6
جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا "آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
چھٹی قسط
س2:
کیا بندوق کے رستے پر چلنے کے
نتیجے میں جس طرح مسلم ممالک تباہ و برباد ہو گئے اور اسکے نتیجے میں ریاست کو
میسر ارتقائی وسائل یا سٹرکچر پتھر کے زمانے میں چلا گیا،
وہ تدبیر درست ہے کہ، عوام کی
بڑی اکثریت کو درست انداز میں ووٹ کے استعمال پر قائل کرکے اس سے پھر آگے بڑھا
جانے کا طریقہ کار بالکل فاسد خیال کہلائے گا؟
جواب:
یہ بات ہم اپنی متعدد تحریروں میں کہہ چکے ہیں کہ ایک منظم
معاشرے settled society میں، جیسا کہ فی زمانہ
روئےزمین کے اکثر ملکوں کا معاملہ ہے، امکانات کی دنیا میں بندوق کوئی آپشن نہیں
ہے، علاوہ اس بات کہ ہمارے سلف کی تقریرات میں اس راہ کو ترک کروا رکھنے پر ایک
غیرمعمولی تاکید پائی جاتی ہے۔ "مسلمان کا خون" اسلام کی بڑی حرمتوں میں
سے ایک ہے؛ اور اس کو مباح کرنا اپنے اور پوری امت پر شر کا ایک بہت بڑا دروازہ
کھولنا۔
رہ گیا آپ کا سوال فرمانا "عوام
کی بڑی اکثریت کو درست انداز میں ووٹ کے استعمال پر قائل کرکے اس سے پھر آگے بڑھا
جانے کا طریقہ کار کیا ایک فاسد خیال کہلائے گا؟"
تو "فاسد خیال" تو یہ بالکل نہیں ہے، جبکہ اندریں
حالات اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہونا پچھلے سوال کے جواب میں بیان کر ہی چکا…
تاہم ایک قابل عمل چیز اسے ماننا میرے لیے مشکل ہے۔ ‘مشکل’ کا لفظ بھی سمجھیے
رعایتاً بولا۔ اپنی اس شکل میں تو یہ قریب ناممکنات کے ہے جو ایک "پورے
اسلامی پروگرام" کے ساتھ جمہوری میدان میں اترنے کے حوالے سے ہمارے یہاں
عشروں سے متعارَف چلا آتا ہے۔ (خاص تدبیری حوالے سے بات ہو رہی ہے)۔ "مسلم
سٹریٹ" کی وابستگی اسلام کے ساتھ ایک سرسری قسم کی ہی رہ گئی ہے، وہ بھی اگر
ہم اسے جوت لانے کی کوئی زیرک تدبیر رکھیں، ورنہ لبرل اس کو بھی درگور کر دینے کے
درپے ہے اور اپنے اس مشن میں وہ کوئی ایسا ناکام بھی نہیں جا رہا۔ چنانچہ
"مسلم سٹریٹ" کی اسلام سے اس سرسری وابستگی کو جوت لانے کی کوئی اسکیم
اگر ہم لے بھی آئیں، جو کہ آج تک ہم نہیں لا پائے، اور نہ اس کے کوئی آثار فی
الحال دکھائی دیتے ہیں، تو اسلام کے حوالے سے وہ کوئی سرسری پروگرام ہی ہو سکتا ہے
جو "سٹریٹ" سے ایک بھاری تکڑی حمایت پا لے۔ البتہ "اسلام کے ایک
جامع پروگرام" کےلیے "عوام کی اکثریت" کی انتخابی حمایت لے آنا ایک
خاصی غیر حقیقی توقع ہو گی، صرف یہاں نہیں، مصر اور ترکی میں بھی، بلکہ عالم اسلام
میں اس وقت کہیں بھی۔
ایک بھاری بھرکم اسلامی پروگرام فی الوقت، اور آپ کے اقتدار
میں آئے اور ایک عرصہ تک اقتدار میں رہے بغیر، عوام کو سمجھ آنا بھی مشکل ہے، کجا ان
کا اس کی تائید کےلیے اٹھ کھڑا ہونا۔ یہاں ایک گہری خلیج ہے جو – کچھ ہمارے بھاری
اسلامی تقاضوں کی وجہ سے جو ہم یہاں کے عام آدمی سے رکھتے ہیں – ہمارے اور "عامی" کے مابین مسلسل بڑھ
رہی ہے، اور لبرل اس (خلیج) کا بہت اعلیٰ استعمال بھی کر رہا ہے۔ (اس کی وضاحت کسی
اور موقع پر، ان شاء اللہ)۔ ہمارے اور یہاں کے "عام آدمی" کے مابین اس
خلیج کا ادراک کرنے میں ویسے ہم بہت لیٹ ہو رہے ہیں؛ جس کی وجہ سے یہاں ہمیں
دستیاب لیوریج leverage
آج سے پانچ عشرے پہلے کی نسبت بہت کم ہو گیا ہے اور روز بروز کم ہو رہا ہے۔ عامی
کےلیے دراصل یہاں ایک بےحد ہلکی پھلکی فریکوینسی frequency کی ضرورت تھی جو ابھی تک ہم اسلام پسندوں کے ہاں اس
کےلیے دستیاب نہیں ہے۔ اس مشکل کا ادراک کرتے ہوئے، یا کچھ ایسی مجبوریوں کے تحت
جو شاید نادانستہ ہمیں فائدہ دے گئیں!… مصر اور ترکی میں بڑے عرصے سے یہ ایک تدبیر
نکالی گئی ہے کہ ایک "جامع اسلامی پروگرام" کسی انتخابی دنگل میں سرے سے
پیش نہیں کیا جا رہا، اور نہ ایک غیر معینہ عرصہ تک اس کا امکان۔ بلکہ
"اسلام" ہی کا اس پورے سیاسی پروگرام میں کہیں نام نہیں رہنے دیا گیا۔
تب جا کر "کچھ" کامیابی ملی ہے۔ اِس جمہوری راہ کے متعلق عملاً بھی کسی
غلط فہمی میں مت رہیے۔ ابھی تو اسلام کا کیا ذکر، یہاں اقتدار میں آپ پہنچ بھی لیں
تو "اسلام" کو آپ اپنا پروگرام نہیں بنائیں گے۔ تب جا کر یہ راہ آپ سے
کچھ وفا کرے گی۔ ایسی کوئی اسکیم ہو، یعنی کوئی ایسا سیاسی اصلاحی پروگرام جس میں
"اسلام" فی الحال پیچھے کر لیا گیا ہو (انتخابی میدان کی حد تک مطلوب
سٹریٹجی کے حوالے سے، میں خود اندریں حالات اسی کے حق میں ہوں، اور اس پر تھوڑا سا
لکھ بھی چکا ہوں)، تب کچھ پیش رفت
ممکن ہے۔ یعنی اپنے "ٹھیٹ" اسلامی چہرے کو خاصا پیچھے لے جائیے، اپنے
اسلامی اہداف کو اپنے دل کی پہنائیوں میں رہنے دیجیے، اقتدار میں آنے کے بعد بھی
بڑی دیر تک یہ ارمان اپنے دل ہی میں رکھیے، تو جا کر، اگر آپ قسمت کے دھنی ہوئے
اور دیگر عوامل میں اچھے نمبر لے گئے، تو اس راستے میں ایک قابل لحاظ پیش رفت کا
"امکان" ہے۔ اس کے بغیر نہیں۔ میں اپنی اس تشخیص assessment میں غلط ہو سکتا ہوں، تاہم میرے نزدیک صورتحال عین اِسی
نقطے پر کھڑی ہے، اور اس حوالہ سے ایک کڑا مگر صحیح فیصلہ نہ کر پانے کے باعث ہر
گزرتے دن کے ساتھ یہاں ہمارا لیوریج گھٹتا جا رہا ہے۔ ورنہ ہو سکتا ہے آج ہم ترکی
سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہوتے۔
یہاں پہنچ کر آپ دیکھتے ہیں، جمہوری میدان
میں اگر کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے تو وہ اپنے "انقلابی" طریقِ کار کو
پیچھے چھوڑ کر۔ جہاں جہاں کامیابی کی کوئی ‘کرن’ دکھائی دی ہے، تو وہ یہی راہ چل
کر۔ اس مسئلہ کی کچھ منہجی جہتیں دیکھنے کےلیے آپ ہماری محولہ بالا تحریر "اسلامی تحریکی عمل
میں چند جذری ترمیمات- سفارشات" کا پہلا پوائنٹ بعنوان "نظریۂ انقلاب پر ایک
نظر ثانی کی ضرورت" نیز ہمارا ایک مضمون "متقدمین ڈسکورس کا
انقلابی ڈسکورس سے فرق" ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
پچھلی
قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟ اگلی قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں