حالتِ استضعاف..
اور سرزنش کا خطاب!
تحریر:
حامد کمال الدین
رمضان کی خوش گوار آمد کے ساتھ... سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں آنا شروع ہو چکیں کہ
ابھی مساجد میں ’موسمی عبادت‘ کرنے والوں کا طوفان آیا چاہتا ہے! اسلوب ظاہر ہے
سرزنش آمیز اور حوصلہ شکن.. اور کسی قدر
توہین کا غماز۔ یہ لہجہ داعیوں اور
خطیبوں کی ایک قابل ذکر تعداد کے ہاں دیکھنے میں نہ آیا ہوتا تو اس اکا دکا پوسٹ
کو ہم کسی توجہ کے لائق نہ جانتے۔
بےشک ایک زمانے تک معاشرے میں رائج اسلامی خطاب کے اندر ’’سرزنش‘‘ کا عنصر
موجود رہا ہے، اور اس کی اپنی ضرورت اور افادیت تھی۔ مگر یہ وہ زمانہ تھا جب شریعت
کی رِٹ معاشرے پر پوری طرح قائم تھی، نیز اسوہ اور نمونہ شخصیات بھی کثرت سے
معاشرے میں موجود تھیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک خودکار ادارہ سماج
میں فعال تھا۔ (جبکہ اِدھر ’’معروف سے روکنے اور منکر کا حکم دینے‘‘ کا ایک بھاری
بھرکم انٹیلیکچول، کلچرل اور ابلاغی انتظام فعال صورت میں موجود ہے)۔ محمد قطب نے
لکھا ہے، قرآن پڑھیں تو دورِ نبوت میں منافقین کی ایک ایک خصلت کو بےنقاب کیا گیا
مگر کہیں آپ کو منافقین کے ’نماز چھوڑنے‘ کا ذکر نہیں ملتا؛ زیادہ سے زیادہ کوئی بات
ہے تو وہ نماز کےلیے بوجھل قدموں یا خدا کو بہت کم یاد کرنے کی! یہ دراصل بھلے دور
کے ’’اسلامی معاشرے‘‘ کی ایک تصویر بھی ہے۔ یعنی جس ’’ظاہر‘‘ پر یہاں حکم لگایا
جاتا ہے اس میں ایک خالص منافق شخص کےلیے بھی پانچ وقت خدا کے گھر میں حاضر ہو کر
باجماعت خدا کے آگے سجدہ ریز ہونے سے مفر نہیں؛ صرف ’’دلوں کا معاملہ‘‘ یہاں خدا
کے سپرد ہوتا ہے؛ اور یہ ہے اسلامی معاشرہ۔
البتہ پچھلے دو تین سو سال میں ہم جس انقلابِ زمانہ سے گزرے اس نے صالحین کو
معاشرے کے بالکل نواح میں لے جا پھینکا ہے؛ اور شاید وہاں سے بھی انہیں چلتا کرنے
کی تیاریاں ہیں۔ لیکن داعیوں اور واعظوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھیں تو ابھی تک
خلیل میاں فاختہ اڑانے کے موڈ میں ہیں۔ مسجد میں آ پھنسے نمازیوں کو پون گھنٹے کے
خطبے میں یہ جیسے مرضی لتاڑیں، روندیں، بےعزت کر کے بھیجیں؛ کچھ پروا نہیں کہ ان
کے سامنے یہ جو خدا کے گھر میں آئے بیٹھے لوگ ہیں، اور اصولاً خدا کے مہمان ہیں
خواہ ایک لمحے کےلیے کیوں نہ آئے ہوں، اور یہاں خانۂ خدا کے میزبان کی حیثیت میں
ہی ہمارا ان کو خوش آمدید کہنا بنتا ہے، خاص اِس دور میں یہ رضاکارانہ آئے لوگ
مسجد اور اسلام کے ایجنڈا کے حق میں معاشرے کے اندر کیسی غنیمت ہیں اور لبرلزم کے
ساتھ ہماری اِس جنگ میں ان کی حیثیت کس قدر فیصلہ کن ہے۔
آپ حیران رہ جاتے ہیں مسلم معاشرے کے اِس ’عامی‘ کو جیتنے کی ہم نے تقریباً
کوئی کوشش نہیں کی اور یہ پھر ہمارے پاس ہے۔ اُدھر لبرل دماغوں نے پورے جتن کر لیے
اور یہ پھر ان کے ہاتھ آ کر نہیں دے رہا۔ (ابھی بھی یہاں پردے یا سود یا نفاذ
شریعت وغیرہ پر ہونے والے عوامی سروے خدا کے فضل سے لوگوں کو دنگ کرتے ہیں اور
ناموسِ رسالت کی کوئی ایک پکار یہاں طوفان برپا کر دیتی ہے)۔ اسلامی سیکٹر کو کبھی
اس پوٹینشل کا اندازہ ہو جائے جو ڈھیروں کے حساب سے آج بھی معاشرے کے اندر اِس کو
حاصل ہے، تو یہ مسجدیں اور محرابیں چند سالوں کے اندر یہاں اللہ کے حکم سے پانسے
پلٹ دیں۔
دورِ حاضر کی ایک نہایت نیک و باعمل شخصیت کے بارے میں، کہ جن کے باقی دینی
احوال بہت اعلیٰ اور قابلِ رشک گزرے، مجھے بتایا گیا کہ جب وہ نماز پڑھانے کےلیے
آگے ہوتے تو ’موبائل بند کرنے‘ والی یاددہانی کی طرز پر فرمایا کرتے کہ: بھئی جتنے
آلو ہیں وہ پچھلی صفوں میں چلے جائیں۔ حضرت کی مراد ہوتی تھی ’داڑھی مُنڈے‘۔ اللہ
انہیں معاف فرمائے۔ اِس دور میں یہ عیاشی! یہ اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ
ہم اپنے کچھ جزیروں میں بند آج بھی یہاں ’اپنی حکومت‘ کے مزے لے رہے ہیں خواہ ان
چند لمحوں کےلیے سہی جب لوگ مسجد میں ہمارے ’قابو‘ آئے ہوتے ہیں۔
بھائی یہ لوگ کسی مفاد سے یہاں نہیں آئے۔ ان کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ
مادیت کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ خدا کو پوری طرح بھولے نہیں؛ اور کچھ فکر ان
کو اپنی آخرت کی اور اپنے نبیؐ سے وابستہ رہنے کی ابھی تک ہے؛ اور یہ ایک اتنی بڑی
دولت ہر سال رمضان میں چل کر ہمارے پاس آتی ہے۔ اس سے آگے کی منزلیں ان کو کامیابی
سے طے کروانا اب ان سے زیادہ ہمارا امتحان ہے۔ بس یہ تصور کر لیں کہ اگر رمضان میں
بھی یہ ہمارے پاس نہ آئیں تو کیا ہو؟ تبلیغی جماعت کی طرح (خدا اسے جزائے خیر دے)
ان میں سے ایک ایک کا دروازہ کھٹکھٹانا آسان تو نہیں!
علمائے دعوت اِس وقت کےلیے ’’اسلامی خطاب‘‘ کی جو فریکوئینسی frequency تجویز کرتے ہیں وہ ہے:
o
’’استیعاب‘‘ (زیادہ سے زیادہ عوامی طبقے کو اپنے
دائرے یا دھارے میں لینا)،
o
’’احتضان‘‘ (اپنانا، سینے سے لگانا اور یہ محسوس
کروانا کہ وہ جیسے بھی ہیں ہمارے ہیں؛ لبرلز کے بالکل نہیں)
o
اور ’’تغافُر‘‘ یا ’’تجاھُل‘‘ (وہ جن شرعی برائیوں یا
کمزوریوں میں گرفتار ہیں ان کو یوں محسوس کروانا گویا ہمیں ان کا پتہ ہی نہیں
چلا)۔
آپ ان کو درستیِ احوال کی فکر کروانا چاہتے ہیں، اس کےلیے ان کو ڈانٹ پلانا
ضروری نہیں بلکہ یہ کافی ہے کہ آپ کے اندر ان کو وہ مستیِ احوال نظر آئے اور آخرت
سے وہ وابستگی دکھائی دے، کہ اس ماحول میں کچھ دیر ڈبکیاں لینے سے ان کے دل کی
حالت بدلنے لگے؛ اور تب وہ خدا کا گھر چھوڑ کر جانے کا نام نہ لیں۔
جس قدر یہ بات درست ہے کہ حالات کے بدلنے سے ’’فتویٰ‘‘ کے اندر تبدیلی آ سکتی
ہے، اس سے زیادہ یہ بات درست ہے کہ حالات بدلنے کے ساتھ ’’دعوتی خطاب‘‘ میں تبدیلی
آتی ہے۔ دورِ غلبہ اپنا ایک خطاب رکھے گا اور دورِ اسضعاف اپنا۔ بلکہ ایک ہی دور
میں علاقے علاقے کا فرق سلف کے ملحوظ رہا۔ ابن تیمیہ نے نقل کیا: امام احمد سے
جہمیہ کے بارے میں پوچھا گیا۔ فرمایا: ان کی ذرہ توقیر مت کرو۔ پوچھا: تو خراسان
میں آدمی کیا کرے؟ فرمایا: ہاں خراسان میں ’’مدارات‘‘ (ان کے ساتھ بنا کر رکھنا
اور رجھانے کی کوشش کرنا) کا اسلوب اختیار کرے۔
اس مسئلہ کے بعض جوانب ہم نے اپنے رسالہ ’’شرح تعامل اہل قبلہ‘‘ میں قدرے
تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔