ترک حکمران پارٹی سے وابستہ
"اسلامی" توقعات اور واقعیت پسندی
حامد کمال
الدین
ذیل
میں میری ایک پوسٹ پر آنے والا کامنٹ دیا
جا رہا ہے۔ معلوم رہے، صاحبِ کامنٹ میرے یہاں ایک نہایت قابلِ احترام، صائب فکر
اور بیدار مغز شخصیت ہیں۔ میری گفتگو میں یہاں اگر کوئی نقد ہوا ہے تو وہ ان کی
کسی بات پر نہیں بلکہ ان مخصوص typical
افکار پر ہو گا جو
اس وقت تحریکی/ دعوتی دنیا میں اذہان پر حملہ آور دیکھے جا
رہے ہیں:
[[لیکن سترہ سال کا عرصہ کیا چھوٹا عرصہ
ہے کوئی بڑی تبدیلی لانے کے لیے؟ بالخصوص جب کہ آخری سالوں میں پورا اختیار بڑی حد
تک ایک شخص کے ہاتھوں میں آچکا ہو۔
نجاشی کافر قوم کا اکیلا مسلم بادشاہ تھا۔ اردگان مسلم قوم حکمران اور
اکیلے بھی نہیں۔۔
کیا واقعی کوئی ارادہ بھی موجود ہے کسی بڑی تبدیلی کا؟ یا نظریاتی
سطح پر ہی اصلا بہت کچھ بلکہ سب کچھ کومپرومائز ہوچکا ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ اردگان نے ترکی کو اسلام کی طرف لوٹایا ہے، جبکہ امر
واقع یہ لگتا ہے کہ اردگان نے ترکی کو دین دشمنی سے اصل سیکولرزم کی طرف لوٹایا
ہے، جو شاید کسی حد تک مذہبی بھی ہو حکمراں جماعت کی حد تک]]۔
(مرزا احمد وسیم بیگ)
*****
جواب:
ہمارے
دیکھنے میں ترکی کی حکمران پارٹی کا نہ کوئی ایسا دعوىٰ موجود ہے، نہ کوئی اعلان
شدہ پروگرام اور نہ عندیہ... کہ وہ ترکی میں ’’وہ‘‘ تبدیلی لانے جا رہی ہے جو
بالعموم ہمارے یہاں نفاذِ اسلام، یا خلافت، یا اسلامی نظام یا حکومتِ الہٰیہ وغیرہ
عنوانات تحت ذکر ہوتی ہے۔ اردگان سے ’’اسلامی‘‘ توقعات وابستہ کرنے میں ہم کبھی
ایک خاص حد سے زیادہ نہیں گئے؛ آپ ہماری گزشتہ تمام تحریریں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ حد
کیا ہے؟ مختصراً ’’مسلمان‘‘ کا بھلا، ملک میں بھی اور ملک سے باہر بھی، جس قدر ان
سے ہو سکے۔ اور اس ’’مسلمان کا بھلا‘‘ کرنے سے جتنا سا ’’اسلام‘‘ کا بھی بھلا ہو
جائے۔ بس، اس حد تک۔ اس سے زیادہ کچھ ہو جائے تو میری نظر میں وہ ’’بونس‘‘ ہو سکتا
ہے۔ ان کے اس وقت تک کے پروگرام میں اس سے زیادہ امید لگوانے کے کوئی شواہد میری
نظر میں نہیں۔
بلاشبہ
ایک بوچھاڑ سوالوں کی یہاں مجھ پر ہو سکتی ہے کہ ’’نفاذِ اسلام‘‘ نہیں تو پھر ہم
نے کیوں وقتاً فوقتاً ترکی کی حکمران پارٹی کی تحسین کی؟
اس
کا مختصر جواب:
ہم
آئیڈیلسٹ نہیں؛ لمحۂ حاضر کو اس کے ظرف circumstance سے باہر رکھ کر نہیں دیکھتے اور نفسِ انسانی میں
بیک وقت خیر اور شر، سنت اور بدعت، حسنات اور سیئات کا اجتماع ممکن مانتے ہیں۔
اور
اس کی کچھ وضاحت:
کافروں
کی جنگ عالمِ اسلام کے ساتھ پچھلے کئی عشروں سے بیک وقت ’’اسلام‘‘ کو بھی مٹانے
کےلیے ہو رہی ہے اور ’’مسلمان‘‘ کو بھی مٹانے کےلیے۔ اول الذکر تو واضح ہی ہے۔
ثانی الذکر کے حوالے سے بھی، بےشمار خِطوں کی مثال میں دے سکتا ہوں جہاں
’’مسلمان‘‘ نہ تو ’’اسلام نافذ‘‘ کیے ہوئے بیٹھا ہے اور نہ وہاں ’’اسلام نافذ‘‘
ہونے کی قریب قریب کوئی صورت، اس کے باوجود ان خطوں یا ان مسلم قوموں یا ان مسلم
ملکوں کو غیر مستحکم کرنے، حصے بخرے کر دینے، یا حتیٰ کہ بعض جگہ تو صفحۂ ہستی سے
مٹا ڈالنے کےلیے کافر کی تدبیر اور بےچینی دیدنی ہے۔
[اب
یہاں ایک اور مبحث ہے، جس کی تفصیل اس مختصر گفتگو میں ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ
’’مسلمان‘‘ فی زمانہ جتنا بھی بے عمل یا بدعقیدہ ہو، بس اللہ و رسولؐ سے محبت و
گرویدگی رکھنے والا ہو... اس (مسلمان) کو دیکھنے کا ایک زاویہ بےشک ہم ’’الٹرا
دینداروں‘‘ یا ’’صحیح العقیدگی‘‘ کے غرور میں مبتلا رہنے والوں کا ہے، جوکہ بہت
اوقات اس (بےعمل یا بدعقیدہ مسلمان) سے بیزار ہوئی رہنے والی ایک نظر ہے۔ تاہم ایک
زاویہ اس ’’مسلمان‘‘ کو دیکھنے کا وہ ہے جس سے مثلاً نریندر مودی، بنجمن نتن یاہو،
ولادیمیر پیوٹن وغیرہ دشمنانِ خدا کے جنود، نیز روہنگیا، اراكان اور سنکیانگ وغیرہ
میں اس پر ظلم ڈھانے والے خونیں جتھے اس’’مسلمان‘‘
کو دیکھتے ہیں۔ ’’عمل‘‘ اور ’’عقیدہ‘‘ درست کروانے پر بےشک ہم بھی حسبِ استطاعت
زور دیتے ہیں۔ لیکن زیر نظر مبحث میں
ہمارے پیش نظر ’’مسلمان‘‘ کو دیکھنے کا صرف یہی (ثانی الذکر) زاویہ رہتا ہے؛
اگرچہ ہم ’’مخصوص دینداروں‘‘ کے یہاں وہ عقیدہ یا عمل کے پرچے میں بری طرح فیل کیوں
نہ ہوتا ہو ]۔
الغرض...
کافر کی جنگ اس وقت ’’اسلام‘‘ کو مٹانے کےلیے بھی ہو رہی ہے اور ’’مسلمان‘‘ کو
مٹانے کےلیے بھی۔
یہاں...؛
اگر تو کوئی مقتدر قوت دنیا میں ایسی ہے جو کافر کے ساتھ یہ دونوں جنگیں لڑنے کا
بیڑہ اٹھائے...
یعنی
1.
اسلام
کا بھی احیاء و اقامت کرنے میں جُتی پڑی ہو... اسلام پر حملہ آور شرک کے (نظریاتی
لشکروں) کے ساتھ تاریخ کی یہ منفرد ترین چومکھی لڑنے کےلیے بھی تن من دھن وارے
بیٹھی ہو،
2.
اور
’’مسلمان‘‘ (بلحاظ اس وقت مسلمان کے پاس
کسی خطے میں جیسا کیسا استحکام، یا جتنی کتنی اراضی پر ایک ممکنہ مسلم اکٹھ، قوت،
عسکری صلاحیت، اقتصادی مضبوطی اور وسائل و امکانیات سردست اسے حاصل ہیں)... ’’مسلمان‘‘
كے وجود کی اس جنگ میں بھی وہ (مقتدر مسلم قوت) کافر کو زک پہنچا یا پسپا کر رہی
ہو، حتیٰ کہ کسی ایک محاذ پر ہی (مثلاً صرف عسکری لحاظ سے، یا صرف تقنیاتی لحاظ سے،
یا صرف اقتصادی لحاظ سے) مسلمان کو کافر کے مقابلے پر کھڑا کر رہی ہو؛ اور اس کے
نتیجے میں ’’مسلمان‘‘ دنیا میں کچھ نہ کچھ سر اٹھا رہا؛ اور کافر سے مانگ مانگ کر کھانے
والا اور پوچھ پوچھ کر اپنے فیصلے کرنے والا کم از کم نہ رہتا ہو۔
غرض
اگر تو کوئی مقتدر قوت دنیا میں ایسی ہے جو کافر کے ساتھ یہ دونوں جنگیں لڑنے کا
بیڑہ اٹھائے ہوئے ہو... تو وہ تو آئیڈیل ہوئی۔ جو کہ اس وقت نہیں ہے۔
تاہم
ایسا نہ ہونے کی صورت میں، جو کہ اس وقت کا ایک معلوم واقعہ ہے، یہاں ایک منہج تو
’’وقت کے عمر بن عبد العزیز‘‘ کو آوازیں دینے یا ’’امام مہدی‘‘ کی پیش گوئیاں کرنے
یا ’’موجود‘‘ کو جلی کٹی سُنا کر سینہ ہلکا کر لینے کا ہے۔ البتہ ایک دوسرا منہج،
جس کے ہم داعی ہیں: ’’موجود‘‘ سے کوئی انہونی اور غیر واقعی امید باندھے بغیر، اور
پورا حقیقت پسند رہتے ہوئے، ’’موجود‘‘ سے جو برآمد ہو سکتا ہو وہ برآمد کروانے
کےلیے سرگرم اور پُرامید ہونا (گو اس پر اکتفاء نہ کرنا۔ اور نہ ہی اس کو آئیڈلائز
کرنا)۔ جس کی ایک بہت واضح صورت:
1.
اُن
طبقوں کا علیحدہ تعین کرنا جو اِس وقت آپ کو ’’اسلام‘‘ کی جنگ لڑ کر دیں گے (خواہ
وہ ’’اسلام‘‘ کی شمولی comprehensive جنگ ہو یا اسلام کے کسی ایک جزء کی)۔ اور جوکہ
وقت کی اسلامی تحریکیں اور علمی ہستیاں ہو سکتی ہیں۔
2.
اور
ان طبقوں کا علیحدہ تعین کرنا جو اس وقت آپ کو ’’مسلمان‘‘ کی جنگ لڑ کر دیں گے (خواہ
وہ ’’مسلمان‘‘ کی کثیر شعبہ جنگ ہو یا حتیٰ کہ وہ کسی ایک ہی شعبے کی جنگ کیوں نہ
ہو، مانند: مسلم وجود کی صرف عسکری جنگ، یا صرف اقتصادی، یا صرف تقنیاتی، وغیرہ)۔
اور جو کہ وقت کی بعض مسلم حکومتیں، یا عالم اسلام کی بعض طاقتور فوجیں، یا کچھ
منجھی ہوئی سیاسی پارٹیاں، یا بعض زیرک و باصلاحیت پریشر گروپ، یا بعض منظم تھنک
ٹینک، یا کچھ معتدل و عقلمند جہادی جماعتیں، وغیرہ ہو سکتی ہیں۔
’’جنگ‘‘
کے یہ دو بڑے محور اگر میں واضح کر چکا... تو یہ تو ایک سادہ خیالی ہو گی کہ
اردگان کو میں جنگ کے پہلے محور کا ایک سپہ سالار گِنوں۔ جنگ کے اس پہلے (اقامتِ
حق والے) محور کے المیوں کی داستان تو ویسے بھی طویل ہے۔ یہاں بڑی بڑی ’’دستاریں‘‘
ہیومن ازم کا پانی بھرنے لگیں، تو پھر سرے سے جو لوگ اس میدان کے نہیں ان سے کیا
امید؟ غرض ’’اسلام‘‘ کی جنگ کےلیے تو آپ کو یہاں اور ہی طرح کی کوئی نفری چاہیے۔
ہاں جہاں تک اس جنگ کا دوسرا محور ہے، یعنی ’’مسلمان‘‘ کی جنگ، یا چلیے ’’مسلمان‘‘
کے وجود کے بعض شعبوں ہی کی جنگ، تو میرا خیال ہے اس پہلو سے اردگان اور ان کی
پارٹی عالم اسلام بھر میں فی الوقت جتنی اچھی جا رہی ہے، اس کے مقابلے پر آپ کسی
اور کا شاید ہی نام لے سکیں۔ بس اس پہلو سے ہم ان کی ستائش کرتے ہیں۔ اور ہاں یہ
پہلو بھی ہماری نظر میں کوئی چھوٹا پہلو نہیں۔ اس بھاری پتھر کی طرف بھی عالمِ
اسلام میں آج جس کسی باہمت آدمی یا پارٹی کو ہاتھ بڑھانا ہے اسے کافر قوتوں کے صاف
نشانے پر آنا ہے، جس کی مثالیں پیش ازیں ’’فیصل‘‘ اور ’’ضیاء الحق‘‘ کی صورت میں دیکھی
جا چکیں۔ اللہ مسلمانوں کی اِس ایک حالیہ قیادت کی حفاظت کرے۔
جہاں
تک ترک حکمران پارٹی کی اپنی نظریاتی پوزیشن کا تعلق ہے، اور جو کہ اس کے اعلانیہ
پروگرام سے ہٹ کر ایک چیز ہے، اور جو کہ میرے نزدیک سب سے اہم سوال ہے، تو اس پر
میں اپنے مضمون [ترکی
میں ’مذہب‘ کی واپسی ’مذہبی‘ سلوگن کے بغیر ] میں کچھ بات کر چکا، خصوصاً اس کے آخری حصہ میں۔
اور جو کہ ایک ملی جلی صورتحال ہے ، باقی تفصیل میرے اسی محولہ مضمون سے دیکھ لی
جائے۔
*****
اور
ہاں، کوئی مسلمان آج اگر ’’اسلام‘‘ کی نہ سہی ’’مسلمان‘‘ کی جنگ ہی ہمیں لڑ دیتا
ہے، حتیٰ کہ مسلم وجود کے کسی ایک ہی پہلو (مانند
عسکری، یا اقتصادی، یا تقنیاتی)
کے دفاع و نصرت کےلیے میدان میں جا اترتا اور کسی نہ کسی (موطئاً
يغيظ الكفار) دائرے
میں کافر کے دانت کھٹے کر آتا
ہے، بشرطیکہ ہو وہ صاف صاف اللہ و رسولؐ سے محبت و گرویدگی رکھنے والا... پھر اس
کی یہ جنگ کچھ نہ کچھ کامیابی بھی اگر پا لیتی ہے... تو چونکہ عالم اسلام کے علمی
و نظریاتی محاذ یکسر خاموش یا معطل بہرحال نہیں ہیں، لہٰذا ایک ’’بڑی تصویر‘‘ اس
سے خود بخود، اور بغیر کسی ’’پیشگی پروگرام‘‘ کے، تشکیل پاتی چلی جائے گی۔
’’مسلمان‘‘ کی کسی بھی پیش رفت پر ہمارے خوش ہونے کی یہ ایک اور وجہ ہوئی۔
اس
کی ایک مثال، خاصے فرق کے ساتھ، برصغیر میں ’’مسلم حقوق‘‘ کی جنگ تھی جو رفتہ رفتہ
’’مسلم لیگ‘‘ میں ڈھلی، اور ’’مسلم لیگ‘‘ رفتہ رفتہ ایک ایسے ’’مسلم خطے‘‘ میں
جہاں آپ کو معلوم ہے آج کے ’’تکفیریوں‘‘ تک کے باپ دادا ہجرت کر آئے تھے، اور جہاں
کا باشندہ ہونا یہ آج بھی ’’بھارت‘‘ کی نسبت ایک کہیں بہتر آپشن باور کریں گے،
اللہ اعلم۔ میری نظر میں، وہ نری ایک ’’مسلم وجود‘‘ کی جنگ تھی، یا ’’مسلم وجود‘‘ کے
بھی بعض پہلوؤں کی جنگ کہہ لیجیے، جو رفتہ رفتہ، اور کسی ’’پیشگی پروگرام‘‘ کے
بغیر، آخر سید مودودیؒ کے ’’دارالاسلام‘‘ میں ڈھلی اور جو ھِجوں سے یا رَووں سے
آخر مولویوں کی ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پڑھنے لگی۔
وجہ
وہی: امت جب بہت بڑی اور متشعب ہو چکی، اس کے معاملات گرہ در گرہ الجھ چکے، استعمار
کے بوئے ہوئے کانٹے کالجوں یونیورسٹیوں، ادب اور ابلاغیات کی راہ سے دماغوں تک
نہیں روحوں تک جا اترے اور موروثات تک میں جا گھسے، بس ایک اللہ و رسولؐ کی محبت یہاں سے کھرچی نہ جا سکی، غرض
معاملات بےحد و حساب پیچیدہ اور متفرع ہو چکے... تو یہاں اصلاحِ احوال کےلیے کسی
’’ون ونڈو آپریشن‘‘ کی شرط رکھنا آئیڈیل ازم کی آشوب ناک ترین صورت ہے جو کسی وقت ہمیں
’’خلافت‘‘ کے کچھ مخصوص نعروں کی تہہ میں نظر آتی ہے، تو کسی وقت ’’انقلابِ نبوی‘‘
کی ایک مخصوص تعبیر کے بین السطور، تو کسی وقت یہاں کے ’’مائل بہ تکفیر‘‘ حلقوں کے
روزمرہ و محاورہ کے اندر، تو کسی وقت ’’مدخلی‘‘ یا ’’جامی‘‘ فکر سے پھوٹتے ان
طعنوں اور کوسنوں میں جو امت کے بعض ایسے برسر عمل طبقوں پر کسے جاتے ہیں جو
’’عمل‘‘ یا ’’عقیدہ‘‘ کے بعض پہلوؤں میں واقعتاً تشویشناک حد تک کوتاہ ہو سکتے
ہیں۔
چنانچہ
ایسی پیچیدہ صورتحال میں کوئی ’’ون وِنڈو آپریشن‘‘ یوں میدان میں اتر آنا کوئی
معجزہ ہی ہو سکتا ہے، جو اللہ کر دے تو بہت ہی شکر۔ لیکن اگر اس کی مشیئت فی الحال
یہ نہ ہو، تو میں بجائے خیر و اصلاح کے سب
امکانات کو معدوم قرار دینے کے، یا ’’موجود‘ سے بیزار ہو کر دکھانے اور اس کی صرف
برائیاں کیے جانے کے، خدا کی اس دنیا میں اس بات کے امکانات ڈھونڈوں گا کہ امت کو
مطلوب خیر کا کونسا حصہ کہاں سے برآمد ہو سکتا ہے، اور جو کہ ظاہر ہے جزوی خیر ہی
ہو سکتی ہے (اور جو
کہ آئیڈیلسٹوں کے یہاں ’’اصولاً‘‘ رد ہے!)۔
اس امید کے ساتھ کہ امت کو پڑھانے سکھانے والے اگر ایک مناسب تعداد میں میسر آ
جائیں تو خیر کے یہ متفرق ’’اجزاء‘‘ بظاہر الگ الگ ہوتے ہوئے بھی، ایک ’’بڑی
تصویر‘‘ کے خدو خال بہتر سے بہتر اور نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے جائیں گے۔
چنانچہ
اس (اوپر بیان ہونے والی)
مثال میں بھی... مودودی صاحب کی وہ تحریک (سن
1946 کی بات ہو رہی ہے)
جو مسلم لیگ کو اُس کے ایک الگ تھلگ مسلم خطے کے حصول کے مطالبے کے وقت ’’ہرگز ووٹ
نہ دینے‘‘ کا مضمون لیے ہوئے تھی (مجھ
طالبعلم کی نظر میں، خود مودودی صاحب اُس وقت تک آئیڈیلزم کے حصار سے باہر نہ آ
سکے تھے) اپنے
اس مضمون کے حوالے سے اگر کامیاب رہتی، یعنی مسلم لیگ کو ووٹ نہ ملتا...
تو چند سالوں ہی کے اندر مودودی صاحب کو ان کی ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ یہاں کس ریاست
کی مجلسِ قانون ساز پاس کر کے دیتی!؟ اور کس ریاست کا حکم یہاں اُس ’’مسجد‘‘ کا سا
ہوتا جس کا صرف متولی معزول ہونے کے لائق ہے!؟ اور ہاں اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ مودودی
صاحب کا اٹھایا ہوا اسلامی بیانیہ قومی سطح پر اگر اُس زورآور irresistible
پوزیشن میں نہ ہوتا، اور جو کہ مودودی صاحب ہی
کے اٹھانے کا تھا نہ کہ لیگی قیادت کی سوچ تک میں سمانے کا، تو اسی مسلم لیگ کا بنایا ہوا پاکستان
’’قراردادِ مقاصد‘‘ ایسے کسی خوبصورت واقعے کے بغیر بھی رہ سکتا تھا۔
یہ
ہے خیر کے مختلف اجزاء کا، کسی ’’پیشگی پروگرام‘‘ کے بغیر، ایک ’’بڑی تصویر‘‘
بناتے چلے جانا، خیر کے جس جزء میں جتنی جان ہو اس کے بقدر۔ اور جس قدر خیر کا کوئی
حصہ بےجان ہو اُسی قدر وہ (بڑی
تصویر)
ادھوری رہنا۔ قوموں کی زندگی میں، خصوصاً ایک صدیوں پر محیط اور انسانی زندگی کے
ہر حصے کو اپنی زد میں لے چکے بحران کے بعد، عموماً یہی ہوتا اور یہی ہو سکتا ہے۔
اور ایسے ہی کسی بظاہر اتفاقی و
بےترتیب عمل سے دو تین صدیوں کا یہ تعطل آہستہ آہستہ پاٹا جائے گا۔ کوئی شے پہلے
تو کوئی شےء بعد میں تو کوئی شےء چاہنے کے باوجود نادستیاب۔ یہاں؛ امت کے کسی ایک
بھی شعبے میں پیش رفت، چاہے بظاہر وہ باقی شعبوں سے کتنی ہی کٹی ہوئی کیوں نہ ہو،
بس ایک اللہ و رسولؐ کی گرویدگی ناپید نہ ہو، قدر ہی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔
*****
رہ
گیا یہ کہ ایک چیز (اقامتِ
شریعت بقدرِ استطاعت) اگر
اللہ نے اردگان سمیت ہر صاحبِ اقتدار پر فرض کر رکھی ہے، اور یقیناً فرض ہے... تو
کیا ’’اجزاء‘‘ compartmentation کے اس خودساختہ فلسفہ کے تحت ہم ایک آدمی کو اس سے صاف
چھوٹ دے رہے ہیں؟ کہ بھئی چونکہ کسی ایک یا چند پہلوؤں سے تم نے مسلمانوں کا بھلا
کر دیا اور اس میں کچھ ہمت اور مردانگی دکھائی،تو اب باقی سب کچھ تم کو معاف ہوا...؟
تو ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ مگر اس حوالہ سے بھی کئی ایک چیزیں دیکھنے کی ہیں، جو
اِس مضمون کے دوسرے حصے میں ہمارے زیر بحث آئیں گی۔ سرِ دست یہ واضح ہو جانا ضروری
تھا کہ خیر کے ایک بھی شعبے میں آدمی کا غیر معمولی زور لگا لینا، اور امت کے حق
میں کوئی کارگزاری دکھا پانا اُسے اُس جیسے ’’باقیوں‘‘ کی نسبت غیر معمولی قابلِ
ستائش ٹھہراتا ہے۔ ’’مجموعی خیر‘‘ کی طرف
بڑھنے میں اگر کسی شخص نے ایک بھاری بھر کم ’’قوم‘‘ کو اٹھا کر ایک بھی کامیاب اور
کافر کو چبھنے والا قدم اٹھایا ہے تو وہ اپنے معاصرین میں ممتاز ہو چکا۔ اور چونکہ
یہ ایک غیر معمولی بات ہے (اس
بات کا اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ایک انسانی جمعِ غفیر کو لے کر چلنے کی
صعوبت سے آگاہ ہے؛ اور جو کہ دنیا کا شاید مشکل ترین کام ہے۔ بخدا یہاں لوگوں سے
چھوٹی چھوٹی جماعتیں نہیں سنبھالی جاتیں ہاں ایک بنی بنائی شےء کی لٹیا ڈبو آنے
والے بہتیرے ہیں، کسی چھوٹے سے چھوٹے ادارے کو نتیجہ خیزی کی ایک کامیاب مثال a
success story بنا دکھانا یہاں جان جوکھوں کا کام مانا جاتا ہے،
خصوصاً دینداروں میں جہاں ’’صلاحیت‘‘ اِس وقت ڈھونڈنے کی چیز ہے)۔
پس پوری ایک قوم کو کامیابی کے ساتھ ایک گھاٹی گزروا لینا، خواہ وہ خیر کے کسی ایک
بھی شعبے میں ہو، ایک قابل ذکر اور قابلِ ستائش بات ہی ہو گی، خصوصاً ایک ایسے دور
میں جہاں ہر طرف ناکامیوں اور نارسائیوں ہی کے قصے شروع تا آخر پائے جاتے ہیں، الا
ما شاء اللہ۔
جاری
موضوع
سے تعلق رکھنے والے دیگر مضامین:
ترکی
میں ’مذہب‘ کی واپسی ’مذہبی‘ سلوگن کے بغیر
آپ
فی الوقت ان دونوں پارٹیوں کے سوتیلے ہیں
طیب
اردگان امیر المؤمنین نہیں ہیں، غلط توقعات وابستہ نہ رکھیں
دشمن
آپ کے صرف ’آج‘ کو نہیں دیکھتا
چند
مسلم ممالک اتنی سی طاقت بھی کیونکر حاصل کر سکے؟