ایک "عقیدہ بیسڈ" aqeedah-based بیانیہ جو "اعمال"
میں نرمی اور تدریج پر کھڑا ہو
حامد
کمال الدین
چند برس پیشتر،
پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کی جانب سے مجھے گفتگو کرنے کی دعوت ملی، بہ
سلسلہ ناموسِ رسالت۔ یہ مسئلہ اُن دنوں اتنا گرم تھا کہ فضا میں ایک جنون آ گیا
ہوا تھا۔ کالج آڈیٹوریم طلبہ و طالبات سے بھرا ہوا تھا جو ظاہر ہے "ناموسِ
رسالت" کےلیے اپنے شوق کے زیراثر آئے ہوں گے کہ ماشاءاللہ ایک میڈیکل کالج نے
کلاسیں روک کر اس پر پروگرام کروا دیا۔ گفتگو کرنے والے پینل میں سب سے مشہور
شخصیت ایک ریٹائرڈ کھلاڑی تھے جو اَب
ایک مبلّغِ دین ہیں۔ پہلا خطاب ان کا رہا، جس میں "چھ باتوں" کی وضاحت
نے کچھ ایسا طول کھینچا کہ ایک تو اُن کے تقریر ختم کرنے تک ہال میں بمشکل بیس
فیصد حاضری رہ گئی ہو گی۔ دوسرا، ظہر کی نماز قریب آ لگنے کے باعث بقیہ مقررین کے
حصے میں تھوڑے تھوڑے منٹ ہی آ سکے۔ یوں اصل تقریر سمجھیے ایک ہی رہی۔ مگر وہ بات
جو میرے لیے اس میں اصل تشویش ناک رہی، یہاں تک کہ کئی بار ٹوکنے کو جی چاہا، وہ
تھی اس تقریر کی ایک پنچ لائن punch line جو تقریر کو سیمینار کے
ٹاپک سے "جوڑنے" کےلیے گفتگو کے ہر ہر موڑ پر دہرائی جا رہی تھی:
[[پیارے بھائیو اور بہنو! دیکھیے نا رسولؐ سے محبت ہے تو پھر
رسولؐ کی سنتیں ہماری زندگیوں میں، ہمارے چہروں پر، بھی تو نظر آ رہی ہوتیں نا! یہ
تو دعویٰ ہی نعوذ باللہ صحیح نہ ہوا کہ ہم نبیﷺ پر فدا ہیں جبکہ نبیﷺ کے طریقوں پر
چلنے کی بات آئے تو ہم اس سے خالی ہوں"]] أو
کما قال، غفر اللہ لہ۔
چند بار تو انہوں نے اس
مضمون کی کچھ بات بھی فرمائی کہ: [[پیارے
بھائیو بہنو! یقین جانیے کفار ہم پر ہنستے ہوں گے جب وہ دیکھتے ہوں گے کہ جس نبیؐ
کے طریقوں پر چلنے کےلیے ہم تیار نہیں، بس اس کے نام کےلیے ہم ان (کفار) کے ساتھ لڑنے
لڑانے تک چلے جاتے ہیں]]!
قصہ کوتاہ… [[جذبہ
ہم مسلمانوں کا بہت اچھا ہے کہ نبیﷺ کی توہین ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے، بھائی
خود میرے لیے ناقابل برداشت ہے، ایمان کا مسئلہ ہے یہ تو، کون مسلمان یہ برداشت کر
سکتا ہے، لیکن…]]
اور یہ
"لیکن" ویران ہوتے آڈیٹوریم کےلیے پریشان ہونے والوں کی جان نکال رہی
تھی!
اس سے اگلے ہی دن
شاید، جمعہ تھا جو مجھے معمول سے ہٹ کر کسی جگہ پڑھنا پڑا۔ ابتداءً اچھا لگا کہ خطیب
"کرنٹ ایشو" پر بول رہا اور کچھ ایمانی جذبات جگا رہا ہے۔ لیکن تھوڑا
آگے چل کر ایک نیا روٹ… محسوس تو یہ بھی ہوا
کہ وہ پہلی ساری، تمہید تھی: [[دعوے
نبیﷺ کی محبت کے لیکن نماز امام ابوحنیفہ والی؟ یہ کونسی محبت ہے بھئی؟]]
اور اس کے بعد کچھ "عملی" مثالیں جہاں خطیب کے خیال میں نبیﷺ کی محبت کے
دعویدار نبیﷺ کو تنہا چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور باوجود بلانے کے
نبیﷺ کی طرف مڑ کر دیکھنے کے روادار نہیں۔ غرض یہ "تعارض" رفع کروا دینے
پر ہی جو ان کے تئیں "دعوائےمحبت" اور "عمل سے اس کا ثبوت دینے"
میں ہے، خطبہ کا خاصا سارا زور رہا۔ )باوجود اس کے کہ خطیب کے سامنے بیٹھے ہوئے تقریباً سبھی لوگ
"امام
ابوحنیفہ والی نماز" پڑھنے کے نہیں تھے!!!) گویا یہ ایک
الزامی بیانیہ تھا جو رسول اللہﷺ کی "غلط
محبت" کی نشاندہی کےلیے موقع بموقع براڈکاسٹ کر دیا جاتا ہے!
یہ دونوں واقعات میرے
اپنے دیکھے ہوئے۔ تیسرا ایک واقعہ کچھ بااعتبار دوستوں سے سنا ہوا، ملک کی ایک
نامور شخصیت سے متعلق جو دنیا بھر میں اپنے دروسِ قرآن کےلیے مشہور ہیں۔
"ناموسِ رسالت" کے مسئلہ پر چونکہ اُن دِنوں ایک بہت زیادہ ہائپ hype آئی ہوئی تھی، لہٰذا کچھ عقیدت
مندوں کی جانب سے یہ فرمائش کر دی گئی کہ جہاں اس مسئلہ پر سب بول رہے ہیں کچھ
زوردار سا ردِّعمل ہماری جانب سے بھی… جس
پر یہ شخصیت جلال میں آ گئیں: [[کیا
ابھی ہماری تربیت ہوئی ہے؟ کیا ابھی قرآن ہم نے گھر گھر پہنچا لیا ہے"؟ کیا
ابھی ہم نے پورے دین پر عمل کر لیا ہے؟]]۔
غرض اس مضمون کی کچھ باتیں، جس پر اہلِ عقیدت کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی کہ ہنوز
دِلی کتنی دور ہے! اس تیسرے واقعہ پر اُنہی دنوں ایقاظ میں ایک مضمون بھی لکھا گیا
تھا: "چھ فٹ جسم والی دلیلِ متواتر!"، جس کی تفصیل وہیں سے لی جا سکتی ہے۔
ابھی ہم اپنے کچھ اسلامی
دانشوروں کے بار بار ارشاد فرمائے جانے والے "کوٹ"
نہیں دے رہے جن کا لب لباب یہ کہ [[امت
جب تک اعلیٰ اخلاق اور خوبصورت رویّوں کا مظاہرہ کرنے اور ایک برتر جمالیاتی حس کا
ثبوت دے لینے سے قاصر ہے، اُس وقت تک کسی بہتری کی امید رکھنا ہی یہاں فضول ہے]]!
جبکہ اس پر ان فُضَلاء کے ہاں مسلسل خاموشی کہ یہ معجزہ امت کی سطح پر رونما کرایا
کیونکر جائے گا، جبکہ واقع میں تو یہ گراف ہم روز بروز نیچے جاتا دیکھ رہے ہیں۔
*****
یہاں میں صرف ایک ٹچ
دینا چاہوں گا (تفصیل اس کی ان شاء اللہ کسی اور مقام پر) کہ ہمارا
برصغیر کا اسلامی بیانیہ "ملت" کے
معانی کو محقَّق کرانے سے زیادہ "اعمال" کی
اہمیت بتانے کے گرد گھومتا ہے؛ اور اسی پر اس کا زیادہ زور۔ یعنی اصل فوکس یہاں "اعمال"
ہیں نہ کہ "اساسِ اعمال"۔
حتیٰ کہ بہت سے نیک حلقے اپنے دروسِ قرآن میں "شرک" کے
مفہوم کو بھی زیادہ تر "خدا کے مقابلے پر نفس کی ماننے" میں
ہی بھگتا جانے کی روش پر ہیں۔ یعنی "عمل" کا مسئلہ۔ جبکہ "توحید"، "عبادت"، "رب" اور
"الہ" وغیرہ
مفہومات کو زیادہ تر "اطاعت" کے
تحت سمیٹنا! گویا مسئلے کی جڑیں کسی قدر گہری ہیں اور اپنے برگ و بار میں خوارج کے
بعض مقررات کو غذا دے جانے والی۔
*****
اب یہاں ہم جو سلسلۂ
گفتگو چلانے جا رہے ہیں، صرف ایسا نہیں کہ وہ خاص اس ہنگامی حالت سے متعلق ہے جس
سے آج ہم دو چار ہو گئے ہوئے ہیں، گو یہ صحیح ہے کہ ہماری یہ ہنگامی حالت ان
موضوعات کو اٹھانے اور ہائی لائٹ کرنے کی کچھ غیر معمولی متقاضی ہو گئی ہوئی ہے،
اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان موضوعات کے واضح ہونے سے، جو کہ اصولِ اہل سنت کے کچھ
نہایت معتبر مباحث ہیں، ہمیں اپنی اس ہنگامی حالت سے نکلنے کا راستہ بنانے اور ایک
بڑی شاہراہ پر جا چڑھنے میں بہت کافی مدد ملتی ہے، تاہم ان مباحث کی اپنی حیثیت
کوئی نری ہنگامی یا استثنائی قسم کی نہیں ہے۔
*****
یہ سلسلۂ گفتگو ذرا
طویل رہے گا، حالیہ تحریر میں صرف یہ ایک ہی نقطہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ
"اعمال"
ہمارے دین میں "عقیدہ" کے
تابع ہیں – یعنی بعد میں آتے ہیں – نہ کہ "عقیدہ" پر
مقدم یا فائق:
"اعمال" کا "عقیدہ" پر
کھڑا ہونا قوی تر ہے بنسبت "عقیدہ" کے "اعمال" پر
کھڑا ہونے کے۔ "عقیدہ" کی یہ
حیثیت کہیں زیادہ ہے کہ وہ ایک "عمل" کو
معتبر کروائے یا پھر اسے باطل و کالعدم ٹھہرا دے، بنسبت "عمل" کی اس حیثیت
کے کہ وہ "عقیدہ" کو معتبر کروائے یا سرے سے "عقیدہ" کو باطل
کر دے۔
مسئلہ "عقیدہ" کا
آ جائے تو وہاں "اعمال" کا
شور نہیں ڈالا جائے گا، نہ "اعمال" پر
معاملے کو موقوف ٹھہرایا جائے گا۔
اب مذکورہ بالا
مثالوں کے حوالہ سے ہی: "ناموسِ رسالت"
ایک عقیدہ ہے۔ اِس کے اِظہار اور اِعلاء کےلیے:
1) نہ تو "اعمال" کا
[[انتظار]]
کروایا جائے گا کہ "پہلے"
اپنے فلاں فلاں اعمال ٹھیک کر کے آ، فلاں فلاں سنتیں اپنے حلیے یا اپنے معمولات یا
اپنی زندگی کا حصہ بنا کر دِکھا، اور اِس اِس انداز میں شرعی پردہ کی پابند ثابت
ہو، اور "تب جا کر"
نبیﷺ کےلیے جوش میں آنے اور حمیت دِکھانے کی کوئی بات کرنا…
2) نہ "اعمال" پر
معاملے کو [[موقوف]]
رکھا جائے گا کہ نبیﷺ کےلیے جوش میں آنے یا حمیت دکھانے کا "فائدہ" ہی
تجھ کو کیا جب تیرے فلاں فلاں اعمال تو شریعت کے خلاف ہیں، یا فلاں فلاں سنتیں تو
تیرے چہرےمہرے یا تیرے معمولات یا تیری زندگی سے ہی اوجھل ہیں، یا یہ کہ سر پر
دوپٹہ تو تیرے ہے نہیں جبکہ نبیﷺ کےلیے جوش یا محبت کا اتنا بےقابو اظہار!؟ گستاخی
معاف، اپنے وہ سب اصلاح کار جو ایک بظاہر "گناہگار" امتی
کو اسلام کی حرمتوں کی خاطر جوش میں آتا دیکھ کر، اس کی شدید شدید حوصلہ افزائی
کرنے کے بجائے، اور کسی بھی "اگر
مگر اور البتہ لیکن" والی زبان سے مکمل دور رہتے ہوئے اس کی تحسین اور صرف
تحسین کرنے اور بار بار اس کا شکرگزار ہونے اور اس کی بلائیں لینے کے بجائے… الٹا اس
امتی کے "اعمال" یا
"اخلاق" کا
قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں، اور اپنی اس "اصلاحی"
مساعی سے اُس "گناہگار" کے
نصرتِ مصطفیٰﷺ کی خاطر اٹھتے قدموں میں ذرا بھی سُستی یا تردُّد یا بےدلی لے آنے
کا باعث بنتے ہیں… مجھے عرض کرنے دیجیے، ایسے اصلاح کاروں کو شریعت کی ترجیحات (اولویّات) کی ہوا تک نہیں
لگی ہوئی۔ سچ تو یہ کہ "دین"
اور "عمل" کے
مزاج سے ہی ان کو کوئی لگّا نہیں، اگرچہ کتنے ہی باشرع ہونے کا زعم رکھیں۔ "یوٹوپیا"
کچھ ہے تو وہ یہی۔ حق تو یہ ہو گا کہ سجدۂ شکر سے ہم داعیوں کے سر نہ اٹھیں کہ دو
سو سال تک استعمار کے سکولوں یونیورسٹیوں سے پڑھ لینے اور اُس کے فلم ٹی وی تھیٹر
اخبار میگزین کا "کونزیومر"
رہنے کے باوجود امت کو ایسے "گناہگار"
وافر دستیاب ہیں جن کےلیے اپنے رب یا اپنے دین یا اپنے نبیﷺ کی توہین ہوتی دیکھنا
ناقابلِ برداشت ہوا جاتا ہے اور جو ایسے کسی شاتم کی زبان کھینچ لینے کو بےچین ہو
جایا کرتے ہیں۔ بلکہ ڈریں اس وقت سے جب یہ بھی نہ رہیں… یہاں پر جاری ایک خاص ابلیسی
ڈیزائن کے خدانخواستہ رنگ لے آنے کی صورت میں، جب ایسے "گناہگار" بھی
آپ کو چراغِ رخِ زیبا لے کر ڈھونڈنا پڑیں!
3) یہ تاثر بھی غلط ہو
گا کہ امت کے اس بظاہر "بےعمل"
طبقے کو ہم اپنی "سیاسی" یا
"سٹریٹ
پاور" سے وابستہ ضروریات کےلیے ہی دشمنِ اسلام کے ساتھ اپنی ایک
مڈھ بھیڑ میں "استعمال"
کریں گے (معاذاللہ)،
خاص اسی مقصد کےلیے ہم ان کی تھوڑی واہ واہ کر دیں اور ان کی پیٹھ تھپک دیں گے،
اور کچھ اسی ذہن سے ہم ان کو ہلہ شیری دیتے جائیں گے… جبکہ اجر وغیرہ تو ان
بیچاروں کےلیے کیا ہونا ہے جب ان کے عمومی اعمال ہی شریعت کے مطابق نہیں!!! دیکھیں
نا ایک بالکل بےپرد عورت! ایک صاف داڑھی منڈا فلمیں گانے سننے فحش تصویریں لگا
رکھنے والا آدمی! نہایت گمراہ کن بات ہو گی کوئی اگر ایسا ذہن رکھے۔ خدا غارت کرے
ایسی سیاست یا سٹریٹ پاور کو جو اللہ و رسولؐ کی محبت سے سرشار مسلم عوام Muslim masses کی بابت ایسی کسی اپروچ پر کھڑی ہو اور جو
یہ نظریہ رکھتے ہوئے کہ آخرت میں تو ان بنجاروں کےلیے اس پر کوئی اجر ہے اور نہ صلہ،
ان کے مذہبی جذبات کو انگیخت اور ان کو خدا، نبیؐ اور دین کے واسطے دے۔ ایسے مقدس
واسطوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا تو بجائےخود پاپ ہو گا، کجا ہم یہ سمجھیں کہ ایسا کر
کے ہم دین قائم کرنے اور ثواب کمانے کی راہ پر ہیں۔ اس کے برعکس؛ ہم یہ اعتقاد
رکھتے ہیں کہ ہر مسلم مرد اور عورت کو، قطع نظر اس سے کہ وہ کتنا ہی بڑا گناہگار
ہے، اس کا کیا ہوا نیک عمل عنداللہ فائدہ دینے والا ہے۔ اصولِ اہل سنت اس معاملہ
میں بہت واضح ہیں: وہ واحد چیز جو ایک مسلمان کا نیک عمل اکارت کر دے، یعنی اسے
کسی بھی اجر اور ثواب کے قابل نہ رہنے دے، اس کا مرتد ہونا ہے۔ اور تاوقتیکہ وہ
مرتد نہیں ہوتا، اُس کی ہر وہ نیکی جو اُس نے خدا کو خوش کرنے کی نیت سے کی ہو گی
اُس کےلیے عنداللہ فائدہ مند ہے۔ یہاں تک ممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل جس میں خدا کو
پانے کا جذبہ آدمی کے اندر کچھ غیرمعمولی بول اٹھا ہو، وہ اس کے سارے ہی گناہوں کو
دھو ڈالنے، یعنی اس کی بخشش ہی کروا آنے، کا موجب ہو جائے۔ بنی اسرائیل کی ایک
فاحشہ، جی ہاں "پیشہ"
کرنے والی ایک عورت، پیاسے کتے پر ترس کھا کر کنویں میں جا اترتی اور اس کےلیے
پانی بھر لاتی ہے، تواس کے عوض خدا اس کے سارے ہی گناہ بخشش ڈالتا ہے، جیسا کہ
حدیث میں آیا، تو امتِ محمدؐ کے خطاکار اپنے دین کی حرمتوں پر فدا ہونےاور اپنے
نبیؐ کےلیے جوش اور غیرت دکھانے پر کس دلیل سے محرومِ ثواب رکھے جائیں گے؟ خدا نے
یہاں کے کس نیکوکار کو آ کر کہا ہے کہ میں ان کو نہیں بخشوں گا یا اپنے نبیؐ کی
ناموس کےلیے ان کی کسی مساعی پر اجر و ثواب نام کی کوئی شے میں ان کو نہیں دوں گا؟
الٹا اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ایسے کچھ حلیہ پرست اصحاب، اللہ و رسولؐ سے محبت
رکھنے والے اُن "گناہگاروں" کے
متعلق اپنے ان بےرحم گمراہ نظریات کی بنا پر پکڑے جائیں، جیسا کہ بنی اسرائیل ہی
کے حوالے سے ہمیں یہ حدیث میں بتایا بھی گیا، کہ وہ شخص جو ایک مبتلائے گناہ کے
متعلق یہ بول گیا تھا کہ بخدا تیری بخشش ہونے والی نہیں، اللہ نے اس سے کہا کہ تو
کون ہوتا ہے مجھ پر قسماً بات کرنے والا، جا میں نے اس کو معاف کیا اور تیری
نیکیاں اکارت۔ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
یہاں سے؛ دورِ حاضر
کے عام مسلم عوام Muslim masses کو، ان کی اِس حالت
میں ہی، اور "اعمال"
اور "اَخلاق"
وغیرہ میں ان کو اپنی شرطوں پر پورا اتروائے بغیر بھی، کفر اور ارتداد کے خلاف
اپنی اِس حالیہ جنگ میں بھرتی recruit
کرنے کی ایک بنیاد
ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ اپنے تحریکی عمل میں یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو break-through ہو گا اگر دانائی کے ساتھ اس کو اختیار کر لیا
جائے۔ اس میں کئی تفصیلات ہیں، اور یہ مبحث ابھی ہمارے ہاں جاری ہے۔