کچھ ’فرقہ واریت گزیدہ‘ احباب.. اور صحابہؓ کی مرکزیت
کا مسئلہ
’فرقہ واریت‘ سے تنفّر اچھی بات ہے۔ لیکن غلو
(انتہاپسندی) کا گزر آپ جانتے ہیں ہر طرف ہے۔ ماحول کے اثرات الگ۔ استشراق کا
چلایا ہوا دو سو سال کا بھاری بھرکم ’’تعلیمی‘‘ عمل اور میڈیا کی تخلیق کردہ
’’رائے عامہ‘‘ ہمارے دین کے کئی ایک مفہومات کے درپے ہیں۔ ان کی دھاک کے آگے ہمارے
بڑے اچھےاچھے ذہن ہاتھ کھڑے کر گئے؛ پہلوں کے طریقے پر استقامت اب کوئی آسان نہیں۔
خلط ملط جاری ہے۔ کہیں کی چیز تو کہیں کا جوڑ۔ فرقہ واریت کی مذمت آپ قرآن و حدیث
سے لیجئے البتہ یہ ہے کیا بلا، یعنی فرقہ واریت کی تعریف اور حدود و قیود، تو اس
کا تعین دورِحاضر کے مقبول رجحانات کی ’انسپائریشن‘ سے! یہاں تک کہ قرآن و حدیث کی
تفسیر اسی رنگ میں! یہ وجہ ہے، ’’نئے‘‘ کی بےحدوحساب ضرورت آج یکدم آ کھڑی ہوئی؛
یہاں تک کہ سپلائی کےلیے ڈیمانڈ کا ساتھ دینا مشکل ہو رہا ہے۔ ہر پیچھے سے چلا آتا
معاملہ نہ صرف نظر ثانی کا محتاج بلکہ مشکوک بھی ہو چلا ہے!
اس موضوع کے متعدد پہلو ہیں، سر دست ہمیں ایک ایسے رجحان پر
بات کرنی ہے جو ’فرقہ واریت‘ سے بیزاری میں اپنے ’کونسسٹنٹ‘ consistent ہونے کےلیے، اصحابِ رسول اللہؐ کی اُس پوزیشن پر
ہی مفاہمت کرنے لگا جو مدارسِ سنت کے یہاں اُن پاکیزہ ہستیوں کو ہمیشہ سے حاصل ہے۔
ہماری مراد ہے: دین لینے کے معاملہ میں صحابہؓ کی مرکزیت۔ اسلام کی اُسی ایک
تعبیر کو علمی اور اُسی ایک دھارے کو تاریخی طور پر حق جاننا جو صحابہؓ سے چلا آتا
ہے۔ دین کی محدَث (بدعتی) تفسیرات کی پیمائش اور نشاندہی کےلیے معیار، صحابہؓ
کے آثار سے ثابت ہونے والے فہمِ اسلام کو ماننا۔ امت میں صحابہؓ کو یہ جو ایک
پوزیشن تاقیامت حاصل ہے، اور جس کی بنیاد پر امت کو تاریخِ اسلام کے دو اولین و
مہلک ترین فتنوں ’’خوارج‘‘ اور ’’روافض‘‘ کو مسترد کرنے میں ایک لمحہ صرف کرنا
نہیں پڑا تھا، اور بعد میں ’’معتزلہ‘‘ کو پہچاننے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی،
کیونکہ یہ سب معاملات صحابہؓ اور اُن سے چلے آتے کنونشنز کو مرکز مان کر دیکھے اور
پڑھے جاتے رہے تھے؛ اور یہی ایسے معاملات کو دیکھنے کی وہ پائیدار صورت جو کروڑوں
اربوں کے ایک معاشرے میں نسل در نسل کام دے سکتی ہے...
صحابہؓ کی
اِس علمی اور تاریخی پوزیشن کو نظرانداز کروانا آج یہاں کے پڑھے لکھوں کی بڑی
تعداد کے ہاں رواج پا چکا۔ یہ حضرات زیادہ سے زیادہ ’’انتقالِ نص‘‘ transmission of the text کےلیے صحابہؓ کو اپنے حق میں ناگزیر جانیں گے
(گو بعض فرقوں کو، جنہیں صحابہؓ کسی بھی حیثیت میں قبول نہیں، خاص اِس چیز سے بھی
چھوٹ دے ڈالیں گے!)، البتہ صحابہؓ پر سنت اور بدعت کے دھارے الگ الگ ہونا اور پھر تاقیامت
یہیں سے حق اور باطل کی سمتوں کا تعین ہونا، اسلام کی درست تعبیر کے معاملہ میں
صحابہؓ کو امت کے مابین ایک باقاعدہ قطب نما کی حیثیت حاصل ہونا...
یہ سب اِن حضرات کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔
ہمارا یہ ’فرقہ واریت گزیدہ‘ طبقہ ’اتحادِ امت‘ کی جستجو
میں صحابہؓ کی اِس پوزیشن کو نظرانداز کرنے پر آمادہ تو ایک زمانے سے ہے۔ رسول
اللہﷺ سے چلی آتی ’’جماعت‘‘ اور بعد میں وجود پانے والے
’’فرقوں‘‘ کے مابین اُس فرق کو جس سے کتبِ عقیدہ بھری پڑی ہیں، طرح دینے پر یہ
محترم حضرات ایک عرصے سے یکسو ہیں۔ البتہ اب یہ نوبت کہ صحابہؓ کی اِس حیثیت کےلیے
بولنے والوں کو خاموش بھی کرایا جانے لگا، گویا گمراہی بس اب یہی ہے! آج اگر آپ ’’مدارسِ سنت‘‘ اور ’’اھواء‘‘ (مدارسِ
بدعت) کے مابین اُس فرق کی نشاندہی کرنے والوں میں ہیں جو کتبِ
عقیدہ کا معروف ڈسکورس ہے، تو یہ حضرات آپ پر باقاعدہ معترض ہوتے اور اِس
’فرقہ واریت‘ سے آپ کو نکل آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ نجانے مالکؒ، ابو حنیفہؒ، ابن
حنبلؒ، طحاویؒ، ابن جوزیؒ، عبدالقادر جیلانیؒ، ابن تیمیہؒ اور ابن ابی العزؒ وغیرہ
’’فرقوں کے ترک اور ان کے مقابلے پر اھل السنۃ والجماعۃ کے لزوم‘‘ والے اپنے اُس
معروف بیانیہ کے ساتھ آج اگر آجائیں تو یہ میڈیا اور اس سے متاثرہ اذہان ان کا کیا
حال کریں! ’’جماعت‘‘ جو ہمیشہ ’’سنت‘‘ پر معطوف ہوتی ہے، اور یہی دراصل مسلمانوں
کی ’’جماعت‘‘ و ’’یکجہتی‘‘ کا صحیح تصور (ہماری تاریخی وعلمی اصطلاح ’’اھل السنۃ
والجماعۃ‘‘ میں ’’جماعۃ‘‘ ’’سنۃ‘‘ پر معطوف)... اب یہ حق کی ’’جماعت‘‘ اور ’’یکجہتی‘‘ انحرافات اور بدعات
کےلیے بھی اُسی قدر ویلِڈ valid ہے
جس قدر مدارسِ سنت کےلیے! دونوں کے مابین فرق کرنا گویا ایک بدعت ہے!
اس طرزِ فکر کا نتیجہ ہے کہ صحابہؓ کو زیادہ سے زیادہ آپ ’’اپنے
تک‘‘ رکھیں گے۔ کوئی صحابہؓ کو نہیں مانتا تو اس سے اُس کے اسلام کو کوئی فرق
تھوڑی آئے گا! بالکل جس طرح آپ کو اپنا حنفی یا شافعی مذہب اپنے تک رکھنا ہے نہ کہ
’’سب کے حق میں‘‘ اس کو لازم رکھنا اور اس کے بغیر ان کو حق سے ہٹا ہوا جاننا۔
صحابہؓ کی حیثیت ایسے کسی فقہی اجتہاد سے بڑھ کر بہرحال نہیں ہے! البتہ جیسے ہی آپ
صحابہؓ کو اسلام کی واحد درست تعبیر کا سٹینڈرڈ اور اسلام کے تاریخی دھارے کا سِرا
مانتے ہیں، یہاں کچھ طبقوں کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ آ جاتا ہے! خود اُن کے
بولنے سے پہلے، ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ یہ بات اتحادِ امت کے منافی ہے! ظاہر
ہے امت کسی متنازعہ بات پر تو اکٹھی نہیں ہو سکتی، لہٰذا صحابہؓ ایسی متنازعہ شےء
کو پیچھے کر لیجئے اور لامحالہ صحابہؓ کی اُن تمام مرویات (مانند بخاری، مسلم و دیگر
معروف کتبِ حدیث) کو بھی جو آپ ’اپنے استفادہ‘ کےلیے مخصوص رکھتے ہیں لیکن امت کو
ان پر آنے کےلیے نہیں کہہ سکتے؛ کیونکہ ’متنازعہ‘ بات کی دعوت امت میں دی ہی نہیں
جا سکتی! اِس لحاظ سے، ’غیر متنازعہ‘ صرف قرآن رہ جاتا ہے؛ ہو نہیں سکتا کہ صحابہؓ
کو آپ پیچھے کر لیں تو حدیث و سنت کی کوئی حیثیت باقی رہ جائے۔ لہٰذا ایک بڑا
صفایا ’اتحادِ امت‘ کے اِس نئے تصور کی مانگ بھرنے کےلیے پہلے ہلے کے اندر کر لیا
جاتا ہے۔ کوئی اب ان کو مانے تب اور نہ مانے تب، کوئی اتنی بڑی اور پریشان کن بات
یہ بہرحال نہیں ہے، ایمان کو اس سے کوئی فرق نہیں آنے کا! رہ گیا قرآن تو اس کے
بھی صرف الفاظ؛ تعبیر البتہ اپنی اپنی؛ جو بُعدالمشرقین کا نقشہ پیش کرتی ہے! یہ
ہے وہ نقطہ جہاں ہمارا ’اتحادِ امت‘ کا یہ قافلہ، کامیابیوں کے قابلِ رشک مراحل طے
کرتا، پہنچ چکا ہوا ہے اور آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے کیونکہ منزل بہرحال ابھی آ نہیں
رہی! (چلیے ہم نہیں تو اس فکر کے لوگ ہی ’اتحاد‘ نامی اس ہُما کی شکل دیکھ آتے۔
لیکن ’اتحاد‘ کو اب بھی آوازیں ہی پڑ رہی ہیں۔ تاہم یہ عملی کامیابی یا ناکامی فی
الوقت ہمارا موضوع نہیں)۔
کچھ اضافی دھند یہاں میڈیا کی اٹھائی ہوئی سراسیمگی thrill نے پیدا کر رکھی ہے۔ جھٹ سے ’’تکفیر‘‘ کے
موضوعات اور ساری بحث ’مسلم غیر مسلم‘! عوامی اذہان ایسی سطحیت پر ہوں تو کچھ عجب
نہیں لیکن بڑے بڑے اصحابِ دانش ایسی غیر ضروری حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ کسی
کا محض انحراف ذکر کریں گے اور اعتراض آئے گا کہ کیا ان کو اسلام سے خارج ٹھہرانا
مقصود ہے، بڑی ہو لی تکفیر! حالانکہ آپ نے دور نزدیک سے ایسی کوئی بات نہیں کی
ہوتی۔ اس ذہن کو دیکھ کر شک گزرتا ہے کہ خود یہ حضرات بھی فکرِ خوارج سے کسی درجہ
میں متاثر ضرور ہیں جو ایک انحراف کی بات کو ’’دائرۂ اسلام سے خروج‘‘ کے سوا کسی چیز
پر محمول کرنے کے روادار نہیں۔ یعنی یا تو ایک گروہ خالص حق پر ہوتا ہے اور یا وہ
سیدھا کافر ہوتا ہے؛ بیچ میں البتہ کچھ نہیں! اب اگر آپ نے ایک آدمی کو پہلے خانے
میں نہیں رکھا تو لامحالہ دوسرے میں بھیج دیا ہے؛ کیونکہ یہ کُل دو ہی تو خانے تھے!
یہ ہے (اغلباً) اِن حضرات کا فکرِ خوارج سے متاثر ہونا، اگرچہ یہ صبح شام خوارج کو
برا کیوں نہ کہتے ہوں۔ اور یہ ہے نقصان فی الحقیقت کتبِ
عقیدہ (فقہِ اکبر) پر توجہ نہ دینے کا۔ حالانکہ سب
جانتے ہیں، ضلال (گمراہی) کا ایک درجہ کفر سے کمتر بھی ہے۔ امت کے بدعتی ٹولے اس
لحاظ سے مسلمان ہی ہوتے ہیں اور ہم انہیں مسلمان والے سب حقوق بھی دیتے ہیں، صرف
ان کی گمراہی پر حسب موقع ان کو تنبیہ، اور لوگوں کو ان سے خبردار کرنا ضروری
جانتے ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موقع اس تنبیہ تک کی اجازت نہ دے، جیسے بہت
سے خطوں میں آج امت پر گزرنے والے حالات، جس کے باعث امت میں داخلی خلفشار کے تمام
راستے آپ کو مسدود کرنا ہوتے ہیں اور یہاں کے متعدد تحریکی و جہادی طبقوں کو امت
کے بدعتی ٹولوں کے ساتھ بھی ایک قربت کا ہی معاملہ رکھنا ہوتا ہے۔ (گو کافر کے
ساتھ ایسے بعض ٹولوں کی ساز باز سے خبردار بھی رہنا ہوتا ہے، جوکہ مشرقِ وسطیٰ کی
صورتحال کے حوالے سے کسی وقت ہمارے یہاں بیان ہونے میں آتا ہے)۔ غرض بدعتی ٹولوں
کے ساتھ معاملہ کرنے میں تو ایک وسعت یقیناً ہے، اور اس پر ہرگز کوئی کلام نہیں۔
البتہ اِس وقت بات ہو رہی ہے اُس فکری پیراڈائم پر جو خود اپنے تحریکی نوجوانوں کے
اذہان میں آج راسخ کرایا جا رہا ہے۔ خود اِسی پیراڈائم میں جو اپنے تحریکی افراد
کے ذہنوں میں اسلام اور سنت کی بابت بٹھایا جا رہا ہے ’’اہل سنت‘‘ اور ’’بدعتی
ٹولوں‘‘ کا فرق ملیامیٹ کرایا جانے لگا؛ یہاں تک کہ اِس فرق کی نشاندہی کرنا ’فرقہ
واریت‘ کا ہم معنیٰ ٹھہرایا جانے لگا۔ اور کسی کسی وقت تو ’’اہل سنت‘‘ اور ’’اصحابِ
بدعت‘‘ کے اس روایتی فرق کے بیان و تعلیم کو ’’تکفیر‘‘ اور ’’فتویٰ بازی‘‘ کا ہم
معنیٰ! اصل رونا یہ ہے۔ یعنی وہ ذہن سازی جس پر نوجوانوں کی اٹھان کی جا رہی ہے۔
کم از کم اِس دائرہ میں تو ’’أهل السنة
والجماعة‘‘ اور ’’أهل البدعة والفرقة‘‘
کا فرق روپوش نہ رہنا چاہئے۔ اپنے تحریکی نوجوان کو آج عقیدہ کے وہ روایتی مباحث
آخر کون پڑھائے گا؟ چلیے آپ یہ بھی نہیں کرتے اور اس کی کچھ وجوہات بھی آپ رکھتے
ہوں گے، لیکن حق سے وابستگی کا یہ کم از کم تقاضا تو ہے، جیسا کہ علمائے عقیدہ نے
بیان کیا، کہ حق کے نشر یا اقامت کے معاملہ میں خود آپ جس فرض کو پورا کرنے سے
قاصر یا عاجز ہوں، کوئی دوسرا اسے پورا کرنے کےلیے اٹھے تو آدمی اس پر مسرت ضرور
محسوس کرے کہ چلیے کسی نہ کسی کے دم سے دینِ محمدؐ کا ایک شعبہ زندہ ہونے لگا۔
بلاشبہ یہ امت مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہے۔ حق کا کوئی فرض ایک طبقہ ادا کرے
گا تو ایک دوسرا فرض، دوسرا کوئی طبقہ۔ یہ سب ایک دوسرے کے عمل پر خوش تو ہوں۔
کسی کے ادائے فرض پر خوش ہونا، یہ بھی اقامتِ حق میں ایک طرح کی شرکت ہی ہوتی ہے؛
اور اِس پر بھی آدمی کو اجر ملتا ہے۔ لیکن یہ تب ہو گا اگر وہ فکری پیراڈائم درست
ہو جو دین اور اس کی حدود کو جاننے سے متعلق ہے۔ اور ہمارا مسئلہ اِس وقت شاید
یہیں پر ہے۔ یعنی دین کو جاننے کا عمل ہی اس وقت ایک بحران کا شکار ہے۔
یہ وضاحت اس لیے ہوئی کہ ہماری بات کا کہیں یہ مطلب نہ سمجھ
لیا جائے کہ یہاں کے سب سُنی طبقے کسی ایک خاص بدعت یا انحراف کے خلاف کیوں سرگرم
نہیں۔ یقیناً ہر دینی جماعت کا اپنا ایک میدانِ عمل ہے اور اُس میدان کے اپنے کچھ
تقاضے۔ اپنا زور strenght اور توانائی
کھپانے کا مؤثر محل اور اپنے سرگرم ہونے
کی واقعی ترجیحات آپ کو بہت سوچ سمجھ کر طے کرنا ہوتی ہیں۔ یہاں؛ عموماً ایک جماعت
کی ترکیز کسی ایک یا چند خاص چیزوں پر ہی ہو سکتی ہے اور ہر چیز کو ہاتھ ڈالنا اس
کا بس نہیں۔ کسی ایک ہدف کو سر کرنے کےلیے آپ کو بہت سے امور، باوجود انہیں دین کا
تقاضا جاننے کے، اپنے کسی دوسرے بھائی کےلیے چھوڑ دینے ہوتے ہیں۔ دین کے احیاء و
اقامت کا یہ ایک نہایت زبردست مبحث ہے اور اپنے کچھ مفہومات اور تقاضے رکھتا ہے۔
البتہ یہ جان رکھیے، ’’تنوع‘‘ دین میں جس قدر بھی ہے اس کا تعلق صرف آپ کے تعامل
اور میدانِ عمل سے ہو سکتا ہے (یا طلبۂ علم کے حق میں کفائی علوم سے، جو ایک الگ
بحث ہے)۔ جہاں تک البتہ دین کے بنیادی تصورات کی بات ہے، اور جس میں ’’جماعت‘‘ اور
’’فرقوں‘‘ کا فرق جاننا بھی آتا ہے، تو وہ ایک ہی ہیں (یہاں کوئی ’’تنوع‘‘ نہیں)،
اور یہاں سب کو اسی ایک ’’سنت‘‘ بنیاد پر آنا ہے۔ یعنی ’’اعتقاد‘‘ پورے کا پورا
اور سب کےلیے؛ البتہ ’’عمل‘‘ جو ممکن ہو یا جو ایک دی ہوئی صورتحال کا تقاضا ہو۔
*****
اس وضاحت کے بعد اب ہم اس سوال پر آئیں گے جو اِس مخصوص
فکری پس منظر سے آتا ہے: بھائی ’’صحابہ‘‘ ارکانِ ایمان میں تو نہیں آتے، صرف نبی
کو ماننا آخر تمہاری نظر میں کافی کیوں نہیں؟ ہم کہتے ہیں: نبیؐ کو ماننے کا دعویٰ
سو فیصد کافی ہے اگر اِس سوال کا تعلق کسی ٹولے کو مسلمان جاننے یا نہ جاننے سے ہو،
مگر ہم بات کر رہے ہوتے ہیں اس کو بدعتی یا منحرف جاننے کی۔ لہٰذا آپ ایک درست
سوال غلط جگہ پر اٹھا کر محض معاملے کو الجھا رہے ہیں۔ یہ سوال آپ اُس شخص کے ساتھ
اٹھائیے جس نے اس کے غیر مسلم ہونے کی بحث چھیڑ رکھی ہو اور وہ اس پر نواقضِ اسلام
کا حوالہ بھی نہ دے سکتا ہو۔ البتہ جس وقت بات صرف اِس قدر ہو کہ ایک ٹولہ اسلام
کی کسی منحرف اور مسخ شدہ تعبیر کا معتقد ہے تو وہاں یہ سوال اٹھانا کہ ’دیکھو وہ
نبیؐ کو تو مانتا ہے اب آپ اس سے کیا چاہتے ہیں‘، سراسر غیرمتعلقہ ہے۔ یہ الجھن
بار بار پیش آنے کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ معترض کے ذہن میں ’بدعتی‘ اور ’کافر‘ کے
لفظ ہم معنیٰ ہو چکے ہوں لہٰذا جب بھی ان میں سے ایک بولا جائے تو وہ اس سے
لامحالہ دوسرا مراد لے۔
یقیناً اسلام میں داخل ہونے کےلیے صرف اللہ کی توحید کا
اقرار کیا جاتا ہے اور محمدﷺ کی رسالت کا۔ جو بھی شخص یہ دو شہادتیں
دے گا اس کو ہم مسلمان جاننے کے پابند ہوئے تاوقتیکہ وہ نواقضِ اسلام میں سے کسی
ناقض کو برضا و رغبت اور دانستہ اختیار نہ کر لے (اور جس کا فیصلہ کرنا ایک بہت
مشکل کام ہے)۔ تیسری کوئی شہادت البتہ نہیں جس کا ہم اس سے کبھی بھی تقاضا کریں۔
نہ صحابہؓ، نہ آل بیتؓ اور نہ کوئی اور ہستی دین میں ایسی ہے جس کا اقرار کروایا
جائے اور آدمی کا مسلمان ہونا اس پر موقوف رکھا جائے۔ ہم اتباع کرنے والے ہیں نہ
کہ ابتداع (اپنے پاس سے کچھ گھڑنے) والے۔ دین ’’اللہ و رسولؐ‘‘ پر اِس معنیٰ میں
بالکل مکمل ہوتا ہے اور اس میں کسی اور بات کا اضافہ جائز نہیں۔ لہٰذا جہاں تک
تعلق ہے کسی کے مسلمان قرار پانے کا تو اس کےلیے تو نبیؐ کو ماننے کا دعویٰ یقیناً
اور سو فیصد کافی ہے۔ لیکن، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، یہ بات درست ہونے کے باوجود
ہمارے اِس موضوع سے غیرمتعلقہ ہے۔ یہاں تو سوال یہ ہے: کیا یہ ممکن ہے ایک شخص نبیؐ
پر ایمان کے دعوے کے بعد دین کا کوئی ایسا ورژن version پیش
کر ڈالے جو نبیؐ نے صحابہؓ کو نہیں سکھایا؟ یعنی نص کو قبول کرنے کی کچھ خودساختہ
شروط لے آئے اور پھر ان کے معانی بھی اپنے ہی پاس سے اور خاص اپنی ہی شرطوں پر وضع
کرنے لگے جبکہ صحابہؓ دین کے ان نئے معانی ومسائل سے سراسر بیگانہ ہوں اور لوگوں
کو اِس ’دین‘ کی دعوت بھی دینے لگے؟ (ذرا غور فرمائیے تابعی امام سعید بن جبیرؒ کے
اِس قول پر: مَا لَمْ يَعْرِفْهُ
الْبَدْرِيُّونَ فَلَيْسَ مِنَ الدِّين
’’جس چیز کو بدری (صحابہؓ) پہچان کر نہ دیں وہ دین نہیں ہو سکتی‘‘)۔ اور اگر کوئی شخص دین کا پورا ایک ورژن ایسا لے
آئے جس سے اسلام کا وہ ’’خیرالقرون‘‘ سراسر بیگانہ ہے، تو مسلمانوں کی اصطلاح میں
ایسے شخص کو کیا کہا جاتا ہے؟ لہٰذا سوال تو ہمارا کرنا بنتا ہے کہ ’’بدعتی‘‘ کی
اس کیٹگری کو، جو وضع ہی اس شخص کےلیے ہوئی جو دین کا کوئی ایسا نیا ورژن پیش کرے
جس سے اصحابِؓ رسول اللہؐ واقف نہیں، آپ ہماری اصطلاحات سے حذف کیوں کروانا چاہتے
ہیں؟ اور ایسا کر کے، اسلام کو مسخ کروائے جانے کے اِس دور میں، آپ کس چیز کی خدمت
کر رہے ہیں؟ ہاں اس (’’مبتدع‘‘ کی) اصطلاح کے لاگو کرنے پر آپ اگر کچھ علمی قیود
رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا دروازہ کھلا ہے۔ اس صورت میں بھی، یہ سوال بہرحال غیر
متعلقہ رہے گا کہ ’صرف نبیؐ پر ایمان ایک شخص کے حق میں آپ کے نزدیک کافی کیوں نہیں؟‘۔
بلکہ اس صورت میں بحث یہ ہو گی کہ وہ کونسی علمی قید ہے جو کسی کو ’’بدعت‘‘ یا
’’انحراف‘‘ پر قرار دینے کے معاملہ میں دین نے فرض کر رکھی تھی جو ہمارے ہاں نظرانداز
ہو رہی ہے؟ ہاں اس کی کچھ نشاندہی ہو تو وہ ایک علمی بات ہو گی۔
*****
تھوڑی بات صحابہؓ کی پوزیشن پر ہمیں اور کرنی ہے، تاکہ ایک
مسئلے کا ابہام ختم ہو اور وہ اپنے درست سیاق میں آ جائے۔
دو ہی چیزیں ہیں جن پر ’’اتباعِ حق‘‘ کا عمل منحصر رہتا ہے:
شریعت کی نص۔ اور اُس نص کا درست و معیاری فہم۔
اول الذکر میں ہمارا مرجع رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہوتی ہے،
خواہ وحیِ متلو کا معاملہ ہو یا وحیِ غیر متلو کا۔
جبکہ ثانی الذکر میں ہمارا مرجع اصحابِ رسول اللہؐ ہوتے ہیں
اور ان سے چلے آنے والے مستند علمی کنونشنز۔ اس لیے کہ صحابہؓ کو نبیﷺ سے دین پڑھے اور
سمجھے ہونے کی سند خود قرآن سے ملی ہے اور
یہ وہ بات ہے جس میں کوئی صحابہؓ کا ہم سر نہیں (اہلِ بیتؓ کا الگ تھلگ ذکر اِس
سیاق میں ہم اس لیے نہیں کرتے کہ وہ صحابہ ہی میں آتے ہیں؛ لہٰذا یہ ایک ہی جماعت
ہوئی)۔ اور یہ (نصوصِ دین کو رسول اللہﷺ سے پڑھا اور سمجھا ہونا) پورا ایک
پیکیج ہے جو اِسے باقاعدہ ایک دھارا بناتا ہے۔
یہ دوسرا مسئلہ ظاہر ہے تھوڑا بیان طلب ہے:
سب مذاہبِ اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ نص کے ایک معنیٰ
پر اگر اصحابِ رسول اللہؐ کا اتفاق ہے تو وہ على الاطلاق واجب الاتباع ہے۔ ہاں
صحابہؓ میں اگر اس پر دو یا زیادہ آراء ہیں تو ہمارے پاس ان میں سے کسی ایک قول کو
اختیار کرنے کی گنجائش ہے، خواہ دلیل کے قوی تر ہونے کی بنیاد پر (ابو حنیفہؒ،
شافعیؒ اور ابن حنبلؒ کا مسلک) اور خواہ اس کے بغیر (مالکؒ کا مسلک)؛ البتہ مجموعی طور پر ان کی آراء
سے پھر بھی نہیں نکلا جائے گا۔ یعنی صحابہؓ اپنے مابین اختلاف کی صورت میں بھی
ہمارے لیے واجب الاتباع ہی رہے۔ البتہ ایک بڑا دائرہ مسائلِ دین و دنیا کا وہ ہے
جہاں صحابہؓ نے کوئی معاملہ ’’نمٹا‘‘ نہیں دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ؛ اس کو ایک رُخ
دیا ہے؛ اور وہ رُخ بہرحال بہت اہم ہے۔ اب جہاں اصحابِ رسول اللہ نے کوئی معاملہ
نمٹا نہیں دیا ہے، اور جوکہ ایک وسیع میدان ہے، ہم اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑانے میں
پوری طرح آزاد ہیں (بشرطیکہ اپنے ذہن کی ساخت ہم نے صحابہؓ سے چلے آتے منہج پر
کروا رکھی اور اُن کے طریقے کی پابندی پر یکسوئی پا رکھی ہو اور علم میں رسوخ بھی
حاصل ہو)۔ اور یہ وہ میدان ہے جہاں فقہائے اسلام از عہدِ تابعین تا امروز اپنی
صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں مہمیز پاتے ہیں۔ یوں اختلاف و اجتہاد کےلیے ایک وسیع
و عریض ’’گنجائش‘‘ بھی آ گئی اور ایک نہایت زبردست ’’فریم‘‘ بھی۔ (کہتے ہیں عمارت
جس قدر اونچی اٹھانی ہو اسی قدر اس کی بنیاد مضبوط ہونی چاہئے؛ تاکہ آئے روز اس
میں توڑپھوڑ نہ ہو؛ اور یہ تو دین کی عمارت ہے جسے قیامت تک اپنی ایک متعین صورت
پر رہنا ہے)۔ ’’پیچھے سے چلا آتا‘‘ ایک تسلسل بھی قائم رہا اور ’’نئے‘‘ کےلیے
ترغیب بھی پوری طرح برقرار رہی۔ فقہ اسلامی کا وہ خوبصورت توازن اور حیرت انگیز
دوام اِسی حقیقت کا مرہونِ منت ہے۔ دین کی تعبیر و تفسیر کے معاملہ میں صحابہؓ کو
بنیاد مان کر آگے چلنے کا یہ جو ایک اصیل مبحث ہے، اس پر مذاہبِ اربعہ سمیت تمام
مدارسِ اہل سنت متفق ہیں۔ بلکہ وہ چیز جو اِن (مدارسِ سنت) کو بدعتی ٹولوں سے ممیز
کرتی اور وسیع تر معنیٰ میں ان سب کو ایک ہی ’’بڑا مدرسہ‘‘ بناتی ہے وہ یہی ایک
نقطہ ہے۔ یعنی دین کی تلقّی (دین کو لینے اور سمجھنے) میں صحابہؓ کو اصل ماننا۔
بالفاظِ دیگر، روئےزمین پر صحابہؓ کا تسلسل اور رسول اللہﷺ کی کھڑی کی ہوئی
جماعت ہونا۔ صحابہؓ کی اِس پوزیشن پر فقہاء کے جو معروف بیانات ہیں، ان کا کوئی
خلاصہ ہمارے اِس مختصر مضمون میں آنا تو مشکل ہے، ہماری ایک ناچیز تالیف ’’فہمِ دین کا مصدر‘‘ کی فصل ’’صحابہؓ کا اتباع اہل سنت کے سب مذاہب کے نزدیک واجب ہے‘‘ میں البتہ وہ کسی قدر تفصیل سے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
واللہ الموفق والھادی۔