ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حریت رہنماؤں خصوصاً سید علی گیلانی کی جانب سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ پاکستان میں کشمیر کے مسئلہ پر قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کی بجائے کسی اور شخصیت کو دی جائے جو کشمیر کےلیے ایک توانا آواز اٹھا سکے۔
کشمیر ہمارے لیے شاہ رگ تو ہمیشہ سے ہے، اس وقت وہ ہماری ایک دکھتی رگ بھی ہے۔ زندگی موت کا ایک مسئلہ۔ ستر سال سے رِستا چلا آنے والا ایک زخم جو ہماری جان لے رہا ہے۔ ہمارے اپنے حالات اور مجبوریاں فی الوقت جو بھی ہیں، اور جن میں سے اکثر کا تعلق کچھ ایسی غیرذمہ دار لیڈرشپس سے ہے جن کا کل سروکار اقتدار میں باریاں لینا ہے.. جبکہ اقتدار کا کھیل ایک اچھی سطح پر کھیلنے کے قرینوں میں سب سے پہلا قرینہ اس وقت یہ ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر رکھی جائے، اور یہ بس ایک ہی وجہ کافی ہے کہ ’کشمیر‘ ایسے ایک سٹرٹیجک مسئلہ کا گھونٹ بھرا جائے اور ہماری قومی سیاست میں اس کی بازگشت بھی مشکل سے سنائی دے.. پھر بھی اپنے اِن ’حالات‘ کے باوجود کشمیریوں کو یہ نہیں سمجھایا جا سکتا کہ وہ صدیوں ہمارا انتظار کریں البتہ اِسی جوش و جذبے کے ساتھ ہم پاکستانیوں کی محبت میں نعرہ زن رہیں.. اس دوران اپنے نہتے جسموں کو نو لاکھ بھارتی فوج کے آگے مشق ستم بنا رہنے دیں اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی اِس توہین اور عصمت دری پر صبر شکر سے کام لیتے چلے جائیں.. اس لیے کہ ہمیں فی الوقت کسی اور گہماگہمی نے گھیر رکھا ہے اور برس ہا برس تک ایسا ہی رہنے کا امکان بھی ہے! مسئلہ کی اِس غیرمعمولی جہت ہی کے باعث، ہم میں سے بہت سوں کے ہاں حریت رہنماؤں کے لب پر آنے والے اس حرفِ شکایت کو ’شخصیات‘ سے بالاتر ہو کر لیا گیا اور سید علی گیلانی کے اِس اظہارِ پریشانی کو سنجیدگی سے توجہ دینے اور دِلانے کی کوشش کی گئی۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ قومی زندگی کے کچھ مسئلے سیاست سے بالاتر رہیں، اور کم از کم ایسے مسائل ہماری سیاسی یا مذہبی حمایت و مخالفت کا شکار victim نہ ہوں جو ہمارے لیے زندگی موت کا درجہ رکھتے ہیں۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’شخصیات‘ سے وابستہ نزاکتیں ’کشمیر‘ ایسے ایک مسئلہ کو بخش دیں یا اس کی سنگینی کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گی! یہاں بھی اس کا اثر فوری سامنے آیا اور ایک قیل و قال کا سلسلہ چند لمحوں کے اندر چل نکلا جو صورتیں بدل بدل کر ابھی تک جاری ہے۔ ’کشمیر کاز‘ تو ایک بار پھر پیچھے رہ گیا البتہ ’حمایت‘ اور ’مخالفت‘ جوش میں آ گئی یہاں تک کہ ’تقسیمِ ہند‘ کی یادوں تک جا پہنچی! فارغ ذہنوں کو ایسی ہی سرگرمیاں چاہئیں! زندہ اور کامیاب قومیں ظاہر ہے ان رویوں کے متحمل نہیں ہو سکتیں۔ انہیں لازماً اپنے ان غیر ذمہ دار طبقوں کو بےاثر کروانا ہوتا ہے جنہیں اپنے سیاسی یا مذہبی حساب برابر کرنا قومی اجتماعی مفاد پر مقدم دکھائی دیتا ہو۔ یہاں ضروری معلوم ہوا کہ تحریکی عمل میں پائے جانے والے رویوں کو ٹھیک کرنے کےلیے کچھ آواز اٹھائی جائے اور اس سلسلہ میں چند ضوابط کی جانب دین پسند اذہان کی توجہ لی جائے۔
حریت راہنماؤں کے اس مطالبے کے نتیجے میں ہمارے یہاں اٹھنے والے اختلافِ آراء نے چونکہ ایک شخصیت کو موضوع بنا رکھا ہے اور ہمیں بھی اسی حوالے سے کچھ اصولی امور کی نشاندہی کرنی ہے، اس لیے چند وضاحتیں ہم اس سلسلہ میں ابتداء کے اندر کر دیتے ہیں:
کچھ شک نہیں کہ ایک طبقہ یہاں ایسا ہے جو سیاست کے میدان میں کسی بھی مذہبی شخصیت کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن ایسے چہرے ایوانہائے سیاست میں ان کےلیے شدید تکلیف کا باعث ہیں۔ دین کے ساتھ ان کا بغض اس قدر عیاں ہے کہ یہ کسی بھی مذہبی طبقے کو بخش دینے پر آمادہ نہیں اور بلا تفریق ہر کسی کے منہ آتے ہیں۔ دینی پس منظر سے آنے والے ہر طبقے کو یہ یہاں کی قومی زندگی سے باہر کرنے کے متمنی ہیں۔ کسی بھی دینی گروہ یا شخصیت کو گرانے کا یہ جب موقع پائیں گے اسے بدرجۂ اتم استعمال کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا ہر بار اتنی ساری ساری سیٹیں لےکر پارلیمنٹ میں آ پہنچنا ان کےلیے دردِ سر ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسے کسی موقع کو اپنے اس خبثِ باطن کی تسکین کےلیے استعمال کرنے سے کیسے رہ سکتے ہیں؟ پس مسئلے کی یہ نزاکت بھی ہماری نظر سے اوجھل ہرگز نہ ہونی چاہئے۔ بلاشبہ یہ امکان ہے کہ ’مولانا فضل الرحمن‘ کو موضوع بنانے والے کئی ایک لوگ دراصل دین کے ساتھ اپنا بغض نکال رہے ہوں۔ خاص اِس پہلو سے ’مولانا فضل الرحمن‘ پر ہونے والا ہر حملہ دراصل دین پر حملہ ہے اور دین پر حملے بلاشبہ یہاں پر ہو رہے ہیں، جن کو ناکام بنانا ہمارا فرض ہے کجا یہ کہ اپنی سادہ لوحی کے باعث ہم ایسے کسی حملے کا حصہ بنیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے اسی قدر واضح رہنا چاہئے۔ اپنے ابلاغی اور سیاسی خطاب کو ہمیں مسئلہ کی اِس جہت سے واقف ہونے کا آئینہ دار رکھنا ہو گا۔ یہ مسئلہ اِسی قدر صراحت کا ہے۔ دینی ایجنڈا کو اِس ملک میں کچھ نہایت خرانٹ اور بےرحم دشمنوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے اور یہ اپنی پشت پر تہ در تہ بہت سے عالمی عوامل رکھتے ہیں۔ اس وقت کی ابلاغی دنیا میں بطورِ خاص ان کا ایک اچھا ہاتھ پڑا ہوا ہے جس سے وہ ہمارے سیاسی اور سماجی عمل پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس طبقہ کے مقابلے پر فرض بنتا ہے کہ ہم تمام اہل دین ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار ہوں۔ (الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ کے مقابلے پر وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ) بصورتِ دیگر وہ ’چار بیلوں‘ والی کہانی ہم پر منطبق ہوئے بغیر نہ رہے گی۔
علاوہ ازیں، یہ نظرانداز نہ کرنا چاہئے کہ بہت سے عالمی اور علاقائی عوامل ہماری تاریخی باقیات کے جس حصہ کو مٹانے پر اِس وقت اپنا پورا زور صرف کر چکے ہیں اس کا نام ’دینی مدارس‘ ہے۔ سیاسی حوالے سے، اپنی اِس چیز کو بچانے کےلیے اِس وقت جو شخصیت سب سے زیادہ متعلقہ اور مؤثر ہو سکتی ہے، اور خاصی حد تک ہے، وہ مولانا فضل الرحمن ہیں، خواہ کوئی اس بات کو پسند کرے یا ناپسند۔ سیاست میں یہ شخصیت بھی اگر خدانخواستہ ہمارے پاس نہیں رہتی تو سیاسی فیصلوں کی سطح پر، اور این جی اوز کو ٹھیکے پر اٹھا دیے گئے نظامِ تعلیم میں آئے روز ہونے والی ’اصلاحات‘ کے اندر اس مسئلہ کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا۔ (گو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ تعلیم میں اسلامی ایجنڈا کے تحفظ کے حوالے سے جو لیا جا سکتا ہے مولانا فضل الرحمن وہ سب لے رہے ہیں یا حتیٰ کہ اس کا عشرِ عشیر بھی لے رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو کھو دینے کی صورت میں اِس فرنٹ پر ہماری پسپائی کچھ اور بڑھ سکتی ہے کیونکہ اسلامی ایجنڈا کےلیے ہمیں کچھ لے کر دینے والی شخصیات ہمارے یہاں اس وقت تقریباً مفقود ہیں)۔ بےبسی کی یہ حالت اگر آپ پر واضح ہے تو دینی مدارس کا جیسا کیسا بچا رہنا اس وقت غنیمت ہے۔ شاید ہم میں سے بہت سوں کو اندازہ نہیں کہ ہماری اِس چیز (دینی مدارس) کا آج اگر گھونٹ بھرا جاتا ہے (اور بہت حد تک تو بھرا جا چکا ہے، جس کی وضاحت کا یہ محل نہیں) تو یہ دینی سیکٹر کا کیسا تاریخی سقوط ہے، خدانخواستہ۔ سیاسی منظرنامے پر پچھلے سات عشروں میں دین پسندوں کی پسپائی کے جو بھی اسباب اور محرکات رہے ہوں، آج بہرحال ہم اس حد کو چھو رہے ہیں کہ نیا کچھ ہاتھ آنا خاصا بعید ہے بس جو ہاتھ میں ہے اس کا بچ جانا غنیمت ہے، لہٰذا اس کی بابت ہمیں تفریط نہ کرنی چاہئے۔ اپنی اِس حالیہ پوزیشن کا ادراک نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنا کچھ مزید نقصان کر سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جہاں کوئی ایسی سٹرٹیجی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک بڑی سطح پر اس پورے معاملے کو ہمیں ایک بہتر پوزیشن کی طرف لے جائے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے اِس وقت کے دستیاب امکانات کی قدر اور ان کے بچاؤ کی فکر کریں۔
یہ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو رہا۔
پیچھے مذکور دونوں باتوں کی بنیاد پر البتہ ایسے رویے ہمیں بہرحال اختیار نہیں کرنے کہ مذہبی شخصیات کے لحاظ میں ہم اپنی قومی زندگی کے اندر ’’میرٹ‘‘ نامی چیز کو معطل ٹھہرا دیں۔ جب کوئی مذہبی شخصیت سیاست کے میدان میں اترتی ہے تو اس پر ہونے والی تنقید کو ہمیشہ اس کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ یہ ایک ’مذہبی شخصیت‘ پر تنقید ہو رہی ہے۔ اس امکان کو بہرحال ماننا چاہئے کہ وہ تنقید کسی میرٹ پر ہو۔ سیاست میں ایک غلطی یا نااہلی کا کام ایک مذہبی شخصیت سے بھی سرزد ہو سکتا ہے اور ایک غیرمذہبی شخصیت سے بھی، جس کو دیکھتے وقت ’مذہبی‘ اور ’غیرمذہبی‘ کی بحث نہیں اٹھائی جا سکتی۔ بڑی صدیوں تک ہمارے یہاں سیاست کرنے والے داڑھیوں اور عماموں والے ہی رہے ہیں۔ ہم ان کی غلطیوں اور زیادتیوں کو بھی ایک معروضی انداز میں زیربحث لاتے ہیں اور ان کے اچھے کارناموں کو بھی۔ ’داڑھی‘ یا ’دین سے وابستگی‘ ان ٹیکنیکل امور میں سراسر غیر متعلقہ ہو جاتی ہے۔ قومی زندگی میں حصہ لینے والی شخصیات کو زیربحث لانے کی ایک جہت یہ بھی ہے ضرور۔ یہاں ’مذہب‘ اور ’دھاڑی‘ کو بیچ میں لے آنا قومی زندگی میں نہ صرف ہمارا تاثر خراب کرنے اور لوگوں کو ہم سے متنفر کرنے کا موجب ہو گا بلکہ خود ہمیں اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا سدِّ باب کرنے کی بجائے ان پر پردہ ڈالنے، ان کے حقیقی اسباب سے غافل ہونے اور خود ان غلطیوں سے پیش آنے والے نقصانات کو ’دشمن کی دشمنی‘ کے کھاتے میں ڈال آنے اور یوں اپنا اور سے اور نقصان کرواتے چلے جانے کا عادی بنا دے گا۔ پس دین دشمنوں کے زہرناک ابلاغی ہتھکنڈوں کو موجود ماننے کے باوجود، اپنی غلطیوں اور کارناموں کا جائزہ لینے کا یہ معروضی انداز ہمیں اپنے حق میں معطل ہرگز نہیں کرنا۔ ورنہ یہ چیز ہمیں زندگی کی دوڑ میں ناکام کر وا دینے کا یقینی سبب ہو گی۔ ضروری یہ ہے کہ وہ پہلو بھی ہماری نظر سے اوجھل نہ ہوں اور یہ پہلو بھی روپوش نہ ہوں: لادینوں کے مقابلے پر ہم دیندار ایک دوسرے کے دوست اور مددگار بھی رہیں البتہ اپنے آپ پر تنقید میں معروضی اور بےلاگ بھی رہیں۔ یہ توازن سامنے لانا ہی آج ہماری ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ کسی خاص نوعیت کی غلطی یا کوتاہی کے سامنے آنے پر ہم پبلک میں بھی اپنی یا اپنے کسی آدمی کی غلطی تسلیم کرنے والے بنیں۔ کیونکہ عدل اور قسط پر قائم رہ کر دکھانا خواہ اس کی زد ہمارے اپنے آپ یا ہمارے قریبیوں یا ہمارے والدین پر کیوں نہ پڑتی ہو، ہمارے اپنے دین کی تعلیم ہے۔ اور یہی ہمارے دین کا حسن ہے جس کے دم سے دنیا ہم پر فریفتہ ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے حق میں کوئی موجبِ کمزوری week point نہیں بلکہ ان شاءاللہ یہ ہماری قوت strength ہو گی، اگر ہم اس پر اچھے درجے کے عمل پیرا بن کر دکھائیں۔ہم دینداروں کو لازماً اس سطح پر آنا ہے جہاں لوگ جانیں کہ یہ وہ واحد طبقہ ہے جو حقائق کو پوری دیانت کے ساتھ دیکھنے اور دکھانے پر یقین رکھتا ہے۔ سورۃالمطففین پڑھنے والا یہ وہ واحد گروہ ہے جس کے ہاں لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے نہیں۔ نیز یہ وہ واحد طبقہ ہے جو ملک، قوم یا امت کو لاحق کسی نقصان یا اس کو مطلوب کسی مفاد کے معاملے میں آخری حد تک بےلاگ ہو جاتا اور اس مقام پر اپنے پرائے کا فرق ختم کر ڈالتا ہے، لہٰذا ایسے ہی کھرے اور مخلص طبقے کے ہاتھ میں قوم کی زمام کار آئے تو اس کے بحرانوں کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ یوں ایک وقتی بدمزگی کو قبول کر لینے کی صورت میں ہم ایک دُوررَس پیشرفت کے اہل ہو جاتے ہیں۔
مسئلۂ زیر نظر میں ’میرٹ‘ اور ’معروضیت‘ کا یہ پہلو اس لیے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ ایک تنقید یا ایک اظہارِ عدم اطمینان یہاں ہمارے کشمیری حریت رہنماؤں کی جانب سے آیا ہے جو کوئی دین مخالف لابی نہیں ہے۔ بےشک یہاں بھی اس بات سے ہوشیار رہنا ضروری ہو کہ دین مخالف لابی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، یا کوئی ایسا موقع نہ پائے کہ وہ دینی طبقوں کے مابین نفرتوں کو ہوا دے، کیونکہ احادیث سے ثابت ہے شیطان کا سب سے کاری وار وہ ہے جو مسلمانوں کی وحدت پر پڑے، اور ایسے ہی مواقع کی وہ ہمیشہ تاک میں بھی رہتا ہے اور اس کی صورتیں پیدا کرنے میں بھی وہ غیرمعمولی حد تک ’تخلیقی‘ ثابت ہوا ہے... تاہم یہ مسئلہ فی نفسہٖ کسی ’دین دوستی‘ یا ’دین دشمنی‘ کے تناظر میں دیکھنے کا نہیں۔ حریت رہنماؤں کا ہم سے گلہ کرنا ایک ایسی اپنائیت کا ثبوت ہے جو قدر کی نگاہ سے دیکھی جانی چاہئے۔ اس کو ایسی بحثوں میں الجھانا جن سے حریت رہنماؤں کا یہ مطالبہ صاف نظرانداز اور طاقِ نسیاں کی نذر ہو، ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہو گا۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے یہ کشمیری بھائی ہم سے گلے اور تقاضے کرنا بھی چھوڑ دیں؟ ایسے سرد رویوں کا بالآخر یہ نتیجہ ہو سکتا ہے، کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہے؟ اگر بالفرض ان کا یہ مطالبہ (ہماری نظر میں) غیرحقیقی یا ناقابل عمل بھی ہے، تو بھی ان کو اس پر مطمئن کرنے اور اپنے نقطۂ نظر کا قائل کرنے کےلیے قومی سطح پر ہماری جانب سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ یا اس سب کی حیثیت ہمارے نزدیک بس اتنی ہی ہے جیسے کوئی گلی میں بول کر چلا گیا ہو؟ کاش ایسا ہوتا کہ صرف کشمیریوں کو ہماری ضرورت ہوتی اور ہم خالص اسلامی اور انسانی جذبے سے ان کی مدد کر رہے ہوتے۔ لیکن معاملے کی اصل تشویش ناک تصویر آپ جانتے ہیں کچھ اور ہے: کشمیریوں کو ہماری جس قدر ضرورت ہے اس سے کہیں بڑھ کر آج ہمیں کشمیریوں کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ہماری ’شاہ رگ‘ کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور وہ ’اور‘ ایک بےرحم دشمن ہے۔ پس وہ شاندار بےلوث اسلامی روایات تو ہماری تاریخ میں ایک بہت برگزیدہ چیز ہیں، ’خودغرضی‘ بھی اگر کوئی چیز ہے تو اس کا تقاضا آج یہ تھا کہ ہر حال میں کشمیریوں کا دل جیتا جائے، جس کا تقریباً ہمارے ہاں کوئی اہتمام نہیں۔ یہ ’قومی خود غرضی‘ ہم اسلامی روایات پر یقین رکھنے والوں کےلیے کوئی سراہنے کی چیز نہیں، لیکن ہماری سیاست میں کاش اس کے ہی کچھ آثار دکھائی دے جاتے۔ مگر افسوس یہ بھی نہیں۔ اس آشوب کو تو نام ہی کچھ اور دینا چاہئے۔
حریت راہنماؤں کے مطالبے کا نفسِ مضمون یہاں ہمارا موضوع نہیں۔ ایسے مسائل کو قومی زندگی میں ہمیں کیونکر لینا چاہئے، ہماری گفتگو یہاں صرف اس حوالے سے تھی تاکہ افراط اور تفریط کے کچھ ناگفتہ بہ رویوں سے ہمیں اپنی قومی زندگی کے اندر چھٹکارا ملے: ہمیں ایسے معاملات کی نزاکتوں کا بھی اندازہ رہے جبکہ معروضیت کا دامن بھی ہمارے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے، خصوصاً کشمیر ایسے کچھ سنگین قومی مضمرات کے حامل مسائل کے اندر۔ تاہم چند امور کی جانب سرسری اشارہ کر دینا اس ضمن میں مناسب معلوم ہوتا ہے:
1۔ وہ پاکستانی شخصیات جنہوں نے کشمیریوں کے کاز کو مضبوط کرنے کےلیے دن رات ایک کر رکھا ہوا ہے، کشمیریوں سے ہرگز مخفی نہیں۔ اور نہ رہ سکتی ہیں۔ کشمیریوں کے جلسوں اور مظاہروں کے وڈیو کلپ جو گاہےگاہے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں، یا اس بابت جو رپورٹنگ ہوتی ہے، ان میں وہ اپنے ان پاکستانی محسنوں کا نام لےلے کر ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ گویا ان کا وِرد کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ پاکستانی شخصیات جو کشمیریوں کے نعروں کی زینت بنتی ہیں، محض ایک نجی حیثیت میں کشمیریوں کےلیے یہ سب حمایت اٹھانے کے جتن کر رہی ہیں، انہیں اس سلسلہ میں کوئی سرکاری پوزیشن حاصل نہیں۔ پھر بھی کشمیری صبح شام ان کا ذکر کرتے اور ان کا احسانمند رہتے ہیں۔ صرف ان کے کشمیری دوست ان کا ذکر خیر نہیں کرتے بلکہ بھارتی میڈیا ان کو تیروں کی بوچھاڑ پر رکھے ہوئے ہے، حالانکہ مسئلہ کسی ذاتی رنجش کا نہیں، صرف کشمیریوں کے حق میں ایک زوردار آواز اٹھوانے کی پاداش میں۔ اب اگر کوئی شخص پاکستان میں رسمی اور سرکاری طور پر اس بات کا امین ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ کشمیر کاز کےلیے قومی اور عالمی سطح پر توجہ لینے اور بھارتی مظالم کو نمایاں کرنے کا روحِ رواں ہو، وہ اپنی یہ ذمہ داری اگر مطلوبہ سطح پر نبھا رہا ہے، اور کشمیریوں کی خاطر لوگوں سے بری بھلی سن رہا اور کشمیریوں پر ظلم ڈھانے والوں کے میڈیا کا معتوب ہے، تو وہ شخص تو بالاولیٰ کشمیریوں پر اوجھل نہیں رہ سکتا، جس کا مظاہرہ کشمیریوں کے جذبات میں اور ان نعروں کے اندر آپ خودبخود دیکھتے۔ حریت راہنماؤں نے یہاں کے ایک ادارے کی ناقص کارکردگی پر اپنے پاکستانی بھائیوں کی براہِ راست توجہ چاہی ہے تو میرے خیال میں یہ ایک معلوم حقیقت کا اظہار ہے اور رہنما ہونے کے ناطے یہ ان کی ذمہ داری بھی تھی (شاید کچھ نزاکتیں انہیں یہ بات منہ پر لانے میں اب تک رکاوٹ رہی ہوں)۔ تعجب ہونا چاہئے ہمارے ان طبقوں پر جو اس معلوم حقیقت سے ناآگاہ ہیں! کچھ باتیں اظہر من الشمس ہوتی ہیں، یعنی ان پر بحث تک کرنا فضول ہے۔ کاش سوال یہ ہوتا کہ کشمیر کمیٹی کی کوششیں کس قدر رنگ لائی ہیں اور کون کون قوتیں مقامی یا عالمی طور پر اس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہیں۔ روڑے اٹکانے والے تو خودبخود سامنے آتے، بلکہ چھپ ہی نہ پاتے اور بول بول کر اپنا آپ بتاتے، اگر یہ کوششیں کہیں ہو رہی ہوتیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ کشمیریوں کو ایسی دوڑ دوپ ہی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مسئلہ کشمیر ایسے کسی ملی مفاد کا نہ ہوتا تو ایسی ایک ترش بات کو ہم ہرگز زبان پر نہ لاتے۔ مگر کچھ مقامات یقیناً ایسے ہیں جہاں شخصیات ثانوی درجے پر چلی جاتی ہیں۔
2۔ اعلیٰ کارکردگی میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ لازماً کامیاب ہو۔ بہت امکان یہ تھا کہ کشمیر کمیٹی کوئی بہت اعلیٰ کارکردگی بھی رکھتی تو وہ ان بہت سی دیدہ اور ندیدہ رکاوٹوں کے باعث غیرنتیجہ خیز رہتی جو کچھ مقامی اور عالمی اژدہوں کے باعث کشمیر ایسی ایک مظلوم مسلم قوم کے مسئلے کو پچھلے سات عشروں سے اندھے کنویں میں جھونک کر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہم پر یقیناً واضح ہے۔ تاہم ’اعلیٰ کارکردگی‘ میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ صاحبِ کارکردگی اپنی اس کوشش اور محنت کے مقصد میں اگر کامیاب نہیں ہو رہا تو وہ گیند اپنے کورٹ میں نہ رہنے دے اور بروقت اسے اُس کورٹ میں پھینکے جو اس کو ناکام کروانے اور اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کےلیے فی الحقیقت ذمہ دار ہے۔ وہ قوم کی توجہ ان عناصر کی جانب بروقت مبذول کروائے جو اس معاملہ میں قوم کے مجرم ہیں۔ اس صورت میں، ان مقتدر طبقوں کے ساتھ اس کی اَن بن یقیناً سامنے آتی ہے جو اپنی بےحسی یا مجرمانہ غفلت، یا اپنے مشکوک کردار کے باعث ایک قومی مسئلے کو موت کی نیند سلانے کا سبب بن رہے ہیں، تاکہ ملامت اب اس پر نہ رہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ان عناصر کے مقابلے پر وہ عوامی حمایت کا سہارا لے اور ایک جمہوری ملک کے اندر لوگوں میں اپنا مقدمہ لے کر جائے۔ (میرے نزدیک یہ بات ہرگز غیرمعمولی نہیں کہ ’کشمیر‘ ایسے ایک حساس قومی مسئلہ پر مجرمانہ غفلت سامنے آنے کے نتیجے میں یہاں کسی حکومت کو صاف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں اور الیکشنوں میں ہر بار کشمیر کاز یہاں کا ایک مضبوط ترین کارڈ ہو، یعنی مسئلۂ کشمیر پر حکومتوں کو اس قدر ڈر ہو کہ عوام اس حد تک ان کی خبر لینے تک چلے جائیں گے اور اس معاملہ میں وہ بجلی اور گیس سے بھی بڑھ کر لوگوں کے آگے جوابدہ ہیں۔ ایسا ہونا بالکل حق ہے اور مسئلۂ کشمیر کے شایانِ شان ہے، اگر قومی زندگی میں یہاں کچھ سنجیدہ رویوں کو پروان چڑھایا گیا ہوتا)۔ تاہم اگر ان (رکاوٹ بننے والے) عناصر کے یہاں اچھا بننے کی فکر، ان کو بےنقاب کرنے اور ان کی ناراضی مول لینے کی نسبت آدمی پر حاوی ہو، اور برسوں کے برس اس کو سونپے ہوئے ایک مشن میں کسی قابل ذکر پیش رفت کے بغیر گزر جائیں، تو سوال اور احتساب ہونے پر ملامت کا پہلا حق تب اسی شخص پر ہے جس نے ابلاغی سطح پر گیند کسی اور کی کورٹ میں پھینکنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ مختصراً یہ کہ یا آپ آگے بڑھیں، یا اس شخص کو قوم کے سامنے لائیں (اور اس کی ناراضی مول لینے کی زحمت بھی گوارا کریں) جو ایک نیک مقصد میں آپ کا راستہ روک کر کھڑا ہے۔ اور یہ کام بروقت کریں، نہ کہ اس وقت جب آپ کی کارکردگی پر لوگ سوال ہی اٹھا دیں اور تب جا کر آپ اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے لگیں۔ گویا لوگ سوال نہ اٹھاتے تو یہ معاملہ کوئی دن اور چلتا! (بلکہ – اغلباً – چلے گا، اور لوگوں کے سوال اٹھانے کے باوجود چلے گا)۔ اس سلسلہ میں آخری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ ایسی معتبر مصلحتیں ہوں جن کے تحت آپ اپنے راستے کی رکاوٹ بننے والے عناصر کو قوم کے سامنے لانے تک کی پوزیشن میں نہ ہوں۔ قومی زندگی میں بڑے بڑے صبر کے گھونٹ پینا پڑتے ہیں۔ یہ درست ہے۔ تاہم جہاں ایسا ہو کہ آپ کی کارکردگی کا راستہ بھی بند کر رکھا گیا ہے، اور اس بات کے ذمہ دار عناصر کو عوام کی عدالت میں لانا بھی آپ کےلیے بوجوہ ناممکن یا خلافِ مصلحت ہے، تو یہاں ایک معطل پرزہ ہونے اور قوم کے سامنے اس ناکامی کا باقاعدہ عنوان اور ذمہ دار بنا رہنے پر، اس سے اپنے آپ کو سبکدوش کر لینے کو ترجیح دے دی جاتی ہے۔ ایسا بھی بہرحال نہیں ہوا۔
3۔ ہمیں اس بات کی صحت سے انکار نہیں کہ سیاست میں کسی ایک شخصیت یا جماعت کی بنیادی ترجیح ’’دینی مدارس‘‘ کے تحفظ ایسے ایک مخصوص ایجنڈا کے گرد گھومتی ہو۔ اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ اسلامی اہداف کے سلسلہ میں کوئی دینی جماعت ایک جزوی ایجنڈا کے ساتھ سیاست میں اترے، اپنی مساعی کو اسی ایک نقطے پر مرکوز رکھے اور دین یا ملت کے دیگر قضایا کو دوسروں کےلیے، یا اپنے کسی آئندہ مرحلے کےلیے چھوڑ دے۔ اسی کےلیے لابنگ کرے اور اسی کےلیے سب ممکنہ مہروں کو حرکت دے۔ اصولاً یہ ایک درست بات ہے۔ تاہم اگر ایسا ہو تو اسے تو بالاَولیٰ چاہئے کہ وہ اپنے اس بنیادی قضیے کو کسی دیگر قضیے کے ساتھ خلط نہ ہونے دے، خصوصاً جہاں اس کے بنیادی قضیے کا اس دوسرے قضیے کے ساتھ تعارض آنے لگے۔ یعنی جب آپ پر ظاہر ہو کہ کچھ مخصوص عالمی و مقامی حقیقتوں کے زیرِاثر میاں صاحب یہاں لبرلزم کی بلائیں لینے اور لبرل لابی کی حمایت پانے پر ’مجبور‘ ہیں اور صرف ایک نفاذِ شریعت نہیں بلکہ مسئلۂ کشمیر کو بھی جابجا ان لبرل ’مجبوریوں‘ کی نذر ہو کر رہنا ہے، جبکہ آپ میاں صاحب سے دینی مدارس کے حق میں کچھ لے رکھنے کو ہی اپنی مرکزی ترجیح دیکھتے ہیں، تو یہاں ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کشمیر ایسے کسی مسئلہ کو ہاتھ ڈالنے سے ہی معذرت کر لیں جس میں کوئی سنجیدہ پیش رفت سامنے لانے کےلیے آپ کو میاں صاحب کی بھارت نواز پالیسیوں سے قدم قدم پر ٹکرانا اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو لازماً خراب کر لینا پڑے گا بصورتِ دیگر کشمیر کا مسئلہ دھرا کا دھرا رہے گا۔ اس صورت میں یہ کہیں مناسب تر ہے کہ آپ اپنی جدوجہد کو دینی مدارس کے تحفظ تک محدود رکھیں یہاں تک کہ میاں صاحب کی لبرل پالیسیوں یا ان کے بھارت نواز اقدامات پر خاموش بھی رہنا پڑے تو دینی مدارس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عذر میں یہ کڑوا گھونٹ بھر لیں (اس پر آواز اٹھانے کےلیے کسی دوسری جماعت کے آگے آنے کی تمنا التبہ ضرور کریں، کیونکہ آپ کی حتمی وفاداری اللہ اور رسول کے ساتھ ہے)۔ دینی جماعتوں میں رول تقسیم کرنے کی اس قدر گنجائش تو یقیناً ہے۔ تاہم اس صورت میں آپ ایسے دو مسئلوں کو جمع نہیں کرتے کہ ان میں سے ایک مسئلہ حکومت کے اسلام مخالف اور بھارت نواز کردار پر خاموشی اختیار کرنے کا متقاضی ہے جبکہ ان میں سے دوسرا مسئلہ حکومت کے اسلام مخالف اور بھارت نواز کردار کو عوام میں بےنقاب کرنے اور عوام میں اس کے خلاف مزاحمت اٹھانے کا۔ ایسی صورت میں ان دونوں مسئلوں میں سے ایک کے اندر آپ کا برا پڑنا یقینی ہے۔ عملاً بھی ایسا ہے۔ دینی مدارس کے تحفظ میں آپ کا ایک مستحسن کردار ہر شخص پر واضح ہے۔ البتہ مسئلہ کشمیر میں آپ کی کارکردگی مشکل سے کسی کو سمجھ آتی ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے، اگرچہ آپ ہر دو مسئلہ کےلیے اخلاص رکھتے ہوں: یہاں دو مختلف الجہت مسئلوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ جزوی ایجنڈا کے ساتھ دینی جماعتوں کے سیاست میں اترنے کی بابت اصول یہ ہے کہ ایک جماعت ایک وقت میں دو مخالف جہتوں پر زور نہ لگائے بلکہ اپنی strength کو خاص وہاں پر مرکوز کرے جہاں وہ زیادہ سے زیادہ اعلیٰ کارکردگی دے سکے۔ یہ بات اگر سمجھ لی جائے تو اندریں حالات دینی جماعتیں بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کی مجبوریوں سے دینی و ملی ایجنڈا کے حق میں خاصی بےرحم ہو کر فائدے اٹھا سکتی ہیں، اور اٹھانے چاہئیں کیونکہ ہماری آخری وفاداری اللہ، رسول، قوم اور ملت کے ساتھ ہے۔ اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب جامع ایجنڈا اور جزوی ایجنڈا اپروچ کو باہم خلط کیا جاتا ہے۔ تب دینی جماعتیں نہ اکٹھی ہو کر دین اور ملت کو کچھ لے کر دے سکتی ہیں اور نہ علیحدہ علیحدہ چل کر۔ کام دیتی زیادہ ہیں لیتی کم ہیں۔ جبکہ یہ کوچۂ سیاست بےرحم ہو کر اہداف حاصل کرنے کا تقاضا کرتا ہے، اپنے حق میں نہیں بلکہ اپنے دین اور ملت کے حق میں۔