سوال:
تصوف سے متعلق فیس بک احباب کے مابین خاصی بحثیں اٹھی ہوئی ہیں (آپ
کو نمونے کی کچھ پوسٹیں بھی بھیجی جا رہی ہیں)۔ اس سلسلہ میں آپ کی رائے جاننا چاہ
رہے تھے۔
جواب:
بھائی ’’تصوف‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس کی فی الوقت متعدد تفسیریں ہیں
اور مختلف ذہنوں میں اس کا مدلول خاصا مختلف۔ یہ وجہ ہے، نہ اس کی مدح کرتے ہوئے آپ
بہت زیادہ واضح ہوتے ہیں جب تک کہ آپ اچھی خاصی توضیح نہ کر دیں کہ اس کے تحت آپ کن
کن باتوں کو قبول کر رہے ہیں اور کن کن باتوں کو خود آپ بھی مسترد ہی کرتے ہیں (یا،
کم از کم، آپ کے بارے میں پہلے سے یہ واضح ہو اور آپ کا مخاطَب پیشگی آپ کے مقصود
سے مطَّلِع)۔ اور نہ اس کی مذمت کرتے ہوئے آپ کچھ ایسا واضح ہوتے ہیں جب تک کہ علیحدہ
سے توضیح نہ کر دیں کہ آپ اس کے تحت کس بات کی مذمت فرما رہے ہیں (یا، کم از کم،
اس لفظ کے تحت آپ کا نشانۂ تنقید پہلے سے آپ کے مخاطَب پر واضح ہو)۔
لفظ تصوف کو اون کرنے والے اصحابِ سنت مانتے ہیں کہ اس کے تحت بہت سا
باطل بھی پھیلایا گیا ہے اور اس کو باطل کہنے میں ان کو ہرگز کوئی تردد نہیں۔ لفظِ
تصوف کو اون نہ کرنے والے اصحابِ سنت تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے تحت بہت سی خیر بھی
پائی گئی ہے اور اس کو خیر کہنے میں ان کو ہرگز کوئی تامل نہیں۔ یعنی اس کی مذمت
کر دیں تو آپ غلط نہیں، اور آپ کی وہ ساری مذمت ان باتوں کی طرف منصرف ہو جائے گی
جو تصوف کے تحت غلط طور پر مانی اور منوائی گئی ہیں۔ اور اگر آپ اس کی ستائش کر
دیں تو آپ غلط نہیں، اور آپ کی وہ ساری ستائش ان اچھی باتوں کی طرف منصرف ہو جائے
گی جو تصوف میں بہرحال پائی جاتی ہیں۔ پس میری یہ بات گستاخی پر محمول نہ ہو تو: فی
الوقت یہ لفظ اپنا مدلول بتانے میں خاصی حد تک غیر مفید non-purposive
ہے تا وقتیکہ آپ یا تو اس سے
اپنا مقصود واضح نہ کر دیں یا وہ پہلے سے آپ کے مخاطَب پر واضح نہ ہو۔ اس غموض کے
پائے جانے کے باعث، اس موضوع پر ہر دو طرف زور لگانے والوں کو دیکھ کر مجھے عموماً
وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے جس میں دو مزدور ایک بھاری الماری کو اٹھانے میں زور لگاتے
ہوئے پسینے میں شرابور ہو جاتے ہیں اور آخر ان میں سے ایک تھک ہار کر کہتا ہے:
چھوڑ دو یہ الماری ہم سے اندر جانے کی نہیں۔ تو دوسرا اچھل کر کہتا ہے: ہائیں، تم
اندر لے جا رہے تھے؟ میں سمجھ رہا تھا باہر لے جانی ہے! اس مسئلہ پر میری نظر میں
طرفین کے مابین کچھ اسی طرح کا زور لگ رہا ہے۔
اس مقام پر میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ: شروع میں بھی گو یہ لفظ
اصحابِ سنت کے مابین متنازعہ رہا ہو گا، تاہم ان آخری ادوار میں تو یہ متنازعہ
ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مدلول سے متعلق ایک غیر معمولی ابہام بھی پیدا کر چکا ہے،
جس کے نتیجے میں امکان آ چکا ہے کہ ایک اچھی خاصی وضاحت کے بغیر آپ کا مخاطَب ’آپ
کی بات غلط سمجھے‘۔ میں یہ بالکل مبالغہ نہیں کر رہا۔ ان بحثوں کے اکثر شرکاء
’’حقائق‘‘ میں تقریباً متفق ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر اپنا ’’مقصد‘‘ واضح کرنے
میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں! یہ اپنی اس کمیونی کیشن میں اگر صرف اِس
ایک لفظ سے گریز کر لیں (ویسے مجھے اس لفظ کے ساتھ کچھ مسئلہ نہیں؛ میرا مطلب ہے
خاص ان بحثوں میں اس لفظ سے گریز کر لیں) تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے
مابین اختلاف کی نشاندہی تک نہ ہو سکے گی۔ تزکیہ، اخلاص، زہد، فقر، ذکر، عبادت میں
ڈوبنے اور دلجمعی لانے اور خدا سے محبت اور لو لگانے ایسے ان حسین مباحث میں سے
کونسا مبحث آخر ایسا ہے جس کا کوئی ایک بھی صاحبِ سنت انکار کرے گا؟ ’اختلاف‘ تو
ان مباحث کے پاس پھٹک تک نہیں سکتا۔ دین کے ان سب خوبصورت مباحث میں اصحابِ سنت کے
مابین کمیونی کیشن حد درجہ آسان ہے اور رہے گی۔ کوئی وجہ نہیں ہم اس کو خوامخواہ
مشکل کر لیں۔ اور اکثر اوقات تو ایک لا ینحل بحث۔ بلکہ جس قدر یہ مباحث (اللہ کی
محبت، ذکر، عبادت میں دلجمعی، زہد وغیرہ) اہل ایمان کے مابین غیر متنازعہ ہیں اس
قدر غیر متنازعہ چیز دین میں کوئی ہے ہی نہیں۔ پس غور کرنا چاہئے کہ کیوں
دین کا یہ غیر متنازعہ ترین باب اہل خیر کے مابین متنازعہ ترین ہو جائے؟ عقلاء
کا کام ہے کہ وہ ایسی ہر بات کا، جو غیرضروری طور پر ایک نزاع کا سبب بن رہی ہو،
سد باب کریں۔ مختصراً، ایک دوسرے کےلیے اپنے مضمونِ خطاب میں پوری طرح واضح ہوں
اور اِبہام کے موجبات سے باہر رہیں؛ خصوصاً جبکہ نفسِ حقیقت میں طرفین کے مابین
تقریباً کوئی اختلاف نہ ہو۔
قصہ کوتاہ، تصوف ’’عقیدہ‘‘ یا ’’فقہ‘‘ کی طرح اپنے کسی متعین مدلول
پر دلالت کرنے میں بہت واضح لفظ نہیں ہے۔ ایک اصطلاح کسی مسئلہ کو آسان کرنے کےلیے
لائی جاتی ہے نہ کہ ایک آسان مسئلہ کو الجھاؤ میں ڈالنے کےلیے۔ اور فی الوقت تو یہ
اس اصل مضمون (اللہ کی محبت، ذکر، عبادت میں دلجمعی، زہد وغیرہ) سے ہٹ کر، کہ جس
میں اللہ کا شکر ہے بحث کا کوئی امکان ہی نہیں ہے، بحث ہی بحث اٹھا رہی ہے۔ صرف
اگر آپ ایک لفظ کی نزاکت کو پیش نظر رکھ لیں تو ان اکثر بحثوں کی ضرورت ہی ان شاء
اللہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس غموض سے نکل آئیے تو تب بحثیں اگر ہوں گی تو ان مباحث میں
جو فی الحقیقت متنازعہ ہیں مانند وحدۃ الوجود اور حلول و فنا یا کچھ محدَث ریاضتیں
وغیرہ۔ ابھی تو البتہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے: ایک حق بات کے ساتھ ہی بہت
سا باطل بھی چلا آ رہا ہے اور ایک باطل بات کے ساتھ ہی بہت سا حق بھی رد ہوتا نظر
آ رہا ہے۔ اور یہ ہے اصطلاح کا ابہام۔ اس سے نکل کر ہی آپ کچھ پختہ بحثوں کی طرف
بڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی ضرورت ہو۔ ورنہ ان شاء اللہ سرے سے یہ بحث ختم ہو جاتی
ہے۔
تاہم اگر آپ کو اس لفظ پر ہی اصرار ہے، جبکہ اس کا غموض اپنی جگہ ہے،
تو پھر میرا خیال ہے ہر دو امر کی گنجائش ہونی چاہئے۔ اس کی مذمت بھی چلتی رہنی
چاہئے اور ستائش بھی۔ مذمت کرنے والے کی مذمت اپنے محل پر ’باور‘ کر لی جانی چاہئے
اور ستائش کرنے والے کی ستائش اپنے محل پر۔ اپنی جگہ نہ وہ غلط ہو گا اور نہ وہ۔
ہر دو کے ساتھ حسنِ ظن قائم رہنا چاہئے اور اُس کی بات کو ’’اعلیٰ ترین امکان‘‘ پر
ہی محمول کروانے کی وہ مشکل ریاضت بھی جاری و ساری رہنی چاہئے۔ (ایک متنازعہ اور
غیرضروری لفظ پر اصرار کی مستقل قیمت!)۔ اس باب میں امام شافعی کے بیان کردہ ’’مطلق‘‘
کو ’’مقید‘‘ کیا جا سکتا ہے تو میرے اور آپ کے ’’مطلق‘‘ کو بھی ’’مقید‘‘ کے خانے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ فی الحقیقت مذمت
کا اپنا ایک درست موجب ہے اور ستائش کا اپنا؛ اور اِن ہر دو موجبات میں سے کوئی
ایک بھی آج ناپید نہیں۔ ظاہر ہے یہ عوام کو مسلسل ایک کنفیوژن میں جھونک رکھنے
والی بات ہو گی؛ اور ان شاء اللہ طرفین سے صبر و حوصلہ کی بہترین مشق کروانے کی وہ
مشکل مہم جاری رہے گی! جبکہ آسان تر بات یہ ہے کہ اس غموض سے نکل کر ان تعبیرات کو
استعمال کیا جائے جن میں اختلاف اور بحث کی سرے سے گنجائش نہیں۔ امت کے وقت اور
توانائیوں کی بچت کم از کم ’مینجمنٹ‘ کے باب سے ہی آج درخورِ اعتناء ہو جانی
چاہئے۔
واللہ
الموفِّق۔