پچھلے دنوں ہمارے کچھ موقر صحافتی حلقوں میں ترکی کی جانب
سے پاکستان کے داخلی معاملات میں مبینہ مداخلت پر ایک درجہ قومی حمیت دیکھنے میں
آئی، جو اس لحاظ سے باعثِ مسرت تھی کہ قومی خودمختاری ان کی نظر میں ایک اہم مسئلہ
ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ترکی کے مطالبے پر
ملک بدر کیے جانے والے ہمارے پاکستانی نہیں بلکہ ترکی کے اپنے باشندے تھے جو اپنے
ملک میں دہشتگردی ایسے ایک ’کبیرہ گناہ‘ میں ملوث نیٹ ورک کا حصہ تصور ہوتے تھے،
اور قطع نظر اس سے کہ ترکی نے ہمارے دوست امریکہ کے برعکس اپنے ان ترک باشندوں کو
خود اُس کے سپرد کر دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، (جبکہ امریکہ ازراہِ اپنائیت یا
بےتکلفی، اپنے امریکی نہیں بلکہ ہمارے پاکستانی باشندوں کی سپرداری کا مطالبہ فرما
لیا کرتا ہے، جو ہمارے ایک دانشور حلقے کے یہاں امریکہ کی جانب سے ہمیں ’خدمت کا
موقع‘ ملنے کے مترادف ایک چیز یا پھر ’حقِ دوستی‘ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے)
بلکہ ترکی نے اپنا تقاضا صرف اس قدر رکھا کہ اس کے خلاف بغاوت میں ملوث اِن نیٹ
ورکس کو اپنی کسی بھی قسم کی سرگرمی کےلیے سرزمین پاکستان کو استعمال کرنے کی
اجازت نہ دی جائے اور ان نیٹ ورکس سے منسلک ترک باشندوں کو پاکستان میں پناہ نہ ملی
رہے۔ (’’تین دن کے اندر اندر‘‘ ملک چھوڑ دینے کا الٹی میٹم البتہ شاید ترکی کا
مطالبہ نہیں تھا۔ یہ ’تین دن‘ والی کارگزاری ہمارے حکمرانوں کی جانب سے بیرونی
راہنماؤں کے ساتھ ’شخصی تعلقات سازی‘ کی ریت زیادہ دکھائی دیتی ہے، اور بلاشبہ
زیادتی ہے)... قطع نظر ان تمام باتوں کے، ترکی کے ہمارے قومی امور میں اس ’مداخلت‘
پر ہماری رگِ حمیت کا جاگ اٹھنا اپنی ذات میں ایک مستحسن بات تھی۔ یہ ترکی کے
معاملے میں جاگ اٹھتی اور امریکہ کے معاملے میں سوئی رہتی ہے، بلکہ نریندر مودی تک
کی فرمائشوں کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی جانب مائل ہوتی ہے اور وہ بھی ہمارے
اپنے پاکستانی باشندوں کے معاملہ میں، مانند حافظ سعید و مسعود اظہر وغیرہ، تو وہ
ایک الگ معاملہ ہے۔ قومی حمیت فی نفسہٖ ایک لائق ستائش چیز ہے۔
قومی خودمختاری کو ایک اعلیٰ قدر تسلیم کرتے ہوئے، ہمیں
امریکہ سے وابستہ بعض اداروں کی ایک حالیہ فرمائش کو بھی دیکھنا ہے جس کا لب لباب
یہ ہے کہ محمدﷺ پر ایمان کے حق اور سچ ہونے کو ہمارے قومی نصاب شدّومدّ کے ساتھ
پیش نہ کریں۔ گو سفارشات اور بھی ہیں، مگر ہم فی الوقت اپنی گفتگو کو اِسی ایک
نقطے پر مرکوز کریں گے۔ تفصیل کےلیے آپ دی
نیوز کی یہ رپورٹ دیکھ سکتے ہیں۔ رپورٹ کا پہلا ہی پیراگراف ہمیں اپنے عقیدے
کی ایک مرکزی ترین حقیقت سے پسپا یا خاموش ہو جانے کی دعوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی
محمدﷺ کو پورے جہان کےلیے نذیر اور بشیر ماننا۔ کرۂ ارض پر رہنے والے ہر ابن آدم
پر محمدﷺ پر ایمان لانے کو واجب ماننا۔ إنَّ
الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْإسْلَامُ. یہ حقیقت کہ خدا کے ہاں دین صرف اسلام ہے اس کے
علاوہ کوئی طریقۂ عبادت خدا کے ہاں قبول نہیں، ہمارے امریکی دوستوں کی جانب سے
فرمائش ہوئی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ بات سکھانے سے اب دستبردار ہو جائیں۔ یہ ایک
عقیدہ کا مسئلہ تو ہے ہی، دیکھنا یہ ہے کہ
ہمارے دانشور حلقوں کے یہاں اس کو اپنی خودمختاری کا مسئلہ بھی مانا جاتا ہے یا
ایسی کسی مداخلت کو حسبِ معمول کسی حقِ دوستی پر ہی محمول رکھا جاتا ہے؟
جہاں تک اس نئی فرمائش کا تعلق ہے تو وہ ہمارے حق میں صاف
ارتداد کی راہ پر چل اٹھنے کی ایک بنیاد اٹھاتی ہے۔ محمدﷺ کے لائے ہوئے دین کا
واحد دینِ حق ہونا اور اس کے علاوہ روئے زمین پر پائے جانے والے کسی طریقۂ عبادت
کا خدا کے ہاں معتبر valid نہ ہونا مسلمانوں کے ہاں ایک معلوم و متفق علیہ عقیدہ ہے۔ اس
پر کومپرومائز کرنا اپنے دین کی ایک معلوم حقیقت سے دستبردار ہونا ہے۔
جہاں تک رواداری کی بات ہے، اور جوکہ ان بیرونی یا مقامی
این جی اوز کے پریشان ہونے کی یقیناً ایک معقول وجہ ہو سکتی ہے، تو ہمارا دین اللہ
کا شکر ہے رواداری سے لبریز ہے۔ ’’مذہبی آزادی‘‘ ہمارے دین کی ایک معلوم حقیقت ہے۔
روئے زمین پر بسنے والے ہر شخص کو پورا
پورا اختیار ہے کہ وہ دینِ اسلام کو قبول کرے یا کسی دوسرے دین پر برقرار رہے، جس
کا حساب اُسے خدا کے ہاں جا کر دینا ہے ہمیں نہیں۔ دین قبول کروانے کے معاملہ میں
ہرگز کوئی دھونس نہیں۔ لَا إكۡرَاهَ فِي الدِّيۡنِ، قَد تَبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ
الۡغَيِّ. (البقرۃ: 256) ’’دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے،
ہدایت یقیناً ضلالت سے چھانٹ کر الگ رکھ دی گئی ہے‘‘۔ پس صاف طور پر یہ دو الگ الگ
چیزیں ہیں:
1. اسلام کا یہ سٹیٹس کہ
یہ خدا کے ہاں واحد معتبر دین ہے، اور اس کے علاوہ کوئی دین خدا کے ہاں قبول نہیں
(وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ
مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔ آل عمران: 85 ’’اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا اس
سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور اور ایسا شخص آخرت میں گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو گا) اسلام کا یہ
سٹیٹس ماننا اپنی جگہ ایک مسلّمہ ہے۔
2. جبکہ لوگوں کو دین
اسلام کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی پوری آزادی دینا، اور اس معاملہ میں انسانوں کے
ساتھ ہر قسم کے جبر اور شدت کو حرام جاننا، خدا کی یہ امانت (اسلام) اور اس پر
ایمان لانے سے متعلق خدا کا یہ مطالبہ لوگوں کے آگے بلا کم و کاست رکھ دینا، ان کو
اس نقصان سے صاف خبردار کر دینا جو نبی آخر الزمانﷺ پر ایمان نہ لانے کی صورت میں
عند اللہ ان کو پیش آ سکتا ہے، اور پھر ان کا معاملہ خدا پر اور قیامت پر چھوڑ
دینا، اور دین کے معاملے میں ان کے حق آزادی کا پورا تحفظ کرنا، اپنی جگہ ایک
مسلّمہ ہے۔
دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ حق ہیں، ان میں کوئی تعارض نہیں۔
نہ اسلام کو واحد دینِ حق ماننے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول
کروانے کےلیے فوجداری ہو (ایسی شدت پسندی اور عدم رواداری خود اسلام ہی کے منافی
ہے اور اس کے معلوم احکام کی خلاف ورزی)۔ اور نہ رواداری اور عدم شدت پسندی کا یہ
مطلب ہو سکتا ہے کہ اسلام کے اس اسٹیٹس کا انکاری یا اس سے خاموش ہوا جائے کہ اس
پر ایمان لانا روئےزمین کے ہر شخص پر فرض اور اس پر جانتےبوجھتے ہوئے ایمان نہ
لانا عذاب کا موجب ہے۔
پس جہاں تک رواداری اور عدم شدت پسندی ایسے رویّوں کو عام
کرنے کی ضرورت کا تعلق ہے، تو وہ یقیناً برحق ہے۔ ایسی کوئی کاوش یا سفارش ضرور اپنی
ذات میں لائقِ ستائش اور لائقِ تائید ہے۔ اور یہ رواداری مسلمانوں کے یہاں کبھی موضعِ
اختلاف نہیں رہی۔ انسانوں کا یہ حق کہ وہ اپنےاپنے مذہب پر پوری آزادی سے عمل پیرا
رہیں اور ان پر کسی دوسرے مذہب کو جبراً مسلط نہ کیا جائے، اہل اسلام کے ہاں کبھی
متنازعہ نہیں رہا۔ اس کا انکار کوئی ایسا ہی شخص کر سکتا ہے جو اسلامی تعلیمات سے
یکسر نابلد ہے۔ لیکن اس رواداری کی آڑ میں اسلام کے ایک معلوم مسلّمہ کا گھونٹ
بھرنا اور اسلام کے اس اسٹیٹس کو ہی چیلنج کر ڈالنا کہ وہ اپنے ماننے والے کے یہاں
خدا کے ہاں واحد معتبر دین ہو، صاف ہمارے دین میں دخل اندازی ہے۔ ہمارے ’قومی
معاملات‘ میں نہیں بلکہ ہمارے دین کے اندر مداخلت، جوکہ اول الذکر کی نسبت سنگین
تر ہے۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ پھر تو ہر شخص اپنے مذہب کی
بابت ایسا اعتقادر رکھے گا کہ بس وہی سچا ہے... تو ہم کہتے ہیں، ہر شخص کو ایسا اعتقاد رکھنے کا اختیار ہے
اور ہونا چاہئے۔ فیصلے قیامت کو ہونے ہیں اور دنیا کی زندگی زندگی اُسے یہ آزادی
حاصل ہے۔ اسلام کی اپنی تعلیم یہی ہے۔ کوئی شخص اپنے مذہب کو آخری درجے کی سچائی
مانے اور اس سے متعارض ہر بات کو قطعی باطل اور گمرہی گردانے، اس میں تعجب یا قابل
اعتراض بات کیا ہے؟ غلط اور ناقابل قبول بات اگر کوئی ہے تو یہ کہ وہ اپنے مذہب کو
زبردستی دوسروں پر ٹھونسے۔ ’مذہب‘ کو اِس پوزیشن سے بےدخل کرنا دراصل جدید ذہن کی
جانب سے ’مذہب‘ کو اس کی اوقات دکھانے کی ایک پُررعونت کوشش ہے۔ حالانکہ ’نظریات‘
کی دنیا میں عین یہی ذہن لوگوں کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ آدمی جس نظریے کو اختیار
کرتا ہے وہ اسے حق اور اس سے متعارض نظریات کو غلط جانے۔ انسان اس سے کبھی نہیں
نکل سکتا۔ اور تو اور، ریلےٹوازم relativism
کے داعی اپنے اس نظریے کو حق کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس
سے متعارض نظریات کو باطل اور فرسودہ ثابت کرنے میں کوئی کمی نہیں برتتے! پس اپنے
نظریے یا مذہب کو حق اور اس سے متعارض نظریے یا مذہب کو باطل جاننا ایک انسانی
واقعہ ہے اور جب تک یہ کسی دوسرے کے مذہب میں دخل اندازی یا اپنے مذہب و نظریہ کو
جبراً دوسروں پر مسلط کرنے تک نہ جائے (جوکہ یہ لوگ اِس وقت ہمارے ساتھ کر رہے ہیں)
تب تک اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ ان لوگوں کو شکایت ہم مسلمانوں سے شاید یہ ہے
کہ ہماری زندگی کی مرکزی ترین حقیقت اور دنیا میں ہماری سب سے بڑی پہچان ہی ’’اسلام‘‘
ہو، خصوصاً ایک پاکستانی کے حق میں جس کے اپنے ملک کی تفسیر اور تاریخ بھی
’’اسلام‘‘ کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔
ہر شخص اپنے مذہب کو حق جاننے کا مجاز ہونا چاہئے، یہ چیز
اوپر واضح کی جا چکی۔ البتہ دین اسلام کی اصولی پوزیشن اس سلسلہ میں واضح کر دینا
ضروری ہے۔ امریکہ میں لوگوں کو اسلام کا تعارف کروانے کے دوران اس بات کو ہم یوں
بیان کرتے رہے ہیں کہ جس طرح یونائٹڈ سٹیٹس کی اصل اتھارٹی ان کے ہاں ’’امریکی
عوام‘‘ ہیں جو محض اپنی مرضی اور اختیار سے ایک کے بعد ایک صدر کو لاتی چلی جاتی
ہے، جب وہ ایک نئے صدر کو لے آتی ہے تو پرانے پر اصرار کرنا اس اتھارٹی کا انکار
ہے، باوجود اس کے کہ ’سابق‘ کی حیثیت میں ان سبھی کو ماننا ضروری ہے مگر احکامات
لینے میں رجوع صرف ’’اپ ڈیٹ‘‘ صدر اور ’’اپ ڈیٹ‘‘ انیکٹمنٹ update enactment کی جانب ہو گا... اسی طرح اس کائنات اور روئےزمین کی اتھارٹی ہمارے ہاں خدا
ہے جو ایک کے بعد ایک نبی کو لاتا ہے۔ یہاں معاملہ تعصب یا باپ دادا کے مذہب کا
نہیں بلکہ اتھارٹی کے ساتھ چلنے کا ہے۔ اس کے مقرر کیے ہوئے ہر نبی کو ماننا اور
اس لحاظ سے سب کو برابر جاننا کہ وہ اسی اتھارٹی کے چنیدہ اور مقرر کردہ ہیں ایمان
کا حصہ ہے۔ البتہ احکامات لینے کےلیے صرف اس نبی اور اس کتاب کی جانب رجوع ہو گا
جو آپ کے زمانے کےلیے اُس کی جانب سے مقرر ٹھہرائی گئی ہے۔ پس یہ (اسلام) کوئی آبائی مذہب نہیں بلکہ زمین
پر خدائی سلسلۂ ہدایت ہے۔ یہ انسانیت کا ازل سے چلا آتا مذہب ہے۔ ایک تسلسل اور
اکائی ہے۔ ایک اصولی مذہب ہے: خدا کی اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور اُس کے
سب رسولوں، اُس کی سب کتابوں اور اُس کے سب احکام کو تسلیم کرتے چلے جانا، اور کسی
ایک کا بھی انکاری ہونے کا روادار نہ ہونا۔ یہ وہ دین ہے جس میں صرف ایک محمدﷺ کا نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام
کا انکار کرنا بھی ویسا ہی کفر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنا بھی۔ اور ابراہیم
علیہ السلام کا انکار کرنا بھی۔ یہی حیثیت اِس دین میں تمام پیغمبروں کی ہے۔ ان
میں تفریق کرنے سے ہمیں جابجا ممانعت ہوئی ہے۔ محمدﷺ کی اس بابت کوئی خصوصیت ہے تو
وہ یہ کہ آپﷺ وقت کے رسول ہیں، یعنی عین وہ حیثیت جو ابراہیمؑ کے بعد موسیٰؑ کی
تھی اور جو موسیٰؑ کے بعد عیسیٰؑ کی رہی۔ البتہ سلسلہ series یہ
تاریخی ہے اور زمین پر انسانی وجود کے روزِ اول سے چلا آتا ہے۔ اس کا تعلق کسی گروہ سے نہیں بلکہ انسانوں کےلیے
خدا کی پسندیدہ اس روش سے ہے جو زمین پر ایک تسلسل کے ساتھ پائی گئی ہے اور جس کو
ٹھکرانے پر عذابات آنے کا ذکر یہاں کے سب معروف آسمانی صحیفوں میں آج بھی موجود ہے۔
تورات میں موسیٰؑ نے جس اتھارٹی اور جس زور کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا اور خود پر
ایمان لانے کا باقاعدہ ایک تقاضا رکھا، انجیل Gospel میں
عیسیٰؑ نے جس اتھارٹی اور جس زور کے ساتھ اپنے
آپ کو پیش کیا اور اپنے اوپر ایمان لانے کا باقاعدہ ایک تقاضا رکھا، محمدﷺ کا
تقاضا عین اُسی آسمانی سلسلہ کی آخری کڑی ہے۔ اس کو ماننے یا نہ ماننے کی آپ کو
پھر بھی پوری آزادی ہے، لیکن اس کا یہ سٹیٹس ختم کرانے کا حق آپ کو نہیں ہے کہ یہ
خدا کا حتمی مطالبہ ہو۔ یعنی جس حیثیت میں
موسیٰؑ نے اپنے آپ کو اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کیا، یا جس حیثیت میں عیسیٰؐ نے
اپنے آپ کو اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کیا، یا جس حیثیت میں محمدﷺ نے اپنے آپ کو
اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کیا، اور جوکہ صاف ایمان کا مطالبہ تھا اور ایمان نہ
لانے کی صورت میں خدا کے عذاب سے صاف ڈرا دینا تھا، آج آپ موسیٰؐ یا عیسیٰؑ یا
محمدﷺ پر یہ پابندی لگائیں کہ وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں پیش ہی کرنے کے مجاز نہ
ہوں؟! (ایمان کا) یہ مطالبہ آپ کے سامنے
رکھا ضرور جائے گا، ہاں اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کی آپ کو آزادی ہے۔ یہ ہے
رواداری کا صحیح تصور جو ہمیں اسلام نے دیا ہے۔ نہ آج کے شدت پسندوں کی فرمائش پر
ہم اس کو سکیڑ سکتے ہیں اور نہ آج کے جدت پسندوں کی فرمائش پر ہم اس کو پھیلا سکتے
ہیں۔ ہم اپنے دین کو کس حیثیت میں پیش کریں، آپ ہمیں یہ سبق نہیں دے سکتے، یہ سبق
ہم اپنے دین ہی سے لیں گے۔ خدا کے پیغمبروں کو کس حیثیت میں انسانوں کے سامنے پیش
کیا جائے اور ان کا انکاری ہونے کو انسانوں کے حق میں کس قدر سنگین مانا جائے، نیز
خدا کے سوا کسی معبود کو پوجنے پر کیا وعید رکھی جائے، یہ جاننے کےلیے ہمارے پاس
خدا کی کتاب موجود ہے۔ یہاں تک کہ ان
معاملات میں تمہاری اھواء کو درخورِ اعتناء جاننے پر سخت ترین وعیدیں بھی ہماری
کتاب میں جابجا درج ہیں۔ ایسی فرمائشیں اِس دین سے ہمیشہ ہوتی آئی ہیں اور ان سے
پیش آنے کی بابت ہمیں واضح ہدایات دے رکھی گئی ہیں:
قُلْ
إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ
أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ
اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: 120) (ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔
اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحیِ خدا) کے آ جانے پر بھی ان کی
خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ
کوئی مددگار۔ (ترجمہ جالندھری)
*****
ہمارے چارہ گروں کو آج اس بات کا ادراک کرنا ہے کہ ویسٹ کی
فرمائشیں ہم سے اب شریعت نہیں بلکہ عقیدہ ہی سے پسپا ہوجانے کی خاطر ہونے لگی ہیں۔
بہت عرصہ ہوا مسئلہ ’نظام‘ سے گزر چکا۔ اب یہ ’’معاشرے‘‘ تک جا پہنچا۔ اسلام کی
جڑیں اب ’’معاشرے‘‘ سے ختم کی جا رہی ہیں۔ لادینیت کا سفر اب اس مرحلہ میں داخل ہو
چکا۔ چارہ گروں کو اسے ایک شدید ہنگامی حالت کے طور پر لینا ہو گا اور بقائےنفس survival کے
تمام قویٰ کو فوری بیدار کرنا ہو گا۔ ورنہ اس کے بعد تباہی کی اور کوئی سطح نہیں۔
ہم اپنی تحریروں میں ایک عرصہ سے یہی کہہ رہے ہیں کہ اب جنگ ہمیں ’نظام‘ نہیں بلکہ
’’عقیدے‘‘ اور ’’معاشرے‘‘ کی سطح پر لڑنا ہو گی اور یہاں پر ہی کچھ کامیاب پیش
قدمی کر لینے کے بعد کسی وقت ’نظام‘ کی جانب متوجہ ہونا ہو گا۔ یقین کیجئے، یہ
آخری چیز ہے جو ہم سے لی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں۔
پارلیمنٹ میں موجود ہر شخص کو، خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، ایمانی
حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر ایک شدیدترین مزاحمت پر مبنی لہجہ سامنے لانے میں
اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک واضح بیانیہ آنا چاہئے کہ بیرون سے آنے والی ایسی
فرمائشوں کو ہم اپنے معاملات میں کس درجہ کی مداخلت سمجھتے ہیں اور ہمارے کارپرداز
آج خدانخواستہ اگر ان فرمائشوں کو درخورِ اعتناء جان بیٹھتے ہیں تو یہ دین اور ملت
کے حق میں کیسا جرم ہو گا۔ نیز ان این جی اوز کی طرف بھی کچھ توجہ دینی چاہئے جو ہمارے
دین اور ہمارے معاشرے میں اس درجہ کا تصرف کرنا چاہتی ہیں۔