آج سے دس سال پیشتر کا ہمارا ایک مضمون (شمارہ اکتوبر
2007) جو بعد ازاں ہماری تالیف ’’روبہ زوال امیریکن ایمپائر۔ عالم اسلام پر حالیہ
صلیبی یورش کے تناظر میں‘‘ کا حصہ بنا
ایک بات طے ہے کہ مغربی طاقتیں، اپنے وجود کے ان حصوں کو چھڑانے
کیلئے جو عراق اور افغانستان وغیرہ میں مجاہدین کے قابو میں آچکے ہیں.. جو بھی چال
چلیں گی، اور اس وقت جہادی عمل کو ’متبادل راہ‘ دکھانے کی جو بھی صورتیں پیدا کریں
گی.. وہ بھی بالآخر ان کے لئے وبالِ جان بنیں گی اور عالمِ اسلام کے اندر ان کے
اقتدار کا موت پانا اگر ٹھہر گیا ہے، اور جوکہ نظر آرہا ہے، تو پھر اس موت کو ٹال
دینا اب ان کے بس میں نہیں۔زیادہ سے زیادہ جو یہ کرسکیں گی وہ یہ کہ عالم اسلام کو
اپنے اہداف کا حصول کچھ زیادہ مہنگا پڑ جائے۔ یعنی یہ ہمیں اپنا ہدف اتنی آسانی سے
نہ لینے دیں جتنی آسانی سے ملتا اس وقت نظر آرہا ہے۔ مغرب کے بس میں زیادہ سے زیادہ
اب کچھ ہے تو وہ بس اتنا ہے۔
عالم اسلام سے مغرب اب بے دخل ہوا کہ ہوا۔ اور لازمی بات ہے اس
بیرونی ’سرپرستی‘ کے ختم ہوتے ہی عالم اسلام کا صالح عنصر اوپر آنے کا ایک آزادانہ
موقعہ پانے والا ہے۔۔۔ یہ صورتحال قریب قریب ایک پکے ہوئے پھل کی طرح دکھائی دے
رہی ہے۔ عالم اسلام آج اگر یہ ہدف حاصل کرنے پر ہی بضد ہے تو مغرب یہ چاہے گا کہ
ہم زیادہ سے زیادہ قیمت دے کر اور اپنا زیادہ سے زیادہ نقصان کراکے اس ہدف کو حاصل
کریں بلکہ یہ قیمت اتنی بڑھ جائے کہ ہماری پہنچ سے باہر ہو۔
البتہ اسلامی قوتوں کو جو کمال دکھانا ہے وہ یہ کہ امت کے لئے اس ہدف
کا حصول کم سے کم لاگت اور کم سے کم سے کم نقصان کے ساتھ یقینی بنائیں۔ پس مسئلہ
اس وقت صرف ’نقصان‘ اور ’لاگت‘ کا ہے۔ طرفین کا اصل زور سمجھئے اسی پر لگنا ہے اور
ایک ’چیز‘ کے ملنے یا نہ ملنے کا انحصار بس اسی بات پر رہ گیا ہے۔
چنانچہ امریکہ مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب اور عالم اسلام کے کچھ
دیگر ممالک کے داخلی محاذوں پر الجھا دینے میں اگر کامیاب ہوجاتا ہے، تو اس سے وہ
دُہرا تہرا فائدہ لینے کی کوشش کرے گا:
ایک یہ کہ جہادی عمل کے خاتمہ کی ’ذمہ داری‘ یہاں کی حکومتیں تب
زیادہ اخلاص اور تن دہی کے ساتھ ادا کریں۔ کیونکہ اس صورت میں مقامی حکومتیں
امریکہ کے بچاؤ یا اپنے کچھ ’مفادات‘ کے لیے نہیں بلکہ ’اپنی‘ زندگی اور بقا کی
جنگ لڑیں گی جوکہ کوئی بھی انسان کہیں زیادہ مخلص اور وارفتہ ہو کر لڑتا ہے، جبکہ
امریکہ کو اس وقت ’جہادیوں‘ کے خلاف ان سے اسی درجہ کا اخلاص درکار ہے۔
دوسرا یہ کہ یہاں کی اقوام جوکہ مجاہدین کے افغانستان و عراق میں
جہاد پر پوری طرح یک آواز ہیں اور اسی باعث امریکہ کو نکالنے کا یک نکاتی ایجنڈا
یہاں کی اقوام میں شدید حد تک پذیرائی پاچکاہے، اور جوکہ مجاہدین کے اپنے ایجنڈے
کی تکمیل کیلئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ کا درجہ رکھتاہے.. مجاہدین کے لیے ان اقوام
کی یہ غیر معمولی حمایت، جو صدیوں بعد انہیں اس سطح پر حاصل ہونے لگی ہے، اپنا وہ
زور کھو دے جوکہ اسے ابھی حاصل ہے۔ بلکہ ہوسکے تو ان ملکوں میں ایک اندرونی جنگ
چھیڑ کر اس کو ایک ایسے داخلی بحران کی صورت دھار لینے کی جانب بڑھایا جائے کہ
امریکہ کو ’نکالنے‘ کی بجائے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے اس داخلی بحران سے
’نکلنے‘ کیلئے امریکہ سے ’مدد لینے‘ کی ضرورت محسوس کرے۔
تیسرا یہ کہ امریکہ کے سر پر پڑنے والی چوٹ اپنا وہ زور کھو دے جو
افغانستان و عراق کے اندر اس کا بیٹھنا اس وقت دوبھر کئے ہوئے ہے اور اپنے اس ’درد
سر‘ کے باعث وہ خطے میں کوئی کھیل شروع کرنے سے عاجز پڑ رہا ہے۔
اور چوتھا یہ کہ یہاں جہاد کے حامی ومددگار طبقوں پر ایک ایسا آہنی
ہاتھ ڈلوا دیا جائے جوکہ بوجوہ ابھی تک نہیں ڈالا جاسکا۔ علاوہ ازیں، ’جہادیوں‘ کے
سوتے بند کرنے کی آڑ میں امت کے ان تمام بنیادی و طویل میعادی منصوبوں gross route & long term projects کا صفایا کرکے رکھ دیا
جائے جوکہ دعوتی، تربیتی اور فکری ضرورتوں کے حوالے سے، خصوصاً آئندہ کے کچھ اہم
ترین مرحلوں کے لیے، امت کے انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
البتہ ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ اسلامی قوتوں کی اپنی جانب سے ایسا
کوئی موقعہ بہرحال نہ دیا جائے اور امریکہ کو جو وہ چاہتا ہے سادہ لوحی میں آکر
ہرگز پیش نہ کردیا جائے..
عراق وافغانستان وغیرہ میں اس وقت تک کامیاب جانے والے جہادی عمل کو
عالم اسلام کے داخلی محاذوں پر الجھانے کی امریکہ جو بھی کوشش کرتا ہے اسلامی
قوتوں کی جانب سے امریکہ کو اس پہلو پر شدید مایوسی ملے اور ہمارے نوجوان اپنی
سمجھدار، دور اندیش قیادتوں سے راہنمائی لینے اور خود اپنے طور پر کوئی اقدام نہ
کرنے کا شدید حد تک التزام کریں، جبکہ خود یہ قیادتیں ہر ہر قدم پھونک پھونک کر
اٹھائیں اور کوئی فیصلہ خوب ٹھونک بجا لینے اور آخری حد تک غور و فکر اور صلاح
مشورہ کرلینے کے بغیر نہ کریں۔ بلکہ ہو سکے تو عالمی سطح کے بعض تحریکی دماغوں اور
امت کی سطح کی اہل حل و عقد شخصیات سے راہنمائی لئے بغیر نہ کریں۔
علاوہ ازیں، میڈیا وار میں ’بعد از وقوعہ سرگرمی‘ re-active role کی اپروچ چھوڑ کر پیشگی
سرگرمی pro-active role کی روش اختیار کریں اور
پل پل پر معاملے کی اصل تصویر یہاں کی اقوام پر واضح کریں کیونکہ اس کی ضرورت آنے والے
دنوں میں بے حد بڑھ جانے والی ہے اور گمراہ کن خبر رسانی disinformation ایک بہت بڑے ہتھیار کے طور پر برتی جانے والی ہے، بلکہ برتی جارہی
ہے، صرف ہم ہیں جو ’تصویر‘ نہیں بناتے بلکہ ان کی بنائی ہوئی تصویر کی ’وضاحتیں‘
اور اُسی کی ’تراش خراش‘ کرلینے کو میڈیا میں اپنے کردار کی آخری حد سمجھتے ہیں۔
اسلامی قوتوں کی جانب سے اگر اس امر کی پابندی ہونے لگتی ہے تو پھر
پرو ا نہیں، امریکی اپنے سب شوق یہاں پورے کرلیں۔ قربانیاں ہم بھی دیں گے اور خون
ان کا بھی بہے گا۔ پچھلے تین عشروں سے ہم مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ امریکہ کی ہر
نئی تدبیر میں اللہ تعالیٰ اس کی بربادی کا سامان پیدا کردیتا ہے اور اس کی ہر نئی
چال بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کے اپنے ہی خلاف پڑ جاتی ہے۔ ایک دیکھنے والا شخص
محسوس کئے بنا نہیں رہتا کہ ٹینک، طیارے، میزائل اور بحری بیڑے رکھنے والی اس قوت
کی جنگ عالم اسلام کے کچھ مٹھی بھر جوانوں کے ساتھ نہیں بلکہ اس قوت کے ساتھ ہے جو
زمین و آسمان کی مالک، ہر چیز پر قادر ہے اور جوکہ اس طاغوت کے ہر مکر کو اس کے
اپنے ہی اوپر الٹا دیتی ہے۔ اب بھی امریکہ جو کرے گا اس کے مد مقابل ہمارا وکیل و
کارساز اللہ ہے، جو ہم پر نہایت مہربان ہے اور ہماری استطاعت و تدبیر سے بڑھ کر
ہمیں کسی چیز کامکلف نہیں کرتا، بلکہ وہ بوجھ جس کے اٹھانے سے ہم عاجز ہوتے ہیں
اور وہ تدبیر جو ہمارے بس سے باہر ہوتی ہے اس کے معاملے میں وہ خود کوئی راہ نکال
دیتا ہے اور بسا اوقات تو ہمارا وہ بوجھ جو ہمیں عاجز کردینے والا ہو ہمارے دشمن
کی پیٹھ پر لاد دیتا ہے اور ہمارے لئے تدبیر ان کی غلطیوں کے اندر سے ہی برآمد
کرادیتا ہے ۔
یہ سب کچھ جو یہاں کہا جارہا ہے، تدبیر و منصوبہ بندی کے باب سے ہے،
جس کو درست کرنے کے اپنی حد تک ہم بہر حال مکلف ہیں۔ رہ گئی یہ حقیقت کہ اس وقت
امریکہ کا ہر آپشن ایک برا آپشن ہے اور اس کا ہر راستہ ایک بند گلی پر پہنچنے والا
ہے، تو یہ بات اپنی جگہ ایک سچ ہے، گو یہ اس بات سے متعارض نہیں کہ ہم ایک درست تر
حکمتِ عملی اپنائیں اور ممکنہ حد تک ایک ’کم خرچ‘ اور ’دورمار‘ اقدام کی راہ
اختیار کریں۔
اس
سیریز کے دیگر مضامین
سیریز
کا اگلا مضمون