ماتریدی-سلفی نزاع، یہاں
کے مسلمانوں کو ایک نئی آزمائش میں ڈالنا
حامد کمال الدین
ایک اشعری سلفی نزاع
یا ماتریدی سلفی نزاع
خدانخواستہ کسی ماحول میں کھڑا ہوا ہو، یا کم از کم لوگ اس سے واقف ہی ہوں، وہاں
تو شاید کچھ بولنا آپ کی ضرورت بھی ہو۔
مگر جہاں لوگ ایسے کسی نزاع سے واقف
تک نہیں الحمد للہ، اور حیران ہو ہو پوچھتے ہوں یہ ’ماتریدی‘ کیا لفظ ہے، وہاں داد
دیجیے ہماری کچھ ’سلفی‘ عقول کو، پہلے یہ بڑی محنت سے ایک تنازعہ معروف کروائیں گے
اور پھر اس میں ’’حصہ‘‘ لینے کا ’’موقع‘‘ اور ’’ثواب‘‘ حاصل کریں گے؛ کہ ایک
تنازعہ ’’کھڑا‘‘ ہوئے بغیر اس میں ’’حصہ‘‘ لینے کا وہ مزہ اور فائدہ نہیں!
میں
پوچھتا ہوں، خود ’’سلف کا منہج‘‘ کیا یہی ہے؟ یہ لوگوں کو ایک ایسی آزمائش میں
ڈالنا ہے جس سے وہ اب تک عافیت میں ہیں۔ اور عافیت سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔
معلوم
رہنا چاہئے، عقیدہ پر کوئی تنازعہ اہل سنت از خود کھڑا نہیں کرتے۔ خود ان کی خواہش
ہوتی ہے کہ ایسا کوئی تنازعہ کبھی کھڑا نہ ہو، اور صرف عقیدہ کا وہ عمومی بیان ہی
کفایت کرے جو امت کے یہاں اول اول پایا جاتا تھا (نہ کہ وہ مخصوص بیانِ عقیدہ جو
کسی ’فلاں اور فلاں‘ گروہ کے رد میں علمائے امت کو کرنا پڑ گیا اور جو کہ امت کے
سلفِ اول کی ضرورت نہ ہوا تھا)۔ ہاں کوئی دوسرا یہ تنازعہ کھڑا کر چکا ہو تو اہل
سنت اس کو صرف دفع کرتے ہیں، اور وہ بھی ’’بالتی ھی أحسن‘‘ اور جس میں دلوں کو
جیتنا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی رکھنا باقاعدہ شامل ہو گا۔ تصور کریں وہ کام جو
خدانخواستہ اہل بدعت کے کرنے کا تھا (یعنی عقیدہ کا ایک تنازعہ مسلمانوں کے مابین
کھڑا کرنا، بعد اس کے کہ وہ آپ کے ماحول میں تقریباً ناپید ہو) وہ کام کچھ نام
نہاد اہل حق کرنے لگے ہوں!
اور یہ بھی یاد رکھیے: ایک مسئلہ کہیں
کھڑا ہو گیا ہو... تو بھی فرض یہاں بیک وقت ایک نہیں دو ہوں گے: اقامتِ سنت اور
اقامتِ جماعت۔ ’’سنت‘‘ کی سپرٹ میں مسلمانوں کی ’’جماعت‘‘ کا ستیاناس کر آنا اور
’’جماعت‘‘ کی فکر میں ’’سنت‘‘ کو پس پشت ڈال آنا، ہر دو درماندگی کی صورتیں ہیں،
یعنی خدا کی توفیق سے محروم ہونا۔ ’’سنت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ ہر دو فریضہ کا بیک وقت
حق ادا کرنا، اور ہر دو کے اندر ایک توازن رکھنا، اصل میں ’’اھل السنۃ والجماعۃ‘‘
ہونا ہے، جو اس دور میں بہت کم لوگوں کو میسر ہے، اللہ ہمیں ان خوش قسمتوں میں سے
کر دے۔ توفیق فی الاصل یہ ہے۔
*****
نوٹ: میری ان گزارشات کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ خاص علمی دائرے میں اگر کوئی تصنیف
و تالیف یا تعلیم و تعلّم ہوتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ ہے۔ ہرگز نہیں۔ میرا یہ
نقد ایک نزاع کو ایک مخصوص علمی دائرہ سے باہر لانے پر ہے اور ماحول میں ’’دین‘‘
کا ایک ایسا نزاع اٹھانے پر جو اس سے پہلے وہاں پر نہیں تھا۔ ہاں تعلیمِ عوام آپ
کے پیش نظر ہے تو اس کا طریقہ بالکل اور ہے، اور وہ کسی ’’نزاع‘‘ کو اٹھائے بغیر
بھی بخوبی انجام پا سکتا ہے۔
*****
اس مسئلہ پر موصولہ بعض سوالات پر، بوقت فرصت کچھ عرض کر سکوں گا ان شاء اللہ۔Top of
Form