جاہلیت کے سب دستور آج میرے پیر کے نیچے!
تحریر:
حامد کمال الدین
خطبۂ حجة الوداع، جس کی بازگشت عرفات کے
ہر بار سجنے کے ساتھ جہان میں لوٹ آتی ہے، اور جو اس "امتِ آسمانی" کو
یاد دلاتا ہے کہ اس کا دستور ‘زمین’ پر نہیں بنتا، اور یہ کہ جاہلیت کے ساتھ اس کی
جنگ ہے
اور
آج یہ ہستی میدانِ عرفات میں کھڑی ہے۔ حدِ نگاہ تک اِس کا تربیت یافتہ "جزیرۃ
العرب" اِس کا ایک ایک لفظ سننے کیلئے مجسم شوق ہوا بیٹھا ہے۔ تاریخ یہاں تھم
گئی ہے۔ ابھی چند ہی سال پہلے اِسی مکہ سے جان بچا کر حبشہ میں پناہ گزیں اِس کے
پیروکاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنی قوم کی حالت یوں بیان کر کے ہٹی ہے:
أيها
الملك! كنا قومًا أهلَ جاهليةٍ[i]
”اے
بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہلیت میں گرفتار قوم تھے۔۔
اور
آج یہیں سے "ورلڈ ڈیکلیریشن" جاری ہوتا ہے:
ألا وإن كل شيء من أمر الجاهلية
موضوع تحت قدمي هاتين[ii]
سن
لو! جاہلیت کا پورا دستور میرے اِن دو پیروں کے نیچے ہے!
٭٭٭٭٭
حکومتیں
تو بہت لوگ کر گئے، محمدﷺ کے سوا مگر کون ہے جس کی راہ میں تاریخ یوں بچھ گئی ہو؟
محمدﷺ کے علاوہ کون ہے جس نے سرکش زمانے کو یوں سدھا لیا ہو؟ کون ہے جس نے صالح
مقاصد کیلئے کرہ ٔ ارض کے اندر اِس کامیابی کے ساتھ تصرف کیا ہو؟ کون ہے جس نے اِس
قدر ہمہ جہت انقلاب اِس دھرتی پر اِس سے پہلے یا اِس کے بعد برپا کیا ہو اور خیر
کا ایک ایسا ریلا یہاں بہا دینے میں کامیاب ہوا جو پوری زمین کو اپنے زیرِ آب لے
آنے کی صلاحیت رکھے؟
_________
ناموسِ رسالت پر لکھی گئی کتاب "یہ گرد
نہیں بیٹھے گی" فصل "معجزے
ہی تو کیے ہیں" سے اقتباس
نوٹ: خطبۂ حجة الوداع پر ایک دوسری تحریر جو "حج و قربانی" سے
متعلقہ ضمیمہ کا حصہ ہے: "خطبۂ
حجة الوداع اور دستورِ جاہلیت کی منسوخی" اور جو کہ ابن تیمیہؒ کی
"اقتضاء الصراط المستقیم" سے ماخوذ ہے۔
[i]
مسند اَحمد، 1649، مسند اَہل البیت، حدیث جعفر بن اَبی طالب رضی
اللہ عنہ
[ii]
سنن ابن ماجۃ 3065، کتاب: المناسک، باب:
حجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، تقریبا یہی
لفظ دارمی میں آتے ہیں (رقم: 1778، کتاب: المناسک، باب: فی سنۃ الحج)