"دلیل
ازم" کا ایک ٹپیکل مغالطہ
حامد
کمال الدین
سوال:
کیا آپ اس عبارت سے متفق ہیں؟
[رجال کو قرآن و سنت کی ترازو میں تولو نہ کہ
قرآن و سنت کو رجال کی ترازو میں]۔
(ناصر ایوب انصاری)
*****
جواب:
اپنی جگہ بہت اعلیٰ کلمات ہیں۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ "تولنے
والا" کون ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر یہ عبارت کسی قدر گمراہ کن ہو سکتی ہے۔
اس لیے کہ بہت سے عطائی، بولنے/لکھنے پر کچھ قدرت پا
لینے والے، اپنے ‘مجمعے’ کا آغاز ایک عامی پر یہی جال پھینکنے سے کرتے ہیں؛ اور
تھوڑی ہی دیر میں بہت سی مچھلیاں پکڑ لاتے ہیں۔ (اگر میں یہ کہوں کہ امت میں ‘مچھلی
منڈی’ کی تمام تر سپلائی صرف اِس ایک سورس سے ہوتی رہی ہے، تو شاید غلط نہ ہو)۔ اس
نام نہاد ‘دلیل ازم’ نے ایک عرصے تک یہاں قادیانیوں اور پرویزیوں تک کی مصنوعات
بکوائی ہیں، تاآنکہ عامی کو یہ بات سمجھ آئی کہ "قرآن و سنت کے ترازو میں
تولنا" ایک باقاعدہ علمی استعداد چاہتا ہے جو اس کے پاس نہیں اور یہ کہ اسے
(عامی کو) تو بس ایک کام کرنا ہے: "الذین أنعمتَ علیھم" کے تاریخی کیمپ
(جو اس امت میں صحابہؓ سے چلا آتا ہے) کی نشاندہی، اور یہ ایک بنیادی فیصلہ صحیح
ہو جانے کےلیے خدا سے ڈھیروں دعائیں اور التجائیں، ہر وقت، ہر لمحہ۔ اپنی بہترین
صوابدید سے کام لیتے ہوئے اس کیمپ سے جڑ جانا اور آتے جاتے راستے میں ‘نئی بولیوں’
والے مجمعوں کے فٹ پاتھ سے ہمیشہ "مَرُّوا کِراماً" کی صورت گزر جایا کرنا۔ اسی کیمپ
("الجماعۃ") کے علمی معیارات، اسی کے اتفاقات، اور اسی کے عملی کنونشنز
سے اپنی تمام تر وابستگی رکھنا۔ اسی کے ائمہ فقہاء کا خوشہ چین رہنا۔ اسی کے علمی
دھاروں میں سے کسی ایک کو، اور اس کے رجال کو بطور ائمہ، اپنے چلنے کےلیے اختیار
کرنا۔ اور اسی کے فکری و تہذیبی امتیازات کو اپنا امتیاز بنا رکھنا۔ غرض ایک عامی
کےلیے تو "رجال" ہی ہوتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ "رجالِ سنت"
ہیں یا "رجالِ بدعت"۔ اس بیچارے کو یہ زعم دلانا کہ اب تم نے
"رجال" کو بائی پاس کر لیا ہے اور ہر ہر مسئلے میں "دلائل" کی
بنیاد پر مسائل کا فیصلہ کر لیا ہے، اور وہ ‘علمی کتابی’ چوٹیاں سر کر ڈالی ہیں جو
"رجال" کو "قرآن و سنت کے ترازو میں تولنے" سے متعلق ہیں، نری
مجمع بازی ہے، معذرت کے ساتھ۔
ہاں جہاں تک "رجال" کا تعلق ہے یعنی فقہاء (واضح
رہے، عام درسِ نظامی کے فارغ التحصیل تک ہماری اس تاصیل کے حوالے سے ذرا اعلیٰ
درجے کے ‘عامی’ ہی گنے جائیں گے۔ ہم نے کہا: اجتہاد پر قادر فقہاء) تو ان کےلیے یہ
عبارت بالکل صحیح ہے کہ وہ البتہ "رجال" میں نہ اٹک جائیں بلکہ اس چیز
تک پہنچیں جس نے اُنہیں "رجال" بنایا؛ یعنی اجتہاد اور کتاب و سنت سے
استنباط و استدلال۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول مشہور ہے(مفہوم): بات الله
کی طرف سے آئے تو سر آنکھوں پر۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے آئے تو سمعنا و أطعنا۔
صحابہؓ سے آئے تو ہم ان کے اقوال (ہی کے اندر رہتے ہوئے) کسی ایک شےء کو اختیار
کریں گے۔ (ایک روایت میں: سینئر تابعینؒ جو صحابہؓ کی موجودگی میں اقتاء اور قضاء
انجام دیتے رہے، ان کے متعلق بھی یہی بات)۔ ہاں تابعینؒ سے آئے تو وہ بھی رجال ہیں
اور ہم بھی رجال: مطلب ان کا اجتہاد ہے تو ہمارا بھی اجتہاد ہو گا۔ کیونکہ "رجال"
کا مستنَد ہے ہی قرآن و سنت و دیگر ادلہ شرعیہ۔ "رجال" کا مطلب ہی یہاں:
اجتہاد پر قادر لوگ۔ "رجال" ہی "رجال" کو تولیں گے قرآن وسنت
کی میزان میں، بلا شبہ۔
مختصر یہ کہ "رجال" کوئی شےء ہوتے ہیں۔ اور
آپ کی مذکورہ عبارت کا محل اور مخاطب ہی اصل میں "رجال" ہیں نہ کہ عامی
جو علمی مباحث اور ان کے دلائل کے رتیاں ماشے تو کیا سیر اور پنسیرے تک تولنے کا
کوئی اوزار اپنے پاس نہیں رکھتے؛ نتیجتاً عطائیوں کا کھاجا بنتے ہیں اس خوبصورت کوٹیشن
(قولِ زریں) کا شکار ہو کر جو آپ نے بیان
فرمایا۔
اللہ اعلم