لفظ "شریعت" اور "فقہ" ہم استعمال
interchangeable ہو
سکتے ہیں
حامد کمال الدین
[’’نص، معصوم۔ جبکہ اس کا فہم، غیر معصوم، قابل للخطأ‘‘]۔ یا [’’شریعت ایک الٰہی / آسمانی چیز۔
جبکہ اس کی فقہ، ایک انسانی / زمینی عمل و کاوش‘‘]... جیسا کہ استاذ جعفر
شیخ ادریس کا ایک مضمون میں نے کہیں پڑھا، یہ جملہ کسی حوالہ سے درست ہونے
کے باوجود فی زمانہ رِوِژنسٹ revisionist
الحاد کی راہ
کھولنے والا ایک "كلمةُ حقٍ أريدَ
بها باطل" ہو سکتا ہے۔ اصل مصیبت
اس جملہ میں اختیار کیا جانے والا اجمال ہے، اگرچہ فی نفسہٖ اس کا قائل برحق ہو۔
جس طرح جدیدیت کے حالیہ بےرحم حملوں کے پس منظر میں، امت کے یہاں پچھلے پانچ سات
سو سال پرانی خرابیوں کی بابت ہاتھ ہولا رکھنے کی دعوت، اپنی جگہ بالکل حق ہونے کے
باوجود، ان خرابیوں کو ’روایتِ حق‘ کی سند دلوانے کی ایک ذہین کوشش میں بدلی جا
سکتی ہے۔ زیر نظر تحریر، مسئلہ کی ہر دو جہت کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ باللہ
التوفیق
"شریعت" اور "فقہ" ہم استعمال interchangeable
لفظ ہو سکتے ہیں۔ (وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إلَى
مَنْ هُوَ أفْقَهُ مِنْهُ)۔ جبکہ دورِ حاضر کی عصرانی تحریک (revisionist
movement) کے مقابلے پر تو ’’فقہ‘‘ کا یہ اطلاق عام کرنا،
’’فقہِ امت‘‘ کی ذہنوں پر ایک دھاک بٹھانا اور اس پر سوال اٹھانے کو الحاد اور
زندقہ کا ایک دروازہ ٹھہرانا شاید ضروری
بھی ہے۔ کیونکہ سارا جھگڑا ہے ہی اس ایک بات پر کہ مسلمانوں کے یہاں چودہ سو سال
سے چلے آتے ایک مخصوص ’’فہمِ شریعت‘‘ کو فرسودہ کہنے کی آج کسی کو جرأت کرنے دی
جائے... اور نص کو بالکل ایک نئے سرے سے سمجھنے (بدعةُ إعادةِ
فَهْمِ النص) کی گنجائش چھوڑی جائے... یا نہیں؟
"شریعت" اور "فقہ" کا یہ ہم استعمال interchangeable ہونا گو ہے ایک خاص پہلو سے، نہ کہ ہر ہر پہلو
سے، براہِ کرم نوٹ کر لیا جائے۔ دونوں کے مابین ایک فرق ہونا اپنی جگہ ایک حقیقت
ہے، جس سے کوئی اہلسنت گروہ انکاری نہیں ہے۔ اور جب کوئی اہلسنت گروہ انکاری نہیں،
تو اس مسئلہ کو ہوا دینا خصوصاً جہاں آپ کی اصل مڈ بھیڑ ’’فقہِ امت‘‘(ذيلي وضاحت[i])
کو گرانے کی ایک خاص ابلیسی تحریک کے ساتھ ہو، کیا ضروری ہے؟
(ہر دو گروہ کے ’جیالوں‘ کو خدا را توجہ
مت دیجیے۔ مسئلہ کو "مَن يَتَصَدّىٰ
لها" کے اندر محصور رکھنے میں یہ ایک ایسا کانٹری بیوشن ہو گا
جو یہاں کا ہر شخص کر سکتا ہے)۔
اور جہاں تک بات ہے ’’تحفظات‘‘ کی... تو شریعت سے مراد اگر
’’نصوص‘‘ ہیں تو اس (مخصوص) معنیٰ میں ضروری نہیں ساری کی ساری شریعت ’’قطعی‘‘ ہو۔ لہٰذا پریشانی کہاں ہے؟
دوسری جانب ’’فقہ‘‘ سے مراد اگر نصوص کا ’’قبول اور فہم اور استنباط‘‘ ہے تو ضروری
نہیں ساری کی ساری فقہ ’’ظنی‘‘ ہو۔ لہٰذا اِدھر بھی پریشانی کی بات کہاں ہے؟
ایک بہت بڑا مسئله ہمارے یہاں کے اہل سنت طبقوں کے آپس کی
بحثوں میں ’’اجمال‘‘ ہے۔ یہ ذرا ’’تفصیل‘‘
میں چلے جائیں تو ہو سکتا ہے یہاں اکثر بحثوں کی ضرورت باقی نہ رہے اور یہ اپنی سب
توانائیاں الحاد اور عصرانیت revisionism کے ان جھکڑوں کے خلاف صرف کر دیں۔ نرا فلسفیانہ
جدل الحمد للہ یہاں کے کسی اہل سنت فریق کا مطمح نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے ان سب معزز
اصحاب کو اس سے بلند تر جانتے ہیں۔ اصل چیز ہے وہ اختلاف جس کی زد حقائق پر
پڑتی ہو، یعنی عملی اختلاف۔ تو اس بابت
عرض ہے:
1.
’’نص‘‘ کی تعظیم پر کسی اہلسنت طبقے کے ہاں دو رائیں نہیں پائی جا سکتیں، سمیت
مذاہبِ اربعہ کے پیروکاروں کے۔
2.
’’نص‘‘ کے قطعی
الثبوت اور ظنی الثبوت میں منقسم ہونے پر کسی اہلسنت کا اختلاف نہیں، اگرچہ اس
کےلیے تعبیرات مختلف ہوں۔
3.
’’قطعی الثبوت‘‘
نص کے آگے سب کے سب اہل سنت سر تسلیم خم، پہلے لمحے سے۔
4.
’’ظنی الثبوت‘‘
کا بھی ایک بہت بڑا حصہ سب مدارس اہل سنت کے ہاں متفق علیہ۔ جس کے بعد ’’ظنی
الثبوت‘‘ کے اس [اتنے بڑے (اہل سنت کے ہاں متفق علیہ)] حصے کو ایک اور کیٹگری حاصل ہو گئی، یعنی ’’متواتر کے ساتھ
ملحق‘‘۔ جس کے متعلق ابوالعزالحنفیؒ فرماتے ہیں: [وخبر الواحد إذا تَلَقَّتۡهُ
الأمة بالقبول عملاً به وتصديقاً له يفيد العلم اليقيني عند جماهير الأمة ولم يكن
بين سلف الأمة في ذلك نزاع ’’خبرِ واحد جب
امت کے ہاں قبولیت پا چکی ہو، یوں کہ امت اس پر عمل بھی کرنے لگی ہو اور اسے ماننے
بھی، تو جماہیرِ امت کے نزدیک وہ (حدیثِ آحاد) علمِ یقینی کا ہی فائدہ دیتی ہے۔ سلفِ امت کے ہاں اس پر
کوئی نزاع نہ تھا‘‘]۔ جبکہ دیگر ائمۂ علم سے بھی اس مضمون کی تصریحات مل جاتی ہیں؛ فرق زیادہ تر
ان کے مابین تعبیرات کا رہ جاتا ہے۔ (پھر عملی مسائل میں وارد احادیت پر تو بطورِ خاص)۔ اس کےلیے نزهة
النظر (مؤلفہ ابن حجرؒ) کے شروع میں "الخبر المُحْتَفّ بالقرائن" کا مبحث دیکھ لیا جائے، خصوصاً مبحث کا آخری جملہ: [[ ويُمْكنُ اجتماعُ الثلاثةِ في حديثٍ واحد، ولا يَبْعُدُ حينئذ القطعُ بِصدۡقِه
’’ان تینوں اوصاف (صحیحین میں آنا، تعددِ طرق، ائمہ سے مروی ہونا) کا ایک حدیث میں بیک وقت مجتمع ہونا بھی ممکن ہے، اور تب
تو اس کے سچا ہونے کو قطعی کہہ دینا بعید نہیں‘‘]]۔ اس پر علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی ابن حجر عسقلانیؒ کے اس
بیان کی زبردست تائید فیض الباری کے مقدمہ میں مبحث [[القول الفصل في أن خبر الصحيحين يفيد
القطع]] کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ نیز اس پر اہل علم کے دیگر
بےشمار بیانات۔ (عسقلانیؒ اور کاشمیریؒ کا ذکر کردہ مبحث جو کہ اخبارِ آحاد کے ایک حصہ کو
’’علم یقینی نظری‘‘ میں داخل ماننے سے متعلق ہے، اگر نہ بھی سامنے رکھا جائے، سب
اہل سنت فقہوں میں قبول ہو چکی اخبارِ آحاد عملاً طحاوی کی ذکر کردہ ’’متواتر سے
ملحق‘‘ کیٹگری میں شامل ضرور ہیں، اگرچہ وہ تعریف کی رُو سے ’’ظنی‘‘ كهلائيں۔ اور
یہ احادیث کی کوئی چھوٹی تعداد نہیں، الحمد للہ)۔
5.
اس کے بعد جو ’’ظنی الثبوت‘‘ نصوص بچیں، یعنی مختلَف فیہ اخبارِ آحاد (جی ہاں تمام اخبارِ آحاد نہیں)... تو ان کے [قبول] سے متعلق کوئی مخصوص منہج یا شروط رکھنے میں مالکؒ، شافعیؒ اور احمدؒ تک کا
اختلاف ہو گا، باوجودیکہ تینوں اصحاب الحدیث۔ بلکہ اصحاب الحدیث کے سرخیل۔ ’’اصحاب
الحدیث‘‘(ذيلي ضاحت[ii]) اور ’’اصحاب
الرأی‘‘ کا اختلاف چلیں اس سے تھوڑا وسیع تر ہو گا۔ لیکن یہ دائرہ وہ ہے جس میں
اصحاب الحدیث فقہاء تک اپنے آپس میں
اختلاف رکھیں گے۔ اس باب میں اپنی اپنی رائے کو درست اور دوسرے کی رائے کو غلط
ثابت کرنے میں کسی جھجھک یا تکلف سے کام نہ لیں گے۔ لیکن یہاں سب سے اہم نوٹ ہونے
والی بات: (’’ظنی‘‘) نصوص کے [قبول] میں اپنے باہمی اختلاف کو یہ تمام اہل سنت طبقے اہلِ حق کے آپسی اختلاف کے
طور پر لیں گے نہ کہ اُس اختلاف کے طور پر جو یہ اہل بدعت و اہلِ اھواء کے ساتھ
رکھتے ہیں اور جس میں یہ فریقِ مخالف کو صاف ’’ضلال‘‘ اور ’’شقاق‘‘ پر ٹھہراتے ہیں۔ یعنی (بعض) نصوص کے قبول کرنے میں اپنی اپنی شروط رکھنے سے متعلق
اختلاف میں، نہ مالکؒ اور
شافعیؒ (اصحاب الحدیث) ابو حنیفہؒ و ابویوسفؒ (اصحاب الرأی) کے ساتھ وہ سخت
قاموس استعمال کریں گے جو یہ اہلِ بدعت و اہلِ شقاق کے ساتھ کرتے ہیں اور نہ وہ
اِن کے ساتھ۔ جبکہ اہل بدعت کے خلاف یہ سب (اصحاب والحدیث و اصحاب الرأی) برہنہ
تلوار اور آخری درجہ میں شدید و بےلحاظ۔
6.
شریعت کا یہ حصہ، جس کے قبولِ روایات میں اگرچہ فقہاء کا اختلاف ہوا... یہ بھی
ہے سب کے ہاں شریعت۔ اور قبولِ روایت کے عمل سے گزارنے کے بعد، اس کے آگے بھی ایک
اہل سنت فقیہ، خواہ وہ اصحاب الحدیث سے ہو یا اصحاب الرأی سے، اُسی طرح سر تسلیم
خم۔
یہ تو رہا نص کے ’’ثبوت‘‘ کے حوالہ سے۔
7.
نص کے ’’قطعی الدلالۃ‘‘ اور ’’ظنی الدلالۃ‘‘ میں منقسم ہونے پر بھی کوئی
اہلسنت اختلاف نہ کرے گا، اگرچہ اس حقیقت کو تعبیر کرنے میں ان کے مابین کتنا ہی
فرق کیوں نہ ہو۔
8.
نص کی ’’قطعی‘‘ دلالت کے آگے سب تسلیم، پہلے لمحے سے۔
9.
’’ظنی الدلالۃ‘‘
نصوص کا بھی ایک بہت بڑا حصہ وہ، جس کی دلالت متعین کرنے میں اہل سنت کا کوئی
اختلاف نہیں، اگرچہ ’’پراسیس‘‘ ایک دوسرے سے مختلف ہو۔ لہٰذا یہ بھی انجامِ کار
’’قطعی الدلالۃ‘‘ کے ساتھ (عملاً) ملحق۔ اور اس کے بعد نصوص کی ایک بہت تھوڑی تعداد بچی۔
10. نص کی ’’ظنی‘‘ دلالت کے ساتھ معاملہ کرنے میں اگر کہیں کوئی
اختلاف ہوا تو اس کی حیثیت بھی اہل سنت کے آپس کے اختلاف کی، سب فقہاء کے ہاں۔
11. جبکہ یہ سب نصوص – استدلال کے طریقے مختلف ہونے کے على الرغم – شریعت۔ سب اہل سنت فقہاء کے ہاں۔
12.
’’نص کی تعظیم‘‘
بغیر ’’نص کے معنیٰ کی تعظیم‘‘ کے ایک غیر متصور چیز ہے۔ ’’نص‘‘ ہمیشہ اپنی
’’فقہ‘‘ کے ساتھ ہو گی۔ ’’نص‘‘ دلیل تو ’’فقہ‘‘ اس کا مدلول۔ مدلول کا دلیل کی
نمائندگی کر لینا لغت کا ایک رائج دستور ہے۔ یہاں؛ ہمیشہ باریکیوں میں نہ پڑنا
چاہیے اور لغت کی سہولت پر کچھ دور دراز کی نظری بحثوں کو حاوی نہ ہونے دینا
چاہیے۔ ہاں دلیل و مدلول کو ہر پہلو سے ایک کر دینا کسی قدر مذہبِ خوارج کی راہ
کھولتا ہے۔(ذيلي وضاحت[iii]) دوسری جانب (’’فقہ‘‘ کے ظنیات کو تھوڑی دیر کےلیے الگ
رکھتے ہوئے)... ’’فقہ‘‘ کے یقینیات (یا فقہ کے وہ معروف مسائل جو صحابہؓ سے وابستہ تمام مدارس
کے ہاں متفق علیہ چلے آتے ہیں) کو ’’شریعت‘‘ یا ’’نص‘‘ کا قائم مقام ماننے کا کسی بھی
حوالے سے روادار نہ ہونا رِوِژنزم revisionism (إعادۃُ فھمِ النص) ایسی ایک بدترین بدعت کےلیے راہ کھولتا ہے۔(ذيلي وضاحت[iv]) لہٰذا ہر دو
انحراف کی راہ بند کر رکھنا ضروری ہوا۔ بصورتِ دیگر ’’نص کی تعظیم‘‘ کے وہم میں
آدمی ’’نص‘‘ کا بدترین نقصان کر رہا ہو گا، جیسا کہ ’’نص‘‘ کا بہت زیادہ نام لینے
والا ایک سطح بین طبقہ اپنے ایک مخصوص بیانیہ کے ذریعے خوارج اور جدت پسند ہر دو
فکر کےلیے بیک وقت راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے، اگرچہ خود ان ہر دو مصیبت سے پاک ہو۔(ذيلي وضاحت[v])
اس
مضمون کا بقیہ حصہ ان شاء اللہ ہماری آئندہ تحریر میں بعنوان: ’’فروع سے پہلے
محکمات، اہل سنت یکجہتی اور لبرل و جدت پسند بیانیہ کا سدِ باب‘‘۔
[i] ذیلی وضاحت 1
پچھلے دنوں ’مارٹن لوتھر‘ کے حوالے سے
’’اھل الأثر‘‘ کے قدیم سے چلے آتے ایک بیانیہ کو ’’جدیدیت‘‘ کے ساتھ خلط کرنے کی
ایک بوالعجبی پر ہم نے بھی دو
چار جملے استنکار کے کہے تھے۔ واضح کر دیں، ہمارا
یہ استنکار ’’حدیث بمقابلہ فقہ‘‘ والے برصغیر کے ایک مخصوص ڈسکورس سے ذرہ علاقہ نہ رکھتا تھا۔ قرونِ سلف
کی ہر شےء کو صاف صاف ہم اون own ہی کرتے ہیں، اور اون کے علاوہ کچھ نہیں۔
’’فقہ‘‘ اپنے ان سب مذاہب اور اختلافات سمیت ہمارے اُسی عہدِ زریں کی چیز ہے۔ بعد
میں کچھ ہے تو وہ اس کا تسلسل ہے۔ لہٰذا ’’فقہ‘‘ کے ہم تو محافظوں میں آئے نہ کہ
رقیبوں میں۔
تاریخی طور پر جن کو آپ ’’اھل
الحدیث‘‘ یا ’’اھل الأثر‘‘ کے ائمہ گنتے ہیں (جن کا کچھ ذکر آگے آ رہا ہے) ان کے یہاں مثلاً
’’اہل الحدیث‘‘ اور ’’شافعی‘‘ ہونے یا ’’اھل الحدیث‘‘ اور ’’حنفی‘‘ ہونے کے مابین
کوئی تعارض ہی نہیں ہے۔ بیک وقت آدمی اھل الحدیث بھی اور کسی فقہ سے باقاعدہ منسلک بھی۔ یعنی ’’حدیث‘‘ اور ’’فقہ‘‘ اکٹھی،
نہ کہ باہم مقابلے پر۔ ہمارے عرب ممالک میں بڑی حد تک آج بھی ایسا ہے۔کچھ ہے تو بعد کی صدیوں میں آنے والے ایک مذہبی
تعصب اور فقہی جمود کی اصلاح، ’’مذہب‘‘ اور ’’فقہ‘‘ کو چھوڑے چھڑوائے بغیر۔
دعویٰ اگر ہمارا یہ ہے کہ ہم ’’اھل
الحدیث‘‘ کوئی پچھلی صدی ڈیڑھ میں سامنے آنے والا واقعہ نہیں بلکہ صدیاں پہلے سے
چلا آنے والا ایک طائفہ ہیں – اور الله کے فضل سے یقیناً ہیں – تو اپنا وہ پورا
ڈسکورس بھی ہمیں اُن ’’صدیاں پہلے‘‘ کے ائمہ کے ہاں ہی ڈھونڈنا ہے (چند متفرق ’اجزاء‘ نہیں جنہیں جوڑ کر پیش
کیا جانے والا ایک ’کُل‘ صرف صدی ڈیڑھ پرانا ہو، بلکہ وہ پورا ڈسکورس ہی من و عن
اُن ’’صدیاں پہلے‘‘ کے ائمہ کے یہاں سے لاکر دکھانا ہو گا)۔ یہاں توجہ دلانا مناسب ہو گا، اھل الحدیث یا اھل الأثر کا
پورا ڈسکورس بتانے کےلیے تراث کی لائبریری میں ’’کتبِ سنت‘‘ کے زیر عنوان ایک
باقاعده شیلف پایا جاتا ہے۔ جس میں نمایاں ترین: ’’السُّنة‘‘ یا ’’أصول السُّنة‘‘ از امام احمد بن حنبلؒ، ’’شرح السُّنة‘‘ مؤلفہ امام مزنیؒ، ’’السُّنة‘‘ مؤلفہ امام ابن ابی عاصم الضحاکؒ، ’’صريح السُّنة‘‘ مؤلفہ امام طبریؒ، ’’السُّنة‘‘ مؤلفہ امام ابو بکر الخلّالؒ، ’’شرح السُّنة‘‘ مؤلفہ امام بربہاریؒ، ’’الشريعة‘‘ مؤلفہ امام ابو بكر الآجُرّیؒ، شرح
مذاهب أهل السُّنة ومعرفة شرائع الدين والتمسك
بالسُّنن مؤلفه ابن شاھینؒ، ’’الإبانةُ الكبرىٰ‘‘ مؤلفه امام
ابن بطةؒ، ’’أصول السُّنة‘‘ مؤلفہ ابن ابی زمنین، ’’شرح أصول اعتقاد أهل
السُّنة والجماعة‘‘ مؤلفہ امام لالکائیؒ،
’’التمسك بالسُّنن والتحذير من البدع‘‘ مؤلفہ امام ذہبیؒ،
’’الاعتصام‘‘ مؤلفہ امام شاطبیؒ، ’’شرح الطحاوية‘‘ مؤلفه امام ابن أبي العزؒ ، وغیرہ۔ اس
سارے شیلف کو دیکھ جائیے، ’’سنت‘‘ کا کوئی
حوالہ ’’فقہ‘‘ یا ’’مذاہب‘‘ کے عین مقابلے پر لا کر بیان ہونے والا آپ کو ڈھونڈے
نہیں ملے گا۔ ’’سنت‘‘، ’’اتباع‘‘ اور ’’ردِّ اھواء‘‘ کا جتنا حوالہ آپ کو یہاں ملے
گا، ’’کلام‘‘، ’’خروج‘‘، ’’ارجاء‘‘ اور ’’باطنیت‘‘ وغیرہ ایسی گمراہیوں کے مقابل۔ {نوٹ
کیا جائے، یہاں ہم نے ابن تیمیہؒ کی کوئی تالیف ذکر نہ کی، کیونکہ ہمارے کچھ
ماتریدی بھائیوں کا خیال ہے ’’اثریہ‘‘ کا نقطۂ ابتداء تاریخ میں صرف ابن تیمیہؒ
ہیں! ذرا انہیں اندازہ ہو جائے، ’’الٰہیات‘‘ میں ’’سنت‘‘ کے بیان کا یہ ایک مخصوص
پُر جزم انداز، ’’کلام‘‘ کو ہزار میل سے سونگھ لینے کی یہ (مُرھَف) حس، نیز ’’کلام‘‘ کے ادنیٰ ترین اثرات
سُنی بیانیہ سے کھرچ کھرچ کر اتارنے کی یہ لگن، جس کےلیے ’’صفاتِ خبریہ‘‘ کا وہ
صریح و بلا تاویل اثبات شروع تا آخر ایک کسوٹی بنا رکھا گیا، ’’ابن تیمیہ‘‘ سے
کتنا پہلے سے چلا آتا ہے}۔
یہاں،
اگر ہمارے ’’ردِّ مذاہب‘‘ کے داعی حضرات
فرمائیں کہ جس شیلف کا ہم نے اوپر ذکر کیا وہ تو ان کے خیال میں نری ’’کتبِ
عقیدہ‘‘ ہیں صرف نام ان پر کثرت کے ساتھ ’’سنت‘‘ ’’سنت‘‘ آتا رہا! تو علاوہ اس بات
کے کہ ’’اعتصام‘‘ اور ’’اتباعِ سنت‘‘ کے تحت ہمارے اھل الاثر کا اصل ڈسکورس ہے ہی
وہ ’’فقہِ اکبر‘‘ (بمقابل ضلالِ جہمیہ
تا ضلالِ ہیومن ازم)، اور علاوہ اس بات کے کہ ان کتب میں صرف ’’عقیدہ‘‘ نہیں
’’منہج‘‘ کی بھی پوری ایک تقریر ہے خصوصاً دینِ آسمانی میں ’’کلام‘‘ کے سدباب سے
متعلق اور دین کی تلقّی میں مدرسۂ صحابہؓ کو اساس ٹھہرانے سے متعلق، نیز ان کتب
میں اپنے دور کے لحاظ سے ’’فرقۂ ناجیہ‘‘ کو ممیز کرتے امور کا ایک کامل و شامل
بیان ہے... علاوہ ان سب باتوں کے، ہم ان دوستوں سے پوچھیں گے کہ ’’اثریۃ‘‘ یا
’’اھل الحدیث‘‘ کا اصل ڈسکورس بتانے کےلیے ائمہ کی اگر یہ کتب نہیں تو اس کے
متبادل آپ فرما دیجیے کونسی کتب ہیں جنہیں اس پورے مدرسہ کی نمائندہ مؤلفات کہا جا
سکے اور جن کا اصل موضوع (ائمہ
کے اپنے اپنے زمانے میں) حق اور ضلال کا بیان
ہو؟ ’’فقہ‘‘ و ’’مذاہب‘‘ کے مقابل لائے جانے والے کسی ’’بیانِ سنت‘‘ میں، جو حالیہ
عشروں میں برصغیر کا بہت بڑا حوالہ رہا، متقدمین کی تالیفات کا کوئی ’’ذخیرہ‘‘ تو
سوال ہی نہیں (جبکہ ’’ڈسکورس‘‘ جیسی
چیز کی تقریر کےلیے ضروری وہی تھا)،
ہمارے یہ حضرات زیادہ سے زیادہ کوئی خارج از سیاق ’عبارت‘ ہی ابن عبد البرؒ و ابن
قیمؒ وغیرھم ائمہ سے دکھا سکیں گے، جس کا صحیح سیاق ہم انہی ائمہ سے ان شاء اللہ
دکھا دیں گے کہ ’’مذاہب‘‘ کے ساتھ معاملہ کرنے میں اُن کا پورا بیانیہ کیا رہا ہے۔
غرض ائمہ کا وہ پورا ذخیرہ کھنگال جائیے، سرے سے ایک جنگ ہے
ہی نہیں جس کا صدی بھر سے شور ہے۔ جبکہ ایسا نہیں کہ فقہی مذاہب نامی یہ ’’فتنہ‘‘
ہماری اِن آخری صدیوں میں ہی کہیں جا کر پیش آیا ہو، تاکہ اس کے ساتھ پیش آنے کے موضوع پر ’’ہم‘‘ ہی نقطۂ ابتداء مان
لیے جائیں...! (دورِ ائمۂ اربعہ کے بعد) وہ سب ترجمانِ سنت جو اپنے اپنے عہد کی گمراہیوں
کے اِبطال پر مدرسہ اھل الحدیث کے ہاں سند مانے گئے [ مُزَنیؒ (فقہ، شافعی) م264ھ، ابن ابی عاصم الضحاکؒ (ظاہری) م287ھ، طبریؒ (شافعی، ثم مجتہد مطلق) م310ھ، ابن خزیمۃؒ (فقہ، شافعی) م311ھ، الخلّالؒ (فقہ، حنبلی) م311ھ، طحاویؒ (فقہ، حنفی) م321ھ، بربہاریؒ (فقہ، حنبلی) م329ھ، الآجُرّیؒ (فقہ، حنبلی) م360ھ، دارقطنیؒ (فقہ، شافعي) م385ھ، ابن بطةؒ (فقہ، حنبلي) م387 ھ، ابن مندةؒ (فقہ، حنبلي) م395ھ، ابن ابی زمنینؒ (فقہ، مالکی) م399ھ، لالکائیؒ (فقہ، شافعي) م418ھ، ابن عبدالبرؒ (فقہ، مالكی) م463ھ، تقی الدین ابن قدامۃؒ (فقہ، حنبلی) م600ھ، موفق
الدین ابن قدامۃؒ (فقہ، حنبلی) م620ھ، ابن تیمیہؒ (حنبلی، ثم مجتہد مطلق) م726ھ، ابن قیمؒ (فقہ، حنبلی، تیمی) 751ھ، مِزِّیؒ (فقہ، شافعی) م742ھ، ذہبیؒ (فقہ، شافعي) م748ھ، ابن أبي العزؒ (فقہ، حنفي) م 792ھ وغیرھم]
... یہ سب ائمۂ اھل الحدیث جس دور میں ہوئے وہاں ’’مذاہب‘‘ عين اپنی اِس شکل میں پائے ہی جاتے تھے!
غرض اصولِ دین کے اِثبات اور گمراہیوں کے اِبطال کے ریفرنس سے ہمارے
یہاں جو چیز ہے وہ ہے ’’فقہِ اکبر‘‘ جس کے ڈسکورس میں ’’مذاہب‘‘ کے ساتھ ٹکراؤ
كا کوئی اشارہ تک نہیں۔ اور یہی (فقہ اکبر) اھل الحدیث نامی
ایک طائفہ کا امتیازی حوالہ۔ رہ گئی ’’فقہِ اصغر‘‘ تو اس کا سب حوالہ اِن اصحابِ
حق کے مابین آپس کا ہے؛ یعنی سب مذاہب ’’اھل الحدیث‘‘ ہی کے مذاہب۔ یہ وجہ ہے، ’’اہلحدیث‘‘
جانب سے خود ہمارے برصغیر میں تراث کی کسی مؤلَف کی کبھی نشاندہی کر کے نہیں دی گئی کہ خاص یہ ہمارے
اصولِ فقہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ’’اھل الحدیث‘‘ کوئی ایک فقہی گروہ سرے سے نہ رہا تھا؛ بلکہ اہلسنت کے سب فقہی ڈسپلن مانند (حنفی، شافعی، مالکی،
حنبلی، ظاہری وغیرہ) اھل الحدیث ہی کے ڈسپلن ہیں۔ اور در اصل یہ (اھل
الحدیث) ’’فقہِ اکبر‘‘ اور ’’اصولِ دین‘‘ کو لے
کر روزِ اول سے میدان میں اترا ہوا ایک گروہ [جس
کا اصل دائرۂ عمل: ایک عقائدی و تہذیبی احیاء، ’’الجماعۃ‘‘ کا احقاق، رسالت کے مضمون (آسمانی
حقیقت) کو مسلسل زندہ اور تازہ رکھنا، اور
دشمنانِ ملت کے خلاف جہاد ہر ہر سطح پر]۔
تُراث میں اھل الحدیث کے سب امتیازی مراجع اسی ایک بات کے نشان دہ۔
’’روایت‘‘ کے لفظ پر، یا پھر اس کے کچھ حالیہ
استعمال پر، مجھے تھوڑا تحفظ ہے، لیکن تھوڑی دیر کےلیے اگر یہ لفظ استعمال کر لیا
جائے تو ’’فقہ‘‘ اور ’’فقہی مذاہب‘‘ سے بڑھ کر ہمارے پاس کیا روایت ہو گی؟ ’’شریعت‘‘ کے ساتھ معاملہ کرنے میں عقل
انسانی کےلیے بیک وقت جو ’’قیود‘‘ اور ’’آزادیاں‘‘ اور جو ’’یکسانیت‘‘ اور ’’تنوع‘‘ اور جو ’’تسلسل‘‘ اور
’’توسع‘‘ ہمارا وہ فقہی ورثہ فراہم کرتا ہے
جو قرونِ سلف میں سامنے آنے والے سنت پر قائم ’’مذاہب‘‘ کی صورت میں ہمیں دستیاب ہوا، وہ اِس بنجاری
عقل کو بعد کے عباقرہ کب دے سکتے ہیں؟ اوپر مذکور ہمارے اُس استنکار کا تعلق دراصل
قرونِ سلف کے بعد ظاہر ہونے والے کلامی اور صوفی تجاوزات سے تھا جنہیں ’مارٹن لوتھر‘
کی دلیل سے اور ’روایت‘ کی دھونس سے آج ہمارے حلق سے اتارا جانا مقصود ہے، اور جس
میں قرونِ سلف کی صاف ستھری اشیاء کو ’’استعمار سے متصل پہلے کے عالم اسلام‘‘ کے
ساتھ خلط کر کے دیکھنے دکھانے کی ایک کوشش ہو رہی ہے، اور جس کے ساتھ ’’اھل
الأثر‘‘ کا ایک جھنکار clash پیچھے سے چلا آتا
ہے (مارٹن لوتھر کے والد کی بھی پیدائش سے بہت صدیاں پہلے سے)۔ رہ گیا یہ ’’حدیث بمقابلہ فقہ‘‘ والا ڈسکورس اور وہ بھی
اِس ’عوامی تسہیل‘ کے ساتھ، جس پر مسلمانوں کی مسجدیں اور نمازیں تک الگ ہو جانے
کی نوبت آئی رہی، تو وہ خاص اِسی صدی ڈیڑھ کی یادگار ہے، خصوصاً ہمارے برصغیر میں۔
بحث اس پر ہو سکتی ہے کہ کس طرف سے اس میں زیادہ حصہ پڑا۔
______
[ii] ذيلي
وضاحت 2
لفظ اھل الحدیث کے دو اِطلاق رہے ہیں:
1.
ایک: مدرسۂ عراق (اھل الرأی) کے مقابلے پر خاص مدرسۂ حجاز پر بول
دیا جانے والا لفظ۔ (مدرسۂ حجاز جو بعد ازاں مدرسۂ مالکؒ، مدرسۂ شافعیؒ اور مدرسۂ احمدؒ وغیرہ
کی صورت محفوظ ہوا)۔ یہ کچھ خاص فقہی رجحانات کےلیے مستعمل لفظ تھا اور اس میں ’’مقابلے پر‘‘ بھی
ہر ہر پہلو سے اہل سنت وابستگانِ صحابہؓ ہی تھے۔ دونوں میں فرق خالصتاً علمی
اعتبارات کا ہے (نص کی وسعتوں کے ساتھ مجتہدینِ صحابہؓ کا وہ تعامل جو اُنہیں تعلیمِ نبوت سے
حاصل ہوا، کبھی سامنے نہ آتا اگر ان دو مدرسوں، اور خود ان کے اندر بہت سے مدرسوں،
کا یہ ایک نہایت صحتمند تفاعل نہ ہوا ہوتا)۔ دونوں کے مابین بیان کی جانے والی چشمک بڑی حد تک غیر
حقیقی، جس کی ان شاء اللہ کسی وقت وضاحت کریں گے۔
2.
’’اھل الحدیث‘‘ کا دوسرا حوالہ وہ:
جو امت میں آنے والے، خصوصاً اہل سنت وجود
پر حملہ آور، عقلی و تہذیبی انحرافات کے مقابلے پر بولا گیا اور جو رفتہ رفتہ اس
قدر زور پکڑ گیا کہ لفظ ’’اھل الحدیث‘‘ سے تقریباً یہی حوالہ ذہنوں کے اندر باقی
رہ گیا... اور یہی قرونِ سلف کے مابعد صدیوں کا سب سے معروف استعمال۔ یوں سمجھیے،
براعظموں پر پھیلے اہل سنت وجود کا یہ وہ تخمدان core تھا جو خود اہل سنت کی مسلسل تولید reproduction اور ری جنریش regeneration کےلیے درکار رہا
تھا؛ کہ ایک اتنے بھاری بھر کم وجود کو قیامت تک اُسی پرانی حقیقت پر برقرار رکھنا
اور اس کی ترکیب میں سرایت کرنے کےلیے بےچین نئے سے نئے عناصر کا برابر ازالہ – اور اس محاذ پر
’’زمانے‘‘ کے تقاضوں کو مسلسل بےاثر – کیے رکھنا کوئی
چھوٹا چیلنج نہ تھا؛ جس کےلیے اپنوں سے بھی بہت کچھ سننا پڑتا اور پرایوں سے بھی۔
بلکہ یہ کام معجزے سے کم نہ تھا۔ تھا
البتہ یہ ایک انسانی عمل، جس میں افراد و شخصیات کی سطح پر اِفراط و تفریط اور ظلم
و زیادتی کا امکان بھی بہرحال موجود رہتا ہے، البتہ مجموعی طور پر یہ اِس امت کے
دین کو [عمل اور ’’روایت‘‘ کی سطح پر] محفوظ و مامون رکھنے کےلیے ایک آسمانی
انتظام تھا۔ لفظ ’’اھل الحدیث‘‘ کا یہ
اطلاق ’’اصحاب الحدیث‘‘ اور ’’اصحاب الرأی‘‘ والی اُس فقہی تفریق سے بہت اوپر ہے۔
لفظ کے اِس اطلاق کی رُو سے ’’اھل الرأی‘‘ کا ایک بہت بڑا طبقہ بھی اُس پرانی
اسلامی حقیقت کی تقریر و ترسیخ اور نئے رجحانات کے اِبطال و بیخ کنی میں ’’اھل
الحدیث‘‘ ہی کے طور پر برسرِ عمل رہا اور یہ لفظ بلا تفریق ان سبھی طبقوں پر بولا
گیا اور آج تک بولا جاتا ہے (خصوصاً عرب کے علمی و دعوتي حلقوں میں)۔ ایک نئے قاری کےلیے، ’’اھل الحدیث‘‘ کا
اطلاق ہماری تحریروں میں بالعموم اس کے اسی معروف معنیٰ پر ہوتا ہے... اور جس کی رُو
سے – زمانۂ حاضر کی شخصیات میں – احمد شاکر حنفی اور
مفتی شامزئی حنفی، اور محمد امین شنقیطی مالکی اور محمد حسن الددو مالکی، اور عبد
الرحمن معلمی شافعی اور صلاح الصاوی شافعی، اور بكر ابو زيد حنبلي اور سفر الحوالی
حنبلی كا بھی لفظ ’’اھل الحدیث‘‘ پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ناصر الدین البانی
سلفی، تقی الدین ہلالی ظاہری اور ارشاد الحق اثری کا، أدامَ
اللهُ نفعَهم۔ جس معنیٰ میں یہ سب لوگ ایک جماعت بنتے
ہیں اُس معنیٰ کا احیاء فی زمانہ ہماری تحریروں کا ایک بڑا مقصد۔
لفظ ’’اھل الحدیث‘‘ کا ایک عجیب و غریب اطلاق البتہ ہمارے
برصغیر میں خاصے عشروں سے ہونے لگا، اور وہ ہے اہل سنت کے معروف فقہی مذاہب کے
باقاعدہ مقابلے پر لائی گئی ایک چیز، یہاں تک کہ اس میں حنفیت سے ’’تائب‘‘ ہونے
اور کروانے کا حوالہ عام چلتا دیکھا گیا (گو عشرے ڈیڑھ سے اس میں کچھ کمی آئی ہے)۔ یہ اس لفظ کا سراسر ایک محدَث حوالہ
ہے، لیکن یہ پبلک میں رائج فی الوقت اس قدر ہے کہ ایک عام آدمی اس کا تقریباً یہی
معنیٰ لینے لگا، جس کی وجہ سے اس لفظ کے علمی و تاریخی اطلاقات پر یقین رکھنے والا
ایک شخص، پبلک کو کنفیوز کرنے ڈر سے، اس لفظ کے استعمال میں کچھ متحفظ ہونے پر
مجبور ہے۔ خود ہم یہ مضمون بسا اوقات ’’اھل الاثر‘‘ یا ’’اثریہ‘‘ کے تحت ادا کرنے
کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ویسے اس کےلیے سب سے مقبول و معروف لفظ ’’اھل الحدیث‘‘
ہی تھا۔
[iii] ذیلی وضاحت 3
’’فقہ‘‘ دو حصوں پر مبنی ہے: ایک وہ
مسائل جو وابستۂ صحابہؓ مذاہب کے مابین متفق علیہ ہیں۔ انہیں ہم ’’اصول‘‘ بھی کہہ
دیتے ہیں۔ دوسرا جو ان مذاہب کے مابین
مختلف فیہ ہیں، جنہیں ہم ’’فروع‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں:
1.
اول الذکر کو تو شریعت کے قائم مقام لے لینے میں کوئی مسئلہ نہیں، سوائے اس
ایک بات کے کہ ’’نص‘‘ کا بالکل پس منظر میں چلا جانا (’’نچوڑ‘‘ نکال لیا جانے کے بعد قیامت تک اب وہ بس تلاوت
کےلیے رہ جانا!)، اور معاشروں کا حوالہ ایک تسلسل کے ساتھ قدم قدم پر آسمان سے اتری ہوئی
’’نص‘‘ نہ رہنا، ’’نص‘‘ کے خلافِ شان ہے۔ (مگر یہ ایک ٹیکنیکل سے زیادہ وجدانی و تربیتی مسئلہ ہے جسے
فی الحقیقت تعلیم، تلقین اور ابلاغ میں اختیار کیے جانے والے خطاب کے اندر سمویا
جانا ہے نہ کہ فقہ و اصولِ فقہ کی بحثوں میں اس کو ایک ایشو بنایا جانا ہے۔ پھر
کسی قدر یہ دورِ حاضر کے چند باطل تصورات مانند ’’ریاست‘‘ اور ’’آئین پرستی‘‘ constitutionalism وغیرہ کے اِبطال اور اس کے مقابل ’’ملت‘‘ اور
’’رسالت و وحی‘‘ ایسے کچھ بنیادی اسلامی مفہومات کی ترسیخ کا متقاضی۔ لہٰذا یہ اِس
مقام سے متعلقہ نہیں۔ اس کی وضاحت ان شاء اللہ کسی اور وقت)۔
2.
لیکن ثانی الذکر (فروع) میں ظاہر ہے آپ ایک رائے پر ہوں گے تو کوئی دوسرا کسی دوسری رائے پر۔ اب
یہاں، آپ اپنی رائے یا استدلال کو ’’صوابٌ یحتمل الخطأ‘‘ کی حیثیت میں ہی اختیار
اور مخالف رائے کو ’’خطأٌ یحتمل الصواب‘‘ کی حیثیت میں ہی رد کریں گے۔ (’’فقہ‘‘ کے دوسرے حصہ کی یہی حیثیت، تمام
اہل سنت فقہاء کے ہاں)۔ لیکن خوارج کا طرزِ فکر یہ کہ ان کی رائے یا استدلال کیونکہ ان کے تئیں ہر
معنیٰ میں شریعت کا مترادف ہوتا ہے لہٰذا ان کے ساتھ اختلاف کرنا شریعت کے ساتھ
اختلاف کرنا ہوا۔ یوں جو آپ کی رائے کا مخالف وہ شریعت کا مخالف! بلکہ منکر...! (اور پھر چل سو چل!!!) حقیقت یہ ہے کہ ہر فقہی مذہب کے متعصبین
(نیز وہ بھی جو اپنے آپ کو کسی ’مذہب‘ کا پیرو نہیں مانتے لیکن اپنے مخالف رائے
یا مذہب کو ’’کتاب و سنت کو ٹھکرانا‘‘ قرار دینے میں متعصبینِ مذاہب سے بڑھ کر
شدید ہیں) اپنی اس مخصوص خصلت میں خوارج کے پیرو ہیں اور اہل سنت کے طریق سے کوسوں دور۔
نوٹ: اختصار کےلیے، جہاں اپنی گفتگو میں
ہم ’’فقہاء‘‘ کا لفظ بولیں گے اس سے مراد صرف اُنہی مذاہب کے فقہاء ہیں جو صحابہؓ
سے چلے آنے والے فقہی مدارس ہیں۔ نہ کہ شریعت پر بات کر لینے یا ’دلیل‘ کا بندوبست
کر لانے والا ہر شخص۔ کیونکہ ’’سنت‘‘ اور ’’بدعت‘‘ کا مُفترَق cross-road صحابہؓ کے علم و فقہ سے ایک منظم وابستگی یا عدم
وابستگی ہے، اس کےلیے اور کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
مزید ایک چیز: ’’فہم‘‘ یا ’’استدلال‘‘ کے
مختلف فیہ امور میں تمام فریقوں کا مستند چونکہ ’’نص‘‘ رہے گی، یعنی ’’فہم‘‘ کئی
اور ’’نص‘‘ ایک... لہٰذا فقیہ یا اس کا مقلد یہاں صرف اپنے حوالہ سے ’’فہم‘‘ اور
’’نص‘‘ کو ایک کرے گا نہ کہ امت کے حوالہ سے۔ یہ ایک اتنا سا فرق اوجھل کر لینے کے
باعث، بحث کا ہر فریق بیک وقت ایک صحیح بات کا اثبات اور دوسری صحیح بات کی نفی کر
رہا ہوتا ہے! یہ تھوڑا اس اجمال سے نکل جائیں تو کبھی اس پوائنٹ پر اختلاف نہ کریں،
کیونکہ دونوں اہل سنت ہیں۔
______
[iv] ذیلی وضاحت 4
جیسا کہ ہم نے کہا، فقہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے: ایک وہ
جو (وابستۂ صحابہؓ) فقہاء کے مابین متفق علیہ رہا ہے، اور جو کہ شریعت کی مین باڈی main body ہے، اور جسے ہم
’’اصول‘‘ بھی کہہ لیتے ہیں۔ دوسرا، جو ان
فقہائے (سنت) کے مابین مختلف فیہ ہوا ہے، اور جسے ہم ’’فروع‘‘ کہہ لیتے ہیں:
1.
ثانی الذکر (فقہ کے مختلف فیہ حصہ) میں بات کرنے کی گنجائش ہم ایسے ہی شخص کےلیے مانتے ہیں جو
اول الذکر کو پہلے تسلیم کرے۔ یعنی فقہ کی
اس مین باڈی کو قبول کرے جو (وابستۂ صحابہؓ) مذاہب کے ہاں مشترک اور ’’طےشدہ‘‘ چلی آتی ہے۔
2.
اصل ہے اول الذکر۔ یعنی شریعت یا فقہ کی مین باڈی۔ )اصول(۔ یہاں شریعت وہی ہے جو فقہ ہے (جبکہ ’’کئی فقہیں‘‘ یہاں سرے سے نہیں ہیں)۔ شریعت اور فقہ کے مابین یہاں خوامخواہ کی تفریق دین
میں نئی نئی اشیاء کو جنم دلوانے کا پیش خیمہ ہو
گا۔ یہاں شریعت کے کچھ ایسے معانی تجویز کرنا جو ’’فقہ‘‘ سے ہٹ کر ہوں، نرا فساد اور ضلال ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کو فی
زمانہ ہم جدت پسندی (عصرانیت revisionism) کے زیرِعنوان مذموم ٹھہراتے ہیں۔ دین کے اندر یہ ضلال اور الحاد اختیار کرنا
ہمیشہ سے ہی برا تھا لیکن آج جب انسانی نظر پورے جہان میں رائج ہو چکے ایک ابلیسی
فکر ’’ہیومن ازم‘‘ کے زیر تسلط آ چکی، اور جس سے بڑا پیراڈائم شفٹ ہماری نظر میں
تاریخ انسانی کے اندر کبھی نہیں ہوا تھا... تو آج اس ’’رِوِژنسٹ‘‘ revisionist طرزِ فکر کو ہمارا
اپنے یہاں ایک بھی انچ جگہ دینا اسلام کا انہدام اسلام کے نام پر ہونے کی ایک
بنیاد چھوڑ رکھنے کے مترادف ہو گا۔ اس پر
جتنی سختی کر دی جائے تھوڑی ہے۔ جتنے پہرے یہاں بٹھا دیے جائیں، کم ہے۔ خاص اِس
سیاق میں بار بار کہنا چاہیے، شریعت فقہ ہے اور فقہ شریعت۔ نہ شریعت فقہ کے سوا
کچھ ہے اور نہ فقہ شریعت کے سوا کچھ اور۔
[v] ذیلی وضاحت 5
برصغیر کی حد تک، یہ غیر علماء (واعظوں، مبلغوں وغیرہ کا) وہ ایک مخصوص طبقہ ہے جس کی بہت زیادہ
تان ’’فقہ‘‘ اور ’’ائمۂ فقہ‘‘ کو گرانے پر ٹوٹتی رہی ہے، یہاں تک کہ ان کے بیانیہ
سے متاثر ہونے والے عام عوام یہاں فقہ
نامی کسی ’خوفناک‘ و ’مذموم‘ شےء کو حدیث کے rival (بیری / رقیب) اور منافس competitor کے طور پر دیکھنے لگے اور ائمۂ فقہ کو
معاذاللہ نبیﷺ کے مقابل لا کر۔ واعظوں کا یہ ٹولہ گزشتہ چند عشروں سے مسلک کی
’سٹریٹ‘ پر چھایا دکھائی دیتا اور مسلک کے کبار علمائے مُوَقِّعین کو یہاں کسی قدر
ری پلیس replace بلکہ اوجھل کر جاتا
رہا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کی نظر میں، یہی لوگ عالم و مفتی و
اصولی! کوئی عشرہ دو عشرہ ہوئے البتہ یہ
ٹولہ کسی قدر tone down ہوا ہے (اسباب کا استقصاء کسی قدر مشکل)، جس سے مسلک کے علماء و اہلِ اِفتاء
اساتذہ کو توجہ واپس ملنے لگی ہے، جس سے
’’سٹریٹ‘‘ پر بہتری آنے کی کچھ آس ہے، اللہ کرے۔