صخرہ
کو مسجداقصىٰ سے باہر ٹھہرانے پر ابن تیمیہ سے حوالہ دینا!
حامد کمال
الدین
سب سے پہلے ذکر کردوں: آصف محمود صاحب کے مضمون
کی دوسری
قسط بلاشبہ میرے، بلکہ مسئلۂ فلسطین سے سروکار اور عدل و انصاف پر یقین رکھنے
والے کسی بھی مسلمان کے، دل کی آواز ہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ اس دوسری قسط
میں مسئلہ کی "انسانی جہت" انہوں نے نہایت خوب واضح کی ہے۔ اور واقعی لگتا
ہے، یہ ان کا میدان ہے۔ تاہم پہلی
قسط میں مسئلہ کی "دینی جہت" کو بیان کرنے میں وہ کچھ تجاوز کر گئے،
اللہ ان سے تجاوز فرمائے۔
مسئلہ کی دینی جہت پر مضمون نگار کی تقریر میرے لیے ان کے
مندرجہ ذیل الفاظ سے نمایاں ہے۔ (فیس بک وغیرہ پر چونکہ الفاظ کو بولڈ یا انڈرلائن
کرنے کا آپشن نہیں، لہٰذا عبارت میں کسی خصوصی قابل توجہ لفظ کو میں اس نشان >>-<<
کے بیچ دوں گا)۔ لکھتے ہیں:
یہ مسجد عمر کہلاتی ہے۔ آج ہم >>اسی مسجد عمر کو مسجد اقصیٰ کہتے ہیں<<۔یہ مسجد >>ہیکل کی چار دیواری<< کے اندر ہے لیکن اس کی اصل عمارت سے ہٹ کر ہے۔
اس سے اگلے پیرے میں لکھتے ہیں:
لیکن سیدنا عمر ؓ نے وہاں نماز ادا نہیں کی بلکہ
باہر آ کر ادا کی اورگویا یہ اصول طے فرما دیا کہ بیت المقدس میں موجود عیسائی
عبادت گاہیں عیسائیوں کی ہیں، >>احاطہ ہیکل یہود کا<< اور >>مسجد عمر مسلمانوں کی<<۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رواداری کی ایک ایسی مثال قائم کر دی
جو بقائے باہمی کا ایک سنہرا باب ہے۔
گویا فصیلِ اقصیٰ میں آنے والے پورے "احاطہ" سے
مسلمان بےدخل؛ وہ تو ہوا یہود کا! عام آدمی کو ذرا معلوم رہے:یہ پورا احاطۂ اقصیٰ
(مضمون نگار کے الفاظ میں "احاطۂ ہیکل") ایک لاکھ چوالیس ہزار مربع
میٹر پر مشتمل ہے (بہت بڑا قطعۂ زمین)۔ اس میں سے آصف محمود صاحب مسلمانوں کو صرف
"مصلیٰ عمری" دے رہے ہیں جو صرف چار ہزار پانچ سو مربع میٹر بنتا ہے۔ یوں
فاضل مضمون نگار کُل >ایک
لاکھ چوالیس ہزار مربع میٹر< میں سے صرف >ساڑھے چار ہزار مربع میٹر< مسلمانوں کو دینے کے روادار ہوئے؛
اور باقی ایک لاکھ ساڑھے انتالیس ہزار مربع میٹر انہوں نے یہود کے پاس رکھا۔ سمجھیے
سارا ہی: >احاطہ کا صرف
تین فیصد مسلمانوں کا اور بقیہ ستانوے فیصد یہود کا!!!< یقین سے کہا جا سکتا ہے، اس فیاضی پر
یہود مضمون نگار کے ہاتھ چومنے آ سکتے ہیں!
اپنی اس تقریر کو حوالوں سے ثابت کرنے کےلیے مضمون نگار نے
جہاں دیگر اہل علم سے استشہادات فرمائے، اور جو کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان
میں سے کوئی ایک بھی حوالہ مضمون نگار کی یہ تقریر کم از کم ثابت نہیں کرے گا جو انہوں نے ابتداء کے اندر
باندھی، کیونکہ یہ ہے ہی ایک مسلمان کے ہکابکا ہو کر سننے کی، وہاں وہ ابن تیمیہؒ
کی "اقتضاءُ الصراط المستقیم مخالفةَ
أصحابِ الجحیم" سے بھی قاری کو
رجوع کروا رہے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ابن
تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر جب بیت المقدس آتے تو صرف مسجد عمر (موجودہ
مسجد اقصی) میں نماز ادا کرتے اور قبۃ الصخرہ یا دوسرے مقامات کے نزدیک نہ جاتے۔ ‘اقتضاء
الصراط المستقیم’ میں ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ صخرہ یہود کا قبلہ ہے اس کی تعظیم
یہود کی مشابہت میں آتی ہے۔
مضمون نگار کی اپنی تقریر پر یقین کر آنے والا ایک آدمی جب
"اقتضاء الصراط المستقیم" سے منسوب اس عبارت پر پہنچے گا تو وہ
"صخرہ" سے تقریباً براءت ہی کر جائے گا! اور سمجھے گا کہ یہ تو واقعتاً یہود
کو دینے اور انہی کے سنبھالنے کی چیز ہے؛ اس سے بھلا مسلمان کا کیا لینا دینا! تو
کیا واقعتاً ابن تیمیہؒ یہاں "صخرہ" کو "مسلمانوں کی مسجد
اقصی" سے باہر قرار دے رہے ہیں… یا ابن تیمیہؒ کی کُل بحث کسی اور چیز سے ہے؟
"اقتضاء
الصراط المستقیم" کی نسبت سے مسئلہ کی وضاحت کرنے سے پہلے، یہ تقریر کر
دوں کہ پچھلی چودہ صدیوں سے "فصیلِ اقصىٰ" میں آنے والا پورا احاطہ اہل
اسلام کے نزدیک وہ "مسجد اقصى" ہے (1) جس کی طرف رسول اللہﷺ کا وہ اِسراء
مبارک ہوا جس کی ہم قرآن میں تلاوت کرتے ہیں (2) جو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے
بعد زمین پر >>مسلمانوں کا<<
تیسرا مقدس ترین مقام ہے (3) جس میں >>ایک مسلمان کا نماز پڑھنا<< زمین کی عام مساجد میں نماز کی نسبت
اور جس میں >>مسلمان کا
اعتکاف کرنا<< زمین کی عام مساجد میں اعتکاف کی نسبت سینکڑوں گنا فضیلت
اور ثواب کا حامل ہے۔ مسلمان آج تک ایسا ہی سمجھتے اور مانتے آئے ہیں اور ان میں
اس پر کوئی اختلاف نہیں۔ کسی کو اگر یہ دعوىٰ ہے کہ نبیﷺ کا ذکر کردہ "مسجد
اقصیٰ میں نماز پڑھنے یا اعتکاف کرنے" کا یہ خصوصی ثواب اور فضیلت صرف
"مصلیٰ عمری" میں نماز پڑھنے یا اعتکاف کرنے والے کےلیے خاص ہے، جبکہ
"مصلیٰ عمری" سے باہر "احاطۂ اقصیٰ" میں نماز پڑھنے یا
اعتکاف کرنے والا نبیﷺ کے ذکر کردہ اس خصوصی ثواب اور فضیلت سے محروم ہے، تو براہِ
کرم وہ اہلِ علم و فقہ کے حوالے سے اپنا یہ دعویٰ ثابت کرے۔
"مسجداقصیٰ" کی حدود کے تعین پر، القدس کی تاریخ
پر نامور کتاب الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل کے مؤلف مجیر
الدین حنبلیؒ (متوفیٰ 928 ھجری) فرماتے ہیں:
قد تقدم عِنْد ابْتِدَاء ذكر
صفة الْمَسْجِد الْأَقْصَى أَن الْمُتَعَارف عِنْد النَّاس أَن الْأَقْصَى من
جِهَة الْقبْلَة الْجَامِع الْمَبْنِيّ فِي صدر الْمَسْجِد الَّذِي بِهِ
الْمِنْبَر والمحراب الْكَبِير وَحَقِيقَة الْحَال ان الْأَقْصَى اسْم لجَمِيع
الْمَسْجِد مِمَّا دَار عَلَيْهِ السُّور وَذكر قِيَاسه هُنَا طولا وعرضا فان
هَذَا الْبناء الْمَوْجُود فِي صدر الْمَسْجِد وَغَيره من قبَّة الصَّخْرَة
والأروقة وَغَيرهَا محدثة وَالْمرَاد بِالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى هُوَ جمع مَا دَار
عَلَيْهِ السُّور - كَمَا تقدم -
"پیچھے مسجد اقصیٰ کی پوزیشن کے بیان میں ذکر ہو چکا
کہ لوگوں کے ہاں یہ بات چلتی ہے کہ اقصیٰ قبلے کی طرف والی وہ جمعہ پڑھنے والی
تعمیر شدہ جگہ ہے جو مسجد کے پیشینی حصہ میں ہے کہ جہاں منبر اور وہ بڑے والا محراب
ہے۔ جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اقصیٰ اس پوری مسجد کا نام ہے جس کے گرداگرد فصیل
ہے۔ یہاں اب اس کے طول و عرض کی پیمائش ذکر کی جائے گی۔ چنانچہ مسجد کے پیشینی حصے
کے اندر موجود یہ عمارت بھی اور اس کے ما سوا بھی یعنی گنبدِ صخرہ اور بارہ دریاں،
سب بعد میں ہی بنی ہیں۔ جبکہ مسجد اقصیٰ سے مراد وہ پورا مجموعہ جس کے گرداگرد
فصیل ہے، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا"۔
مجیر الدین
حنبلیؒ کی کتاب کے متعلقہ
صفحہ کا الیکٹرانک لنک نیچے کامنٹ میں[i]
صاف ظاہر ہے، تقی الدین ابن تیمیہ حنبلیؒ اپنی "اقتضاء" میں مجیر الدین حنبلیؒ
کی تقریر سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کر رہے، اور نہ مجیرالدین حنبلیؒ اپنی "الأنس" میں تقی الدین حنبلیؒ
کی اس بات کا رد کر رہے ہیں؛ کیونکہ وہ بات خاص حنبلی علماء کے مابین تو کیا، تمام
ہی اہل علم کے مابین متنازعہ نہیں۔ تو پھر ابن تیمیہؒ اپنی اقتضاء میں
"صخرہ" سے کس خصوصی حیثیت کا انکار کر رہے ہیں؟ یہاں اب اس کی کچھ وضاحت
کی جاتی ہے:
ابن تیمیہؒ کی اس معرکةالآراء کتاب کی ساری اٹھان اس ایک
مرکزی موضوع پر ہے کہ [[صراط]] کے معاملہ میں "الذین أنعمتَ علیھم" کا
"المغضوب علیھم" اور "الضالین" سے بالکل جدا اور الگ تھلگ نظر
آنا دینِ اسلام کی بڑی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اس سلسلہ میں خاص ہمارے اِس موضوع
سے متعلقہ بات ابن تیمیہؒ کی یہ تقریر ہے کہ: وہ امور بھی جن میں شریعت نے سابقہ
انبیاء اور شرائع کے لحاظ میں، نہ کہ حالیہ اہل کتاب کے لحاظ میں، ہمارا اور
شریعتِ توراة و انجیل کا کوئی اشتراک رہنے دیا ہے، وہاں بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور
رکھا ہے چاہے بر سبیل وجوب تو چاہے بر سبیلِ استحباب۔ اختصار کےلیے یہاں اس کی صرف
دو مثالیں: (1) حائضہ سے جنسی تعلق کو حرام ٹھہرانے میں ہمارا انکا ایک اشتراک
رکھا تو حائضہ کے ساتھ کھانےپینے اور گھلنےملنے کو ہمارے لیے جائز اور پسندیدہ
ٹھہرا کر ہمارا انکا ایک فرق بھی شریعت نے ضرور کروایا۔ (2) عاشوراء کا روزہ مشروع
ٹھہرانے میں ہمارا انکا ایک اشتراک کروایا تو عاشوراء کے ساتھ تاسوعاء کا روزہ
مستحب ٹھہرا کر ہمارا انکا ایک فرق کروا دینا بھی شریعت نے برابر اپنے پیش نظر
رکھا۔ غرض جہاں کسی وجہ سے اشتراک رکھا وہاں بھی کسی نہ کسی پہلو سے اختلاف
کروایا، تا کہ شریعت کا وہ [[مخالفت]] والا مقصد اور ترجیح شریعت کے پیروکاروں کے
نصبِ عین رہے؛ کجا یہ کہ جہاں شریعت نے سرے سے ہمارا انکا کوئی اشتراک نہیں رکھا
وہاں ان کے ساتھ کسی اشتراک اور مشابہت کا سوچا جائے۔ اس منطلَق premise سے؛ ابن تیمیہؒ بنیاد اٹھاتے ہیں کہ کسی زمان یا
مکان کا تقدس ہمارے حق میں صرف اتنا ہی ہو گا جتنا ہماری شریعت اُس کو تقدس دے۔
اہل کتاب کے ہاں کسی خاص دن یا جگہ کا مقدس ہونا، تا وقتیکہ ہماری شریعت بھی اس کا
عین وہ تقدس قائم نہ کرے، اسے وہ خاص قدسیت دینے کا موجب ہمارے حق میں ہرگز نہ ہو
گا۔ بلکہ ایسے کسی >>خصوصی<<
تقدس کو اپنے حق میں نہ ماننا، اور اس میں اہل کتاب کی مخالفت کرنا (ان سے الگ راہ
چلنا) ہی، ہمارے حق میں شریعت کی اس اصولی ترجیح کا ایک اقتضاء ہو گا۔ اس کے بعد
وہ آتے ہیں "صخرہ" کے
مسئلہ پر۔ (متعلقہ فصل کا
لنک نیچے کامنٹ میں) [ii]۔ اور تقریر فرماتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا تقدس تو بلاشبہ
ہماری شریعت نے قائم فرمایا ہے۔ لہٰذا "صخرہ" کو مسجد اقصیٰ کا ایک حصہ
ہونے کے ناطے، نہ کہ کسی اور وجہ سے، بس اتنی ہی فضیلت ہے جتنی مسجد اقصیٰ کے کسی
بھی گوشے کو۔ مسجد اقصیٰ کے بقیہ حصوں کے اوپر اس کی کوئی (خصوصی) فضیلت یا تقدس
البتہ ماننا، جبکہ ہماری شریعت نے مسجد کے ایک خصوصی یا زیادہ تقدس والے حصے کے
طور پر صخرة کی کوئی حیثیت نہیں رکھی، ہمارے حق میں درست نہ ہو گا۔ (اس بات کی
مثال کہ مسجد کے کسی خاص گوشہ کو مسجد کے بقیہ گوشوں کی نسبت کوئی زیادہ فضیلت یا
تقدس حاصل ہو: جیسے مسجد حرام کے غلاف میں ملبوس حصے "کعبہ" کا مسجد
حرام کے بقیہ حصوں کی نسبت زیادہ بافضیلت یا مقدس ہونا، یا مثلاً مقام ابراہیم کو
حرم شریف کے بقیہ گوشوں کی نسبت ایک خاص شرف دے دیا جانا، از روئے شریعت)۔ چنانچہ
ابن تیمیہؒ "صخرہ" سے انکار اُس کی اِس خصوصی حیثیت کا کر رہے ہیں نہ کہ
اُس کو مسجد اقصیٰ سے باہر ٹھہرانے پر ابن تیمیہ یہ بیان دے رہے ہیں! ایسا کوئی
استدلال "اقتضاء الصراط
المستقیم" سے کرنا بالکل ہی مضحکہ خیز ہو گا۔ ابن تیمیہؒ کے نزدیک
"یہود کا قبلہ" ہونا صخرہ کو یہ خصوصی حیثیت (مسجد کے بقیہ حصوں پر
فضیلت) دلوانے کے >>منافی<<
تو ہو سکتا ہے البتہ اس کا >>موجب<< ہرگز نہیں؛ موجب صرف ہماری شریعت سے
آئے گا، جو کہ نہیں آیا۔
رہ گئی بات کہ مسجد کے کسی ایک گوشے کو اس کے بقیہ گوشوں پر
ترجیح دینے کی اگر کچھ بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ کیا ہے؟ اس کا جواب: مسجد کا وہ حصہ
جدھر اگلی صفیں ہوتی ہیں۔ یعنی مسجد کا پیشینی حصہ۔ مسجد کی قبلہ والی طرف۔
یہی دو باتیں ایک اتنے بڑے احاطہ کے اندر اس میں
"تعمیر" construction کےلیے مختص حصے کا
چناؤ کرتے وقت حضرت عمرؓ ایسی مُلہَم (الہام
پاتی رہنے والی) ہستی کے پیش نظر رہیں: ایک یہ کہ مسلمان جماعت کروائیں تو صخرہ ان
کے آگے نہ ہو، تا کہ "قبلہ" والا شبہ ذہنوں میں آنے سے روک دیا جائے،
لہٰذا صخرہ پشت پر کر دی۔ (کعب الأحبارؒ کو اس موقع پر حضرت عمرؓ کا "یہودن
کے بچے!" کہہ کر دھپ مارنا یہی توجیہ رکھتا ہے)۔ اقتضاء الصراط المستقیم کی
ترکیز اِسی پہلے نقطہ پر ہے۔ دوسرا، مسجد کا وہ حصہ جو قبلہ کی طرف سب سے آگے ہے،
تعمیر وہاں سے شروع کروا دی۔ فرمایا: فإنَّ لَنا صُدورَ المساجد "کیونکہ ہمارے لیے مسجدوں کے پیشینی اطراف ہی ہوتے
ہیں"۔ مسجد کے زیادہ سے زیادہ استعمال maximum use کی مستقل گنجائش رکھنے کی صورت بھی ویسے یہی ہے،
کیونکہ جتنی صفیں بننی ہیں وہ امام کے پیچھے ہی بننی ہیں لہٰذا مسجد کے پیشینی حصے
کے عین شروع میں اگر امام کھڑا ہو تو ہی مسجد کا پورا احاطہ صفیں بنانے کے کام آ
سکتا ہے؛ ورنہ مسجد کا ایک حصہ لازماً ضائع ہو گا۔ آج جب رمضان وغیرہ کے جمعوں میں
پورا فلسطین مسجد اقصیٰ میں امنڈ آتا ہے، جس کے عظیم الشان تصویری مناظر آپ کی نظر
سے گزرے ہی ہوں گے، اور جس دن ان شاء اللہ دنیا بھر سے اِس ڈیڑھ ارب امت کا مسجد
اقصیٰ کےلیے شدّالرحال (کجاوے کسنا) بحال ہوا اس دن تو حال ہی اور ہو گا!… … تو
مسجد کے صحن کے کھچاکھچ نمازیوں سے بھرنے کے وقت حضرت عمرؓ کی وہ حکمت عملی آپ کو
سمجھ آتی ہے کہ امام اور اگلی صفوں کے کھڑے ہونے کی جگہ مسجد کے قبلہ والی طرف سے
عین متصل شروع ہو، یوں مسجد کا ایک چپہ بھی نمازیوں کے حق میں ضائع نہ ہو۔ اب
چونکہ حضرت عمرؓ نے مسجد کا "تعمیر" construction والا حصہ (فلسطینیوں کی زبان میں مسجداقصیٰ کا مسقوف
"چھتا ہوا" حصہ) قبلہ والی سائڈ سے متصل رکھوایا، تو اس سادہ سی بات سے
یہ ایک نئی کہانی بنا لینا کہ جتنی جگہ پر چھت ڈالی بس "مسجد اقصیٰ" وہی
ہے اور صحن وغیرہ کا تو نام ہی نہ لیں، کسی علم اور استدلال پر کھڑی ہوئی بات نہیں
ہے۔
*****
محترم آصف محمود صاحب کی کسی بات کو اگر میں صحیح نہیں سمجھ
سکا، تو ان سے پیشگی معذرت خواہ ہوں، نشان دہی ہونے پر اپنی تصحیح کرنے میں مجھے
کوئی تردد نہ ہو گا۔ آصف محمود صاحب ایسی آوازوں کو پاکستانی صحافت میں میں ایک
بڑی غنیمت جانتا ہوں اور دل سے ان کا قدردان ہوں۔ اللہ ان کے قلم کو نصرتِ حق
کےلیے مسخر رکھے۔