آج سے دس برس پیشتر یہ مضمون ایقاظ میں شائع ہوا تھا (شمارہ اکتوبر 2007) ۔ بعدازاں یہ ہماری کتاب ’’رو بہ زوال امیریکن
ایمپائر۔ عالم اسلام پر حالیہ صلیبی یورش کے تناظر میں‘‘ کا پیش لفظ بنا دیا گیا
تھا۔ ذیل کی عبارت کتاب کے تیسرے ایڈیشن سے من و عن پیش کی جارہی ہے:
اسلام دشمنی کی آگ جس نے کچھ عرصہ پہلے افغانستان اور عراق کو اپنی
لپیٹ میں لیا تھا، اسی کی کچھ خطرناک چنگاریاں اب پاکستان سمیت، عالم اسلام کے
متعدد خطوں کا رخ کر رہی ہیں۔۔۔
مکر و دجل کے تہہ در تہہ ایجنڈے لئے، ملتِ کفر کے ایلچی دوڑے پھر رہے
ہیں۔ مکروہ عزائم کا پتہ دیتی ڈپلومیسی، بارود اور جنگی منصوبوں کی بو، چارٹر
طیاروں اور ’بریف کیسوں‘ سے لے کر ’بند کمروں‘ تک، ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو وہ چیخ چیخ کر ایک بات سے خبر دار کر
رہے ہیں اور وہ یہ کہ: عالم اسلام کی بیداری اس وقت قابو سے باہر ہورہی ہے۔۔۔! اور
یہ کہ: خطے میں موجود ان کی افواج اور بحری بیڑوں کے پاس وقت بہت کم ہے!
اُن کے ایک دانش ور گروہ نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع
کردینے کے لیے بڑی دیر سے ’اب یا کبھی نہیں‘ کی رٹ لگا رکھی ہے۔
جبکہ ان کے متعدد تھنک ٹینکس کا کہنا ہے، وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ جن
اہداف کی پریشانی اب اٹھ کھڑی ہوئی ہے، خصوصاً ارضِ پاکستان میں سنبھال رکھے گئے
اسلام کے دُوررَس اثاثے، بشمول یہاں کے ایٹمی ہتھیار اور دیگر عسکری اَسباب و
صلاحیات، نیز یہاں کی اسلامی قوتیں اور اِن کی کوکھ میں پلنے والے جہادی امکانات..
ان سب اہداف کا صفایا ان کے نزدیک اُسی پہلے ہلے میں ہوجانا چاہئے تھا جب، نائن
الیون کے فوری بعد، عالمی رائے عامہ دنیا بھر میں امریکی عسکری کارروائیوں کے لیے
’’بلینک چیک‘‘ دے رہی تھی۔ وہ ’’موقعہ‘‘ ضائع کر دینا ان کی نظر میں ایک تاریخی
غلطی تھی؛ یعنی افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی اُسی پہلے ہلے میں گھونٹ
بھرا جاتا تو آج تصویر کچھ اور ہوتی! اس ’بے جا‘ تاخیر کے باوجود، ان کا کہنا ہے،
’جو ہو سکے‘ فی الفور کر گزرنا چاہئے!
چنانچہ یہ ہنگامی حالات جو شمالی علاقوں میں ایک چیختی صورت دھار چکے
ہیں، خدا نہ کرے کہ کسی بہت بڑے دھماکے کا پیش خیمہ ہوں۔ ایران کے خلاف کارروائی
ہونے کا امکان ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر رہا ہے البتہ ان تیاریوں کے پردے میں
خدانخواستہ اب ’اور‘ بہت کچھ ہونے والا ہے۔
مگر چونکہ دشمن کے آپشن بے انتہا محدود ہیں اور اس کے زخم پہلے سے
خوب رِس رہے ہیں.. لہٰذا ایک مناسب حکمت عملی اختیار کرکے، خصوصاً دشمن کو ا س
پوزیشن میں نہ آنے دے کر، جہاں وہ کسی دوسرے یا تیسرے فریق کو ہی توجہ کا مرکز بنا
دے اور اسی کے پردے میں چھپ کر، بلکہ پس منظر میں جا کر، ہم پر وار کرتا رہے ۔۔۔
دشمن کو اس پر مجبور کرکے کہ کچھ بھی کرنے کے لیے وہ خود ہی سامنے آئے اور برہنہ
ہوجانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہے، تاکہ اپنی ہر خباثت کا جواب وہ براہ
راست پائے اور کسی اور کو اس مشکل وقت میں اپنا بوجھ اٹھوا سکے اورنہ اپنی اوٹ بنا
سکے۔۔۔
ایسا کرکے نہ صرف دشمن کو بے اثر کیا جاسکتا ہے، اور اس کا وہ بوجھ
جس نے پہلے سے اس کی کمر دہری کردی ہے اور بڑھایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کی ہر نئی
چال کو اسی کے خلاف پلٹا بھی جاسکتا ہے۔
لہٰذا ڈر اِس بات سے نہیں کہ امریکہ اس جنگ کا دائرہ بڑھا دے گا؛
ایسا کرکے تو وہ اپنے دشمن کو پھنسانے کی بجائے خود پھنسے گا اور جس دلدل سے نکلنے
کی کوئی صورت وہ پہلے ہی نہیں پاتا اپنا بوجھ بڑھا کر اسی میں اور بری طرح دھنسے
گا۔ ڈر جس بات سے ہونا چاہئے وہ یہ کہ اس موقعہ پر امریکہ کو مقامی طور پر کچھ
’باربردار‘ ہاتھ آجائیں، جس کی وہ کئی طریقوں سے کوشش کر رہا ہے۔ ہاں اگر امریکہ
اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس جنگ کا دائرہ بڑھا کر وہ اپنا کام
آسان اور ہمارا کام مشکل کردے گا۔ لہٰذا اس پر خواہ ہمیں کتنا ہی صبر کرنا پڑے،
مگر نادانستگی میں امریکہ کی یہ مدد کر بیٹھنا کہ وہ کسی اور چہرے کے پیچھے
کیموفلاج ہوجائے اور ہمیں اپنی بجائے یہاں کسی اور فریق کے ساتھ الجھا دے، اور
اپنا کردار صرف ’مانیٹرنگ‘ تک محدود رکھے، جوکہ اس کا من پسند مشغلہ ہے۔۔۔ ہماری
جانب سے ایک ایسی فاش غلطی ہوگی کہ ہمارا کام عشروں کے حساب سے پیچھے جاسکتا ہے
اور ’’رُو بہ زوال امریکہ‘‘ کو اسی حساب سے وقت مل سکتا ہے۔
حالیہ مرحلے کی اس نزاکت کو اگر ہم سمجھ لیتے ہیں تو پھر امریکی قبضہ
کار اپنا کام بڑھائیں تو پھنستے ہیں اور نہ بڑھائیں تو مار کھاتے ہیں۔ ایک ایسے
دشمن کی کوئی مدد بھلا ہم کیوں کریں جس کے پاس بھاگ جانے کے سوا کوئی آپشن باقی ہی
نہیں رہ گیا ہے؟! اس کے، خطے سے نکلتے ہی، البتہ ہمارے آپشن اس قدر زیادہ اور اس
قدر زبردست ہوں گے کہ معاملے کی ساری تصویر ہی بدلی جاسکتی ہے۔۔۔
بس ذرا صبر۔۔۔!
وقت ہے کہ دشمن کی غلطیوں سے اس وقت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا
جائے، جس کے لیے البتہ یہ ضروری ہے کہ خود ان غلطیوں سے اجتناب کیا جائے جو دشمن
اس وقت ہم سے کرانا چاہتا ہے!
کچھ بھی ہو، ہم اگر اپنی صفیں درست کرلینے کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں
اور صبر و دانشمندی کا دامن پکڑ رکھتے ہیں، تو آنے والے دن شدید تشویشناک ہونے کے
باوجود خوش آئند ہیں، اور کیا بعید بہت سے بند راستے اس امت کی پیش قدمی کے لیے
یہیں سے کھلنے والے ہوں:
وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن
تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ (البقرۃ: ۲۱۶) ’’اور کیا بعید تم کسی چیز کو ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے خیر ہو،
اور کیا بعید تم کسی چیز کو پسند کرو جبکہ وہ
تمہارے لئے شر ہو‘‘
حقیقت پسندی کا پورا التزام کرنے کے ساتھ ساتھ، معاملہ کی ایک خوش
آئند تصویر دیکھنا، ہمارے نوجوانوں اور عمل کیلئے سرگرم حلقوں کا حق ہے اور اندریں
حالات امت کی ایک بہت بڑی ضرورت۔
زیر نظر کتابچہ یہی تصویر دکھانے کی ایک کوشش ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ
میں: اس امید افزا تصویر کو اپنے ماضی اور مستقبل کے وسیع تر فریم میں جڑ کر
دیکھنے کی ایک کوشش۔
اس
سیریز کے دیگر مضامین
سیریز
کا اگلا مضمون