باطل فرقوں کےلیے گنجائش پیدا کرواتے، دانش کے کچھ مغالطے
کچھ علمی چیزیں مانند (’’لازم المذھب لیس بمذھب‘‘ وغیرہ)، جنہیں خارج از سیاق کر کے پیش کیا جاتا ہے، دو مصائب کا موجب بنتی ہیں:
1۔ عام آدمی کے حق میں تو یہ بات گمراہ کن ہوتی ہی ہے؛ یعنی ایک باطل طائفہ کو باطل کہنے میں ہمارے اِس عامی بیچارے کو شدید متردد کر دیا گیا؛ کیونکہ اس کو ڈرا لیا گیا ہے کہ یہ بھی کسی ’’فتویٰ بازی‘‘ کی قبیل سے ہے جس سے بڑا جرم آپ جانتے ہیں اِس میڈیا کے دور میں کوئی نہیں! اور یہ کہ غیر عالم ہونے کی وجہ سے اس کو ایسی کوئی بات کسی کے متعلق سرے سے منہ پر لانی ہی نہیں چاہیے! حالانکہ عامی سے صرف اس قدر مطلوب تھا کہ وہ نرے اپنے علم سے لوگوں کے فیصلے نہ کرے کیونکہ وہ ایک عالم نہیں ہے؛ جبکہ علمی مباحث کا احاطہ کرنا اور یہ علمی چیزیں ایپلائی کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔ البتہ جس طائفہ کو سلف تا خلف امت کے علماء و ائمہ باطل اور گمراہ کہتے ہیں، اسے تو ائمہ و علماء کی اقتداء میں ایک عامی نے بھی پورے وثوق سے گمراہ ہی کہنا تھا اور وہ سماجی محاذ جو ایک باطل طائفہ کے خلاف معاشرے میں لازماً رکھا جانا ہوتا ہے اسے تو لا محالہ ایک ’’عامی‘‘ کی سطح تک ہی آنا تھا؛ نہ کہ ’’علمی آراء‘‘ تک محدود رہنا تھا۔ لیکن اِس ظالم دانشور نے یہاں بھی ہمارے اِس عامی کو دھمکا لیا ہے کہ ارے بھائی یہ تو ایک بڑا علمی کام ہے اور یہاں بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے لہٰذا وہ ادھر کو آئے ہی مت، (یعنی مسلم معاشروں کا ان باطل فرقوں سے خدا ہی حافظ! یہاںn اب ’علمی آراء‘ ہوں گی اور بس۔ اور ’مرزا یار‘!) ۔اور وہ دلجمعی و یکسوئی اور وہ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز جو ایک باطل کی بابت معاشرے میں رکھا جانا تھا، سرے سے غائب۔ اس کی ضرورت ہی اب کیا ہے؛ یونیورسٹیوں اور خیرسگالیوں کا دور ہے! پوری تاریخ میں سب گروہوں نے ایک دوسرے کے متعلق غلط فہمیاں ہی تو رکھی ہیں؛ جن کے زائل ہونے کا اب وقت آ گیا ہے!
2۔ دوسری بات، اس دانشور کی بات میں ’علمی وزن‘ ہونے کا تاثر بھی آ جاتا ہے۔ یعنی کسی کو گمراہ کہنا تو ہے ہی ایک نری غیر علمی اور اخلاق سے گری ہوئی بات! (’’اخلاقیات‘‘ کا پورا ایک بیانیہ جو مکتبِ استشراق کی انسپیریشن inspiration سے سامنے آیا ہے، یہاں ایک بڑی تنقیح چاہتا ہے)۔ حتیٰ کہ یہ تاثر کہ ایک ٹولے کے بارے میں ائمۂ سنت کے جو کچھ سخت مواقف چلے آئے ہیں، وہ کوئی ’جذباتی‘، ’متعصبانہ‘، ’غیر علمی‘ اور بڑی ‘ناپختہ‘ سی ایک چیز ہوں گے اور کسی ہیجان خیز لمحے میں ہی بس ان سے صادر ہو گئے ہوں گے، خدا انہیں معاف کرے! جبکہ علمی بات تو یہ ہے جو کچھ ’علمی اصولوں‘ کے باقاعدہ حوالے کے ساتھ آج یہاں فیس بک پر یا کسی یونیورسٹی تھیسز میں پیش کی جا رہی ہے!
[اس پر ان شاء اللہ ہم کسی اور مقام پر بات کریں گے کہ ہم ایسے ایک طالب علم کو چاہیے، (اکثر لوگ جن کو لوگ علماء سمجھتے ہیں علمی تکییف میں وہ ’’طلبۃ العلم‘‘ بھی مشکل سے ٹھہریں گے) عامۃالناس کے آگے جب وہ کوئی ’’بڑی بات‘‘ پیش کرے تو ’’اپنی ذمہ داری‘‘ پر نہ کرے، کہ جس میں یہ خود ’’صاحبِ قول‘‘ کی حیثیت میں سامنے آ رہا ہو (سوائے کسی طالبعلمانہ مشق کے دوران، جس کا رنگ مشق ہی کا ہونا چاہیے نہ کہ عامۃ الناس کو رہنمائی دینے اور ان کے آگے پیش کرنے کا)۔ بلکہ ضروری ہے، یہ اپنے اس پورے استدلال پر (نہ کہ استدلال کے کسی جزء پر) اور اس پورے مدعا پر جسے یہ ثابت کرنا اور امت میں اس کی following پیدا کرنا چاہ رہا ہے، کچھ ایسے معروف اہل علم کا حوالہ دے جن کا استدلال امت میں پیشوائی کا درجہ رکھتا ہو {اور یہ درجہ ان (معروف اہل علم) کو علماء کی ایک معتد بہٖ تعداد کے شہادت دینے سے ملا ہو گا نہ کہ عامۃ الناس کی ’’لائکس‘‘ سے}]۔
*****
آمدم بر سر مطلب۔
ایک واہمہ یا تلبیس جو باطل گروہوں کے حوالہ سے معاملہ کو نرم کرنے کےلیے سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ: کسی گروہ پر حکم اُس کی اپنی بیان کردہ بات کی بنیاد پر لگے گا جو وہ خود اپنے مذہب سے متعلق کرے، نہ کہ اُس بات پر جو ہمارے علماء اُس کا مذہب بیان کرتے ہوئے کریں! بے شک یہ بات اصولی طور پر درست ہے۔ اور عدل یہی ہے کہ اُس پر حکم اسی چیز کی بنیاد پر لگے جو وہ خود اپنا مذہب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے نہ کہ اس چیز کی بنیاد پر جو ہم اُس کے مذہب کے بیان میں کہتے ہیں۔ اس پر ایک اصول بھی بتایا جاتا ہے: ’’لازم قول الطائفة لا یلزمھا فلا یقال إنه مذھبھا‘‘۔ یعنی ایک گروہ کی بات سے اگر کوئی بات لازم آتی ہے تو اُس لازم آنے والی بات کو، محض لازم آنے کی وجہ سے، اُس کا مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا تاوقتیکہ اُس لازم آنے والی بات کا بھی وہ گروہ باقاعدہ قائل نہ ہو۔ یہ بھی ایک عدل کی بات ہے اور ہمارے ائمہ نے ہی بیان کی ہے۔
اصل تلبیس اس میں کہاں ہے؟
یہ ہے ایک گروہ کے سٹینڈرڈ مراجع کی طرف کو بات نہ آنے دینا اور سب معاملہ اُس گروہ کے کسی زید بکر کے کہے اور بیان کیے کے ساتھ ہی متعلقہ کر دینا۔ آپ کو جو رافضی ملا وہ تو یہ کہتا تھا اور مجھے جو رافضی ملا وہ تو یہ کہتا ہے! ظاہر ہے معاملہ یہاں پر آ جائے گا تو ایک مدعا بآسانی گم کرایا جا سکتا ہے۔
خوب جان لیجیے۔ ایک گروہ کا ترجمان ہونے کی حیثیت اُس گروہ کے کسی کسی آدمی کو حاصل ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنے گروہ کا جو عقیدہ بیان کرے اُس گروہ کا عین وہی عقیدہ ہو، یہ مقام کسی گروہ میں اُس کی کسی بہت ہی خاص شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ باقیوں کا بیان اس باب میں غیر متعلقہ ہوتا ہے اگرچہ وہ اُسی فرقے کے کیوں نہ ہوں۔ آپ کو اس طائفہ کے جس ’فلاں عالم‘ یا ’فلاں مبلغ‘ نے کسی خیر سگالی دعوت پر بلایا اور دورانِ گفتگو آپ کے کان کے قریب آ کر اپنا جو عقیدہ بیان کیا یا اس عقیدہ کی جو تفسیر کر دی، اس سے، زیادہ سے زیادہ، اُس شخص کا اپنا عقیدہ ثابت ہو سکتا ہے،نہ کہ اُس طائفہ کا عقیدہ۔ لہٰذا یہ سب حوالے جو ایک طائفہ کی کسی شخصیت کے ساتھ آپ کی ’ذاتی ملاقاتوں‘ میں سامنے آئے، یا اس کے کسی لیکچر، یا پمفلٹ میں آپ کی نظر سے گزرے، درخور اعتنا ہو سکتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہم خاص اُس شخصیت پر حکم لگانے کی بحث کر رہے ہوں نہ کہ خود اس گروہ پر حکم لگانے کے وقت۔ بلاشبہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی اپنے گروہ کے کسی سٹینڈرڈ عقیدہ کی اپنی کوئی تفسیر کرتا ہو۔ یا اس کے کسی جزء کی تاویل کرتا ہو۔ کیا اہل سنت میں بہت سے لوگوں کو اپنے (اہل سنت) عقیدہ کے بعض مقامات کی تاویل کرتے آپ نے نہیں دیکھا؟ یا حتیٰ کہ اس سے انحراف کرتے نہیں دیکھا؟ اس سے کیا اہل سنت عقیدہ کچھ سے کچھ ہو جائے گا؟ یا کوئی ایسی ’’پہیلی‘‘ بن جائے گا جسے ہر آدمی اپنے اپنے انداز میں بوجھتا پھرے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اب وہ (ایک بدعتی ٹولے سے تعلق رکھنے والا) شخص بھی اپنے گروہی عقیدہ کے کسی مقام پر ایسا کر سکتا ہے۔ خاص اُس شخص پر حکم لگاتے وقت اُسے اس بات کا فائدہ بھی یقیناً دیا جائے گا، لیکن اس گروہ کا، بطورِ گروہ، عقیدہ متعین کرتے وقت یہ بات غیر متعلقہ ہی رہے گی۔
واضح رہے، جب ہم کہتے ہیں: کسی گروہ کے سٹینڈرڈ مراجع۔ تو اس کی شرحیں بھی اس میں شامل ہوں گی۔ یعنی شرح بھی صرف اُسی شخص کی جو اس گروہ کے ہاں بطور ’’شارح‘‘ سٹینڈرڈ مانا گیا ہو۔ بصورتِ دیگر وہ خاص ’’اپنا‘‘ ترجمان ہو گا نہ کہ ’’اپنے طائفہ‘‘ کا۔