4
جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
چوتھی قسط
نتائج conclusions پر پہنچنے میں اوپر ہم نے
تھوڑی جلدی کر لی۔ ورنہ فرق ماضی کے اُس اجتہاد اور حال کے اِس اجتہاد میں، یا ان
کی پوزیشنوں کے مابین، ابھی اور بھی ہیں…
رومی یا ساسانی ڈیزائن کی کوئی چیز "ملوکیت"
وغیرہ کی صورت ماضی میں مسلمانوں کے ہاں لائی گئی تو وہ بجائےخود کوئی اجتہادی عمل
نہیں تھا۔ یا تو کسی کی نارسائی تھی یا صاف ایک دھکا جو کرنے والوں نے کیا۔ لہٰذا
اس میں غلط اور مردود ہونے کا معنیٰ بجائےخود قائم تھا۔ اہلِ علم و فقہ نے کبھی اس
کو ‘اسلامائز’ کرنے کا رخ نہیں کیا۔ "اجتہاد" اگر کچھ ہوا ہے تو وہ اُس
ملوکیت کو "قبول" کرنے سے متعلق نہیں ہوا۔ اسلام سے اُس کو یا اُس سے
اسلام کو "ہم آہنگ" کرنے کی نوبت نہیں آئی کبھی۔ نہ مسلمانوں کے علمی
ذخیروں میں ایسی کسی کوشش کے شواہد۔ سیاسة شرعیة پر جتنی کتابیں
لکھی گئیں ان میں بیعتِ انعقاد کی وہی شرطیں، جو ملوکیت سے قبل مسلمانوں کے ہاں
معروف تھیں۔ "تغلُّب" کو فقہ کی کسی ایک بھی کتاب نے سندِ جواز نہیں
بخشا۔ کچھ ملتا ہے تو وہ "متغلِّب کے ساتھ – جب وہ تغلُّب کر ہی لے – معاملہ
کرنے" سے متعلق، کہ اس پہاڑ کے ساتھ سر ٹکرانے کی بجائے کوئی حکیمانہ معاملہ
اس کے ساتھ کر لیا جائے اور جہاد و اقامتِ شرائع ایسے عظیم مصالحِ اسلام کو محض
اُس کے تغلُّب کی وجہ سے معطل نہ ہونے دیا جائے، نیز مسلمانوں کے یہاں فتنہ و
خونریزی کا وہ دروازہ نہ کھلنے دیا جائے جس میں ہزار فتنہ و شر کے دروازے آپ سے آپ
کھلتے ہیں۔ "ملوکیت" بجائےخود اُن اہلِ علم و فقہ کا کبھی نعرہ نہیں
رہی، "ملوکیت" کبھی اُن کے یہاں آئیدیلائز idealize نہیں ہوئی،
برعکس "جمہوریت" کی اس آن بان شان کے جو آج اسے ہمارے بہت سے شارحینِ
اسلام کے ہاں حاصل ہے۔
مقصد یہاں "جمہوریت" کے نعرے لگانے سے روکنا
نہیں، ضرور لگائیے۔ بہت خطوں میں یہ آپ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ خدا کے دشمنوں کے
ساتھ ہماری سماجی لڑائی میں اس کی نوبت جا بجا آئی رہتی ہے۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا
مقصود ہے کہ ماضی کا وہ اجتہاد جو آپ نے ذکر فرمایا اُس میں "ملوکیت" کا
فی نفسہٖ برائی اور غلط ہونا مسَلَّم established تھا؛ اور اس کی وہ حیثیت
صدیوں جوں کی توں۔ "ملوکی" استبداد کی نظریاتی پوزیشن کوئی ایسی تھی ہی
نہیں جو ہمارے "اسلام" کو متاثر کر لے یا اِس بات کا کوئی اندیشہ تک ہو۔
اجتہاد ہوا تھا اُس کو ظلم اور برائی مانتے ہوئے، اہل دین و صلاح کے اُس کے ساتھ
پیش آنے سے متعلق، اور بس۔ "اسلام" کے احاطہ میں البتہ اُس کا داخلہ ہو
سکتا تھا نہ اُس کی یہ حیثیت، اور نہ ائمہ و فقہاء کے ہوتے ہوئے اُس کی یہ مجال۔
اس لحاظ سے؛ اُس کا معاملہ تو بہت سادہ تھا۔ یہ حالیہ دیوِ استبداد جس کا نام
"جمہوریت" ہے البتہ ہمارے اسلام ہی میں گھس آیا؛ اسلام کی جدید تعبیر اس
کے بغیر نامکمل اور ناآسودہ ہے۔ یہاں تک کہ خلافتِ راشدہ کے حق ہونے کی دلیل
"جمہوریت" سے لی جانے لگی ہے، یعنی وہ ایک ‘جمہوری’ طرزِ حکومت تھا اس
لیے وہ حق ہوئی اور بعد کی حکومتیں ‘غیر جمہوری’ ہونے کی وجہ سے ناحق!
"جواز" legitimacy کی بنیاد اِس ‘اسلامی جمہوری’ بیانیہ میں "یقودُکم
بکتاب اللہ" کی بجائے ‘طرزِ انتخاب’ کو مانا جانے لگا ہے؛ اور اس وجہ
سے آج کی وہ حکومتیں جو ‘منتخب’ ہیں چاہے ان کو اسلام کی ہوا نہ لگی ہو، ماضی کی
برسرِ جہاد شریعت پر فیصلے کرنے والی ‘غیر منتخب’ حکومتوں کی نسبت زیادہ حق rightful اور جائز legitimate! غرض "الخلفاءِ الراشدین المھدیّین" بھی اپنی وہ تمام
تر حیثیت، برگزیدگی اور پیشوائی جو اُنہیں دین اور تاریخ میں حاصل ہے، اِن کے
تئیں، جمہوریت سے لیتے ہیں اور سب اِسی کی چوکھٹ سے سند پا کر جاتے ہیں! یہ رانی
ہمارے حال کو کچھ دے یا نہ دے، ہمارے ماضی کے فیصلے ضرور ہاتھ میں کرے گی اور
ہمارے سب فاتحین اور صلحاء کو اپنے کٹہرے میں لائے گی! (اس سے انسپریشن inspiration پا کر ہماری
تاریخ کا محاکمہ کرنے اور اسے کوڑی کا بنا کر رکھ دینے کی ایک تحریک روزبروز اپنے
یہاں زور پکڑ رہی ہے۔ اغلباً اُس کی سٹریٹیجی یہ رہی ہے کہ ہماری "تاریخ"
سے گزر کر وہ ہمارے "دین" تک پہنچے کیونکہ "راستے" میں اُس کو
اپنا یہ قافلہ بڑا ہوتا جانے کا یقین ہے۔ نیز بڑےبڑے نیکوکاروں اور ‘ماضی کے جابروں کے رُو برو’ کلمۂ حق بولنے کی
تڑپ رکھنے والے ‘اصول پسندوں’ کا ایک جتھہ میسر آنے کا بھی اس کو خاصا بھروسہ ہے!
عین جس طرح مستشرق کی مہمیز دی ہوئی ایک تحریک ہماری "فقہ" کو ڈھانے کی
راہ سے ہماری "شریعت" تک پہنچنے کی تاک میں ہے؛ کیونکہ اِس
"راستے" سے بھی اُس کو بڑے بڑے نیک اور ‘محقق’ طبقے ساتھ ملنے کی آس
ہے)۔ جبکہ ایک دوسری سطح پر ہمارے ایک زیادہ ‘ایڈوانس’ طبقہ کے ذریعے یہ (جمہوریت،
جو کہ شجرِ ہیومن ازم پر نمودار ہونے والی محض ایک شاخ ہے) پہلے سے ہماری شریعت کو ری شیپ reshape
کرنے میں لگی ہے، یہاں تک کہ اس کی یہ استشراقی
محنت اچھا خاصا رنگ بھی دکھانے لگی ہے، جس کےلیے آپ کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھائی
جانے والی "اسلامیات" پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ
دیکھنا ہو تو وہ "ری سرچ" جو ہائر ایجوکیشن میں آپ کے بیٹے بیٹیاں سوشل
سائنسز کے اندر مغربی سپروائزر کے نیچے کر کے آتے اور پھر آپ کے یہاں اعلیٰ پوسٹوں
پر فائز ہوتے ہیں۔
چنانچہ… ماضی کی اُس "ملوکیت" کا نظریاتی خطرہ
حال کے اِس بھاری بھر کم گلوبل ثقافتی ایجنڈا کے آگے کیا ہے جو اصل میں تو ایک
ہیومن ازم (انسانی خدائی) کی تحریک ہے تا ہم اس کا پھیری والا hawker آپ کےلیے سب سے زیادہ "جمہوریت" ہی کی آوازیں
لگاتا ہے؟ گویا وہ ایک دیوہیکل ہیومن ازم (نظریۂ انسان پرستی)
"جمہوریت" میں کیموفلاج camouflage ہو کر آپ کے یہاں آگے بڑھ
رہا ہے جبکہ سو سال میں وہ ایسی عظیم الشان پیش قدمی آپ کی سرزمین پر کر چکا… کہ
اپنی تاریخ کی ایک نظریاتی جنگ میں جس کی
اس سے پیشتر کوئی مثال نہیں ملتی unprecedented، آپ پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار سے جا لگے، لیکن تا حال اسی ‘عطار کے
لونڈے سے دوا لینے’ پر بضد۔ وہ "ملوکیت" اپنی تمام تر خرابی اور تباہ
ناکی کے علی الرغم رومیوں اور ساسانیوں کے ہاں چلا آتا ایک دستور ہو گا، جبکہ
"ملوکیت" کی حد تک تو وہ شے بنی اسرائیل کے ہاں بھی چلی ہی آئی ہے، جو
کہ اپنے وقت کی آسمانی امت تھے۔ مسلمانوں کےلیے "ملوکیت" ایک شکست خوردہ
روم یا ایک مفتوح فارس کا کوئی مرعوب کر دینے والا نظریاتی سیلنگ پوائنٹ selling
point نہیں تھا جو آپ کے ذہین و مخلص دماغوں کو متاثر
کیے اور آپ کے عقائد میں نقب لگائے چلا جا رہا ہو۔ اِدھر "جمہوریت"
التبہ فاتح مغرب کا باقاعدہ دین اور نعرہ اور اس کی جنگوں تک کا ایک کھلا عنوان
ہوتا ہے، جیسا کہ دو عشرے پیشتر امریکہ کی افغانستان اور عراق پر چڑھائی کے وقت
جمہوریت کی باقاعدہ جے بولی گئی اور اس کے فوجیوں کی قربانی اس ‘مقدس فریضہ کی راہ
میں’ مانگی گئی تھی۔ گویا تھرڈ ورلڈ کی محرومِ جمہوریت اقوام کو اس نعمت سے بہرہ
ور کروانا امریکیوں کا فرض ہے، خواہ اس میں ان کی جانیں کیوں نہ چلی جائیں۔ ایک
چیز کی حیثیت ایک قوم کےلیے دین کی نہ ہو تو بھلا کب اس کی نوبت آتی ہے؟ (یہاں بحث
یہ نہیں کہ عراق پر چڑھائی کے وقت جارج بش اپنا یہ نعرہ لگانے میں کس قدر جھوٹا
تھا۔ کُل مطلوب یہاں یہ ذکر کرنا: کہ "طریقتکم المثلیٰ" کے
مصداق وقت کے ایک فرعون کا نعرہ آج یہ ہوتا ہے)۔ یعنی جس طرح سلیمان علیہ السلام
"اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پوجا" کی جانے کو ملکِ سبأ پر اپنی لشکر کشی
کی بنیاد بناتے ہیں، عین اسی طرح جارج بش
"جمہوریت نہ ہونے" کو ایک ملک پر اپنی لشکر کشی کی بنیاد بنانے کےلیے
کافی جانتا ہے۔ بےشک مغرب اپنے اِس معبود کے ساتھ آخر میں وہی کرے جو جاہلی عرب
بھوک کے وقت اپنے کھجوروں سے بنائے گئے بُت کے ساتھ کر جایا کرتا تھا، یعنی جہاں
مغرب کی سیاست اور توسیع پسندی کی ضروت ہوئی، اور جو کہ عالم اسلام میں اس کو جا
بجا لاحق ہے، وہاں خود ہی اپنے ایک معبود کا گھونٹ بھر لیا، لیکن ہے یہ اُس کا ایک
معبود۔ سچ یا جھوٹ، جے اِس کی وہ جپتا ہے۔
غرض بھولنا نہ چاہیے، جمہوریت نرا ایک "عمل" ہونے
کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص "افکاری" خاندان کا ایک اہم فرد بھی تھا۔ اُس
خاندان کا نام ہے ہیومن ازم۔ یعنی انسانی خدائی۔ جمہوریت اس "نظریہ کی ایک
سادہ سیاسی تعبیر" ہے، علاوہ ایک ایسا "سیاسی عمل" ہونے کے جو کسی
وجہ سے آج ہماری ضرورت ہے۔ چنانچہ جہاں "عمل" کے طور پر، اور وہ بھی ایک
کمتر برائی کی حیثیت میں، ہمارے اس کو لینے میں حرج نہ تھا… وہاں
"نظریہ" کے طور پر، ہمیں اس کے ساتھ جنگ بھی لڑنی تھی۔ جبکہ واقعہ کیا
ہے؟ "عمل" کی سطح پر یہ ہمیں جتنی مل سکی باوجود ہمارے اس کو آوازیں دے
دے تھک رہنے کے، وہ تو ہمارے سامنے ہے… البتہ "نظریے" کی سطح پر یہ ہمیں
ہمارے مانگنے سے زیادہ مل گئی ہے! تاحال… ہماری دنیا کا اس نے کچھ سنوارا ہو یا
نہیں، ہمارے دین کا خاصا اجاڑا کر دیا۔ اور یہ سب دیکھ لینے کے بعد بھی، ابھی ہم
اس معادلہ equation کو درست کرنے پر آمادہ نہیں۔
یہاں؛ کچھ احباب نکتہ اٹھائیں گے: جمہوریت کا وہ
"نظریے" والا ڈَنگ ہمارے اجتہاد میں اس سے نکالا تو جا چکا ہے! یعنی
"مغربی" کی جگہ "اسلامی" جمہوریت اس مسئلہ کا ہی تو حل ہے، جس
میں اس کے وہ سب غیرمرغوب اجزاء اس سے بےدخل کیے جا چکے ہیں… آپ پھر اسی
"نظریے" والی بات کو لے کر بیٹھ گئے!
اس کے جواب میں، مختصراً دو باتیں عرض کروں گا:
پہلی بات: جس جمہوریت سے آپ نے "مغربی" کا لفظ
پھاڑ پھینکا اور اس کی جگہ "اسلامی" لکھ کر اسے اپنی کر لیا، اس کے
سائیں دنیا میں ابھی زندہ تھے، اور ایسے کہ اپنے تئیں ہفت اقلیم کے مالک۔ آپ کے
اپنی حد تک ایسا کرنے سے اُنہیں فرق کیا پڑتا؛ سب دریا یہاں اُن کے رخ پر،
یونیورسٹیاں اُن کی، ذرائعِ ابلاغ اُن کے، ریسرچ اُن کی، ادبیات کی باگ ڈور اُن کے
ہاتھ میں، رجحان سازی trends making کے سب اوزار اُن کی تحویل میں، اصطلاحات کی
ٹکسال اُن کے پاس۔ ایسے میں؛ آپ کی کسی کتاب کے ‘فلاں فلاں صفحہ’ پر درج ایک بات
اس حد تک تو بےشک "مؤثر" ہو سکتی ہے کہ ایک قاری خود آپ کی بابت غلط
رائے قائم نہ کر جائے ، یعنی آپ کو رائج جمہوریت کے متبعین میں شمار نہ کر لے (وہ
بھی ایک منصف مزاج قاری، جو اتنی آسانی سے دستیاب نہیں!) اور آپ کو پورا عذر دے۔ لیکن اس سے ایک رائج اصطلاح برسر زمین آپ کی ہو
جائے گی اور اس کا ‘پچھلا مالک’ اس سے فارغ سمجھا جائے گا، یا دونوں کا حق اس پر
اب برابر کا ہو جائے گا، یہ تو آپ کے دورِ غلبہ میں شاید اتنا آسان نہ ہوتا!
اصطلاحات کے متعلق وہ جو ہمارے اصولیوں کے ہاں ایک قاعدہ
چلا آتا ہے "لا مشاحّةَ فی الاصطلاح"، اس کا تعلق خالص علمی اخذ و ردّ سے ہے [کہ
چونکہ یہ ممکن اور جائز ہے کہ ایک ہی معنیٰ کو لوگوں نے اپنااپنا لفظ دے لیا ہو یا
ایک ہی لفظ کو اپنااپنا معنیٰ… لہٰذا عندالنزاع قائل کے ایک لفظ کو آپ اسی معنیٰ
میں لیں جس کےلیے وہ لفظ خود اُس کے ہاں وضع ہے، نہ کہ اس معنیٰ میں جس کےلیے وہ
لفظ آپ کے ہاں وضع ہے]۔ سب کے اس قاعدہ پر متفق ہونے کے باوجود، آپ دیکھتے ہیں
اچھےاچھے اہل علم کےلیے اس پر پورا اترنا مشکل ہوا رہتا ہے جو قائل کا بولا ہوا
ایک لفظ اس کے کسی رائجِ عام مفہوم پر لینے کی غلطی کہیں نہ کہیں کر جاتے ہیں۔
یعنی اُس علمی دائرہ میں بھی، اور خود علماء کےلیے بھی، یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔
کجا ایک قوموں، معاشروں اور تہذیبوں کی آویزش کی سطح پر!!! ثقافتی معرکوں میں
تو "اصطلاحات" ایک ایسی پھسلن
ثابت ہوئی ہیں جہاں بڑی بڑی قومیں اپنی راہ کھو، کسی اور کی ڈالی لگ سکتی ہیں۔
دماغوں کی یرغمالی کی یہ ایک مؤثر سکیم اور فکری ساہوکاری کا ایک مجرب طریقہ رہا
ہے؛ یعنی کمزور کا تہذیبی استحصال۔ ذہنی ماتحتی subordination، تبعیت following اور انحصاری dependency کا یہ ایک خاصا نمایاں مظہر رہا ہے۔ یہ خطرہ آپ کے لینے کا کب
تھا!
دوسری بات: "جمہوریت" فی زمانہ ایک عمل ہونے سے
پہلے اگر ایک نظریہ ہے جو اپنا ایک پس منظر رکھتا ہے…جبکہ اس پر تو شاید ہم متفق
ہیں کہ اپنے اس نظریہ اور پس منظر کے حوالہ سے جمہوریت دورِ حاضر کا ایک باقاعدہ
شرک ہے… اور جبکہ یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے اسلام کا اصل اِحیاء، آپ کے لوگوں میں
کچھ نہایت زورآور لہجوں کا آنا، ان کا "کسی طوفاں سے آشنا" ہونا اور
"ان کے بحر کی موجوں میں ایک اضطراب" برپا کرایا جانا وقت کے شرک کے
ساتھ آپ کے الجھنے میں مضمر ہے نہ کہ محض "نیک اعمال" اور "بھلے اخلاق"
کی تاکیدیں کر لینے میں… اور جبکہ یہ بھی معلوم ہے کہ جتنا ضروری یہاں آپ کی
ضرباتِ حق میں ایک زور پیدا کرانا ہے اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ شرک کو زیادہ سے
زیادہ ان ضربات کی "زد" میں لے کر آیا جائے، بصورتِ دیگر آپ کی اِحقاقِ
حق اور اِبطالِ باطل کی سعی بیشتر اکادیمی academic نوعیت کی رہتی ہے جبکہ
برسرِ زمین ایک خاصی غیر متعلقہ چیز…… تو یہاں ضروری تھا کہ آپ ایک شرک کو اس کا
نام لے کر ہی بلائیں، کجا یہ کہ اُسے خود کو کیموفلاج کرنے میں آپ ہی کا تعاون
میسر آ جائے! اس انتظام سے؛ اب یہ ایک طبعی بات ہوتی کہ بجلی مہنگائی وغیرہ ایسے
امور سے کچھ توجہ پس انداز کر کے اگر کبھی ہم نے "شرک" اور
"باطل" پر کوئی ضرب لگائی بھی تو وہ اس کے دائیں بائیں نکل گئی۔ اور اس
کی وجہ اُس کا کیموفلاج۔ ہم تو ماریں گے لیکن اُسے چوٹ کوئی نہیں آئے گی! ہم بھی
مطمئن، وہ بھی بےفکر! یہ ایک نہایت اعلیٰ بند و بست ثابت ہوا وقت کے ایک باطل کے
ہمارے یہاں پنپنے اور ہماری اس پر پڑھی ہوئی آیتیں اور وعیدیں بےاثر جانے کے حق
میں۔ [چلیں اگر یہی کر لیا ہوتا کہ "دعوت" اور "سیاست" کے
اپنے یہاں جدا جدا پلیٹ فارم ہوتے: جہاں "دعوت" اپنی کسی ‘سیاسی’ مجبوری
کی اسیر ہوئے بغیر باطل کا کما حقہٗ ابطال کرتی، جبکہ "سیاست" ہماری اس
برہنہ ‘دعوتی’ یلغار کی قیمت ادا کیے بغیر، بلکہ کچھ اور بھی آزادی کے ساتھ، یہاں
اپنا راستہ بناتی رہتی… تو بھی ایک بات تھی ۔ (وقتِ حاضر میں آگے بڑھنے کےلیے یہ
ایک نہایت کارگر سکیم ہو سکتی ہے، اس کی تھوڑی وضاحت ہمارے ایک طویل مضمون "اہلِ دین کی صف بندی-
چند اوجھل پہلو" کی فصل "اسلامی تحریکی عمل میں
چند جذری ترمیمات- سفارشات" کےدوسرے نکتہ "دعوت اور سیاسی
سرگرمی کو الگ الگ کر دیں" کے تحت دی گئی ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اس
کےلیے وہیں سے رجوع فرما سکتے ہیں)]۔ غرض جمہوریت کے معاملہ میں ہماری اس
"گُڈ اور بیڈ" کی تقسیم اُس کے حق میں نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی، جبکہ
ہمارا کیس وقت کے ایک شرک کے ساتھ الجھنے کے حوالہ سے داخل دفتر! اپنا ‘توانائی
بحران’ ایک بڑی حد تک آج اسی کا رہینِ منت ہے۔
*****
تمہید سے گزر کر، اب ہم مراسلہ کے اس جزء پر
آ جاتے ہیں جہاں سوالات دیے گئے ہیں:
پچھلی
قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
اگلی قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں