ سب انسانی وسائل، سرمایہ،
صلاحیتیں، اور جذبہ اکارت جاتا رہے گا، خواہ کچھ غیر مؤثر اور ’گزارےلائق‘
پروگراموں میں آپ کتنے ہی جتے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ اِس مسئلہ کے حل کی ایک سطح
ہے؛ اور اُس سطح کو پہنچ کر اِس مسئلہ کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اس سے اگلا سوال ظاہر ہے
یہی پوچھا جائے گا کہ یہ دھارا تشکیل دینے کی صورت کیا ہو؟ اِس پر؛ کچھ بات آئندہ
شمارہ میں ہم قارئین کے گوش گزار کرنے کی کوشش کریں گے۔ دریں اثنا، اگر کچھ مزید
سوال اِس موضوع سے متعلق ہوں تو وہ ہمیں پہنچائے جا سکتے ہیں۔