سنت کے ساتھ بدعت کا ایک گونہ خلط... اور "فقہِ موازنات"
حامد کمال
الدین
مغرب کے اٹھائے ہوئے اسلاموفوبیا
کا توڑ کرنے کی خاطر مہاتیر محمد، طیب
اردگان اور عمران خان کے ، ایک مشترکہ ٹی وی چینل کے اِجراء کے کسی عندیہ (جوکہ
ہمارے نزدیک ایک نہایت خوش آئند بات ہے، اگر ہوجائے)...
پر موصول ایک سوال:
ویسے شیخ محترم یہ
چینل کیا واقعی اسلام کو پیش کرے گا.
چینل نکالنے والوں
کی فکر کو مدنظر رکھنے کی درخواست ہے.
بلکہ خطرہ تو یہ ہے
کہ غامدیہ افکار نہ بھی ہوں تو مدخلیہ افکار تو لازما ہوں گے (ہر مسلک کا اپنا
سٹائل ہے)
سید طلحہ عارف
جواب
غامدیہ
وغیرہ نہ بھی ہوں، اور اللہ کرے نہیں ہوں گے (إنهم
أقلُّ وأذلُّ من أن يتصدَّوا للأعداء، ولم يَصلحوا إلا لِـمُناوشةِ أهل الاسلام)،
لیکن یہ طے ہے کہ اس وقت کی ایسی کسی بھی اعلی سطحی کاوش میں، خواہ وہ عالم اسلام
کے جس بھی ملک میں ہو، جو دانشور فی الحال میسر آئیں گے وہ اغلباً ’’خالص اسلام‘‘
کی کچھ بہت اچھی نمائندگی نہ کر سکنے والے ہوں گے؛ ہیومن ازم کا تڑکا تو جا بجا ہو
گا ہی، الا ما شاء اللہ۔ (سوائے ایک ملک کے جس میں ٹھیٹ اسلام کو جدید ڈھنگ میں
پیش کرنے پر قدرت رکھنے والے اہل علم میری نظر میں قدرے بہتر تعداد کے اندر
موجود ہیں۔ لیکن اُس خوش قسمت مردم شناس ملک میں ایسے قابل اہل علم کی صحیح و طبعی
جگہ فی الحال جیل خانے اور کال کوٹھڑیاں باور کی جاتی ہیں!)۔
غرض
کوئی ’’فقہِ اکبر‘‘، ’’طحاویہ‘‘ اور ’’الاعتصام‘‘ یہاں سے نشر ہونے کی تو امید
واقعتاً نہ رکھیے۔ لیکن اس کے باوجود، ایسی کوئی بھی کاوش (جس کا ان تین ملکوں کی
جانب سے عندیہ آیا ہے) مجموعی طور پر، تھوڑی نہیں بہت زیادہ قابل ستائش ہو گی۔ یہاں
سے نشر ہونے والا پیغام شاید اس نیریٹو سے بہت مختلف نہ ہو جو ہم نے امریکہ و یورپ
کے اکثر اسلام سینٹرز میں چلتا دیکھا ہے اور جو کہ اسلام کی ماڈرن تعبیر سے کسی
قدر ہم آغوش بھی یقیناً ہے اور اس میں بہت کچھ قابل اصلاح بھی ضرور ہے۔ اس کے
باوجود وہ (امریکہ
تا یورپ تا آسٹریلیا اسلامک سینٹرز سے نشر ہونے والا اسلامی پیغام)
فی زمانہ ہزاروں لوگوں کےلیے ہدایت اور روشنی کا ذریعہ بنا ہوا ہے؛ جس پر ہم اللہ
کا لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں کہ ایک بڑی خلقت خالص کفر پر مرنے سے بچ گئی۔ (خود
آپ کے یہاں ’اسلامائزیشن‘ سے متعلقہ جو جو اقدامات اور دستور سازی وغیرہ ہوئی ہے،
اس کے اندر اول تا آخر یہی ذہن غالب رہا ہے؛ اور اس کو بھی ہم تو غنیمت اور لائقِ
شکر ہی جانتے ہیں۔ باقی سب باتیں جانے دیجیے، ایک قراردادِ مقاصد ہی آپ کے پاس آج
اگر نہ ہوتی تو آپ کو معلوم ہوجاتا ’لبرل‘ دھوپ میں اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں؛ جبکہ
ویسے آپ کہیں تو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے بیسیوں جھول نکال کر میں آپ کو دکھا سکتا
ہوں)۔ اہل سنت کا ایک نہایت اہم
اصول ہے اور وہ ہے: ایک عمل میں خیر کو ’’مجموعی طور پر غالب‘‘ پانے کو اس امر
کےلیے کافی جاننا کہ ایک ’’دی ہوئی صورتحال‘‘ میں in
a given situation آپ نے اس کو اون بھی کیا، اس پر اللہ کا شکر بھی
کیا، اس کے ہاتھ مضبوط بھی کیے، اس کا دفاع بھی اور اس کا غلبہ و اقتدار بھی۔ نیز
کفر یا خالص بدعت کے مقابلے پر اس کے کمزور یا پسپا ہونے پر ایک شدید تشویش اور افسوس
بھی۔ اور بیک وقت اس کے اندر پائے گئےکسی باطل عنصر کو بر ملا غلط بھی کہا۔ نہ وہ
اِس بات کے منافی اور نہ یہ اُس چیز سے مانع۔ یہ ہے فقہ الموازنات۔
آپ
غور فرمائیں تو ’’سنت کے ساتھ بدعت کا ایک گونہ خلط‘‘ ہم خالص اسلام کے نام لیوا ‘پچھلی
بارہ صدیوں سے قبول ہی تو کرتے آئے ہیں امارت سے لے کر جہاد، تعلیم، ارشاد، اور
نجانے کس کس شعبے تک۔ خاص اس (ترجیحِ
مصالح و مفاسد) باب سے، نہ کہ بدعت کو کسی بھی درجہ میں اپروو approve
کرنے کے باب سے۔ اہل سنت کا یہ ایک نہایت اصیل
مبحث ہے؛ جس کے دم سے یہ ایک بری سے بری
صورتحال پر اثرانداز ہونے (بمعنیٰ
اس کے اندر خیر کو بڑھا اور شر کو گھٹا دینے)
کا ایک کمال ڈائنامزم اپنے یہاں پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی مخصوص ماحول یا زمانے میں
جہاں جنودِ ابلیس کی کچھ غیر معمولی قوت پائی گئی، خیر کے گراف کو ’’مزید نیچے‘‘
اور شر کے گراف کو ’’مزید اوپر‘‘ جانے سے روک دینے کو ہی اہل سنت اپنے حق میں ایک
زبردست تحصیل a great achievement اور خدا کا ایک فضلِ عظیم
مانیں گے۔ یہاں تک کہ ایک گراف جتنا ان (اہل
سنت) کی کوششیں نہ ہونے کی صورت
میں نیچے جا سکتا تھا’’اتنا‘‘ نیچے نہ جانے دینا، یعنی وہاں بھی کچھ نہ کچھ اہل
سنت کا ہاتھ پڑ جانا، کسی وقت لائقِ شکر بات مانی جائے گی۔ (آپ
خود سوچیے، ’’خیر‘‘ بغیر ’’کسی بھی دخن‘‘ کے پچھلی بارہ صدیوں میں ویسے پائی کہاں
گئی ہے الا ما شاء اللہ؟ دعوے سے کہا جا سکتا ہے، اس امت کے اہل سنت سے زیادہ
سمجھدار اور زیادہ صابر و محتسب گروہ تاریخ میں نہیں پایا گیا)۔
یہاں البتہ؛ چھوٹی عقل صرف اُس خرابی کو دیکھتی ہے جو اس ترکیب کے اندر پائی گئی جسے
ہمارے ائمہ و اہل علم نے ایک ’’دی گئی صورتحال‘‘ میں صد غنیمت مانا ہو۔ وہ خرابی
ظاہر ہے اس میں موجود تو ہے! اور خود ہم نے بھی اس کو غلط تو کہا ہی ہو گا (کیونکہ
غلط اور درست کا مطلق پیمانہ ہمارے ہاں رسول اللہﷺ کی شریعت ہے، جو تعلیم و بیان کی
سطح پر تو کسی نامساعد سے نامساعد دور میں بھی ہمارے یہاں ان شاء اللہ متروک نہیں
ہو گی اور ان سٹینڈرڈز سے تو ہم کبھی بھی دستبردار نہ ہوں گے)۔
لہٰذا جب آپ نے کسی جگہ پر اس غلط کو غلط بھی کہا ہے ... تو اب اس کو کسی بھی مرکب
scenario
میں اور کسی بھی حیثیت کے اندر آپ کا قبول کرنا... ہو گیا ناں آپ کا تضاد!!! یہاں؛ وہ ’’دی گئی صورتحال‘‘ تو بیچاری رہ گئی ایک طرف،
آپ ہی کی گوشمالی شروع جو ’ویسے سنت سنت کرتے نہیں تھکتےاور یہاں دیکھو ایک خرابی
یا ایک بدعت نہ صرف ہضم ہو رہی ہے بلکہ امت سے قبول کروائی جا رہی ہے‘!!! میں عرض
کروں، یہ ذہنیت بیس بار شریعت پڑھ لے، اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں: اشیاء کو اجزاء
میں ہی دیکھ سکنا اور ان کو کسی کُل میں جڑ کر دیکھنے سے قاصر رہنا؛ اوپر سے
’دلیل‘ کا زعم جو ’اجزاء‘ کے حق میں ان کے پاس واقعتاً ہوتی بھی ہے!
یہاں پہنچیے، تو جزوی عقل ایک نہیں دو طرف کو ہو لیتی ہے: ایک
طبقہ جو اُس مرکب scenario میں پائی جانے والی ’’خیر‘‘ کو معدوم کے حکم میں
جانے گا اگرچہ وہ اپنے اندر پائے جانے والے شر پر غالب کیوں نہ ہو (آخر شر کو کسی بھی
حیثیت میں قبول کر کیسے لیں!!!)۔دوسرا طبقہ جو اسے اس معنیٰ میں ہی
’’خیر‘‘ مان بیٹھے گا کہ اس میں پائے جانے والے شر کے عنصر کو شر یا بدعت کہا جانے
پر بھڑک اٹھے اور اس کی بابت ایک غلط لفظ سننا گوارا نہ کرے! یوں دوسرے کو اس ’خیر‘
پر کسی قسم کی تنقید ناقبول اور پہلے کو اس ’شر‘ کےلیے کوئی کلمۂ خیر نامنظور!
آپس میں یہ ہر دو فریق جتنا بھی الجھتے اور ایک مسلسل سی سا seesaw کی مشق فرماتے ہوں، لیکن ایسے شخص کا ’تضاد‘
نکالنے پر یہ دونوں متفق ہوں گے جو اس میں خیر اور شر ہر دو عنصر کو موجود مانتے
ہوئے نری ’’تغلیب‘‘ کی بنیاد پر اسے قبول یا رد کرنے کا قائل ہو؛ اور اس بنا پر ایک قبول کر لی گئی چیز کو بھی اس حیثیت میں
لیتا ہو کہ بدعت کو اس کے اندر ختم یا کم کرنے اور سنت کو اس کے اندر غالب تر کرنے
کی تگ و دو کرنا ہنوز مطلوب ہو۔
ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ
الطَّرِيقِ الْمَشْرُوعَةِ الْمَحْضَةِ إلَّا بِنَوْعٍ مِنْ الْمُحْدَثِ لِعَدَمِ
الْقَائِمِ بِالطَّرِيقِ الْمَشْرُوعَةِ عِلْمًا وَعَمَلًا. فَإِذَا لَمْ يَحْصُلْ
النُّورُ الصَّافِي بِأَنْ لَمْ يُوجَدْ إلَّا النُّورُ الَّذِي لَيْسَ بِصَافٍ.
وَإِلَّا بَقِيَ الْإِنْسَانُ فِي الظُّلْمَةِ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَعِيبَ
الرَّجُلُ وَيَنْهَى عَنْ نُورٍ فِيهِ ظُلْمَةٌ. إلَّا إذَا حَصَلَ نُورٌ لَا
ظُلْمَةَ فِيهِ وَإِلَّا فَكَمْ مِمَّنْ عَدَلَ عَنْ ذَلِكَ يَخْرُجُ عَنْ
النُّورِ بِالْكُلِّيَّةِ إذَا خَرَجَ غَيْرُهُ عَنْ ذَلِكَ؛ لِمَا رَآهُ فِي
طُرُقِ النَّاسِ مِنْ الظُّلْمَةِ. (مجموع الفتاوى 10: 365)
’’اور کسی وقت سالک کے حق میں ایک خالص مشروع راستہ چلنا بس
سے باہر یا دوبھر ہو سکتا ہے سوائے یہ کہ وہ ایک گونہ محدث کو بھی ساتھ ہی اختیار
کرے، جس کی وجہ یہ ہو کہ علم و عمل میں خالص مشروع طریق کو کھڑا کرنے والا (ماحول میں) کوئی سرے سے دستیاب
نہیں۔ تو پھر جس وقت خالص روشنی دستیاب نہیں، سوائے ایسی روشنی کے جو خالص نہیں،
کہ جسے چھوڑ دے تو انسان گھپ اندھیرے ہی میں جا بیٹھے، تو وہاں یہ روا نہ ہو گا کہ
آدمی اس کی عیب جوئی کرے اور ایک ایسی روشنی سے روکتا پھرے جس میں کچھ ظلمت ہے۔
سوائے اس وقت جب ایسی روشنی دستیاب ہو جس میں ذرا ظلمت نہیں۔ورنہ کتنے ہی ایسے ہیں
جو ایک ناخالص روشنی سے پرہیز کرتے کرتے اور لوگوں کی راہ میں اُس اندھیرے کی
نشاندہی کرتے کرتے روشنی سے بالکلیہ ہاتھ دھو بیٹھا، کہ وہ دوسری (خالص مطلوب شےء) دستیاب ہی نہ تھی‘‘۔
*****
ایک لائٹ نوٹ کے طور پر:
اپنے سوشل میڈیا احباب کی ایک قابل ذکر تعداد کو دیکھ کر یہ
خیال گزرتا ہے کہ... یہ تینوں مسلم ممالک اسلاموفوبیا کے رد کا خیال چھوڑ کر، جو نجانے
ان کو بیٹھے بٹھائے کہاں سے آ گیا حالانکہ باقی عالم اسلام کے لیڈر بھی تو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ بیٹھے ہی
تھے... غرض یہ اُس خیال کو ترک کر کے اپنی قیادتوں پر ’مذہبی جگتیں‘ کروانے کےلیے اگر
کوئی چینل کھول لیں تو ’’ہمارے‘‘ بہت سے لوگ اس میں اعلیٰ کارکردگی کےلیے
کوالیفائی کریں گے! فی الحال تو ’’ہم اہلِ حق‘‘ یہاں کھڑے ہیں ’’دوسرے‘‘ خواہ جہاں
بھی پہنچ گئے ہوں۔