"نفس کی اطاعت" شرک کب
بنتی ہے؟
حامد
کمال الدین
برصغیر کے فکری رجحانات صوفیت کے زیرِاثر رہے ہیں۔ یہاں
کے قرآنی حلقات تک اس کی چھاپ سے محفوظ نہیں۔ یہاں شرک کا مفہوم یوں گول کرایا
جاتا ہے کہ اس کی کوئی ‘نوک’ باقی نہ رہے ! دروسِ قرآن کے اِن حلقوں میں نہ صرف
شرکِ اکبر کا بیان تقریباً مفقود ہے بلکہ وہ چیز جو شرکِ اصغر تک نہیں بنتی وہ "شرک"
کی مطلق تفسیر کے طور پر پیش کی جارہی ہوتی ہے!
شرک کی یہ تفسیر جو ‘نفس’ کے گرد گھومتی ہے…… شرک کو
کوئی "زمین دوز" چیز بنادیتی ہے۔ جس کے بعد برسرزمین شرک کی کچھ حقیقت
نہیں رہ جاتی؛ بس ‘نفس’ کی پہنائیوں میں ہی اس کو تلاش کریں تو کریں! مل جائے تو
ٹھیک، نہ ملے تو مسئلہ ختم، وھو المطلوب!!! رہا شرک کے خلاف وہ انبیاء والا نقارہ جو
"برسرِ زمین" حقیقتوں کو للکارتا اور ان کا صاف ابطال کرتا اور مخلوق کو
ان سے کھلم کھلا تائب کرواتا تھا، جیسے اللہ کے سوا کسی کو سجدہ، کسی کا طواف، کسی
کا ذبیحہ، کسی سے فریاد و استغاثہ، کسی کی نذر و نیاز، تحلیل اور تحریم پر کسی کا
مطلق حق ماننا، وغیرہ… تو شرک سے متعلق یہ پورا قرآنی بیانیہ بڑی مہارت کے ساتھ
روپوش! وہ کہیں ملتا ہی نہیں ہے اس پورے بیانیے کے اندر۔
چنانچہ شرک کا یہ سارا موضوع اتنی سی بات میں بھگتا دیا
جاتا ہے کہ : ‘بھائی اس سے مراد ہے خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنے نفس کی ماننا’ یا
‘اپنے مفاد کو ترجیح دینا’!
اب ظاہر ہے ‘خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنے نفس کی ماننا’
تو ایک مسلمان سے بھی ہوجاتا ہے۔ گناہ جب بھی ہوتا ہے خدا کے حکم کے مقابلے پر
اپنے نفس کی مان کر ہی ہوتا ہے۔ جبکہ عقیدۂ اہلسنت اِس معاملہ میں صریح ہے کہ:
آدمی کبیرہ گناہوں کا رَسیا ہو تو بھی مشرک بہرحال نہیں ہوتا۔ "شرک" تو
چیز ہی ایک اور ہے: اسلام سے خارج ہو جانا، دنیوی احکام کے حوالہ سے۔ اور ہمیشہ
ہمیشہ کی جہنم، اور بخشش کی کبھی آس نہ رہنا، اخروی احکام کے حوالہ سے۔ جبکہ کبائر
کے رسیاؤں کےلیے خدا کی بخشش اور نبی کی شفاعت حق ہے، اور اس مضمون پر احادیث شمار
سے باہر۔ اب یہ تو معلوم ہے کہ اصرار على الکبائر ‘خدا کے مقابلے پر نفس کی مان
کر’ بلکہ ‘مانتے رہ کر’ ہی وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اشکال کہاں ہے؟
قرآن کے بعض مقامات پر بلاشبہ "خواہش کو معبود
بنانے" کا ذکر ہوا ہے۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شرکِ
اکبر کے حوالے سے طبری اور ابن کثیر ایسے مستند مصادر سے ان قرآنی مقامات کی تفسیر
ملخص کردی جائے:
أفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ
اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ
غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجاثیہ:
23)
"کیا تو نے اُس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنی
چاہت (یا اپنے چاہے) کو اپنا الٰہ ٹھہرالیا؟ اور اللہ نے اس کو باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ
کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی نگاہ پر پردہ ڈال دیا
ہے۔ سو ایسے شخص کو بعد خدا کے (گمراہ کردینے کے) کون ہدایت کرے؟ کیا تم پھر بھی
نہیں سمجھتے؟"
ابن
جریر طبریؒ:
v مفسرین کے ایک فریق کا کہنا ہے: یہ وہ شخص
ہے جو خواہش کی بنیاد پر اپنا دین اختیار کرتا ہے۔ نرا منچلا جو نہ اللہ پر ایمان
رکھے، نہ اللہ کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہرائے اور نہ اللہ کے حلال ٹھہرائے
ہوئے کو حلال۔ اس کا دین وہی جو اس کے جی میں آئے اور یہ اسی کا پیرو۔ ابن عباسؓ
کہتے ہیں: یہ وہ کافر ہے جو خدا کی نازل کردہ ہدایت سے بےنیاز، اور بغیر کسی
(آسمانی) دلیل کے، اپنا دین اختیار کرتا ہے۔
v مفسرین کے دوسرے فریق کا کہنا ہے: اس کا
معنیٰ یہ ہے کہ کہ یہ شخص اپنی من مرضی سے جس چیز کو چاہے اپنا معبود ٹھہراتا ہے۔
سعید بن جبیرؒ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: قریش لوگ عزیٰ کو پوجتے۔ جس کےلیے وہ ایک
سفید پتھر رکھتے، کچھ دیر اسے پوجتے رہتے پھر جب اس سے بہتر کوئی پتھر نظر آتا تو
وہ پہلے کو پھینک دیتے اور نئے پتھر کو پوجنے لگتے۔
ابن
کثیر:
یعنی یہ اپنی خواہش کا مامور ہے؛ اپنی عقل سے جس چیز کو
خوب جانے اسی کو اختیار کرلےگا، اور جس چیز کو ناخوب جانے ترک کردے گا۔ مالکؒ سے
اس کی یہ تفسیر مروی ہے: ہر وہ چیز جو اس کے دل میں آئے یہ اُسے پوجنے لگتا ہے۔
*****
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ
تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان:43)
’’کیا دیکھی تم نے اس شخص کی حالت جس نے اپنی چاہت (یا
چاہے) کو اپنا الٰہ بنالیا ہے۔ سو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے؟‘‘
ابن
کثیر:
یعنی جو بھی چیز اس کی عقل میں خوب معلوم ہوگی اور اس
کے من کو بھائےگی، وہی اس کا دین اور مذہب بن جائے گی۔
*****
شیخ
صالح المنجد اپنے ایک فتویٰ (متى
يكون اتباع الهوى شركا أكبر ومتى يكون معصية)
میں اس پورے مسئلہ کو یوں ملخص کرتے ہیں:
’’خواہش کی پیروی‘‘ کوئی ایک ہی درجہ نہیں۔ اس کی کوئی
صورت کفر یا شرکِ اکبر بنے گی، کوئی صورت کبیرہ گناہ بنے گی، اور کوئی صورت صغیرہ
گناہ:
• چنانچہ اگر آدمی اپنی خواہش کی پیروی میں یہاں تک چلا
گیا ہو کہ وہ رسولؐ کی تکذیب کرنے لگا، یا اس کا استہزاء کرنے لگا، یا اس سے اعراض
کرنے لگا – اور جوکہ سورۂ فرقان اور
سورۂ جاثیہ کی ان آیات کے سیاق سے واضح ہے – تو یہ
شخص مشرک ہوگا بمعنیٰ شرکِ اکبر۔ یہی حکم ہر اس شخص کا ہوگا جو خواہشِ نفس کی
پیروی میں کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو ازروئے دلائلِ شرعیہ شرک اکبر یا کفر
اکبر بنتا ہے، جیسے مردوں کو پکارنا، یا دین کے کسی معلوم امر کا انکار کرنا، یا
ترکِ نماز ،
یا زنا اور شراب وغیرہ کو حلال جاننا۔
• اور اگر خواہش نفس کی پیروی میں وہ شرک اصغر ایسا کام
کرے جیسے غیراللہ کی قسم کھانا یا عبادت میں ریاکاری کرنا... تو وہ شرکِ اصغر کا
مرتکب ہے۔
• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ بدعتِ غیر مکفرہ کرے
تو وہ بدعتی ہے۔
• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ کبیرہ گناہ کرے جیسے
زنا یا شراب خوری، تاہم وہ اس کو حلال نہیں سمجھتا، تو وہ فاسق ہے۔
• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ صغیرہ گناہ کرے تو وہ
محض گناہگار ہے، فاسق نہیں۔
پس واضح ہوا، خواہش کی پیروی مختلف درجات رکھتی ہے۔
لہٰذا یہ کہہ دینا کہ خواہش کی پیروی کرنا مطلق طور پر کفر ہے، درست نہیں۔
*****
*****
نوٹ:
یہ مختصر تحریر ہمارے رسالہ "شرک اکبر کا بیان" کی فصل "شرکِ
اطاعت" سے اقتباس ہے، جو کچھ تبدیلیوں کے
ساتھ خاص اس موضوع کی ضرورت کے تحت علیحدہ مضمون کے طور پر ایقاظ میں دی جا رہی
ہے۔