8
دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
آٹھویں قسط
سوال
3:
ایسے حالات میں کہ جب دستیاب ٹول
کے علاوہ ہر تبدیلی کی مسلح کوشش ناکام ہو چکی ہے، ہم اس دستیاب گنجائش کو بھی
مکمل رد کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر رہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا، اور اتنے میں
دوسری قوتیں ہمیں مزید پستی میں گراتی چلی جائیں؟
کیا اسلاف کو ٹھیک اسی طرح کے
حالات پیش آتے تو وہ اپنے وقت اور حالات کی دستیابی گنجائش کے مطابق کوئی نئی
تعبیر حرام سمجھتے، جسکا نتیجہ مزید گہرے شر کی صورت میں نکلتا؟
کیا کسی
عہد کا فقیہ اپنے دور کی دستیاب گنجائش کے مطابق پوری دیانت داری سے اگر کوئی قابل
عمل حل پیش کرے جس پر عمل کے نتیجے میں
بتدریج اسلامی نظام کی جانب سفر شروع ہو جائے تو وہ حرام کے ضمرے میں شمار کیا
جائے گا؟
جبکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب ترکی
میں مسلسل کوشش کے ذریعے سے مزاحم قوتوں کو کسی حد تک نیوٹلائز کیا گیا ہے اور
پستی سے بہتری کی جانب گنجائش نکلنی شروع ہو گئی ہے، ایسا کوئی بھی طریقہ کار
ہمارے ہاں بالکل فاسد خیال کہلائے گا؟
جواب:
تبدیلی کی کسی مخصوص "کوشش" کو رد کرنا کسی وقت
اصولی معنیٰ میں ہوتا ہے اور کسی وقت اسے مؤثر نہ جاننے کے معنیٰ میں۔
جہاں تک تو ہے تبدیلی کی فی زمانہ کوئی "مسلح
کوشش"، خصوصاً ایک مستحکم established معاشرے میں… تو اس کو ہم ہر دو بنیاد پر رد کر چکے، یعنی اس کی
اصولی حیثیت میں بھی اور اسے مؤثر نہ جاننے کے معنیٰ میں بھی۔
رہ گئی تبدیلی کی وہ صورت جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں (دعوت
کے ذریعے اکثریت کو اپنا ہم نوا کرنا اور پھر اس "اکثریت کے ووٹ" کے
ذریعے سے اسلام کی حکومت لے آنا)، تو اس کی اصولی گنجائش – اندریں حالات – ہم نے
بےشک تسلیم کی ہے… تاہم اس کا "مؤثر" ہونا فی الحال ایک تھیسس ہے،
مسلّمہ نہیں ہے۔ اسے "تھیسس" ماننے کا مطلب: ہو سکتا ہے یہ کام دے، ہو
سکتا ہے کام نہ دے۔ سٹیٹس اس کا آج کی تاریخ تک ہے یہی۔ کہیں پر اسلام آ جانے کا
واقعہ اس راہ سے ہوا ابھی تک نہیں ہے۔ ترکی، تیونس اور مصر میں تھوڑی پیش رفت
اسلام "کی طرف کو" جمہوریت کی راہ سے ہوئی ہے تو نوّے کی دہائی میں اس
سے زیادہ پیش رفت اسلام "کی طرف کو" افغانستان میں ہو گئی تھی، جبکہ
جمہوریت کا راستہ وہاں نہیں چلا گیا تھا۔ اب بھی کہہ نہیں سکتے معاملہ وہاں کس
کروٹ بیٹھ جائے۔ تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو "کام دینے" کے
حوالے سے کئی ماڈل اور بھی ہیں:
1. ایک مرابطین کا ماڈل جو ایک دور افتادہ قبائلی قسم کا ماحول
("ریاست" کے معنىٰ میں ایک خلا) میسر آنے کی وجہ سے خاصا کارگر رہا تھا۔
["المرابطون" نامی، شیخ عبد اللہ بن یاسینؒ (متوفیٰ 451 ہجری، 1059
عیسوی) کا قائم کردہ سلسلۂ تعلیم و ارشاد جو ایک بڑی ایمپائر پر منتج ہوا، جس کے
ایک امیر یوسف بن تاشفینؒ نے بعد ازاں یورپ کے ایک فرعون الفانسو کو شکست دے کر
اندلس سے صلیبی خطرے کو کئی صدیوں تک کےلیے پیچھے دھکیلا۔ یہ صرف سات بندوں سے
شروع ہونے والی ایک تحریک تھی، جو شمال مغربی افریقہ میں مسلمانوں کے مابین پھیلتے
چلے جانے والے ارتداد سے لوگوں کو تائب کروانے اور حیاتِ اجتماعی میں شریعت کی
بحالی کےلیے اٹھائی گئی، ایک زمانے تک دعوت کی صعوبتیں جھیلتی رہی، ایک عرصہ صحرا
میں پناہ لینا پڑی، آخر قبائل کو زیر کرتے کرتے ایک مضبوط دولت قائم کر لی، اقتدار
میں آ کر شریعت کو ایک بہت اچھی سطح پر قائم کر کے رہی، اور کچھ اللہ والے اس کے
حکمران رہے]۔
2. دوسرا صلاح الدین ایوبیؒ (متوفی 589 ہجری، 1193 عیسوی) کا ماڈل [جس میں، اللہ
کے اس نیک بندے نے رافضی حکومت کا اعلیٰ عہدہ (وزارت) قبول کر کے، اور پھر اس عہدہ
کی بدولت ملنے والے اختیارات سے کام لیتے ہوئے معاشرے کو عدل و انصاف دے کر،
اقتدار میں رہنے کے دوران لوگوں کی ذہن سازی کر کے، مساجد کا کردار مضبوط کر کے،
رفتہ رفتہ گندے عناصر کو صاف اور اچھے لوگوں کو اوپر لا کر، اور اپنی پوزیشن
مستحکم کر کے، ایک مناسب وقت پر رافضی خلیفہ "العاضد" کا بستر گول کر
دیا، یوں ڈھائی سو سال سے چلی آتی باطنی عبیدی المعروف فاطمی دولت کو ہمیشہ کےلیے
ختم کر کے مصر کو کامل دارُالسنّة بنا دیا]۔
3. تیسرا ماڈل محمد بن عبدالوہابؒ (متوفیٰ 1206 ہجری، 1791 عیسوی) کا ہے۔ [عقیدہ
و عمل کو درست کرنے کی دعوت پر کھڑی یہ تحریک بڑے سالوں تک شدید مخالفت کا سامنا
کرتی رہی۔ اس کا صبر و استقامت دیکھ کر، معاشرے کے قلیل اچھےاچھے دماغ اس کے معتقد
ہوتے چلے گئے۔ انہی معتقدین میں سے ایک جہاندیدہ خاتون، کہ ایک علاقہ کے بادشاہ کی
بیوی تھی، اپنے شوہر کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ دین کو قائم کرنے اور نسلوں
کی دعائیں لینے کا یہ موقع اپنے نام کر لے۔ جس پر بادشاہ حضرت کی دست بوسی کو حاضر
ہوا، نصرتِ توحید اور اقامتِ شرع پر دونوں کی بیعت ہوئی اور ایک شدید پابندِ شریعت
حکومت دنیا کو ایک بڑا عرصہ دیکھنے کو ملی]۔
4. اس کے علاوہ بھی، تبدیلی کے بہت سارے ماڈل جنہوں نے وقتاً فوقتاً کام دیا،
مزید نشان زد ہو سکتے ہیں۔ خود عمر بن عبدالعزیزؒ والا ماڈل یوں بنتا ہے کہ
"اموی اقتدار" کا حصہ رہتے ہوئے اوپر آتے چلے گئے، یہاں تک کہ ایک وقت
پر، کہ جب صاحبِ اقتدار پر نزع کا عالم تھا اور وہ اپنی آخرت کےلیے فکرمند،
"سلیکشن" کا قرعہ اس اللہ کے ولی کے نام نکل آیا۔
مقصد یہ کہ "تبدیلی" کے معاملہ کو کسی ایک ہی
صورت میں محصور کرنا، اور اس کے ماسوا امکانات کو قطعی رد کرنا، کسی قدر دھکا ہو
گا۔ جبکہ بعض گروپوں کا حال، "اسلامی حکومت قائم کرنے" کی کسی ایک مخصوص
صورت کو "منصوص" قسم کی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ
جس طرح رسول اللہﷺ نے نماز کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ پڑھ کر دکھائی اور امت پر
"اس طریقے سے ہی" پڑھنا واجب کیا، اسی طرح رسول اللہﷺ نے اسلامی حکومت
کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ قائم کر کے دکھائی اور امت پر "اس طریقے سے
ہی" قائم کرنا واجب فرما رکھا ہے!
چنانچہ یہ ضروری ہے کہ میں اس سلسلہ میں اپنی پوری پوزیشن
واضح کر دوں:
1. "اکثریت کے ووٹ" کے ذریعے ملک میں اسلام لے آنے کا طریقہ کئی ملکوں
میں آزمایا گیا ہے۔ ایک "دستیاب موقع کو لینے" کے طور پر اصولاً اس میں
حرج نہیں، یہ ہم بار ہا کہہ چکے۔ یعنی جائز/ ناجائز کا مسئلہ یہاں نہیں ہے، اہل
علم کی ایک معتد بہٖ تعداد ایسی کوئی کوشش کر لینے کو اصولاً جائز کہہ چکی ہے۔ اور
یہی رائے مجھ طالب علم کی نظر میں قوی تر۔
2. اوپر جو بات ہوئی، وہ البتہ صرف اس کے اصولی جواز کے متعلق ہے۔ رہ گیا یہ کہ
"اکثریت کے ووٹ" کے ذریعے کیا واقعتاً اسلام لے آنے کی یہاں کوئی صورت
ہے؟ تو اس پر خاصا کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ آگے چلنے سے پہلے واضح ہو جائے، یہاں دو
چیزیں ہیں: ایک، "اکثریت کے ووٹ" کی راہ۔ دوسری، اس راہ سے "اسلام
لے آنا"۔ بہت ملکوں میں جہاں یہ راہ چلی گئی اور کچھ معاملہ آگے بڑھا، وہاں
اس کے دوسرے حصے میں ان کو ایک ترمیم کر دینا پڑی ہے۔ یعنی "اکثریت کے ووٹ کی
راہ" پر تو وہ چلے جا رہے ہیں، البتہ اس راہ سے "ملک میں اسلام
لانا" اب پیچھے ہٹا دیا گیا ہے۔ بلکہ "اسلام" کا لفظ ہی اب باقی
نہیں رہنے دیا گیا۔ "اسلام" کی جگہ ان کے یہاں "انصاف"، "ترقی"،
"معاشی استحکام" اور "ریاستی اصلاح" وغیرہ مقاصد نے لے لی ہے۔
ہمارے خیال میں، ان کے ایسا کرنے کی وجہ نرے وہاں کے "ریاستی قوانین"
نہیں بلکہ ایک سٹرٹیجی کے طور پر بھی یہ ان کے ہاں اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ
انتخابی اکھاڑے میں موجود کچھ زیادہ ‘بنیادپرست’ پارٹیوں (مانند سعادت پارٹی،
ترکی) کے مقابلے پر اپنی بھاری انتخابی کامیابی کو اپنی اس سٹرٹیجی کا نتیجہ بھی
ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہاں سے؛ ایک بہت اہم نکتہ میں اپنے قاری کے ذہن نشین کروانا
چاہتا ہوں:
3.
"انتخابی راستے" کو "اسلامی انقلاب" کا طریقہ
اور راستہ کہنا میرے خیال میں خاصا غیر حقیقی ہے۔ اس (انتخابی) راستے نے جہاں
تھوڑا سا بھی کام دیا، وہاں "اسلام" اور "اسلامی انقلاب" کو
پیچھے ہی کر لینا پڑا، جیسا کہ میں نے عرض کیا۔ یعنی یہ تو صحیح ہے کہ اس
(انتخابی) راستے نے اسلامیوں کو ان کے دینی مقاصد کے حوالے سے "کچھ
فائدہ" دیا۔ لیکن "اسلامی انقلاب"…؟ تو وہ اقتدار پا لینے کے بعد
بھی ایک بہت ہی دور کی چیز ہے۔ اتنی دور کی کہ فی الحال تو بولنے میں بھی نہیں آ
سکتی! رہی "خلافتِ راشدہ" طرز کی دین کی حکمرانی (کہ جہاں قرآن بجائے
خود آئین ہو) تو وہ اس سے بھی کہیں دور کی ایک چیز۔
4. جب "اسلام لانے" کا معاملہ اس راستے میں اتنی دور کی ایک چیز ہے، تو
اس کےلیے صحیح تر الفاظ میری نظر میں یہ نہیں کہ "اسلام کی حکومت لانے
کےلیے انتخابی راہ چلی جائے" بلکہ صحیح تر الفاظ یہ ہوں گے کہ "کوئی ممکنہ بہتری لانے کےلیے محنت کے دیگر
محوروں کے ساتھ ساتھ انتخابی راستہ بھی جس قدر مقدور ہو چل لیا جائے"۔ یہ
ایک زیادہ حقیقت پر مبنی اور نعرے لگانے والوں کا جذباتی استحصال نہ کرنے والی
تعبیر phrasing ہو گی، میری نگاہ میں۔ یہ خط کشیدہ الفاظ براہِ
کرم پیش نظر رہیں۔
5. یہاں سے؛ ہمارے ائمہ و مشائخ کا ایک منہجی پوائنٹ ثابت ہوا اور وہ یہ کہ:
اسلام کےلیے ہماری اجتماعی محنت و جدوجہد کا عنوان "اسلامی انقلاب" یا
"اسلامی حکومت کا قیام" نہیں بلکہ قرآن میں شعیب علیہ السلام کی زبان پر
کہلوائے گئے الفاظ: "الإصلاحَ ما
استطعت" ہے۔ یعنی ایک دی ہوئی صورتحال میں in a given
situation معاملے کو اسلام کے حق
میں جتنا ٹھیک کیا جا سکتا ہے بس اتنا ٹھیک کر جانا [جو کسی صورتحال میں
"اسلامی حکومت کے قیام" سے بہت کم کوئی چیز ہو سکتی ہے اور کسی صورتحال
میں اس سے بھی بہت زیادہ کوئی چیز۔ (حالات حالات کے فرق سے، ایک بڑی variation۔ اس کی وضاحت ان شاء اللہ کسی اور موقع پر)]۔ چنانچہ آپ
دیکھتے ہیں، عمل کے میدان میں یہاں جس نے بھی کوئی پیش رفت کی وہ عملاً اسی اصول
پر آیا کہ کسی صورتحال میں اسلام کے جس قدر مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہوں اور شر کے
جس قدر آڑے آیا جا سکتا ہو، بس اسی "قدر" کی فکر کی جائے اور اسی کو
اپنی جدوجہد کا محور رکھا جائے۔ آپ کے اس عمل اور کوشش سے کل کو جو صورتحال ہو گی،
اور جو کہ آج سے بہتر بھی ہو سکتی ہے اور بدتر بھی، اس پر کل دیکھا جائے گا۔ اور
اس سے اگلی کل کے اجتماعی فرائض کا نقشہ؟ جب وہ اگلی کل آئے گی۔ علیٰ ھٰذا القیاس۔
البتہ مسلم اجتماعی جدوجہد کےلیے "الإصلاحَ ما استطعت" کے سوا کوئی مطلق
عنوان نہ آج ہے اور نہ کل۔ اس منہج پر آ جانے سے آپ کا کارکن "اسلامی
انقلاب" وغیرہ کےلیے، جب وہ دُور دُور اس کا کوئی نام و نشان نہیں دیکھتا
جبکہ اپنی سب جدوجہد وہ اسی عنوان سے اور اسی ہدف کے تحت کرتا اور صبح شام اسی کی
آس میں لگا رکھا جاتا ہے، فرسٹریشن کا شکار نہیں ہوتا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ وہ اپنی
تگ و تاز کےلیے ان اہداف پر نگاہ ٹکاتا ہے جنہیں وہ ایک دی گئی صورتحال میں
واقعتاً حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے؛ فاعلیت efficiency اس کی دو چند ہو جاتی ہے۔
نیز آپ کی پریزنٹیشن کی مصداقیت credibility اس کے ہاں بڑھ جاتی ہے۔
6. اب اگر یہ طے ہو گیا ہے کہ اجتماعی محنت کا اصل محور "اسلامی
انقلاب" نہیں بلکہ "الإصلاحَ ما استطعت" ہے،
اور خود انتخابی راستے میں کچھ پیش رفت کر لینے والے اصحاب بھی [عملاً] اسی محور
پر چل رہے ہیں…تو ہم کہتے ہیں معاشرے
میں اصلاح (صورتحال کو اسلام کے حق میں بہتر سے بہتر کرنے) کے جو کئی ایک میدان
ہمیں میسر ہیں ان میں سے ایک یہ کہ: انتخابی
راستے سے "بھی" جو مکاسب gains اسلام کےلیے حاصل کیے جا
سکتے ہوں، کر لیے جائیں۔ زور البتہ سب میدانوں میں لگایا جائے، بایں طور کہ جس
میدان میں [صورتحال کو اسلام کے حق میں بہتر کرنے] کا پوٹنشل potential زیادہ ہو، یا کسی وجہ سے وہ ہماری دسترس میں زیادہ ہو،
اس پر فوکس اتنا ہی زیادہ ہو، اور کسی دوسرے میدان میں ہمارا زیادہ الجھا engaged
رہنا اس سے غافل رہنے کے حق میں ہماری ‘دلیل’
یا ہمارا ‘عذر’ ہرگز نہ ہو۔ خاص اس پہلو سے بات کروں، تو دیگر ملکوں میں جو
صورتحال ہو گی وہ تو وہاں دیکھی جائے گی، ہمارے یہاں سماجی شعبوں میں دین داروں کے
آگے بڑھنے کو (دعوت والے شعبے کے بعد) میں سب سے مقدم رکھوں گا۔ انتخابی سیاست کے
راستہ سے "یہاں" زیادہ امیدیں لگوانا میرے نزدیک بوجوہ درست نہیں۔ خود
سیاسی عمل میں ہی، اس سے زیادہ مؤثر راہ – اندریں حالات – میری نظر میں
"لابنگ" lobbying ہو سکتی ہے جسے اس وقت بالکلیہ ترک کر رکھا گیا
ہے۔ ("پورے" کی طلب میں "تھوڑے" کو کوئی چیز نہ جاننا یہاں
ایک ایسی ذہنیت mentality
ہے جس نے ہمارا ستیاناس کر دیا اور کچھ سہل الحصول اہداف سے ہم کو بیگانہ ہی کر کے
رکھ دیا، حالانکہ وہ "تھوڑا تھوڑا" جمع ہوتا چلا جائے تو کسی وقت
"بہت" ہو سکتا ہے، لیکن ڈبویا ہم کو "سارے" نے جو ہمیں
"خالی" رکھنے کی ایک مؤثر ریسیپی recipe چلی آئی ہے!) اس وجہ سے میں کہوں گا، آپ کی اجتماعی
محنت اور جدوجہد کا محور "اسلامی انقلاب" ہے یا "الإصلاحَ ما استطعت"؟ یہ محض لفظی فرق
نہیں، بلکہ اپروچ کا ایک بہت بڑا فرق ہے۔ آپ یہ تبدیلی کر کے دیکھیے، بالکل ایک
مختلف وِژن – پیش قدمی کے بےشمار میدانوں کے ساتھ – آپ کے سامنے ہو گا، ان شاء
اللہ۔
پچھلی
قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں