حامد کمال الدین
بعض
مباحث بروقت بیان نہ ہوں تو پڑھنے پڑھانے والوں کے حق میں ایک زیادتی رہ جاتی ہے۔ جذبۂ
عمل میں گڑبڑ اور کنفیوژن نقصان دہ ہے اور اہداف کے اندر دوئی تباہ کن۔ عمل میں یکسوئی دینی
طبقوں کو ایک بڑی شاہراہ پر چڑھا سکتی ہے۔ اصلاح کا عمل کسی وقت تلخ گوئی
کا متقاضی بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جن احباب پر میرے اس مضمون کے مندرجات گراں گزریں،
ان سے پیشگی معذرت۔
*****
سوشل میڈیا اور دیگر ابلاغی
فورموں پر پائے جانے والے اپنے
دیندار کہیں ’مسلک‘ یا ’تنظیم‘ کے جیالے ہوں گے تو کہیں اسلام یعنی ’’السنۃ
والجماعۃ‘‘ کے سپاہی۔ بہت بار ان دونوں کا میدان اور موضوع اور ’’ہیش ٹیگ‘‘ بےشک
ایک ہو جاتا ہو، مگر ہے ان دونوں کے مابین زمین آسمان کا فرق۔ والله يعلم المفسدَ
من المصلح۔ مسئلہ آپ کا ایک ’مسلک‘
یا ’تنظیم‘ سے وابستہ ہونا نہیں۔ ’’السنۃ والجماعۃ‘‘ کے بڑے دائرہ سے وابستہ آدمی
کےلیے مسلک یا تنظیم جس وقت صرف ایک علمی یا عملی ڈسپلن ہو، اس وقت ان اشیاء سے اس
کا منسلک ہونا خیر ہی خیر ہو گا۔ البتہ جس وقت آدمی کا ’اپنا‘ مسلک یا تنظیم بجائےخود
’’السنۃ والجماعۃ‘‘ ہو، تب شر کا اس سے بڑا منبع، نیز غربتِ اسلام کے اِس دور میں جسدِ
اسلامی کو کاٹنے پھاڑنے کی اس سے بری صورت، آپ کے حق میں شاید ہی کوئی ہو۔ عمل
بظاہر دونوں کا ایک ہی ہو گا، مگر محرکات اور دوافع، بعد المشرقین۔ "فمن
كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا
يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه"!
عمل کی ظاہری صورت تو ہر دو عامل کے ہاں ظاہر ہے ایک ہی ہوتی ہے، اکثر اوقات۔
البتہ درونِ عمل جو ’’تلاطم‘‘ ہے وہ خدا ہی جانے، کہاں سے آیا اور کہاں لے جانے
والا ہو!
غرض ایک پہلو مسلک اور تنظیم کا
اچھا ہوا۔ جبکہ ایک دوسرا پہلو ’مسلک‘ یا ’تنظیم‘ کو ماننے کا دین و امت کے حق میں
نقصان دہ، خصوصاً جس وقت ’’باعثِ عمل‘‘ نری ایسی ہی چیزوں سے پھوٹنے لگا ہو۔
پس جس پہلو سے میری یہ گزارشات
کسی کے مسلک یا تنظیم کے حق میں ’گستاخی‘ باور ہوں، اس کی وضاحت یہاں پہلے ہی کر
دی جاتی ہے۔ ایسی ’گستاخی‘ روئے زمین کے بعض طبقے عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام
کےلیے بولے جانے والی حق بات (إِنَّمَا
الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى
مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ) کے اندر بھی دیکھنے لگتے ہیں
اور اولیاء سے متعلق غلو کی نفی پر مشتمل ہمارے ایک معروف توحیدی بیانیہ کے اندر
بھی۔ عیسیٰ علیہ السلام ایسا جلیل القدر پیغمبر اگر کچھ لوگوں کے حق میں معاذاللہ
باطل معبود ہو سکتا ہے تو یہ کہنے میں کیا باک رہ جاتا ہے کہ’مسلک‘ اور ’تنظیم‘
اپنی جگہ ایک سو فیصد درست اور حق چیز ہونے کے باوجود بعض لوگوں کےلیے ’بُت‘ کی حیثیت رکھ سکتا ہے۔ ہماری گفتگوؤں
میں کبھی بھی اس پر کوئی ایسا شدید لفظ بولا جائے، تو اس کا صرف اور صرف یہی پس
منظر ہو گا۔
*****
بہت سے
ایشوز ایسے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے ’مسلک‘ یا ’تنظیم‘ کے بھی ایشو ہو جاتے ہیں
لیکن بیک وقت وہ امت اور ’’السنۃ والجماعۃ‘‘ کے بھی مسئلے ہوتے ہیں۔ ایسے کسی ایشو
پر، بعض اوقات امت کا ایک اچھا مومنٹم بھی بن جاتا ہے اور ایک بڑی سطح پر وہ لوگوں
سے توجہ بھی پانے لگتا ہے۔ یہاں کسی وقت؛ وہ ’تنظیمی‘ یا ’مسلکی‘ ذہن ایک فاتحانہ
شان کے ساتھ ’مخالف کیمپ‘ کی طرف دیکھنے لگتا ہے: ’وہ چپ ہے، بھلا نوٹ کیا تم نے‘!
’دیکھا فلاں کو سانپ سونگھ گیا، بھلا وہ کیوں نہیں ہمارے ساتھ مل کر بول رہا‘! نام
لے لے کر ’فلاں‘ اور ’فلاں‘ کو ایکسپوز کرنے اور ’دین و ملت‘ کے ساتھ اُس کے غیر
مخلص ہونے کو عوام کے سامنے لانے کا وقت آن پہنچا! اُس دوسرے کا بھی بس چلا تو وہ
اِس پہلے کے ساتھ خدا کے فضل سے ایسا ہی کرے گا، بس موقع آنے کی دیر ہے! سب حساب
جمع ہو رہے ہیں! ’’اسلام‘‘، ’’امت‘‘، ’’امت کا مفاد اور شیرازہ بندی‘‘ سب کچھ گیا
بھاڑ میں؛ یہاں ’اپنے‘ جھنڈے گاڑنے کا وقت ہے!
دوست
احباب میرے ان کلمات سے ناراض نہ ہوں.. تو پچھلے کئی سال سے یہ ’سلفی۔اخوانی‘ عداوت امت اور السنۃ
والجماعۃ کے حق میں ایک ناسور چلی آ رہی ہے۔ احیائے اسلام کے حق میں امت کی یہ دو
بہترین سٹریمز ہیں؛ مگر شیطان ان کے ایک ایک طبقے میں عداوت کھڑی کروانے میں پوری
طرح کامیاب۔ امت کا کوئی ایشو ہو، جیالے اپنے اپنے بت کی جے بولنے پر ہمہ دم تیار،
’عزائم‘ بیدار اور ’جذبۂ عمل‘ آخری حد تک بےقابو! کچھ ’حکمت‘ سے کام لینے کا خیال
ہے بھی تو اس پہلو سے کہ پوائنٹ سکورنگ کس ڈھنگ سے کرنی ہے اور موقع کی نزاکت سے
کیسے نمٹنا ہے! ’’اہل اسلام‘‘ کی شیرازہ بندی وہ جو ’ہمارے پیچھے‘ آ کر عمل پزیر
ہوتی ہو، نہیں تو جائے جہاں جاتی ہے!
*****
احباب
محسوس نہ کریں تو ان رویوں کی چند مثالیں بھی دے دوں۔
محمد مرسی
رحمه الله کی
مظلومانہ موت پر، یا مصر میں الاخوان المسلمون پر ڈھائے جانے والے مظالم پر، امت
نے بڑی سطح پر یکجہتی کا اظہار کیا، الحمد للہ۔ یہاں کال نوٹس آنے لگے: (سلفی کیمپ
سے) ’فلاں‘ اور ’فلاں‘ آخر چپ کیوں ہے بول کیوں نہیں رہا؛ کیا مصری حکام کے مظالم
جو وہاں دینداروں پر ڈھائے جا رہے ہیں، ہمارے اِن دینداروں کو نظر نہیں آ رہے؟!‘
لیکن تھوڑی دیر رکیے، یہ کچوکہ لگانے کا داعیہ کیا واقعتاً ’’اسلام‘‘ اور ’’امت‘‘
اور ’’سنت‘‘ کے خیال ہی میں پھوٹا ہے؟ ٹھیک ہے۔ تو کیا جس وقت ایران میں اہل سنت
داعیوں کو بےتحاشا پھانسیاں دی جا رہی ہوتی ہیں تب آپ یہیں ہوتے ہیں؟ اُس وقت آپ
کی زبان کو تالے کیوں لگ جاتے ہیں؟ خالی احتجاج یار! ایک صریح ظلم کی نری مذمت،
کیا اس پر بھی زبان ساتھ نہیں دیتی؟ پورے طہران میں اہل سنت کو جمعہ پڑھنے کےلیے
ایک بھی مسجد میسر نہ ہونا، سوائے پاکستانی ایمبییسی کی مسجد کے، اور اسی طرح
اہلسنت کو کچھ بنیادی ترین ’جمہوری حقوق‘ سے ایران میں محروم رکھا جانا۔ کچھ
فلسفیانہ جواب اگر یہاں میسر ہیں مانند ’آپ کو معلوم نہیں، اصل میں یہ ایران کے
اہل سنت طبقے کچھ نادانی سے بھی کام لیتے ہیں اور غیر ضروری طور پر مسئلے کو محاذ
آرائی کی جانب دھکیل بیٹھتے ہیں‘ تو ایسے جواب دوسری طرف کے کیمپ کے پاس ’اخوان‘
سے متعلق بھی تیار حالت میں دستیاب ہیں جو اس کے خیال میں ’حکمرانوں‘ کے ساتھ
خوامخواہ کی ایک محاذ آرائی کا منہج رکھتے ہیں!
اللہ
اللہ، خیر صلا۔ یہ بھی ’رفعِ اشکال‘ میں خوب وہ بھی ’جواب‘ میں تاک! آپ کو اندازہ
نہیں ایسی توضیحات اور جوابات اور ’رفعِ اشکالات‘ جیالوں کے سینے پر کیسی ٹھنڈ
ڈالتے ہیں! مصر میں سیکولرز اور ایران میں رافضہ کے اہلسنت پر ڈھائے جانے والے
مظالم پر ’مذمت‘ کے یہ دو الفاظ بولنا یا نہ بولنا تو ہوا ان جواب در جواب بحثوں
کا ایک ظاہری موضوع۔ لیکن کبھی اُس ’ذہنی آسودگی‘ اور ’قلبی انشراح‘ کا بھی آپ نے
اندازہ کیا ہے جو جیالوں میں ان ’جوابات‘ اور ’رفعِ اشکالات‘ سے خودبخود ہوتا ہے؟
یعنی مصر اور ایران میں داعیانِ سنت و حق پر ڈھائے جانے مظالم کو کسی قدر حق بجانب
بھی دیکھنے لگنا!!!
اور آگے
بڑھیے۔ یہ جو مصر میں الاخوان المسلمون پر ظلم ڈھائے گئے (اور میں بھی کہتا ہوں
بلاشبہ ڈھائے گئے، خدا ان ظالموں سے وہاں کے ایک ایک مظلوم کا بدلہ لے)، کیا یہاں
کے فلاں اور فلاں کو یہ نظر نہیں آتا کہ کن کن خلیجی ملکوں نے مصر کے اس خونخوار قصاب
پر اربوں ڈالرز کی بارش کی تھی اور جوکہ اس ظلم اور خونریزی میں ایک صاف صاف مدد
ہے (میں خود کہتا ہوں ایسا ہے اور خلیج کے وہ حکمران اس ظلم میں برابر کے شریک
ٹھہرتے ہیں)۔ تو پھر یہاں کے ’فلاں اور فلاں‘ سے کبھی ان خلیجی حکمرانوں کی ہم نے
مذمت کیوں نہیں سنی؟ ایک اتنے بھیانک ظلم کی خالی مذمت، یار! بالکل ٹھیک۔ لیکن میں
پوچھتا ہوں کیا اِس دکھ کا، جو ان خلیجی حکمرانوں کی کوئی مذمت نہ ہونے سے دل کو
پہنچتا ہے، باعث اور منبع واقعتاً امت کا درد ہی ہے؟ اچھا تو پھر شام میں کئی
سالوں سے ایران اپنے باقاعدہ فوجی دستوں کے ساتھ جس طرح شامی مسلمانوں کا خون کر
رہا ہے اور جس کے سامنے شاید مصر میں اخوان پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی کچھ کم
ہی ہوں، کبھی بھی ’ایرانیوں‘ اور ’پاسدارانِ انقلاب‘ کی مذمت ہم نے آپ کے فورمز سے
اس شدت کے ساتھ نہیں سنی جس شدت کے ساتھ مصر میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے
خلیجی حکمرانوں کی مذمت۔ وہ خلیجی حکمران تو مصر کے اس ظلم میں محض اپنے ’’ریالوں‘‘
کے ساتھ شریک ہوتے ہوں گے مگر یہاں شام میں تو ’’تومان‘‘ کے ساتھ ساتھ ایران نے آپ
کے سنی بھائیوں کو ذبح کرنے کےلیے باقاعدہ چھرے پکڑ رکھے ہیں۔ کسی کےلیے سیسی کے
خلیجی مددگاروں پر بات آنا ناقابل قبول، اگرچہ اس مدد سے مصر میں مسلمان کا کیسا
ہی خون ہوا ہو۔ اور کوئی بشار کے ایرانی مددگاروں پر بات آنے سے أزردہ، اگرچہ یہ
مدد شام میں مسلم خون کی کیسی ہی ندیاں بہا رہی ہو۔
یہ ہے
بھائیو ’تنظیم‘ اور ’مسلک‘ کی نظر۔ دورِ حاضر میں آشوبِ چشم کی یہ ایک خوفناک صورت
ہے۔ اس سے پناہ اور خدا سے اپنے لیے ’’اسلام‘‘ اور ’’امت‘‘ والی نظر مانگیے۔ اپنے
احباب کو اسی سے آراستہ کرنے کی فکر کیجیے۔ امت ہم کو اگر ’’نظر‘‘ آ جائے تو ان
شاء اللہ کسی دن اکٹھی بھی ہو جائے گی۔ ابھی تو ہم امت کو جس جس ’رنگ‘ میں دیکھ
رہے ہیں اس کا نام امت نہیں کچھ اور ہے۔
اللہ بچا
رکھے، ابھی آنے والے دنوں میں فلسطین کا سودا ہونے جا رہا ہے۔ بحرین کانفرنس سے اس
کی دلالی شروع ہے۔ یعنی بیت المقدس کا سودا اور وہ بھی یہود کے ہاتھ، اس سے زیادہ
بھیانک چیز امت کے حق میں کیا ہو گی؟ بطور مسلمان، یہ صریح طور پر میرے وجود کا
مسئلہ ہے۔ یہاں بھی، خدانخواستہ، آپ دیکھیے گا یہ آشوبِ چشم ہمارے ہاں کیسے کیسے
گل کھلاتا ہے۔ یعنی یک نہ شد دو شد: میں فلسطین بھی، خدانخواستہ، اپنے ہاتھ سے
جاتا دیکھوں، اور اس پر اپنے یہاں کے کچھ نیک طبقوں کے مابین پوائنٹ سکورنگ بھی
اور ایک دوسرے کو فلاں اور فلاں موقعے کے طعنے بھی۔ فلسطین میں تو جو ہو گا، ’دین‘
کے کچھ معرکے البتہ یہاں بھی سر ہوں گے اور خدا سے اس پر اجر و ثواب کی امید بھی!
خدا معلوم، وہ تکلیف زیادہ بڑی ہو گی یا یہ۔ خدا دونوں کی نوبت کبھی نہ آنے دے۔
آئیے اس
بُت کو اپنی اسلامی دنیا سے دور کہیں باہر لے جا کر پھینک آئیں۔