نواقضِ اسلام
وہ دس باتیں جن سے آدمی کا عہدِاسلام ٹوٹ جاتا ہے
شیخ محمد التمیمیؒ اپنے مشہور رسالہ ’’نَوَاقِضُ الْاِسْلَامِ‘‘ میں لکھتے ہیں:
پہلی بات: جو آدمی کو دائرہ ٔ اسلام سے خارج کردیتی ہے یہ ہے کہ: انسان اﷲ کی عبادت اور بندگی میں کسی کو شریک کرے۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء (النساء:۱۱۶)
اﷲ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے
إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ (المائدۃ:۷۲)
جس نے اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر اﷲ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
دوسرا: وہ آدمی جو اپنے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان واسطے اور وسیلے بنا کر ان کو پکارنے لگے۔ ان سے شفاعت کا سوالی ہو اور ان پر توکل اور سہارا کرنے لگے ایسا شخص اجماع اُمت کی رو سے کافر ہے۔
تیسرا: وہ شخص جو مشرکین کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے یا ان کے مذہب کو اچھا کہے یا سمجھے، ایسا شخص بھی کافر ہو جاتا ہے۔
چوتھا: جو یہ سمجھے کہ کوئی ہدایت یا قانون نبی اکرم ا کی ہدایت و قانون سے جامع تر یا کامل تر یا خوب تر ہے مثلاً وہ شخص جو طاغوتوں کے حکم وقانون کو نبی اکرم ا کے فیصلہ و قانون پر ترجیح دے، تو ایسا انسان کافر ہے۔
پانچواں: وہ شخص جو رسول اﷲ ا کے لائے ہوئے دِین اور شریعت کی کسی بھی بات سے نفرت یا بغض رکھتا ہو۔ ایسا شخص کافر ہے اگرچہ وہ اس پر عمل پیرا ہی کیوں نہ ہو۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذَلِکَ بِأَنَّھمْ کَرِھوا مَا أَنزَلَ اللَّہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَھمْ (محمد:۹)
یہ اس لئے کہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اﷲ نے نازل کیا ہے تب اﷲ نے ان کا سب کیا کرایا غارت کردیا
چھٹا: وہ شخص جو رسول اﷲ ا کے دین کی کسی بات یا آپؐ کے ذکر کردہ کسی ثواب یا عذاب کا مذاق اڑائے، کافر ہو جاتا ہے۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ أَبِاللّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَھزِئُونَ لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ کَفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ (التوبۃ: ۶۵، ۶۶)
کہو کیا تمہاری ہنسی دل لگی اﷲ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی! اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔
ساتویں چیز ہے: جادو۔ خواہ محبت کروانے کے ٹونے ہوں یا محبت چھڑوانے کے۔ جو یہ کرے یا اس پر راضی ہو، کافر ہو جاتاہے۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ (البقرۃ: ۱۰۲)
حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیتے تھے کہ دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔
آٹھواں: وہ شخص جو مشرکوں کی نصرت اور پشت پناہی کرے۔ یا مسلمانوں کے خلاف ان کا معاون یا حلیف ہو جائے۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن یَتَوَلَّھم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْھمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَھدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْن (المائدہ: ۵۱)
اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یقیناً اﷲ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔
نواں: وہ شخص جو یہ اعتقاد رکھے کہ بعض افراد محمدا کی شریعت کی تابعداری سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں جیسا کہ خضر ؑموسیٰ ؑکی شریعت سے خروج کر لینے میں آزاد تھے، ایسا شخص بھی کافر ہے۔
دسواں: وہ شخص جو اﷲ تعالیٰ کے دین سے بالکل ہی اعراض کئے بیٹھا ہو، نہ اس کا علم لیتا ہو اور نہ اس پر عمل کرتا ہو۔
دلیل: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْھا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنتَقِمُونَ (السجدۃ: ۲۲)
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔
**********************
(آخر میں شیخ محمد التمیمیؒ فرماتے ہیں):
واضح رہے کہ یہ باتیں جو کفر کا موجب ہیں (یعنی نواقض ِ اسلام)…… انسان نے چاہے ہنسی مذاق میں ان کا ارتکاب کیا ہو یا سنجیدگی سے اور چاہے کسی کے خوف سے، اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا اور آدمی کافر ہی رہتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی آدمی اکراہ کی حد تک مجبور کردیا گیا ہو تو تب وہ (کفر کی) اِس فردِ جرم سے بچ جاتا ہے۔
لہٰذا یہ سب امور (نواقض ِ اسلام) حد درجہ خطرناک ہیں اور یہی امور کثرت سے واقع بھی ہوتے ہیں۔ پس ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان سے حد درجہ ہی بچے اور ان میں گرفتار ہو جانے سے خوب ڈر کر رہے۔
ان سب باتوں سے اﷲ کی پناہ جن سے انسان اﷲ کے غضب کا مستحق اور دردناک عذاب کا شکار ہو جاتا ہو۔
اس متن کی شرح کے لیے ملاحظہ فرمائیے ہمارا رسالہ: نواقض اسلام