اِس مضمون کا مواد ایقاظ میں
آج سے دس سال پہلے شائع ہوا
تھا، شمارہ اکتوبر 2007۔
اس سے پہلے عراق میں اس بات کا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ مجاہدین کے
محاذ بڑھا دیے جائیں تاکہ ان کے عمل کی وہ ترکیز جو وہ اپنی ہر چوٹ ایک ہی محاذ پر
لگانے کی صورت میں کر رہے تھے اپنی شدت ضرور کھو دے.. جس سے فائدہ اٹھا کر بیرونی
حملہ آور کم از کم ایک بار سنبھل جانے کا موقعہ پا لیں اور اپنے کارڈ کچھ زیادہ
بہتر انداز میں کھیلنے کی پوزیشن میں آئیں۔ رافضیوں کی بابت خواہ جو بھی کہہ لیا
جائے، لیکن ان کے ساتھ اہلسنت کا محاذ کھل جانا، خواہ اس کے جو بھی اسباب ہوں،
اہلسنت کے عمل کو کوتاہ کردینے کا باعث بنا اور بیرونی قبضہ کاروں کو پیر جمانے کے
کچھ نہ کچھ مواقع دے گیا۔
عراق میں مسلمانوں کی ترکیزِ عمل ختم کرانے کی یہی صورت تھی جس پر
بیرونی قوتوں کی جانب سے بھر پور کام ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جہاں
بیرونی قبضہ کار بیٹھے ہیں اور جن کی تمام تر توجہ حالیہ دنوں میں اس بات پر ہے کہ
پاکستان میں کارروائیوں کی کوئی صورت نکالی جائے.. اور جوکہ پچھلے چھ سال سے جاری
جہادی عمل سے، جوکہ مغربی ذرائع ابلاغ کے خیال میں پاکستان سے غذا پا رہا ہے، بے
انتہا زک اٹھا چکے ہیں.. ان کے پاس اس کی کیا صورت ہے کہ یہاں مجاہدین کو کئی
محاذوں پر تقسیم کردیا جائے؟
ہم سمجھتے ہیں لال مسجد کا خونیں واقعہ کرکے دراصل ایسے ہی ایک سلسلے
کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے۔جہادی عمل کو یہاں بھی اس جال میں ہرگز نہیں آنا
چاہیے کہ وہ اپنے محاذ بڑھ جانے کی اجازت دے۔ مجاہدین جس محاذ پر پچھلے چھ سال سے
لگاتار چوٹ لگا رہے ہیں اس سے اگر ان کی توجہ پھر جاتی ہے تو یہ ایک کام کو بہت
پیچھے لے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ دشمن سنبھل کر اپنی اس پہلی پوزیشن پر واپس بھی
جا سکتا ہے جو اسے ابتدا کے اندر حاصل تھی، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اگر مجاہدین ڈٹے
رہتے ہیں تو ان کا دشمن اس محاذ سے بھاگ جانے کے بے حد قریب پہنچ چکا ہے۔
امریکیوں کے لیے اس سے مثالی صورت آخر کیا ہوسکتی ہے کہ مجاہدین کو
مارنے کا ’فرض‘ امریکیوں کی بجائے پاکستانی فوج اور پیراملٹری فورسز ادا کریں اور
امریکیوں کو اس منظر سے محظوظ ہونے دیں۔ اور اس کے جواب میں مجاہدین کو بھی اگر
قتال کرنا ہے تو اس کا رخ امریکی افواج کی بجائے پاکستانی افواج ہو جائیں۔ یوں
دونوں جانب سے امریکیوں کی جان چھوٹی، پاکستانی فوج اگر مجاہدین کو مارتی ہے تو یہ
تو امریکیوں کی نظر میں کیا ہی اچھا ہے اور اگر مجاہدین بھی پاکستانی فوج کو مارتے
ہیں تو بھی یہ امریکیوں کی نظر میں اس سے تو کہیں اچھا ہے کہ مجاہدین کی وہی
گولیاں امریکی فوج کو لگتیں! یعنی اگر مارنے اور مرنے والے ہر دو صورت میں
امریکیوں کے علاوہ کوئی ہوں، البتہ خطہ میں ان کی موجودگی پوری طرح برقرا ر رہے،
تو اس سے بہتر ان کے لیے کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟!
بلاشبہ پاکستانی حکمرانوں نے یہ صورتحال پیدا ہوجانے میں ایک بہت بڑا
کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اسلامی مفاد کے تحفظ کی توقع ہمیں صرف مجاہدین سے ہی
ہوسکتی ہے نہ کہ پاکستانی حکمرانوں سے۔ اس وقت جس درجہ کا صبر و برداشت اور
ہوشمندی ضروری ہے بلاشبہ وہ ایک غیر معمولی حوصلہ چاہتا ہے مگر اس کے سوا اس وقت
کوئی چارہ نہیں کہ ایسے کسی جال میں نہ آیا جائے جس کو پھینک کر یہ مجاہدین کے
محاذ بڑھا دینا چاہتے ہیں۔ وہ خوشخبری جو عالم اسلام کو ان کے جہاد کے نتیجے میں
ان شاء اللہ عنقریب ملنے والی ہے اسی بات میں مضمر ہے کہ ان کی یہ محنت ترکیزِ عمل
سے محروم نہ ہونے دی جائے۔
اسلام کے فدائیوں کے لیے صورت حال کو کتنا بھی طیش آور کیوں نہ
بنادیا جائے، امریکہ کو وہ چیز اس وقت کسی قیمت پر نہ دی جائے ، جو وہ اس صورت حال
کو پیدا کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے، یعنی یہ کہ مجاہدین بعض مسلمان ملکوں کے اندرونی
محاذوں پر الجھ پڑیں، جس سے اس پورے منظر نامے کو ہی امریکہ کے حق میں ایک پلٹا
دلوا دیا جائے۔ یہ تجزیہ چاہے لاکھ درست ہو کہ آنے والے دن اسلام کے حق میں بے حد
سازگار ہیں،غیر دانشمندانہ اقدامات کی قیمت ہمیں بہرحال ادا کرنا پڑے گی اور ان کے
باعث ہمارا عمل موخر بھی بہرحال ہوگا، اور کیا بعید معطل بھی ہورہے اور تب یہ
ضروری ہوجائے کہ کئی عشروں کے عمل سے کچھ اور لوگ ہمارے مابین قیادت کا خلا پر
کرنے کے لیے آگے آئیں اور اپنی اس ناؤ کو پار لگانے میں تب وہ اس مطلوبہ فہم
وفراست کا مظاہرہ کریں جس سے حالیہ قیادتیں قاصر رہیں.. امکان اس بات کا بھی بہر
حال ہے۔
بے شک امریکی قبضہ کار افغانستان میں زچ ہوچکے ہیں، عین اسی طرح جس
طرح یہ عراق کے اندر روہانسے ہوچکے ہیں۔ اس لحاظ سے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ شاید
امریکہ اب خطے میں کوئی اور مہم جوئی کرنے کا متحمل نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہ جس پروگرام
پر امریکہ خطے میں آیا تھا یعنی یہ کہ افغانستان کو لے لینے کے بعد وہ پاکستان کے
اندر ’اسلامی خطرہ‘ کے خاتمہ کے مشن پر روانہ ہوگا اور عراق پر قبضہ کے بعد وہ عرب
ممالک کے اندر تیزی سے بڑھنے والے ’اسلامی خطرے‘ کو نابود کرنے کے لیے فوجی
کارروائیاں کرے گا اور یہ کہ پاکستان تا عالم عرب اب وہ ہر جگہ اپنی مرضی کا سیاسی
اور تہذیبی انتظام کروائے گا، جس میں یہاں کی حکومتوں اور قوم پرستوں سمیت ہر کسی
کو اس کے ساتھ ’سیدھا‘ ہوکر چلنا پڑے گا، کیونکہ ’ناں‘ سننے کی اس کے پاس اس بار
گنجائش ہی نہیں تھی بلکہ واضح کردیا گیا تھا کہ ’ناں‘ کہنے والا سیدھا ’پتھر‘ کے
دور میں پہنچایا جائے گا!.. اپنے اس مشن کے پہلے ہی مرحلے میں، یعنی افغانستان اور
عراق کے اندر، ناکام ہوجانے کے بعد، امریکہ اگلے کسی مرحلے پر روانہ نہیں ہوگا۔
مگر ہم سمجھتے ہیں یہ تجزیہ کچھ بہت صحیح نہیں۔بے شک اگلے مرحلوں پر
وہ اس طرح روانہ نہیں ہوگا جس طرح ابتدائی طور پر اس کا پروگرام تھا مگر یہ بعید
از قیاس ہے کہ اس ’اسلامی خطرے‘ کو کوئی بھی نقصان پہنچائے بغیر وہ واپس چلا جائے
گا، خصوصاً جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی نظر میں اس کی اپنی جو صلاحیت مشکوک
ہوئی ہے وہ صرف یہ کہ امریکہ کے لیے کسی ملک پر فوجی کنٹرول قائم رکھنا آسان نہیں
(یا تو اس کے پاس ’برطانیہ عظمیٰ‘ جیسی صلاحیت نہیں کہ قوموں پر اپنا ایک طویل
اقتدار قائم کرلے اور یا پھر، جو کہ صحیح تر ہے، قوموں پر کنٹرول رکھنے کا زمانہ
لد گیا ہے!) البتہ یہ کہ امریکہ کسی کا کچھ بگاڑ لینے سے ہی قاصر ہوگیا ہے اور یہ
کہ خطے کے اندر پائے جانے والے ’اسلامی خطرے‘ کا یہ کوئی بھی نقصان نہیں کرسکتا یا
یہ کہ اپنے مقاصد کے ممکنہ حصول کے لیے یہ اور بہت سی شیطانی چالیں نہیں چل سکتا،
یہ بات بہرحال درست نہیں۔ پھر خاص طور پر جبکہ پچھلے کئی سالوں سے یہاں مار کھاتے
ہوئے وہ یہ بھی نظر میں کرچکا ہے کہ اس جہادی عمل کو خوراک کہاں کہاں سے مل رہی ہے
اور فکری و نظریاتی طور پر اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں اور کہاں کہاں سے
مستقبل میں بھی ایسے ’خطرات‘ ابل سکتے ہیں (کیونکہ ہم نہیں تو وہ جانتے ہیں کہ
اسلام اور ’ملتِ روم‘ کا یہ معاملہ کوئی سالوں اور عشروں کا نہیں بلکہ صدیوں پر
محیط ہے لہٰذا اس کے لیے اتنا ہی لمبا چلنا ضروری ہے!)
پس امریکہ خطے سے واپس جاتا ہے یا مار کھانے کے لیے ابھی کچھ دیر اور
یہاں رہتا ہے، یہ طے ہے کہ وہ ایک بِس گھولنے والے سانپ کی طرح یہاں ہمارا ایک
بھاری بھر کم نقصان کردینے کی ہر ممکن کوشش کرے گا، جس کے اس کو مواقع نہ دینے کی
ہر ممکن کوشش ہمیں بہرحال کرنی ہے۔
جو خدشہ اس وقت نظر آرہا ہے وہ یہ کہ عالم اسلام کے دو ملکوں کی باری
کسی نہ کسی انداز میں عنقریب آنے والی ہے: ایک پاکستان اور دوسرا شام۔کیونکہ دونوں
’ان‘ کی نظر میں ’’ارضِ رباط‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں افغانستان میں
ان کے پیر جمانے کے لیے یہ بات لازمی ہو گئی ہے کہ پاکستان کے اندر جہاد کے خیر
خواہوں کو اپنی ہی بپتا پڑ جائے، اس کے بعد افغانستان میں جہاد سے نمٹنا ان کے لیے
کوئی مسئلہ ہی نہ رہے گا، جبکہ شام Syria جہاد کے دو اہم ترین
محاذوں کی جانب قافلہ ہائے مجاہدین کی گزرگاہ بن چکا ہے، ایک عراق اور دوسرا
فلسطین، جہاد کے یہ دونوں عرب محاذ ان کی رائے میں ارضِ شام سے تقویت پاتے ہیں۔
لہٰذا ان دو سرزمینوں کو اور ان کے جہاد دوست باشندوں کو ناکارہ کرکے رکھ دیا
جانا، ان کے مالی سوتوں کو خشک کر کے رکھ دیا جانا، اور عین یہاں پر ہی جہاد کے
پشت بانوں کو بری طرح الجھا کر رکھ دیا جانا ان کے خیال میں ناگزیر ہوگیا ہے۔
(جہاد کے ’مالی سوتوں‘ کے حوالے سے، خدشہ ہے کہ ’سعودیہ‘ کی بھی بہت
جلد باری آجائے)
اس عمل سے وہ دو فائدے لیں گے:
ایک یہ کہ مجاہدین کے محاذ بڑھ جائیں اور وہ ترکیزِ عمل سے محروم ہو
جائیں خصوصاً وہ ترکیزِ عمل جس کا اصل محل ہیں ہی امریکی افواج اور جس کی سب چوٹ
پڑتی ہی ان کے سروں پر ہے، اور جہاں پر مجاہدین کی کامیابیوں کی ہر کوئی گواہی دے
چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ مجاہدین کی کمک کی راہیں تباہ اور کمک کے مصدر تتر بتر
کرکے رکھ دیے جائیں۔
ضروری نہیں یہ ایک باقاعدہ فوجی قبضہ ہو کیونکہ، جیسا ہم نے کہا،
فوجی قبضہ کا تجربہ مزید شاید اب نہ کیا جائے، البتہ ایک شدید تباہی اور ایک
بدترین انارکی لانے کی کئی اور صورتیں زبردست طور پر آزمائی جائیں گی۔
ان کارروائیوں کی جو بھی صورتیں ہوں، ان میں دو باتوں کو یقینی بنانے
کی کوشش کی جائے گی:
1. ) یہ کہ ان سب طبقوں کو شدید طور پر الجھا دیا جائے جو جہاد کی
خیر خواہی اور نصرت کے ’جرم‘ میں کسی نہ کسی انداز میں یہاں شریک رہے ہیں اور جن
سے مستقبل میں اس سے بھی کسی بڑی سطح پر جہاد کی پشت بانی کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ ان جہاد
دوست طبقوں کو اس حد تک اپنی پڑ جائے کہ یہ ’پڑوس‘ میں ہونے والے جہاد کے لیے
زیادہ سے زیادہ ’اچھے جذبات‘ ہی رکھ سکیں مگر عملاً اس کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن
میں نہ رہیں۔ یوں پہلے جہاد کو عملاً تنہا کردیا جائے اور پھر اس سے تسلی کے ساتھ
نمٹا جائے۔ یا یوں کہئے مجاہدین اور مجاہدین کے نصرت کنندگان، دونوں کو الگ الگ
کرکے اور مختلف محاذوں میں بانٹ کر مارا جائے۔
2. ) یہ کہ ان ’نئے‘ محاذوں پر امریکی خود سامنے نہ آئیں بلکہ مکر و
تدبیر سے کام لے کر اس کے لیے اور قوتوں کو آگے کریں۔ یہ مقامی قوتیں ہوں، آس پڑوس
کی کچھ حکومتیں ہوں، سب ممکن ہے۔ پاکستانی فوج کو زیادہ سے زیادہ اس اندرون ملک
مرنے مارنے کی راہ پر ڈالا جائے۔ عرب حکومتوں اور افواج کو عین یہی راہ دکھائی
جائے۔ ساتھ میں، انڈیا کو پاکستان وافغانستان میں اور اسرائیل اور ایران کو عرب
خطوں میں الگ سے کچھ اہداف مل سکتے ہیں۔ غرض ایک بار یہ انتظام کرلیا جائے کہ مرنے
اور مارنے والے دونوں ’امریکی‘ نہ ہوں (مارنے والے امریکی ہوں بھی تو بہت پیچھے رہ
کر!) تو پھر عالم اسلام کے ایسے کئی خطوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دی جائے جہاں
’اسلامی خطرہ‘ مزید پختہ mature ہو رہا ہے۔ امریکہ کے
لیے کوئی آبرومندانہ راستہ اس بند گلی کو پہنچ لینے کے بعد نکل سکتا ہے تو اس کی
اب یہی صورت ہے۔ یعنی اس وقت جاری جہاد بھی بے دست و پا ہوا اور ’مستقبل کے چیلنج‘
کو بھی بڑا ہونے سے روک دیا گیا!
اس دوران وہ اپنی قوموں کو ذرا اور جگا لیں، جو ابھی تک ’جنگ مخالف
ریلیوں‘ پر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ’حالات کی نزاکت‘ کو سمجھ ہی نہیں پا رہیں!
علاوہ ازیں، امریکی انتظامیہ یہ ثابت کرلے کہ وہ کتنے بڑے خطرے کے پیش نظر یہاں
آکر بیٹھ گئی تھی۔ اس کے بعد، وقت آنے پر دیکھا جائے گا کہ مغرب مستقل بنیادوں پر
یہاں کیا پالیسی اختیار کرے!
اس تناظر میں، آنے والے دنوں کے اندر جو ’بہت کچھ‘ ہونے والا ہے عالم
اسلام کے جنوب مشرقی محاذ پر اس کا ’امیدوار‘ خطہ پاکستان ہے اور مغربی محاذ پر
شام اور سعودیہ۔
البتہ صبر و حوصلہ اور سمجھداری سے کام لیا جائے تو اللہ کے فضل سے
اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وار خالی جائے۔ امید ہے ’امیریکن ایمپائر‘ کے ترکش
میں اب بہت تیر نہیں رہ گئے!
یہاں کی اسلامی قوتیں اس کے اس جال میں اگر نہیں آتیں اور اپنے کچھ
مخلص جذباتی عناصر کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو بہت امید ہے دشمن
کی یہ تدبیر سرے نہیں چڑھے گی۔ اسلامی قوتوں کے ہاں اس بات کا ادراک اگر قوت پکڑ
لیتا ہے کہ ان کو کسی قیمت پر اس وقت اپنے محاذ نہیں بڑھانے، تو بہت ممکن ہے ’را‘،
(سابقہ) ’خاد‘ اور ’موساد‘ وغیرہ بھی یہاں برہنہ ہو کر رہ جائیں او ر موجودہ
صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں ان کی اکثر چالیں ناکام جائیں۔ خدشہ یہ ہے
کہ بغضِ اسلام سے بھری بعض عالمی ایجنسیاں مکر و حیلہ سے کام لے کر ہمارے کچھ سطحی
وجذباتی طبقوں کے ہاں کچھ ایسی نرم و گداز زمین پانے میں کامیاب ہو جائیں کہ جہاں
پیر رکھ کر یہ ہمارے مابین اپنے مفادات کی خاصی جگہ بنا لیں بلکہ ایک بے یقینی کی
کیفییت پیدا کرکے اور واقعات کا ایک ایسا ’تسلسل‘ پیدا کرکے جس میں پھر واپسی کی
راہیں مشکل ہو جائیں اور اس کے ساتھ چلتے جانا پھر ہر کسی کی ’مجبوری‘ سی بن جائے،
یہ ہمیں کوئی بھاری زک پہنچا لیں۔
صبر، ہوشمندی اور اہل علم و بصیرت سے رجوع کے سوا ہرگز کوئی چارہ نہیں۔
اس
سیریز کے دیگر مضامین
سیریز
کا اگلا مضمون